انتظار حسین کا افسانہ ‘‘زرد کتا’’ اخلاقی اور تہذیبی زوال کی نشاندہی کررہا ہے۔ اس افسانے میں زرد کتا اور لومڑی کا بچہ دونوں نفسِ امارہ کی علامت ہیں ۔ نفس  امارہ  انسان کو گمراہی پر اُکساتا ہے ۔ جتنا اُسے روکا جاتا ہے اتنا وہ اچھلتا ہے ۔ یہ افسانہ شروع میں مشکل لگے گا،  لیکن رفتہ رفتہ اپنے سحر میں لیتا جائے گا!!


اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

زرد کُتّا




صفحات 1 2 3

’’ایک چیز لومڑی کا بچہ ایسی اس کے منہ سے نکل پڑی اس نے اسے دیکھا اورپاؤں کے نیچے ڈال کر روندنے لگا، مگر وہ جتنا روندتا تھا اتناوہ بچہ بڑا ہوتاجاتاتھا‘‘۔ 
جب آپ یہ واقعہ بیان فرما چکے تھے تو میں نے سوال کیا؟
’’یا شیخ....! لومڑی کے بچہ کا رمز کیا ہے اور اس کے روندے جانے سے بڑے ہونے میں کیا بھید مخفیہے....؟ ‘‘ 
تب شیخ عثمان کبوتر نے ارشاد فرمایا ’’لومڑی کا بچہ تیرا نفس امارہ ہے۔ تیرا نفس امارہ جتنا روندا جائے گا موٹا ہوگا‘‘۔ 
میں نے عرض کیا: ’’یا شیخ اجازت ہے....؟‘‘
فرمایا اجازت ملی، اور پھر وہ اڑ کر املی کے پیڑ پر جابیٹھے۔  میں نے وضو کیا اور قلمدان اور کاغذ لے کر بیٹھا۔ 
اے ناظرین! یہ ذکر میں بائیں ہاتھ سے قلمبند کرتا ہوں کہ میرا دایاں ہاتھ دشمن سے مل گیا اور وہ لکھنا چاہا جس سے میں پناہ مانگتا ہوں اور شیخ ہاتھ سے پناہ مانگتے تھے اور اسے کہ آدمی کا رفیق و مددگار ہے، آدمی کا دشمن کہتے تھے۔ میں نے ایک روز یہ بیان سن کر عرض کیا: ’’یا شیخ تفسیر کی جائے۔ تب آپ نے شیخ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ سنایا جو درج ذیل کرتا ہوں۔
شیخ ابوسعید رحمۃ اللہ علیہ کے گھر میں تیسرا فاقہ تھا، ان کی زوجہ سے ضبط نہ ہو سکا اور انہوں نے شکایت کی۔ تب شیخ ابوسعید باہر نکلے اور سوال کیا۔ سوال پر جو انہوں نے پایا وہ لے کر اٹھتے تھے کہ کوتوالی والوں نے انہیں جیب تراشی کے جرم میں گرفتار کر لیا اور سزا کے طور پر ایک ہاتھ قلم کر دیا۔ آپ وہ ترشا ہوا ہاتھ اٹھا کر گھر لے آئے۔ اسے سامنے رکھ کر رویا کرتے تھے کہ اے ہاتھ تونے طمع کی اور تونے سوا کیا، سو تو نے اپناانجام دیکھا‘‘۔
یہ قصہ سن کر میں عرض پرداز ہوا۔ 
’’یا شیخ اجازت ہے....؟‘‘
اس پر آپ خاموش ہوئے، پھر فرمایا۔
’’اے ابوقاسم خضری لفظ کلمہ ہیں اور لکھنا عبادت ہے۔ پس وضو کر کے دو زانو بیٹھ اور جیسا سنا ویسا رقم کر‘‘۔  پھر آپ نے کلام پاک کی یہ آیت تلاوت کی۔
ترجمہ ’’پس افسوس ہے ان کے لئے بوجہ اس کے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور افسوس ہے، ان کے لئے بوجہ اس کے جو کچھ وہ اس سے کماتے ہیں‘‘ ۔ اور یہ آیت پڑھ کر آپ ملول ہوئے۔ 
میں نے سوال کیا۔’’یا شیخ! یہ آیت آپ نے کیوں پڑھی؟ اور پڑھ کر ملول کس باعث ہوئے؟‘‘
اس پر آپ نے آہ سرد بھری اور احمد حجری کا قصہ سنایا جو من و عن نقل کرتا ہوں۔
’’احمد حجری اپنے وقت کے بزرگ شاعر تھے مگر ایک دفعہ ایسا ہوا کہ شہر میں شاعر بہت ہو گئے۔ امتیاز ناقص و کامل مٹ گیا اور ہر شاعر خاقانی اور انوری بننے لگا۔ قصیدہ لکھنے لگا۔ احمد حجری نے یہ حال دیکھ کر شعر گوئی ترک کی اور شراب بیچنی شروع کر دی۔ ایک گدھا خریدا کہ شراب کے گھڑے اس پر لاد کر بازارجاتے تھے اور انہیں فروخت کرتے تھے۔لوگوں نے بہت انگلیاں اٹھائیں کہ احمد گمراہ ہوا، کلام پاکیزہ سے گزر کر شراب کا سوداگر ہوا۔ انہوں نے لوگوں کے کہنے پر مطلق کان نہ دھرااور اپنے مشغلے سے لگے رہے۔ مگر ایک روز ایسا ہوا کہ گدھا ایک موڑ پر آکر اڑ گیا۔ انہوں نے اسے چابک رسید کیا تو اس گدھے نے انہیں مڑ کردیکھا اور ایک شعر پڑھا، جس میں تجنیس لفظی استعمال ہوئی تھی اور مضمون یہ تھا کہ میں دوراہے پر کھڑا ہوں۔ احمد کہتا ہے چل، احمد کہتا ہے مت چل، احمد حجری نے یہ سن کر اپنا گریبان پھاڑ ڈالا اور آہ کھینچ کر کہا کہ اس زمانے کا برا ہو کہ گدھے کلام کرنے لگے اور احمد حجری کی زبان کو تالا لگ گیا۔ پھر انہوں نے گدھے کو آزاد کر کے شہر کی سمت ہنکا دیااور خود پہاڑوں میں نکل گئے۔ وہاں عالم دیوانگی میں درختوں کو خطاب کر کے شعر کہتے تھے اور ناخن سے پتھروں پر کندہ کرتےتھے‘‘۔
یہ واقعہ سنا کر شیخ خاموش ہوگئے اور دیر تک سرنیوڑہائے بیٹھے رہے پھر میں نے عرض کیا۔
’’یا شیخ آیا درخت کلام سماعت کرتے ہیں۔ در آنحالیکہ وہ بے جان ہیں‘‘۔ آپ نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ پھر فرمایا۔
’’زبان کلام کے بغیر نہیں رہتی۔ کلام سامع کے بغیر نہیں رہتا۔  کلام جاری رہے تو جو سامع سے محروم ہیں انہیں سامع مل جاتا ہے کہ کلام سامع کے بغیر نہیں رہتا‘‘۔ پھر شیخ نے سید علی الجزائری کا قصہ بیان فرمایا۔ملاحظہ ہو۔
’’سید علی الجزائری اپنے زمانہ کے نامی گرامی شعلہ نفس خطیب تھے۔ پر ایک زمانہ ایسا آیا کہ انہوں نے خطاب کرنا یکسر ترک کر دیا اور زبان کو تالا دے لیا۔ تب لوگوں میں بے چینی ہوئی۔ بے چینی بڑھی تو لوگ ان کی خدمت میں عرض پرداز ہوئے کہ خدارا خطاب فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا ہمارا منبر قبرستان میں رکھا جائے۔ اس نرالی ہدایت پر لوگ متعجب ہوئے۔ خیر....! منبر قبرستان میں رکھ دیا گیا۔ وہ قبرستان میں گئے اور منبر پر چڑھ کر ایک بلیغ خطبہ دیا۔ اس کا عجب اثر ہوا کہ قبروں سے صدا بلند ہوئی۔ تب سید علی الجزائری نے آبادی کی طرف رُخ کر کے گلو گیر آواز میں کہا۔ 
اے شہر تجھ پر خدا کی رحمت ہو۔ تیرے جیتے لوگ بہرے ہوگئے اور تیرے مردوں کو سماعتملگئی۔ 
یہ فرما کر وہ اس قدر روئے کہ ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی اور اس کے بعد انہوں نے بستی سے کنارہ کیا اور قبرستان میں رہنے لگے، جہاں وہ مردوں کو خطبہ دیا کرتے تھے‘‘۔
یہ قصہ سن کر میں نے استفسار کیا۔
’’یا شیخ زندوں کی سماعت کب ختم ہوتی ہے اور مردوں کو کب کان ملتے ہیں؟‘‘ اس پر آپ نے ٹھنڈا سانس بھرا اور فرمایا۔
’’یہ اسرار الٰہی ہیں۔ بندوں کو راز فاش کرنے کا اذن نہیں‘‘۔ پھر وہ پھڑ پھڑا کر اڑ ے اور املی کے درخت پہ جا بیٹھے۔ 
جاننا چاہئے کہ شیخ عثمان کبوتر پرندوں کی طرح اڑا کرتے تھے اور اس گھر میں ایک املی کا پیڑ تھا کہ جاڑے، گرمی، برسات، شیخ اسی کے سائے میں محفل ذکر کرتے۔  چھت کے نیچے بیٹھنے سے حرز تھا۔ فرمایا کرتےتھے :
ایک چھت کے نیچے دم گھٹا جاتا ہے، دوسری چھت برداشت کرنے کے لئے کہاں سے تابلائیں....؟ 
 یہ سن کر سید رضی پر وجد طاری ہوا اور اس نے اپنا گھر منہدم کر دیا اور ٹاٹ پہن کر املی کے نیچے آپڑا۔ 
سید رضی، ابومسلم بغدادی، شیخ حمزہ، ابو جعفر شیرازی، حبیب بن یحییٰ ترمذی اور یہ بندہ حقیر، شیخ کے مریدان فقیر تھے۔ میرے سوا باقی پانچوں مردان باصفا تھے اور فقروقلندری ان کا مسلک تھا۔ شیخ حمزہ تجرد کی زندگی بسر کرتے تھے اور بے چھت کے مکان میںرہتے تھے۔ 
ابومسلم بغدادی صاحب مرتبہ باپ کا بیٹا تھا۔ پھر گھر چھوڑ کر باپ سے ترک تعلق کر کے یہاں آبیٹھا تھا اور کہا کرتا تھا کہ مرتبہ حقیقت کا حجاب ہے اور ابوجعفر شیرازی نے ایک روز ذکر میں اپنا لباس تار تار کر دیا اور چٹائی کو نذر آتش کر دیا۔ اس نے کہا کہ چٹائی مٹی اور مٹی کے درمیان فاصلہ ہے اور لباس مٹی کو مٹی پر فوقیت دیتا ہے اور اس روز سے وہ ننگ دھڑنگ خاک پر بسیرا کرتا تھا اور ہمارے شیخ کہ خاک ان کی مسند اور اینٹ ان کا تکیہ تھی۔ املی کے تنے کے سہارے بیٹھتے تھے اور اس عالم سفلی سے بلند ہوگئے تھے۔ ذکر کرتے کرتے اڑتے، کبھی دیوار پر کبھی املی پر جا بیٹھتے، کبھی اونچا اڑ جاتے اور فضا میں کھو جاتے۔ میں نے ایک روز استفسارکیا:
’’یا شیخ قوت پرواز آپ کو کیسے حاصل ہوئی....؟ ‘‘
فرمایا: ’’عثمان نے طمع دنیا سے منہ موڑ لیا اور پستی سے اوپر اٹھ گیا‘‘۔ 
عرض کیا: ’’یا شیخ طمع دنیا کیا ہے؟‘‘
فرمایا : ’’دنیا تیرا نفس ہے‘‘۔ 
عرض کیا: ’’نفس کیا ہے؟ ‘‘
اس پر آپ نے یہ قصہ سنایا:
’’شیخ ابوالعباس اشقانی ایک روز گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا ایک زرد کتا ان کے بستر میں سو رہا ہے انہوں نے قیاس کیا کہ شاید محلہ کا کوئی کتا اندر گھس آیا ہے۔ انہوں نے اسے نکالنے کا ارادہ کیا مگر وہ ان کے دامن میں گھس کر غائب ہو گیا‘‘۔
میں یہ سن کر عرض پرداز ہوا۔
’’یا شیخ زرد کتا کیا ہے؟ ‘‘

صفحات 1 2 3

صاحب طرز ادیب، ناول نگار اور مصنف

انتظار  حسین ۔1923ء تا 2016ء


اردو  زبان کے صاحب طرز ادیب، ناول نگار، افسانہ نویس  اور مصنف انتظارحسین  7 دسمبر 1923ء  کو ہندوستان کے  شہر میرٹھ کے ایک گاؤں ڈبائی  میں پیدا ہوئے۔  میرٹھ کالج سے بی اے کیا۔ مشقِ سخن آپ نے نوعمری سے ہی شروع کردی تھی ۔  قیام پاکستان کے بعد 20 سال کی عمر میں محمد حسن عسکری کے کہنے پر لاہور آگئے اور پھر ساری عمر یہیں مقیم رہے۔  پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کرنے کے بعد انتظار حسین  صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوگئے اور  افسانہ نگاری اور ناول نویسی میں نئی راہیں متعین کیں۔ پہلا افسانوی مجموعہ ‘‘گلی کوچے’’ 1953ء میں شائع ہوا۔   روزنامہ مشرق میں طویل عرصے تک چھپنے والے کالم ‘‘لاہور نامہ’’ کو بہت شہرت ملی۔ اس کے علاوہ ریڈیو میں بھی کالم نگاری کرتے رہے۔  انتظار حسین کا شمار اُردو کے رجحان ساز افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے علامتی واساطیری افسانے کے سفر میں تہذیبی شعور سے روشنی حاصل کر کے اس صنف کو نئے امکانات سے روشناس کیا۔ انتظار حسین کے افسانوی مجموعوں ’’گلی کوچے‘‘، ’’کنکری‘‘، ’’آخری آدمی‘‘، ’’شہر افسوس‘‘، ’’کچھوے‘‘ اور ’’خالی پنجرہ‘‘ کو اُردو افسانوی ادب میں وقار اور اعتبار حاصل ہے اور پاکستانی افسانے کی شناخت متعین کرتے ہوئے انتظار حسین کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔  انتظار حسین کے افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول، آپ بیتی کی دو جلدیں، ایک ناولٹ شائع ہوئے۔اس کے علاوہ انھوں نے تراجم بھی کیے ہیں اور سفر نامے بھی لکھے۔ان کے اردو کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہو چکے ہیں اور وہ انگریزی میں بھی کالم لکھتے رہے۔ 


اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں