احمد ندیم قاسمی کے قلم سے اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

ایک یک لباس آدمی

وہ ہمیشہ ایک ہی لباس میں نظر آیا۔ عجیب عجیب تصویروں والی پتلون کے اوپر چوڑی چوڑی سرخ اور نیلی دھاریوں والی بشرٹ میں ہر روز اس خیال سے اس کا منظر رہتا کہ ممکن ہے آج اس نے لباس بدل رکھا ہو، مگر وہ ہر روز اسی لباس میں وارد ہوتا۔ جی چاہتا اس سے پوچھوں کہ کیا تمہارے پاس کوئی اور پتلون اور بشرٹ نہیں ہے....؟ یا چلو شلوار قمیض سہی، دھوتی کرتا سہی.... مگر اس کے تیور ایسے گھمبیر اور بھرپور تھے اور وہ اتنا بہت سا سنجیدہ نظر آتا تھا کہ میں اس سے اس کی یک لباسی کا سبب نہ پوچھ سکا۔



تھرڈ ورلڈ ریسٹورنٹ کی لمبی چوڑی کھڑکیوں میں لمبے چوڑے شیشے نصب تھے۔ ریسٹورنٹ کے اندر بیٹھے ہوئے بھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ریسٹورنٹ کے باہر بیٹھے ہیں۔ یہاں دوسرے ریسٹورنٹ کے مقابلے میں ایک عجیب فراخی کا احساس ہوتاتھا۔ سڑک کا سارا منظر سامنے تھا۔ دوہری کھلی سڑک پر سے گزرتا ہوا ٹریفک چوڑے فٹ پاتھ پر ٹہلتے ہوئے ہر عمر کے لوگ، کاروں میں سے اترتے ہوئے مرد اور عورتیں اور بچے ہر کار کے آس پاس منڈلاتے ہوئے ہر صنف کے بھکاری، بجلی کی رفتار سے موٹر سائیکل چلانے والے نوجوان جنہوں نے گردنوں پر اتنے بال جمع کر رکھے تھے کہ عقب سے لڑکیاں معلوم ہوتے تھے.... غرض سبھی کچھ نظر آتا.تھا۔
ریسٹورنٹ کی آخری کھڑکی کے پاس بیٹھنا میرا معمول تھا۔ چند شامیں مسلسل بیٹھنے کے بعد مجھے محسوس ہوا تھا کہ بیرونی منظر کے چند کردار ایسے بھی ہیں جو مجھے ہر روز ایک ہی قسم کے معمول پر کار بند دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تو وہ نیلی نیکر والا گلگتی تھا جو بلاناغہ، دونوں ہاتھوں میں پانی سے چھلکتی بالٹیاں لٹکائے، میرے سامنے سے گزر جاتا تھا۔ وہ مجھے بالٹیوں کے بغیر کبھی نظر نہیں آیا۔ جیسے بعض لوگ چاندی کے ان چمچوں کے بغیر نظر نہیں آتے جو وہ منہ میں لے کر پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ایک بوڑھا کنگھیاں بیچنے والا تھا جو کنگھی کم بیچتا تھا اور بھیک زیادہ مانگتا تھا۔ بھیک مانگتے مانگتے اس کی باچھیں مستقل طور پر لٹک پڑی تھیں اور انہوں نے ایک گنجے بزرگ کو جو کار میں سے اتر رہے تھے، ان کی خواتین کے سامنے کنگھی خریدنے کو کہا تو وہ اس پر جھپٹ پڑے۔ میں لپک کر باہر گیا اور بوڑھے کو ان کی زد سے یہ کہہ کر بچایا کنگھی بیچنا اس کی عادت ہے چنانچہ وہ آگے پیچھے نہیں دیکھتا، بس کنگھی پیش کر دیتاہے۔
تیسرے مستقل کردار نے مجھے یوں متوجہ کیا کہ وہ ہمیشہ ایک ہی لباس میں نظر آیا۔ عجیب عجیب تصویروں والی پتلون کے اوپر چوڑی چوڑی سرخ اور نیلی دھاریوں والی بشرٹ میں ہر روز اس خیال سے اس کا منظر رہتا کہ ممکن ہے آج اس نے لباس بدل رکھا ہو، مگر وہ ہر روز اسی لباس میں وارد ہوتا۔ جی چاہتا اس سے پوچھوں کہ کیا تمہارے پاس کوئی اور پتلون اور بشرٹ نہیں ہے....؟ یا چلو شلوار قمیض سہی، دھوتی کرتا سہی.... مگر اس کے تیور ایسے گھمبیر اور بھرپور تھے اور وہ اتنا بہت سا سنجیدہ نظر آتا تھا کہ میں اس سے اس کی یک لباسی کا سبب نہ پوچھ سکا۔
کئی بار ایسا ہوا کہ میں ریسٹورنٹ کی کھڑکی کے پاس  کرسی پر یونہی بیٹھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں ایک یک لباس شخص کا انتظار کر رہا ہوں۔ اس کی راہ تکتے تکتے میں پریشان ہوجاتا اور چائے میرے سامنے پڑے پڑے ٹھنڈی ہوجاتی۔ پھر میں اپنا تجزیہ کرنے لگتا کہ آخر میرا اس کا رشتہ ہی کیا ہے۔ وہ ایک معمولی درجے کا مزدور ہے۔ وہ دکان کے سامنے، فٹ پاتھ کے حاشیے پر رکنے والی ہر موٹر کار سے مشروبات کا آرڈر لیتا ہے اور انہیں بوتلیں تھما کر ان کے خالی ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ پھر جب وہ خالی بوتلیں سمیٹتا ہے اور ان کے دام وصول کرتا ہے تو ایک دو روپے اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے کہ یہ شاید وہ بخشش ہوتی ہے جسے مہذب زبان میں ٹپ کہتے ہیں۔ کئی باریوں  بھی ہوا ہے کہ رقم وصول کرنے کےوقت ہاتھ اپنی جیب کی طرف نہیں بڑھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ٹپ کی رقم نہیں ملی۔ تب وہ چند  لخطوں کے لیے جیسےسکتے میں کھڑا رہ جاتا ہے اور پیچھے ہٹتی اور پھر تیزی سے مڑ کر غائب ہوتی کار کی طرف یوں دیکھتا رہ جاتا ہے جیسے وہ ابھی پلٹ کر آئے گی اور اسے اس کا حق ادا کر جائے گی۔ مگر پھر وہ دکان پر جا کر خالی بوتلیں اور ان کے دام مالک کے حوالے کرنے کے لیے فٹ ہاتھ کی چوڑائی طے کر جاتا ہے۔
کھڑکی میں سے جب بھی کسی کار کو اس طرف کا رخ کرتے دیکھتا تو میرا جی چاہتا کہ وہ پان سگریٹ اور مشروبات کی اسی دکان کے سامنے رکے جہاں یہ سرخ اور نیلی دھاریوں والی بشرٹ میں ملبوس شخص مزدوری کرتا ہے اور جب کوئی کار وہاں رکے بغیر آگے نکل جاتی تو مجھے یوں کوفت محسوس ہوتی جیسے خود میری حق تلفی ہوگئی ہے۔ اس شخص کےساتھ میں نے جو تعلق خاطر پیدا کرلیا تھا، وہ ایک طرح کی رشتہ داری میں بدلا جا رہا تھا۔ بظاہر عجیب سی بات ہے کہ ایک ریسٹورنٹ کی کھڑکی سے جو شخص مجھے عموماً نظر آتا ہے، اس کے ساتھ اتنی قربت پیدا ہوجائے مگر یہ قربت آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ مجھے کئی بار یوں بھی لگا کہ مشروبات کی بوتلیں گاہکوں کو دیتے یا واپس لیتے وقت، وہ ایک نظر مجھ پر بھی ڈال لیتا ہے مگر پھر بھی میں سوچتا ہوں کہ اس رخ پر تو ریسٹورنٹ کی آٹھ کھڑکیاں ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ وہ میری ہی طرف دیکھ رہا ہو۔
ایک روز میں ریسٹورنٹ میں پورے دو گھنٹے بیٹھا اس کے دکھائی دینے کا انتظار کرتا رہا مگر وہ دکھائی نہ دیا۔ جو کاریں فٹ پاتھ کے حاشیے کے پاس رکتی تھیں، ان سے ایک ٹھنگنا سا نوجوان آرڈر لے رہا تھا۔ میں سارا وقت بےچین رہا کہ آخر وہ یک لباس شخص کہاں گیا۔ میں جب ریسٹورنٹ سے نکلا تو سیدھا مشروبات کی اس دکان پر پہنچا اور اس نوجوان سے پوچھا۔ ‘‘یہاں جو شخص روزانہ کام پر آتا تھا اور جس کی جگہ آج تم کام کر رہے ہو، وہ کیوں نہیں آیا....؟’’
نوجوان بولا۔ ‘‘آپ چاچا کریم بخش کا پوچھ رہے ہیں نا....؟’’
میں نے کہا۔ ‘‘مجھے نام معلوم نہیں۔ وہ جو ہمیشہ بڑی بڑی لال اور نیلی دھاریوں والی بشرٹ پہنتا ہے۔ نوجوان بولا۔ ‘‘جی وہی۔ چاچا کریم بخش۔ کبھی کبھی اسے کوئی ضروری کام پڑ جائے یا وہ بیمار ہوجائے تو نہیں آتا۔ آج بھی کوئی ایسی ہی بات ہوگی ورنہ یہی تو چاچے کا روزگار ہے۔’’
جی چاہا کہ چاچا کریم بخش کا اتا پتا پوچھوں، مگر نوجوان رکتی ہوئی ایک کار کی طرف بڑھ گیا اور میں گھر چلا آیا۔
وہ رات میں نے خاصی پریشانی میں گزاری، جیسے میری زندگی کے معمول میں ایک غیر معمولی رخنہ پڑ گیا ہو۔ میں نے طے کرلیا کہ کل مشروبات کی دکان کے مالک سے کریم بخش کے بارے میں تفصیل معلوم کروں گا اور اس کے گھر جا کر اس کے کسی کام آنے کی کوشش کروں گا۔ مگر دوسرے روز ابھی میں ریسٹورنٹ میں داخل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ ایک کار کے پاس کھڑا، خالی بوتلیں سمیٹتا اور بل وصول کرتا نظر آگیا۔ اسے دیکھتے ہی میرے دماغ سے ایک بہت بڑا بوجھ اتر گیا اور ریسٹورنٹ کے اندر، کھڑکی کے شیشے میں سے کریم بخش کو اپنے روزانہ کے کام میں مصروف دیکھتا رہا۔ ایک دو بار اس  نے جیسے میری طرف بھی دیکھا مگر میرے قریب والی کھڑکی کے پاس بھی تو لوگ بیٹھے کافی پی رہے تھے۔ ممکن ہے کریم بخش نے انہیں دیکھا ہو جبکہ ان میں دو ایسی چمک دار سی لڑکیاں بھی شامل تھیں جن  کی طرف پارسا سے پارسا آدمی کی نظریں بھی بےساختہ اٹھ جاتی ہیں۔
دوسرے روز صبح صبح ہی مجھے راولپنڈی سے فون پر اطلاع ملی کہ ابا جی  کو دل کا دورہ پڑا ہے اور وہ اسپتال میں منتقل کردیے گئے ہیں۔ میں نے فوراً راولپنڈی کا رخ کیا اور  ابا جی کی دیکھ بھال اور پھر ان کی صحت کی بحالی کے انتظار میں مجھے وہاں ڈیڑھ پونے دو ماہ رکنا.پڑا۔
واپس آتے ہی شام کو میں نے تھرڈ ورلڈ ریسٹورنٹ کی راہ لی۔ میری خاص کھڑکی کے پاس ایک صاحب اور ایک خاتون چائے پینے کے بعد بل ادا کر رہے تھے۔ میں ریسٹورنٹ کے اندر چلا گیا مجھے دیکھتے ہی کاؤنٹر کے پاس بیٹھا مینجر اٹھا، مجھ سے  مصافحہ کیا اور بولا ‘‘ہم لوگ تو پریشان ہوگئے تھے کہ صاحب کہاں گئے سب کو تشویش تھی مگر یہ باہر پان سگریٹ اور مشروبات کی دکان پر کام کرنے والا چاچا کریم بخش ہے نا، اس نے تو آپ کے بارے میں پوچھ پوچھ کر جان عذاب میں کردی۔ نہ جانے اسے آپ سے کیا کام ہے۔
‘‘باہر ملاقات ہوئی آپ سے....؟’’
میں نے کہا۔ ‘‘وہاں تو وہ مجھے نظر نہیں آیا۔’’
مینجر بولا۔‘‘ابھی آجائے گا۔ اس سے ضرور مل لیجیے گا۔ کسی وجہ سے بہت بےچین ہے۔’’
جب تک میری نشست پر بیٹھے ہوئے صاحب بل ادا کرنے کے بعد اٹھتے، میں سوچتا رہا کہ اسے مجھ سے ایسا کون سا ضروری کام ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے اسے کوئی سفارش درکار ہو۔ شاید اسے اپنا لباس بدلنے کی سوجھی ہو اور اس سلسلے میں اسے کچھ رقم کی ضرورت ہو۔ شاید وہ کسی بہتر روزگار کا متمنی ہو اور اس نے مجھ سے توقعات وابستہ کر رکھی ہوں۔

نشست کے خالی ہوتے ہی میں کرسی پر جا بیٹھا اور باہر نظر ڈالی تو وہی سرخ اور نیلی دھاریوں والی بشرٹ پہنے کریم بخش ایک کار  والوں سے خالی بوتلیں اور ان کے دام لے کر پلٹا۔ پلٹتے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی تو وہ دونوں ہاتھوں میں تھامی ہوئی بوتلوں سمیت کھڑکی کی طرف یوں جھپٹا جیسے شیشہ توڑ کر اندر چلا آئے گا۔ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں سے نکل کر، دریا میں آنے والے سیلاب کی طرح، اس کے سارے چہرے پر پھیل گئی تھی۔ پھر اچانک اس نے ارادہ بدلا، پلٹا اور زیادہ سے زیادہ پندرہ بیس سیکنڈ کے اندر اسی ہمہ جہت مسکراہٹ کے ساتھ ریسٹورنٹ کے اندر آکر میری طرف تپاک سے بڑھا۔ میں اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے میرے قریب آکر مصافحے کا وقفہ بھی برداشت نہیں کیا اور بولا.... ‘‘آپ کہاں چلے گئے تھے صاحب جی....؟’’ آپ کہیں بیمار تو نہیں ہوگئے تھے....؟ کوئی ضروری سفر کرنا پڑ گیا تھا....؟ کیا ہوا تھا صاحب جی....؟ آپ کو کیا ہوا تھا....؟ سارے چہرے پر آئے ہوئے مسکراہٹ کے سیلاب کے باوجود اس کی آواز بھرا گئی اور آنکھیں ڈبڈبا  آئیں....‘‘میں نے تو ان دنوں جب بھی یہاں آپ کی کرسی پر کسی اور کو بیٹھے دیکھا تو جی چاہا.... میرا جی چاہا صاحب جی، کہ اس سے کہوں کہ آپ ہوتے کون ہیں یہاں بیٹھنے والے....؟ یہاں تو صرف ہمارے صاحب جی بیٹھتے ہیں۔ صاحب جی آپ ٹھیک ٹھاک ہیں نا....؟ ٹھیک ٹھاک ہیں نا آپ....؟’’ میں سوچ رہا تھا کہ اس اپنائیت اور محبت کی تمہید کے بعد کریم بخش مجھے وہ کام بتائے گا جس کے لیے اسے میرا اتنی شدت سے انتظار تھا، مگر وہ بولا.... ‘‘یہاں  آدمی تو دن میں سینکڑوں ملتے ہیں صاحب جی، پر پیار سے دیکھنے والی آنکھیں مجھے اس کھڑکی میں سے ہی دکھائی دیتی تھیں.... اور آج کل کون کسی سے پیار کرتا ہے صاحب جی!’’
    


ادیب شاعر اور افسانہ نگار

احمد ندیم قاسمی ۔ 1916ء تا 2006ء


احمد ندیم قاسمی کا شمار پاکستان کے معروف اور ترقی پسند  ادیب ، شاعر، افسانہ نگار، صحافی،  مدیر اور کالم نگار میں ہوتا ہے۔ آپ مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں  انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔
اصل نام احمد شاہ  تھا اور ندیم تخلص تھا۔ عالم جوانی میں شاعری سے شغف تھا، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ  ریفارمز کمشنر اور محکمہ آبادکاری میں ملازم ہوئے، 1942 ءمیں مستعفی ہوکر لاہور چلے آئے  جہاں خواتین اور بچوں کے رسالے تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی، پھر ادبی رسالہ ادبِ لطیف کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ تقسیم ہند کے بعد  ریڈیو پشاور سے وابستہ ہوئے اور اپنا ادبی رسالہ ‘‘فنون’’کا اجراء کیا۔ قاسمی صاحب نے لگ بھگ نوے برس کی عمر پائی، انہوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں،  یوں  تو انہوں نے  ادب کی ہر صنف  میں طبع آزمائی کی لیکن انہیں افسانے اور غزل کے حوالے سے بہت شہرت ملی۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں