مشہور روسی افسانہ نگار  انتون چیخوف  کی کہانی سے ماخوذ

گرگٹ


زیر نظر  افسانہ   1884ء میں چیخوف کی روسی کہانی   хамелеон  یعنی گرگٹ  Chameleon سے ماخوذ ہے ،     یہ کہانی ایک عکس ہے جس میں معاشرے کا چہرہ صاف نظر آتا ہے۔  ہمارے ارد گرد ایسے ہزاروں کردار موجود ہیں جو یکدم بدل جاتے ہیں .... کرنے کچھ جا رہے ہوتے ہیں کر کچھ دیتے ہیں....ایسی تیزی سے  پلٹا کھاتے ہے کہ کیا کہنے....  

مشہور روسی افسانہ نگار  انتون چیخوف  کی کہانی سے ماخوذ

ترجمہ میں کہانی کے کرداروں اور جگہوں کے نام تبدیل کردئیے گئے ہیں




داروغہ جی  نیا اوورکوٹ پہنے، ہاتھ  میں ایک بنڈل اُٹھائے  بازار کے چوک سے خراماں خراماں گزررہے  تھے۔ اُن کے پیچھے پیچھے اُن  کا ایک کانسٹبل ہاتھ میں ایک ٹوکری لیے لپکا چلا آ رہا تھا۔ ٹوکری ضبط کیے گئے پھلوں  سے اوپر تک بھری ہوئی تھی۔
  بازار میں  ہر  طرف خاموشی تھی ....  ایک چڑیا بھی نظر  نہیں آرہی تھی.... گھروں  اور دکانوں کے کھلے ہوئے دروازے بھوکے لوگوں کی طرح  سڑک کو اداسی بھری نگاہوں سے تاک رہے تھے، یہاں تک کہ کوئی گاہک تو کیا  ایک  بھکاری بھی آس پاس دکھائی نہیں دیتا تھا۔
‘‘اچھا! تو تُو کاٹے گا؟ شیطان کہیں کا!’’ داروغہ کے کانوں میں اچانک یہ آواز آئی، ‘‘پکڑلو! جانے نہ پائے! پکڑلو.....آہ.... ’’ 
‘‘ ٹیاؤں ....ٹیاؤں  ....’’ایک کتے کی چیخنے کی آواز سنائی دی۔ داروغہ نے آواز کی سمت مڑ کر دیکھا  تو اسے نظر آیا کہ لکڑی کی ٹال میں سے ایک کتا تین ٹانگوں سے بھاگتا ہوا چلا آ رہا ہے۔ 
کلف دار چھپی  ہوئی قمیض اور بغیر بٹن کی واسکٹ پہنے ،  ایک آدمی اسکا پیچھا کر رہا ہے۔  اس کا سارا جسم آگے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ وہ کتے کے پیچھے لپکا اور اسے پکڑنے کی کوشش میں گرتے گرتے بھی کتے کی پچھلی ٹانگ پکڑ لی۔ 
کتا  ایک بار پھر ٹیاؤں ٹیاؤں کرکے چلایااور وہی آواز دوبارہ سنائی دی ‘‘مارو اسے .... جانے نہ پائے! قانون کہتا ہے کہ  کاٹنے والے کتوں کو فوراً ماردینا چاہیے !’’۔  
اونگھتے ہوئے لوگ دکانوں اور گھروں سے باہر گردنیں نکال کر دیکھنے لگے، پھر بچے بوڑھے جوان سب ہی باہر   نکل آئے اور  دیکھتے دیکھتے ایک مجمع  ٹال کے پاس جمع ہو گیا، گویا سب لوگ ابھی زمین پھاڑ کر اندر سے نکل آئے ہوں۔
‘‘جناب! معلوم پڑتا ہے کہ کچھ جھگڑا فساد ہو رہا ہے!’’ کانسٹبل ، داروغہ سے بولا۔
داروغہ بائیں جانب مڑا  اور مجمع  کی طرف چل دیا۔ اس نے دیکھا کہ ٹال کے پھاٹک پر وہی آدمی کھڑا ہے۔ اس کی واسکٹ کے بٹن کھُلے ہوئے تھے۔ وہ اپنا داہنا ہاتھ اوپر اٹھائے، مجمع کو اپنی لہولہان انگلی دکھا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے خمار آلود  چہرے پر صاف لکھا ہوا ہو ‘‘اس بدمعاش کتے کو  میں اس کا مزا چکھا کر رہوں گا ’’ اور اس کی انگلی فتح  کا پرچم نظر آرہی تھی ۔   داروغہ  نے اس شخص کو پہچان لیا۔ یہ سنار  تھا۔  
چھوٹی نسل کا سفید رنگ کا  کتا ، جس کا منہ نکیلا تھا اور پیٹھ پر زرد  داغ تھے،    مجمع کے بیچوں بیچ اگلی ٹانگیں پھیلائے  ملزم بنا   بیٹھا     اوپر سے نیچے تک کانپ رہا تھا۔ اس کی ڈبڈبائی  ہوئی آنکھوں میں بے بسی  اور خوف  کی جھلک تھی اور انداز رحم طلب تھا۔
‘‘یہ کیا ہنگامہ مچا رکھا ہے یہاں؟....’’ داروغہ  نے کندھوں سے مجمع کو چیرتے ہوئے سوال کیا۔ ‘‘یہاں کیا کررہے ہو تم سب لوگ .... اور تم یہ انگلی کیوں اوپر اٹھائے ہو؟ ....کون چلا رہا تھا؟’’
‘‘داروغہ جی ! میں چپ چاپ اپنی راہ چلا جا رہا تھا’’، سُنار نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر، کھانستے ہوئے کہنا شروع کیا، ‘‘بڑھئی سے مجھے لکڑی کے بارے میں کچھ کام تھا۔ یکایک، نہ جانے کیوں، اس بدمعاش نے میری انگلی میں کاٹ لیا’’.... 
‘‘داروغہ جی معاف کیجیے، پر میں ٹھہرا کام کاج والا  آدمی .... اور پھر ہمارا کام بھی بڑا نازک اور پیچیدہ ہے۔ ایک ہفتے تک تو شاید اس انگلی  سے کام تک نہیں لے سکوں گا۔ اس لیے مجھے ہرجانہ دلوا دیجیے۔ اور جناب، قانون میں بھی کہیں نہیں لکھا ہے کہ ہمیں اس طرح خطرناک جانوروں کو بھی چپ چاپ برداشت کرنا ہوگا.... اگر ایسے ہی کاٹنے لگیں، تب تو جینا دوبھر ہو جائے گا۔’’
‘‘ہوں.... اچھا....’’ داروغہ  نے گلا صاف کر کے، بھنویں سکیڑتے ہوئے کہا، ‘‘ٹھیک ہے.... خیر ، یہ کتا ہے کس کا؟ .... میں اس معاملے کو یہیں نہیں چھوڑوں گا! ....جو لوگ ایسے کتوں کو کھلا چھوڑ دیتے  ہیں  میں ان لوگوں کو سبق سکھاؤں گا!....  جو لوگ قاعدے قانون کے مطابق نہیں چلتے، انکے ساتھ اب سختی سے پیش آنا پڑے گا! .... ایسا جرمانہ ٹھوکوں گا کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ بدمعاش کہیں کے! .... میں اچھی طرح سکھا دوں گا کہ کتوں اور ہر طرح کے مویشیوں کو ایسے کھُلا چھوڑ دینے کا کیا مطلب ہے!.... ’’ 
پھر کانسٹبل کو مخاطب کرتے ہوئے  انسپکٹر چلایا،  ‘‘کانسٹبل!....ذرا پتہ لگاؤ کہ یہ کتا ہے کس کا، اور رپورٹ تیار کرو! کتے کو بلاتاخیر  ختم کردیا جائے ! غالباً یہ پاگل ہوگا.... اور محلے والو....!  میں پوچھتا ہوں کیا تم میں سے کسی کو  معلوم نہیں  کہ  یہ کتا  آخر ہے کس کا ؟....’’
‘‘یہ کتا تو صاحب میرے خیال میں  ہمارے  جو نئے منسٹر صاحب  آئے ہیں  اُن کا معلوم ہوتا ہے!’’ مجمع میں سے کسی نے کہا۔
‘‘ منسٹر صاحب کا؟.... ہوں.... کانسٹبل،  ذرا میرا کوٹ تو اتارنا.... اف، بڑی حبس  ہے.... معلوم پڑتا ہے کہ بارش ہو گی.... اچھا تو ، ایک بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ اس نے تمہیں کاٹا کیسے؟’’  داروغہ اب سُنار کی جانب مڑا، 
‘‘یہ تمہاری انگلی تک پہنچا کیسے؟....  یہ ٹھہرا چھوٹا سا اور تم ہو لحیم شحیم۔  ہو نہ ہو تم نے کسی کیل ویل سے انگلی چھیل لی ہو گی اور سوچا ہو گا کہ کتے کے سر منڈ کر ہرجانہ وصول کر لو۔ میں خوب سمجھتا ہوں۔ تمہارے جیسے بدمعاشوں کی تو میں نس نس پہچانتا ہوں!’’
‘‘داروغہ جی !اِس نے یوں ہی مذاق میں  اس کتے کے منہ پر جلتی سگریٹ لگا دی تھی، اور یہ کتا بیوقوف تو ہے نہیں، اس لیے اس نے کاٹ لیا۔ یہ شخص بڑا اوٹ پٹانگ ہے، ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی ہنگامہ مچائے  رہتا ہے۔’’ مجمع میں سے ایک شخص بولا۔ 
اس پر سُنار چلا اُٹھا ‘‘او بھینگے ! جھوٹ کیوں بولتا ہے؟ .... تو نے مجھے یہ سب کچھ کرتے دیکھا ہے کیا؟، اپنی طرف سے  ۛۛۛۛۛۛگپ کیوں مارتا ہے؟.... اور داروغہ جی  تو خود سمجھدار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو عدالت  مجھ پر مقدمہ چلائے ۔ یہ قانون میں لکھا ہے.... کہ سب آدمی  برابر ہیں۔ میرا بھائی خود  پولیس میں ہے.... بتائے دیتا ہوں.... کیا سمجھے ....’’
‘‘بند کرو یہ بکواس!’’
‘‘نہیں، یہ  منسٹر  صاحب کا کتا نہیں ہے،’’  سپاہی نے بڑے وثوق  سے کہا، ‘‘ منسٹر  صاحب کے پاس ایسا کوئی کتا ہے ہی نہیں، ان کے تو سبھی کتے شکاری نسل کے  ہیں۔ یہ تو آوارہ لگتا ہے۔ ’’
‘‘تمہیں ٹھیک طرح سے معلوم ہے؟....’’
‘‘جی  جناب ۔’’
‘‘ہم م م ....ویسے تو میں خود بھی جانتا ہوں۔ نئے  منسٹر صاحب جانور پالنے کے شوقین ہیں ، ان کے سب کتے اچھی نسل کے ہیں، ایک سے ایک قیمتی  کتا ہے ان کے پاس۔ اور یہ .... ذرا دیکھو  تو اسے ! بالکل بدشکل، کھجیلا اور مریل ہے۔ بھلا منسٹر صاحب کا کتا ایسا کیوں ہونے لگا۔   تم لوگوں کا دماغ تو خراب نہیں ہوا ؟ .... کون رکھے گا ایسا کتا؟....  اگر ایسا کتا شہر کے پوش علاقوں کی سڑکوں پر  دکھائی دیتا تو جانتے ہو کیا ہوتا؟....  قانون کی پروا کیے بنا، ایک منٹ میں ان کا صفایا کردیا  جاتا۔’’ 
اب  داروغہ دوبارہ سُنار کی جانب مڑا اور بولا،   ‘‘دیکھو سُنار! تمہیں چوٹ لگی ہے۔ تم مظلوم  ہو....  تم اس معاملے کو یوں ہی مت چھوڑ دینا .... ایسے  لوگوں کو سبق پڑھا کر رہنا ....  ایسے کام نہیںچلےگا۔’’
‘‘لیکن یہ بھی ممکن ہے، یہ  منسٹر صاحب کا ہی ہو....’’ کانسٹبل  کچھ سوچتے ہوئے بڑبڑایا، ‘‘اسے دیکھنے سے تو اندازہ نہیں ہوتا ۔ مگر بالکل ایسا ہی کتا  میں نے ایک دن   منسٹر صاحب کے  بنگلے کے دروازے پر  دیکھاتھا۔  اور اس کے گلے میں پٹّا  بھی تو دیکھو .... مطلب یہ پالتو ہے آوارہ نہیں۔’’
‘‘ہاں ہاں، یہ کتا   منسٹر صاحب ہی کا تو ہے !’’ مجمع میں سے کسی کی آواز آئی۔
‘‘ہونھہ.... کانسٹبل، ذرا مجھے کوٹ تو پہنا دو۔ ابھی ہوا کا ایک جھونکا آیا تھا، مجھے سردی لگ رہی ہے۔  ایسا کرو، اس کتے کو  اُٹھاؤ اور  منسٹر صاحب کے یہاں پہنچا آؤ اور وہاں دریافت  کرو۔ کہہ دینا کہ میں نے اِسے سڑک پر دیکھا تھا اور واپس بھجوایا ہے۔ اور ہاں، دیکھو، یہ بھی کہہ دینا کہ اسے سڑک پر ایسے نہ نکلنے دیا کریں۔ معلوم نہیں، کتنا قیمتی کتا ہے۔  اور اگر اس طرح کا ہر بدمعاش اس کے منہ میں سگریٹ گھسیڑتا رہا تو کتا بہت جلد ہی خراب  ہو جائے گا۔ اور تُو  اپنا ہاتھ نیچے کر، گدھا کہیں کا۔ اپنی گندی انگلی کیوں دکھا رہا ہے؟ سارا قصور تیرا ہی ہے۔   غضب خدا کا ، بے زبان جانور پر ظلم!  کتا بہت نازک جانور ہوتا ہے۔  اس  وقت میں نہ آگیا ہوتا تو تم اسے مارہیڈالتے....’’
اتنے میں کانسٹبل نے دور  سے آتے ایک شخص کو دیکھتے ہوئے کہا۔  ‘‘وہ  دیکھو !....  منسٹر صاحب کا باورچی آ رہا ہے، اس سے ہی پوچھ لیا جائے۔ اے خانسامے!.... ذرا  ادھر تو آنا.... اس کتے کو دیکھنا،  کہیں تمہارے یہاں کا تو نہیں ہے؟....’’ 
‘‘ارے میاں !یہ  بھی خوب کہی.... ہمارے یہاں کبھی بھی ایسا کتا نہیں تھا۔’’ باورچی  بولا۔ 
اتنا سنتے ہی داروغہ فوراً  کانسٹبل سے بولا ، ‘‘بس اب مزید تفتیش کی ضرورت نہیں.... بیکار وقت خراب کرنا ہے....آوارہ کتا ہے، یہاں کھڑے کھڑے اس کے بارے میں بات کرنا وقت برباد کرنا ہے۔ تم سے کہہ دیا ناں کہ آوارہ ہے تو آوارہ ہی سمجھو۔ مار ڈالو اور چھٹی پاؤ۔’’ 
‘‘ہمارا تو نہیں ہے،’’ باورچی نے بات جاری رکھی ....‘‘ہاں! یہ  منسٹر صاحب کے بھائی  ہیں ناں.... اُن کا کتا ہے، جو حال ہی میں یہاں آئے ہیں۔ ہمارے  منسٹر صاحب کو چھوٹی  نسل  کے کتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، پر ان کے بھائی صاحب کو یہ نسل پسند ہے۔’’
‘‘کیا کہا؟  منسٹر صاحب کے بھائی آئے ہوئے ہیں؟’’ اچنبھے سے داروغہ  چہک  اٹھا، اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا۔ ‘‘ذرا دیکھو  تو! مجھے خبر  بھی نہیں۔ کیا مزید کچھ دن ٹھہریں  گے  ....؟’’
‘‘جی ہاں۔’’
‘‘بھئی خوب  کہی ! میں  خود کئی دنوں سے اُن کے بھائی سے ملنا چاہتا تھا، اُن سے کام بھی تھا مجھے....   اور مجھے معلوم بھی نہیں کہ وہ آئے ہوئے ہیں۔ اچھا تو یہ ان کا کتا ہے؟ .... بہت خوشی کی بات ہے۔  کیسا پیارا ننھا منا سا کتا ہے....  اِس کی انگلی پر جھپٹا تھا۔  ہاہاہاہا.... بس بس، اب کانپنا بند کرو’’۔   داروغہ نے کتے کے سر پر تھپکی دی ....
‘‘غر.... غر.... ’’  کتا غرانے لگا۔
‘‘شیطان  کہیں کا! .... غصے میں ہے.... مزاج کا ذرا گرم  لگتا ہے.... یہی تو علامت ہے اچھی نسل کے  کتے کی ....کتنا پیارا  کتا  ہے....’’   یہ کہہ کر داروغہ نے  سُنار کی  طرف دیکھا۔
‘‘کیوں بے! معلوم نہیں تجھ  کو جانوروں پر ظلم کرنے کے متعلق کس قدر سخت قانون ہے اور وہ بھی منسٹر صاحب کے کتے پر.... میں  اگر چاہوں تو تم کو  ابھی اس جرم میں سلاخوں کے  اندر ڈال دُوں....   خبردار ! جو آئندہ ایسی کوئی حرکت ہوئی  ، ورنہ  باندھ کر لے جاؤں گا تھانے میں اور  تجھے ٹھیک مزا چکھاؤں گا۔ ’’داروغہ نے اسے دھمکایا  ۔ 
اور پھر داروغہ  اپنا اوور کوٹ اپنے جسم پر  لپیٹتے ہوئے  باورچی  کی طرف مخاطب ہوکر بولا۔ 
‘‘لےبھئی ! ذرا   اُٹھا تو لے اس غریب کو، چل منسٹر صاحب کے یہاں  پہنچا دیں ’’۔
  باورچی  نے کتے کو اُٹھایا      اور داروغہ اسے اپنے ساتھ لے کر  بازار کے چوک کے بیچ ٹال سے منسٹر صاحب کے گھر کی جانب  چل پڑا ،  پیچھے  پورا مجمع سُنار پر ہنسنے لگا۔



روسی ادیب ، افسانہ نگار   و  ڈرامہ نویس

انتون چیخوف ۔1860ء-1904ء

روس کا مشہور ادیب،   مصنف،  افسانہ نگار  اور ڈرامہ نویس انتون پاؤلاو چ چیخوف  Anton Pavlovich Chekhov، 29 جنوری 1860ء میں روس کے شہر ٹیگانرگ میں پیدا ہوا ۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا ۔ ان کے والد پاول سودا سلف کی ایک چھوٹی دکان چلاتے تھے مگر وہ ایک سخت مزاج  انسان تھے اور اپنی بیوی اور بچوں پر مارپیٹ کرتے تھے۔ چیخوف  کے بچپن کی ناخوشگوار یادیں ان پر تمام عمر حاوی رہیں ۔ چیخوف  اسکول میں داخل ہوئے مگر  تعلیمی میدان میں اوسط درجے کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ۔البتہ ان کی والدہ محبت کرنے والی خاتون تھیں اور قصہ گوئی کے ذریعے اپنے بچوں کی تربیت کرتی تھیں۔     1876 ء  میں چیخوف کا باپ  دیوالیہ ہونے پر  قرضہ کی ادائیگی کے خوف سے چیخوف کو اکیلا چھوڑ کر اپنے خاندان کے ہمراہ ماسکو بھاگ گیا ۔ چیخوف نے ہمت نہیں ہاری اور ٹیوشن اور چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتا رہا اور تین سال بعد ماسکو اپنے خاندان سے جا ملا ۔ وہاں پر اس نے ایک طبی کالج میں داخلہ لے لیا اور  1884ء میں انیس برس کی عمر میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے چیخوف کے قلمی نام سے ایک روزنامے humorous sketches میں کالم  اور مختصر افسانے لکھنے شروع کیے۔  پہلے مجموعے کی کامیابی کے باعث ڈاکٹری ترک کرکے افسانے اور ڈرامے لکھنے شروع کیے۔  اسے ٹی بی کا مرض بھی لاحق ہو گیا جو اس نے اپنے خاندان سے چھپائے رکھا  اور اسی مرض میں 15جولائی 1904 کو  جرمنی کے شہر بیدینويلر میں  انتقال کرگیا ۔  چیخوف کو جدید افسانہ نگاری کا بابا  سمجھا جاتا ہے اور ان کہانیاں دنیا کے مبصرین اور ناقدین میں بہت احترام کے ساتھ سراہی جاتی ہیں۔ 
چیخوف   کے تمام افسانوں کا رجحان زندگی کے روزمرہ کے معاملات کی طرف ہوتا۔  انسانی فطرت اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس نے شدید طنز کیا۔ اس کی تحریروں میں سب طبقوں کی تنگ نظری اور سادہ لوحی یوں ریکارڈ ہوگئی ہے کہ جیسے کیمرے نے زندگی کی تصویر کھینچ لی ہو۔ 

اس بلاگ پر انتون چیخوف کی تحریریں