سندھی  ادب کا ایک شاہکار افسانہ

سوکھی دھرتی

سندھی زبان کے معروف ادیب اور کہانی کار حمید سندھی کا افسانہ ‘‘سوکھی دھرتی’’!!








مستوں کی کیا بات ہے.... پرو    کڑی  دھوپ میں گھنٹوں  گھمیریاں لیتا رہا اور اپنی لمبی قمیض  کا دامن اوپر اُٹھا کے جھوم جھوم کر پکارتا رہا 
‘‘ بھیج مولا، چاندی کا گولا’’ دے دے مولا، جل تھل کردے’’۔ 
اللہ کی ذات بڑی ہے، وہ اگر قبول کرنے پر آئے تو کانچ بھی قبول کرلے اور نہیں تو موتی بھی لوٹا دے ۔  پرو کے آس پاس اس وقت لوگوں کا ہجوم تھا.... لیکن اللہ کی ذات بہت بڑی ہے.... دیکھا جائے تو پرو کے پاس نہ تو کانچ تھا، نہ اُس نے کوئی عاجزی کی تھی، نہ اسے احساسِ شرم تھا.... ننگے بدن پر لمبا چوغا ڈالے  وہ تو صرف گڑگڑا کے عرض ہی کررہا تھا....  اللہ کی ذات تو اور بھی بڑی ہے۔ پرو جیسے مست تو بہت تھے لیکن  پرو تو بسنتی مست تھا.... پرو کون ؟ سب یہی کہتے  ‘‘بسنتی مست’’۔ 
آج اُس کے لیے آزمائش کی گھڑی تھی ۔ لوگوں کا ہجوم ، ہر ایک آنکھ اُس پر  لگی ہوئی تھی۔ اس کی ہر حرکت  پر لوگوں میں ہل چل مچ جاتی۔ اس کے ہر نعرے کے جواب میں نعرہ لگتا  :
‘‘ بھیج مولا، بھیج مولا،جھل  تھل کردے، جھل تھل کردے’’۔ 
‘‘جیسا تیرا نام ویسا ہی آسرا’’اسی آسرے پر خلقت جمع تھی۔ لوگ پسینہ سے شرابور تھے، دھوپ سے بدن جل رہے تھے لیکن وہ سب پر اُمید تھے اور سب کی  ایک نظر پرو پر اور ایک آسمان پر تھی.... گو ابھی کہیں بادلوں کی آواز تک نہ تھی، نہ  ہی کہیں ابر کا نام و نشان تھا لیکن آسرا رکھنے والے  اسی آسرے پر کھڑے تھے کہ رب کی ذات بہت بڑی ہے، برسانے پر آجائے تو ایسی موسلا دھار بارش برسے کہ سارے کے سارے صحن اور آنگن دھل دھل کر پاک ہوجائیں، برکھا سے بہار ہوجائے، پیاسوں کی پیاس بجھ جائے، اس کے کرم  پر یہی آس لگائے  پیاسے اپنی  تشنگی لیے منتظر کھڑے تھے دھرتی سوکھ چکی تھی، برسوں کی خشک سالی نے سبزے کو جلا کر خاک کر ڈالا تھا۔ 
اسی سوکھی  دھرتی پر آج پرو کھڑا تھا، جس سے اُس کا ازلی ناتا تھا.... سب گاؤں والوں کو اچھی طرح یاد تھا کہ وہ پرو سے  ‘‘ بسنتی مست’’ کیسے بنا....
پرو کوئی پیدائشی  مست نہیں تھا ۔ بچپن میں  وہ ایسا ہی تھا جیسے عام بچے ہوتے ہیں، ایک غریب ماں باپ کا غریب بیٹا۔ ننگے بدن پر پھٹا ہوا چولا پہنے گلیوں میں لوٹیں کھانا، مٹی سے کھیلنا۔ بچپن کی بے فکری  اور مستی کے اس عالم میں اُسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ اُس کے  ماں باپ مرچکے  ہیں۔ وہ ایک چھوٹے سے گھر میں اپنی پھوپھیوں  کے پاس، چاچا کی مارکوٹ سہتے سہتے پروان چڑھا۔ اُس وقت پرو کے لیے چچا زاد بھائیوں کا ٹولا ایک بڑی نعمت تھا۔ کھیلنا کودنا اور دھما چوکڑی مچانا ہی اس کے بس میں تھا ، چھوٹے سے کچے گھر کے کشادہ آنگن  میں بچوں کے ساتھ گھمیریاں ڈالتے ہوئے  اس کی کیفیت کسی مست سے کم دکھائی نہ دیتی تھی۔  
گو کہ اس وقت تک اُس کی ذات کو کوئی اہمیت حاصل نہ تھی لیکن وہ اپنی دلبری کے سلونے انداز پھر بھی دکھاتا رہتا تھا۔ اُس کے ہنستے  مسکراتے  خوبصورت چہرے سے کسی کو کوئی خاص چاہت نہ تھی۔ وہ تو ایک یتیم بچہ تھا۔ کٹیلی جیسے زرد اور کڑوے پھلوں کی مانند جن سے صحرا کا دامن بھرا رہتا ہے۔ 
پرو اس حالت میں بھی خوش تھا۔ اس کی خوشی اس وقت اور بڑھ جاتی تھی  جب  وہ اپنی چچا زاد بہن مومل  کو اُنگلی  سے پکڑ کر چلانے کی کوشش کرتا۔ وہ جب اپنے چھوٹے چھوٹے نازک پاؤں  اُٹھا کر اس کے ساتھ آنگن میں چلتی تو وہ خوشی سے اپنی پھوپھی  زیناں کو پکارتا اور کہتا  ‘‘ پھوپھی او پھوپھی ۔ دیکھ تو یہ مومل کیسے چلتی ہے، جیسے مورنی ’’....
 پھوپھی زیناں، جس نے پرو کو ا پنی اولاد کی طرح پالا تھا، برآمدے میں سے جواب دیتی  :
‘‘ہاں، ہاں پریل! مومل تو مورنیوں کی رانی ہے’’۔ پرو خوش ہوکر مومل کو پیار کرتا اور زور زور سے پکار کر کہتا  ‘‘ چل میری مورنی رانی’’ پھر وہ پھوپھی کے  پاس  آکر کھڑا ہوجاتا۔  پھوپھی زیناں آس پاس دیکھ کر اُس سے کہتی کہ  ‘‘ارے پریل! یہ تو مورنی  ہے، تو کون ہے، پیارا مور’’ یہ سن کر پرو مومل کو چھوڑ کر اپنے بازوؤں کو پھیلا کر مور کی طرح ناچنا شروع کردیتا اورناچتا کودتا ہوا باہر چلا جاتا۔ 
پرو کی یہ ناچنے کودنے والی کیفیت اُس وقت اور بڑھ جاتی تھی جب گرمی کے دنوں پر ساون کی ٹھنڈک بکھر جاتی تھی۔ برسات کا موسم پرو کے لیے من مستی اور کھل اُٹھنے کا پیغام لے کر آتا۔ وہ برکھا کی پہلی بوند پر گھر سے باہر نکل آتا اور خوشی سے چیخ چیخ کر یہ کہتا :
‘‘بھیج مولا’’ 
اس کے بعد اس کے چچا زاد بھائی  بھی اُچھلتے کودتے  باہر نکل آتے ، نعروں کا شعور بپا ہوجاتا ‘‘بھیج مولا، چاندی کا گولا’’ اور کبھی یہ نعرہ لگتا کہ ‘‘دیوار  پر رسّی، لو بارش برسی’’ لیکن پرو کا پسندیدہ نعرہ یہ تھا  
‘‘ دے دے مولا، جل تھل کردے’’ 
یہ نعرہ لگاتے ہوئے وہ بالکل مست ہوجاتا تھا۔ جب بارش تیز ہوجاتی   تو سب بچے دوڑ کر برآمدے میں آجاتے  لیکن پرو باہر ہی کھڑا رہتا  اس کی رگ رگ میں خوشیاں بھر جاتیں۔ بارش کی بوندوں سے  وہ بدن بھگوتا رہتا اور انہی بوندوں کو پیتا بھی رہتا۔  کبھی ہاتھوں میں کیچڑ لے کر اپنے بدن سے  ملتا، کبھی منہ پر لگاتا اور کبھی صحن میں بکھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے  گڑھوں سے پانی پیتا اس کی پھوپھی  چیخ چیخ کر اس سے کہتی 
‘‘ پرو! ارے او پرو! مرجائے گا، اندر آجا’’
 لیکن اسے بارش کے شور میں شاید کچھ سنائی نہ دیتا۔ ایسے میں اس کا چاچا حقے کی چوبی  لے  ہاتھوں میں لہرا کر کہتا  :
‘‘ ارے آتا ہے یا نہیں.... ہڈیاں توڑ دوںگاتیری’’۔  
اب لاچار ہوکر وہ اندر آجاتا۔ اس کی پھوپھی اس کا چولا سوکھنے کے لیے ڈال دیتی اور وہ تہبند  باندھ کر برآمدے کے کونے میں دروازے کے پاس کھڑا ہوجاتا اور وہیں منہ بڑھا بڑھا کر گرتی بوندوں کی کوئی دھار پینے لگتا۔ 
بارش ختم ہوتے ہوئے پرو کے لیے ہرے بھرے میدان سب کمخواب کے فرش بن جاتے۔  وہ ان میدانوں سے ہوتا ہوا رئیس کے باغ میں پہنچ جاتا جہاں وہ خوشی سے چیخ چیخ کر لوٹیں لگاتا یا دوستوں کے ساتھ اٹھکیلیاں  کرتا اور پھر گھر لوٹ کر مومل کو ساتھ لے جاتے ہوئے کہتا  ‘‘ میری مورنی رانی، چلے تو ہرے بھرے کمخواب کے فرش پر.... ادھر نہ چلے، چلے تو ہرے میدان میں....رانی .... باغ میںچلے.گی’’۔ 
یکایک چاچی  چیخ کر کہتی  ‘‘موئے! باغ میں مت لے جانا، وہ کوئی تیری طرح چل سکتی ہے....؟ تیری ٹانگوں میں  تو لوہا بھرا ہوا ہے’’۔ 
‘‘چاچی ! مومل بڑی ہوجائے، پھر تو چلے گی ’’۔ 
‘‘اچھا اچھا! بڑی تو ہولے ’’۔ 
وہ مومل کے نازک پیروں کو نظروں ہی نظروں میں تولتا رہتا۔ پرو خوش ہو اور مومل پیر نہ اٹھائے یہ کیسے ہوسکتا تھا۔ وہ خوشے کے مارے کھلکاریاں  کرتی۔ مومل نے جب پہلی بار صاف  بول بولے تو پرو پکار اُٹھا  ‘‘پھوپھی ! مورنی تو بولتی ہے’’ پھوپھی نے جواب دیا ‘‘بولے، سدا بولے، پیارے مور!’’ اور وہ یہ سُن کر بانہیں  پھیلا کر اُچھل  اُچھل کرناچنا شروع کردیتا اور اب تو مومل بھی اس کے ساتھ پاؤں اُٹھا اُٹھا کر ناچتی .... مومل ناچے اور پرو خوش ہو!
ایسے ہی وقت گزرتا گیا ، نیا موسم آیا، نیا ساون آیا۔ پرو کے وجود میں تو جیسے بجلی کا بسیرا تھا۔ اُسے نہ اسکول کا کوئی خیال رہا، نہ ہی موسم کا کوئی خوف۔ جوں ہی آسمان پر بادلوں کے آثار نظر آئے وہ اسکول سے باہر نکل آیا، کہاں کا پڑھنا کہاں کا لکھنا! پرو تو من مستی اور خوشی کی فضاؤں میں اُڑنے والا ایک پرندہ تھا۔ وہ خشک اور چٹیل میدانوں میں دوڑتا ہوا گھر پہنچا اور باہر ہی سے پکارنے لگا  ‘‘ دے دے مولا، جل تھل کردے’’  سب ساتھیوں نے آواز میں آواز ملائی ‘‘دے دے مولا، جل تھل کردے’’ مومل نے بھی  توتلی زبان سے کہا ‘‘ دیدے مولا، دل تھل کل دے ’’ ایکا ایکی آسمان پر بادل اُمڈ آئے، ابر میں گڑگڑاہٹ ہوئی، بادل گرجنے لگے، بجلیوں کے کڑکنے کا ایک شور بلند ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے بوندوں کی جھڑی  لگ گئی۔ برکھا پھوہار کیا برسی پرو پر ایک کیف سا طاری ہوگیا۔  وہ جھوم جھوم کے پکارنے لگا ‘‘دے دے مولا، جل تھل کردے ’’ پلک جھپکتے میں بوندیں تیز ہوگئیں، موسلا دھار بارش  شروع ہوگئی، پرنالے بہنےلگے، پرو پر اب بھی مستی اور بے خودی غالب تھی۔  پرو جھوم جھوم کر اُچھل اُچھل  کر یہی کہے جائے  ‘‘ مولا دے دے، جل تھل کردے’’.... جوں ہی پرو کے لبوں سے صدائیں بلند ہوئیں فضاؤں میں بجلیاں کوندنے لگیں۔ بادلوں کی گڑگڑاہٹ اور بجلیوں کے کڑکنے کا شور .... یوں محسوس ہوتا تھا جیسے آج بادل تہیہ کیے ہوئے ہیں کہ رُکنے کا نام نہ لیں گے۔ پرو مستی میں مست ہوا جارہا تھا۔ اُس کے ساتھی  برآمدے میں جاکر چھپ گئے تھے، مومل بھی اب تو خاموش تھی لیکن پرو کی صداؤں سے صدیوں کے ارمان مٹ گئے تھے۔ ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ چرند پرند بھی چھپنے لگے۔  انسانوں کی تو حالت ہی ابتر تھی۔ ان کے پورے وجود پر کپکپی طاری تھی۔  کچے مکانوں کی دیواریں بادلوں کی گڑگڑاہٹ  ہی سے منہدم ہوگئیں چھتیں کب کی بہہ گئیں۔ گھر والوں پر بدحواسی طاری تھی۔ 
پھوپھی زینو برآمدے میں کھڑی تھی لیکن اسے پرو کو بلانے کا ہوش نہ تھا۔  وہ تو بدحواسی کے عالم میں بار بار  ‘‘حسبی اللہ ...’’ کا ورد کرکے چاروں طرف پھونکتی جارہی تھیں۔ چاچی، پھوپھی  صفوراں اور ماسی نعمت چھت کے نیچے جگہ جگہ بالٹیاں اور تغاریاں رکھنے اور کچے فرش کو لیپنے پوتنے میں مصروف تھیں۔ چاچا تیشہ ہاتھ میں لیے  دیوار کے سوراخوں کو بند کرنے میں لگا ہوا تھا۔  موسلا دھار بارش نے سارے مکان کو چھلنی بنادیا تھا۔ ایک گھنٹے بارش نے برسوں کی کسر پوری کردی۔ 
ماسی نعمت تو بے اختیار ہوکر کہہ اُٹھی ‘‘ایسی بارش نہ کبھی دیکھی ، نہ سنی’’ یہ تو قیامت ہے قیامت’’ اچھا خاصا وقت گزر گیا۔  لیکن بارش رُکنے کا نام نہ لے۔ سب کو یہی محسوس ہورہا تھا کہ بس اب بادل ایک بار اور گرجیں گے، بجلی ایک بار اور کڑکے گی اور پھر بارش رُک جائے گی لیکن یہ سب خام خیالی ہی تھی۔ اسی اثناء میں چاچا دوڑتا  ہوا گھر سے باہر نکلا،  پرو ابھی تک باہر  برستی بارش میں جوں کا توں کھڑا تھا، اب اُس نے نعرہ لگانا بند کردیا تھا  وہ تو بس اُچھل اُچھل  کر بارش کی بوندوں کو پیے جارہا تھا اور زیرِ لب  یہ بھی کہتا جارہا تھا ‘‘ واہ میرے مولا واہ، جی خوش کردیا۔ رنگ ہی رنگ کھلادیے، واہ میرے مولا’’۔ 
ابھی یہ لفظ پرو کے لبوں پر ہی تھے کہ چاچا نے آکر اُسے گدی سے پکڑا اور یہ کہتا ہوا کھینچ کر گھر میں لے آیا کہ  ‘‘کتے کے پلے،  یہاں ہماری جان پر بنی ہے اور تو خوشیوں  سے کھلکھلا کر کہے جارہا ہے ‘‘ مولا دے دے، جل تھل کردے’’ اب ٹھہر میں تیری خبر لیتا ہوں، مکان ڈھے  جانے کو ہے، چھت بہہ رہی ہے اور تو اب بھی جل تھل کا نعرہ لگا رہا ہے’’۔ یہ کہہ کر چاچا نے حقے کی لے چلم سے نکال کر مارنے کے لیے بلند کی اور کہا  ‘‘ بول اب لگائے گا جل تھل کا نعرہ ، کیا تیرا باپ آکر یہ سوراخ  بند کرے گا؟ کیا تیری ماں آکر لیپا پوتی کرے گی؟ آج تو میں تجھے بالکل نہیں چھوڑوں گا.... ارے اور کون کون تھا جس نے یہنعرہ لگایا تھا....؟’’
یہ سن کر دوسرے بچے  تو سہم گئے اور کونوں کھدروں میں چھپنےلگے، گلو اور  شیرل تو چارپائی کے نیچے جاکر چھپ گئے ‘‘نکلو باہر ، ارے ورد، شموں، یارو اِدھر آؤ سب’’۔ جوں جوں لڑکے  آتے گئے چاچا حقے کی نے گھما گھما کر انہیں مار تا رہا اور وہ چیختے رہے :
‘‘ارے مارڈالا، چاچا مارڈالا، ارے بابا، ارے اماں مار ڈالا’’۔ ادھر بچوں کی چیخیں نکلیں اور اُدھر آسمان میں زور کی گڑگڑاہٹ ہوئی۔ سب سہم کر چپ ہوگئے۔ ایسے میں دھب سے کسی چیز کے گرنے کی آواز آئی۔ سب نے برآمدے  سے باہر دیکھا، باورچی خانے کی چھت گرگئی تھی،  ایسے میں سب نے پرو کو چپ چاپ باہر نکلتے ہوئے دیکھا،  وہ بیچ آنگن میں جاکر کھڑا ہوگیا اور اپنے چھوٹے چھوٹے  ہاتھ بلند کرکےکہنے لگا :
‘‘مولا بس اب ہالار  ( اندرونِ سندھ ایک پہاڑ کا نام) میں  برسا’’ وہ پھر پکارا ‘‘مولا بس اب ہالار میں برسا’’... ‘‘مولا.... مولا.... میرے مولا’’۔ 
پرو کی آواز کا اثر تھا  یا ایک مست کی پُکار.... بارش تھمنے لگی اور تھوڑی ہی دیر میں بالکل بند ہوگئی۔
پرو اُس وقت تک باہر کھڑا رہا جب تک آسمان پر بادل چھٹ نہ گئے۔ مطلع صاف ہوتے ہی ہر سو اُجالا پھیل گیا۔  سب لوگ باہر نکل آئے  پھوپھی  زینو پرو کے پاس آکر کھڑی ہوگئی اور اس کے چہرے کو تکنے لگی اور پھر پُکار پُکار کر چاچا سے کہنے لگی کہ  :
‘‘ بھائی نصیر، یہ لڑکا تو فقیر ہے، مست ملنگ ہے، آئندہ  اس پر ہاتھ مت اُٹھانا، کرامت دیکھی اسکی’’۔ 
گھر کے سبھی  لوگ پرو کے اِرد گرد جمع ہوگئے۔  وہ سب اُسے اس طرح حیرت سے دیکھ رہے تھے جیسے کوئی نئی چیز دیکھ رہے ہوں۔ چاچا نصیر نے قریب آکر پرو کے سر پر ہاتھ پھیرا اور پھر باورچی خانے کی طرف چلا گیا۔ اب تو مومل بھی اپنے چھوٹے چھوٹے نازک پیر اُٹھاتی ہوئی باہر نکل آئی تھی ۔ ‘‘پلو.... مولا دل تھل نئیں ، اب مولئی لانی چلو کہو’’ پرو اس کو چلاتا ہوا  اور یہ کہتا ہوا کہ ‘‘ میری مورنی رانی چلے’’ گھر سے باہر نکل آیا۔ اس بار اُس کی چاچی نے کچھ نہیں کہا۔ اُسے مومل کے باہر جانے پر شاید اب کوئی اعتراض نہ تھا۔  پرو سیدھا رئیسوں کے باغ میں جا پہنچا۔ باغ کی خنک فضا اور بھیگی مٹی کی سوندھی  سوندھی خوشبو اسے  مست کردینے والے موسم کی طرح محسوس ہوئی۔ پرو بارش سے دھل کر نکھرے  ہوئے درختوں اور اُجلی دھرتی کو دیکھتا ہوا وہیں کیچڑ میں بیٹھ گیا۔ پاس ہی مومل کیچڑ سے کھیلنے لگی۔ آج  پرو پر سرور و نشاط کی کیفیت طاری تھی، کیوں نہ ہو آج برکھا برسی، ہر سو خوشیاں بکھریں۔ 
ادھر ماسی نعمت نے برقعہ سر پر ڈالا اور تھوڑی ہی دیر میں گھر گھر یہی ذکر ہونے لگا۔ 
‘‘پرو تو کوئی صاحبِ کرامت ہے  ’’
 یوں  پرو کی کرامت کا شہرہ سارے شہر میں ہوگیا۔ نہ جانے کہاں کہاں سے  لوگ آنے لگے۔ سب لوگ چھوٹے مست کا دیدار کرنا چاہتے تھے۔  لوگ آتے ، حیرت سے پرو کو دیکھتے اور اپنے حق میں دعائیں منگواتے ۔ شروع شروع میں تو پرو بے حد حیران ہوا کہ یہ سب کیا ہے لیکن جب اسے نذر نیا ز ملنے لگی، اسکول جانا بند ہوا، مار پیٹ کا سلسلہ بھی ختم ہوگیا تو پرو بے فکری اور بے نیازی سے مست بن کر بیٹھ گیا۔ چاچا نصیر اور پھوپھی زینو کی تو چاندی ہوگئی،  آہستہ آہستہ گھر میں رونق پیدا ہوگئی، پرو لوگوں کے سامنے جھوٹی سچی لکیریں کھینچتا اور ‘‘ حق ہو’’ کا نعرہ لگاتا.... پھر کیا تھا  گھر میں ہُن برسنے لگا۔ 
جوں جوں  کرامتیں کامیاب ہوتی گئیں۔  پرو کامیاب مست بنتا گیا۔  کبھی کبھی وہ پھوپھی سے پوچھتا ‘‘پھوپھی ، مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا، میں نے تو قرآن بھی نہیں پڑھا، مجھے تو الف ب بھی پوری نہیں آتی.... میں کیسے کرامت والا ہوگیا....’’
 پھوپھی ہُش  کہہ کر اسے خاموش کردیتیاورکہتی  .....
‘‘پیارے  مور ! کرامت  والوں  کو باہر کے علم کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تیرے پاس تو باطنی علم ہے بیٹا! تو صرف نیک نیتی سے اُلٹی سیدھی  لکیریں کھینچتا ہے یا ہاتھ گھماتا ہے یا پانی پھونک کر دیتا ہے یا پانی میں ہاتھ ڈبوتا ہے اور لوگوں کے کا م آسان ہوجاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی بھلا ہوجاتا ہے’’۔  
کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی پرو اثبات میں سر ہلاتا رہا۔ وہ جوں جوں بڑا ہوتا گیا ، سب باتیں اس کی سمجھ میں آتی گئیں۔ اسے چاچا کی مجبوری بھی سمجھ میں آگئی ، سارے گھر کی بے بسی کا بھی اُسے علم ہوگیا۔ اب اس نے ذہنی طور پر اپنے آپ کو مست سمجھنا شروع کردیا۔ اب اُن کے گھر میں غربت کا نام و نشان تک نہ تھا، کچا گھر اب پختہ بن چکا تھا گھر میں ایک بیٹھک کا کمرہ بھی بنادیا گیا تھااور سب سے بڑی بات تو یہ کہ گھر میں پرو کے لیے ایک علیحدہ  کمرہ بھی بن چکا تھا  جس کے اوپر خوبصورت سائبان بھی تھا۔  یہ سب کچھ چاچا نصیر کی نگرانی میں ہوا۔ وہ خود پرانا راج تھا لیکن اب ضعف کی وجہ سے اس کے ہاتھوں میں لرزہ پیدا ہوگیا تھا وہ کیسے چُنائی  کا کام کرتا لیکن اب اسے اس کام کی ضرورت بھی کیا تھی .... قدرت کے رنگ بھی نرالے ہیں۔ کسی کے ہاتھوں میں شفا تو کسی کے ہاتھوں میں کرامت..... ادھر پرو کا ہاتھ اُٹھتا اُدھر سوالی کا سوال پورا ہوجاتا اور اب تو پرو کے ہاتھ خاصے مضبوط ہوچکے تھے ، جوانوں والے ہاتھ۔ اُس کی کرامت میں بھی زور پیدا ہوچکا تھا..... 
لیکن اب پرو کے لیے ان کرامتوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اُس کے لیے تو اب سب کچھ مومل تھی ۔ وہ مومل جو اب پوری طرح مورنی رانی بن چکی تھی ۔ مومل نے اسی کے سامنے  اپنی ہر جون بدلی تھی۔  اب وہ ایک خوبصورت  لمبے  بالوں والی، سرعت سے کھلنے اور  بند ہونے والی بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت رانی تھی۔  پرو جس طرح  بچپن سے اُسے  رانی کہتا آیا تھا  اُسی طرح  اب بھی اُسے رانی ہی کہتا تھا۔  مومل کے پیکر کی طرح اُس کی چاہ نے بھی رنگ بدلے تھے۔ اب جب وہ پرو کے پاس بیٹھتی  اور پرو اس کا ہاتھ پکڑ کر مٹکے میں ڈالتا  تو پانی کی ٹھنڈک  اس کی رگ رگ میں سرایت کرجاتی۔  وہ پانی دوسروں کے لیے شفا کا پانی ہوتا لیکن مومل  کے لیے تو وہ آبِ حیات تھا۔ وہ ہمیشہ  اس ہاتھ کی چاہت کے لیے بے تاب رہتی کہ کب پرو اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھوں میں لے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ کہہ اُٹھتی’’۔ 
پرو ! میرے ہاتھ میں کون سی شفا ہے  جو تو میرا ہاتھ مٹکے میں ڈالتا ہے.....؟’’  پرو یہ سن کر اس کی طرف دیکھتا اور مسکرادیتا۔ پرو اُس دن تو مومل کے بالکل قریب ہوکر بیٹھتا جس دن وہ نہا دھو کر، اُجلے  کپڑے،  بھیگے بال  شانوں پر پھیلائے، اس کا کھانا لے کر لہراتی ہوئی اس کے پاس آتی، پرو روٹی ایک طرف رکھ کے اُسے بانہوں سے پکڑ کر بٹھاتا اور پھر اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس کے قریب جاتا اور اس کے بکھرے  ہوئے بے گندھے  بالوں کو پکڑ کر اپنی ناک سے لگاتا اور بڑے بڑے سانس لیتا اُس  وقت وہ بے اختیار  ہوکر یہ کہہ  اُٹھتا
 ‘‘ میرے رب کی قدرت’’ مومل بار بار  اُس سے اُس کا مطلب پوچھتی  اور وہ وہی جواب دیتا.... مومل  پھر پوچھتی  :
‘‘ پرو اس میں رب کی کونسی قدرت ہے ؟’’
 رانی تیرے بھیگے بالوں سے وہی خوشبو آتی ہے جو برکھا سے بھیگی ہوئی دھرتی سے اُٹھتی ہے اور جس سے ساری فضا مہک جاتی ہے، کیا یہ خوشبو عطر عنبر سے کم ہے’’۔  
برکھا رت سے پرو کا ناتا سدا قائم رہا۔ جونہی بسنت  کے دن آتے۔  پرو گھر سے  باہر نکل آتا، اُس کی یہی صدا ہوتی  
‘‘ مولا دے دے ، جل تھل کردے’’۔  
ابھی وہ ایک  ہی صدا بلند کرتا کہ دور سے مومل دوڑتی ہوئی آتی اور کہتی  ‘‘ بس پریل !’’ وہ چپ تو  ہوجاتا، لیکن اُٹھ کر ناچنا شروع کردیتا، بارش سے بدن بھی بھگوتا اور بوندوں کی دھاریں بھی پیتا جاتا، کبھی صحن کے چھوٹے چھوٹے گڑھوں  سے پانی کے گھونٹ پیتا، کبھی گیلی  مٹی بدن سے ملتا،  کبھی اُسی مٹی  کا گولا بناکر سر پر رکھتا۔ وہ گولا پانی  سے بہہ جاتا تو دوسرا گولا سر پر رکھ لیتا۔  اچھا خاصا وقت اس سرمستی میں گزرجاتا۔ پھر جب مومل اُسے  پکارتی  تو وہ دوڑ کر  سائبان کے نیچے آجاتا۔ مومل انگوچھے  سے اُس کا بدن صاف کرتی اور وہ سکون سے مومل کی اُنگلی میں پڑے ہوئے مٹی کے چھلے کو گھماتا رہتا اور  پھر خود ہی کپڑے  سے اپنے بدن کو پونچھنے لگتا۔ اس کے بعد مومل چپ چاپ باہر جاکر کھڑی ہوجاتی اور سائبان کی آڑ میں کپڑے بدل کر پرو  بھی اُس کے پاس آکر کھڑا ہوجاتا۔ مومل  اُس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہتی  ‘‘ پریل تو بسنتی مست کیسے ہوگیا۔ یہ بسنت تجھے کس طرح مست بناتی ہے....؟’’ 
پرو مسکراکر جواب دیتا  ‘‘رانی ! برکھا اور دھرتی کا آپس میں ازلی رشتہ ہے، ہم اس دھرتی کے چھوٹے مالک ہیں۔ اگر ہم بھی مست نہ ہوں گے تو پھر کون ہوگا؟ کیا یہ برکھا تجھے مست نہیں کرتی؟ کیا ان بوندوں کی جھڑی اور بسنت رُت میں تجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا’’۔ 
مومل یہ فقرہ سن کر گویا  کھینچتی ہوئی اُس کے پاس چلی آتی اور پھر سامنے برآمدے  پر نظر ڈال کر ایک دم پیچھے ہٹ جاتی ۔ وہ صرف اتنا کہہ پاتی  ‘‘ پرو مجھے کچھ پتہ نہیں ’’ یہ کہہ کر وہ چادر کے پلو کو دانتوں میں دباتی اور اُنگلی  میں پڑے ہوئے اسی مٹی کے چھلے کو گھمانے لگتی  جس میں اُس کی جان تھی۔ پرو ایک دم اس کا ہاتھ پکڑ کر کہتا۔  ‘‘اس چھلے کو میں گھماؤں گا ۔ لیکن یہ کیا ؟.... یہ گھومتا تو ہے لیکن  مشکل سے ..... خیر کبھی تو یہ میرے بس میں آئے گا’’۔ 
 مومل مسکرا کر کہتی ‘‘ کیا ابھی یہ تیرے بس میں نہیں۔ اب بھی تو تیرا ہی ہے’’۔  
‘‘نہیں رانی! جب میں سہرا باندھ کے، ہاتھوں کو لال کرکے، تیرے حنائی  ہاتھوں میں ڈال کر اس چھلے کو اپنا مقدر سمجھ کے  گھماؤں گا تب.... دیکھیںنصیب’’....
 مومل شرما کر چھپر کے  کونے میں چلی جاتی، اس کی سانسوں میں تموج پیدا ہوجاتا۔  ایسے میں پرو اُس کے قریب جاتا تو وہ ہاتھ بڑھا کر کہتی :
‘‘ پرو اس چھلے کو گھمائے جا،  خدا جانے کیوں شادی کا مجھے یقین نہیں،  ویسے بھی پرو! شادی محبت کی معراج تو نہیں ’’۔ 
 ایک سیدھی سادی، سادہ لوح لڑکی کے منہ سے یہ الفاظ سن کر پرو چونک جاتا اور بات ٹالنے کے لیے یہ کہتا  ‘‘ مومل ! تو بھی کسی سے کم ہے، بالکل مست ہے،  مجھ سے بھی زیادہ .... تجھ میں بڑی  خوبیاں ہیں،  لیکن رانی! جب تو سمجھداری کی باتیں کرتی ہے تو بس ہم جیسوں سے بھی بڑی مست بن جاتی ہے’’ 
اور پھر دونوں کھلکھلا کر  ہنس دیتے ۔ پھوپھی زینو جو قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھی تھی، سامنے برآمدے  سے یہ سارا نظارہ دیکھتی رہتی ۔ اس کی بینائی  اب بھی بہت اچھی تھی  لیکن اس کے بھائی  چاچا نصیر کو تو کچھ بھی سجھائی  نہیں دیتا تھا۔  پھوپھی زینو، پرو اور مومل کو دیکھتے دیکھتے سر ہلا کر اپنے بھائی سے کہتی ‘‘ بھائی ! وہ جوڑا دیکھ رہا ہے؟’’....
‘‘ کیسا جوڑا؟ پرندوں کا....؟’’
‘‘برسات میں ابھی پرندے ہوں گے کیا....؟’’ 
یہ کہہ کر کچھ دیر  پھوپھی زینو خاموش رہتی اور پھر بھائی سے کہتی ‘‘ بھائی ! پریل کا خیال رکھنا’’....
تجھے بھی رہ رہ کے خیال آتے ہیں۔ اللہ کرے سب خوش و خرم رہیں۔ تو اس وقت  مجھ سے پرو کا خیال رکھنے کی بات کیوں کررہی ہے؟’’
‘‘بھائی !  مومل کو پریل سے جدا مت کرنا ، ورنہ سب کچھ ختم ہوجائے گا..... میں پھر کہتی ہوں کہ یہ دونوں بنے ہی ایک دوسرے کے لیے ’’... یہ کہتے کہتے اُسے کھانسی اُٹھتی اور وہ ناتوانی سے بستر پر گرجاتی، چاچا نصیر اُسے  چادر اُڑھا کر سُلاتے ہوئے کہتا ‘‘ پگلی ، فکر کیوں کرتی ہے؟ گھر ہی کی تو بات ہے،  کہیں دُور  تو جانا نہیں۔  کسی دن بیاہ کر دونوں  کو ملادیں گے’’۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرادیتا اور یوں  بہن کی دلداری کرتا لیکن دور کھڑی  ہوئی ماسی نعمت  یہ ساری باتیں سن کر منہ بگاڑ لیتی اور ناک بھوں چڑھا کر آہستہ آہستہ یوں بدبداتی، اللہ کرے گا،  میرا شیرل بس روزگار سے لگ جائے، پھر دیکھنا میں کس طرح اپنا بیڑا پار لگاتی ہوں’’۔ 
ماسی نعمت کے بیڑے کو  واقعی کوئی موافق ہوا کا سہارا مل گیا جو پھوپھی زینو اللہ کو پیاری ہوگئیں، چاچا نصیر  یہ صدمہ نہ سہہ سکا۔  پیاری بہن کے صدمے نے بھائی کو بھی اُٹھالیا۔  دونوں بھائی بہن بڑے جی جان سے جیے لیکن زندگی کا کیا بھروسہ ....سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ چاہے تو زندگی دے اور چاہے تو پتہ پتہ  بکھیردے۔ 
پرو کو آج تک کسی نے اس طرح روتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھیں  اتنی برسیں کہ  مومل بھی شدت سے رو پڑی۔ وہ اتنا روئی  کہ بات بات پر اس کی ہچکی بندھنے لگی۔ مومل کی یہ حالت دیکھ کر پرو نے اپنے آنسو روک لیے ورنہ آج تو شاید وہ آسمان کو بھی رُلا دیتا.... لیکن اُس دن پرو کا دل پاش پاش ہوگیا جب ایک دن مومل اس کے پاس نہ آئی۔ دوپہر کی روٹی بھی ماسی نعمت  لے کر آئی تو وہ غصے سے پوچھ بیٹھا ‘‘مومل کہاں ہے؟’’
‘‘مومل کیا تیری زر خرید باندی ہے جو ہر وقت تیری روٹی لے کر آئے اور تیری خاطرداریکرے’’۔ 
‘‘ماسی ! مستوں کو مت چھیڑ’’۔ پرو نے چیخ کر کہا،  اس کی آنکھیں سرخ ہوگئیں۔  
‘‘یہ آنکھیں کسی اور کو دکھا، یہ بسنتی  مست تو دوسروں کے لیے ہوگا، میں خوب جانتی ہوں کہ تو کیسا مست فقیر ہے، مجھ سے زیادہ بکواس کی تو ابھی  بُرقعہ اُٹھاؤں گی  اور جس طرح محلے محلے جاکر تجھے مست بنایا ہے اسی طرح اب تیری ساری مستی نکال باہر کروں گی’’۔ 
‘‘پرو نے ایک دم روٹیوں کو  پھینک دیا ‘‘نکل جا یہاں سے’’۔ 
‘‘جارہی ہوں لیکن یہ بات یاد رکھنا کہ مومل اب شیرل کے نام ہوچکی ہے تو نے اب اگر اُس  کا نام بھی لیا تو مجھ سے  بُرا کوئی نہ ہوگا’’۔ 
پرو حیران ہوکر اُس کے منہ کو تکنے لگا.... کچھ دیر تو  وہ خاموش رہا  لیکن پھر جیسے اُسے جلال ساآگیا،  اُس نے سامان اُٹھا اُٹھا کر پھینکنا شروع کردیا۔  مستوں  کی طرح  وہ مست ہوگیا اور زور زور سے چیخا کہ ماسی نعمت خوف زدہ  ہوکر باہر بھاگ گئی۔ پرو آسمان کی طرف دیکھ کر زور زور سے پکارنے لگا۔ 
‘‘مولا! کہاں ہے؟’’ میرے مولا تو کہاں ہے؟’’ یہ کہتا ہوا وہ  جھنجھلاہٹ  میں باہر نکل آیا۔ آنگن میں آکر وہ اِدھر اُدھر دوڑنے لگا ‘‘ مولا دے دے، جل تھل کردے’’۔ 
ہلکی ہلکی خنگی کے دن تھے۔ سب برآمدے  میں نکل آئے۔  ماسی نعمت  ایک کونے میں جاکر کھڑی ہوگئی۔ پرو کی چاچی نے آگے بڑھ کر ماسی سے پوچھا‘‘ماسی یہ کیا کیا؟’’....
‘‘ میں نے نگوڑے کو کیاکیا، میں نے صرف یہ کہا تھا  کہ میری مومل کا نام نہ لینا’’۔ 
‘‘ماسی تجھے پہلے ہی منع کیا تھا کہ ابھی  یہ بات نہ کرنا لیکن تیرے پیٹ میں  بات کہاں ٹھہرتی ہے، اُدھر لڑکی کو بھی بند کردیا ہے جو مارے کرب کے روئے جارہی ہے اور اِدھر یہ طوفان برپا کردیا’’۔ 
‘‘طوفان کیسا ؟’’ بھلا بلکتا رہے،  بلک بلک کر خود ہی چپ ہوجائے گا، چلا ہے جل تھل کرانے، یہ کوئی برسات کا موسم ہے جو ابھی آسمان برسنے لگے گا’’۔ 
پرو نے چیختے چیختے  تھوڑی دیر کے لیے دم لیا اور آسمان کی طرف دیکھا۔  لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔  اچانک اس کے کانوں میں گونج سی سنائی دی۔ یہ آواز  بیچ والے کمرے کی حدوں اور برآمدے کو پار کرکے اُسے مست کر گئی۔  ‘‘ پرو، پرو’’۔
 ‘‘پرو کو ایسا محسوس ہوا جیسے چھوٹی مورنی  کُوکتی ہوئی اُسے پکار رہی ہو۔ اس کے ہاتھ بے ساختہ اوپر اُٹھ گئے اور  پھر وہ ہاتھوں کو پروں کی طرح ہلاکر گھمیریاں لیتا ہوا سیدھا بیچ والے کمرے تک جا پہنچا۔  دروازے پر تالا لگا ہوا تھا  لیکن اندر سے  یہی آواز آرہی تھی ‘‘پرو، پرو’’ اس نے زور سے تالے کو کھینچا، لیکن کھلا نہیں۔ اُس نے مستی میں دروازے کو ایک ٹکرے ماری، دوسری ٹکر ماری.... اس کے  لہو لہان چہرے پر مستی اور بے خودی کے آثار نمایاں تھے وہ اب صرف یہی کہے  جارہا تھا کہ  :
‘‘میرے مولا! کہاں ہے، دیکھ رہا ہے، اب بھی یہی کہتا ہے کہ نہیں بس مولا، اب جل تھل کردے، باغ و بہار کردے....’’ 
وہ خون بہاتا رہا ، ٹکریں مارتا رہا لیکن کوئی بھی ڈر کے مارے اس کے قریب نہیں گیا۔ کسی نے شیرل کو آگے بڑھنے  کے لیے ٹہوکا دیا لیکن وہ اپنی جگہ پر جمارہا اس کے چچیرے بھائی دور کھڑے تھے۔  پرو خون بہاتے بہاتے زمین پر گر گیا ، اسے اب  ایسا محسوس ہوا جیسے کمرے کے اندر بھی کوئی ٹکریں مار رہا ہے۔  اُس نے اُٹھنے کی کوشش کی لیکن اُٹھ نہ سکا ۔ اس کے خون کی بوندیں دھرتی میں جذب ہوتی گئیں۔  اب تو مانو لہو کی برکھا برس رہی تھی  کہ ایسے  میں یکایک  آسمان سے گڑگڑاہٹ کی آواز آئی، بجلیاں چمکنے لگیں۔ سب لوگ باہر بھاگے۔ کالی گھٹاؤں کی تیرگی سارے آسمان پر چھاگئی۔  ایک تو بادلوں کی گرج اور دوسرے بجلی کی کڑک، چار سو اندھیرا پھیل گیا۔ بجلی کی کڑک اور چمک نے دلوں کو ہلادیا۔  دیکھتے ہی دیکھتے  بڑی بڑی بوندیں  برسنے لگیں اور بارش بھی ایسی  بارش کہ بس آسمان سے چھاجوں پانی برسنے لگا۔ لگتا تھا جیسے کوئی چھاج  بھر بھر کے پانی پھینک رہا ہو۔ پرو کی  چاچی نے اپنے حواس یکجا کیے اور اُلٹے  پیروں لوٹتے ہوئے پرو کو پھلانگ کر دروازے کا تالا کھولا۔ پرو تو بے ہوش پڑا تھا۔ دروازہ کھلتے ہی چاچی جیسے بجھ سی گئی۔ مومل نے بھی دروازے کو ٹکریں مار مار کر خود کو لہولہان کردیا تھا۔ چاچی نے چیخ مار کر سب کو پُکارا۔ 
‘‘ارے ماں ! مرگئی.... ماسی، شیرل، گلو....!  ارے یہاں آؤ’’....
سب دوڑتے ہوئے آئے۔  مومل کو اُٹھا کر چار پائی پر لٹایا۔ کوئی سُرمہ لے کر آیا ۔ کوئی پٹیاں اور کوئی پانی.... مومل نے آنکھیں کھولتے ہی کہا  ‘‘پریل’’ سب کی نظریں  اس طرف اُٹھ گئیں جہاں پرو پڑا ہوا تھا۔ مومل اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے اُٹھ کر پرو کی طرف گئی ،   جُھک  کر اس کو دیکھا،  آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے لیکن ایک دم اپنے حواس پر قابو کرکے بولی :
‘‘ بھائی گلو! اس کو اُٹھاؤ’’.... پھر اس نے اپنے ہاتھوں سے پرو کے زخم صاف کیے ، اُن میں سُرمہ بھرا اور پھر اسی کے پاس بیٹھی رہی۔  
ماسی نعمت  پر شش و پنج  کی کیفیت طاری تھی اس نے سرگوشیوں  میں شیرل اور گلو سے کہا  کہ وہ پرو کو اُٹھا کر اس کے کمرے میں پھینک آئیں۔ مومل  نے یہ کانا پھوسی  سن لی ، اُس نے سر اُٹھا کر کہا :
‘‘ خبردار جو کسی نے پرو کو ہاتھ بھی لگایا۔ صرف اپنی خیر مانگو’’۔ 
عین اس  وقت  زور دار دھماکہ ہوا کسی نے برآمدے سے چیخ کر کہا ‘‘باورچی خانہ گرگیا’’ اُسی وقت دوسرا دھماکا ہوا، آواز آئی ‘‘ غسل خانہ بھی ڈھے گیا ’’ گھڑی بعد ایک اور دھماکہ ہوا ‘‘برآمدے  کا ایک حصہ بھی زمین پر آرہا’’۔ 
ان  دھماکوں سے خوفزدہ ہوکر  سب نے آکر کمرے میں پناہ لی۔ مومل پرو کو دیکھ رہی تھی جو اب ہوش میں آچکا تھا  اور آنکھوں  میں آنکھیں ڈال کر مومل کو دیکھ رہاتھا۔  تھوڑی دیر کے بعد وہ آہستہ سے اُٹھا۔ کھلے دروازے سے بجلی کی  چمک دیکھی، بارش کا شور سنا،  وہ فوراً چارپائی  چھوڑ کر کھڑا ہوگیا۔  مومل  نے اسے بازوؤں  سے پکڑا لیکن  وہ آگے بڑھتا گیا اور یہ کہتا گیا ‘‘ واہ میرے مولا، باغ و بہار کردیا، رنگ ہی رنگ کھلادیے، واہ میرے مولا’’۔ 
وہ ابھی برآمدے ہی میں تھا کہ پڑوس کے مکان سے دھماکہ کی آواز آئی.... شور، آہ و بکا.... اُس کے ساتھ ہی محلے میں اذانوں کی آوازیں آنے لگیں، مومل، پرو کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔
پریل اب بس،  رب کی ذات بے شک بڑی ہے، اب اس کا در کھڑکا پریل’’....
‘‘مومل! میرے مولا کی نظر میں سب بندے برابر ہیں.... آجا.... تو بھی میرے ساتھ اللہ کے حضور عاجزی سے عرض کر’’۔ 
دونوں بیچ آنگن میں بارش کی پناہ میں کھڑے تھے۔ مومل نے ہاتھ بلند کیے  :
‘‘مولا، اب بس، میرے مولا اب ہالار میں برسا، میرے مولا رحم’’.... کچھ دیر  تک وہ یوں عاجزی سے عرض کرتی رہی، گڑگڑاتی رہی اور پرو خاموش کھڑا رہا۔ بارش کا زور گھٹنے لگا.... کچھ ہی دیر میں بارش  بالکل تھم گئی۔  ابر چھٹ گیا اور آسمان پر تارے چمکنے لگے۔ پرو نے آہستہ سے مومل کا ہاتھ  تھاما اور مٹی کے نقشین چھلے کو گھماتے ہوئے کہا :
‘‘رانی  یہ سچ ہے کہ شادی محبت کی معراج نہیں.... لیکن اب برکھا بہار نہیں ہوگی، اب بسنت نہیں آئے گی، اب ملن کیسا، رہی جدائی  تو.... روحوں کے ملن میں جدائی کا تصور کیسامیریمحبوب’’.... 
پرو  آہستگی سے مومل کا ہاتھ چھوڑ کر آگے بڑھا اور ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر مومل کی طرف دیکھنے لگا جو بت بنی ساکت کھڑی تھی۔ چاروں طرف گھر کے سارے لوگ جمع ہوگئے۔  ماسی نعمت نے  صاف لہجے میں کہا  ‘‘اے ہے لوگو! کچھ اس کا خیال کرو، یہ اللہ والی معصوم لڑکی ہے، اس کی کرامت نہیں دیکھی’’ اسے لے جاکر  اندر کمرے میں بٹھاؤ، ایسے صاحبِ کرامت  اللہ والے لوگ برسوں میں پیدا ہوتے ہیں’’.... اسی اثناء میں پرو کنڈا کھول کر باہر نکل گیا ۔ اُسی وقت مومل  کو جیسے  ہوش آگیا  وہ چیخ کر پُکاری  ‘‘پریل ، پریل ’’....
پرو ڈیوڑھی کی دہلیز پھلانگ  کر ایسا گیا کہ پھر لوٹ کر نہ آیا۔ اب وہ سچ مچ کا بسنتی مست تھا۔ ایک کفنی نما چوغہ پہنچے کبھی کسی دکان پر،کبھی کسی دکان پر۔  کسی سے ریوڑیاں لیں کسی سے چنے ۔ یوں دوڑ بھاگ کرتے کرتے وہ یہی پکارتا جاتا  ‘‘ اب برکھا بہار نہیں ہوگی، اب بسنت نہیں آئے گی’’...
کوئی اگر اس سے بات کرتا تو وہ کھچڑی بالوں سے ڈھکے ہوئے ہونٹوں کو کھول کر کہتا  
‘‘ پیارے! شادی محبت کی معراج نہیں’’ کوئی دل جلا  فوراً پوچھ بیٹھتا :
‘‘بسنتی مست ! پھر محبت کی معراج کیا.ہے....؟’’
 ‘‘برکھا بہاروں اور برکھا کے متوالوں کی خیر’’۔ 
‘‘ لیکن تو تو یہ کہتا ہے  کہ  اب برکھا نہیں برسے گی، اب بسنت نہیں آئے گی۔ 
‘‘آنکھوں کی برکھا کو کس نے روکا ہے؟’’
پرو،  غلامو کی دکان پر بہت بیٹھتا تھا۔  غلامو سے اس کی گاڑھی چھنتی تھی ۔ رات کو اسی کی دکان کے تختے پر سوجاتا تھا، جاڑوں میں کمبل یا رلّی بھی نہیں لیتا تھا۔  دکان میں سے لی ہوئی دو تین پھٹی ہوئی بوریوں کو اوڑھ کر سوجاتا.... غلامو بھی گھائل تھا۔ اُس نے بھی محبت کی تھی  لیکن اس کے محبوب  نے اس سے بے وفائی کی.... اب جب  بھی وہ  سوزِ عشق کی جلن سے تڑپتا تو بے اختیار پریل سے پوچھ بیٹھتا۔ 
‘‘پریل ! دل کس سے لگائیں؟ اُن سے  جن میں وفانہیں’’۔ 
پرو اسے جواب دیتا ‘‘ میرے مولا کے غلام ، تو اس مولا کی دھرتی کا بھی غلام ہے، اس دھرتی سے دل لگا، یہ دھرتی بہت میٹھی ، بہت سوادی ہے’’ 
یہ کہہ کر وہ مٹی اُٹھا کر سر پر ڈالتا، منہ پر لگاتا اور گرد اُڑاتے ہوئے دوڑنے لگتا ۔
‘‘ واہ میرے مولا، بہاریں ہی بہاریں کردیں’’۔ 
اب تو واقعی مٹی کی برسات برسنے لگی تھی ، کئی موسم بیت گئے اور اب نیا موسم بھی خیر سے پورا ہونے کو تھا، بارش کا دور دور پتہ نہ تھا، چاروں طرف خشکی کا سمندر تھا جس میں سب جل رہے تھے، سلگ رہے تھے.... ندی نالے،  باؤلیاں ، تالاب، سب خشک ہوچکے تھے۔ ، پیڑ ، پتے ، چرند پرند، چوپائے مویشی کوئی اس سوکھے پن کا لطف نہ اُٹھاسکے،  کوئی دم دینے کو تھا تو کوئی دم دے چکا تھا۔ کھیت کھلیاں سب جل کر خاک ہوگئے، اب انسانوں کی باری تھی۔ 
سب پرو کی منت کرتے لیکن وہ پکار کر یہی کہتا جاتا ‘‘ اب برکھا بہاریں نہیں ہوں گی، اب بسنت نہیں آئے گی’’۔
 اور پھر وہ دوڑ لگاتا ہوا شاہوں کی درگاہ والے میدان میں جا پہنچتا، اُسے کوئی پہنچ نہ پاتا۔ آخرکار ایک دن غلامو نے اس سے کہا  :
‘‘پرو ایسا مت کر، بارش برسا’’۔ 
‘‘بارش برسانا میرے مولا کے اختیار میں ہے، پرو کی کیا طاقت ہے’’۔ 
‘‘ لیکن پرو، تیری دعا میں بڑی طاقت ہے، تو صرف دعا کے لیے ہاتھ اُٹھا، دیکھ ساری دھرتی سوکھ گئی ہے اب تو کنویں بھی خشک ہوچکے ہیں، صرف مارکیٹ والا کنواں باقی بچا ہے، وہ بھی کتنے دن؟ یہ دھرتی کچھ دن اور سوکھی رہی تو ہم سب سوکھ جائیںگے’’۔ 
پرو مسکرا دیتا اور کچھ خیال آنے پر یہ کہتا  ‘‘میرے مولا کے غلام، میرے مولا کی دھرتی کے غلام، اس دھرتی اور اس کے باسیوں کے سوکھ جانے میں کوئی شک باقی ہے کیا؟  لیکن یہ یاد رکھنا کہ دھرتی ہمیشہ دان چاہتی ہے، سمجھے؟ دھرتی دان چاہتی ہے’’۔ 
غلامو دان کا سن کر چونکا.... سب کو بلا کر یہ بات بتائی، پھر کیا تھا نذر ، نیازیں اور خیر خیراتیں شروع ہوگئیں  لیکن شاید اوپر سے قبول نہ ہوئیں یا ابھی دیر تھی۔ 
اب کی دفعہ غلامو پرو کے منہ در منہ ہوگیا اور غصہ سے بپھر کر کہا 
‘‘ تو مست بنا پھرتا ہے ، کیا خاک بسنتی مست ہے، تو اللہ والا ہے! تو تو صرف عاشق جیوڑا ہے۔ مومل کے عشق میں حیران، ارے اس دھرتی سے بھی کوئی عشق ہے تجھے ؟ دھرتی  دان چاہتی ہے.... تو تو یوں ہی خاک اُڑاتا ہے، بس اب مٹی ڈالے جا، مومل  تیری سُبکی کا سامان کررہی ہے سب لوگ مومل کو منا کر آئے ہیں وہ تجھ سے فقیری اور مستی میں کم نہیں، آج دعا مانگے گی ، پھر دیکھ میرا ربکیاکرتا ہے!’’
پرو کچھ دیر اچنبھے سے کھڑا رہا، پھر دوڑ لگا کر سیدھا اپنے گھر کی دیوڑھی تک جا پہنچا لیکن دہلیز پار نہیں کی۔ اندر  سے مومل کی آواز آئی ۔ پریل پکارا‘‘مولا دے دے، جل تھل کردے ’’ ایک ہی صدا میں مومل دوڑ کر ڈیوڑھی تک آگئی۔ پرو اسے پہنچان نہ سکا.... ہڈیوں کا ڈھانچہ ، کہاں وہ عنبریں چوٹیاں، کہاں وہ پناہ کا سایہ پلکیں، کہاں وہ عارض کے گلاب، کہاں وہ عطر و عنبر کی خوشبو.... وہ تو اس وقت خشک سوکھی دھرتی کو دیکھ رہا تھا۔ 
مومل اس کے سلونے چہرے کو  چیکٹ بھرے بالوں کے بادلوں میں دیکھ کر اور دُکھی ہوگئی، ایک صاف ستھرے آدمی کو گردو غبار کی تہوں سے اَٹا ہوا دیکھ کر اس کے  آنسو نکل آئے۔ وہ بوجھل قدموں سے اس کے قریب آگئی ۔ پرو نے آہستگی سے اُس کا ہاتھ تھاما، وہاں وہی مٹی کا نقشین چھلا اُنگلی میں پڑا ہوا تھا، اُس نے چھلے کو گھمایا اور کہا  :
‘‘رانی! اب برکھا برسے گی، بسنت آئے گی، سب کچھ چمک جائے گا، نکھر جائے گا۔ تو دل چھوٹا مت کر’’ اور پھر اس نے زور سے نعرہ لگایا ‘‘مولا  دے دے، جل تھل کردے’’۔ 
اس نے دیکھا کہ  ماسی نعمت نے آکر اس کے پاؤں پکڑ لیے تھے :
‘‘ بیٹا اب واپس نہ جانا، بس جو ہوگیا سو ہوگیا.... مومل آج بھی تیری ہے اور تیری ہی رہے گی، مجھ سے خطا ہوگئی’’۔ 
پرو نے آہستہ سے اپنے پاؤں چھڑا کر ماسی نعمت کو گھورتے ہوئے کہا :
‘‘ماسی’’ مستوں سے زیادہ چھیڑخانی کی تو تیرے شیرو کو خاک کردوں گا’’۔ 
‘‘ارے بیٹا! اس نے تو کچھ بھی نہیں کیا۔ اُس نے تو تیرے ڈر سے مومل سے شادی ہی نہیں کی’’۔ 
‘‘مومل سے شادی!’’ پرو یہ کہہ کر ہنس پڑا،  ہنستے ہنستے  اُس کے ہونٹ بھنچ گئے۔ 
‘‘ یہ مومل تھوڑے ہی ہے، یہ تو میری دھرتی  ہے، اس سے بیاہ کرنے کے لیے سرخ دولہا چاہیے، دھرتی کے لیے سر دینا آسان نہیں، دھرتی دان کے سوا، کسی کی نہیں، سمجھیں، ماسی ....؟’’
ماسی کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آیا، وہ خوف کے مارے پیچھے ہٹتے ہٹتے دیوار سے جالگی۔ 
پرو نے مسکراتے ہوئے مومل کا ہاتھ تھاما، چھلے کو پکڑ کر گھمایا اور صدائیں دیتا ہوا باہر نکل گیا :
‘‘مولا دے دے، جل تھل کردے’’ ....
جونہی وہ گلی پار کرکے دوسری طرف  گیا تو اس کی نظر رئیسوں والے باغ پر گئی جہاں خشک سالی کی وجہ سے بوٹے اور کونپلیں  تک جل چکی تھیں، درخت ایسے دکھائی دے رہے تھے جیسے کسی نے اُن کی چھٹائی کردی ہو، وہ آہستہ سے اُس فرش پر بیٹھ گیا جو کبھی اس کے لیے سبز کمخواب  کے فرش کی مانند تھا جس کی سبز گھاس پر وہ لوٹیں لگاتا تھا۔ آج وہ اُسی فرش پر زور زور سے پاؤں مارنے لگا جو اس وقت خشک میدان کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ جس کا ہر حصہ  سوکھ کر ٹھوس بن چکا تھا۔ کچھ ہی دیر میں وہاں گاؤں کے لوگ جمع ہوگئے۔ آس، اُمید اور تشنگی  اُن کے چہروں سے عیاں تھی لیکن دھرتی تو سوکھی تھی۔ 
اب پرو کے بسنتی مست ہونے میں لوگوں کا یقین متزلزل  ہونے لگا، پرو کی  زبان سوکھ چکی تھی ، وہ ناچ کود کر، چھلانگیں لگا لگا کر اور بازوں کو ہلا ہلاکر بےحال ہوچکا تھا، اس کا حلق سوکھ کر کانٹا ہوچکا تھا لیکن اس کی صداؤں میں کوئی کمی نہیں آئی۔ یہی صدا کہ میرے رب کی ذات بہت بڑی ہے، جب وہ راضی ہو’’.... پھر یکایک  پرو کو خدا جانے کیا ہوا کہ وہ اچانک پکار اُٹھا۔ 
میرے مولا تو منہ مت موڑنا، باقی یہ تیرا بندہ حاضر ہے’’ یہ کہہ کر پرو جھکا اور گھٹنوں کے بل بیٹھ کر زور زور سے زمین پر ٹکر مارنے لگا۔  برسوں کی پیاسی دھرتی سوکھ کر ٹھوس فولاد کی طرح ہوگئی تھی ۔ دوسری  ہی ٹکر میں  سر سے خون کی تیز دھاریں بہنے لگیں بس سوکھی دھرتی اس طرح لہو پی رہی تھی جیسے کوئی پیاسا اپنی پیاس بجھارہا ہو.... اور یوں پرو اپنے لہو سے دھرتی کو سیراب کرتا رہا۔  وہ اس  وقت تک زمین پر ٹکریں مارتا رہا جب تک ابر کی گڑگڑاہٹ سنائی نہ دی۔  جونہی بارش  کی پہلی بوندھ اس پر گری پرو نے اپنی بے نور آنکھیں  اُٹھا کر کہا۔ 
‘‘ واہ میرے مولا، رنگ ہی رنگ بکھیر دیے، باغ و بہار کردیا’’۔ 
اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اب اس کا لہو بھی برکھا پھوہار سے دھلتا جارہا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کے خون کی سرخی بارش کی دھاروں میں بہہ کر چاروں طرف پھیل گئی۔ کوئی دھارا کس طرف تھا اور کوئی کس طرف۔ خون کی سرخی سے پانی کی رعنائی  میں اور نکھار آگیا۔  دھرتی کی پیاسی رگیں اس سرخ پانی سے بھرتی جارہی تھیں.... سب  لوگوں نے یہ بھی دیکھا  کہ اوپر چڑھائی  پہ جہاں مومل رہتی تھی وہاں سے پانی کے جو دھارے بہتے ہوئے آرہے تھے اُن میں بھی وہی سرخی تھی۔ پانی کے ان دونوں دھاروں کا ایک جگہ سنگم ہوگیا وہاں سے جب پانی کا بہاؤ آگے گیا تو  ساری دھرتی  نے گویا سبز کمخواب  کی پوشاک پہن لی۔  کہتے  ہیں کہ جب بھی ہماری دھرتی سوکھ جاتی ہے تو کوئی نہ کوئی مست ضرور اسے اپنے لہو سے سینچتا ہے۔ نہ جانے کتنے مستوں نے اس  دھرتی کو اپنے لہو سے سیراب کیا ہے کہ اب  کبھی یہ زمین بنجر نہیں ہوتی۔ ہر سو ہر یالی ہی ہریالی نظر آتی ہے۔ ہمیشہ یہاں برکھا کی بہاریں ہوتی ہیں اور کبھی برسات کا موسم خالی نہیں جاتا۔ 


[مشمولہ:  ’’سوکھی دھرتی‘‘  (افسانوی مجموعہ) از  حمید سندھی ]

سندھی زبان کے معروف ادیب  اور کہانی کار

حمید سندھی۔1939ء تا  حال 


حمید سندھی  کا اصل نام عبدالحمید میمن تھا اور وہ 12 اکتوبر 1939ء کو نوشہروفیروز  کے ایک متوسط گھرانے میں  پیدا ہوئے تھے۔  ابتدائی  تعلیم کے بعد انہوں  نے بی اے اکنامکس (ایگریکلچر)، ایم اے  اکنامکس  اور مانچسٹر  یونیورسٹی یوکے سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔  آپ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور میرس میں بطور وائس چانسلر  خدمات انجام دی ، اس کے علاوہ آپ سندھی لینگویج اتھارٹی کے سربراہ اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ  میں چئیر مین بھی رہے ۔ ساتھ ہی سندھی زبان کے کئی ادراروں میں مختلف عہدے پر فائز رہے ۔  1990ء میں آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ فی الحال آپ پبلک اسکول لطیف آباد،  حیدرآباد میں چئیر مین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔   آپ نے معاشرتی مسائل کو مختلف  کہانیوں  کے روپ میں  ڈھالا ، آغاز کیا۔ان کی پہلی  کہانی ‘‘ڪارو رت’’ میں ماہنامہ مہران میں شایع ہوئی۔  1958ء میں انکی کہانیوں کا   پہلا مجموعہ ‘‘سيمي’’ شائع ہوا ۔ ان کی کہانیوں  کے دیگر  مجموعوں میں  ‘‘اداس واديون​’’ ،  ‘‘راڻا جي رجپوت’’، ‘‘ويريون’’، ‘‘جاڳ به تنهنجي جيءُ سان’’،   ‘‘درد وندي جو ديس’’، ‘‘سو مون سڀ ڄمار’’، خصوصاً قابل ذکر ہیں ۔   زیر نظر کہانی  سوکي ڌرتي اسی نام سے ان کی سندھی کہانیوں کے تراجم میں شایع ہوئی تھی۔  


ss

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں