براہوی ادب کا ایک شاہکار افسانہ

دانہ ٔ گندم

بچوں کے حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا تین روٹیوں پر پلنے والا کتا روٹی کے تیسرے حصے پر دم ہلا رہا ہے.... 




دونوں شریر بچے یہ دیکھ کر خوشی سے تالیاں پیٹنے لگے کہ جونہی بوڑھی اماں نے دڑبہ کھولا تو موٹی تازی  ولایتی مرغیوں کے ٹولے میں ان کا پسندیدہ کالا دیسی مرغا بھی نکل کر سینہ تانے یوں بانگ دے رہا تھا گویا نامعلوم دشمن کے خلاف جنگ کا اعلان کررہا ہو.... 
وہ دونوں خوشی خوشی مرغی کی جانب لپکے۔ ایک بچہ جس نے قمیض کی جگہ ایک لمبی سی میلی بنیان پہن رکھی تھی۔ ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا دبائے ہوئے تھا۔ جسے وہ کبھی کبھار کسی موٹے چوہے کی مانند کترتا بھی جاتا تھا۔ دوسرے بچے نے اپنی مٹھی مضبوطی سے بند کر رکھی.تھی۔
ذرا سی جدوجہد کے بعد انہوں نے مرغ کو پکڑ لیا اور گلی کے اس کونے کی جانب لپکے، جہاں کوڑے کے ڈھیر پر سبزی والے چاچا کریم کا سفید مرغا سر پر کلغی کا تاج سجائے کسی زرخیز جزیرے کے شہنشاہ کی طرح گھوم رہا تھا۔
دونوں بچوں نے خوشی سے ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھا اور روٹی کترنے والے بچے نے بوڑھی اماں کا کالامرغ، سفید مرغ پہ اچھال دیا۔  پہلے تو دونوں مرغ ایک دوسرے کے سامنے تن گئے۔ ان کی گردنوں کے چھوٹے اور ہلکے پُر کھڑے ہونے لگے۔ ان کی کلغیاں دھیرے دھیرے یوں لرزنے لگیں جیسے ہلکے بھونچال سے کسی اونچے درخت کےپتے۔ 
لیکن پھر شاید دونوں مرغوں نے نہ لڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ کیونکہ جب ایک مرغ نے گردن جھکا لی تو دوسرے نے بھی دھیرے دھیرے پیچھے ہٹنا شروع کردیا اور یوں محتاط انداز میں ایک دوسرے سے دور ہٹنے لگے جیسے جنگ کے اختتام پر ایک دوسرے سے خوفزدہ فوجیں اپنے اپنے علاقوں کو روانہ ہوتی ہیں۔ 
یہ دیکھ کر دوسرے بچے نے اپنی مٹھی کھول دی۔ پسینے سے تر اس کی ہتھیلی پر گندم کے تین دانے چپکے ہوئے تھے۔ اس نے اپنا ہاتھ زور سے جھٹکا تو گندم کے تینوں دانے زمین پر گر پڑے۔ 
فوراً ہی دونوں مرغ یوں اچھلے جیسے انجانے میں ان کے پنجے کلیر کے انگاروں پر پڑ گئے.ہوں۔
ابھی  دونوں مرغوں نے گندم کا ایک ایک دانہ ہی چگا تھا کہ تیسرا دانہ ان کی کشمکش کے باعث مٹی کے تہوں میں گھو گیا۔ مرغ متلاشی نظروں سے گندم کے دانے کو ادھر ادھر تلاش کرنے لگے۔ پھر مشکوک نگاہوں سے ایک دوسرے کو گھورنے لگے۔ 
ادھر بچے بھی معنی خیز مسکراہٹ سے ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے.... 
فوراً ہی گندم کے تیسرے دانے پر دونوں مرغ لڑنے لگے۔ بچے یہ دیکھ رک خوشی سے گویا ناچے لگے۔ ان کے سامنے دنیا کا ایک دلچسپ مقابلہ ہورہا تھا۔
وہ بچے جانے کتنے روز مزید گندم کے ایک دانے پر لڑنے کا تماشا دیکھتے رہتے.... مگر ایک روز چاچا کریم نے اپنے مہمانوں کی تواضع کی خاطر اپنا مرغ ذبح کردیا۔ 
بچوں کو دکھ تو بہت ہوا مگر جلدی انہوں نے اس کھیل کا ایک اور طریقہ تلاش کرلیا۔
ایک روز ایک بچہ کہیں سے ایک کتا پکڑ لایا اور اسے روٹی کے ایک ٹکڑے پر پالنے لگا۔ جلدہی وہ کتا ان کا دوست بن گیا۔ اب وہ دونوں بچے سارا سارا دن آس پاس کی گلیوں میں کتے کو پرانے ازار بند سے باندھے گھومتے رہتے تھے اور جہاں کہیں انہیں کوئی دوسرا کتا نظر آتا وہ دونوں کے بیچ روٹی کا ایک ٹکڑا پھینک کر ان کی لڑائی کا تماشا دیکھتے اور خوش ہوتے رہتے۔
ایک روز کوڑے کے ڈھیر پر انہوں نے ایک دبلا پتلا کتا دیکھا۔ کتے سے ذرا دور ایک ٹوٹی دیوار کے سائے میں ایک فقیر نیم دراز سستا رہا تھا۔ کتے کو دیکھ کر دونوں بچے بہت خوش ہوئے....
 ایک بچہ دوڑ کر تنور والے سے جلی ہوئی روٹی مانگ لایا.... 
اس کے پیچھے پیچھے ان کا کتا بھی دم ہلاتے ہوئے آرہا تھا۔ اب انہوں نے دیکھا کہ دبلا پتلا کتا فقیر کے پاس بیٹھا ہے جسے وہ پیار سے پچکار.رہا.ہے۔
فقیرکے کتے نے بچوں کے کتے کو دیکھ کر کان کھڑے کرلیے۔ بچوں نے شرارتاً روٹی فقیر کے کتے کی جانب پھینکی.... 
لیکن قبل اس کے کہ دونوں کتے روٹی پر جھپٹتے، فقیر نے روٹی اچک لی۔ اب دونوں کتے اس کی جانب دیکھ کر دم ہلانے لگے۔ 
فقیر نے اطمینان سے روٹی کے تین ٹکڑے کیے ایک ٹکڑا خود رکھا اور دو ٹکڑے دونوں کتوں کے آگے ڈال دیے۔
بچوں کے حیرت کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ ان کا تین روٹیوں پر پلنے والا کتا روٹی کے تیسرے حصے پر دم ہلا رہا ہے.... 
یہ دیکھ کر ایک بچے نے نفرت سے اپنے کتے کو ایک ٹھوکر ماری اور کہنے لگا۔
‘‘آؤ کوئی دوسرا کتا تلاش کریں۔ 
یہ بزدل ہوگیا.ہے۔’’



براہوی  زبان کے شاعر  اور   ادیب  

تاج رئیسانی  ۔1957ء تا حال


اچھے اور بڑے افسانہ نگار کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے تلخ و شیریں تجربات کو پیرایۂ اظہار میں لاتاہے بلکہ عمیق مشاہدات کو بھی افسانوی انداز میں بیان کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ بلوچستان کے نمائندہ افسانہ نگار جناب تاج رئیسانی  میں بھی اسی قسم کی خوبیاں ہیں .... ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے وہ اپنی عملی زندگی میں تو نباض ہیں ہی ،  دوسری جانب وہ اپنی ادبی زندگی میں اپنے اطراف میں بکھری کہانیوں، داستانوں، سچی حکایتوں، حادثات، سانحات، الم ناک واقعات اور نئی جنم لینے والی کتھاؤں کو اپنے افسانوں کے موضوعات بناتے ہیں اور پھر ان موضوعات سے متعلق تمام محاسن و مصائب کو بیان کرتے ہوئے افسانے کی بُنت کرتے ہیں۔ 
براہوی  ادب کے افسانہ نگار اور مضنف ڈاکٹر تاج رئیسانی کا تعلق بلوچستان سے  ہے۔ تاج رئیسانی 15 اپریل 1957ء   کو سبّی میں  پیدا ہوئے،  پیشے کے لحاظ سے   آپ ڈاکٹر ہیں اور بلوچستان میں میڈیکل سپریڈنٹ  کے فرائص انجام دے رہے ہیں۔ بلوچستان میں حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی صحت ،دورانِ  زچگی اموات  کے حوالے سے  آگہی  کے تحت آپ میٹرنل ، نیو بارن  اینڈ  چائلڈ ہیلتھ پروگرام    MNCHکے صوبائی سربراہ   Provincial Coordinator بھی  رہ چکے ہیں ۔  ۔ تاج رئیسانی  نے 1980 کی دہائی سے افسانے اور کہانیاں  لکھنا شروع کیں آپ کا پہلا براہوی افسانوی مجموعہ  ‘‘انجیر نا پھُل’’ 1982ء میں شایع ہوا ۔   آپ نے ٹیلی ویژن کے  لیے بھی کئی ڈرامے تحریر کئے  جن میں ریت، ناخدا اور شب گرد  مشہور ہیں۔ 

اس بلاگ پر تاج رئیسانی کی تحریریں