اسکاٹ لینڈ کی لوک داستان

روح کا انتقام

محبت اور انتقام کی ایک سچی اور پراسرار  کہانی ۔  جو آج بھی  اسکاٹ لینڈ   کی  لوک داستانوں میں شمار  ہوتی ہے اور وہاں کے ہر باشندے کی  زبان پر عام ہے۔ 



یہ ساڑھے تین سو سال پہلے کا واقعہ ہے۔اسکاٹ.لینڈ کے سرحدی صوبے  اسکاٹش بارڈر میں بروک شائر کاؤنٹی  Berwickshireکے ایڈرم گاؤں کے نزدیک بلیک ایڈر Blackadderکے دریا کے  کنارے  ایلن بینک  Allanbankمیں ایک متمول خاندان    رہائش پذیر تھا۔   اس خاندان کا مالک،  رئیس زادہ اور بیرونیٹ (نواب) رابرٹ  اسٹوارٹ Robert Stuart تھا۔   
رابرٹ  اسٹوارٹ ایڈنبرگ Edinburghکے جاگردار و  منتظم   Lord Provost اور  تاجر سر جیمز اسٹوارٹ اور ان کی پہلی بیوی  این ہوپ کا ساتواں اور سب چھوٹا لڑکا تھا۔   سر جیمز اسٹوارٹ    کو برطانوی سول وار میں چارلس  دوم  کی حمایت کی  وجہ سے نائٹ Knight کا خطاب ملا ، وہ اسکاٹ لینڈ پارلیمنٹ کی جانب سے ایڈنبرگ  میں  بطور کمشنر بھی اپنے فرائض انجام دیتے رہے ۔     
 سر جیمز اسٹوارٹ  نے بے پناہ  دولت  کمائی اور اپنے ہر  بیٹے کو کوئی نہ کوئی جاگیر خرید کر اس کا نواب بنایا،    سب سے چھوٹا اور  چہیتا لڑکا ہونے کے وجہ سے  رابرٹ اسوارٹ  ،   ایک بگڑا ہوا نوابزادہ بن چکا تھا، اسے ایلن بینک  کی جاگیر ملی۔ 
 یہ کہانی  1670ء کی دہائی سے شروع ہوتی ہے جب رابرٹ اسوارٹ  تعلیم حاصل کرنے یورپ روانہ ہوا۔ اسٹوارٹ ایک حسین و جمیل شخصیت کا مالک تھا اور عیاش زندگی کا متلاشی، لہٰذا وہ بیرون ملک جانے میں بڑی مسرت محسوس کر رہا تھا۔
پہلے وہ روم گیا۔ اس نے بہت کم وقت پڑھائی میں صرف کیا اور زیادہ عرصہ سیر و تفریح اور زلف پیچاں کے سائے میں گزارا۔ جب یہاں کی رنگین صحبتوں سے اس کا دل سیر ہوگیا تو اس نے حسین خوابوں کی سرزمین پیرس میں قدم رکھا۔ 
اس زمانے میں لوئی چہار دہم  Louis XIV فرانس کے تخت پر متمکن تھا اور اس کے دربار پر دن عید اور رات شب برات کا گماں ہوتا تھا۔ اس کے درباری زیادہ وقت عیاشی اور ساز باز میں صرف کرتے تھے۔ امراء میں عمدہ لباس اور عمدہ خوراک کا شوق جنون کی حد تک بڑھ گیا تھا۔ ایسی رنگین فضا میں جب اسٹوارٹ داخل ہوا تو گویا اس کے دل کیمرادبرآئی۔
اسٹوارٹ جس مکان میں رہائش پذید ہوا، اس کا رخ ایک عیسائی خانقاہ convent کی طرف تھا۔ وہ ہر صبح نوجوان راہباؤں کو کونوینٹ میں آتے جاتے دیکھتا۔ اُن میں کچھ راہبائیں  بھی ایسی تھیں جو راہبانہ زندگی  سے زیادہ دنیا میں دلچسپی رکھتی تھیں اور موقع کی تلاش میں رہتیں کہ کسی طرح چرچ کی روکھی پھیکی زندگی سے نجات حاصل کریں۔   خانقاہ سے باہر کی دنیا میں خوشیوں سے دامن بھرنے کے لیے بےقرار ایک راہبہ  کا نام جین ڈیلا سیلے  Jeanne de la sale تھا جو بعد میں پیرلین جین  Pearlin Jean کے نام سے  مشہور ہوئی۔  
جین آتے جاتے اسٹوارٹ کو اپنی بڑی بڑی نیلی آنکھوں سے اس طرح دیکھتی گویا وہ اسے اپنی آنکھوں میں سمو لے گی۔ جین طبعاً رومان پسند واقعہوئی تھی۔ 
جب سے نوجوان راہبہ نے اسٹوارٹ کو دیکھا تھا، اس کے  دل میں ہلچل مچ گئی تھی۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ راہبہ کی زندگی ترک کردے گی اور باقی زندگی اسٹوارٹ کےساتھ گزارے گی۔
جہاں تک اسٹوارٹ کا تعلق تھا، ‘‘ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی’’ والا معاملہ تھا اور پھر ایک تاریک شب کو جین چرچ کی سرحد پار کرکے اپنے محبوب سے آملی۔ اسٹوارٹ اسے پا کر بےحد خوش تھا۔ اسے اپنی مصنوعی جاگیردارانہ زندگی سے زیادہ جین کی سادگی بھائی ۔ وہ جین اور ملازمین کے ہمراہ اس مکان سے منتقل ہو کر کانوینٹ سے دور ایک ہوٹل میں قیام پذیر ہوگیا جہاں وہ دونوں اپنی محبت کو پروان چڑھانے لگے۔ اس طرح دو مہینے بیت گئے۔ یہاں تک کہ اسٹوارٹ اس خاموش زندگی سے اکتا گیا۔ اب اس نے سوسائٹی گرلز سے راہ و رسم بڑھانی شروع کردی۔ وہ جین سے کوئی نہ کوئی بہانہ کردیتا اور رات رات بھر غائب رہتا۔ 
بےچاری جین سینے پرونے میں لگی رہتی یا آہیں بھرتی۔  اسے اسٹوارٹ کی بےاعتنائی کا بےپناہ دکھ تھا۔ وہ اب ایک ایسی مسافر تھی جس کی کوئی منزل نہ تھی۔ جب اسٹوارٹ دیرسے لوٹتا تو جین کو روتے پاتا۔ پھر کچھ ہی دنوں بعد وہ ایک  دوسرے کو طعنے دینے اور لڑنے جھگڑنے لگے۔
آخرکار ایک دن جین نے زار و قطار روتے ہوئے اسٹوارٹ سے کہا ‘‘تمہاری خاطر میں نے چرچ کو خیر باد کہا اور اب گناہ کی زندگی بسر کر رہی ہوں۔ آخر تم وعدے کے باوجود مجھ سے شادی کیوں   نہیں    .کرتے....؟’’
‘‘میں تم سے ہزار بار کہہ چکا ہوں۔’’ اسٹوارٹ نے غصے سے کہا۔ ‘‘میں اپنے  والد کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کرسکتا۔ وہ مجھے تم سے شادی کرنے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے اور اگر میں نے ان کا کہا نہ مانا تو جائیداد سے محروم کردیا جاؤں گا۔’’
‘‘تو پھر.... برائے خدا مجھے اپنے ساتھ اسکاٹ لینڈ لے چلو۔’’جین التجا کرتے ہوئے بولی۔ ‘‘میں تمہارے والد کو اپنا حسب و نسب بتاؤں گی تو وہ یقیناً شادی کی اجازت دے دیں گے کیونکہ میں بھی ایک معزز گھرانے کی فرد ہوں۔’’
‘‘ہم ایک ساتھ کس طرح سفر کرسکتےہیں جبکہ   ہم غیر شادی شدہ ہیں....؟’’
اس پر جین پھوٹ پھوٹ کر رونے اور اسٹوارٹ سے التجا کرنے لگی کہ وہ اس پر اس قدر ظلم نہ کرے لیکن اسٹوارٹ نے اس کی ایک نہ سنی اور حقارت سے ہر التجا  ٹھکرا دی۔
صبح کے دھند لکے میں ایک بگھی ہوٹل کے دروازے پر آکر رکی۔ مسٹر اسٹوارٹ ، سامان سے لدے پھندے ملازم ہمراہ اپنے کمرے سے برآمد ہوئے اور بگھی میں سوار ہو گئے۔ جوں ہی کوچوان نے گھوڑوں کے چلنے کے لیے باگ کھینچی، ہوٹل کے اندر سے پیرلین جین بھاگتی ہوئی آئی۔ وہ اس وقت  موتی سے جڑا  ،فیتہ دار  لباس  زیب تن کیے ہوئے تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور سانس پھولا ہوا تھا۔ اس نے آتے ہی بگھی کے دروازے کے ہینڈل پر ہاتھ رکھا تاکہ اندر داخل ہوسکے اور چلاتے ہوئے کہا ‘‘رابرٹ! مجھے معلوم ہے کہ تم اسکاٹ لینڈ جا رہے ہو۔ خدا کے واسطے مجھے بھی ساتھ لے چلو۔ مجھے یہاں بےیار و مددگار مت چھوڑو۔’’
لیکن رابرٹ اسٹوارٹ کو اس کی اس حالت زار پر ذرا .رحم نہ آیا اور اس نے اندر سے دروازے کا ہینڈل سختی سے پکڑ لیا اور کوچوان کو اشارہ کیا کہ بگھی چلائے اور ہرگز نہ رکے۔
‘‘مجھے چھوڑ کر تم ہرگز نہیں جاسکتے۔’’ جینچیخی۔
‘‘رابرٹ سن لو۔ اگر تم نے مجھ سے بےوفائی کرتے ہوئے کسی اور سے شادی کی تو میں تم دونوں کے درمیان آجاؤں گی اور آخر دم تک تمہاری جان نہیں چھوڑوں گی۔’’
‘‘بگھی فوراً چلاؤ۔’’ اسٹوارٹ نے چلا کر کہا اور کوچوان نے حکم کی تعمیل کی۔ گھوڑے سرپٹ بھاگنے لگے۔ جین پائیدان پر کھڑی ہونے کی کوشش کرنے لگی یہاں تک کہ ایک جھٹکے کے ساتھ نیچے گری اور بگھی کا پہیہ اس کے سر کو کچلتا ہوا گزر گیا۔ اسٹوارٹ نے جین کے چیخنے کی آواز سنی، مگر اس کا دل مطلق نہ پسیجا اور اس نے سفر جاری رکھا۔
vvv
دو تین ہفتے بعد ایک دوسری بگھی میں اسٹوارٹ بیٹھا  اپنے رہائشی قصبے ایلن بینک کی طرف جارہا تھا۔ پیرس میں تو وہ بہت قیمتی لباس پہنا کرتا تھا مگر یہاں آتے ہوئے اس نے سادہ لباس پہن رکھا تھا۔ جب اس کے پاس سے ایک چرواہی اپنے  مویشیوں کے ہمراہ گزری تو وہ مسکرا دیا۔ کیوں نہ مسکراتا جبکہ وہ ایک نہایت کامیاب اور مسرتوں سے بھرپور دورہ کرکے وطن واپس آرہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس کے والدین بےتابانہ اس کا انتظار کر رہے ہوں گے اور حسین ترین لڑکیاں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی تاکہ وہ  ان میں سے کسی کو اپنی رفیقہ حیات منتخب کرے۔
جیسے ہی گھر قریب آیا اسٹوارٹ نے بگھی سے منہ نکال کر اپنے عظیم الشان محل کی طرف نظر دوڑائی۔ بگھی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی اور محل کا دروازہ محض بیس پچیس گز دور رہ گیا ہوگا کہ یک لخت بگھی میں جتا ایک گھوڑا خوف سے ہنہنایا اور اگلے ہی لمحے دوسرے گھوڑے نے اپنے ساتھی کی پیروی.کی۔
کوچوان نے گھوڑوں کو ہنٹر مارتے اور گالیاں دیتے ہوئے کہا ‘‘کمبختو! جب سفر ختم ہونے والا ہے تو نخرے کر رہے ہو۔’’ لیکن دونوں گھوڑوں نے ایک انچ بھی قدم بڑھانے سےانکار کردیا، خوف کے مارے ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
‘‘کیا ماجرا ہے....؟’’ مسٹر اسٹوارٹ نے چہرہ باہر نکال کر کہا۔ ‘‘آخر یہ ایک دم کیوں پاگل ہوئے جارہےہیں....؟’’ بظاہر کوئی چیز بھی ایسی نظر نہ آتی تھی جس نے گھوڑوں کو خائف کردیا ہو۔ لیکن یہ کیا....؟ جب اسٹوارٹ نے دروازے کی طرف دیکھا تو کوئی چیز وہاں موجود تھی۔ جب اس نے بغور نگاہ ڈالی تو کیا دیکھتا ہے کہ جین نے استقبال کےلیے ہاتھ پھیلا رکھے ہیں اور اس کے سر سےخون بہہ رہا ہے جو اس کے  کپڑوں کو رنگین بنا رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہی اسٹوارٹ کا رنگ زرد پڑ گیا اور وہ خوف سےکانپنےلگا۔
ہمیں نہیں معلوم اس بھیانک رات اسٹوارٹ کس طرح اپنے محل میں داخل ہوا۔ لیکن امر واقع یہ ہے کہ اب اس میں بےحد تبدیلی نمایاں تھی۔ اب وہ پہلے سا رنگین مزاج اور آتش نوا نوجوان نہیں بلکہ اپنی منزل سے بھٹکا ہوا مسافر معلوم ہوتا تھا جو ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا۔ اب ایلن بینک کا محل بھی پہلے کی طرح خوشیوں اور مسرتوں کی آماجگاہ نہ تھا بلکہ وہاں عجیب عجیب بھیانک واقعات ہونے لگے تھے۔ دروازوں پر دستک ہوتی۔ کبھی کبھی دلخراش چیخوں کی آواز سنائی دیتی اور کمروں اور غلام گردشوں سے نہ دکھائی دینے والی  کسی ہستی کے چلنے پھرنے اور لباس کی سرسراہٹ سنائی دیتی، مگر کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔
ایک رات ایک خادمہ نے جین کا بھوت دیکھا۔ وہ خوف کے مارے چیختی اور کہتی جاتی ‘‘وہ دیکھو، موتیوں کا لباس پہنے وہ عورت جارہی ہے۔ اسے پکڑو۔’’ جب وہ ہوش میں آئی اور اس کاخوف دور ہوا تو اس نے بتایا کہ اسے ایک عورت دکھائی دی تھی جس نے موتیوں کا لباس پہن رکھا تھا۔  
جین ایک خاص قسم کا سفید  مرغولے  دار  لباس winding sheet پہنے  ہوئے نظر آتی، جو  فیتے Lace سے بندھا ہوتا اور اس میں موتیوں کی لڑیاں   جڑی ہوئی تھیں ،  اس دور میں یورپ میں اس لباس کو عموما پیرلین Pearlinیعنی ‘‘موتیوں  والا ’’ کہا  جاتا،    یہی لباس موت کےوقت جین نے پہن رکھا تھا۔  اسی وجہ سےجین کا نام ‘‘پیرلین جین ’’پڑگیا۔
پیرلین جین کے بھوت اور گھر پر آسیب کا اثر اس وقت زیادہ ہوتا جب مالک مکان گھر پر رہتا۔ جب وہ لندن چلا جاتا تو گھر میں امن و امان رہتا مگر جوں ہی اسٹوارٹ گھر واپس آتا، فوراً ہی قدموں کی چاپ اور لباس کی سرسراہٹ سنائی دیتی۔ اسی طرح دروازے کھلتے اور بند ہوتے اور فرنیچر خود بخود اپنی جگہ بدل لیتا۔ غرضیکہ ایسی فضا میں گھر والوں کی نیند حرام ہوگئی تھی۔ یہاں تک کہ باری باری سارے ملازم  نوکری چھوڑ چھوڑ کر اس گھر سے بھاگ گئے، لیکن سب سے زیادہ عذاب رابرٹ اسٹوارٹ پر تھا۔ اسے اپنی مردہ محبوبہ کا بھوت نظر آتا تھا جس کے سر سے خون بہہ رہا ہوتا تھا۔
آخر اسٹوارٹ نے شادی کرلی ، اس نے سوچا کہ اب اطمینان سے زندگی گزرے گی۔ اس کی بیوی اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھی اور اپنے طور و اطوار سے اس کے لیے بالکل موزوں تھی۔ تھوڑے عرصے بعد اسٹوارٹ کو بیرن کا خطاب بھی ملا۔
ایلن بینک کے بھوت کا راز لیڈی اسٹوارٹ کو بتا دیا گیا تھا ، نئی نویلی دلہن نے جیسے ہی اس محل میں قدم رکھا، پیرلن جین کا بھوت زور شور سے نمایاں ہونے لگا لیکن لیڈی اسٹوارٹ نے ہار ماننے سے انکار کردیا اور بضد رہی کہ خواہ  پیرلن جین کا بھوت اسے نظر آتا رہے مگر وہ اپنا گھر چھوڑ کر کسی حالت میں نہیں جائے گی۔
اسٹوارٹ اپنی بیگم سے بےحد خوش تھا۔ اس نے بیگم پر اپنی محبت مزید ظاہر کرنے کے لیے لندن کے ایک مشہور مصور سے اپنی اور بیگم کی تصاویر بنا کر گیلری میں آویز کردیں۔ جس رات یہ تصاویر گیلری میں آویزاں کی گئیں، ایلن بینک میں قیامت آگئی۔ پیرلین جین کے بھوت نے آفت ہی ڈھا دی۔ محل کا فرنیچر اور چینی کے قیمتی برتن تہس نہس کردیے۔ دروازے کھلنے اور بند ہونے کا شور دور دور تک سنا جاسکتا تھا۔ زینوں اور کمروں میں قدموں کی آواز اور لباس کی سرسراہٹ اور بھی پرشور ہوگئی اور جو چیز بھی بھوت کے راستے میں حائل ہوتی وہ ٹوٹ پھوٹ جاتی۔
ان  ہولناک واقعات سے رابرٹ اسٹوارٹ سخت پریشان ہوگیا۔ اس نے اسکاٹ لینڈ کے چیدہ چیدہ پادریوں کو دعوت دی کہ وہ عملیات سے بھوت کو بھگادیں، چنانچہ سات پادری ایلن بینک کے محل میں آئے اور انہوں نے گھنٹوں عملیات کیے۔ لیکن توبہ کیجیے صاحب، بھوت پر کوئی اثر نہ ہوا اور ایلن بینک آسیب زدہ ہی رہا۔
آخر کار رابرٹ اسٹوارٹ یہ عقدہ حل کرنے کے لیے دوسری تدابیر سوچنے لگا۔ تب یک لخت اسے خیال آیا کہ جین کے آخری الفاظ یہ تھے ‘‘رابرٹ سن لو! اگر تم نے مجھ سے بےوفائی کی اور کسی دوسری عورت سے شادی کی تو میں تم دونوں کے درمیان آجاؤں گی اور آخر دم تک تمہاری جان نہیں چھوڑوں گی۔’’
اسٹوارٹ نے سوچا کہ اگر پیرلین جین کی ایک تصویر بنوا کر اپنی اور بیگم کی تصویر کے درمیان آویزاں کر دی جائے تو ممکن ہے پیرلین اس کا پیچھا چھوڑ دے، چنانچہ اس نے اس بارے میں اپنی بیوی سے مشورہ کرنے کے بعد لندن کے اسی مشہور آرٹسٹ سے جین کی ایک تصویر بنوالی۔ چونکہ جین کی پہلے سے کوئی تصویر موجود نہ تھی، لہٰذا یہ تصویر محض اسٹوارٹ کے بتائے ہوئے حلیے پر مبنی تھی۔
جب یہ تصویر ان میاں بیوی کی تصاویر کے درمیان آویزاں کی گئی تو اس کا اثر حسب دلخواہ ہوا، یعنی بھوت نسبتاً خاموش ہوگیا اور اب اس نے اسٹوارٹ کے سامنے ظاہر ہونا بھی بند کردیا۔ اسٹوارٹ خوش تھا کہ اب وہ آرام کی نیندسوسکتاہے۔
اسی طرح کئی سال گزر گئے اور جین کا بھوت قصہ ماضی بن گیا۔ اسٹوارٹ نے سوچا کیوں نہ اب یہ تصویر خاندانی تصاویر سے علیحدہ کردی جائے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ گھر میں جب کوئی نووارد آتا تو وہ جین کی تصویر کے بارے میں طرح طرح کے سوال کرتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسٹوارٹ کے بچے ہوش سنبھالنے لگے تھے اور وہ اپنے والد اور والدہ کی تصاویر کے درمیان ایک اجنبی عورت کی تصویر دیکھ کر حیرانی کا اظہار اور قسم قسم کے سوالات کرتے تھے۔ غرض ایک دن جین کی تصویر دیوار سے اتار کر گھر کے ایک گوشے میں ردی چیزوں کے ساتھڈال دی گئی۔
جیسے ہی تصویر اتاری گئی، جین کا بھوت واپس آگیا اور ایلن بینک پھر ایک آسیب زدہ محل کہلانے لگا۔ یہاں تک کہ بھوت نے اسٹوارٹ اور اس کی بیگم کی زندگی تلخ کردی۔ مسلسل صدمات سہ سہ کر 1707ء میں رابرٹ اسٹوارٹ کا انتقال ہوگیا۔ اس کی وفات کے بعد بھی جین کے بھوت نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور اب وہ باغ اور صحن میں بھی دکھائی دینے لگی ۔

Haunted House of Allanbank 

ایلن بینک  کا آسیبی  محل  


سترہویں صدی عیسوی کے  آخر میں  ایلن بینک کا محل رابرٹ اسٹوارٹ نے بنوایا تھا۔    اسٹوارٹ  کے پیرس سے لوٹنے پر ہی  اس حویلی میں  انہونے واقعات ہونے لگے جس کا شکار رابرٹ کے ساتھ اس کے دیگر گھروالے بھی بنے۔ جارج ہوم  1694ء میں لکھی کتاب An Album of Scottish Families میں رقمراز ہیں  کہ رابرٹ اسٹوارٹ  اور اس کی بیوی جین کے علاوہ جین کی ماں ، رابرٹ کی بہن،  اور چار لڑکے اور تین لڑکیاں مقیم تھے، رابرٹ کے ملازمین کی تعداد 19 تھی جن میں 8 مرد اور 11 خواتین شامل ہیں۔ 
1707ء میں اسٹیوارٹ کی موت کے بعد یہ محل  اس کے خاندان کی ہی ملکیت رہا مگر اس میں جین کے بھوت نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں ۔  1790ء میں  اسٹیوارٹ خاندان اس گھر کو بیچ کر چلا گیا۔   اس  کے بعد بھی گھر میں جو کوئی  رہائش پزیر ہوا اسے پیرلین جین  کا بھوت یا اُس کے قدموں کے آہٹ سُنائی دیتی رہتی۔ آخر کار1848ء کے بعد سے   لوگوں نے یہاں رہائش ترک کردی اور بیسویں صدی کی ابتداء میں  یہ محل مستقل طور پر بے آباد  ہو کر گھنڈر بن  گیا  ۔   البتہ جنگ عظیم کے دور میں  اسے  فوجیوں نے کچھ عرصہ چھاونی  کے طور پر  استعمال کیا۔   1969ء میں  ایلن بینک کا یہ   محل اور اس سے متصل مکانات کو  مسمار کردیا گیا۔ 

***
اسکاٹ لینڈ کے مؤرخ چارلس کِرک پیٹرک شارپ  بتاتے ہیں کہ ان  کی دایہ جینی Jenny Blackadder  ایک زمانے میں اسٹوارٹ خاندان کے گھر ملازمہ رہ چکی تھیں۔ چارلس کرک نے یہ داستان ان خاتون کی زبانی  ہی سنی۔   وہ کئی بار  ایلن بینک محل میں قدموں کی آہٹوں اور آوازوں کو سن چکی تھیں۔ ایک روز ان خاتون  کا منگیتر تھامس  Thomas چوری چھپے چاندنی رات میں ان سے ملنے ایلن بینک محل کے باغیچے  میں پہنچا تو اسے باغیچے میں سفید لباس میں ایک عورت  ٹہلتے  نظر آئی جس کا چہرہ چھپا ہواتھا، تھامس اسے جینی سمجھ کر  لپکا، لیکن جیسے ہی وہ اس کے قریب پہنچا وہ عورت اچانک  غائب ہوگئی اور کچھ دور باغیچے کے دوسرے کونے پر نمودار ہوگئی ، تھامس یہ دیکھ کر گھبرا کر وہاں سے فرار ہوگیا۔ 
ایلن بینک کی ایک اور ملازمہ بیٹی نوری  Betty Norrie کا بیان ہے کہ اس نے اور اس کی ساتھی ملازماؤں نے اکثر  ایلن بیکن  میں لہراتے سفید لباس میں کسی عورت کو چلتے  پھرتے دیکھا، جو اچانک نظر آتا اور غائب ہوجاتا، شروع میں وہ اس سے خوفزدہ تھیں  مگر پھر عادت پڑگئی، تاہم  اس نے کسی ملازمہ کو  کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچایا ۔ 
کلائیو کرسٹن اپنی کتاب Ghost Trailsمیں تحریر کرتی ہیں کہ پیرس کے جس ہوٹل میں اسٹوارٹ اور جین مقیم تھے، اس ہوٹل کی مالکہ Matron بتاتی  ہے کہ جین کی موت کے بعد تقریباً چار مہینے تک اس کمرے میں جو بھی رہائش کے لیے آیا اسے  روزانہ رات دس سے گیارہ  بجے   تک رونے اور سسکنے کی آواز سنائی دیتیں اور کبھی کسی جھگڑے کی آواز یا سرگوشیاں بھی سنائی دیتیں، ایسا لگتا کہ کوئی عورت کسی سے لڑ رہی  ہے اور شادی کا تقاضاکررہیہے۔ 
ارنسٹ رہائز  اپنی  کتاب  The Haunters and the Haunted  میں رقمراز ہیں کہ 1790ء میں دو خواتین  اس محل میں رہائش پزیر ہوئیں۔ انہیں اس گھر اور پیرلین جین کے متعلق کچھ علم نہ تھا۔  رات  کو اُنہیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے بیڈ روم کے اردگرد کوئی چہل قدمی کررہا ہے،  بالآخر تنگ آکر وہ بھی مکان چھوڑ گئیں۔   
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں پیرلین جین کے بھوت کو کبھی کبھی دیکھا جاتا ، مگر اب اس میں وہ دم خم نہیں رہا تھابلکہ اس نے مظلوم کا روپ دھار لیا تھا۔ ہر شخص جسے اس مکان میں بھوت دیکھنے یا اس کے قدموں کی چاپ سننے کا اتفاق ہوتا ہے، وہ جین سے ہمدردی کا اظہار کیے بغیر نہیں رہتا۔
آخر کار1848ء کے بعد سے   لوگوں نے یہاں رہائش ترک کردی اور بیسویں صدی کی ابتداء میں  یہ محل مستقل طور پر بے آباد  ہو کر گھنڈر بن  گیا  ۔   البتہ جنگ عظیم کے دور میں  اسے  فوجیوں نے کچھ عرصہ  اپنی رہائش کے لیےاستعمال کیا۔   1969ء میں  ایلن بینک کا یہ   محل اور اس سے متصل مکانات کو  مسمار کردیا گیا۔ 
آج ایلن بینک کا یہ محل اپنی جگہ موجود نہیں ہے  لیکن پیرلین جین کی داستان آج بھی لوگوں کے ذہنوں سے محو نہیں ہوئی۔ 

  [کہانی : ڈیوڈ میکلین David McLain]

The Ghost of Pearlin Jean 

پیرلین جین کا بھوت



جس طرح برصغیر میں لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد،  ہیر رانجھا کی داستانیں زبان زد عام ہیں اسی طرح ‘‘پیرلین جین ’’ کی کہانی  بھی اسکاٹ لینڈ  کی مشہور لوک داستانوں  میں سے ایک ہے، جو تین سو پچاس برس  گزرجانے کے باوجود بھی اسکاٹ لینڈ میں ہر خاص و عام  کو یاد ہے ،  اس  کہانی کو اب تک سینکڑوں مصنفین نے  اپنی کتاب  میں لکھا ہے ۔ سب سے پہلے اس کہانی کو اٹھارہویں صدی کے  اسکاٹ لینڈ کے مؤرخ اور ادیب چارلس کِرک پیٹرک شارپ Charles Kirkpatrick Sharpe  دنیا کے  سامنے  لائے۔  
1848ء میں کیھترین کوؤ نے  کتاب The Night Side of Nature, or Ghosts and Ghost Seers ، 1856ء  میں جارج ہینڈرسن نے کتاب The Popular Rhymes, Sayings and Proverbs of the County of Berwickمیں  1897ء میں   جان انگرم نے اپنی کتاب The Haunted Homes and Family Traditions of Great Britainمیں یہ اس واقعہ پر مزید تحقیق  کی۔     بیسیوں صدی میں برطانیہ کی آسیبی حویلیوں  پر لکھی گئی تقریباً ہر کتاب میں  پیرلین جین کی کہانی کا ذکر  موجود ہے ۔ جن میں 1921ء کی   ارنسٹ رہائز  کی  کتاب  The Haunters and the Haunted   اور 1911ء کی ایلیٹ او ڈینیل کی Scottish Ghost Stories کے علاوہ  Fifty Great Ghost Stories ، Ghost Tale of Love and Revenge    ، The Screaming Skulls & Other Ghostsاور Ghost Trails: Edinburh and the Borders وغیرہ شامل ہیں ۔  زیر نظر کہانی انہی کتابوں کی مدد سے تحریر  کی گئی ہے۔