ترکی ادب کا ایک شاہکار افسانہ

تقدیر

اپنے اندر دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے ایک نوجوان کی داستان وہ ایک خاص مشن پر تھا۔  تُرک کے مشہور قلم کار نجیب فاضل قیصاکورک کے قلم سے....




دیوانے شریف کا شمار عقل.مند دیوانوں میں ہوتا تھا۔ وہ نہ صرف اس حقیقت سے آگاہ تھا کہ میں دیوانہ ہوں، بلکہ اپنی دیوانگی کی وجہ بھی جانتا تھا۔ ان دونوں باتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ  وزنی منطق سے کام لیتا تھا۔ 

وہ اپنی شفاف، سمندر کے پانی کی طرح چمکتی، پُرنم آنکھیں آپ کے چہرے پر گاڑے گاڑے، انہیں یک دم زمین پر گاڑ کر یوں بڑبڑانے لگ جاتا، ‘‘مجھے پاگل کر دیا ہے تقدیر کے.چکر .نے۔’’
وہ گاؤں سے تھوڑی ڈور ڈھلوان پر، پتھروں کی کان کی طرح ایک غار نما کھوہ میں کئی کئی گھنٹے، بعض اوقات کئی کئی دن گزار دیتا۔ گھٹنوں سے نیچے اور پیٹ سے اوپر نیم برہنگی کی حالت میں پتھر کی طرح جامد اس کھوہ میں پڑا وہ کیا کرتا، کیا سوچتا تھا، کیا کھاتا تھا، کیا پیتا تھا، اس کا کسی کو علم نہ تھا۔ اس نے اپنی بات چیت کےساتھ ساتھ اپنی خوراک اور لباس کی ضروریات بھی اس حد تک کم کردی تھیں کہ دنیا میں اتنی کم ضروریات والا شاید ہی کوئی دوسرا انسان ملے۔
وہ اپنے حال میں مست رہتا۔ چہرے پر گھنگریالے بالوں پر مشتمل ڈاڑھی کی حالت زار اس کی بےاعتنائی کا  منہ بولتا ثبوت تھی۔ صاف شفاف دو پُرنم آنکھیں، ہونٹوں کی لکیروں میں ایک زہریلی، پُراستہزا تبسم کی جھلک، جس کا ہدف کوئی اور نہیں، وہ خود تھا۔ بس یہ تھا دیوانے شریف کا حلیہ۔
کبھی کبھار وہ گاؤں کے واحد قہوہ خانے میں، گاؤں کی مسجد کے دالان میں، یاگاؤں کے قبرستان میں بھی دکھائی دے جاتا۔ قہوہ خانے میں اگر کوئی آدمی اس کے سامنے چائے کی پیالی رکھ دیتا تو وہ دیر تک اس میں چمچا ہلاتا رہتا، یوں جیسے چائے کا سارا رنگ گھول کر ہی دم لے گا، پھر اسے گھنٹے بھر میں گھونٹ گھونٹ پی کر ختم کرتا۔ مسجد کے دالان میں اس کے وضو کرنے کی رفتار اس قدر سست ہوتی کہ اتنی دیر میں دس نمازی باری باری وضو کرکے فارغ ہوجاتے۔ قبرستان میں کسی پتھر کے مد مقابل یوں بےحس و حرکت بیٹھا رہتا جیسے کوئی مرد مومن کسی کا پُردرد وعظ سننے میں محو ہو۔ غرض، وہ جو کام بھی کرتا، اس سے یہی ظاہر ہوتا کہ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے، یوں، جیسے ایک ہی بات پر غور کرتے کرتے اتنی گہرائیوں میں کھو گیا ہو کہ وہاں سے کبھی واپس نہیں لوٹ سکے گا۔
اس کا سخت گیر، چڑچڑا باپ، جو گاؤں کے قہوہ.خانے کا مالک تھا، اس کی ماں، جو ایک موہوم قندیل کی طرح ایک کمرے سے دوسرے کمرے کے چکر کاٹتی رہی تھی، یا کوئی  اور شخص اس کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے سے قاصر تھا۔
 خدا بھلا کرے گاؤں کے ماسٹر صاحب کا، جن کی جیبی ڈائری دیوانے شریف کے متعلق معلومات سے بھرپور تھی۔ وہ دیوانے شریف کے گہرے دوست تھے۔ انہوں نے اپنی ڈائری اسی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ وہ اس میں یوں باقاعدگی سے اندراج کرتے رہتے، جیسے کوئی پُرخلوص قاری اپنے پسندیدہ مصنف کےحکیمانہ ارشادات اور نجی زندگی سے متعلق قیمتی معلومات قلم بند کرتا رہتا ہے۔
اب آئیے، ذرا اس ڈائری کے چند اوراق الٹ پلٹ کر دیکھیں:
‘‘میں ان خیالات سے کیسے چھٹکارا پاؤں....؟ کیا سائے پر مٹی ڈال کر اسے ڈھانپا جاسکتا ہے....؟ کیا سایہ سب سے آخر میں ڈالی جانے والی مٹی کی تہہ پر حاوی نہیں ہوجاتا....؟’’
ایک اور صفحہ:
‘‘دیوانہ شریف گاؤں سے پرائمری  تعلیم مکمل کرکے استنبول چلا گیا۔ وہاں ایک ہسپتال میں ملازم ہوگیا، جہاں اس نے کمپاؤنڈر بننے کے لیے ایک کورس کیا، پھر وہیں عملی تجربہ حاصل کرنا شروع کردیا۔ ہسپتال میں خون کے کینسر کی ایک مریضہ کو دل دے بیٹھا۔ لڑکی کو تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد خون دینا پڑتا تھا۔ شریف نے اسے خون دینے کا ذمہ اپنے سر لے لیا۔ چند ہی بار خون دے کر اپنے نصف سے زیادہ خون سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ وہ ساری ساری رات لڑکی کے سرھانے بیٹھا رہتا۔ 
ایک روز لڑکی مر گئی۔ مرتے وقت اسے کہنے لگی، ‘‘میری تقدیر ہی ایسی تھی۔’’ 
شریف واپس اپنے والد کے پاس چلا گیا۔ کچھ ہی عرصے بعد شہر کےلوگوں کے عادات و اطوار چھوڑ کے اپنی پہلی حالت میں لوٹ آیا۔ اب اسے اپنے سخت گیر، چڑچڑے باپ کے گھر جانے کی اجازت نہ تھی، چنانچہ وہ قہوہ خانے ہی میں عقبی سیڑھیوں کے نیچے پڑ کر سوجاتا۔ اب وہ اپنی ماں سے بھی دور ہوگیا، جو پریشان حال بیٹے کے گھر میں داخلے پر پابندی  کے باعث رو رو کر ہلکان ہوتی رہتی تھی۔ دن کے وقت شریف پتھروں کی کان میں گھسا رہتا۔
 میں جب سے استاد کی حیثیت سے گاؤں میں آکر دیوانے شریف سے ملا ہوں، یوں لگتا ہے جیسے ایک بالکل نئی دنیا میں داخل ہوگیا ہوں۔ میرے خیال میں شہر کا کوئی ذہین ترین باشندہ بھی اتنی ذکا کا مالک نہیں ہوگا، جتنی دیوانے شریف میں ہے۔’’
ایک موقع پر ماسٹر صاحب اور دیوانہ شریف پتھروں کی کان میں ایک دوسرے سے یوں محو.گفتگو.ہیں:
‘‘مرحبا شریف!’’
‘‘مرحبا ماسٹر صاحب!’’
‘‘تم تقدیر سے بھاگ کر اس کھوہ میں آچھپتے.ہو....؟’’
‘‘میری تقدیر میں یہی لکھا ہے۔’’
‘‘کیا انسان کبھی ریل کی پٹڑی کی طرح اپنی تقدیر کو دیکھ سکتا ہے....؟’’
‘‘دیکھ نہیں سکتے، اسی لیے تو سب انسان چین سے رہ رہے ہیں۔’’
‘‘کیا تم اس لیے بےچین ہو کہ اپنی تقدیر دیکھ سکتے ہو....؟’’
‘‘میری بےچینی کی ایک وجہ تو میر اشعور ہے کہ میں ریل کی پٹڑی پر چلا جا رہا ہوں، دوسری وجہ یہ ہے کہ میں اپنے مستقبل کے بارے میں بالکل نابلد ہوں۔ کچھ دیکھ نہیں سکتا۔’’
ماسٹر صاحب نے جیب سے ڈائری نکالی، کچھ نوٹ کیا، پھر سر اٹھا کر بت کی مانند ساکت بیٹھے شریف سے مخاطب ہوئے، ‘‘دین نے اس مسئلے کا نہایت عمدہ حل پیش کیا ہے۔ دین میں تقدیر اس حقیقت کو کہتے ہیں جس کے مطابق اللہ تعالیٰ کو اسی بات کا پیشگی علم ہے کہ تم آئندہ کیا کرنے والے.ہو۔’’
دیوانہ شریف ذرا جوش میں آگیا۔ ‘‘اللہ کو علم ہے کہ میں کیا کرنے والا ہوں....؟ بےشک اسے علم ہے۔ علم کیسے نہ ہو، جب میراہر کام اس کی اپنی رضا سے ہوتا ہے۔’’
‘‘ہشت! تم حد سے تجاوز کر رہے ہو شریف! تم بھول رہے ہو کہ خدا نے تمہیں پیدائش کے وقت ہی سے فیصلے کا اختیار دے رکھا ہے۔’’
‘‘اس کے فیصلے کے اختیار کے سامنے میرے فیصلے کے اختیار کی وقعت ہی کیا ہے....؟ اگر اس کی خواہش نہ ہو کہ میں کسی بات کا ارادہ کروں تو بھلا میں اس بات کا ارادہ کر سکتا ہوں....؟ اگر وہ مجھ سے کوئی اقدام نہ کروانا چاہے تو محض میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے....؟ میری کیا مجال ہے....؟’’
ماسٹر صاحب نے اس کے لہجے کی کڑواہٹ کو مٹھاس میں بدلنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا، ‘‘شریف! تم ایک نہایت دین دار انسان ہو۔ تم اس بات کی بھی پروا نہیں کرتے کہ سب لوگ تمہیں پاگل کہتے ہیں، حالانکہ ان کی رائے کےبالکل برعکس تم ایک نہایت عقل مند آدمی ہو۔ اللہ کی نعمتوں کا اوروں کے مقابلے میں تمہیں زیادہ احساس ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے، لیکن تمہاری یہ رائے تمہیں بہت دور لے گئی ہے۔ تم اللہ کو عظیم سے عظیم تر اور خود کو کم سے کم تر ظاہر کرتے کرتے صحیح پیمانہ ہی ہاتھ سے گنوا بیٹھے ہو۔ اپنے آپ کو ذمہ.داریوں ہی سے خارج گردانتے ہو۔ اپنی اس غلطی کی تصحیح کرلو۔’’
شریف اپنی شفاف، سمندر جیسی پُرنم آنکھیں، ظلمتوں پر گاڑے، ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے بولا۔
‘‘ہم ہیچ ہیں۔ ہستی اس کی ہے۔ ہم میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ خاک کے ایک ذرے کو (اللہ کی مرضی کے بغیر) جنبش دے سکیں۔ طاقت ساری اسی کی ہے، جو سب کچھ ہم سے کرواتا ہے۔ میں اس وقت جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے کہلوانے والا بھی وہی ہے.... ہستی ہے تو اسی کی ہے ماسٹر صاحب! ہم سب تو ہیچ ہیں۔’’
‘‘تم نے طاقت کے توازن میں خلل ڈالا ہے.شریف!’’
‘‘میں نے تو اپنی عقل ہی میں خلل ڈالا ہے ماسٹر.صاحب!’’
‘‘شریف! کچھ تو کر جاؤ۔ کوئی ایسا فعل، جس سے تمہاری خداداد آزادیٔ عمل کا اظہار ہو۔’’
شریف کے ہونٹوں پر زہریلا استہزا جنم دینے والی لکیریں جگمگا اٹھیں، کہنے لگا:
‘‘ماسٹر صاحب! جب میرا کوئی فعل میرا اپنا ہی نہیں تو میں بھلا کیا کرسکتا ہوں، جس سے میرے عمل کی آزادی کا اظہار.ہو....؟’’
‘‘تم نے بس ایک نقطے پر اپنے آپکو گاڑ رکھا ہے، وہاں سے تمہیں کوئی طاقت اکھاڑ نہیں سکتی۔ ہمت کرو، اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ۔ اپنی پرانی حالت پر لوٹ آؤ۔ میدان حیات میں قدم رکھو۔ اللہ کے ارادوں کی کھوج کوئی نہیں لگا سکتا، اس خیال سے باز آجاؤ۔ یہ زندگی، جو تمہیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہے، بہت بڑی نعمت ہے، اسے اپناؤ اور زندہ رہنے پر توجہ.دو۔’’
شریف نے اپنی انگلی ماسٹر صاحب کے ہونٹوں کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ‘‘آپ کا کیا خیال ہے، آپ جو کچھ کہہ  رہے ہیں۔ اپنی مرضی سے کہہ رہے ہیں....؟ کیا ہم سوچتے ہوئے، بات چیت کرتے ہوئے، ہر بات میں تقدیر کے اسیر نہیں ہوتے....؟’’
ماسٹر صاحب زچ ہوکر سر جھکا کر کھوہ سے نکلے اور گاؤں واپس لوٹ گئے۔
اس رات، جب شریف کی ماں سیڑھیوں کے نیچے اس کے حجرے میں کھانا لے کر گئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ اگلے روز.... پھر اس سے اگلے روز بھی شریف کہیں نہ ملا۔ اس کا باپ، جو ہر وقت کہا کرتا تھا، ‘‘مرجائے یہ مردود تو ہماری جان چھوٹے،’’ بیٹے کو کہیں نہ پا کر کندھے جھٹکتے ہوئے بولا، ‘‘کاش، کبھی نہ ملے!’’
کئی روز گزر گئے، ماسٹر صاحب گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر استنبول گئے تو انہوں نے وہاں ہر اسپتال کے چکر کاٹے۔ ان کا خیال تھا کہ جس اسپتال  میں شریف کسی زمانے میں رہ چکا تھا، اس کا پتا چل جائے تو شاید وہاں سے کوئی سراغ مل سکے۔ آخر انہیں وہ اسپتال مل ہی گیا۔ ایک ڈاکٹر نے انہیں اس لڑکی کے بارے میں معلومات فراہم کیں جو اسپتال میں شریف کے قیام کے دوران کینسر کی وجہ سے مر.گئی.تھی۔
‘‘بڑی فرشتہ صفت لڑکی تھی.... لاوارث تھی۔ شریف کے سوا اس کا کوئی اور پُرسان حال نہیں تھا۔’’
‘‘ڈاکٹر صاحب! کیا آپ جانتے ہیں کہ اسے دفن کہاں کیا گیا تھا....؟’’
‘‘لاوارث مردوں کی تکفین و تدفین حکومت کرتی ہے۔ سرکاری ریکارڈ سے مدفن کا پتا چلایا جاسکتا.ہے۔’’
ماسٹر صاحب لاوارث مردوں کے قبرستان پہنچ گئے۔ وہاں لڑکی کی قبر کا کچھ پتا نہ چلا۔ وہ چند قبروں کے بیچوں بیچ گزرتے ہوئے ایک سروکے درخت کے نیچے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے۔ سامنے سمندر میں آتے جاتے اسٹیمر اپنی اپنی تقدیر کی لکیروں پر محو سفر تھے۔ دور سے شہر کی گہما گہمی کی ہا ہو سنائی دے رہی تھی۔ ادھر پتھر عمر بھر خاموش رہنے کی سزا کے خلاف چلا چلا کر صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے۔
ماسٹر صاحب کو محسوس ہورہا تھا، جیسے شریف کے حکیمانہ اقوال نے ان کا ذہن بھی پراگندہ کردیا ہو۔ اتنے میں کچھ لوگ گینتی بیلچے اٹھائے قبرستان آپہنچے، انہوں نے مٹی کے ڈحیروں کے درمیان ہموار زمین کھودنی شروع کردی۔ ماسٹر صاحب متواتر سوچوں میں گُم تھے۔ ان کی سوچوں کا موضوع تھا: ‘‘تقدیر کی جلوہ گری۔’’ سمندر میں اسٹیمروں کی آمدورفت جاری تھی۔ اتنے میں کھدائی کرنے والوں میں سے ایک شخص چلایا:
‘‘بھئی، یہاں تو ایک تازہ لاش پہلے ہی دفن.ہے۔’’
‘‘ڈھانپ دو، ڈھانپ دو۔’’ دوسرا بولا، ‘‘آؤ، ہم کوئی اور جگہ ڈھونڈیں۔’’
پہلا آدمی بولا، ‘‘اللہ اللہ.... یوں لگتا ہے جیسے ہنس رہا ہو۔’’
ماسٹر صاحب نے جھک کر ادھر نگاہ ڈالی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دیوانہ شریف مدفون ہے۔ اس کی شفاف، سمندر جیسی پُرنم آنکھیں بالکل کھلی ہیں، ہونٹوں پر وہی استہزا اور زہریلا تبسم جیسے ہنس رہا ہو۔ ماسٹر صاحب منہ سے کچھ نہ بولے۔
جب قبر کھودنے والے، شریف کے ہنستے چہرے، اس کی شفاف، سمند جیسی آنکھوں اور نیم وا ہونٹوں پر مٹی ڈال رہے تھے تو ماسٹر صاحب چلائے، ‘‘رک جاؤ!’’ 
اور پھر جیسے دیوانے شریف نے انہیں اپنی نوٹ بک میں درج کرنے کے لیے مواد فراہم کرتے ہوئے کہا ہو، دیکھا آپ نے ماسٹر صاحب، آپ کو میں کہاں اور کس حال میں ملا....؟ آپ اب بھی انسان کی آزادیٔ عمل، اس کے ارادے کی باتیں کرتے ہیں۔ میں نے اس دوشیزہ کے پہلو میں کیسے جگہ پالی۔ یہاں زیرز میں کیسے داخل ہوگیا۔ اپنے اوپر اس قدر مٹی کیسے ڈال لی۔ مٹی کے نیچے دم گھٹ کے مرنے تک کیسے جیتا رہا۔ ان سب باتوں کے متعلق سوچنا بےفائدہ ہے۔ یہ سب باتیں تو بڑی چھوٹی چھوٹی ہیں۔ آئیے، غور کرنا ہے تو بڑی بڑی باتوں پر غور.کریں....
 ماسٹر صاحب! حقیقت یہ ہے کہ اپنی تقدیر ہی ایسی تھی!....’’

ترجمہ: مسعود اختر شیخ


 تُرک کے مشہور قلم کار، شاعر،ادیب اور مفکر   

نجیب فاضل قیصاکورک 1904 تا 1983ء



 تُرک کے مشہور قلم کار، شاعر،ادیب اور مفکر  نجیب فاضل قیصاکورک (1904 تا 1983ء) Necip Fazıl Kısakürek کے خاندان کا تعلق اناطولیہ کے شہر مرعش سے تھا، لیکن آپ کی پوری زندگی استنبول میں گزری۔ یہیں آپ کی ولادت ہوئی اور آخردم تک آپ نے یہیں قیام کیا۔ امریکی کالج اور بحریہ اسکول میں  تعلیم پائی۔بعد ازاں  دارالفنون کے  شعبہ فلسفہ اور سوبورن یونیورسٹی   پیرس سے وابستہ  رہے۔ بینک میں آڈیٹر کی ملازمت کی مگر اس میں دل نہ لگا آپ نے یہ ملازمت چھوڑ دی ۔  پھر آپ نے  قومی ادارہ برائے موسیقی اوراکادمی برائے فنونِ لطیفہ میں شمولیت اختیارکی اور  ہر اہل و نااہل کے دل میں فن کی روح پھونک دی۔ 
آپ نے ‘‘بویوک دوغو’’ Büyük Doğuیعنی مشرقِ عظیم نامی مکتب فکر کی بنیاد رکھی اور  اسی نام ایک رسالہ شائع کرتے رہے،  اس رسالے نے ترکی کی فکری زندگی کی نشوونما میں اہم کردار ادا کیاہے۔ترکی کو عظیم ترکی بنانے میں  نجیب فاضل کے اس ادارے کا کام، کوشش اور محنت شامل ہے۔ نجیب فاضل نے نوجوان نسلوں کو خود اعتمادی سکھائی، انہوں  نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اخلاق اور ناموس سے عاری افکار دائم نہیں رہ سکیں گے۔  
نجیب فاضل کو ترکی میں  شیکسپیئر کے برابر کا ڈرامہ نگار مانا جاتا ہے۔  آپ شعرونثر کے نامی گرامی اساتذہ میں سےتھے۔آپ کا شمار مستقبل کے فکری معماروں میں ہوتا ہے۔صوفیانہ افکار سے شغف، مابعدالطبیعات پر گہری نظر، عمربھر‘‘حقیقتِ مطلقہ’’ کااحترم اور سیدالانامﷺ کی غیرمعمولی عزت و توقیر آپ کی ہمہ جہت شخصیت کے چند گوشے ہیں۔    
۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں