احمد ندیم قاسمی کے قلم سے اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

غیرت مند بیٹا

زمیندار تو جہاں کھڑا تھا وہیں جم کر رہ گیا۔ جو شخص بغیر حیل و حجت کے دو روپے ماہوار پر نوکری کرنے پر رضا مند ہوجائے، وہ مالک سے ناراض ہو کر چل دے تو کیا اسے مرنے کا خوف نہیں ہوتا....؟ 

وہ حیران ہورہا تھا کہ کیا غریبوں کو بھی غیرت کا احساس ہوتا ہے....؟ کیا یہ بھی سوچ سکتے ہیں....؟ کیا مفلسی غیرت اور سیرت کا خون نہیں کردیتی....؟

اس کے بعد تین چار بار مجھے اپنا پیٹ غیرت کے بدلے خالی رکھنا پڑا.... ماں، کتنی بہادر تھی میری ماں....! کتنی عجیب عورت تھی وہ.... عام عورتوں سے کس قدر مختلف! 



جب میری زبان نے ابا کہنا سیکھا تو ابا چل بسے۔ میری ماں کہتی تھی۔ ‘‘جب تمہارے ابا نے آخری بار اپنی دھندلی دھندلی نحیف آنکھیں کھول کر در و دیوار پر نظریں ڈالی تھیں تو میرا کلیجہ پھٹ گیا تھا۔ وہ بھوک سے مرا تھا بیٹا۔ تیرا باپ بھوک سے مرا تھا۔ تو اس دن ابا کے پاؤں سے چمٹ کر رویا تھا۔
ہوش سنبھالنے کے بعد گھر میں ماں کے سوا میں نے کسی کی صورت نہ دیکھی تھی۔ میرا سب کچھ میری ماں تھی۔ مجھے خوب یاد ہے وہ میری انگلی پکڑ کر نمبردار کے گھر لے جاتی، وہاں دن بھر چکی پیستی جاتی، روتی جاتی اور درد ناک سروں میں چند الفاظ گنگناتی جاتی۔ میں نے ایک دن پوچھا۔ 
‘‘ماں تم گاتی بھی ہو، روتی بھی ہو....؟’’ 
وہ مٹھی بھر دانے چکی کے دہانے میں ڈالتے ہوئے بولی ‘‘بیٹا صرف روتی رہوں تو گا نہ سکوں گی اور گا نہ سکی تو تم رونے لگو گے، اگر صرف گاتی رہوں تو رونہ سکوں اور رو نہ سکی تو تمہارے ابا کی روح روٹھ جائے گی۔’’
ابا!.... میں نے سوچا، کیا میرا بھی کوئی باپ تھا....؟ 
پڑوس میں رحیم میاں رہتے ہیں، ان کو باپ کا کتنا انتظار رہتا ہے اور پھر جب ان کا باپ قصبے سے آتا ہے تو قسم قسم کی مٹھائیوں اور رنگ رنگ کے کھلونوں سے لدا پندا!.... میں سمجھتا تھا کہ میری صرف ماں ہی ہے۔ کیا میرا بھی کوئی باپتھا....؟ 
میں نے پوچھا ‘‘میرا باپ کدھر چلا گیا ہےماں....؟’’
‘‘تیرا باپ دور دراز ملکوں میں چلا گیا ہے بیٹا، جہاں نہ وہ ہل چلاتا ہے، نہ زمین کھودتا ہے، نہ اینٹیں ڈھوتا ہے، نہ تپتی دوپہر کو اس کے پاؤں گرم گرم زمین پر پڑتے ہیں۔ وہ ہم سے روٹھ گیا ہے۔ کبھی ہم بھی اس کے پاس چلے چلیں گے۔’’
اس دن سے میرا جی کھیلوں سے بالکل اُچاٹ ہوگیا۔ گلی میں میرے ہم عمر میرا انتظار کرتے کرتے تھک کر چلے جاتے اور میں ماں کے پہلو میں بیٹھا ابا کے متعلق باتیں سنا کرتا۔ ماں کہا کرتی تھی۔ 
‘‘تمہارا باپ بڑا غیرت والا مرد تھا۔ اس نے کسی کے پاؤں نہیں چومے، اس نے کسی کی خوشامد نہیں کی۔ اس نے سر پر ٹوکریاں اٹھائی ہیں، پیٹھ پر دو دو من کی بوریاں لاد کر اونچی اونچی سیڑھیوں پر چڑھا ہے، پتھریلی اور سخت زمینوں میں ہل چلائے ہیں لیکن اس نے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائے، کسی سے کچھ مانگا نہیں۔ اس نے دکھ بھوگے لیکن وہ رویا نہیں۔ وہ خالی پیٹ بھی ہوتا تو ہنستے ہنستے سوتا اور ہنستے ہنستے جاگتا۔ 
اس نے تنگ آکر کبھی موت کو دعوت نہ دی۔ وہ تو رونا جانتا ہی نہ تھا۔ وہ کہتا تھا، جو اپنی مصیبتوں سے تنگ آکر روئے وہ جینے کے قابل ہی نہیں۔ 
لیکن بیٹاً جب اس کی سانس حلق میں اٹک رہی تھی اور تم اس کے خشک بکھرے ہوئے بالوں میں اپنی ننھی ننھی انگلیاں ڈالے خاموش کھڑے تھے تو اس وقت ایک قطرہ اس کی آنکھوں سے نکل کر اس کے رخسار پر ڈھلک آیا اور پھر ایک طرف بہہ کر بوسیدہ تکیے میں جذب ہوگیا۔ یہ اس کا پہلااور آخری آنسو تھا اور اس آخری آنسو کے ساتھ اس کی آخری سانس بھی رک گئی۔
اتنا بہادر باپ! میں اب کچھ سمجھدار ہونے لگا تھا۔ غریبوں کے بچے چھوٹی عمر میں ہی بڑی بڑی باتیں سمجھنے لگتے ہیں۔ میں نے سوچا، اگر وہ زندہ ہوتا تو کل رحیم میاں مجھے آنکھیں نہ دکھاتے۔ میری جیب بھی کھانڈ کے لڈوؤں سے بھری ہوتی۔ مجھے بھی چوپال پر زمیندار اپنے پاس بٹھاتے۔
میری ماں کے بالوں پر آٹے کی تہہ ہمیشہ جمی رہی اور ہمارا چولہا اکثر ٹھنڈا ہی رہا۔ اگر کام کے مطابق دام ملا کرتے تو مزدوری کو کون برا کہتا....؟ رات کو بھوکا سونا، دن کو خالی پیٹ بیٹھےرہنا مجھے کچھ انوکھا معلوم نہیں ہوتا تھا۔ میں سمجھتا تھا، ہر کوئی اسی طرح رہتا ہے، سب کی مائیں یوں ہی رات دن کھوئی کھوئی  سی رہتی ہیں۔
میں بڑا ہوتا گیا تو میرے دل کی دھڑکنیں بھی ذرا تیز اور بےربط ہوتی گئیں۔ میری انتڑیاں ذرا زیادہ بل کھانے لگیں۔ مجھے زیادہ بھوک محسوس ہونے لگی۔ ماں کے کھردرے ہاتھوں کی بےشمار گانٹھوں میں فاقوں کے لاتعداد افسانے دکھائی دینے لگے۔ مجھے اپنے گھر کی دیواریں ذرا جھکی جھکی اور بوسیدہ بوسیدہ نظر آنے لگیں۔ میں اپنے آپ کو ایک تباہ حال انسان خیال کرنے لگا۔
مجھے ایک روز ایک زمیندار نے کہا۔ 
‘‘ارے تو اتنا بڑا جوان ہوگیا ہے اور گلیوں میں مارا مارا پھرتا ہے۔ کوئی کام کیوں نہیں کرتا....؟ میرے ہاں ایک ہل چلانے والے کی جگہ خالی ہے، محنت سے کام کرے تو ماہوار دو روپے دے دیا کروں گا۔ منظورہے....؟’’
میں نے اپنے آپ کو کہتے ہوئے سنا۔ ‘‘منظورہے۔’’
وہ مجھے ایک روپیہ بھی کہتا تو مجھے منظور تھا۔
ماں کو میں نے یہ بتایا تو وہ خوش ہوگئی اور مجھے مرحوم ابا کی باتیں سنانے لگی کہ کس طرح اس نے بھی ایک زمیندار کی ملازمت کی تھی لیکن زمیندار اس سے کچھ اچھی طرح پیش نہ آیا اور وہ ہل پھینک کر گھر آ بیٹھا۔
اور حیرت کی بات ہے کہ تین ہفتے بعد زمیندار سے میری بھی جھڑپ ہوگئی۔ وہ کہنے لگا 
‘‘جا بے جا، گھر میں کھانے کو جَو کا آٹا نہیں اور دماغ دیکھو تو جیسے گاؤں بھر کا راجہ یہی ہے۔’’ 
میں نے کاندھے پر سے ہل اتار کر اس کی چوکھٹ پر دے مارا اور کہا ‘‘گھر میں کھانے کو نہیں تو کیا دل میں غیرت بھی نہیں....؟ تیری دو کوڑیوں کے بھروسے پر نہیں جی رہے۔ ہاتھ پیر ہیں تو بھوکوں نہیں مریں گے، تو آنکھیں نہدکھا۔’’
زمیندار تو جہاں کھڑا تھا وہیں جم کر رہ گیا۔ جو شخص بغیر حیل و حجت کے دو روپے ماہوار پر نوکری کرنے پر رضا مند ہوجائے، وہ مالک سے ناراض ہو کر چل دے تو کیا اسے مرنے کا خوف نہیں ہوتا....؟ 
وہ حیران ہورہا تھا کہ کیا غریبوں کو بھی غیرت کا احساس ہوتا ہے....؟ کیا یہ بھی سوچ سکتے ہیں....؟ کیا مفلسی غیرت اور سیرت کا خون نہیں کردیتی....؟
اس کے بعد تین چار بار مجھے اپنا پیٹ غیرت کے بدلے خالی رکھنا پڑا.... ماں، کتنی بہادر تھی میری ماں....! کتنی عجیب عورت تھی وہ.... عام عورتوں سے کس قدر مختلف! میری ماں خوش ہوجاتی تھی اور کہتی تھی۔ 
‘‘شاباش بیٹا! فاقے کرلیں گے لیکن کمینے نہ بنیں گے۔ اپنا گلا کٹتے دیکھ لیں گے لیکن روئیں گے نہیں۔ آنسوؤں کو اگر بہت سستا کردیا جائے تو ان کی قدر کون جانے۔ یہ موتی دل ہی میں محفوظ رکھنے کے قابل ہیں، مٹی میں ملانے کے لائق نہیں!’’
افلاس اور وقت دونوں نے میری ماں کی صحت پر برا اثر ڈالا۔ ماں کے ماتھے پر لکیریں پڑ گئیں۔ آنکھوں کے کناروں پر جھریوں کے جال بجھ گئے۔ ہتھیلیوں پر چکی کا ہتّا تھامتے تھامتے گانٹھیں ابھر آئیں۔ آنسو روکتے روکتے آنکھوں کے ڈورے ابھر آئے۔ وہ اتنی بڑی عمر کی تو نہ تھی مگر افلاس بری بلا ہے۔ مفلس کی جوانی گزرنے کی رفتار کچھ زیادہ ہی تیز ہوتی ہے!
میں نے اس کے لیے ٹوکریاں اٹھائیں۔ پتھروں اور اینٹوں کے چھکڑے کھینچے۔ پیٹھ پر بوریاں لادیں لیکن جہاں کسی کا پاؤں مجھے ٹھکرانے کے لیے آگے بڑھا جہاں کسی کی زبان میرے غرور نفس کو ٹھیس پہنچانے کے لیے حرکت میں آئی، میں نے ٹوکریاں الٹ دیں، چھکڑے پیچھے دھکیل دیے اور بوریاں پھینک دیں۔ 
ماں سے زیادہ مجھے اپنے مرحوم ابا کی پاکیزہ سیرت کا پاس تھا۔ میں اپنے باپ کا معزز جانشین بننے کا متمنّی تھا۔
آخر ایک روز میری ماں بیمار پڑ گئی۔ غریب بیمار پڑیں تو موت کو اور کام پڑ جاتےہیں۔ غریبوں پر مصیبتیں ٹوٹیں تو قدرت کی بخششوں کو نیند آجاتی ہے۔ وہ بیمار پڑی اور تین مہینے کھاٹ پر کروٹیں بدلتی رہی۔ میں نے پٹیاں بھگو بھگو کر اس کے ماتھے پر رکھیں۔ میں نے اس کے پاؤں رگڑ رگڑ کر اپنے ہاتھوں میں چھالے پیدا کرلیے۔ میں دن بھر مزدوری کرکے رات کو گھر واپس آتا تو اس کی خشک زبان پر اپنے پسینے سے کمائی ہوئی دوا کے چند قطرے ٹپکاتے ہوئے مجھے جو مسرت حاصل ہوتی، اس کا تذکرہ کروں تو آپ حیران رہ جائیں۔
پھر ہمیشہ کی طرح مزدوری میرے ہاتھ سے جانے لگی۔ ٹھیکے دار بولا :
‘‘بوریاں اُٹھاتے اُٹھاتے پیٹھ کا چمڑا گھس چلا ہے اور گاؤں کے بڑے حکیم جی سے دوا خریدنے بھاگا جارہا ہے۔ ارے تو کسی راہ چلتے سنیاسی کا دامن پکڑ۔ کوئی گولی دو لی لے کر مریضہ سے جان چھڑا ورنہ عمر بھر اس سے چھٹکارا نہ ہوگا۔ جو بوڑھیاں نہ مرتی ہیں نہ جیتی ہیں وہ مائیں بھی ہوں تو انہیں جہنم میں جھونک دینا چاہیے۔’’
میری رگوں میں جیسے کسی نے پارہ بھر دیا۔ میرے دل و دماغ کا گودا نشتروں کے ذریعے باہر گھسیٹا جانے لگا لیکن ماں کراہتی ہوئی میرے پردہ تصور پر نمودار ہوئی اور میں نے خاموشی سے بوری اٹھا کر پیٹھ پر دھرلی اور آگے بڑھ گیا۔
ٹھیکے دار کے روز روز کے طعنے سن سن کر میرا کلیجہ پک گیا۔ میں نے ماں کو یہ حال سنایا  تو وہ نحیف جان تڑپ ہی تو اٹھی! کہنے لگی:
 ‘‘اب سارا دن یہیں میرے پاس بیٹھا رہا کر، نہیں تو میں خفا ہوجاؤں گی۔ منحوس ٹھیکے دار کی جوتیاں چاٹتا پھرتا ہے۔ قیامت میں اپنے ابا کو کیا منہ دکھائے گا....؟’’
تین دن میں باہر نہ نکلا۔ چوتھے دن ماں کی حالت خراب ہوگئی۔ گھر میں دوا خریدنے کو پھوٹی کوڑی تک نہ تھی مگر وہ بےہوش ہو رہی تھی۔ اس کے زرد ماتھے پر پسینے کے قطرے نکل نکل کر اس کے خاکستری  بالوں میں الجھ رہے تھے۔ میں اسے یوں بےکسی سے مرتا نہ دیکھ سکتا تھا۔ کسی حکیم کے آگے دست سوال دراز کرنا پڑے گا۔ ابا خفا ہوں گے، ماں روٹھ جائے گی۔ لیکن!.... لیکن!.... نہیں مجھے جاناچاہیے۔
میں دروازے سے نکل کر گلیوں میں سرپٹ بھاگنے لگا۔ میر ادماغ گونج رہا تھا۔ میرا سارا وجود ٹھنڈے پسینے میں شرابور تھا۔ اچانک مجھے لاتعداد بوتلوں کی قطاریں نظر آئیں۔ پھر ایک مہربان صورت بزرگ ! میں نے اپنے آپ کو اس کے قدموں میں گرتے ہوئے محسوس کیا۔ میری زبان بےتحاشا تڑپنے لگی۔
حکیم جی....! اللہ تجھے مالا مال کردے۔ اللہ تجھے ڈھیروں روپے دے۔ میری ماں مر رہی ہے۔ اس کےلیے دوا کے چند قطرے.... میں غریب ہوں۔ میرے پاس ایک کوڑی تک نہیں۔ میں تیرے پاؤں پڑتا ہوں۔ مجھے راہ خدا دو قطرے دے دے کہ میری ماں بچ جائے۔ میں ساری عمر تیرا نوکر رہوں گا۔ ساری عمر تیرے پاؤں دھوؤں گا۔ میری ماں کو بچالے، وہ مرنے کو ہے حکیم جی حکیم جی!’’
بوڑھا بزرگ تیزی سے اٹھا۔ ایک بول بغل میں دہائی اور میرے ساتھ بھاگنے لگا، مجھ سے آگے نکل گیا۔ ایک جگہ میں پکار اٹھا۔ 
‘‘یہی پرانے چھپروں والا مکان ہے حکیم جی۔’’
وہ تیر کی طرح مکان کے اندر گھس گیا۔میں بھی چند لمحوں میں ماں کے پاس تھا۔ 
دیواریں ناچ رہی تھیں، چھت اوپر ابھری جارہی تھیں، فرش پانی بن کر بہہ رہا تھا۔ میں نے سمجھا میں نے حکیم جی کی جوتیوں کو بوسہ دیا ہے! میری پیشانی جھک گئی۔ میں ہوا میں تیر رہا ہوں۔ میں آسمانوں کی طرف پرواز کر رہا ہوں!....
جب میں نے آنکھ کھولی تو حکیم جی میرے سرہانے آبدیدہ بیٹھے تھے۔
میں نے چیخ کر پوچھا۔ ‘‘میری ماں....؟’’
باہر کسی درخت پر ایک چیل زور سے چلائی۔ حکیم جی کی ڈاڑھی آنسوؤں سے بھیگ گئی۔
میرے کانوں میں ماں کے یہ الفاظ گونجنے لگے۔ ‘‘وہ بھوک سے مرا تھا بیٹا!
تیرا باپ بھوک سے مرا تھا!’’
میں نے تیزی سے اپنے آنسو پونچھے۔ مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اٹھا اور مرحوم ماں کی سرد پیشانی کو چوم کر دیوار سے پیٹھ لگا کر بیٹھ گیا۔
میں اس دن بالکل نہ رویا!



ادیب شاعر اور افسانہ نگار

احمد ندیم قاسمی ۔ 1916ء تا 2006ء


احمد ندیم قاسمی کا شمار پاکستان کے معروف اور ترقی پسند  ادیب ، شاعر، افسانہ نگار، صحافی،  مدیر اور کالم نگار میں ہوتا ہے۔ آپ مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں  انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔
اصل نام احمد شاہ  تھا اور ندیم تخلص تھا۔ عالم جوانی میں شاعری سے شغف تھا، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ  ریفارمز کمشنر اور محکمہ آبادکاری میں ملازم ہوئے، 1942 ءمیں مستعفی ہوکر لاہور چلے آئے  جہاں خواتین اور بچوں کے رسالے تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی، پھر ادبی رسالہ ادبِ لطیف کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ تقسیم ہند کے بعد  ریڈیو پشاور سے وابستہ ہوئے اور اپنا ادبی رسالہ ‘‘فنون’’کا اجراء کیا۔ قاسمی صاحب نے لگ بھگ نوے برس کی عمر پائی، انہوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں،  یوں  تو انہوں نے  ادب کی ہر صنف  میں طبع آزمائی کی لیکن انہیں افسانے اور غزل کے حوالے سے بہت شہرت ملی۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں