بنگالی ادب کا ایک شاہکار افسانہ
Legendary Story from Bangala


بنگالی  ادب کا ایک شاہکار افسانہ

کاروؤس

دورِ جدید میں بنگالی ادب کے مشہور  ادیب  اور فلمساز ستیہ جیت رے   کو سائنس فکشن   ادب میں خاص مقام حاصل ہے ۔  انہوں نے سائنس فکشن پر بے شمار کہانیاں تحریر کیں اور  ان کہانیوں میں کئی کردار تخلیق کیے۔ اپنی کہانیوں میں انہوں نے پروفیسر شانکو نامی ایک  لازوال کردار بھی تخلیق کیا اور اس کے اردگرد لاتعداد کہانیوں کے تانے بانے بُنے ۔   پروفیسر شانکو ایک عالمی شہرت یافتہ سائنس دان ہیں ، جو  اپنی خدادا صلاحیتوں اور ذہانت    کی مدد سے مشکل سے مشکل معاملات کو سلجھا لیتے ہیں،      پروفیسر شانکو  کی سیریز بنگالی ادب میں اتنی ہی مقبول ہیں جتنی انگریزی ادب میں شرلاک ہومز،  عربی ادب میں عمروعیار  اور اردو ادب میں عمران سیریز مقبول ہیں۔

یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے پروفیسر شانکو کی ڈائری سے ایک کہانی ‘‘کاروؤس’’ پیش کررہے ہیں۔ 

تحریر : ستیہ جیت رے؛ ترجمہ: اعجاز عبید




-15 اگست-
پرندوں میں میری دلچسپی بہت پرانی ہے۔ بچپن میں ہمارے گھر ایک پالتو مینا ہوا کرتی تھی اور میں نے اسے انسانی زبان کے   سو سے بھی زیادہ لفظ سکھلا دیے تھے۔   یقیناً ! یہ تو مجھے معلوم تھا   کہ بعض پرندے جو کبھی کبھار  انسانی زبانوں کے الفاظ کا ‘‘تلفظ’’  ادا کر لیا کرتے ہیں ان کے معنوں و مفہوم سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہوا کرتا۔ پر ہماری وہ مینا ایک دن کچھ ایسے حیرت انگیز طریقے سے پیش آئی کہ مجھے اپنا یہ خیال تبدیل کرنے پر مجبور ہو جانا پڑا۔ 
دراصل ہوا یوں کہ ایک دو پہر اسکول سے لوٹ کر میں کھانا شروع کرنے ہی والا تھا کہ مینا ڈرے ہوئے لہجے میں چلانے لگ پڑی:  “بھونچال.... بھونچال....”
 ہم میں سے تو کسی کو زلزلہ آنے کی رتی  بھر بھی ہلچل محسوس نہیں ہوئی پر اگلی صبح کے اخبار میں یہ خبر تھی کہ ‘سیسموگراف’ نے گزشتہ دو پہر کو  زلزلے کے ہلکے جھٹکے ریکارڈ کیے تھے۔  اور تبھی سے میں پرندوں کی دانشمندی کو لے کر مزیدمتجسس  ہو اُٹھا  تھا ، پر دوسرے سائنسی تجربوں میں مشغول ہو جانے کی وجہ سے مجھے اس سمت میں آگے سنجیدہ تحقیق کرنے کی فرصت ملی ہی نہیں ۔
ہاں ، اور دوسری وجہ تھی نیوٹن، ہمارا پالتو بلّا، جسے  عادتاً پرندے سخت ناپسند ہیں۔ اب آپ ہی بتلائیے میں بھلا ایسی بات کیوں کرتا جو اسے پسند نہ ہو؟ 
پر اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ بچپن کی دہلیز پار کر چکنے  کے بعد میرا بلا نیوٹن  تھوڑا سنجیدہ مزاج   اور پرندوں کے لئے کچھ غیر متعلق  سا ہو چلا ہے۔ شاید اسی لیے میری لیبارٹری میں پھر سے کووں، گوریوں اور میناؤں کا آنا جانا شروع ہو گیا ہے۔ سویرے سویرے میں انہیں دانا چگاتا ہوں اور چگے کے انتظار میں یہ منہ  اندھیرے سے ہی میری کھڑکی کے آس پاس منڈلانے لگتے ہیں ۔
ہر جانور میں کچھ پیدائشی خصوصیات بھی شامل ہیں ، لیکن جہاں تک پرندوں کی بات ہے، میرا خیال تو یہ ہے کہ ان میں کچھ عجیب صلاحیتیں ہیں ۔ اب بیا کے گھونسلے کو ہی لیجئے۔ آپ دنگ رہ جاتے ہیں ، اسے دیکھتے ہی۔ اگر کسی بھلےمانس سے ایسا گھونسلا ‘گڑھنے’ کے لیے کہا جائے تو میں سمجھتا ہوں وہ تو توبہ ہی کر لے گا۔ کیوں ہے نا....؟  اور اگر کسی طرح وہ گھونسلا بنا بھی ڈالے تو کم سے کم ایک مہینہ محنت مشقت تو اسے چاہئے ہی۔
ایک آسٹریلین پرندہ ہے ‘میلی فاؤل’ Malle Fowl، جو زمین کے اندر اپنا گھونسلا بناتا ہے۔ کیچڑ، ریت اور گھاس پھوس کے ڈھیر کی طرح بنے اس کے گھونسلے میں داخل ہونے کے لیے ایک ننھی سی سرنگ ہوتی ہے۔ ‘ میلی فاؤل’، انڈے تو اس کے اندر اندر ہی دیتی ہے پر کبھی خود سیتی نہیں۔ انڈوں سے بچے نکلیں اس کے لئے ضروری ہے گرمی۔  اور اس کے لئے وہ نہ جانے کس ترکیب سے گھونسلے کا درجۂ حرارت مسلسل 78 ڈگری فارن ہیٹ بنائے رکھتی ہے۔ چاہے گھونسلے سے باہر کا درجہ حرارت کچھ بھی کیوں نہ ہو۔
اس سے بھی حیرت انگیز اور پر اسرار ہے  گرے بی Grebe .... نہ جانے کیوں یہ چڑیا  اپنے پر  نوچ کر کھا جاتی ہے اور اپنے بچوں کو کھلا دیتی ہے۔ گرے بی جب پانی میں کوئی خطرہ منڈلاتا دیکھتی ہے تو بے حد پراسرار طریقے سے بالکل ہلکی ہو کر جسم کی ساری ہوا باہر نکال دیتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وزن کم ہو جانے کی وجہ سے یہ پانی میں گردن تک ڈوبی آرام سے تیرتی ہوئی رہتی ہے۔
ہم سب چڑیوں کے سمتوں کا  علم، گدھ کی گہری  نظر، باز کا شکاری انداز اور کوئل کی کوک سے خوب واقف ہیں۔ میں کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں  کہ پرندوں کی طرف ہی اب کیوں نہ اپنا تھوڑی بہت توجہ مرکوز کروں ؟  سوچ رہا ہوں کہ کیا انہیں ان کے پیدائشی اوصاف سے آگے بھی نئی چیزیں سکھلائی  جاسکتی ہیں ؟ کیا انسان کی عقل اور سمجھ داری جیسی کوئی چیز ان میں پیدا کی جا سکتی ہے؟ کیا ایسی کوئی مشین بنانا ممکن ہے، جو ایسا کر دکھلائے؟

-20 اگست-
پرندوں کو سکھلانے   پڑھانے والی میری مشین بنانے کا کام چل رہا ہے۔ میرا نظریہ معمولی طور طریقوں پر ہے۔ میری  مشین بھی بہت معمولی ہی ہوگی۔ اس کے دو حصے ہوں گے۔ پنجرے کی طرح کا ایک حصہ تو ہوگا پرندے  کے رہنے کے لئے، اور دوسرے حصے سے سے ہوگا برقی رابطہ ۔ جو پرندوں کے دماغ میں عقل کی لہریں نشر کرتا رہے گا۔
گزشتہ ایک ماہ سے میں بہت دھیان  کے ساتھ ان پرندوں کا مطالعہ کر رہا ہوں ، جو میری لیبارٹری میں دانا چگنے کے لئے آیا کرتے ہیں ۔ کووں ، گوریوں ، اور میناؤں کے علاوہ کبوتر، کمیڑیاں ، طوطے اور بلبل وغیرہ یہاں اکثر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔ پر ان میں سے اگر کسی نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کرائی  ہے تو وہ ہے ایک کوا۔ 
سیدھا سادہ عام سا کوا ہے یہ۔ میں اسے شناخت بھی کرنے  لگا ہوں ۔ اس کی دائیں آنکھ کے نیچے چھوٹا سا سفید ایک نشان ہے، جس سے یہ آسانی سے اور فوراً پہچان میں آ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے کووں سے اس کا سلوک بھی کافی الگ سا ہے۔ میں نے اس کے علاوہ کسی اور کوے کو پنجے میں پینسل دبا کر میز پر لکیریں کھینچتے نہیں دیکھا۔ کل تو میں اس کی حرکت دیکھ کر حیرت سے بھونچکا سا ہی رہ گیا۔ ہوا یوں کہ میں اپنی مشین کے کام میں مصروف تھا کہ کمرے میں ہلکی کھرکھراہٹ سی سنائی پڑی۔ دیکھا تو پایا، یہ حضرت ماچس کے ادھ کھلے ڈبے سے دیاسلائی کی ایک سیک تھامے اسے جلانے کے لئے روغن پر گھس رہے تھے۔ آخر مجھے اسے اڑانے کے لئے مجبور ہو جانا پڑا۔ لیکن  اڑتے وقت اس نے چونچ سے جو مخصوص سی آواز نکالی ۔ وہ کاو کاو کرنے والے کسی معمولی کوے کی آواز قطعی نہیں تھی۔ ایک بار تو ایسا لگا جیسے وہ کوا  ‘‘کھیکھی ’’ کرکے شیطانی ہنسی ہنس رہا ہو۔
واقعی بڑا ہوشیار ہے یہ! ایسے ہی پرندے تو میں اپنے ٹیسٹ کے لئے چاہتا ہوں .... آگے  آگے دیکھتے ہیں ہوتا ہے کیا....؟
-2 ستمبر-
میں نے اپنی ‘آرنتھن’ Ornithon مشین بنا ڈالی ہے۔ سویرے سے یہ کوا لیبارٹری میں ادھر ادھر اچھل کود مچا رہا ہے۔ جیسے ہی میں نے مشین میز پر رکھی اور پنجرے کا دروازہ کھولا، یہ کوا اچھل کر اچانک اندر جا گھسا۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بھی  کچھ سیکھنے کے لئے بہت بے تاب ہے۔ زبان کا بنیادی علم اس کے لئے ضروری ہے۔ اس لئے میں نے سوچا ہے کہ پہلے تو اسے انسانی زبان  کی ابتدائی تعلیم دوں ۔ چونکہ سارے متن اور ہدایات پہلے سے ہی ریکارڈ کئے ہوئے رکھے ہیں ، اس لئے مجھے کرنا کچھ نہیں ہے، صرف کچھ بٹن بھر دبانے ہیں۔
 الگ  الگ چینلوں میں الگ  الگ موضوع کے مطابق  درجہ بندی کئے ہوئے رکھے گئے ہیں ۔ ایک اور حیرت انگیز چیز میں نے نوٹ کی ہے۔ جب بھی میں مشین کا بٹن دباتا ہوں ۔ کوے کی سب حرکتیں اچانک رک سی جاتی ہے اور اس کی آنکھیں مندنے لگ جاتی ہیں ۔ کوے جیسے کسی چنچل پرندہ کے لئے یقیناً کتنی غیر معمولی بات ہے نا یہ!
چلی کے دارالحکومت سین ٹیاگو میں دنیا بھر کے بڑے بڑے پرندوں کے ماہرین  کی ایک بین الاقوامی کانفرنس نومبر میں ہوگی۔ میں نے منے سوٹا کے میرے ایک آرنتھو لاجسٹ دوست، روفس گرینفیل Rufus Grenfell کو خط لکھ ڈالا ہے۔ اگر بھائی میرے، یہ کوا تھوڑی بہت انسانی  عقل کی جانب ترقی  کر ڈالے، تو میں اجلاس میں لے جا کر تقریر کے ساتھ اس کی نمائش  کر سکتا ہوں ۔
لاطینی میں کوے کے  خاندان کو ‘کاروؤس’ Corvus کہتے ہیں ۔  چنانچہ اپنے اس شاگرد کا نام بھی میں نے “کاروؤس ” ہی رکھ دیا ہے۔ پہلے شروع شروع میں نام لیتے ہی وہ میری طرف صرف  دیکھتا ہی تھا پر اب تو بول کر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتا ہے۔ ‘کروس’ ان دنوں انگریزی سیکھ رہا ہے۔ باہر کے ملکوں میں انگریزی کی معلومات بھی تو لازمی ہے نا! سویرے آٹھ سے نو بجے کے درمیان اس کی تربیت شروع ہوتی ہے۔ ہاں ، باقی وقت یہ کمرے میں ہی پھدکتا پھرتا ہے۔ رات کو یہ میرے باغ کے شمال مغربی کونے میں اگے آم کے درخت پر سو جاتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ نیوٹن نے اب کاروؤس کو منظوری دے دی ہے۔ آج کے واقعہ کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ دونوں میں جلد ہی گہری دوستی چھننے لگے گی۔ آج دوپہر کا ہی قصہ ہے۔ میری آرام کرسی کے پیچھے بلا نیوٹن لیٹا سستا رہا تھا، پر کاروؤس ندارد تھا۔ میں بیٹھا بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا کہ پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی اور جناب  کاروؤس کمرے میں نمودار ہوئے۔ اس کی چونچ میں دبی ہوئی تھی ایک مچھلی، جسے جھک کر اس نے نیوٹن کے قدموں میں ڈال دیا اور آپ کھڑکی پر بیٹھ کر لگے نظارہ کرنے۔
گرینفیل کا جواب آ گیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ماہرین کے اجلاس کے لئے وہ مجھے دعوت بھجوا رہا ہے۔ مجھے مقررہ تاریخ کو کاروؤس کے ساتھ سین ٹیاگو پہنچنا ہی ہوگا۔


-20  اکتوبر -
 گزشتہ دو ہفتوں میں کام میں امید کے مطابق کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ پنجوں میں پینسل دبائے ہوئے کاروؤس انگریزی حروف تہجی اور اعداد لکھ رہا ہے۔ اس نے میز پر رکھے کاغذ پر کھڑا ہو کر اپنا نام لکھا ۔ سی ۔ او ۔ آر ۔ وی ۔ یو ۔ ایس۔ اب وہ براہ راست آسان جمع  تفریق بھی کر لیتا ہے۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ انگلینڈ کے دارالحکومت کا کیا نام ہے؟ یہاں تک کہ وہ میرا نام بھی لکھ لیتا ہے۔ پہلے میں نے اسے مہینوں ، تاریخوں اور دنوں کے نام سکھلائے تھے۔ آج جب میں نے جاننا چاہا کہ آج کون سا دن  ہے تو صاف ستھرے حروف میں اس نے لکھا ۔ ایف ۔ آر ۔ آئی ۔ ڈی ۔ اے ۔ وائی۔
کاروؤس کھانا کھانے کے طور طریقوں میں بھی اپنی دانش اور ہنر کے بارے میں ثبوت دے رہا ہے۔ آج جب میں اس کے لئے ایک پلیٹ میں نے ٹوسٹ اور دوسرے میں جیلی رکھی تو چونچ سے اس نے جیلی ٹوسٹ پر لگا کر ٹکڑا منہ میں ڈالا۔
-22  اکتوبر -
  اب اس بات کا واضح ثبوت مجھے مل گیا ہے کہ کاروؤس دوسرے عام کووں سے الگ رہنا چاہتا ہے۔ آج دوپہر کو موسلا دھار بارش ہوئی اور میں نے دیکھا کہ گڑگڑاہٹ کی آواز کے ساتھ ہی شیشم کا ایک درخت اکھڑ کر زمیں بوس ہو گیا۔ جب بارش رکی اور شام ہوئی تو کووں کی کائیں  کائیں نے جیسے آسمان ہی سر پر اٹھا لیا۔ آس ۔ پڑوس کے سب کوے ٹوٹے ہوئے درخت کو گھیرے میں لے کر ماتم  کر رہے تھے۔ میں نے یہ جاننے کے لئے کہ آخر ماجرا کیا ہے ۔ اپنے نوکر پرہلاد کو بھیجا۔ اس نے واضح کیا ۔ “ساب ۔ درخت کے نیچے ایک کوا مرا پڑا ہے اور اسی سے دوسرے کوے شور   مچا رہے ہیں ۔ “میں سمجھ گیا کہ وہ کوا یقیناً  بجلی گرنے سے مرا ہوگا۔ تعجب ہے کاروؤس نے نہ تو کمرے سے باہر قدم ہی رکھا اور نہ ہی اس حادثے سے وہ کسی طرح متاثر ہی نظر آیا۔
وہ تو اپنے پنجوں سے پینسل دبائے ۔ ‘پرائم نمبرز’ لکھ رہا تھا 1. 2. 3. 5. 7. 11. 13. ...
کاروؤس کو اب دنیا کی سائنسی برادری کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم پرندوں کو سکھانے کی مثالیں بہتیری ہیں پر میں نہیں سمجھتا کہ کورؤس جیسے کسی پرندے کو کبھی دکھایا گیا ہو۔
‘ارنتھن’  میری مشین نے اپنے کام کو بخوبی انجام دیا ہے۔ ریاضی، جغرافیہ، تاریخ اور قدرتی سائنس کے وہ سوال جن کا جواب اعداد کے ذریعہ سے یا تھوڑے بہت الفاظ میں دیا جا سکتا ہے ۔ کاروؤس کے ذریعہ حل کئے جا سکتے ہیں ۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے کچھ ایسی ‘انسانی’ سمجھ بھی تیار کر لی ہے جو کسی پرندے میں ملنے کا تو سوال ہی نہیں ہے۔ یقیناً یہ چیز اپنے آپ میں بہت منفرد ہے۔ ایک مثال سے یہ بات اور واضح ہو جائے گی۔ آج میں اپنی سین ٹیاگو  سفر کے لئے سامان باندھ رہا تھا۔ جیوں ہی میں سوٹ کیس بند کرنے لگا ۔ میں نے پایا کاروؤس مجھے تھمانے کے لئے پہلے سے ہی اپنی چونچ میں چابی دبائے کھڑا تھا۔
کل گرینفیل کا ایک خط اور ملا ہے۔ آج کل وہ سین ٹیاگو میں ہی ہے۔ کانفرنس کے آرگنائزر میرا انتظار کر رہے ہیں ۔ اب تک کی تقریبات کے سلسلے میں سائنسدانوں اور ماہر آرنتھالوجسٹس نے صرف بے رس تقریریں  ہی کی ہوں گی پر کسی پرندے کا اس طرح ’لائیو‘ کارکردگی تو شاید پہلی دفعہ ہی ہو۔
پرندوں کے دماغ کے بارے میں جو منفرد تحقیق میں نے گزشتہ دو ماہ کے دوران کی ہے اسی پر کانفرنس میں اپنا تحقیقی پرچہ پڑھوں گا۔ اور سب سے بڑھ کر کاروؤس تو وہاں ہوگا ہی جو ناقدین کی چونچ ہی بند کر دے گا۔



-10   نومبر -
یہ سطریں میں جنوبی امریکہ کی طرف اڑ رہے ہوائی جہاز میں بیٹھا لکھ رہا ہوں ۔ یہاں صرف ایک واقعہ کی تفصیل دوں گا۔ جوں ہی ہم گھر سے چلنے کو ہوئے، کاروؤس پنجرے سے باہر آنے کے لئے بہت بے تاب اور بے چین نظر آیا۔ نہ جانے کیا چاہتا تھا وہ؟ میں نے آگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ کاروؤس تیزی سے اڑ کر میری لکھنے کی میز تک گیا اور لگا اس دروازے پر چونچ مارنے۔ میں نے جوں ہی دراز کھولا تو دیکھا کہ میرا پاسپورٹ وہاں پڑا ہوا ہے۔
میں نے کاروؤس کے لئے ایک نیا پنجرا بنوا لیا ہے۔ جس درجۂ حرارت پر کاروؤس سب سے زیادہ آرام محسوس کرتا ہے ۔ وہی درجۂ حرارت اس پنجرے میں برقرار رہتا ہے۔ اس کے کھانے کے لیے میں نے غذائیت سے بھرپور وٹامن کی کچھ گولیاں بھی تیار کی ہیں ۔ کاروؤس نے ہوائی جہاز کے تمام مسافروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ شاید کسی نے بھی آج تک کوئی پالتو کوا نہیں دیکھا۔ میں نے بھی اس کی ‘جادوئی شکل’ کے بارے میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا ہے۔ سائنسی کانفرنس تک میں اس چیز کو خفیہ ہی رکھنا چاہتا ہوں ۔ اور شاید کاروؤس بھی اسی بات کو بھانپ کر عام کووں کا سا سلوک کر رہا ہے۔

-14   نومبر -
ہوٹل ایکسیلسیرHotel Excelsior، سین ٹیاگو۔ ابھی رات کے گیارہ بجے ہیں ۔ دو دن تک کچھ اس قدر مصروف رہا کہ لکھنے کی فرصت ملی ہی نہیں۔  میں اپنی تقریر اور اس کے بعد ہونے والے سنسنی خیز واقعات کی تفصیل ہی دوں گا۔ 
مختصر کہوں تو کاروؤس نے میری شان میں چار چاند لگا دیئے ہیں ۔ مجھے اپنی تحریری تقریر پڑھنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا اور ایک گھنٹہ لگا کاروؤس کے سنسنی خیز مظاہروں میں ۔
جوں ہی تقریر ختم کر کے میں اسٹیج سے نیچے اتر کر آیا، میں نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا اور ٹھاٹھ سے حضرت کاروؤس میز پر آئے۔ مہوگنی کی اس لمبی شاندار میز پر جس کے پیچھے ایک قطار میں کمیٹی کے معزز رکن بیٹھے تھے۔ کونے میں پوڈیم ۔ مائک سے میں نے اپنی تقریر کی۔
تقریر ختم ہونے تک کاروؤس ایک انچ بھی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ لیکن تقریر کے دوران بیچ بیچ میں اس نے رضامندی میں اپنی گردن ہلائی۔ اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا گویا احتیاط کے ساتھ سن کر وہ میری بات کی حمایت کر رہا ہو۔ تقریر کے اختتام کے بعد سارا ہال تالیوں کی بھاری گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ کاروؤس بھی پیچھے ہی تھوڑے رہنے والا تھا۔ اس نے بھی چونچ سے میز تھپتھپا کر اس میں اپنا تعاون کیا۔
تقریر کے بعد کاروؤس کے مظاہروں نے تو بس سماں ہی باندھ دیا۔ گزشتہ دو ماہ میں اس نے جو کچھ سیکھا تھا اس کی گواہ تھی سائنسدانوں کی وہ محوِ حیرت بھیڑ۔ لوگوں نے اتفاق سے اس بات کو تسلیم کیا کہ اپنی زندگی میں انہوں نے کبھی اتنے بڑے معجزے کی امید نہیں کی تھی۔ مقامی اخبار ‘کرارا ڈیCorrero de  سین ٹیاگو’ نے چونچ میں پینسل تھامے کاروؤس کی با تصویر خبر اپنے شام کے ایڈیشن کے صفحہ اول پر شہ سرخیوں پر چھاپی تھی۔
اجلاس کے بعد میں گرینفیل اور کانفرنس صدر کاویروبیسSignor Covarrubias  کے ساتھ سین ٹیاگو شہر کی سیر کے لیے نکلا۔ سین ٹیاگو ایک پرکشش شہر ہے، جس کے مشرق میں اینڈیز پہاڑ چلی اور ارجنٹائن  ریاستوں کو دو حصوں میں بانٹتا شان سے کھڑا ہے۔ کچھ دیر بعد کاویروبیس نے کہا “تمہیں مہمانوں کے استقبال میں کئے جانے والے دل چسپ ثقافتی پروگراموں کے بارے میں تو معلومات ہے نا؟ میں چاہتا ہوں کہ تم آج رات چلی کے مشہور جادوگر آرگَس Argus  کا پروگرام ضرور دیکھو۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اپنے پروگراموں میں وہ پرندوں سے خوب کام لیتا ہے۔ ”
یکایک میرے کان کھڑے ہو گئے۔ میری دلچسپی جگانے کے لئے اتنی معلومات ہی کافی تھی۔
شام گرینفیل کو لے کر میں آرگَس کا جادو دیکھنے پلازا تھیٹر جا پہنچا۔ درحقیقت آرگَس کی کارکردگی میں پرندوں کی بھر مار ہے۔ اور ماننا پڑے گا کہ بطخوں ، طوطوں ، کبوتروں ، مرغیوں ، پرندوں ، مرغابیوں سب کو کافی محنت کے ساتھ کام سکھلایا گیا ہے۔ پر کاروؤس کا دور دور تک کوئی ثانی نہیں ہے۔
ہاں ، پرندوں سے زیادہ دلچسپ لگا مجھے ان کا مالک جادوگر آرگَس ۔ طوطے جیسی نکیلی ناک، چمکتے ہوئے درمیان میں مانگ کاڑھ کر بنائے ہوئے لمبے لمبے بال اور ناک پر ٹکا ایک ہائی پاور چشمہ۔ اس کا قد شاید 6 فٹ سے بھی کہیں لمبا تھا۔ کالے لمبے لبادے سے باہر جھانکتی اپنی لمبی لمبی بانہوں کے بل بوتے پر وہ شائقین کو مرعوب کر دینے میں کامیاب رہا۔ جادو کے نام پر تو اس کے پاس کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی لیکن اس کی  پیشکش کے انداز اتنے جاندار تھے کہ پرفارمینس میں مزا ہی آ جاتا تھا۔ جادو کے شو کے بعد ہال سے باہر نکلتے وقت میں نے اپنے ساتھی گرینفیل سے مذاق ہی مذاق میں کہا “آرگَس  نے تو ہمیں جادو کا کھیل دکھلایا ہے تو کیوں نہ اس کے بدلے میں ہم اسے اپنا کاروؤس دکھائیں ؟ ”
رات 9 بجے میں نے کھانا کھایا اور شاندار چلی کافی کی چسکیاں لے کر گرینفیل کے ساتھ ہوٹل کے باغ میں کچھ دیر چہل قدمی کی۔ اپنے کمرے میں بستر پر جا کر میں نے سونے کے لئے بتیاں بجھائی ہی تھیں کہ پاس رکھا ٹیلی فون گھنگھنانے لگا۔
“محترم شونکو Shonku ؟”
“ہاں ” میں نے جواب دیا۔
“میں ریسیپشن  سے بول رہا ہوں سر۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس وقت فون کر کے محترم کے آرام میں خلل ڈالا پر ایک صاحب آپ سے ملنے کے لئے بے تاب ہیں اور بہت دیر سے ضد کر رہے ہیں ۔ ”
میں نے کہا کہ میں بہت تھکا ہوا ہوں اور بہتر ہو  اگر وہ آنے والے صاحب مجھ سے کل صبح ملیں ۔ میں نے سوچا ضرور یہ کوئی سرپھرا اخبارنویس ہی ہوگا۔ آج صحافیوں کو میں نے چار طویل  طویل انٹرویو دیئے تھے اور ان کے بےہودہ سوال سن سن کر تو میرے جیسے صابر آدمی تک کا صبر کا باندھ ٹوٹ گیا تھا۔ مثلاً ایک اخباری صحافی  نے تو مجھے یہاں تک پوچھا اور وہ بھی بہت سنجیدگی سے کہ “کیا ہندوستان میں کووں کی پوجا بھی کی جاتی ہے؟ ”
ریسپشن  کے کلرک نے مہمان  سے کچھ بات چیت کی اور پھر کہا “محترم یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ آپ کا 5 منٹ سے زیادہ وقت نہیں لیں گے کیوں کہ یہ سویرے کہیں اور مصروف رہیں گے۔”
‘‘یہ کوئی صحافی ہے کیا؟ ’’ میں نے سوال داغا۔
‘‘نہیں سر۔ یہ یہاں کے مشہور جادوگر آرگَس ہیں’’۔
‘‘آرگَس !’’ میں تھوڑا چونکا۔ نام سن کر اسے ملنے کے لئے اوپر بلانے کے علاوہ میرے پاس کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ میں نے بستر کے سہارے لگا لیمپ پھر جلا دیا اور اس کا انتظار کرنے لگا کوئی تین منٹ بعد ہی دروازے کی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ میں نے آج تک اتنا لمبا آدمی نہیں دیکھا تھا۔
آرگَس اسٹیج پر تقریباً 6 فٹ کا لگتا تھا پر نکلا ساڑھے چھ۔ جھک کر میرا سلام کرنے کے دوران بھی وہ مجھ سے مکمل آدھا فٹ تو اونچا رہا ہی ہوگا۔ میں نے اسے اندر چلے آنے کے لئے کہا۔ وہ جادوگر کے لبادے میں نہیں بلکہ ایک سوٹ میں تھا پر رنگ اس کا بھی تھا کالا ہی۔ میں نے دیکھا کہ “کرارا ڈی   سین ٹیاگو” کا ایوننگ ایڈیشن اس کی جیب سے باہر جھانک رہا تھا۔ ہم صوفے پر جا بیٹھے۔ میں نے اس کے جادو کی تعریف کرتے ہوئے کہا
“جہاں تک مجھے یاد آ رہا ہے ‘آرگَس’ یونانی دیومالا میں ایک ایسے ذہین آدمی کا نام تھا جس کے سارے جسم پر آنکھیں ہی آنکھیں تھیں ۔ جادوگر کو ہی ‘آرگَس ’ کہتے ہیں نا؟ ”
آرگَس  مسکرایا اور بولا “پھر تو آپ مانیں گے نہ کہ آرگَس اور پرندوں کا تعلق پرانا ہے۔”
میں نے اتفاق میں سر ہلا دیا۔
“ہاں ۔ کہتے ہیں کہ یونانی دیوی ‘ہیرا’ نے آرگَس  کے جسم سے آنکھیں نکال کر مور کی دم  پر لگا دی تھیں ۔ کہا جاتا ہے کہ اسی لئے اس کے پروں پر گول گول نشان ہوتے ہیں ۔ پر مجھے تو حیرت آپ کی آنکھوں کو دیکھ کر ہو رہی ہے۔ معاف کیجئے ۔ آپ کے چشمے کا نمبر کتنا ہے؟ ”
“مائنس بیس” آرگَس نے جواب دیا۔ “پر اس سے فرق کیا پڑتا ہے۔ میرے پرندے چشمہ تھوڑے ہی لگاتے ہیں ۔ “اور خود ہی اپنے اس مذاق پر ہنس پڑا۔
اچانک ہنستے ہوئے وہ چپ ہو گیا اور حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس کی آنکھیں پلاسٹک کے اس پنجرے پر جمی ہوئی تھیں جس میں کاروؤس سو رہا تھا۔ آرگَس  کے زوردار قہقہے سے چونک کر کاروؤس اچانک اٹھ بیٹھا تھا اور آنکھیں پھاڑ کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔حیرت میں ڈوبا ہوا آرگَس کرسی سے اٹھا اور پنجرے کی طرف بڑھا۔ کاروؤس کو ایک منٹ غور سے دیکھتے رہنے کے بعد وہ بولا “تم کیا جانو دوست آج کے اخبار میں تمہارے بارے میں پڑھ کر میں تم سے ملنے کے لئے کس قدر بے تاب تھا۔ میری بدقسمتی ہے کہ میں نے تم کو بولتے ہوئے نہیں سنا۔ میں کوئی پرندوں کا ماہر تو نہیں پر چڑیوں کو ٹریننگ ضرور دیتا ہوں ۔ ”
وہ لوٹ کر آیا اور واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر افسوس کے جذبات ابھرے۔
“میں جانتا ہوں کہ آپ اس وقت تھکاوٹ میں کس قدر چور ہوں گے ۔ پر بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ ایک بار، صرف ایک بار، اسے پنجرے سے باہر نکال سکیں ۔ اس کی عقل  کا ایک چھوٹا سا نمونہ مجھے۔۔۔ ”
میں نے اس کی بات کاٹ کر کہا ۔ “صرف میں ہی تھکا ہوا نہیں ہوں ۔ کاروؤس بھی ہے۔ میں اس کی خواہش کے برعکس اسے کوئی حکم نہیں دے سکتا۔ میں پنجرا کھولتا ہوں ۔ باقی کاروؤس جانے اور اس کا کام۔ ”
“بالکل ٹھیک ہے۔ بجا فرماتے ہیں آپ۔ ’’وہ بولا۔
میں نے پنجرے کا دروازہ کھولا۔ کاروؤس باہر آیا، بستر کے سہارے لگے لیمپ تک گیا اور اپنی چونچ سے اس کا سوئچ دبا دیا۔ کمرہ اچانک اندھیرے میں ڈوب گیا۔
کھڑکی سے چھن کر سڑک پار کے ہوٹل میٹروپول کی ہری روشنیاں اندر آ رہی تھیں ۔ میں چپ تھا۔ کاروؤس دوبارہ اڑا اور پنجرے میں جا کر اپنی چونچ سے اس نے دروازہ بند کر لیا۔ ہری نیان بتیوں کی ہلکی روشنی میں آرگَس کی سانپ جیسی آنکھیں چشمے کے سنہرے فریم میں چمک رہی تھیں ۔
تعجب میں ڈوبا وہ ساکت تھا۔ آرگَس سمجھ گیا تھا کہ کاروؤس کے بتی بجھا کر یوں پنجرے میں لوٹ جانے کا مقصد کیا تھا۔ کاروؤس آرام کرنا چاہتا تھا۔ وہ روشنی نہیں اندھیرا چاہتا تھا، آرام سے سونے کے لئے۔
آرگَس کے پتلے ہونٹوں سے اچانک نکلا “کمال ہے۔” اپنے ہاتھ ٹھوڑی کے نیچے دبائے ہوئے وہ اب بھی حیرت میں ، عدم اعتماد میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے دیکھا اس کے ناخن بہت لمبے تھے اور سلور رنگ کی نیل پالش کی وجہ سے وہ ہلکے اندھیرے میں بھی دمک رہے تھے۔ بار بار جل بجھ رہی روشنیوں کے عکس اس جگمگاتے ناخنوں پر پڑ کر ایک عجیب سا تاثر پیدا کر رہے تھے۔
“مجھے یہ چاہیے۔” انگریزی میں آرگَس کھرکھراتی آواز میں پھسپھسایا۔ اب تک وہ مجھ سے ہسپانوی میں بول رہا تھا۔ ابھی اس کی آواز میں لالچ کا عنصر نہیں بلکہ دھمکی تھی۔
“مجھے یہ پرندہ چاہئے۔” اس نے دوہرایا۔
میں نے خاموش رہ کر اسے گھورا۔ ایسے میں کہنے کو میرے پاس تھا بھی کیا؟ میں صرف انتظار کرنے لگا کہ آگے کیا کہتا ہے وہ؟ وہ جو اب تک کھڑکی کی طرف دیکھتا رہا تھا مڑ کر میری طرف مخاطب ہوا۔ جلتی بجھتی نیان بتیاں اندھیرے اجالے کے عکس کمرے میں بکھیر رہی تھیں ، جہاں یہ ڈرامہ چل رہا تھا۔ روشنیاں بجھ جانے پر وہ جیسے کمرے سے غائب ہو جاتا اور جلنے پر کرسی پر بیٹھا پھر دیکھ پڑتا۔ جیسے کوئی اندر جال ہو۔
آرگَس نے اپنی طرف انگلی کا اشارہ کیا ۔ “میری طرف دیکھو پروفیسر! میں آرگَس ہوں .... آرگَس،   دنیا کا مشہور جادوگر۔ امریکہ کے ہر شہر میں بے شمار لوگ مجھے جانتے ہیں ۔ میرے جادو کے قائل ہیں ۔ اگلے مہینے میں دنیا بھر میں اپنے جادو دکھلانے کے لئے جا رہا ہوں ۔ روم، میڈرڈ، پیرس، لندن، اسٹاک ہوم، ٹوکیو، ہانگ کانگ .... ساری دنیا کے لوگ میرا لوہا مانیں گے۔ پر جانتے ہیں آپ کیا ہوگی اس بار اصل چیز؟ کوا .... یہی ہندوستانی   کوا!! پروفیسر! مجھے کسی بھی قیمت پر یہ چاہئے۔ یہی کوا۔۔۔! ”
آرگَس اپنے چمکیلی ناخنوں والی انگلیوں کو میری آنکھوں کے سامنے کچھ ایسے نچا رہا تھا گویا وہ کوئی سپیرا ہو۔ میں من ہی من مسکرایا۔ میری جگہ اگر اس وقت کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو یقیناً ہی اس انداز اور آواز سے ہپنوٹائز ہو چکا ہوتا اور آرگَس  جانور پر ہاتھ صاف کر جاتا۔ پر میں نے پختہ اور واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ اس کا جادو مجھ پر نہیں چلنے والا!
میں نے کہا ۔ “مسٹر آرگَس ۔ آپ بیکار میں اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہیں ۔ مجھے ہپنوٹائز کرنے کی کوشش کرنا بیکار ہے۔ میں آپ کے جھانسے میں نہیں آنے کا۔ آپ کی بات ماننا میرے لئے ہرگز ممکن نہیں ہے۔ کاروؤس میرا شاگرد ہی نہیں میرے بیٹے کی طرح ہے۔ اسے کتنی محنت اور لگن سے میں نے تیار کیا ہے میرا دل ہی جانتا ہے۔۔۔ ”
“پروفیسر ۔۔۔!” آرگَس میری بات کاٹ کر اچانک بلند آواز میں چلایا پھر اس کی آواز یکایک ہلکی پڑ گیا۔ “پروفیسر ۔۔۔۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کروڑ پتی ہوں ؟ اسی شہر کے مشرق میں میری پچاس منزلہ عمارت ہے؟ میرے یہاں 26 ملازم اور چار کیڈلک کاریں ہیں ؟ میرے لئے کوئی چیز مہنگی نہیں ہے ....  پروفیسر! میں ابھی ہاتھوں ہاتھ اس کوے کے لئے تمہیں بیس ہزار ایسکیوڈوز  escudos دے سکتا ہوں ۔ ”
بیس ہزار ایسکیوڈوذ کا معنی تھا ایک لاکھ روپے۔ پر آرگَس کو شاید پتہ نہیں تھا کہ جیسے اناپ شناپ خرچ کر ڈالنا اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ٹھیک ویسے ہی میرے لئے بھی پیسے ٹکے کی کوئی قیمت نہ تھی۔ میں نے اس کا  دو ٹوک اظہار کر دیا۔
آخر آرگَس نے آخری پانسا پھینکا ۔ “آپ تو ہندوستانی ہیں نا پروفیسر۔ کیا آپ ہندوستانی پراسرار تعلقات میں یقین  نہیں کرتے؟ آرگَس اور کاروؤس ....  کاروؤس اور آرگَس .... کتنی یکسانیت ہے دونوں لفظوں میں ؟ کیوں ہے نا پروفیسر؟ ”
اب میں اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں کرسی سے اٹھ گیا اور بولا ۔ “مسٹر آرگَس ۔ آپ کی رقم دولت، کاریں ، کوٹھیاں اور شہرت آپ کو ہی مبارک ہو۔ میرا کاروؤس میرے ساتھ ہی رہے گا۔ اس کی تربیت بھی ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور مجھے اس پر اب بھی اور محنت کی ضرورت ہے۔ میں آج بری طرح تھکا ہوا تھا۔ آپ نے مجھ سے صرف پانچ منٹ چاہے تھے اور میں آپ کو بیس دے چکا ہوں ۔ میں اب اور باتیں کرنے کی حالت میں نہیں ہوں ۔ میں اور کاروؤس اب دونوں ہی سونا چاہتے ہیں ۔ اچھا ۔ گڈ نائٹ!”
اس کا چہرہ فق ہو گیا۔ اس اتری ہوئی صورت دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ پر باہر سے ایسا کچھ بھی ظاہر نہیں ہونے دیا میں نے۔ آخر آرگَس  احترام کے انداز میں سلام کے لئے جھکا اور جلدی سے ہسپانوی میں “گڈ نائٹ” بدبدا کر کمرے سے رخصت ہو گیا۔
میں نے دروازہ بند کر لیا اور پنجرے تک گیا۔ کاروؤس اب تک جاگ رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے چونچ کھولی اور گویا پوچھا “کون؟” اس کی آواز میں جو استفسار تھا مجھ سے چھپا نہ رہا۔
“ایک پاگل جادوگر!” میں نے اسے واضح کیا “پیسے کی دھونس جما رہا تھا۔ تمہارا مول  بھاؤ کرنے آیا تھا۔ میں نے انگوٹھا دکھا دیا۔ تم اب چین سے سو جاؤ۔ ”


 -16   نومبر -
واقعات کو ایک ڈائری میں میں کل ہی درج کرنا چاہتا تھا پر رات کو مجھے اس بات کا قطعی کوئی اندازہ نہ تھا کہ آنے والے کچھ گھنٹوں میں ایسی خطرناک وارداتیں واقع ہوں گی۔ صبح  کے سیشن میں سب سے قابل ذکر تھا  جاپان کے پرندوں کے ماہر توماساکا موریموتو Morimotoکی کافی اہم تقریر، جس میں کاروؤس کو بھی اپنے ساتھ ہی لے گیا تھا۔ کوئی ایک گھنٹے تک مسلسل بولتے رہنے کے بعد اچانک موریموتو صاحب  یہ بھول گئے کہ ان کی تقریر کا اصل موضوع  تھا کیا؟ اور الجھن میں لگے بغلیں جھانکنے۔ تبھی اچانک اپنی چونچ کو میری کرسی کے ہتھے پر جوش میں کھٹکھٹاتے ہوئے کاروؤس نے جیسے تالیاں بجا دیں ۔ اسے سننا تھا کہ بھیڑ بے تحاشا ہنسی سے پھوٹ پڑی اور میں تو مارے شرم کے بس زمین میں گڑ گیا۔
ہمیں ہوٹل میں دوپہر کا کھانا کچھ نمائندوں کے ساتھ کھانا تھا۔ وہاں جانے سے پہلے میں اپنے کمرہ نمبر 71  میں پہنچا۔ کاروؤس کو اس کے پنجرے میں چھوڑا، اسے کھانا دیا اور کہا “تم یہیں رہو۔ میں بھی لنچ کھا کر ابھی واپس آ رہا ہوں’’۔  فرمانبردار کاروؤس  نے رضامندی سے سر جھکا دیا۔
جب تک میں کھانا کھا کر لوٹا ڈھائی بج چکے تھے۔ جوں ہی کمرہ کھولنے کے لئے میں نے چابی کی   ہول میں ڈالی، مجھے پتہ چل گیا کہ کمرہ پہلے سے ہی کھلا ہوا تھا۔
میرا خون خدشہ سے جم گیا۔ کمرے میں پہنچتے ہی تو مجھ پر جیسے بجلی گر پڑی۔ بالکل وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔کاروؤس اور اس کا پنجرا کمرے سے غائب تھا۔
طوفان کے بگولے کی طرح میں باہر کاریڈور میں آیا۔ کچھ ہی دور دو کمروں کے نیچے روم بوائے کا کمرہ تھا۔ وہاں میں بھاگتا ہوا پہنچا۔ دو روم بوائے وہاں گم صم کھڑے تھے ۔ جذبات سے عاری سپاٹ چہرے اور  ان کی پھٹی پھٹی آنکھیں اس بات کی گواہ تھیں کہ انہیں ہپنوٹائز کیا گیا تھا۔ میں گرینفیل کے کمرے 107 کی طرف دوڑ پڑا۔ اسے مختصر جلدی جلدی ساری باتیں کہہ سنائی ہیں ۔ ہم دونوں تیزی سے نیچے ریسپشن تک پہنچے۔
“آپ کے کمرے کی چابیاں کسی نے ہم سے نہیں مانگیں ۔ کمرے کی ڈپلیکیٹ چابی روم بوائے کے پاس رہتی ہے۔ ہو سکتا ہے اس نے کسی کو دی ہو۔’’ کلرک نے ہم سے کہا۔ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا تھا کہ روم بوائے کسی اور کو میرے کمرے کی چابی دے دے۔ میں سمجھ گیا کہ آرگَس نے اس پر جادو ڈال کر چابیاں ہتھیا لی تھیں اور چپ چاپ اپنا کام کر ڈالا تھا۔
آخر میں ہوٹل کے دربان سے اصل کہانی کا پتہ چلا۔ اس نے بتایا  کہ کوئی آدھا گھنٹہ پہلے آرگَس اپنی سلور کیڈلک میں ہوٹل آیا تھا۔ کوئی دس منٹ بعد وہ ہاتھ میں ایک سیلوفین بکس لے کر باہر نکلا اور واپس لوٹ گیا تھا۔
‘‘سلور کیڈلک Silver Cadillac!.... وہ کہاں گیا ہے؟ اپنے گھر یا کہیں اور؟ ’’ ہم نے سوچا۔
بنیادی طور پر ہم نے کاویروبیس کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے کہا “آرگَس کہاں رہتا ہے یہ جاننا کوئی مشکل کام تھوڑے ہی ہے۔ پر اس گھر کا پتہ جان کر بھی کیا ہوگا؟ وہ کاروؤس کو چرا کر کوئی گھر تھوڑے ہی گیا ہوگا۔ کاروؤس پر ہاتھ صاف کر کے تو وہ کہیں چھپ جانے کی سوچےگا۔ ہاں ، اگر وہ شہر سے باہر کہیں جانا چاہتا ہے تو اس کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ میں تمہیں ایک شاندار کار، ڈرائیور اور پولیس کی مدد دلوائے دیتا ہوں ۔ آدھے گھنٹے کے اندر اندر روانہ ہو جاؤ۔ ہائی وے پکڑ لو۔ اگر تمہاری قسمت تیز ہوئی تو اب بھی شاید آرگَس ہاتھ آ سکتا ہے۔ ”
کوئی سوا تین بجے ہم نکل پڑے۔ چلنے سے پہلے میں نے ہوٹل سے فون کیا اور پتہ لگایا کہ آرگَس ۔ جس کا اصلی نام ڈومگو بارٹولیم سرمینٹوے تھا ۔ اپنے گھر پر نہیں تھا۔ ہم دو مسلح پولس مینوں کے ساتھ پولیس کار میں تھے۔ پولیس والوں میں سے ایک نوجوان کا نام تھا کیری رس Carreras اور اسے آرگَس کے بارے میں کئی مفید باتوں کی معلومات تھی۔ اس نے واضح کیا کہ سین ٹیاگو شہر میں اور اس کے آس پاس آرگَس کے چھپنے کے بہت سے ٹھکانے ہیں ۔ آرگَس انیس سال کی عمر ہی سے جادو کے پروگرام کر رہا ہے۔ اس نے گزشتہ کوئی چار سال سے ہی اپنے پروگراموں میں پرندوں کا استعمال شروع کیا ہے اور اسی سے وہ اچانک بہت مقبول ہو اٹھا ہے۔
“کیا وہ اصل میں کروڑ پتی ہے؟”
“لگتا تو ایسا ہی ہے” کیری رس بولا “پر اس آدمی کا مزاج اتنا شکی اور عجیب ہے کہ اس کے سب دوستوں نے اس سے کنارہ کر لیا ہے۔”
شہر پیچھے چھوڑ کر ہم ہائی وے  پر آ تو گئے پر ایک اور نیا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اچانک سڑک دو الگ الگ حصوں میں بٹ گئی تھی اور ہم دوراہے پر کھڑے تھے۔ دو سڑکوں کے درمیان ایک راستہ تو جاتا تھا جواب میں لاس اینڈیز Los Andesپہاڑوں کی طرف اور دوسرا جاتا تھا والپرائسوValparaiso کی بندرگاہ پر۔ خوش قسمتی سے سڑکوں کے دہانے پر درمیان میں بنے ایک پیٹرول پمپ سے جب پوچھ گچھ کی تو پتہ لگا کچھ ہی دیر پہلے سلور رنگ کی ایک کیڈلک والپرائسو کی طرف جانے والی سڑک پر گئی تو ہے۔ ہماری مرسڈیز پھر بندوق سے نکلی گولی کی طرح بھاگ پڑی۔ میں نے سوچا کہ کاروؤس کو آرگَس کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا کیونکہ اسے تو اس کی سخت ضرورت ہے۔ پر کل رات کو کاروؤس کے رویے کو دیکھ کر میں سمجھ چکا تھا کہ اسے جادوگر پھوٹی آنکھوں نہیں بھایا تھا۔ میرے سامنے کاروؤس کی ذہنی  حالت ساکار ہو اٹھی۔ ایک شیطان کے شکنجے میں پھنس کر وہ کس قدر مایوس اور دکھی ہوگا میں محسوس کر سکتا تھا۔
راستے میں ہمیں دو پیٹرول پمپ اور ملے اور دونوں نے اس بات کی تصدیق کہ کہ انہوں نے ایک سلور کیڈلک کو ادھر سے گزرتے دیکھا ہے۔
فطرت سے میں رجائیت پسند ہوں ۔ پہلے بھی بڑی سے بڑی پریشانیوں سے میں متاثر نہیں ہوا ہوں ۔ میں نے آج تک اپنے کسی بھی مہم میں نا کامیابی کا منہ نہیں دیکھا۔ پر میرے ساتھ بیٹھا گرینفیل مایوسی میں ڈوبا سر ہلا رہا تھا۔ “بھولو مت شونکو !تمہارا سابقہ ​​ایک انتہائی شاطر آدمی سے پڑا ہے۔ اس نے کاروؤس پر ہاتھ صاف کر ہی ڈالا ہے تو اتنی آسانی سے وہ اس سے جدا ہونے والا بھی نہیں ۔ ”
“اور سینور آرگَس ہتھیاروں سے بھی تو لیس ہوگا” کیری رس نے گویا جلتی آگ میں گھی ڈالا ۔ “میں نے اسے اپنے جادو کے کھیل میں حقیقی ریوالور چلاتے بھی دیکھا ہے۔”
راستہ ڈھلوان تھا۔ ایک ہزار چھ سو فٹ اونچے سین ٹیاگو شہر کے مقابلے میں اب ہم اس وقت تقریباً ایک ہزار فٹ کی بلندی پر تھے۔ ہمارے پیچھے پہاڑوں کے سلسلے مزید گھنے ہوتے جا  رہے تھے۔ ہم چالیس میل تو چل ہی چکے تھے۔ اور اگلے چالیس میل کا معنی تھا کہ ہم والپرائسو میں ہوتے۔ گرینفیل کا لٹکا ہوا چہرہ دیکھ کر مجھ پر بھی مایوسی طاری ہونے لگی۔ اگر وہ راستے میں ہی پکڑ میں نہیں آتا تو ہمیں اس شہر میں تلاش کرنا ہوگا جو کہ اس سے بھی سو گنا مشکل کام ہوتا۔ اچانک سڑک کی اونچائی بڑھنے لگی۔ ایسا لگا جیسے گاڑی کسی پہاڑی پر چڑھ رہی ہو۔ پھر گہری ڈھلان کا دور شروع ہوا۔ سڑک کے کنارے اونچے اونچے درخت تھے اور وہ ہوا میں سر ہلا رہے تھے۔ کہیں آدمی نام کی کوئی چیز ہمیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ راستہ بالکل سنسان تھا۔ کوئی چوتھائی میل دور نیچے ہمیں سڑک پر ایک چیز چمکتی نظر آئی۔
تقریباً چار سو گز سے منظر اور بھی واضح ہوا۔ دھوپ میں چمچماتی ہوئی ایک کار سڑک کے کنارے رکی ہوئی تھی۔ ہم اور قریب پہنچے۔
کیڈلک۔ سلور کیڈلک۔ ہاں ، وہی تھی یہ۔ ہماری مرسڈیز اس کے پیچھے آ کر رک گئی۔ ہمیں اب پتہ چلا کہ وہ کار رکی ہوئی کیوں تھی؟ وہ درخت کے تنے سے ٹکرا کر تباہ ہو گئی تھی۔ سامنے کا حصہ تو ایک دم چکنا چور ہی ہو گیا تھا۔
کیری رس کے منہ سے نکلا ۔ “ارے۔ یہی تو مسٹر آرگَس کی کار ہے۔ ”
‘‘اسی رنگ کی سین ٹیاگو میں ایک کار اور ہے جو ایک بینکرمسٹر گیلڈیمس Galdames  کی ہے۔ پر اس گاڑی کو تو میں اس کی نمبر پلیٹ سے بھی جانتا ہوں ۔ ”
کار تو مل گئی پر آرگَس کہاں گیا؟ کاروؤس کا بھی کوئی پتہ نہ تھا۔ گردن ڈال کر میں نے کار کی کھڑکی سے اندر جھانکا۔
ڈرائیور کی سیٹ کے ساتھ کاروؤس کا پنجرا خالی پڑا تھا۔ اس کی چابی میری جیب میں تھی۔ میں نے اسے تالا نہیں لگایا تھا، دوپہر کو ویسے ہی بند کیا تھا۔ ایسے میں کاروؤس دروازہ کھول کر پنجرے سے باہر بھی آ سکتا تھا۔ پر وہ آخر تھا کہاں ؟
اچانک ہم نے کچھ دور سے آتی ایک تیز چیخ سنی۔ کیری رس اور دوسرے سپاہی کی انگلیاں بندوقوں پر جم گئیں ۔ پر ڈرائیور بڑا ڈرپوک نکلا۔
“جادوگروں کے نام سے ہی مجھے تو جانے کیوں بڑا ڈر سا لگتا ہے” وہ ڈر کر زمین پر بیٹھ گیا اور لگا دعائیں کرنے۔گرینفیل کا چہرہ بھی لٹک گیا تھا۔
“تم وہیں کار میں رہو گریننفیل!” میں نے اسے مشورہ دیا۔
چیخوں کی آوازیں اور پاس آئیں ۔ سڑک کے بائیں طرف درختوں اور جھاڑیوں کے نیچے سے کوئی شور مچا رہا تھا۔ کل رات میں نے آرگَس کو صرف دھیمے پھسپھساتے لہجے میں ہی بولتے سنا تھا اس لئے شناخت حاصل کرنے میں تھوڑی دیر ضرور لگی پر میں سمجھ گیا کہ یہ آواز آرگَس کی ہی تھی۔ وہ ہسپانوی زبان میں چن چن کر کاروؤس کو گالیاں دے رہا تھا۔ میں نے کئی بار اسے کاروؤس کے لئے “شیطان” کہتے سنا۔
“کہاں ہے وہ بدمعاش کوا؟ کاروؤس ستیاناس جائے کاروؤس کا، شیطان کہیں کا۔۔۔! ”
اچانک آرگَس کی مسلسل گالیوں کی بوچھار جیسے رک سی گئی۔ اس کی اور ہماری نگاہیں چار ہوئیں ۔ ہاتھ میں ریوالور لئے وہ ہم سے کوئی سو قدم دور جھاڑیوں کے پاس کھڑا تھا۔
کیری رس چلا پڑا ۔ “پستول نیچے رکھ دو مسٹر آرگَس....” پر جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی کانوں کے پردے پھاڑتی اس کی ایک گولی چلی اور کار کے دروازے میں گھس گئی۔ کیری رس پھر چیخا “مسٹر آرگَس! ہم پولیس والے ہیں ! ہتھیار پھینک دو اگر تم نے اپنی ریوالور نہیں پھینکا تو ہم بھی گولی چلانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ”
“تم مجھے مارو گے؟” آرگَس چلایا۔
“کیا واقعی پولیس آ گئی ہے؟ پر مجھے تو کچھ بھی نہیں دکھلائی دیتا۔ ”
آرگَس اب ہم سے صرف پچیس گز دور تھا۔ میں ایک ہی پل میں اس کی حقیقت سمجھ گیا۔ آنکھوں پر چشمہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ بالکل اندھا سا ہو گیا تھا اور الٹی  سیدھی گولیاں داغ رہا تھا۔
آخر میں آرگَس نے پستول پھینک ہی دی اور لڑکھڑاتا سا آگے آیا۔ پولیس والے بھی تیزی سے آگے بڑھے۔ میں جان گیا کہ بحران کی اس گھڑی میں اب آرگَس کی کوئی بازی گری کام نہ آئے گی۔ وہ واقعی بہت قابل رحم حالت میں تھا۔ کیری رس نے آگے بڑھ کر زمین پر پڑا اس کا پستول اٹھا کر اپنے قبضے میں کر لیا۔ آرگَس بڑبڑا رہا تھا ‘‘وہ کوا نہ جانے کہاں مر گیا ستیاناس ہو جائے اس کا .... کتنا چالاک تھا وہ....”
گرینفیل پھسپھسا کر مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے سنا وہ کہہ رہا تھا ۔ “شونکو ۔۔۔ کوا وہاں ہے .... وہاں ۔ ”
میں نہیں سمجھا اس کا مطلب کیا تھا؟ مجھے تو کاروؤس کہیں بھی دکھائی نہیں پڑ رہا تھا۔ تبھی گرینفیل نے سڑک کے پار ایک اونچے درخت کی چوٹی کی طرف اشارا کیا۔
میں نے محسوس کیا میرا دوست، میرا شاگرد، پیارا کاروؤس درخت کی سب سے اونچی ڈال پر بیٹھا ہماری طرف پیار بھری نگاروں سے تاک رہا تھا۔ میں درخت کی طرف بھاگا۔ پر وہ کسی پتنگ کی طرح شان سے تیرتا ہوا ہماری مرسڈیذ کی چھت پر اتر آیا۔
کاروؤس نے جھک کر چونچ کھولی اور میرے قدموں میں رکھ دیا ۔ آرگَس کا مائنس بیس کا وہی ہائی پاور چشمہ، جس کی سنہری کمانیاں شام کی ڈھلتی ہوئی دھوپ میں چمچما رہی تھیں ۔



بنگالی ادب کے معروف افسانہ نگار  

ستیہ جیت رے ۔1909ء تا 1982 ء 



ستیہ جیت رے  (بنگالی:সত্যজিত রায় ؛  انگریزی: Satyajit Ray) جنہیں شوتّوجیت رائے  بھی کہا جاتا ہے، بنگالی  زبان  کے ممتاز  ادیب ، مصنف، ہدایت کار اور فلمساز تھے۔ ان کا شمار 20 ویں صدی کے عظیم ترین فلمسازوں میں ہوتا ہے۔

ستیہ جیت رائے  2 مئی 1921ء کو  وہ کلکتہ میں ایک فنی اور ادبی دنیا کے ممتاز بنگالی گھرانے میں پیدا ہوئے۔    ستیہ جیت رے کے دادا اپیندر کشور رے چودھری   اور والد  سوکمار رے      بنگالی  زبان کے شاعر، کہانی نویس اور تھیٹر ڈراما نگار تھے، دونوں   بچوں کے ادب پر لکھی بنگالی کہانیوں اور نظموں کے لیے مقبول تھے، ان کی کئی کہانیوں کو تھیٹر میں پیش کیا گیا۔    ستیہ جیت رے نے اپنا سفر بطور ایک مصور شروع کیا تھا۔ وہ ایک اشتہاری کمپنی کے ایڈوائزر بھی رہے۔ 1947میں انھوں نے کلکتہ فلم سوسائٹی کو قائم کرنے میں اپنا تعاون دیا۔ انہوں نے 37 فلموں میں ہدایتکاری کے فرائض انجام دیے جن میں فیچر فلمیں ، دستاویزی فلمیں اور مختصر فلمیں سبھی شامل ہیں۔ ان کی فلم ‘‘پاتھری  پنچالی’’ کو کنز فلم فیسٹیول میں ‘‘بہترین انسانی دستاویز’’  کا اعزاز حاصل کیا ، اس کے علاوہ   اپرا جیتو ، پارس پتھر ، جلسہ گھر ، اَپُر سنسار ، دیوی ، چارولتا، شطرنج کے کھلاڑی ، سدگتیاور گھرے با ہرے  ان کی چند ایسی فلموں میں سے ہیں جن کی وجہ سے ستیہ جیت رے کو عالمی شہرت نصیب ہوئی اور ان کا شمار دنیا کے عظیم فلمسازوں میں کیا جانے لگا۔اس کے علاوہ بھی اس فلم نے دیگر 10 بین الاقومی اعزازات حاصل کیے۔
مگر ستیہ جیت رے صرف ایک فلمساز ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک مصور ،  سنگیت کار  اور اعلیٰ درجے کے ادیب بھی تھے۔ 1961میں ستیہ جیت رے نے بنگالی زبان میں شائع ہونے والے بچوں کے مشہور رسالے سندیش کو دوبارہ نکالنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس رسالے کے بانیوں میں ان کے والد اور دادا بھی شامل رہے تھے۔ انہوں نے سندیش کے لیے بے شمار کہانیاں، نظمیں اور مضامین بھی لکھے۔ بعد میں ان کی کہانیوں کے کئی مجموعے شائع ہوئے جو بے حد مقبول ہوئے۔ ان میں ‘‘فیلودا سیریز’’ کے تحت لکھی گئی جاسوسی کہانیوں کے علاوہ ‘‘پروفیسر شونکوسیریز’’ کے تحت  سائنس فکشن بھی شامل ہیں۔  ستیہ جیت رے کا انتقال 23 اپریل 1992کو کلکتہ میں ہوا ۔ 
زیر نظر کہانی کاروؤسCarvus   ، پروفیسر شونکو سیریز کی  سائنس فکشن بنگالی  کہانیوں میں سے ایک کہانی কর্ভাস کا ترجمہ ہے ، ایک ذہین سائنسدان اور چالاک کوے کی کہانی جسے ستیہ جیت رے  نے 1972ء  میں لکھا۔ 


اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں