روسی ادب سے لیو ٹالسٹائی کا ایک شاہکار افسانہ

دو مسافر

لیو ٹالسٹائی کی روسی کہانی  The Two Pilgrims  کا ترجمہ !!

دو یاتریوں کی سرگزشت ان کے پاس اپنا اپنا زاد راہ تھا....






دو بوڑھے آدمیوں نے ایک ساتھ بیت المقدس کی زیارت کو جانا طے کیا۔ ایک کا نام یوحنا تھا اور دوسرے کا نام الیاس۔ یوحنا، مالدار کسان تھا۔ الیاس مالدار نہ تھا۔
یوحنا سنجیدہ، خوددار، معاملہ کا کھرا اور بھاری بھرکم آدمی تھا۔ اس نے کبھی شراب منہ کو نہ لگائی، نہ تمباکو پی، نہ ناس سونگھی، نہ ساری عمر کوئی بری بات زبان سے نکالی۔ دو دفعہ گاؤں کا چودھری بھی بن چکا تھا۔کبھی قرض ادھار بھی نہیں کرتا تھا۔ کنبہ بڑا تھا، دو بڑے لڑکے اور ایک شادی شدہ پوتا تھا۔ یہ سب ساتھ رہتے تھے۔ وہ خود تندرست، طاقتور اور لمبی داڑھی کا آدمی تھا۔ عمر ستر برس کی ہوچکی تھی مگر خدو خال اب تک درست تھے۔ بڑھاپے کے آثار ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ داڑھی میں اکا دکا بال ہی سفید ہوئے تھے۔
الیاس بھی بوڑھا تھا، نہ بہت امیر، نہ بالکل غریب۔ متوسط درجے کا آدمی تھا۔ پہلے بڑھئی (نجاری) کا پیشہ کرتا تھا اب بڑھاپے کی وجہ سے گھر ہی پر رہتا اور شہد کی مکھیاں پالتا۔ اس کا ایک لڑکا گھر سے دور کام پر لگا ہوا تھا۔ دوسرا باپ کے ساتھ مکان ہی پر رہتا تھا۔ الیاس رحم دل، ہنس مکھ، ٹھگنا آدمی تھا۔ شراب اور ناس کا بڑا الٹیا، گانے بجانے سے بھی بہت شوق، ساتھ ہی میل ملاپ والا۔ لڑائی جھگڑے سے کوسوں دور۔ سب سے الیک سلک بالکل بےضرر، اپنے عزیزوں اور پڑوسیوں سے محبت کرنے والا۔ اس کی داڑھی، کچی اور گھونگرو والی تھی۔ سر ٹھیک ویسا گنجا.جیسا۔
ان بوڑھے دوستوں نے مدت ہوئی ایک ساتھ المقدس جانے کی منت مانی تھی لیکن یوحنا کو کبھی چھٹی نہیں ملتی تھی۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی کام لگا ہی رہتا تھا۔ ایک ختم ہوتا تو دوسرا شروع کردیتا۔ پہلے پوتے کی شادی کا عذر تھا پھر اس کا لڑکا، فوج سے گھر لوٹ رہا تھا۔ اب اس نے ایک نیا گھر بنانا شروع کردیا تھا۔
ایک تہوار کے دن دونوں پرانے دوستوں میں ملاقات ہوئی۔ گپ شپ کرنے کو ایک شہتیر پر بیٹھ.گئے۔
الیاس نے کہا ‘‘اچھا، بھئی! ہم کب اپنی منت پوری کریں گے....؟’’
‘‘لیکن بھائی، جب ہم مرجائیں گے تو تم جانتے ہو، لڑکوں ہی کو سب کچھ کرنا ہوگا۔ ابھی سے اپنے لڑکے کو کام سیکھنے کیوں نہ دو....؟’’
یوحنا نے تیوری چڑھا کر جواب دیا ‘‘میں تو بھئی ٹھہرنے پر مجبور ہوں۔ یہ سال میرے لیے بہت کٹھن ہے۔ جب میں نے اس گھر کی طرح ڈالی تھی تو خیال تھا صرف سوروبل (روسی سکہ ہے) خرچ بیٹھے گا لیکن تین سو کے لگ بھگ صرف ہوچکے ہیں اور ابھی کچھ نہیں ہوا۔ ہمیں آئندہ گرمی تک اور رکنا چاہیے۔ اس وقت اگر خدا کی مرضی ہوئی، ہم ضرور چلیں گے۔’’
‘‘میرے خیال میں اب دیر ٹھیک نہیں۔ ’’الیاس  نے کہا۔ ‘‘ہمیں فوراً روانہ ہوجانا چاہیے۔ یہ بہار کا موسم بہت اچھا زمانہ ہے۔’’
‘‘ہاں، بہار کا زمانہ اچھا ہے مگر اب مکان ہاتھ لگ چکا ہے، میں اسےکیسے چھوڑ سکتا ہوں....؟’’
‘‘کیا تمہارے ہاں کوئی اور نہیں ہے....؟ اپنے لڑکے کے سپرد کردو۔’’
‘‘واہ! میں جانتا ہوں لڑکا کیا بندوبست کرے گا۔  شرابیوں پر مجھے بھروسا نہیں۔’’
‘‘سچ ہے۔ لیکن ہمیشہ سے میرا یہی دستور ہے کہ ہر چیز پر کسی نہ کسی طرح اپنی نظر رکھتا ہوں اور سب کام خود ہی چلانا چاہتا ہوں۔’’
‘‘ٹھیک ہے۔ مگر دوست، سب کام تم اکیلے نہیں کرسکتے۔ کل کا ذکر ہے کہ میرے ہاں کی عورتیں تہوار کے لیے گھر ٹھیک کر رہی تھیں۔ یہ بھی کرنے کو تھا، وہ بھی کرنے کو اور سب کچھ کر چکنے کے بعد بھی کچھ نہ کچھ کام باقی ہی رہ جاتا تھا۔ میری بڑی بہو نے جو علقمند عورت ہے، کہا ‘‘یہ تو خوب ہے کہ تمہوار ہمارا انتظار نہیں کرتا، ورنہ ہم سے کبھی بھی اپنا کام پورا نہ ہوتا۔ اگرچہ کتنی ہی محنت کرتے۔’’
یوحنا نے متفکر ہو کہ جواب دیا ‘‘میں مکان پر ایک بڑی رقم لگا چکا ہوں اور کسی طرح بھی اتنے لمبے سفر پر خالی ہاتھ جا نہیں سکتا۔ کم سے کم سو روبل ہوں تو گھر سے پاؤں نکالا جائے۔’’
الیاس نے قہقہہ لگایا ‘‘بھائی! کیوں نا شکری کرکے گنہگار بنتے ہو، تمہاری آمدنی مجھ سے دس گنی زیادہ ہے پھر بھی روپیہ کے بارے میں اس طرح کی باتیں کرتے ہو۔ مجھے دیکھو میں صرف تمہاری راہ دیکھ رہا ہوں۔ جب بھی تم تیار ہوجاؤ گے تو اگرچہ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہ ہو، کہیں نہ کہیں سے بندوبست کرکے ضرور ساتھ ہوجاؤں گا۔’’
یوحنا نے مسکرا کر کہا ‘‘مجھے خبر نہ تھی تم اتنے امیر ہو، اچھا بتاؤ کیا بندوبست کروگے....؟’’
‘‘گھر میں پیسہ دھیلا جو ہوگا، لے لوں گا۔ باقی کے لیے اپنی مکھیوں کے آدھے چھتے ایک پڑوسی کے پاتھ بیچ ڈالوں گا۔ وہ مدت سے مانگ بھی رہا ہے۔’’
‘‘لیکن اگر بیچنے کے بعد مکھیاں بہت آئیں تو تمہیں افسوس ہوگا۔’’
‘‘افسوس ! نہیں برادر میں نے اپنی زندگی میں اپنے گناہوں کے سوا کبھی کسی چیز پر افسوس نہیں کیا۔ روح سے زیادہ پیاری کوئی شے نہیں۔’’
‘‘سچ ہے، تاہم جب گھر کے کام بگڑتے ہیں تو رنج ہوتا ہی ہے۔’’
‘‘لیکن جب روح کے کام بگڑتے ہیں تو اور بھی رنج ہوتا ہے۔ ہم منت مان چکے ہیں۔ ہمیں پوری کرنا چاہیے۔ آؤ ہمت کرو، زیادہ دیر نہ کرو۔’’
٭٭٭
الیاس نے کہہ سن کر اپنے دوست کو راضی کرلیا۔ یوحنا نے سوچ بچار کے بعد دوسرے دن صبح الیاس سے کہا ‘‘اچھا، چلو چلیں۔ تم نے سچ کہا کہ خدا ہماری موت و حیات دونوں کا مالک ہے۔ کون جانتا ہے کہ کل کیا ہوگا....؟ ابھی ہم میں زندگی اور قوت موجود ہے لہٰذا ہمیں اپنی منت پوری کر ڈالنا چاہیے۔’’
ایک ہفتہ کے اندر دونوں دوست تیار ہوگئے۔
یوحنا کے پاس گھر میں روپیہ موجود تھا۔ اس نے سو روبل خود لیے اور سو اپنی بوڑھی بیوی کے پاس چھوڑ دیے۔
الیاس بھی تیار تھا۔ اس نے اپنے پڑوسی کے ہاتھ دس چھتے اور تمام آنے والی مکھیاں ستر روبل میں بیچ ڈالیں۔ باقی تیس روبل، عزیزوں سے جمع کیے۔ اس کی بیوی نے وہ تمام روپیہ بھی ایک ایک کرکے گن دیا جو اپنے کفن دفن کے لیے بچا رکھا تھا۔ اس کی بہو نے بھی اپنی چھوٹی سی تھیلی خالی کردی۔
یوحنا نے اپنے بیٹے کو گھر کے تمام کام سمجھا دیے۔ کتنی زمین، گھاس کے لیے ٹھیکہ پر دی جائے گی....؟ کتنی کھاد کے لیے....؟ نامکمل مکان کی تعبیر کس طرح پوری کی جائے گی....؟ غرضیکہ اس نے کوئی بات نہیں چھوڑی۔ ہر ایک کی بابت اپنا حکم، لڑکے کو سنایا۔
مگر الیاس نے اپنی بڑھیا سے صرف اس قدر.کہا۔
‘‘دیکھو جو مکھیاں بک چکی ہیں، انہیں اپنی مکھیوں سے ملنے نہ دینا۔ ’’بس یہی ایک اس کا حکم تھا۔ گھر کے معاملات کی نسبت اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جب بہت پوچھا گیا تو اتنا کہہ کر چپ ہوگیا۔ ‘‘وہی کرنا جو اچھا معلوم ہو۔’’
سفر کا سامان ٹھیک ہوگیا۔ عورتوں نے چورس کیک پکائے۔ ان کے رکھنے کے لیے تھیلے سئیے۔ اپنے مسافروں کے لیے نئے جوتے خریدے۔ پنڈلیوں پر لپیٹنے کے لیے ریشم کی نئی پٹیاں بنائیں، پھر دونوں بوڑھے حاجی اپنے اپنے کنبے کے ساتھ گاؤں کے کنارے تک آئے اور رخصتی سلام اور معانقوں کے بعد روانہ ہوگئے۔
الیاس نے بڑی خوش دلی کے ساتھ سفر شروع کیا تھا۔ گاؤں چھوڑتے ہی تمام فکریں بھول گیا۔ اب اسے صرف یہ فکر تھی کہ کس طرح اپنے ساتھی کو خوش رکھے۔ کسی سے کڑوا بول نہ بولے۔ سب آدمیوں کے ساتھ اچھا برتاؤکرتا چلا جائے۔ چلتے ہوئے دل ہی دل میں مناجات کرتا تھا بزرگوں اور ولیوں کے حالات، جو اسے یاد تھے اپنے ساتھی کو سنانے لگتا تھا۔ راستے میں جس کسی سے بھی ملاقات ہوجاتی، یارات بسر کرنے کے لیے کہیں اترنا پڑتا تو ہر ایک کے ساتھ بھلائی کرنے اور اچھی بات کہنے کا موقع ڈھونڈتا رہتا۔
غرضیکہ وہ اپنا سفر بڑی خوشی سے طے کر رہا تھا، البتہ ایک چیز تھی جس نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا اور وہ ناس سونگھنے کی عادت تھی۔ پہلے اس نے ارادہ کیا کہ اس عادت کو دور کردے کیونکہ ناس کا ڈبہ گھر میں بھول آیا تھا مگر اپنے ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ سر چکرانے لگا اور مجبور ہو کر ایک راہ گیر سے ناس مانگی۔ وقتاً فوقتاً اپنے ساتھی سے پیچھے رہ جاتا اور ناس کی چٹکی سڑک لیتا۔
یوحنا بھی ٹھیک تھا، مضبوط قدموں سے چل رہا تھا۔ کم بولتا تھا اور کسی قسم کی برائی نہیں کرتا تھا لیکن اس کے دل میں اطمینان نہ تھا۔ اس کا دماغ اب بھی گھر کے جھگڑوں میں الجھا ہوا تھا۔ ہر وقت یہی سوچتا رہتا کہ گھر پر کیا ہو رہا ہوگا....؟ لڑکے کو میں کوئی ضروری بات کہنا بھول تو نہیں گیا۔ کیا وہ میرے حکموں پر ٹھیک ٹھاک چلے گا....؟ جہاں کہیں آلو کا کھیت نظر آجاتا یا سڑک پر کھاد کی گاڑی مل جاتی تو خیال کرنے لگتا۔ ‘‘دیکھنا چاہیے لڑکا کیا کرتا ہے....؟’’ کبھی کبھی تو وہ واپسی کے لیے تقریباً تیار ہو جاتا  تاکہ اپنے بیٹے کو ایک مرتبہ پھر سمجھا آئے کہ کام کس طرح کرنا چاہیے....؟
٭٭٭
اب انہیں چلتے ہوئے پانچ ہفتے گزر گئے۔ نئے جوتے گھس گئے اور دوسرے جوڑے خریدنے پر مجبور ہوئے، چلتے چلتے چھوٹے روس میں پہنچے۔ اب تک انہیں اپنے کھانے اور رات بسر کرنے پر روپیہ خرچ کرنا نہیں پڑتا تھا، یہاں اس علاقے میں ان کی بڑی آؤبھگت ہوئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لوگ پہلے ہی سے ان کی دعوت کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ ہر جگہ انہیں مفت ٹھہرایا جاتا۔ کھانا کھلایا جاتا، چلتے وقت ان کے خالی تھیلے، کیک یا روٹی سے بھر دیے جاتے اور اس سب کے بدلے ایک پیسہ کا بھی مطالبہ نہ کیا جاتا۔ اس طرح انہوں نے پانچ سو میل ایک پیسہ خرچ کیے بغیر طے کر لیے لیکن اب ان کا گزر ایک قحط زدہ علاقے میں ہوا۔
یہاں بھی لوگوں نے اتنا کیا کہ بوڑھے حاجیوں کو مفت راتیں بسر کرنے کی اجازت دے دی، مگر کھانا کوئی آدمی بھی پیش نہ کرسکا۔ بعض جگہ تو ڈیوڑھی اور دونی قیمت پر بھی روٹی مل نہ سکی۔ لوگوں نے بتایا کہ پچھلے برس تمام فصلیں برباد ہوگئیں۔ امیر کسان، تباہ ہوگئے اور گھر دیوار بیچ کر پیٹ پالنے لگے۔ متوسط اور غریب آدمی بھوکوں مر رہے ہیں یا بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ خال خال آدمی، گھروں میں رہ گئے ہیں اور وہ بھی اناج کی بھونسی اور درختوں کی چھال کھا رہے ہیں۔
ایک گاؤں میں رات گزارنے کے بعد دونوں حاجی اٹھے، سات سیر روٹی مول لی اور دھوپ نکلنے سے پہلے ہی روانہ ہوگئے۔ آٹھ نو میل چل کر ایک دریا پر پہنچے۔ منہ ہاتھ دھویا، پیروں کی پٹیاں ڈھیلی کیں، پانی میں بھگو کر روٹی کھائی اور سستانے لگے۔ الیاس نے اپنی ناس کی ڈبیا نکالی اور چٹکی سڑکنے لگا۔
‘‘تم یہ گندی عادت چھوڑ کیوں نہیں دیتے....؟’’ یوحنا نے سر ہلا کر کہا۔
‘‘کیا کہوں....؟’’ الیاس نے جواب دیا۔ ‘‘کسی طرح یہ لت نہیں چھوٹتی۔ اس گناہ نے میری تمام اچھائیوں پر پانی پھیر دیا ہے۔’’
پھر وہ اٹھے اور چل پڑے۔ سات میل اور طے ہوگئے۔ اب ایک بڑا گاؤں ملا، وہ رکے نہیں اور چلتے ہی رہے۔ اب دھوپ تیز ہوگئی تھی۔ الیاس تھک گیا تھا۔ آرام کرنا اور پانی پینا چاہتا تھا لیکن یوحنا چاق و چوبند تھا، چلنے میں الیاس سے کہیں زیادہ مضبوط تھا۔ یہ بےچارہ اپنے موٹے تازے امیر دوست کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔
الیاس کہنے لگا ‘‘بڑی پیاس لگی ہے۔’’
یوحنا نے جواب دیا ‘‘تم جاؤ پانی پی آؤ، مجھے پیاس نہیں ہے۔’’
‘‘میرے انتظار میں نہ رہنا۔’’ الیاس نے کہا۔ ‘‘سامنے کے جھونپڑے میں جاتا ہوں اور پانی پی کر دم کے دم میں تم سے ملا جاتا ہوں۔’’
یوحنا نے بہت اچھا کہا اور اکیلا آگے بڑھا۔
الیاس جھونپڑے کی طرف چلا۔ یہ کچی دیواروں کا چھوٹا سا جھونپڑا تھا۔باہر سے نیلی استر کاری اور سفید قلعی پھری ہوئی تھی لیکن پنڈول، سیل کھا کر جا بجا سے گر گیا تھا۔ ایک طرف کی چھت بھی گری ہوئی تھی اور صاف ظاہر تھا کہ گھر مدت سے بےمرمت پڑا ہے۔ داخلہ، احاطے میں سے تھا۔ الیاس نے جوں ہی اندر قدم رکھا ایک نوجوان تپائی کے قریب زمین پر پڑا دکھائی دیا۔ غالباً وہ سایہ میں لیٹا ہوگا مگر اب تو اس پر سورج پوری تیزی سے چمک رہا تھا۔ وہ سو نہیں رہا تھا، تاہم بےحس و حرکت پڑا تھا۔ الیاس کو تعجب ہوا۔ آواز دی، پانی مانگا مگر کوئی جواب نہ ملا۔
‘‘یہ شخص بیمار ہے، یا کسی پر ناراض ہے۔’’ الیاس نے خیال کیا اور دروازے کی طرف بڑھا۔ جھونپڑے کے اندر سے ایک بچے کے رونے کی آواز آئی۔ الیاس نے زنجیر ہلائی اور پکار کر کہا ‘‘گھر کے مالکو!’’ کوئی جواب نہ ملا۔ ڈنڈے سے دروازہ کھٹکھٹایا مگر کوئی آواز نہیں۔ بڑے زور سے چلایا ‘‘اللہ کے بندو!’’ اب بھی خاموشی! مجبوراً لوٹنے لگا مگر فوراً اندر سے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دی۔
‘‘شاید یہاں کوئی سخت واقعہ پیش آگیا ہے۔’’ اس نے خیال کیا۔ ‘‘مجھے اندر جا کر دیکھنا چاہیے۔’’
٭٭٭
الیاس نے کنڈی گھمائی، دروازہ کھل گیا۔ ڈیوڑھی میں پہنچا، اندر کا دروازہ کھلا تھا، کمرے کے بائیں جانب باورچی خانہ تھا، کونے میں تپائی پر کنواری مریم کا بت رکھا تھا، بیچ میں میز تھی۔ میز کے قریب ایک بڑی تپائی بچھی تھی۔ تپائی پر ایک بڑھیا بیٹھی تھی، وہ صرف ایک لمبا کرتا پہنے تھی۔ سر کھلا تھا، بال الجھے ہوئے تھے، پیشانی میز پر ٹکی ہوئی تھی۔ بڑھیا کے پاس ہی ابھرے ہوئے پیٹ کا ایک دبلا پتلا اور موم کی طرح سفید لڑکا کھڑا تھا۔ وہ بڑھیا کی آستین پکڑے کھینچ رہا تھا۔ روتا تھا، سسک سسک کر  کچھ مانگ رہا تھا۔ الیاس کمرے میں گھسا تو اندر سے سخت بدبو آئی۔ آتش دان کے پیچھے الماری کے پٹاؤ پر ایک اور عورت پڑی تھی۔ اس کی ٹانگیں اینٹھی جاتی تھیں، بدن کو کسی پہلو چین نہ تھا، حلق سے غوں غوں کی آواز نکل رہی تھی، وہ اندھی پڑی تھی۔ اس کی طرف سے بدبو آرہی تھی۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ بہت بیمار ہے۔ الیاس اس بھیانک منظر کو دیکھ کر سخت متعجب اور رنجیدہ ہوا۔
بوڑھی عورت نے آنے والے کی چاپ پا کر سر اٹھایا اور الیاس کو سامنے دیکھ کر اپنی پوری قوت سے چلائی ‘‘کیا ہے....؟’’ کیا چاہتے ہو....؟ یہاں تمہارے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ہم خود مر رہے.ہیں۔’’
الیاس اس کی بولی سمجھ گیا اور پاس آکر کہنے لگا  ‘‘دوستو! میں پیاسا ہوں۔’’
‘‘نہ یہاں پانی ہے نہ کوئی لانے والا ہی ہے۔’’
عورت پھر غصہ سے چلائی۔ ‘‘ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیں نہ ستاؤ۔ خدا کے لیے سیدھے چلے جاؤ!‘‘
الیاس نے نرمی سے سوال کیا۔ ‘‘کیا اس عورت کی تیمار داری کرنے والا کوئی نہیں، جو وہاں اوندھی پڑی ہے....؟’’
‘‘نہیں، کوئی بھی نہیں۔ ہمارے گھر کا مرد، باہر آنگن میں پڑا  مر رہا ہے۔ ہم یہاں موت کی راہ دیکھ رہے ہیں۔’’
لڑکے نے جو اجنبی آدمی کو دیکھ کر چپ ہوگیا تھا، اب پھر رونا شروع کیا۔ بلک بلک کر کہنے لگا ‘‘دادی! روٹی، دادی! مجھے روٹی!’’
الیاس، بڑھیا سے کچھ اور پوچھنے والا تھا کہ باہر والا آدمی اٹھ کر چوکھٹ کے اس پار آگیا اور دیوار کے سہارے تپائی تک پہنچنے کی کوشش کرنے لگا لیکن راستہ ہی میں ڈگمگا گیا اور دروازے کے قریب کونے میں گر پڑا۔ پھر اس نے بولنا چاہا۔ ایک لفظ کہتا، ہانپتا اور سانس لینے کو رک جاتا۔
‘‘آہ!’’ اس نے کہنا شروع کیا۔ ‘‘ہم بیمار ہیں.... بھوک سے مر رہے ہیں.... دیکھو.... وہ بھوک سے مر رہا ہے۔’’
اس نے مریل لڑکے کی طرف اشارہ کیا اور زار زار رونے لگا۔
الیاس نے اپنا تھیلا کاندے پر سے اتار کر زمین پر رکھا، پھر میز پر اٹھا کے کھولا، روٹی نکالی اور چاقو سے ایک ٹکڑا کاٹ کر آدمی کو دینے لگا، مگر اس نے انکار کیا اور لڑکے کی طرف اشارہ کرکے کہا ‘‘اسے دے دو۔’’ الیاس نے روٹی بچے کی طرف بڑھائی۔ اس نے دونوں ہاتھ پھیلا دیے اور لے کر جلد  جلد کھانے لگا۔ اتنے میں چولہے کے پیچھے سے ایک کمسن لڑکی رینگتی ہوئی نکلی اور روٹی کی طرف لپکی۔ الیاس نے اسے بھی ایک ٹکڑا دے دیا۔ پھر اس نے بڑھیا کے لیے بھی ایک ٹکڑا کاٹا، جسے لے کر وہ اپنے پوپلے منہ سے چبانے کی کوشش کرنے لگی، پھر وہ کہنے لگی۔ ‘‘کیا تم پانی لاسکتے ہو....؟ ہم سب کے حلق سوکھ گئے ہیں۔ میں نے پانی لانے کا ارادہ کیا تھا، یاد نہیں آج یا کل مگر میں گر پڑی اور لا نہ سکی۔ ڈول یہیں کہیں ہوگا اگر کوئی اٹھا نہ لے گیا ہو۔’’
الیاس نے پوچھا ‘‘کنواں کہاں ہے....؟’’ بڑھیا نے بتا دیا۔ وہ باہر گیا، ڈول اٹھایا، پانی بھر لایا اور سب کو تھوڑا تھوڑا پلایا، بچوں نے اور بڑھیا نے کچھ اور روٹی کھائی اور پانی پیا لیکن آدمی نے کھانے پینے سے یہ کہہ کر انکار کردیا ‘‘میں کچھ کھا نہیں سکتا۔’’
دوسری عورت، اب تک پٹاؤ پر بے ہوش پڑی تھی۔ پھر الیاس گاؤں گیا، نمک آٹا اور مکھن لے آیا، پھر کلہاڑی سے ایندھن چیرا۔ آگ سلگائی، لڑکی نے بھی ہاتھ بٹایا اور دونوں نے مل کر شوربا اور دلیا پکایا اور سب کو کھلایا۔
٭٭٭
اب آدمی نے بھی کھانا کھایا، بڑھیا نے بھی ۔ لڑکوں نے پیالے تک چاٹ کے صاف کردیے اور آپس میں لپٹ کر سوگئے۔ تب آدمی اور بوڑھی عورت نے الیاس کو اپنی کہانی یوں سنانا شروع کی۔
‘‘ہم کبھی بھی مالدار نہ تھے۔’’ کسان نے کہا۔ ‘‘پار سال تمام فصلیں، ناس ہوگئیں۔ خریف کے بعد سے ہم اپنی گھر گرہستی پر زندگی بسر کرتے رہے۔ جب تنکا تنکا بیچ چکے تو لوگوں سے قرض ادھار کرنے لگے۔ شروع شروع انہوں نے ہماری مدد کی، پھر انکار کرگئے۔ ان لوگوں نے بھی سوکھا جواب دے دیا جو ہماری مدد کرکے خوش ہوا کرتے تھے کیونکہ  وہ خود فاقوں پر اتر آئے تھے۔ ہم بھیک مانگنے سے شرماتے تھے، کیونکہ سب کے قرض دار تھے۔ کسی کے روپیہ کے، کسی کے آٹے کے، کسی کی روٹی کے۔ میں نے کام حاصل کرنے کی بہتیری کوشش کی مگر یہاں کوئی کام ہی نہ تھا۔ اس سوکھے کے زمانے میں سب کو اپنے اپنے پیٹ کی فکر ہے، کام کون دیتا....؟ ایک دن کام ملتا تو دو دن بےکار رہتا اور نئے کام کی تلاش میں مارا مارا پھرتا۔ بڑھیا اور لڑکی گاؤں سے دور بھیک مانگنے لگیں، مگر انہیں بھی بہت کم ملا۔ کسی کے پاس روٹی نہ تھی، تاہم نئی فصل کے آسرے پر ہم نے کسی نہ کسی طرح دن کاٹنے کی راہ نکال ہی لی، لیکن جب ربیع آئی تو کسی نے بھی ہمیں سہارا نہ دیا۔ ساتھ ہی بیماری نے بھی آگھیرا اور ہماری حالت بہت خراب ہوگئی۔ ایک دن کھانا نصیب ہوتا تو دو دن فاقے سے رہتے۔ مجبوراً گھاس کھانے لگے۔ اسی دوران میں میری عورت بیمار پڑگئی۔ میں نہیں کہہ سکتا بیماری، گھاس کی وجہ سے پیدا ہوئی یا کسی اور سبب سے....؟ بہرحال اب وہ اس قدر کمزور ہوگئی کہ  ہل بھی نہیں سکتی۔ مجھ میں سکت باقی نہیں اور خدا ہی جانتا ہے اس بیمار کا اور ہم سب کا کیا حشر ہونے والا ہے....؟’’
اس کے بعد بڑھیا نے کہنا شروع کیا۔
‘‘ایک اکیلی میں تھی جو کچھ دن اپنے آپ کو سنبھال سکتی تھی لیکن فاقوں نے آخرکار مجھے بھی بےبس کر ڈالا۔ لڑکی اتنی دبلی اور بےحال ہوگئی ہے کہ دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ میں نے اسے دوسرے گاؤں بھیجنے کی بہت کوشش کی مگر وہ کسی طرح راضی نہ ہوئی۔ ایک کونے میں جاکر کھڑی ہوگئی اور میں اتنی کمزور ہو رہی تھی کہ اسے گھسیٹ نہ سکی۔ دوسرے دن ایک پڑوسن نے آکر جھانکا اور ہمیں بیمار اور بھوکا دیکھ کر الٹے پاؤں لوٹ گئی۔ یہ سچ ہے کہ اس کے شوہر نے ہمیں اسی وقت چھوڑا جب اس کے پاس خود اس کے بچوں کے لیے بھی کچھ باقی نہ رہا تھا۔ غرضیکہ اس طرح  یہاں موت کے انتظار میں پڑے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔’’
الیاس نے ان کی کہانی غور سے سنی اور اس دن اپنے ساتھی یوحنا سے ملنے کا خیال چھوڑ دیا۔ رات گزارنے کے بعد صبح کو وہ گھر کے کام کاج میں اس طرح لگ گیا جیسے مالک وہی ہے۔ جلدی سے آگ سلگائی۔ بڑھیا کو آٹا گوندھنے میں مدد دی۔ پھر لڑکی کو ساتھ لے کر پڑوس میں گیا کہ ضروری چیزیں مانگ لائے، کیونکہ جھونپڑے میں کچھ بھی باقی نہ تھا۔ اس نے ایک ایک کرکے گھر گرہستی کی تمام چیزیں جمع کرلیں  بعض خود بنالیں، بعض مول لے آیا۔
اس طرح اسے وہاں تین دن گزر گئے۔ لڑکے میں اب قوت آگئی۔ اس نے ادھر ادھر دوڑنا اور الیاس سے دوستی پیدا کرنا شروع کردی۔ لڑکی بھی ہری ہوگئی اور الیاس کو ہر کام میں مدد دینے اور ‘‘دادا’’ کہتی ہوئی ہر جگہ اس کے ساتھ آنے جانے لگی۔ بڑھیا بھی پڑوسیوں کے یہاں آنے جانے کے لائق ہوگئی۔ خود کسان بھی دیوار کے سہارے کچھ کچھ چلنے لگا۔ البتہ جوان عورت اب تک بیمار تھی لیکن تیسرے دن اسے بھی ہوش آگیا اور کھانا مانگنے لگی۔
الیاس نے دل میں خیال کیا ‘‘اچھا، اب جانا چاہیے۔ میرا ارادہ اتنا وقت خراب کرنے کا ہر گز نہ.تھا۔’’
٭٭٭
چوتھا دن، گرمی کے روزوں کا آخری دن تھا۔ الیاس نے سوچا ‘‘کل دن بھر اور رک جاؤں۔ ان کے ساتھ روزہ افطار کرلوں۔ تہوار کے لیے بچوں کو کچھ لے دوں پھر شام کو روانہ ہوجاؤں گا۔’’
چنانچہ وہ بازار گیا۔ دودھ، چربی اور سفید آٹا خرید لایا۔ بڑھیا کو کھانا پکانے میں مدد دی۔ دوسری صبح گرجا میں جا کر نماز پڑھی اور گھر لوٹ کر سب کے ساتھ تہوار کا کھانا کھایا۔ اسی دن جوان عورت بھی اچھی ہوگئی اور چلنے پھرنے لگی۔ کسان نے حجامت بنوائی، صاف کرتا پہنا اور گاؤں میں اس مہاجن کے گھر گیا جس کے پاس اس کے کھیت اور گھاس کی زمین گروی رکھی تھی۔ اس نے بہت خوشامد کی کہ اگلی فصل تک اس سے روپیہ نہ مانگے اور کھیت اور زمین چھوڑ دے مگر مہاجن نے انکار کردیا۔ شام کو کسان روتا ہوا گھر لوٹ آیا۔
الیاس اب متفکر ہو کر سوچنے لگا یہ لوگ کیسے جئیں گے....؟ سب کسان گھاس تیار کریں گے، مگر اس کسان کے پاس کچھ بھی نہ ہوگا کیونکہ اس کی زمین گروی ہے۔ جب فصل تیار ہوجائے گی اور سب کاٹتے ہوں گے تو یہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہوگا، اگر میں انہیں چھوڑ کر چلا جاؤں تو ان کی حالت پھر ویسی ہی ہوجائے گی جیسی پہلے تھی۔یہ خیال کرکے اس نے ایک دن کے لیے اور سفر ملتوی کردیا، پھر وہ سونے کے لیے احاطے میں چلا گیا۔ یہاں اس نے پہلے عبادت کی، پھر لیٹ گیا۔ فکر سے نیند اچاٹ ہوگئی تھی۔ بار بار سوچتا تھا، یہاں پڑا ہوا اپنا وقت اور روپیہ کیوں ضائع کر رہا ہوں....؟’’ مگر انہیں اس حال میں چھوڑ کر چلے جانے پر بھی اس کا دل راضی نہ ہوتا تھا، پھر وہ اپنے آپ سے کہنے لگا۔
‘‘میاں الیاس! تم ہر شخص کی مدد نہیں کرسکتے۔ شروع میں انہیں ایک ایک ٹکڑا روٹی دینے کا ارادہ تھا مگر اب عجیب مصیبت میں گرفتار ہوں۔ اب مجھے ان کے کھیتوں کے لیے تقادی خریدنا اور گھاس کی زمین کا بھی بندوبست کرنا ہے۔ یہ ہوجائے تو بچوں کے دودھ پینے کے لیے گائے مول لینا چاہیے، پھر کھیت سے اناج ڈھونے کے لیے کسان کو ایک گھوڑا بھی لے دینا چاہیے۔ بیٹا الیاس! برے پھنسے جس طرح بنے جلد.بھاگو۔’’
یہ سوچتے سوچتے وہ اٹھ بیٹھا۔ چغہ سر کے نیچے سے کھینچا، ناس کی ڈبیا نکالی اور دماغ ٹھیک کرنے کے لیے ایک چٹکی سونگھی مگر اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اس نے بہتیرا غور کیا لیکن کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔ بار بار ارادہ کرتا تھا کہ چلا جائے، مگر انہیں اس حالت میں چھوڑ کر چلے جانے سے بھی اس کا دل کڑھتا تھا، پھر کیا کرنا چاہیے....؟ کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ مجبوراً پھر چغہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا اور رات بھی اسی ادھیڑ بن میں لگا رہا۔ صبح جب مرغ نے بانگ دی تو اس کی آنکھ جھپک گئی۔ خواب میں دیکھا کہ اپنا تھیلا کاندھے پر ڈالے اور لاٹھی ہاتھ میں لیے حج کو جارہا ہے۔ راستے میں ایک دروازہ ملا جس سے اسے گزرنا تھا۔ دروازہ اس قدر تنگ تھا کہ صرف ایک آدمی بہت سمٹ کر نکل سکتا تھا لیکن جب وہ خود نکلنے لگا تو اس کا تھیلا ایک طرف اٹک گیا۔ وہ اسے چھڑانے لگا تو پیروں کی پٹیاں ڈھلی ہوگئیں۔ نیند ہی میں وہ انہیں کسنے کے لیے اٹھ بیٹھا۔ اب جو آنکھ کھلی تو نہ سفر تھا، نہ وہ دروازہ جس میں تھیلا پھنس گیا تھا۔ بلکہ وہی مصیبت زدہ جھونپڑا اسے گھیرے ہوئے تھا۔ لڑکی اس سے چمٹی ہوئی چلا رہی تھی ‘‘دادا! دادا! روٹی۔’’ لڑکا پاؤں پکڑے کھینچ رہا تھا۔ بڑھیا اور کسان کھڑکی پر کھڑے باہر دیکھ رہے تھے۔
الیاس جاگ پڑا اور اپنے آپ سے چلا کر کہنے.لگا۔  
‘‘کل میں ان کا قرض ادا کرکے کھیت اور زمین چھڑالوں گا۔ کھیتی کے لیے گھوڑا، بچوں کے لیے گائے اور نئی فصل تک کے لیے آٹا مول لے دوں گا، اگر میں انہیں اس حال میں چھوڑ کر حج کے لیے سمندر پار چلا گیا تو خدا کو اپنی روح کے اندر ضرور کھودوں گا۔ مجھے ان لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔’’ یہ کہہ کر وہ پھر لیٹ گیا اور صبح تک سوتا رہا۔
الیاس اٹھتے ہی مہاجن کے گھر گیا۔ اسے غلہ اور گھاس کے کھیتوں کا روپیہ ادا کیا۔ پھر گھاس کاٹنے کا ہنسیا خریدا اور اسے جھونپڑے میں لا کر کسان سے.کہا۔
‘‘شروع میں، میں سمجھی تھی کہ یہ معمولی آدمی ہے۔ صرف پانی پینے جھونپڑے میں آیا ہے مگر جب اس نے ان لوگوں کی یہ حالت دیکھی تو وہیں ٹھہر گیا اور انہیں بہت سی چیزیں خرید دیں۔ آج ہی میں نے اسے سرائے میں گھوڑا گاڑی مول لیتے دیکھا ہے۔ میں نے تو دنیا  میں کبھی ایسے آدمی نہیں دیکھے۔ یہ شخص بالکل انوکھا آدمی ہے۔’’
الیاس سمجھ گیا کہ اسی کی تعریف ہورہی ہے۔ اس لیے اس نے گائے نہ مول لینے کا فیصلہ کرلیا۔ سرائے میں لوٹ آیا۔ گھوڑے کو ساز پہنایا اور گاڑی میں جوت کے جھونپڑے تک لے آیا۔ گھر والے گھوڑا دیکھ کربہت متعجب ہوئے۔ انہیں معلوم تھا کہ انہی کے لیے خریدا گیا مگر ایسا خیال کرنے کی جرات نہ کرسکے۔ کسان جلدی سے دروازہ کھولنے آیا اور پوچھنے لگا۔
‘‘پیارے باپ! تم نے اپنا یہ گھوڑا کہاں سے خریدا....؟’’
‘‘راستہ میں لے لیا ہے، سستا جا رہا تھا۔ رات کے لیے کچھ گاس کاٹ کے ناند میں ڈال دو اور آٹے کی بوری اٹھا کر اٹاری پر رکھ دو۔’’
کسان نے گھوڑے پر سے ساز  اتارا۔ بوری اٹحائی، گھاس کاٹی اور ناند میں ڈال دی۔ پھر سب لوگ لیٹ گئے۔ الیاس اپنا تھیلا لیے ہوئے صحن میں لیٹ رہا۔ جب سب سوگئے تو آہستہ سے اٹھا، اپنا چغہ پہنا، جوتے کی ڈوریاں کسیں کاندھے پر تھیلا لٹکایا اور یوحنا سے ملنے کے لیے روانہ ہوگیا۔
٭٭٭
الیاس تین میل کے قریب چلا۔ پو پھٹ رہی تھی۔ وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ اپنا بیگ کھولا، روپیہ گنا دیکھا کہ اس کے پاس صرف سترہ روبل رہ گئے ہیں۔
سوچنے لگا ‘‘میں اتنے روپیہ سے سمندر پار سفر نہیں کرسکتا۔ بھیک مانگ کر روپیہ جمع کرتا ہوں تو اور بھی زیادہ گنہگار ہوجاؤں گا۔ دوست یوحنا کو اب اکیلا ہی جانا پڑے گا۔ شاید میری طرف سے بھی وہ وہاں کوئی شمع جلا دے۔ منت تو مجھ پر موت تک باقی رہے گی، لیکن خدا رحیم ہے مجھے معاف کردے گا۔’’
الیاس اٹھ کھڑا ہوا، تھیلا کاندھے پر لیا اور گھر کی طرف لوٹ پڑا۔ وہ اس قحط زدہ گاؤں سے ذرا کترا کر گیا تاکہ لوگ اسے دیکھ نہ لیں۔ جاتے وقت اسے سفر بہت کٹھن معلوم ہوا تھا۔ یوحنا کا ساتھ دینے میں اکثر بڑی دشواری ہوتی تھی لیکن اب واپسی میں خدا نے اسے ایسی طاقت اور خوشی بخش دی کہ ذرا بھی ماندگی محسوس نہ ہوئی۔ ہلکا پھلکا اپنی لاٹھی ٹیکتا ہوا چلتا رہا۔
گھر پہنچ کر اس نے دیکھا کہ فصل کٹ چکی ہے۔ اناج اکٹھا کیا جاچکا ہے۔ اس کا کنبہ اپنے بوڑھے بزرگ کی واپسی پر شادماں تھا۔ سب نے بڑے شوق سے اس سے سفر کا حال پوچھا اور یہ کہ اپنے ساتھی کو کہاں چھوڑا....؟ سفر ملتوی کرکے گھر کیوں لوٹ.آیا....؟
الیاس نے کسی کو کچھ نہ بتایا۔ یہ کہہ کر بات ٹال دی ‘‘ہاں، خدا کی یہی مرضی ہوئی۔ راستہ میں میرا روپیہ خرچ ہوگیا۔ اسی لیے میں نے اپنے ساتھی کو چھوڑ دیا اور سفر ملتوی کردیا۔ مجھ سے زیادہ سوال نہ.کرو۔’’
اس نے اپنی بوڑھی بیوی کو باقی ماندہ روپیہ دے دیا اور گھر کے حالات پوچھے۔ سب ٹھیک تھا ہر کام بروقت ہوچکا تھا۔ نہ کوئی غلطی ہوئی تھی، نہ غفلت، سب لوگ امن و امان اور میل ملاپ سے گزر کر رہے تھے۔
یوحنا کے گھر والوں کو اسی دن الیاس کی واپسی کی خبر ملی۔ وہ اپنے آدمی کا حال پوچھنے آئے۔ اس نے ان سے بھی یہی کہا ‘‘یوحنا ہر طرح خیریت سے تھا۔ ‘‘سینٹ پیٹر’’ کے تہوار سے تین دن پہلے میں ایک ضرورت سے پیچھے رہ گیا۔ جب میں نے اس سے مل جانا چاہا تو اتفاق یہ ہوا کہ میرا روپیہ خرچ ہوچکا تھا۔ مجبوراً واپس چلا آیا۔’’
لوگوں کو تعجب ہوا کہ ایسے ہوشیار آدمی سے ایسی حماقت کیوں کر ہوئی۔ وہ زیارت و حج کے لیے روانہ ہوا تھا لیکن راستہ ہی میں اپنا سارا روپیہ کھو آیا۔ چند روز اس واقعہ کا چرچا رہا، پھر سب بھول گئے۔ الیاس نے اپنے گھر کا کام کاج سنبھالا۔ لڑکے کو جاڑے کے لیے ایندھن ڈھیر کرنے اور بیوی کو اناج پسینے میں مدد دی۔ پھر کھلیان چھائے، شہد کی مکھیاں چھتوں میں جمع کیں اور بکے ہوئے دس چھتے ان کی تمام مکھیوں کے ساتھ پڑوسی کو دے دیے۔
اس کی بیوی نے کچھ نئی مکھیاں چھپا لینا چاہیں لیکن الیاس کو خوب معلوم تھا کہ پرانی مکھیوں میں سے کون جمع ہوتی ہیں اور کون جمع نہیں ہوتیں۔ اس نے دس چھتوں کے بجائے پڑوسی کو سترہ چھتے دے دیے۔ جب گھر کے سب کام ختم ہوگئے تو اس نے لڑکے کو کام پر باہر بھیج دیا اور خود جاڑا گزارنے، چھال کے جوتے بنانے اور مکھیاں جمع کرنے کےلیے گھر پر رہ.گیا۔
٭٭٭
جب الیاس فاقہ زدہ کسان کے جھونپڑے میں گیا تو یوحنا دن بھر اس کے انتظار میں رہا۔ تھوڑی دور گیا پھر بیٹھ گیا۔ چند قدم آگے بڑھا اور رک کر راہ دیکھنے لگا، مگر الیاس کو نہ آنا تھا نہ آیا۔ یوحنا نے سر اٹھا کر بڑے غور سے بار بار دیکھا، مگر الیاس کا  کہیں پتا نہیں تھا۔ یوحنا خیال کرنے لگا ‘‘شاید مجھ سے آگے نکل گیا ہے، یا کسی نے اسے اپنے ساتھ سواری میں لے لیا ہے۔ میں تو سوگیا تھا۔ ادھر آیا ہوگا، مجھے نہ دیکھ کر آگے بڑھ گیا ہوگا....؟’’
پھر اپنے آپ  سے کہتا ‘‘مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس نے مجھے نہ دیکھا ہو....؟ ڈھالو زمین پر تو آدمی دور تک دیکھ سکتا ہے۔ اب میں کیا کروں....؟ اگر لوٹ پڑوں اور وہ آگے جا رہا ہو تو ہم دونوں ایک دوسرے کو کبھی نہ پاسکیں گے۔ اچھا تو مجھے آگے ہی جانا چاہیے۔ رات تک ضرور ہی مل جائیں گے۔’’
یوحنا دوسرے گاؤں میں پہنچا۔ وہاں کے پادری سے پوچھا ‘‘یہاں کوئی ٹھگنا بوڑھا آدمی تو نہیں آیا تھا....؟’’ جواب ملا، نہیں۔
یوحنا آگے روانہ ہوگیا۔ ہر کس و ناکس سے پوچھتا جاتا تھا۔ ‘‘کسی گنجے سر کے پستہ قد بوڑھے کو تو نہیں دیکھا....؟’’ مگر کوئی ہاں نہیں کہتا تھا۔ یوحنا کو بہت تعجب ہوا اور تنہا سفر شروع کردیا۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہوگیا ‘‘ہم اڈیسا کی بندرگاہ میں تو ضرور ہی مل جائیں گے ورنہ جہاز پر تو ملاقات یقینی ہے۔’’
راستہ میں اسے ایک راہب ملا۔ سر پر چھوٹی سی ٹوپی منڈھے اور جبہ پہنے تھے۔ سر پر لمبے لمبے بال تھے۔ معلوم ہوا کہ بڑا عابد و زاہد ہے۔ اب دوسری مرتبہ بیت المقدس جا رہا ہے۔ ملاقات ایک سرائے میں ہوئی تھی۔ بات چیت ہوئی اور دونوں ساتھ ہوگئے۔
اب وہ اڈیسا پہنچے اور تین دن جہاز کا انتظار کرتے رہے۔ وہاں اور بہت سے ملکوں کے حاجی بھی جہاز کے انتظار میں پڑے تھے۔ یوحنا نے یہاں بھی الیاس کو ڈھونڈا، مگر پتا نہ چلا۔
یوحنا نے پانچ روبل دے کر پروانہ راہ داری حاصل کیا۔ چالیس روبل میں بیت المقدس تک آمدورفت کا ٹکٹ خریدا۔ راستہ کے لیے روٹی اور مچھلی بھی مول لی۔
راہب نے یوحنا کو بتایا کہ کرایہ ادا کیے بغیر وہ کس طرح جہاز پر سفر کرسکتا ہے، مگر یوحنا نے اس کی بات نہ مانی اور کہا ‘‘نہیں، میں کرایہ کے لیے تیار ہو کر آیا ہوں۔ یہی ٹھیک بھی ہے۔’’
جہاز بھر گیا، حاجی سوار ہوگئے۔ یوحنا اور اس کا ساتھی راہب بھی بیٹھ گیا۔ لنگر اٹھا اور سفر شروع ہوا۔ پہلا دن اچھا تھا، لیکن شام ہوتے ہوتے تیز ہوائیں چلنے لگیں، موسلا دھار بارش شروع ہوگئی اور جہاز ادھر ادھر ڈگمگانے لگا۔ یہاں تک کہ موجیں اوپر آگئیں۔
مسافر خوفزدہ تھے۔ عورتیں روتی تھیں، کمزور آدمی پناہ لینے کے لیے ہر طرف دوڑ رہے تھے۔ یوحنا بھی سہما ہوا تھا، مگر اس نے اپنا ڈر ظاہر ہونے نہ دیا۔ وہ ڈیک پر اسی جگہ چپ چاپ بیٹھا رہا جہاں بیٹھ چکا تھا۔ تین دن تک یہ ہی حال رہا کوئی کسی سے نہ بولتا تھا  سب خاموش تھے اور اپنے اپنے تھیلے مضبوط پکڑے بیٹھے تھے، لیکن تیسرے دن موسم صاف ہوگیا اور پانچویں دن جہاز قسطنطنیہ پہنچ گیا۔
بعض حاجی خشکی پر اترے اور سینٹ صوفیا کا گرجا دیکھنے گئے جو اب ترکوں کے قبضہ میں ہے اور مسلمانوں کی مسجد ہے لیکن یوحنا جہاز ہی میں رہا۔ اس نے صرف یہ کیا کہ سفید آٹے کی تازہ روٹی خرید لی۔ ایک دن ٹھہر کر جہاز پھر روانہ ہوا۔ پہلے سمرنا، پھر اسکندریہ اور آخر میں یافہ پہنچ گیا۔ یافہ میں تمام حاجیوں کو خشکی پر اترنا اور وہاں سے بیت المقدس تک پیدل جانا تھا۔ خشکی پر اترتےہوئے حاجی بہت ڈرے ہوئے تھے کیونکہ جہاز اونچا تھا اور مسافر کو پھاند کر کشتیوں میں کودنا تھا۔ کشتیاں اس قدر ڈگمگاتی تھیں کہ پانی میں گر جانے کا اندیشہ تھا، دو حاجی تو گر بھی پڑے لیکن آخر کار بخیریت ساحل پر اتر گئے۔
اب حاجیوں نے پیدل سفر شروع کیا۔ تیسرے دن دوپہر کے قریب بیت المقدس پہنچ گئے۔ شہر کے باہر روسی حلقہ میں ٹھہرے، جہاں ان کے پاسپورٹ دیکھے گئے۔ سب نے کھانا کھایا اور مقدس مقامات کی زیارت کو چل پڑے۔
رات کو وہ سرائے میں واپس آگئے، کھانا کھایا اور سونے کا ارادہ کرنے لگے۔ دفعتاً یوحنا کا ساتھی راہب چلایا اور اپنے کپڑوں میں کچھ ڈھونڈنے لگا۔ پھر شور مچا کر کہتا ‘‘کسی نے میری ہمیانی چرالی ہے۔ اس میں 23 روبل تھے۔ دس دس کے دو نوٹ تھے۔ تین روبل کا خردہ تھا۔’’
راہب بہت رویا اور چلایا مگر کوئی کیا کرسکتا تھا....؟ سب چپ رہے اور سوگئے۔
٭٭٭
یوحنا کو نیند نہیں آئی۔ کروٹیں بدلتا رہا، اس کا خیال راہب کی طرف منتقل ہوا۔ سوچنے لگا ‘‘کسی نے بھی اس کا روپیہ چرایا نہیں ہے۔ اس کے پاس تو ایک پیسہ بھی نہ تھا، اس نے اب تک کہیں کچھ خرچ نہیں کیا، ہر جگہ مجھی سے خرچ کراتا رہا ہے۔ ایک روبل مجھ سے قرض بھی لے چکا ہے۔’’
پھر یوحنا اس قسم کے خیال پر اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا۔ ‘‘میں اس شخص پر کیوں الزام لگاتا ہوں....؟ ناحق گنہگار ہو رہا ہوں۔ مجھے ایسے خیالات سے پرہیز کرنا چاہیے۔’’ لیکن فوراً ہی اپنا یہ فیصلہ بھول گیا اور سوچنے لگا کہ یہ راہب بھی روپیہ کا کتنا بھوکا ہے۔ جھوٹا ہے کہ ہمیانی چوری ہوگئی ہے۔ اس کے پاس روپیہ ہی کہاں تھا....؟ ضرور یہ مکار ہے۔
صبح تڑکے کے تمام حاجی اٹھ بیٹھے تاکہ قیامت کے بڑے گرجے میں نماز پڑھیں اور مسیحؑ کی قبر کی زیارت کریں۔ راہب بھی یوحنا کے ساتھ گیا اور آخر تک پیچھے لگا رہا۔
حاجی گرجا میں داخل ہوئے۔ انہیں اس جگہ پہنچایا گیا جہاں مسیح کا جسم سولی پر سے اتار کے نہلایا گیا تھا۔ اسی طرح پادری نے تمام مقامات دکھائے مگر حاجی بےصبر ہورہے تھے۔ خداوند مسیح کی قبر کی زیارت کے لیے جلد جانا چاہتے تھے۔
یوحنا نے راہب سے پیچھا چھڑانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ بھلا کب ساتھ چھوڑنے والا تھا۔ برابر پیچھے لگا رہا۔ نماز میں بھی اور خداوند کی درگاہ میں بھی۔ دونوں نے آگے پہنچنے کی کوشش کی مگر دیر میں آئے تھے اور بھیڑ اس قدر تھی کہ کاندھے سے کاندھا چھلتا تھا۔ مجبوراً یوحنا کو پیچھے ہی کھڑا ہونا پڑا۔ نگاہیں سامنے اٹھا کر مناجات کرنے لگا، مگر دل مطمئن نہ تھا۔ بار بار اپنی ہمیانی ٹٹولتا تھا۔ ڈر تھا کہیں کوئی کتر نہ لے۔
٭٭٭ 
یوحنا کھڑا مناجات کر رہا تھا۔ اس کی نظریں درگارہ کے اندر مقبرے پر لگی تھیں جس کے چاروں طرف چھتیں قد آور مشعلیں جل رہی تھیں۔ ناگاہ اس نے مقدس مشعلوں کے بیچ میں ایک پستہ قد بوڑھے کو دیکھا جو بھورا چغہ پہنے سب آدمیوں کے آگے کھڑا تھا۔ اس کا گنجا سر روشنی میں چمک رہا تھا۔ بالکل الیاس معلوم ہوتا تھا۔ یوحنا خیال کرنے لگا یہ شخص تو ٹھیک الیاس ہے مگر مجھ سے پہلے یہاں کیسے پہنچ گیا....؟ پہلا جہاز تو ہم سے ایک ہفتہ پہلے روانہ ہوچکا تھا۔ اس پر تو وہ کسی طرح آ نہیں سکتا۔
یوحنا سوچ ہی رہا تھا کہ گنجے بوڑھے آدمی نے مناجات شروع کی اور تین مرتبہ خم ہوا۔ پہلی دفعہ خدا کے لیے پھر دوبارہ دائیں بائیں تمام مسیحی دنیا کے لیے۔ جب اس نے سر اٹھایا تو یوحنا نے صورت اچھی طرح دیکھ لی اور اس کی زبان سے بےساختہ نکل گیا ‘‘بےشک، یہ الیاس ہی ہے۔’’ کیونکہ اس کی سیاہ گھونگروالی داڑھی، گالوں پر کے بھورے بال، بھویں، آنکھیں، ناک، غرضیکہ پورا چہرہ بالکل الیاس ہی کا تھا۔
یوحنا اپنے ساتھی کے مل جانے پر خوش ہوا اور تعجب کرنے لگا کہ وہ کس طرح پہلے پہنچ گیا....؟
پھر دل ہی دل میں کہنے لگا ‘‘یہ الیاس بھی بڑا چالاک ہے۔ مجھ سے پہلے ہی پہنچ گیا۔ شاید کوئی ایسا آدمی مل گیا ہے جس نے مدد کی ہے اور یہاں پہنچا دیا ہے۔ اچھا بھیڑ چھنٹ جانے کے بعد میں اس کا انتظار کروں گا۔ اس ٹوپی منڈھے راہب کا ساتھ چھوڑ دوں گا اور اپنے دوست الیاس کے ساتھ ہوجاؤں گا۔ ضرور وہ میرے لیے بھی آگے جگہ نکال لے گا۔’’
یوحنا، الیاس پر نظریں جمائے کھڑا رہا تاکہ بھیڑ میں غائب نہ ہوجائے مگر جب نماز ختم ہوئی تو صلیب کو بوسہ دینے کے لیے مجمع  نے آگے بڑھنا اور ایک دوسرے کو دھکیلنا شروع کردیا۔ اس کشمکش میں یوحنا بھی ایک طرف ریل ریل گیا۔ ساتھ ہی اسے اپنی ہمیانی یا د آگئی کہ کہیں کٹ نہ جائے۔ جلدی سے ایک ہاتھ ہمیانی پر رکھا اور دوسرے سے مجمع کو دھکیلتا ہوا کھلی جگہ میں پہنچا۔ یہاں ہر طرف الیاس کو تلاش کیا۔ چرچ میں بھی اور چرچ کے حجروں میں بھی، لیکن اس کا کہیں سراغ نہ ملا۔ حجروں میں بےشمار آدمی بھرے تھے۔ کچھ لوگ کھانا کھا رہے تھے، کچھ شراب پی رہے تھے، کچھ سوتے تھے، مگر الیاس ناپید تھا۔ یوحنا مایوس ہو کر اپنی سرائے میں لوٹ آیا۔ شام کو اس کا ساتھی راہب واپس نہ آیا۔ یوحنا کا ایک روبل لے کر کہیں غائب ہوگیا جو اس سے قرض لے چکا تھا۔
دوسرے دن یوحنا پھر مقدس مزار پر آگیا، آگے پہنچنے کی بہت کوشش کی لیکن بھیڑ نے بڑھنے نہ.دیا۔
مجبوراً ایک ستون سے لگ کر کھڑا ہوگیا اور مناجات شروع کی، لیکن جوں ہی سامنے کی طرف نظر اٹھائی الیاس پھر دکھائی دیا۔ ٹھیک قبر کے قریب، مشعلوں کے وسط میں سب سے آگے ہاتھ پھیلائے اس طرح کھڑا تھا جیسے قربان گاہ پر پادری کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کا سر روشنی میں خوب چمک رہا تھا۔ یوحنا دل میں کہنے لگا ‘‘بچہ، اس دفعہ تو تمہیں ضرور ہی پکڑ لوں گا۔’’ اس نے ریل پیل کرکے اپنا رستہ بنا اور آگے بڑھنے لگا مگر جوں ہی وہاں پہنچا، الیاس غائب تھا۔
تیسرے دن یوحنا نے پھر دیکھا کہ الیاس بالکل نظر کے سامنے ہے۔ سب سے زیادہ مقدس مقام میں ہاتھ پھیلائے اور منہ اوپر اٹھا ئے کھڑا تھا، گویا چھت میں کوئی چیز دیکھ رہا ہے۔ اس مرتبہ اس کا گنجا سر ہمیشہ سے زیادہ چمکتا ہوا معلوم ہوا۔ یوحنا نے معاً خیال کیا  اس دفعہ تو میں اسے ہرگز نہ چھوڑوں گا۔ راستہ پر جا کر انتظار کرتا ہوں، وہاں تو ضرور ہی آئے گا اور میں اسے پکڑ لوں.گا۔’’
وہ باہر نکلا اور پھاٹک پر کھڑا ہوگیا۔ آدھا دن انتظار میں کٹ گیا۔ سب آدمی ایک ایک کرکے گزر گئے مگر الیاس نہ آیا۔
یوحنا بیت المقدس میں چھ ہفتہ رہا اور ہر مقام کی زیارت کی۔ بیت اللحم کی، دریائے یردن کی.... مقدس مزار میں اس نے ایک نئے کرتے پر مہریں کرائیں تاکہ مرنے پر اسی میں دفن کیا جائے۔ ایک بوتل میں یرون سے پانی لیا، پاک مٹی لی، مقدس شمعیں جلائیں اور اپنے عزیزوں کی ارواح کے لیے آٹھ جگہ روپیہ نذر دیا۔ اب اس کے پاس صرف اتنا ہی روپیہ رہ گیا تھا کہ گھر پہنچ سکے۔
٭٭٭
یوحنا اسی راستہ سے لوٹا جس سے گیا تھا جوں جوں وطن قریب آتا گیا، اس کے دل میں گھر کی فکریں بڑھنے لگیں۔ سوچنے لگا، گھر کے کام کیسے چلے ہوں  گے....؟ میری غیر حاضری میں بہت تبدیلی ہوگئی ہوگی، گھر بنانے میں پوری عمر صرف ہوجاتی ہے، مگر برباد کرنے میں دیر نہیں لگتی۔ کیا لڑکے نے کاروبار ٹھیک رکھا ہوگا....؟ مویشیوں  کا کیا حال ہوگا....؟ جھونپڑے کی تعمیر کیونکر ختم ہوئی ہوگی....؟’’
یوحنا اب اس گاؤں  کے قریب پہنچا جہاں پچھلے سال الیاس اس سے جدا ہوا تھا۔ باشندے پہچانے نہ جاتے تھے۔ پار سال بھوک سے مر رہے تھے۔ اب چین سے تھے، فصل اچھی ہوئی تھی، سب خوشحال ہوگئے تھے۔
شام کو یوحنا ٹھیک اس جگہ پہنچا جہاں الیاس سے الگ ہوا تھا، جوں ہی گاؤں میں داخل ہوا سفید کرتا پہنے ایک چھوٹی لڑکی جھونپڑے سے نکلی اور پاس آکر کہنے لگی۔
‘‘دادا! پیارے دادا! ہمارے گھر چلو۔’’
یوحنا نے آگے بڑھ جانا چاہا مگر لڑکی نےا س کے چغے کا دامن پکڑ لیا اور ہنستی ہوئی اسے اپنے جھونپڑے کی طرف کھینچنے لگی۔ ڈیوڑھی میں ایک عورت گود میں بچہ لیے کھڑی تھی، اس نے بھی بمنت کہا ‘‘آؤ، آؤ، ہمارے ساتھ کھانا کھالو، رات بھر یہیں آرام کرو۔’’
یوحنا اندر گیا اور سوچنے لگا ‘‘یہاں الیاس کا پتا چل جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ وہی جھونپڑا ہے جس میں وہ پانی پینے گیا تھا۔’’عورت نے یوحنا کے کاندھے پر سے بیگ اتارا، منہ ہاتھ دھونے کو پانی لائی۔ بیٹھنے کو  کرسی دی اور دودھ روٹی کھانے کو پیش کی۔ یوحنا نے شکریہ ادا کیا اور پردیسیوں کے ساتھ ایسی ہمدردی پر تعریف کی۔
عورت نے سر ہلا کر جواب دیا ‘‘بھلا ہم پردیسیوں کی خبر گیری سے کیسے باز رہ سکتے ہیں....؟  ایک پردیسی ہی نے تو ہماری جان بچائی ہے۔ ہم خدا کو بھولے ہوئے تھے۔ خدا نے بھی ہمیں ایسی سزا دی کہ موت سامنے آکھڑی ہوئی۔ پار سال گرمی میں ہم سب کے سب اسی جھونپڑے میں پڑے تھے۔ بیمار تھے، کئی دن کے فاقے سے تھے۔ ہم ضرور مر گئے ہوتے مگر خدا نے ٹھیک تمہارے ہی جیسا ایک بوڑھا آدمی ہمارے گھر بھیج دیا۔ وہ دوپہر کے وقت پانی پینے اندر آیا تھا، مگر جب ہمیں اس حال میں دیکھا تو ترس کھایا اور ہمارے ساتھ ٹھہر گیا۔ اس نے ہمیں کھانا کھلایا، پانی دیا، ہمادی مدد کی، ہماری زمین روپیہ دے کر چھڑا دی، گھوڑا اور گاڑی بھی خرید دی....’’
عورت یہاں تک کہنے پائی تھی کہ جھونپڑے میں ایک بڑھیا داخل ہوئی اور بات کاٹ کر کہنے لگی ‘‘اور ہمیں نہیں معلوم کہ وہ آدمی تھا یا خدا کا فرشتہ۔ اس نے ہم سب سے محبت کی۔ ہم سب پر رحم کھایا، پھر اپنا پتا نشان بتائے بغیر نہ جانے کہاں چلا گیا....؟ ہم اب تک نہیں جانتے کسے دعائیں دیں....؟ اس دن کا پورا نظارہ آج بھی میری آنکھوں میں ہے۔ دیکھو میں اس جگہ پڑی مر رہی تھی کہ گنجے سر کا ایک ٹھگنا بوڑھا اندر آیا اور پانی مانگنے لگا۔ میں نے گناہ کیا۔ خیال کرنے لگی کہ ہم تو اس آفت میں ہیں اور اسے اپنی پڑی ہے۔ لیکن جوں ہی اسے ہماری مصیبت معلوم ہوئی، اپنا تھیلا اتار دیا۔اسی میز پر رکھ دیا جو بیچ میں پڑی ہے۔’’
چھوٹی لڑکی بیچ میں بول اٹھی ‘‘نہیں، دادا! اس نے تھیلا پہلے کمرے کے اندر زمین پر رکھا تھا، پھر تپائی پر اٹھا کر رکھا۔’’
غرضیکہ اسی طرح وہ اس کی ہر ہر بات بیان کرکے باہم حجت کرنے لگے۔ ایک کہتا وہ یہاں بیٹھا تھا، دوسرا کہتا وہاں سویا تھا، اس نے یہ کام کیا تھا۔ یہ کہا تھا۔
رات ہونے سے پہلے کسان بھی اپنی گاڑی لیے گھر آگیا۔ اس نے الیاس کی بابت گفتگو شروع کردی اور اس کے احسان گنانے لگا ‘‘اگر وہ شخص نہ آیا ہوتا تو ہم سب کے سب ضرور مر گئے ہوتے۔ ہم مایوسی میں پڑے جان دے رہے تھے۔ خدا کی طرف سے بھی ہمارے دل پھر گئے تھے لیکن اس نے آکر ہمیں از سرنو زندگی بخشی۔ اسی کی بدولت ہم نے خدا کو جانا اور انسان کی نیکی کا یقین کیا۔ مسیح کی برکت اس پر ہو، ہم پہلے چوپائے تھے، اس نے ہمیں آدمی بنایا۔ خدا اسے دونوں جہانوں میں اس کابدلہ دے۔’’
گھر والوں نے یوحنا کو کھانا کھلایا اور سونے کے لیے جگہ ٹھک کردی، پھر خود بھی لیٹ گئے۔
یوحنا لیٹا تو مگر نیند نہ آئی۔ الیاس کی وہ صورت آنکھوں میں پھرتی رہی جو بیت المقدس میں بار بار نظر آئی تھی۔ کسان اور اس کے کنبے کی باتوں سے یوحنا سمجھ گیا تھا کہ اصلی معاملہ کیا ہے اور یہ کہ الیاس اپنی انہیں نیکیوں کی وجہ سے خدا کی نظر میں محبوب ہوگیا ہے۔ وہ دل ہی دل میں کہنے لگا ‘‘الیاس تم مجھ سے بازی لے گئے۔ تمہاری سعی تو اللہ نے قبول فرمائی مگر مجھے اپنا حال کچھ نہیں معلوم۔’’
دوسری صبح گھر والوں نے اٹھ کر یوحنا کو سلام کیا۔ راستہ کے لیے روٹی اور دوسری چیزیں ساتھ کردیں۔
٭٭٭
یوحنا کا سفر ایک برس میں ختم ہوا۔ شام کے وقت گھر پہنچا۔ لڑکا، شراب خانے میں تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی آکر باپ سے ملا۔ یوحنا نے اس سے بات کی اور فوراً معلوم کرلیا کہ اس زمانہ میں لڑکے نے خوب گل چھرے اڑائے ہیں۔ یوحنا نے ملامت کرنا شروع کر دی۔ لڑکے نے گستاخی سے جواب دیا ‘‘پھر تم کیوں سفر پر گئے....؟ یہیں گھر ہی میں کیوں نہ رہے....؟ ہر کام خود کیوں نہ سنبھالا....؟ تمام روپیہ تو خود ہی لے کر چلے گئے تھے۔ اب آکے مجھ سے کہتے ہیں کہ روپیہ کہاں سے۔ واہ!’’
بوڑھا یوحنا سخت ناراض ہوا۔ لڑکے کو بہت مارا، پھر دوسرے دن شکایت لے کر گاؤں کے چودھری کے پاس جانے لگا۔ راستہ میں الیاس کا گھر تھا۔ ڈیوڑھی میں الیاس کی بوڑھی بیوی کھڑی تھی۔ اس نے یوحنا کو بلایا اور سلام کرکے کہنے لگی ‘‘کہو، سفر خیریت سے گزر گیا....؟’’
‘‘ہاں خدا کی مہربانی سے سارا سفر اچھی طرح پورا ہوگیا۔ راستہ میں تمہارا شوہر مجھ سے الگ ہوگیا تھا، مگر میں نے سنا ہے کہ وہ گھر پہنچ گیا ہے۔’’
عورت بڑی باتونی تھی۔ کہنا شروع کیا ‘‘ہاں ہمارا روٹی کمانے والا مدت ہوئی گھر لوٹ آیا ہے۔ ہم بہت خوش ہوئے۔ جب وہ یہاں نہ تھا، ہم بالکل اکیلےہوگئے تھے۔ یہ سچ ہے کہ اب وہ بہت کام نہیں کرسکتا، عمر زیادہ ہوگئی ہے پھر بھی گھر کا مالک وہی ہے۔ جب لڑکے نے اسے آتے دیکھا تو خوشی سے اچھل پڑا۔ اس کے پیچھے کہا کرتا تھا ‘‘بغیر باپ کے گھر ویسا ہی برا ہے، جیسے بغیر دھوپ کے دن برا ہوتا ہے۔ ’’ آہ! پیارے بھائی! ہم اپنے بڈھے کے بغیر بالکل اکیلے رہ گئے تھے، ٹھیک ایسے ہوگئے تھے جیسے کسی کی ساری دولت لٹ گئی ہو۔ کیوں نہیں جبکہ ہمیں اس سے اتنی ہی محبت ہے، ویسے بھی....’’
یوحنا نے بات مختصر کرنی چاہی۔ ‘‘تو کیا وہ اس وقت گھر میں موجود ہے....؟’’
بڑھیا نے جواب دیا ‘‘ہاں ، ہاں گھر ہی میں ہے۔ شہد کی مکھیوں کے چھتے بنا رہا ہے۔ کہتا ہے اب کی برس مکھیاں بہت جمع ہوں گی۔ اس کا قول ہے کہ خدا ہمیں اس سے کہیں زیادہ دیتا ہے جتنے کے ہم اپنے گناہوں کی وجہ سے مستحق ہوتے ہیں۔ اب کی مکھیاں اس قدر زبردست ہیں کہ کبھی دیکھی نہیں گئی تھیں۔ آؤ مہربان وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہوگا....؟’’
یوحنا ڈیوڑھی سے صحن میں آیا۔ صحن سے باغ میں پہنچا۔ الیاس اپنا بھورا چغہ پہنے ایک پیڑ کے نیچے کھڑا تھا اور منہ اوپر اٹھائے مکھیاں دیکھ رہا تھا۔ ہاتھ پھیلے ہوئے تھے۔ سر بالکل اسی طرح چمک رہا تھا جس طرح یوحنا نے ہیکل کی شمعوں کے درمیان بیت.المقدس میں دیکھا تھا۔ دھوپ، پتیوں سے چھن چھن کر منہ پر پڑ رہی تھی اور سر کے گرد سنہری مکھیوں نے ایک کنڈل سا بنا دیا تھا۔ مکھیاں اسے ڈنک نہیں مارتی تھیں۔ آہستہ آہستہ بھنبھنا رہی تھیں۔ یوحنا چپ کھڑا ہوگیا۔ بڑھیا نے الیاس کو پکارا ‘‘دیکھو تمہارا دوست آگیا۔’’
الیاس نے مڑ کر دیکھا اور اپنی داڑھی مکھیوں سے صاف کرتا ہوا خوشی خوشی ملنے کو دوڑا۔ وہ جوش سے چلایا ‘‘ہمسایہ! میرے ساتھی! خدا تمہارے ساتھ ہو، کہو سفر خیریت کے ساتھ ختم ہوگیا....؟’’
‘‘ہاں،۔’’ یوحنا نے جواب دیا۔ ‘‘میرے پاؤں تو منزلیں طے کر آئے ہیں۔ میں تمہارے لیے یردن کا مقدس پانی لایا ہوں، اسے لے لو لیکن دوست میں نہیں جانتا خدا نے میری یہ زیارت قبول فرمائی یا.نہیں....؟’’
‘‘ضرور، ضرور! خدا کا شکر ادا کرو۔ مسیح تمہاری حفاظت کرے!’’
‘‘لیکن تمہاری سعی تو مقبول ہوگئی!’’ یوحنا نے.کہا۔
‘‘خدا کی مشیت! خدا کی مشیت!’’ الیاس نے نگاہیں نیچی کرکے جواب دیا۔
‘‘میں واپسی پر اس جھونپڑے میں ٹھہرا تھا، جہاں تم نے قیام کیا تھا....’’
الیاس اس بات کے سننے سے مضطرب ہوگیا، فوراً قطع کلامی کرکے بولا ‘‘بھائی، خدا کی مشیت ، خدا کی مرضی، اچھا آؤ، کچھ دیر آرام کرلو میں تمہارے لیے شہد لاتا ہوں۔’’ الیاس نے گفتگو بدل دی اور خاندانی معاملات چھیڑ دیے۔
یوحنا نے ٹھنڈی سانس بھری، مگر جھونپڑے کے لوگوں کے ساتھ اس کی نیکیوں اور بیت المقدس میں اس کے ظہور کی بابت کوئی بات نہ کہی۔ وہ دل میں یہ سوچ کر چپ ہورہا ‘‘خدا نے ہر آدمی کو حکم دیا ہے کہ وہ محبت اور نیک کاموں کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ یہی سب سے بڑی عبادت ہے۔ اسی سے خدا خوش ہوتا ہے۔ میں نے زمین کی مسافت طے کی اور خالی ہاتھ واپس آگیا مگر اس نے گھر بیٹھے دولت پالی!’’
دل بدست آور کہ حج اکبر ست!
از ہزاراں کعبہ یک دل بہتر ست!






روسی ادب کے مایہ ناز افسانہ نگار

لیو ٹالسٹائی ۔1828ء تا 1910ء

لیوٹا لسٹائی (9 ستمبر 1828ء۔ 20 نومبر 1910ء) روس کی ریاست تُلّاTula میں یسنایا Yasnaya کے جاگیردار کے گھر  پیدا ہوئے۔ آپ  کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے لہٰذا وہ اور اُن کے بہن بھائی مختلف رشتہ داروں کے ہاں پرورش پاتے رہے۔بچپن میں فرانسیسی اور جرمن استادوں سے تعلیم حاصل کی، سولہ سال کی عمر میں اس نے کازاں یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا  لیکن اُن  کے اساتذہ انہیں  نالائق طالب علم خیال کرتے  تھے، ساتھی طلٍبا اور اساتذہ کے منفی رویے کے باعث انہوں  نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آبائی قصبے یسنایا  لوٹ آئے۔   کئی سال تک ماسکو اور پیٹرس برگ میں لوگوں کی سماجی زندگی کا مطالعہ اورکسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے رہے ۔1851ء میں فوج میں شامل ہوکر ترکو ں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا لیکن جلد ہی وہ فوجی زندگی سے اکتا گئے  اور پیٹرس برگ آگئے  ۔ آپ  نے  پہلا ناول 1856ء میں بچپن کے نام سے لکھا  لیکن آپ  کی شہرت اس وقت پھیلی جب اس نے جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں سیواتوپول  کی کہانیاں لکھیں ۔ پھر مغربی یورپ کی طویل سیاحت کی ،  بعد میں اپنی جاگیر پر واپس آئے  کسانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے  ۔ اس دوران اس  نے اپنا زندہ جاوید امن اور جنگWar & Peace  اور  اینا کرینینا Anna  Kareninaلکھ کر  بےپناہ شہرت حاصل کی۔ 
1876ء کے بعد سے روسی کلیساکے جمود   زدہ نظریات کے خلاف خیالات آپ  کے  ذہن   میں چھائے رہے  اور آپ  نے عیسائیت کی نشاۃ ثانیہ کا اپنا نظر یہ وضع کیا   اور انسانی محبت ، سکون اور اطمینان قلب    اور عدم تشدد کو اپنا مسلک قرار دیا ، ساتھ ہی  ایک اعتراف  کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اپنے نظریات  کو پیش کیا اور ذاتی ملکیت کے تصور کو رد کیا،  انسان سے انسان کے جبرو استحصال کی شدت سے مذمت کی ۔ وہ زبان اور قلم سے جمہوریت، مساوات اور اخوت کی تلقین کرنے لگے ۔ آپ  کے انقلابی خیالات روس سے باہر بھی مقبول ہونے لگے لوگوں پر آپ  کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ روس کی حکومت کو آپ  کی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے کی جرات نہ ہوئی۔  آپ  اپنے نظریات  کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن خاندان کے افراد اس کے مخالف  تھے ،  لہٰذا    دل گرفتہ ہو کر  گھر چھوڑ دیا اور اپنے حصے کی ساری جاگیر اور دولت کسانوں اور مزدورں میں تقسیم کر دی،  زندگی کے آخری لمحوں تک تن کے دو کپڑوں کے علاوہ آپ  کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔  آخر کار  20نومبر 1910ء کو ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کسمپرسی کی حالت میں وفات پاگئے ۔   شاعر مشرق علامہ اقبال کہتے تھے کہ عیسائی دنیا میں پاکیزہ زندگی، روحانیت، ترک و تجرید، درویشی و ایثار کے اعتبار سےآپ  جیسی مثال مشکل سے ملے گی ۔ 

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں