عربی ادب کا ایک شاہکار افسانہ

بُڑھیا

مریم الساعدی کی یہ کہانی  السیدۃ العجوز ‘‘بوڑھی عورت’’کینیڈین نژاد مشتشرق ڈنیس جانسن ڈیویس کے مجموعہ In a Fertile Desert: Modern Writing from the United Arab Emirates میں  بھی شامل کی گئی ہے۔یہ کہانی قدیم اور جدید دنیا کے دعوں  اور حاصلات کی حقیقی تلاش سے عبارت ہے ،جہاں  ایک بوڑھی عورت اپنے جدید تہذیب یافتہ بچوں  کے لئے شرمندگی اور اضطراب کا باعث بن جاتی ہے۔




سب اسے ‘‘بڑھیا’’ کے نام ہی سے بلاتے تھے، یہاں  تک کہ اس کی اپنی اولاد بھی اسی نام سے پکارتی تھی۔وہ عمردراز عورت تھی …اگلے وقتوں  کی عورت۔ اس کے کپڑوں  میں  بکریوں  کی بو بسی رہتی تھی اور پرانے صندوق کا زنگ بھی……اس نے اس طرف کبھی دھیان ہی نہیں  دیا تھا کہ اس کو خوبصورت بھی نظر آنا چاہئے۔اس کی ظاہر ی حالت بد نما لگتی ہے یا یہ کہ خوشنما نہیں  لگتی… اس نے اس طرح کبھی سوچا ہی نہیں  تھا……بلکہ اسے تو اس بات ہی میں  شک تھا کہ اس کا اپنا کوئی ظاہر ہے بھی۔وہ ان عورتوں  میں  سے تھی جو زیادہ بچے پیدا کرتی ہیں ،اپنے شوہرں  کو اپنا چہرہ دکھائے بغیر ………کیونکہ چہرہ بھی تو عورت(چھپانے کی چیز) ہے۔وہ ان عورتوں  میں  سے تھی جو اپنے خاوند کو ان کے نام سے نہیں  پکارتیں ، ان کے لیے اتنا جاننا ہی کافی ہوتا ہے کہ وہ مرد ہیں  اوران کے خاوند …ان کے ذہن میں  ایک لمحہ کو بھی یہ خیال نہیں  گزرتا کہ اِس کے علاوہ بھی ان کی کوئی حیثیت ہے کہ وہ کسی کی بیویاں  ہیں  اور کسی کی مائیں  یا پھر نشانزد بکریوں  کے ریوڑ کی مالکن۔وہ  دیہی  علاقے میں  رہتی تھی،جہاں  تاحد نگاہ صحراء کا دامن پھیلاہوا تھا۔جہاں  ریت اور پیاس کے سوا کچھ نہ تھا…… اس کے خیمہ میں  چھوٹے چھوٹے بچے ہر دم دھماچوکڑی مچائے رکھتے تھے۔گلی گلیاروں  میں  چھاؤں  اترنے سے پہلے وہ بکریوں  کا دودھ نکال کر فارغ ہوجایا کرتی تھی۔اس کی روٹیوں  میں  چولہے کی راکھ کی بو ہوتی تھی …شام کے جھٹ پٹے میں  یہ اس کا دل پسند مشغلہ تھا، گرم، سخت اورباربار لوٹ کر آنے والے ہر دن کے بعد … نہیں  … یہ کچھ ایسا سخت بھی نہیں  تھااوربار بار لوٹ کربھی نہیں  آتاتھا…. یہ تو بس ایک ہی دن تھا ……صرف اور صرف ایک دن ……وہ صرف اتنا ہی جانتی تھی کہ سب دن ایسے ہی ہوتے ہیں …سخت اور گرم....  اس کی بکریاں  اس کی بیٹیوں  کی مانند تھیں  اوربکرے اس کے بیٹوں  کی طرح، جنہیں  وہ ان کے ناموں  سے جانتی تھی… رنگوں  سے بھی……اور شکلوں  سے بھی…وہ اس کے لئے اس کے اپنے بال بچوں  سے بھی زیادہ پیاری تھیں ۔ ان دنوں  اس کی مکمل شناخت اور تعارف یہ تھا کہ وہ ‘‘بیوی’’تھی۔اس کے بچوں  کو بھی اس کا نام تبھی معلوم ہوسکا جب انہیں  اس کی موت کے دستاویزات بنوانے کی ضرورت پیش آئی۔‘‘خاوند’’ سے اس کا تعلق بس بے نام سا ہی رہ گیاتھا۔زیادہ تر دونوں  کے درمیان اپنی اپنی بکریوں  کو لے کرچپقلش رہتی تھی لیکن آخر میں  اس کی حیثیت یہ تھی کہ وہ ایک ‘‘خاوند’’ تھااور اِس کی یہ، کہ یہ ایک ‘‘بیوی’’تھی۔دونوں  ایک دوسرے سے الگ نہ رہسکتے تھے۔
جب بچے بڑے ہوئے تو انہوں  نے اسے ایک ‘‘بڑھیا’’ کی حیثیت سے پہچانا۔‘‘خاوند’’ کی عرصہ ہوا موت ہو چکی تھی۔اب اس کے لیے ایک گھر کا ہونا ضروری تھا۔لڑکے سب کے سب بڑے ہو گئے تھے اور اتنی دور چلے گئے تھے کہ اس کے لیے ان کی خیر خبر لینا بھی آسان نہ تھا۔
بڑا بیٹافوج میں  اعلی عہدے پر تھا،اس سے چھوٹا محکمۂ پولس میں  بڑے منصب پرفائز تھا،منجھلاسرکاری ادارے میں  قابل قدر عہدے پرتھا،اس سے چھوٹا یونیورسٹی میں  استاد تھااور سب سے چھوٹا تعلیمی دورے پر گیا ہواتھا اور ابھی تک واپس نہیں  لوٹا تھا۔لڑکیاں  سب اپنے اپنے گھروں  کی ہوگئی تھیں ،وہ بھی عالیشان گھر وں  میں  تھیں ۔بڑھیانے اپنا خیمہ چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔
لوگ اس کے بیٹوں  کو نام دیتے تھے کہ وہ اپنی ماں  کی دیکھ بھال نہیں  رکھتے۔ان کے سامنے جب بھی اس کا ذکر آتا وہ پسینہ پسینہ ہوجاتے،انہیں  ہر دم یہ خیال ستاتا تھا کہ وہ اس سے کس طرح بری الذمہ ہو سکیں  گے اور بدنامی کے داغ کوکس طرح دھوسکیں  گے۔ وہ اس کو اپنے ساتھ رکھنے پر اصرار کرتے رہے،شہر ی زندگی کی آسائشیں  گنا گنا کر اسے رغبت دلاتے رہے.... ٹھنڈا پانی ،ایرکنڈیشن کمرے ، نرم بستراور عالی شان مکان …اورفرماں  برداربیٹے جواس کی برسوں  کی حرماں  نصیبی کا بدلہ چکائیں  گے …اور…اور اس کے اپنے پوتے پوتیاں  جو ہمیشہ اس کے اردگردہمکتے پھریں  گے…انہوں  نے یہ وعدہ بھی کیا تھاکہ وہ ہر ہفتہ گاؤں  جاکر اپنی بکریاں  دیکھ آیاکرےگی……
اور آخر کا ر وہ ان کی ترغیبات کے سامنے جھکگئی۔
سب سے بڑے بیٹے کا گھر ساکت تھا۔کمرہ بھی ساکت تھا، بستر بھی اوردرودیواربھی ساکت تھے…ٹھنڈے اور خاموش…یہاں  تو ہر شئے پر جیسے سکوت طاری تھا،اسے لگا کہ اس کی اپنی بھی آواز ختم ہوگئی ہے۔یہاں  اس کی بکریاں  بھی نہیں  آنے والی تھیں  کہ وہ ان کے ساتھ بات کرسکے،پوتے پوتیوں  کی تو وہ شکلیں  بھی نہیں  پہچان پائی تھی ،کیونکہ وہ سب مدرسے چلے گئے تھے۔اور پھر واپس نہیں  لوٹے تھے۔اسے خادمہ پر گمان ہوتا کہ وہ اس کی بہو ہے ،تاہم اس کو تعجب ہوتا تھا کہ وہ عربی کیوں  نہیں  جانتی۔
جب سردی بڑھ گئی تو اس نے دوسرے بیٹے کے گھرجانے کی خواہش ظاہر کی…اس کے بعدمنجھلے والے کے گھر....پھر چھوتھے اور پھرپانچویں  بیٹے کے گھر.... پھر بڑی بیٹی کے گھر ….پھر دوسری اور پھر تیسری بیٹی کے گھر……یہ سب گھر ایک جیسے تھے، ٹھنڈے اور خاموش…نہ حرکت نہ زندگی۔اس نے اپنی بکریوں  کے پاس جانا چاہا۔لیکن وہ سب ایک ایک کرکے مر چکی تھیں ۔وہ انہیں  ہفتے میں  ایک باردیکھ سکی ،نہ مہینے میں  اور نہ ہی سال بھر میں  جیسا کہ اس کے بیٹوں  نے وعدہ کیا تھا۔ایک بوڑھی عورت جس سے راستے میں  اچانک ملاقات ہو گئی تھی ، اس نے اس سے بتایا تھا کہ تمام بکریاں  مر گئی ہیں ۔ظاہر ہے کہ اسے یقین نہ ہوا،اسے خیال گزرا کہ بکریاں  اس نے چوری کرلی ہوں  گی۔ وہ خود جاکر تحقیق کرنا چاہتی تھی۔وہ روڈ پر نکل آئی…وہ اپنے خیمہ میں  جانا چاہتی تھی.... اپنی بکریوں  کے پاس.... لال والی بکری بچہ دینے والی تھی،وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ اس نے کیسا بچہ جنا ہے، بکرا یا بکری،ہو سکتا ہے کہ دو بچے جنے ہوں ،سرخ سرخ ، یا کالے کالے یا پھر بالکل سفید۔ ہو سکتا ہے دونوں  ہی رنگ کے ہوں ، ان کو دیکھنا ضروری تھا۔چھوٹی بکریوں  کوکئی طرح سے تکلیف پہونچتی ہے،بڑی بکریاں  بھی توجہ چاہتی ہیں ۔ وہ ایک عرصے سے ان سے دور ہے ،اس نے کچھ بھی تو نہیںدیکھاہے۔
اب لوٹنا ضروری ہے۔اس نے اپنا وہی پھٹا پرانا عَبا پہن لیا،وہ بکریوں  کو دیکھنا چاہتی تھی۔درمیان راستے میں  جب وہ لوگوں  کے ہجوم سے گزررہی تھی اس کی بیٹی کی پڑوسن نے پہچان لیا،اور اس کو اس کی بیٹی کے گھر لے گئی۔اس نے کہا:
‘‘یہ درمیان راستے میں  اس طرح کھڑی تھی جیسے ہوا کے دوش پر تنکا’’۔  پڑوس کے بچے زور زور سے ہنسنے لگے تھے۔وہ چڑانے  لگے
‘‘ایسے دکھ رہی تھی جیسے گپھاؤں  میں  رہنے والی ڈراونی چڑیل’’۔
جدید تہذیب کی پروردہ بہو نے اس کے کپڑوں  پر ایک طائرانہ نظر ڈالی، اس کے کپڑوں  میں  پیوند لگے ہوئے تھے اس کا عبا چھن چکا تھا۔
‘‘استغفراللہ....! تمہا ری ماں  کا تو پورابدن ہی نظر آرہا ہے، بڑھیا کو ذرا بھی شرم نہیں  آتی’’۔
اس کے متعلق ہر کسی کی مختلف رائے تھی، تاہم ایک بات سب کہتے تھے۔‘‘تو نے ہمیں  لوگوں  میں  رسوا کردیا۔اے بوڑھی عورت۔اللہ تجھے معافکرے’’۔ 
بڑھیا اپنے کمرے میں  آگئی جو مکان کے عقبی حصہ میں  تھا۔اس کی بہو نے نئے کپڑے لاکر دئے،اور بیٹے نے نئے جوتے،بیٹی نے ایک خوبصورت سا عبا لاکردیاجبکہ دوسرے بیٹے کی بیوی نے قسم قسم کے عطر اورایک عدد نیا برقع خرید کر دیا۔انہوں  نے خادمہ سے کہا کہ اس کو تازہ کھانا کھلائے،اس کے کمرے کی صفائی کرے اور سردی سے بچنے کا انتظام کرے،انہوں  نے اس کے لئے اصلی شہد بھی خرید کر دیا تاکہ اس کو پئے اور صحت مند دکھائی دے۔اس کے لیے ایک خاص خادمہ کا بھی انتظام کردیا گیا جو رات دن کے شش پہر اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔بڑھیا نے تمام چیزیں  پاس میں  پڑے خالی صندوق میں  ٹھونس دیں اور اپنے وہی پیوند لگے کپڑے اور پھٹے پرانے جوتے نکال لئے اور انہیں  سینے بیٹھ گئی۔اورعبا اپنے اسی پرانے صندوق میں  رکھ دیا ،جس میں  زنگ کی مہک، بکریوں اور پرانے خیمے کی بو اور اس کے خاوند کی خوشبو رچیبسیتھی۔
لوگوں  کو یقین ہوگیا کہ اس کے بیٹوں  نے اس کا خیال رکھنے میں  کوئی کمی نہیں  کی ہے، بڑھیا خود ہی پراگندہ طبیعت کی ہے۔جب لوگ اس طرح کے خیالات کا اظہار کرنے لگے تو اس کے بچوں  کو ذرا راحت کا احساس ہوااور دل کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔
بڑھیا اپنے کمرے میں  محصور ہوکر رہ گئی، اب وہ بہت کم ہی باہر نکلتی تھی،اس کی خلوت میں  اب کوئی مخل نہیں  ہوتاتھا سوائے اس خادمہ کے جو اس کے لئے کھانا لاتی تھی اور وہ اس کو ہر مرتبہ واپس کردیا کرتی تھی،اس نے ان کا کھانا کبھی نہیں  کھایا تھا۔
‘‘منحوس بڑھیا!!..... اللہ اس کے بچوں  کو صبر دے۔ ’’ خادمہ زیرلب بڑبڑاتی اور پیر پٹختی ہوئی کمرے سے نکل جاتی۔
‘‘بڑھیا کیا کھاتی ہے....؟’’ایک دفعہ اس کے بیٹے کو دوپہر کے کھانے پر خیال آیا تو اس نے خادمہ سے یونہی پوچھ لیا۔
‘‘سوکھا دودھ پیتی ہے اورسوکھی روٹیاں  کھاتی ہے جو اس کے بوسیدہ صندوق میں  جمع ہیں ’’۔
بیٹے نے تعجب خیز انداز میں  سر کوجنبش دی اور کھانے میں مصروف ہوگیا۔بہودل ہی دل میں  اللہ سے دعا مانگنے لگی، کہ اللہ اس کو اس عمر تک نہ پہونچائے کہ وہ اپنے بیٹوں  کے لئے عذاب بن جائے اور انہیں  عوام الناس میں  رسوا کرے۔
خادمہ نے بھی بڑھیا کے ساتھ سونا چھوڑدیا تھا، وہ ہر وقت بولتی رہتی تھی،نیند میں  بھی بڑبڑاتی تھی،معلوم نہیں  کیا کیا بکتی رہتی تھی،کبھی اپنی بکریوں  کو پکارتی ،کبھی اپنے خاوند کے ساتھ لڑتی جھگڑتی اور کبھی بچوں  کو آواز دینے لگتی تھی، کہ وہ شام ہونے سے پہلے پہلے گھر آجائیں ۔
بڑھیا اللہ کو پیاری ہوگئی۔تجہیز وتکفین کا سارا سامان تیار تھا،تعزیت گاہ کا دروازہ لوگوں  کے کھول دیا گیا تھا۔بہت سارے لوگ جمع ہوچکے تھے،بڑے بڑے گھرانوں  سے تعلق رکھنے والے بچوں  کے متعلقین ،پڑوسی،آفس کے ساتھی،پڑوس کی عورتیں ، سہیلیاں ، پوتیوں  کی سہیلیاں ،اورپوتوں  کے دوست بھی جو اب اپنے اپنے مدرسوں  سے واپس آچکے تھے۔ یہاں  تک کہ وہ بیٹا بھی جو تعلیمی دورے پر گیا ہوا تھالوٹ آیا تھاتاکہ اپنے بھائیوں  کے ساتھ مل کر وہ بھی میت میں  آنے والوں  کا استقبال کرسکے۔
‘‘اگر وہ والدہ کے دفن میں  شریک نہ ہواتولوگ ہمارا چہرا نوچ لیں  گے‘‘۔اس کے بھائیوں  نے سوچا……مگر ایسا کچھ بھی نہیں  ہوا……سب کچھ ٹھیک ٹھاک اور من مطابق ہوتارہا۔لوگوں  نے کسی کا بھی چہرا نہیں  نوچا۔اوربڑھیا کومنوں  مٹی کے نیچے بڑے اہتمام اور عزوشان کے ساتھ دفنا دیا گیا۔






[ترجمہ: ابو فہد ]

جدید عربی ادب کی نامور افسانہ  نگار اور مصنفہ

مریم الساعدی ۔1974ء تا حال 


مریم الساعدیMariam Alsaedi،  4 نومبر 1974ء  میں  متحدی عرب امارات ابو ظبی کے شہر العین میں  پیدا ہوئیں ،انہوں  نے جامعۃ الامارات سے انگریزی ادب میں  گریجویشن کیا۔اور شارجہ میں  امریکن یونیورسٹی سے شہری منصوبہ بندی میں  پوسٹ گریجویشن کیا اور اسکاٹ لینڈ میں  ابردین یونیورسٹی سے القدس مطالعات میں  بھی پوسٹ گریجویشن کیا۔وہ فی الحال شعبۂ ٹرانسپورٹ ابو ظبی سے وابستہ ہیں  ۔ یہی وہ وقت ہے جب ان کے ادبی سفرکا ارتقا ہوا۔  وہ ایک ابھرتی ہوئی ذی استعداد جواں  سال قلم کارکی حیثیت سے جانی جاتی ہیں ۔ اب تک ان کے دو افسانو ی مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ پہلا مجموعہ ‘‘مریم والحظ السعید‘‘(مریم اور خوش بختی)ہے جو 2009 ء میں  ابو ظہبی کلچر اینڈ ہیریٹیج اتھارٹی کی جانب سے قلم پراجیکٹ کے تحت شایع ہوا۔ اس کا ترجمہ جرمن زبان میں  بھی ہوچکا ہے۔ دوسرا مجموعہ ‘‘ابدو ذکیۃ’’(میں  اسمارٹ دکھتی ہوں ) 2009 ء  ہی میں  محمد بن راشد فاؤنڈیشن نے اکتب پراجیکٹ کے تحت شائع کیا۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں