پشتو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

بھیڑیا

میں جب ارد گرد دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔ میرے چاروں طرف بےشمار درخت ہیں۔ ہر درخت میں کسی نہ کسی شخص نے پناہ لے رکھی ہے اور اس کا بھیڑیا کھڑا غرا رہا ہے۔




بہت دیر سے میں نے ایک درخت میں پناہ لے رکھی ہے۔ میں اب تھک چکا ہوں اور میری یہ خواہش ہے کہ نیچے اتروں لیکن کمبخت بھیڑیا مجھے اترنے نہیں دیتا وہ نیچے کھڑا مجھے مسلسل خوفناک نظروں سے دیکھ رہا ہے اور اس انتظار میں ہے کہ میں کب اتروں گا اور وہ مجھے چیر پھاڑ کر کھا جائے گا۔
جس درخت پر اب میرا مسکن ہے۔ یہ ایک عجیب سا درخت ہے بلکہ اگر میں اسے جادو کا درخت کہوں تو بےجا نہ ہوگا۔ میں یہاں جو بھی خواہش کرتا ہوں وہ فوراً پوری ہوجاتی ہے اگر نرم اور گرم بستر کے بارے میں سوچوں تو وہ میرے قریب بچھ جاتا ہے۔ اکتا جاؤں تو میرے سامنے ایک شاندار ٹی وی سیٹ آجاتا ہے۔ جس کے اسٹیریو اسپیکرز ہوتے ہیں اور جو دنیا کا ہر اسٹیشن پکڑ سکتا ہے۔ اگر کسی بھی کھانے کے لیے میرا جی چاہے تو وہ فوراً حاضر ہوتا ہے۔ یہاں سب کچھ ہے ہر طرح کی آسائشیں ہیں لیکن یہاں جس چیز کی کمی ہے اور جس چیز کے لیے میں تڑپ رہا ہوں وہ ہے آزادی، لیکن یہ آزادی مجھ سے قربانی کا تقاضہ کرتی ہے اور قربانی، یہ کہ مجھے نیچے اترنا پڑے گا اور بھیڑیے کو ہلاک کرنا ہوگا لیکن مجھ میں اتنی جرأت  نہیں، میں بھیڑیے سے خوف زدہ ہوں اور وہ مجھ سے زیادہ طاقتور ہے۔
کبھی کبھی جب میں اس وقت کو یاد کرتا ہوں جب بھیڑیا میرا پیچھا کر رہا تھا تو میرا پسینہ چھوٹ جاتا ہے۔ ایک سنسنی سی جسم میں پھیل جاتی ہے دل ڈوبنے لگتا ہے تب میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اگر یہ درخت میرے سامنے نہ آتا اور مجھے پناہ نہ دیتا تو بھیڑیا کب کا مجھے ہلاک کر چکا ہوتا۔ 
مایوسی کے اس گھپ اندھیرے میں کبھی کبھار اس بات پر بھی خوش ہوجاتا ہوں کہ درخت کافی اونچا ہے میں یہاں ہر طرح سے محفوظ ہوں اور بھیڑیا میرا کچھ نہیں بگاڑ.سکتا۔
دن کے وقت تو میری حالت ٹھیک رہتی ہے کوئی نہ کوئی مصروفیت نکل آتی ہے لیکن جونہی رات ہوتی ہے ایک عجیب سی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سوجاتا ہوں تو خوفناک خواب مجھے ڈراتے ہیں۔ ایک قیامت سی مجھ پر گزرتی ہے، تمام جسم تھکا ہوتا ہے اور ایک ایک انگ یوں دکھ رہا ہوتا ہے جیسے کسی نے چابک سے مجھے سخت مارا ہو۔
اکثر میں یہ سوچتا ہوں کہ میں کب تک اس عذاب میں مبتلا رہوں گا۔ کب تک انتظار کروں گا کہ بھیڑیا بھوک سے مرجائے لیکن وہ بجائے مرنے کے پہلے سے زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے۔
ایک صبح جب میری آنکھ کھلتی ہے تو اچانک درخت کے گھنے پتوں سے مجھے کسی اور کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ خوف سے ایک تیز سی چیخ میرے منہ سے نکلتی ہے اور مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ بھیڑیا بالآخر اپنی کوشش میں کامیاب ہو ہی گیا پھر میری حیرت کی انتہا نہیں رہتی۔ جب مجھے پتہ چلتا ہے کہ وہ میرے ہی جیسا ایک شخص ہے پریشان اور گھبرایا ہوا۔ اس اجنبی نے درخت پر ایک اور بھیڑے کے خوف سے پناہ لے رکھی ہے۔ اس کا بھیڑیا بھی نیچے کھڑا غرا رہا ہے۔ درخت پر  پنجے گاڑ رہا ہے لیکن تمام کوششوں کے باوجود اونچے درخت پر چڑھ نہیں پاتا۔
ہم دونوں لوگ ہیں جو اپنے اپنے بھیڑیوں سے خوفزدہ ہیں باوجود یہ کہ درخت میں ہمارے لیے ہر طرح کی آسائشیں موجود ہیں لیکن ہم ان آسائشوں سے خوش نہیں جبر اور اکتاہٹ کا احساس دن بدن ہمیں کھائے جا رہا ہے،  اب تو ہمیں رات کو  نیند بھی نہیں آتی جونہی آنکھ لگتی ہے بھیڑیے کا خوفناک چہرہ ہمیں دوبارہ جگا دیتا ہے۔ کمبخت اب ہمارے خوابوں میں بھی گھس گیا ہے وہ ہمیں یہاں سکون سے رہنے نہیں دیتا۔
ہم دونوں کے بھیڑیے اکثر اپنی جگہ خاموش بیٹھے رہتے ہیں لیکن کبھی کبھی ان دونوں پر ایسا جنون سوار ہوجاتا ہے کہ وہ درخت پر حملہ کردیتے ہیں اس کے موٹے تنے پر دانت اور پنجے گاڑ دیتے ہیں اور اس وقت خوفناک سی غراہٹ ہوتی ہے۔ 
دونوں کی بھیڑیوں کا یہ اچانک کا باؤلا پن ہمیں مزید ڈرا دیتا ہے۔ لیکن ایک بات یہ ہے ہم دونوں کے بھیڑیوں کا تعلق اپنے اپنے آدمی سے ہے۔ میرے ساتھی کا بھیڑیا مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا اور میرا بھیڑیا اس سے،  خاص بات یہ ہے کہ دونوں بھیڑیے بھی ایک دوسرے سے لاتعلق رہتے ہیں اور ہم اس بات سے حیران ہوتے ہیں۔
ایک دن کافی سوچ بچار کے بعد ہم دونوں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ہم دونوں نیچے اتریں گے اور اپنے اپنے بھیڑیے سے مقابلہ کریں گے، جو بھی ہوگا دیکھا جائے گا ورنہ یہ عذاب کی زندگی کب تک ہم گزاریں گے تب ہم دونوں آنکھیں بند کرکے نیچے کودنے کا ارادہ کرتے ہیں میرا ساتھی تو کود جاتا ہے مگر میں اپنی بزدلی کے باعث ایسا نہیں کر پاتا اور اپنی جگہ بیٹھا رہجاتاہوں۔
اس کا بھیڑیا جونہی اسے نیچے دیکھتا ہے تو فوراً اس کی طرف لپکتا ہے اور اس پر حملہ آور ہوتا ہے۔ میرا بھیڑیا بھی خبردار ہوجاتا ہے اور اس کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن جب میں نیچے نہیں اترتا تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہوجاتا ہے اور پاگلوں کی طرح درخت کےموٹے تنے کے ساتھ لڑنا شروع کردیتا ہے اس سے بیشتر کہ میرے ساتھی کا بھیڑیا اسے زمین پر گرائے وہ اس چھوٹی سی شاخ سے بھیڑیے کو مارتا ہے جو اس نے  درخت سے توڑی ہوتی ہے۔ اس کا بھیڑیااسی وقت زمین پر گرتا ہے اور چند ہی لمحوں میں مرجاتا ہے۔
میرا ساتھی  اب آزاد ہے۔ اس نے اپنی بہادری سے آزادی حاصل کرلی۔ لیکن میں اب تک اس پرانے  عذاب میں مبتلا ہوں اور خود کو کوس رہا ہوں۔ میرا بھیڑیا اب پہلے سے زیاددہ خوفناک ہوجاتا ہے۔ وہ حبشی بن چکا ہے اور ہر وقت درخت سے ٹکراتا رہتا ہے شاید اس کا یہ خیال ہے کہ اس طرح میں درخت سے نیچے گر پڑوں گا یا درخت ٹوٹ جائے گا۔ مگر میں نے ہر وقت درخت کی شاخوں کو مضبوطی سے پکڑا ہوتا ہے اور مارے خوف کے میرا جسم پسینے میں ڈوبا ہوتا ہے دن ہو یا رات میں مسلسل بھیڑیے کو بددعائیں بھی دیتا ہوں لیکن وہ کمبخت ہے کہ باز نہیں.آتا۔
میرا ساتھی مسلسل مجھے آوازیں دیتا ہے۔ وہ قسمیں کھاتا ہے۔
‘‘اگر تم نیچے اترو تو بھیڑیا تمہارا کچھ نہیں بگاڑے گا وہ بہت کمزور ہے تم اسے آسانی سے مار سکتے ہو۔’’
لیکن مجھے اس کی بات پر یقین نہیں اور اوپر کھڑا خوف سے کانپ رہا ہوتا ہوں۔ اب چند ایسے واقعات شروع ہوجاتے ہیں کہ مجھے یہ یقین ہوجاتا ہے کہ میں بالآخر مرجاؤں گا۔ 
اچانک درخت میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ میں فوراً نیچے دیکھتا ہوں کہ بھیڑیے نے اسے بلایا تو نہیں لیکن بھیڑیا اپنی جگہ لیٹا ہوتا ہے۔ 
یہ کیا....؟ 
میں چیخ اٹھتا ہوں درخت لمحہ بہ لمحہ چھوٹا ہو رہا ہے میں مارے گھبراہٹ کے درخت کی موٹی شاخوں پر زور زور سے اچھلتا ہوں کہ ہوسکتا ہے اس طرح سے درخت رک جائے لیکن درخت نہیں رکتا اور چھوٹا ہوتا جاتا ہے۔ 
اب ایک دوسری چیز مجھے مزید خوف زدہ کرتی ہے۔ بھیڑیا بھی بڑا ہو رہا ہے اور تھوڑی دیر میں ایک بیل جتنا بڑا ہوجاتا ہے۔ 
میں چیختا ہوں چلاتا ہوں۔ درخت کے اندر ادھر ادھر بھاگتا ہوں لیکن بےسود اب میں خود کو ذہنی طور پر موت کے لیے تیار کرلیتا ہوں اور ارد گرد کی تمام چیزوں کو الوداعی نظروں سے دیکھتا ہوں۔ بھیڑیا اور میں۔ لمحہ.بہ لمحہ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔
میرا ذہن اب بالکل ماؤف ہے۔ میری آنکھیں بند ہیں اور میں پھانسی چڑھنے والے اس مجرم کی طرح موت کو خوش آمدید کہہ رہا ہوں جس کی گردن میں رسی کا پھندا ڈالا جا چکا ہے اور جو اب اس انتظار میں ہے کہ جلّاد کب لیور کھینچے گا۔ میں اس وقت اگر کوئی آوازیں سن رہا ہوں تو وہ صرف میرے ساتھی کی ہیں۔ جو نیچے سے دے رہا ہے کہ خدارا نیچے اترو۔ تم بھیڑیے سے زیادہ طاقتور ہو۔ بھیڑیا یونہی ایک خوف ہے۔ روئی کا ایک پہاڑ ہے جسے تم ایک ہی ٹھوکر سے اپنے راستے سے ہٹا سکتے ہو۔
بالآخر میں ہمت کرتا ہوں اور درخت سے نیچے کودتا ہوں۔ میرا بھیڑیا یونہی اپنے سامنے پاتا ہے۔ مجھ پر حملہ کردیتا ہے لیکن بیشتر اس کے کہ وہ مجھے ہلاک کردے میں اسے ایک اس پتلی اور نازک سی شاخ سے مارتا ہوں جو میں نے درخت سے توڑی ہوتی ہے ہاتھی جیسا بڑا بھیڑیا دھڑام سے نیچے گرتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مرجا تا ہے۔
اب میں آزاد ہوں۔ 
کتنی حسین ہے آزادی کتنا خوبصورت ہے اس کا احساس۔ میں خوشی سے چیخ اٹھتا ہوں رقص کرتا ہوں۔ دیوانوں کی طرح اچھلتا ہوں۔
 کچھ دیر کے بعد جب میرا جوش کچھ کم ہوجاتا ہے تو اپنے ساتھی کی طرف دیکھتا ہوں تاکہ اس کا شکریہ ادا کروں لیکن میرا ساتھی اپنی جگہ موجود نہیں ہوتا۔  میں جب ارد گرد دیکھتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔ میرے چاروں طرف بےشمار درخت ہیں۔ ہر درخت میں کسی نہ کسی شخص نے پناہ لے رکھی ہے اور اس کا بھیڑیا کھڑا غرا رہا ہے۔
اب میں زور زور سے ہنستا ہوں۔ قہقہے لگاتا ہوں اور ان سادہ اور معصوم لوگوں کی طرف بڑھتا ہوں جو ناحق اپنے بھیڑیوں سے خوف زدہ ہیں۔

[بھیڑیا ۔ از :فاروق سرور،  کتاب:‘‘ندی کی پیاس’’ تھرڈ ورتھ پبلی کیشنز،کوئٹہ  1994ء،ص 24]


پشتو ادب کے افسانہ نگار

فاروق سرور

فاروق سرور کا تعلق بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے ہے۔    آپ پیشہ سے وکیل ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف اور اخبارات میں کالم نگار بھی ہیں۔ آپ کا شمار پشتو زبان کے معروف فکشن لکھاریوں میں ہوتا ہے۔ اب تک آپ  کے تین مجموعے پشتو زبان میں چھپ چکے ہیں ، جن میں ایک مجموعہ پشتو افسانوں کے اُردو تراجم کی شکل میں ‘‘ندی کی پیاس’’ کے عنوان سے شایع ہوا ہے۔  اسی مجموعہ میں شامل افسانہ ‘‘بھیڑیا’’ قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔ 
فاروق سرور کے افسانوں  علامتی رنگ غالب ہوتا ہے۔ عہد کی نارسائی، ماحول کا جبر اور اندر کا خوف ان کے افسانوں میں کئی علامتوں کو ساخت کرتا ہے۔  اپنے مخصوص علامتی ٹریٹمنٹ کی وجہ سے فاروق سرور کا ناول اور افسانے وہ تخلیقی رچاؤ بھی حاصل کرنے میں کام یاب ٹھہرتے ہیں جو اس نوع کے فکشن میں عموماً دست یاب نہیں ۔   فاروق سرور نے  اپنے اس افسانے میں مکمل فنی چابک دستی سے خوف  کے اثرات کو سمیٹا ہے۔ 

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں