مصری  ادب کا ایک شاہکار افسانہ

رحمت کی ہوا

حاجی عبدالکریم محمد نے حج پر جاتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنی آمد کی اطلاع ٹیلی گرام کے ذریعے پیشگی بھیج دوں گا۔ حجّن عاصمہ بہت جذباتی ہورہی تھی۔ 

مصر ی  افسانہ نگار  یحیی الطاہر عبداللہ  کی زیر نظر کہانی  ‘‘حج مبرور و ذنب مغفور’’  کے نام سے فروری 1970ء میں مصر کے ادبی رسالے المجلہ  میں شائع  ہوئی تھی جسے بعد میں  1974ء کے افسانوی مجموعے الدف والصندوق میں شامل کردیا گیا۔ 




چھوٹے قد کا آدمی، فلپ سائیکل پر سوار، دوپہر کے وقت گاؤں میں داخل ہوا۔ وہ بہت دور کے ڈاک.خانے سے آیا تھا۔ اس کی داہنی آنکھ کے اوپر زخم کا نشان تھا۔ اس نے زردی مائل خاکی رنگ کی جیکٹ اور پتلون پہن رکھی تھی۔ یہ اس کی وردی تھی جو بہت میلی ہوچکی تھی۔ اس کے تھکے ماندے چہرے پر جمی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں مسرت بھری چمک دکھائی دے رہی تھی۔ اس گاؤں تک پہنچنے میں اسے کئی مراحل اور نشیب و فراز طے کرنے پڑے تھے۔
عیسائیوں کا قبرستان جس کی سنسانی اور خاموشی سے خوف آتا تھا۔ نہر کا کمزور پل جو قدم رکھتے ہی چھولے کی طرح ہلتا ہوا محسوس ہوتا۔ ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے کچھ گاؤں جن کی شناخت مشکل ہوجاتی تھی اور پھر ان دیہات کی گندی کیچڑ بھری گلیاں.... یہ سارے مراحل طے کرکے اس گاؤں تک پہنچنا یقیناً خوشی کا باعث تھا۔ وہ حاجی عبدالکریم محمد کے گھر کے سامنے سائیکل سے اترا۔ ایک ہاتھ میں بائیسکل کا آہنی ہینڈل تھامے، اس نے دوسرے ہاتھ سے دروازے کی زنگ خوردہ کنڈی تین مرتبہ کھٹکھٹائی اور پھر بائیسکل کی گھنٹی بجا کر اپنی آمد کا مخصوص اعلان.کیا۔
حاجی عبدالکریم محمد کی بیگم حجّن عاصمہ نے دروازہ کھولا۔ اس کے سر کے سفید بال اس کے سفید نقاب نے چھپا رکھے تھے۔ بس اس کی آنکھیں ہی دکھائی دیتی.تھیں۔
آپ کا ٹیلی گرام آیا ہے۔ مبارک ہو! 
ہاتھ آگے بڑھا کر حجّن عاصمہ نے ٹیلی گرام کا لفافہ ایسی احتیاط سے پکڑا کہ اس کی انگلی تک غیر محرم کے ہاتھ کو نہ چھو سکے۔ اسی لمحے پڑوسن امینہ خوشی سے چیختی ہوئی دروازے کے پاس آگئی۔ امینہ کے شوہر محمود کو حاجی عبدالکریم محمد اپنی غیر حاضری میں اپنی زمینوں کا منتظم اور نگران بنا کر گیا تھا۔ حجّن عاصمہ نے اپنے جبّے کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور نصف مصری پونڈ نکال کر امینہ کو دیا۔ امینہ سمجھ گئی کہ یہ سکہ کیوں دیا گیا ہے۔ ڈاکیہ نگاہیں جھکائے کھڑا تھا۔ امینہ نے اسے وہ سکہ دے دیا تو اس کا تھکا ماندہ چہرہ کھل اٹھا۔ ڈاکیے نے مسرت کا بےساختہ اظہار بائیسکل کی گھنٹی بجا کر کیا اور اس پر سوار ہو کر چل دیا۔ تب تک کئی لڑکے بھی گلی میں جمع ہوچکے تھے۔ ایک لڑکے نے کہا 
‘‘یہ بڑے شہر میں رہتا ہے جو یہاں سے بہت دور ہے۔ وہاں کئی کئی منزلہ اونچی عمارتیں ہیں۔’’ 
اس گاؤں کا یہ واحد لڑکا  تھا جو ایک مرتبہ دارالحکومت گیا تھا۔ تمام بچے اشتیاق سے کہنے لگے کہ ہمیں دارالحکومت کی باتیں سناؤ۔ ان کے لہجے سے یہ قطعی ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ سب کئی مرتبہ بڑی تفصیل سے شہر کی حکائتیں اور داستان سن چکے ہیں۔
ڈاکیہ انعام پا کر اپنے فرض کی تکمیل کے بعد ہلکا پھلکا ہو کر سائیکل چلاتا گاؤں کی حدود سے نکل گیا۔ دیر تک لڑکے بالے اسے دیکھتے رہے اور جب وہ دکھائی دینا بند ہوگیا تو لڑکے ایک ٹکڑی کی صورت میں بیٹھ کر شہر کی باتیں کرنے لگے۔
ٹیلی گرام کا بند لفافہ  حجّن عاصمہ کے ہاتھ میں تھا۔ اسے یاد آیا کہ ہر مرتبہ کی طرح اس مرتبہ بھی حاجی عبدالکریم محمد نے حج پر جاتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنی آمد کی اطلاع ٹیلی گرام کے ذریعے پیشگی بھیج دوں گا۔ حجّن عاصمہ بہت جذباتی ہورہی تھی۔ اس کا شوہر حاجی عبدالکریم محمد کئی مرتہ حج کی سعادت حاصل کرچکا تھا۔ اسے خدا نے یہ توفیق و عزت بخشی تھی کہ کئی مرتبہ وہ روضۂ رسول اللہ ﷺ کی زیارت سے اپنی آنکھیں منور کرچکا تھا۔ حجّن عاصمہ کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ وہ دو مرتبہ حج کا فریضہ انجام دے چکی تھی۔ اس کی آنکھوں کے سامنے مدینہ منورہ کی گلیاں پھیلتی چلی گئیں اور پھر نگاہیں خلا میں ایک جگہ ٹک کر رہ گئیں۔ سامنے روضہ.رسولﷺ کی جالی تھی۔ ہزاروں چاند بھی اپنی چاندنی لٹا رہے ہوں تو اتنی روشنی نہیں مل سکتی جتنی روشنی روضہ رسول ﷺ پر تھی۔ 
حجّن عاصمہ نے اپنے دل میں کہا کہ میرے خاوند کو خدا نے بڑی سعادت اور عزت بخشی ہے۔ کیا میں پھر کبھی روضہ رسولﷺ پر حاضری دے سکوں گی....؟ آنسو اس کی آنکھوں سے بہنے لگے۔
حجّن عاصمہ یکدم چونکی۔ ملازمہ کو بلا کر دبے لہجے میں کچھ کہا۔ ملازمہ حکم کی تعمیل کے لیے چلی گئی۔
پندرہ بیس منٹوں کے بعد حنفی آچکا تھا۔ اس نے ایک بالٹی اور ایک تھیلا اٹھا رکھا تھا۔ اسے ہدایات مل چکی تھیں۔ وہ اپنا کام جانتا تھا۔ اس نے تھیلے سے رنگ نکالنے شروع کیے۔ ٹین کے ایک ڈبے میں یہ رنگ گھولے گئے۔ پھر ان میں اس نے کوئی ایسی سفید چیز ڈالی کہ رنگ ابلنے لگے۔ شوں شوں کی آوازوں سے صحن بھر گیا اور پھر خاموشی چھاگئی۔ ان رنگوں کے محلول کا کچھ حصہ حنفی نے بالٹی میں انڈیلا۔ تھیلے سے ایک بڑا برش نکالا اور در و دیوار پر رنگ کرنے لگا۔
سہ پہر سے پہلے وہ سب دیواروں پر ہلکا نیلا رنگ کر چکا تھا۔ اب وہ گھر کی بیرونی دیوار کے اوپر خطاطی کا کام کر رہا تھا۔ یہ کام مشکل تھا اور اس میں وہ اپنے کمال فن کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ خوبصورت کوفی رسم الخط میں خطاطی کا ایک شاہکار جنم لے رہا تھا۔ شام کے سایے گہرے ہونے لگے تو حنفی نے اپنا کام مکمل کرلیا اور اپنے آپ کو داد دی۔ بیرونی دروازے کے پاس دیوار پر خوبصورت خطاطی میں ایک تحریر لکھی جا چکی تھی۔
گھر کے اندر حجّن عاصمہ ادھر ادھر ٹہل رہی تھی۔ اپنے شوہر کے استقبال کی تیاریاں مکمل کرکے اب وہ منتظر تھی کہ حنفی اپنا کام ختم کرکے چلا جائے تو وہ باہر نکل کر اس تحریر  کا معائنہ کرے جو اس کی ہدایت پر لکھی جارہی تھی۔
ملازمہ نے آکر اطلاع دی کہ حنفی کام مکمل کرچکا.ہے۔
حجّن عاصمہ آہستہ آہستہ چلتی  ہوئی  گھر سے باہر آئی سامنے نیلے رنگ کی دیوار پر گہرے سبز حروف میں لکھا تھا:
‘‘اس گھر میں داخل ہونے والے تجھ پر اللہ اور اس کے رسول ِپاکﷺ  کی رحمتیں نازل ہوں!’’
رسولِ پاکﷺ کے الفاظ پر حجّن عاصمہ کی نگاہیں گڑ کر رہ گئیں۔ روشنیاں، پاک روشنیاں، آنکھوں کی بصارت بڑھانے والی روشنیاں، روضۂ.رسولﷺ کی روشنیاں پھر اس کی نگاہوں کے سامنے.آگئیں....
وہ مطمئن ہو کر گھر کے اندر داخل ہوئی۔ اس کے پیچھے پیچھے امینہ اور اس کا شوہر محمود بھی تھے۔
‘‘حجّن پھوپھی! کب آرہے ہیں ہمارے حاجی پھوپھا....؟ محمود نے پوچھا۔ حجّن عاصمہ نے طاق پر پڑے ہوئے ٹیلی گرام کی طرف اشارہ کیا۔ 
محمود نے اسے اٹھایا۔ لفافہ ابھی تک بند تھا۔ اسے چاک کرکے اس نے ٹیلی گرام کا کاغذ نکالا۔ پہلے اس کی آنکھیں سکڑیں پھر پھیلتی چلی گئیں۔ اس نے آہستہ سے کہا 
‘‘حجّن پھوپھی! ہمارے حاجی پھوپھا نہیں آرہے۔’’
‘‘کیا کہا....؟’’ حجّن عاصمہ نے لرزتی آواز میں.پوچھا۔
‘‘ٹیلی گرام میں اطلاع دی گئی ہے کہ حاجی عبدالکریم محمد کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوگیا ہے۔ انہیں وہیں دفنا دیا گیا ہے....’’
پورے گھر پر سنّاٹا چھا گیا۔ کوئی صدا سنائی نہ دے رہی تھی۔ سسکیاں نہ آہ و زاری، بَین نہ ماتم۔ سناٹا.... خاموشی.... لیکن یہ سناٹا ہولناک نہیں تھا۔ بہت سبک، بہت اطمینان بخش سناٹا۔
حجّن پھوپھی نے جائے نماز بچھائی۔ عشاء کی نماز کا وقت ہورہا تھا۔ محمود اور امینہ سر جھکائے کھڑے تھے۔ ملازمہ ان کے پیچھے دیوار کے پاس کھڑی تھی۔
‘‘وہ خوش نصیب ہیں کہ انہیں مدینے کی مٹی ملی۔ وہ نہیں آئیں گے تو کیا ہوا، مدینہ منورہ سے رحمت کی ہوا تو آتی رہے گی....’’


عربی  زبان کے شاعر  اور   ادیب  

یحییٰ الطاہر عبداللہ ۔1938ء تا 1981


مصری  مصنف اور افسانہ نگار یحییٰ الطاہر عبداللہ   Yahya Taher Abdullah 30 اپریل 1938ء   کو  مصر میں شہر الاقصر  میں پیدا ہوئے۔  کم  سنی میں والدہ کی وفات کے بعد اپنی خالہ کی صحبت میں رہنے لگے ۔  یحییٰ  اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ ان کے والد عربی کے ٹیچر تھے ۔ والد کی قربت میں یحییٰ  نے  عربی   زبان  و ادب  میں دلچسپی لی۔ یحییٰ نے کرناک سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ،   پھر ایگریکلچر  کے شعبہ   میں ڈگری  حاصل کرنے کے بعد ایک سرکاری زراعتی ادارے سے منسلک ہوئے۔   
 1961ء میں یحییٰ طاہر عبداللہ کا مختصر کہانیوں کا پہلا مجموعہ  محبوب الشمس (سورج کا محبوب ) شایع ہوا،  اس کے بعد اسی سال ایک اور افسانوی مجموعہ  جبل الشاى الأخضر (سبز چائے کا پہاڑ) شایع ہوا۔    1964ء میں یحییٰ  کا  ایک افسانوی مجموعہ  ثلاث شجيرات تثمر برتقالا(تین درخت اور سنترے کا پھل) شایع ہوا۔  
قاہرہ میں ادبی  رسالے  المجلہ کے  مدیرادوار الخراط نے  یحییٰ کے افسانوں کو اپنے سالے میں جگہ دی  جس سے انہیں پورے ملک میں شہرت ملی ۔  یحییٰ کے افسانے    دیگر  کئی عربی رسالوں میں بھی شایع ہونے لگے۔   
ان کے دیگر افسانوی مجموعوں اور بچوں کی کہانیوں میں  الدف والصندوق (دف اور صندوق )،    الطوق والأسورةۃ (طوق  اور چوڑی )،    أنا وھى وزھور العالم (میں  وہ اور دنیا کے پھول)،   الحقائق القديمہ صالحہ لإثارة  الدهشۃ(پرانی  حقیقتیں  ، سچی ،  پُر اثر ، حیرت انگیز)،    حكايات للأمير حتى ينام(شہزادوں کی بیڈ ٹائم اسٹوری )، تصاوير من التراب والماء والشمس (مٹی پانی اور سورج کی تصویریں ) ، حكايۃ على لسان كلب (کہانیاں کتے کی زبانی)،   الرقصۃ المباحۃ(جائز ہوگا)، مشہور ہیں  ۔  
عرب مستشرق ڈینس جانسن ڈیوز نے یحییٰ کی کہانیوں کو انگریزی قالب میں ڈھال کر مغربی دنیا میں بھی ان کی شہرت پہنچائی۔   ان کی کہانی    الطوق والأسورةۃ  پر 1986ء میں  مصری  فلم بھی بنائی گئی۔   9 اپریل 1981ء کو 43 برس کی عمر میں یحییٰ طاہر عبداللہ  کا انتقال ایک کار ایکسیڈنٹ میں ہوا۔ 

اس بلاگ پر یحیی الطاہر عبداللہ کی تحریریں