روسی ادب سے لیو ٹالسٹائی کا ایک شاہکار افسانہ

دو گز زمین

انسان ارد گرد منڈلاتی اپنی رنگ برنگ تمناؤں کی تتلیاں مٹھی میں لینے کے لیے بڑی تگ و دو کرتا ہے مگر....


Много ли человеку земли  нужно?  نامی   یہ  روسی کہانی عالمی شہرت یافتہ ادیب لیوٹالسٹائی  نے 1886 میں لکھی تھی،  اس کہانی  کا دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ، اس کہانی کا انگریزی نام How Much Land Does a Man Need?(ایک انسان کو آخر کتنی زمین درکار ہے؟)ہے۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں یہ  کہانی ا ردو میں کئی مرتبہ منتقل ہوئی۔ کسی نے اس کا نام ‘‘دو بیگھا زمین ’’اور کسی نے ‘‘دو گز زمین ’’رکھا۔   

اس کہانی کا مرکزی خیال زمین کے لیے انسان کی ختم نہ ہونے والی ہوس ہے۔ پاکھم Pahom (ترجمہ میں نام بابا شیرو کیا گیا ہے) نامی  ایک جذباتی کسان کو  زمین خریدنے کا جنون کی حد تک شوق تھا، اسے اطلاع ملتی کہ بہت دور بشکر گاؤں  میں بہت اچھی زمین برائے فروخت ہیں اور وہ بھی نہائت واجبی داموں پر،  گاؤں والےا سے کہتے ہیں  کہ وہ سورج غروب ہونے تک جتنی زمین طے کر لے گا، وہ زمین اس کے نام کردی جائے گی۔ یہ سن کر وہ  چلنے کے بجائے دوڑنا شروع کردیتا ہے۔ سورج ڈوبنے تک وہ بہت بڑا رقبہ طے کرلیتا ہے لیکن اس دوران وہ نڈھال ہوچکا ہے، اتنا نڈھال کہ گر پڑتا ہے اور ختم ہوجاتا ہے تب یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ ‘‘ایک انسان کو آخر کتنی زمین درکار ہے؟’’ اس سوال کا جواب بھی اسی کہانی میں موجود ہے کہ ہر انسان کو زندگی کے اختتام پر صرف دو گز زمین درکار ہوتی ہے جس میں وہ دفن کردیا جاتا ہے۔




پہاڑ کے دامن میں ایک چھوٹا سا گاؤں آباد تھا جس کے کھیتوں میں پتھر زیادہ تھے اور مٹی کم، یہی وجہ تھی کہ کسانوں کو دن بھر سخت محنت کرنے کے باوجود زیادہ پیداوار حاصل نہیں ہوتی تھی اور اکثر کسان غریب ہی تھے۔ ان ہی میں بابا شیرو بھی شامل تھا جس کے پاس تھوڑی زمین تھی۔ ایک گھوڑا، ایک دو بکریاں، اور چند بھیڑیں، یہ تھی اس کی کل کائنات۔ بابا شیرو، اس کا بیٹا اور بیوی سارا دن کھیت میں محنت کرتے تب کہیں جا کر وہ اپنے اور اپنے مویشیوں کے لیے تھوڑا بہت اناج اور چارہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوتے۔
بابا شیرو کبھی کبھی سوچتا، کیا ہم ہمیشہ اسی طرح غریب رہیں گے....؟ کیا ہمارے پاس کبھی اتنا اناج پیدا نہ ہوگا کہ ہم اسے منڈی لے جا کر بیچ دیں اور اپنی ضرورت کے گرم کپڑے وغیرہ خرید سکیں۔ ہاں، یہ تھوڑی.سی زمین ہمیں اس سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتی۔ پھر اس کا دل خود ہی جواب دیتا، ہمیں خوشخال ہونے کے لیے اور زمین خریدنی ہوگی۔
یہی وجہ تھی کہ وہ ہر وقت اپنے کھیت کے اردگرد زمین کے کسی چھوٹے موٹے ٹکڑے کو خریدنے کی فکر میں رہتا۔ ایک دن اس کی بوڑھی ہمسائی بابا شیرو کے گھر آئی اور کہنے لگی ‘‘میری زمین تمہاری زمین کے ساتھ ملتی ہے۔ میں اب بوڑھی ہوگئی ہوں اور بیٹے کے پاس شہر جارہی ہوں۔ تم میری زمین خرید لو۔’’
بابا شیرو مدت سے یہ زمین خریدنے کے خواب دیکھ راہ تھا۔ اس نے دوسرے ہی دن منڈی جا کر اپنا گھوڑا، گائے اور بھیڑ بکریاں بیچ ڈالیں اور بوڑھی ہمسائی کو قیمت ادا کرکے اس کی زمین خرید لی۔
اب بابا شیرو کا کھیت دوسرے کئی کسانوں سے وسیع ہوگیا اور پیداوار بھی خوب ہونے لگی۔ اس نے اپنے  لکڑی کے چھوٹے سے گھر کے سامنے خوبصورت پھولوں والا یک باغیچہ بھی لگا لیا۔ بابا شیرو صبح اپنے گھر کے دروازے پر کھڑےہو کر دور تک لہلہاتی ہوئی فصلوں کو دیکھتا، تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہتا۔ 
رفتہ رفتہ اس نے گھوڑے، گائے اور بکریاں بھی خرید لیں اور مویشیوں کا ایک باڑہ بھی بنالیا۔
خوب محنت کرنے کی وجہ سے بابا شیرو جلد دوسرے کسانوں سے مالدار ہوگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی لوگ اس سے جلنے اور لڑائی کے بہانے ڈھونڈنے لگے۔ ایک دن ایک زمیندار کے مویشی اس کے کھیت میں گھس آئے اور ساری فصل اجاڑ کر رکھ دی۔ دوسرے دن اسی زمیندار کے بیلوں نے بابا شیرو کے باڑے کا جنگلا توڑ دیا۔ شیرو کو سخت غصہ آیا، اس نے زمیندار سے گلہ کیا، تو وہ لڑنے مرنے پر تیار ہوگیا۔ بابا شیرو نے گاؤں کی پہنچایت کے سامنے معاملہ پیش کیا۔ پنجوں نے اس کے حق میں فیصلہ دیا اور زمیندار کو بابا شیرو کے نقصان کا معاوضہ ادا کرنا پڑا۔ اس سے آپس کی دشمنی اور بڑھ گئی۔
اس دوران کچھ اور کسان بھی بابا شیرو کو تنگ کرنے لگ گئے تھے۔ ایک کسان نے اپنے کھیتوں تک جانے کے لیے بابا شیرو کے کھیت سے مستقل راستہ بنا لیا۔ شیرو نے یہ راستہ بند کرنا چاہا تو وہ اور اس کے حمایتی لڑنے کے لیے آگئے۔ پھر ایک دن کچھ شرارتی لوگ رات کے وقت کلہاڑے لے کر آئے اور انہوں نے شیرو کی زمین سے پانچ قیمتی پھلدار درخت کاٹ کر گرا دیے۔ شیرو نے یہ معاملہ بھی پنچایت میں پیش کیا مگر یہ ثابت نہ ہو سکا کہ درخت کن لوگوں نے کاٹے ہیں چنانچہ کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
ان سب واقعات سے بابا شیرو کا دل اس گاؤں کے لوگوں سے بڑا اچاٹ ہوگیا۔ پہلے وہ اکثر سوچتا تھا کہ مزید زمین خرید کر اس گاؤں میں بہت بڑا فارم بنائے گا اور کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے شہر سے ٹریکٹر خرید لائے گا مگر اب وہ اس گاؤں کو خیر باد کہنا چاہتا تھا۔ اس کی بیوی کا بھی یہی خیال تھا کہ کسی دوسری جگہ چل کر اچھے لوگوں میں رہنا چاہیے۔
ایک دن بابا شیرو کے گھر بہت دور سے ایک مہمان آیا۔ شیرو نے اس کی خوب خاطر مدارت کی۔ رات کو کھانا کھلایا اور گھر میں ٹھہرایا۔ اس شخص نے کہا ‘‘اگرچہ میرا گاؤں یہاں سے بہت دور ہے مگر اس کی زمین پتھریلی نہیں بلکہ بہت زرخیز ہے۔ دریا کےکنارے ہونے کی وجہ سے پانی بھی خوب ملتا ہے اور پیداوار بھی بہت ہوتی ہے۔ پھر وہاں کے لوگ بھی بہت اچھے ہیں۔ زمین زیادہ ہے اور آبادی کم، جتنی زمین چاہو خرید لو۔’’
یوں بابا شیرو نے اپنی ساری زمین اور مال مویشی فروخت کیے اور نئے گاؤں میں آکر پہلے سے بھی زیاددہ گھوڑے، بکریاں، بھیڑیں اور گائیں خرید لیں۔ اب اس کا باڑہ مویشیوں سے بھرا رہتا۔ جانوروں کی گنتی کرنا مشکل تھا۔ اس کے پاس اعلیٰ نسل کے کئی شاندار گھوڑے تھے جن پر بیٹھ کر اس کے دونوں لڑکے صبح و شام دور دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں کے کنارے کنارے گشت کرتے۔ انہوں نے ایک خوبصورت مکان بنا لیا اور جانوروں کے چرنے کے لیے ایک عمدہ چراگاہ بھی خریدلی۔
بےاندازہ زمین  ہونے کے باوجود بابا شیرو کے دل میں یہ خواہش مچلتی رہتی کہ اور زیادہ زمین خریدی جائے۔ وہ اکثر اپنی بیوی سے کہتا ‘‘میں اس دن مطمئن ہوں گا جب میری نظروں کے سامنے پھیلی ہوئی تمام کی تمام زمین میری ملکیت ہوگی۔ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ جب دریا پار کی منڈیوں میں اناج سے بھر ہوئی میری کشتیاں اتریں گی اور میری چراگاہوں کے جانوروں کے بڑے اچھے دام لگیں گے۔ تب میری دولت کی کوئی حد نہ ہوگی۔’’ وقت کے ساتھ ساتھ بابا شیرو نے ہر وہ زمین خرید لی جو کوئی فروخت کرنا چاہتا۔ آخر وہ وقت آگیا کہ اب اس کے ہاتھ کوئی کسان اپنی زمین فروخت کرنے کے لیے تیارنہ تھا۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ بابا شیرو کے گھر ایک اور مہمان آیا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا۔ اس نے بتایا کہ میں باشکر قبیلے سے تعلق رکھتا ہوں اور اپنے سردار کے حکم پر یہ علاقہ دیکھنے کے لیے آیا ہوں۔’’
‘‘باشکر کون ہیں....؟’’ بابا شیرو نے پوچھا۔
‘‘یہ ایک بہت مالدار قبیلہ ہے۔ ان کے خاص رسم و رواج ہیں۔ ان کے پاس وسیع و عریض چراگاہیں اور کھیت ہیں۔ چونکہ وہ خود کھیتی باڑی سے دلچسپی نہیں رکھتے اس لیے وہ ہر اس شخص کو اپنی زمین دے دیتے ہیں جو اناج اُگانا جانتا ہو۔’’
‘‘کیا وہاں بہت زمین ہے۔’’
‘‘ہاں، صرف بہت ہی نہیں بلکہ بہت سستی بھی اور تمہاری ان زمینوں سے بہتر بھی۔’’
‘‘تب میں وہاں ضرور جاؤں گا۔’’
‘‘آج ہی ہمارے باشکر سردار سے ملنے چل پڑو۔ وہ تمہیں اس سے بھی بڑا کھیت مٹی کے مول دے گا۔ راستہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں۔’’
دوسرے دن بابا شیرو نے اپنی تمام دولت سمیٹی اور بیوی بچوں سے جلد ملنے کا وعدہ کرکے باشکر علاقے کی طرف چل پڑا۔ روانگی سے پہلے اس نے اپنے بیوی بچوں سے کہا۔
‘‘اب ہم وہاں چل کر رہیں گے اور ہمارے پاس اس سے بھی زیادہ زمین ہوگی.... اتنی جتنی کسی کے پاس نہیں۔ حد نظر تک میرے ہی کھیت پھیلے ہوں گے۔ تم لوگ میری واپسی کا انتظار کرنا اور ساتھ چلنے کے لیے تیار  رہنا۔’’
بابا شیرو نے سفر کے لیے ایک شاندار گھوڑا اصطبل سے نکالا، دوسرے گھوڑے پر راستے کے لیے ضروری سامان اور باشکر سردار کے لیے کچھ تحفے تحائف باندھ لیے اور پھر سفر پر روانہ ہوگیا۔ وہ باشکر مہمان کے بتائے ہوئے راستے پر تین ہفتے چلتا رہا تمام راستہ بہت کٹھن اور دشوار گزار تھا آخر کار ایک دن بابا شیرو اپنی منزل پر پہنچ گیا۔
جس وقت وہ پہاڑ سے اتر کر باشکروں کی وادی میں داخل ہوا اسے چراگاہ میں دور تک پھیلے ہوئے باشکروں کے بانس پھونس سے بنے گنبد نما جھونپڑے نظر آئے۔ اس اجنبی کو دیکھتے ہی باشکر قبیلے کے مرد، عورتیں اور بچے اس کی طرف لپکے۔ انہوں نے اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور اپنے سردار کے خیمے میں لے گئے جو ایک بلند چوٹی پر نصب تھا۔
‘‘میں نے آپ کے علاقے کی بڑی تعریف سنی تھی اور یہ بھی سنا تھا کہ یہاں زمین بہت زیادہ اور بہت سستی ہے’’ بابا شیرو نے سردار کے سامنے تعظیم بجالاتے ہوئے کہا۔
‘‘بےشک’’ سردار نے جواب دیا ‘‘کیا تم اناج پیدا کرنا جانتے ہو....؟’’
‘‘جی ہاں۔ یہاں سے دور، دریا کے کنارے میری وسیع و عریض زمینیں ہیں اور منڈیاں میرے غلے سے ہر وقت بھری رہتی ہیں۔ میرے مویشیوں کا بھی کوئی حساب نہیں۔’’
‘‘خوب! ہمیں اعلیٰ نسل کے گھوڑے اور اناج کی ضرورت ہے۔’’ سردار نے کہا۔ ‘‘اگر تم یہ چیزیں مہیا کر سکو تو ہم تمہیں یہاں سے وہاں تک  یہ ساری وادی، یہ تمام علاقہ دینے کے لیے تیار ہیں۔’’
‘‘یہ تمام علاقہ! اوہ دور تک یہ ساری زمین....! آپ مجھے دے دیں گے....؟’’ بابا شیرو نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سامنے پھیلی ہوئی زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
‘‘ہاں۔ یہ ساری زمین حد نظر تک تمہاری ہوگی۔’’
‘‘حد نظر تک میری ہوگی۔’’ بابا شیرو کی باچھیں کھل گئیں ‘‘مگر.... مگر.... اس کی قیمت....؟ میں اپنے ساتھ کافی رقم لایا ہوں سردار!’’
‘‘قیمت وغیرہ کچھ نہیں، تمہیں ایک شرط پوری کرنا ہوگی’’ سردار نے کہا۔
‘‘وہ کیا....؟’’
‘‘وہ یہ کہ کل صبح سورج نکلتے ہی تم یہاں سے بائیں سمت چل پڑو اور سامنے پھیلے ہوئے پہاڑی سلسلے کے ساتھ چلتے ہوئے سورج ڈوبتے ہی یہ سارا نصف دائرہ مکمل کرکے دائیں جانب سے واپس پہنچ جاؤ۔ اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ تمام زمین جس کا تم احاطہ کروگے، تمہیں مفت دے دی جائے گی اور اگر ایسا نہ کرسکے تو تم شرط ہار جاؤ گے اور یہ دولت جو تم ساتھ لائے ہو، ہماری ہوجائے گی۔’’ سردار نے باباشیرو کی سکوں سے بھری ہوئی تھیلی کو دیکھتے ہوئے.کہا۔
‘‘ٹھیک! ٹھیک! مجھے منظور ہے یہ شرط!
‘‘تو پھر پکی ہوگئی یہ بات!’’ سردار نے شیرو کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ اگلی صبح منہ اندھیرے ہی  قبائلی سردار، اس کے ساتھی اور بابا شیرو مقررہ جگہ پر پہنچ گئے۔ باباشیرو کو لکڑی کی چھوٹی چھوٹی سرخ تیلیوں کا ایک گٹھا دیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ وہ جس راستے سے گزرے، تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ایک ایک تیلی زمین پر گرایا جائے۔ سردار نے باباشیرو کو اس کی ٹوپی اور سکوں سے بھری ہوئی تھیلی زمین پر رکھ دینے کا حکم دیا اور بولا۔
‘‘پو پھٹتے ہی تم نے اس ٹوپی کوہاتھ لگا کے روانہ ہونا اور سورج کی آخری کرن بجھنے سے پہلے یہاں واپس پہنچنا ہے۔’’
بابا شیرو نے جوانوں کی طرح سینہ تان کر اور دونوں ہاتھ پھیلا کر وادی کی وسعت کا اندازہ لگایا پھر سوچا، پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ چلا جائے تو چالیس پچاس میل بن جائیں گے۔ ‘‘خیر کوئی بات نہیں۔’’ اس نے دل ہی دل میں کہا ‘‘میں یہ شرط جیت کر دکھاؤں گا۔ اور پھر یہ حد نظر تک پھیلی ہوئی زمین میری ہوجائے گی۔ تب اس پورے علاقے میں مجھ سے بڑا کوئی زمیندار نہ ہوگا۔’’
وہ آنے والے دنوں کے سہانے تصور میں کھویا ہوا تھا کہ دھلے دھلائے سورج کی پہلی کرن نے مشرق سے جھانکا اور اس نے اپنی ٹوپی چھو کر اپنے سفر کا آغاز کردیا۔ بابا شیرو پہلے تو کچھ دیر تک بہت تیزی  کے ساتھ دوڑتا رہا پھر جلد ہی ہانپنے لگا۔ اس نے سوچا کہ یوں تیز دوڑنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ سارا دن پڑا ہے، ابھی سے اپنی ٹانگوں کو تھکا لینا حماقت ہے چنانچہ اس نے دوڑنے کے بجائے لمبے لمبے قدم اٹھانے، شروع کردیے۔ ہر آدھ گھنٹے کے بعد وہ زمین میں ایک تیلی گاڑ دیتا۔
اب وہ پہاڑ سے نیچے اتر آیا اور نصف دائرے کی صورت میں پھیلے ہوئے سلسلہ کوہ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ اسے چلتے ہوئے ایک گھنٹہ گزر چکا تھا۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، پہاڑ پر کھڑے ہوئے باشکر بونوں کی طرح نظر آ رہے تھے۔ لیکن ابھی تک وہ پہاڑ کے بائیں سرے ہی  پر تھا اور میلوں کا سفر باقی تھا۔ اس نے سوچا، یوں کام نہیں چلے گا چنانچہ پھر دوڑنے لگا۔ اسی تگ و دو میں اس کا سانس پھول گیا اور اسے ایک جگہ ٹھہر جانا پڑا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد بابا شیرو پھر دوڑنے لگا۔ اب سورج بہت اوپر آچکا تھا اور دھوپ تیز ہوچکی تھی۔ اسے گرمی لگنے لگی چنانچہ اس نے اپنا کوٹ اتار کر پھینک دیا۔
اب وہ تھکے تھکے قدموں سے دوڑ رہا تھا۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ لمبے لمبے قدم اٹھائے تاکہ سورج ڈوبنے سے پہلے پہاڑی پر واپس پہنچ جائے۔ کبھی کبھی اس کے قدم بےڈھنگے پتھروں پر پڑتے۔ پیر درد کی شدت سے چٹخ اٹھتے مگر اس کا حوصلہ پھر بھی کم نہ ہوتا.... تب وہ ایک نظر اپنے دائیں جانب میلوں تک پھیلی ہوئی زمین کو دیکھ لیتا جس کا وہ مالک بننے والا تھا۔ یوں اس کی تکلیف کا تمام احساس ختم ہوجاتا۔
دوپہر کے وقت اس نے ایک درخت کے نیچے کپڑے میں باندھی ہوئی روٹی نکال کر کھائی اور بوتل سے پانی پیا۔ پھر یہ اندازہ لگایا کہ کتنا فاصلہ باقی ہے۔ آدھا دن گزر چکا تھا مگر راستہ صرف ایک تہائی طے ہوا تھا۔ یہ سوچ کر بابا شیرو نے اپنی رفتار تیز کردینے کا فیصلہ کیا۔
اب دوپہر ڈھل رہی تھی اور جوں جوں پہاڑوں کے سائے بڑھ رہے تھے، شیرو کے دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جارہی تھی۔ مسلسل دوڑنے کی وجہ سے وہ بالکل بےحال ہوچکا تھا۔ قدم کہیں رکھتا تو پڑتا کہیں تھا۔ اس نے تھوڑی تھوڑی دیر بعد بیٹھ کر سستانا بھی چھوڑ دیا کیونکہ ابھی اس نے بمشکل آدھا فاصلہ طے کیا تھا۔ ایک مرتبہ اسے خیال آیا، باقی راستہ وہ پہاڑ کے ساتھ ساتھ چلنے کے بجائے زمین کے بیچ سے گزرتے ہوئے طے کرے لیکن پھر خود کو ملامت کرتے ہوئے بڑ بڑایا ‘‘نہیں اس طرح تو میں اس ساری زمین کا مالک نہیں بن سکوں گا۔ یہ ساری زمین میری ہوسکتی ہے بس ذرا ہمت سے کام لینا ہوگا۔ مجھے اس کا کوئی ٹکڑا نہیں چھوڑنا’’ چنانچہ اس نے اپنا سفرجاری رکھا۔
اب شام ہو رہی تھی اور وہ کئی گھنٹے سے دم لینے کے لیے کہیں نہیں ٹھہرا تھا۔ اس بوڑھے کی ہمت واقعی ناقابل داد تھی کہ اس نے اچھا خاصا فاصلہ طے کرلیا تھا۔ اس دوران بابا شیرو کی ٹانگوں کے پٹھے اکڑ گئے تھے اور پھیپھڑے پھٹ رہے تھے مگر وہ برابر دوڑے جارہا تھا۔ اب اسے یقین ہو چلا تھا کہ وہ سورج کی آخری کرن کے چھپنے سے قبل مقررہ جگہ واپس پہنچ جائے گا۔
اس نے اپنے جوتے جو بری طرح پھٹ چکے تھے، اتار پھینکے پانی کی خالی بوتل اور روٹی والا تھیلا ایک طرف پھینکا اور دوسرے تمام فالتو کپڑے بھی پھینک دیے اور آخری چند تیلیاں پکڑے مقررہ جگہ پہنچنے کے لیے پہاڑ پر چڑھنے لگا جس پر باشکر کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
سورج تیزی سے مغربی پہاڑوں میں ڈوب رہا تھا۔ آخری چند کرنیں چوٹیوں کو جگمگا رہی تھیں کہ باشکر سردار اور اس کے ساتھیوں نے بوڑھے شیرو کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ لیا۔ شیرو کو بھی غالباً یہ لوگ نظر آگئے۔ اس کی حالت یہ تھی کہ آنکھیں قریب قریب بند ہو رہی تھیں۔ منہ پورا کھلا ہوا تھا، زبان باہر نکلی ہوئی تھی، سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی اور گردن کسی مردہ شے کی طرح کندھوں پر لٹک رہی تھی مگر قدم تھے کہ کسی مشین کی طرح اٹھ رہے تھے۔
‘‘آفرین ہے اس بڈھے کی ہمت پر!’’ سردار نے کہا جونہی سورج کی آخری کرن ڈوبی بڈھے شیرو نے نڈھال اور تھکان سے چور بے جان جسم سردار کے قدموں پر گرا دیا۔ اس کے لپکتے ہوئے ہاتھ نے مقررہ نشانے یعنی ٹوپی کو چھولیا تھا۔ بڈھا زمین کی بازی جیت چکا تھا مگر اس نے جان کی بازی ہار دی۔ باشکر سردار نے جھک کر بڈھے کے مردہ جسم کو سیدھا کرنے کی کوشش کی مگر اس کی ٹانگیں او ر سارا جسم اکڑ چکا تھا۔
سردار کے حکم پر وہیں بڈھے کی قبر کھودی گئی اور اسے دفن کردیا گیا۔
‘‘اس کی اصل ضرورت یہی دو گز زمین تھی!’’
باشکر سردار نے افسوس کے لہجے میں کہا اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سر جھکائے اپنے خیمے کی طرف چلا گیا۔


روسی ادب کے مایہ ناز افسانہ نگار

لیو ٹالسٹائی ۔1828ء تا 1910ء

لیوٹا لسٹائی (9 ستمبر 1828ء۔ 20 نومبر 1910ء) روس کی ریاست تُلّاTula میں یسنایا Yasnaya کے جاگیردار کے گھر  پیدا ہوئے۔ آپ  کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے لہٰذا وہ اور اُن کے بہن بھائی مختلف رشتہ داروں کے ہاں پرورش پاتے رہے۔بچپن میں فرانسیسی اور جرمن استادوں سے تعلیم حاصل کی، سولہ سال کی عمر میں اس نے کازاں یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا  لیکن اُن  کے اساتذہ انہیں  نالائق طالب علم خیال کرتے  تھے، ساتھی طلٍبا اور اساتذہ کے منفی رویے کے باعث انہوں  نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آبائی قصبے یسنایا  لوٹ آئے۔   کئی سال تک ماسکو اور پیٹرس برگ میں لوگوں کی سماجی زندگی کا مطالعہ اورکسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے رہے ۔1851ء میں فوج میں شامل ہوکر ترکو ں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا لیکن جلد ہی وہ فوجی زندگی سے اکتا گئے  اور پیٹرس برگ آگئے  ۔ آپ  نے  پہلا ناول 1856ء میں بچپن کے نام سے لکھا  لیکن آپ  کی شہرت اس وقت پھیلی جب اس نے جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں سیواتوپول  کی کہانیاں لکھیں ۔ پھر مغربی یورپ کی طویل سیاحت کی ،  بعد میں اپنی جاگیر پر واپس آئے  کسانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے  ۔ اس دوران اس  نے اپنا زندہ جاوید امن اور جنگWar & Peace  اور  اینا کرینینا Anna  Kareninaلکھ کر  بےپناہ شہرت حاصل کی۔ 
1876ء کے بعد سے روسی کلیساکے جمود   زدہ نظریات کے خلاف خیالات آپ  کے  ذہن   میں چھائے رہے  اور آپ  نے عیسائیت کی نشاۃ ثانیہ کا اپنا نظر یہ وضع کیا   اور انسانی محبت ، سکون اور اطمینان قلب    اور عدم تشدد کو اپنا مسلک قرار دیا ، ساتھ ہی  ایک اعتراف  کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اپنے نظریات  کو پیش کیا اور ذاتی ملکیت کے تصور کو رد کیا،  انسان سے انسان کے جبرو استحصال کی شدت سے مذمت کی ۔ وہ زبان اور قلم سے جمہوریت، مساوات اور اخوت کی تلقین کرنے لگے ۔ آپ  کے انقلابی خیالات روس سے باہر بھی مقبول ہونے لگے لوگوں پر آپ  کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ روس کی حکومت کو آپ  کی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے کی جرات نہ ہوئی۔  آپ  اپنے نظریات  کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن خاندان کے افراد اس کے مخالف  تھے ،  لہٰذا    دل گرفتہ ہو کر  گھر چھوڑ دیا اور اپنے حصے کی ساری جاگیر اور دولت کسانوں اور مزدورں میں تقسیم کر دی،  زندگی کے آخری لمحوں تک تن کے دو کپڑوں کے علاوہ آپ  کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔  آخر کار  20نومبر 1910ء کو ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کسمپرسی کی حالت میں وفات پاگئے ۔   شاعر مشرق علامہ اقبال کہتے تھے کہ عیسائی دنیا میں پاکیزہ زندگی، روحانیت، ترک و تجرید، درویشی و ایثار کے اعتبار سےآپ  جیسی مثال مشکل سے ملے گی ۔ 

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں