سندھی ادب کا ایک شاہکار افسانہ

خانو چور نہیں ہے!

تھوڑی دیر پہلے جو طوفان اٹھا تھا وہ کسی تیز آندھی کے جھونکے کی طرح تھا جو اب تھم چکا تھا ۔ ماحول پہ خاموشی چھا گئی تھی اور خانو زمین پہ پڑا ہوا تھا مگر اس کے ہونٹوں  پہ ایسی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جیسی ایک جنگی سپاہی کے ہونٹوں پہ دشمن پر غالب آنے کر بعد پھیل جایا کرتی ہے۔ خانو کا چہرہ خون میں لال پیلا ہو چکا تھا پھر بھی فتح یابی سے چہک رہا تھا اور ایسی ہی خوشی خانو کے زخمی ساتھیوں کے چہروں سے بھی عیاں تھیں جن سب نے مل کر اپنے ہاتھوں کے سہاروں پہ خانو کے سست وجود کو اٹھایا تو وہ سب ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے وہ کسی باہمت نڈر جواں مرد کو اٹھائے جا رہے ہوں ۔




خانونے پرانی کرسی کو ہوشیاری کے ساتھ آہستہ آہستہ سے گھسیٹتے ہوئے لکڑی کی الماری کے ساتھ لگا دیا اور پھر اچھل کر کرسی پہ کھڑا ہو گیا مگر الماری کا اوپر والا خانہ اب بھی اس کی پہنچ سے دور ہی تھا جس تک پہنچنے کے لیے بازو کا استعمال کرتے ہوئے جیسے ہی دایاں ہاتھ اوپر والے خانے کے اندر ادھر ادھر گھمایا تو ایک طرف اندر کونے میں رکھا ہوا پیالہ خانو کے چھوٹے سے ہاتھ کی ہتھیلی کی گرفت میں آگیا جسے وہ انگلیوں کی مدد سے رینگتا ہوا اپنے قریب لانے میں بھی کامیاب تو ہو گیا تھا مگر اگلے ہی لمحے ڈر اور خوف کی وجہ سے جھٹ سے پیالہ وہیں الٹ کر گر گیا اور دودو آنے والے سکے کوٹھی کے اندر پھیل گئے۔
پل بھر کے لیے خانو کاننھا وجود ایک انجانے خوف سے کانپ اٹھا اور وہ اپنی جگہ ایسے کھڑا رہا جیسے وہاں سالوں سے لکڑی کی الماری کھڑی ہوئی تھی اس کے بعد جب ہر طرف سے اطمینان ہو گیا تو وہ کرسی سے نیچے اترا ۔ زمین پہ بکھرے ہوئے سکے دیکھ کر اس کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں جن کو ایک ایک کر کے وہ گنتا گیا تو اس کے ہاتھوں کی دونوں مٹھیاں بھر آئیں۔ کچھ دیر تک چمکتی ہوئی آنکھوں سے سکوں کو دیکھتا رہا پھر دوبارہ کرسی پہ چڑھ کر احتیاط کے ساتھ انہیں پیالے میں واپس رکھ کر اسے اپنی جگہ پہ پہنچایا اور کوٹھی سے باہر نکل آیا تو اس کے کانوں تک صحن کے ایک کونے سے کپڑے دھونے اور کوٹنے کی آوازیں گونجنے لگیں ۔ صحن میں کوئی چیزتلاش کرتا ہوا وہ باور چی خانے میں گیا اور دیوار پہ اٹکی لکڑی کی تختی کو جیسے ہی مضبوط کر کے پکڑا اسی لمحے کچھ برتن ٹن ٹن .... ٹن کی آوازیں کرتے نیچے آگرے۔
‘‘ کون ہے .....ارے کون ہے وہاں ’’ غسل خانے سے کپڑے دھونے کا شور تھم گیا اور نئی آواز پہ ماں نے وہیں سے چلّا کر پوچھا ۔ مگر خانو نے کوئی جواب دئیے بغیر آہستہ سے برتن اٹھا کر اپنی جگہ پہ رکھ دئیے اور تیزی سے نکل کر دوبارہ کوٹھی میں آگیا تو پیچھے سے کپڑے دھونے کی آواز پھر سے شروع ہو گئی تھی۔ وہ دوبارہ پہلے والے انداز میں کرسی پہ چڑھا ۔سکون کے ساتھ رکھے ہوئے پیالے کو دیکھ کر جیسے نیچے اترآیا تو اس کے کانوں میں یہ الفاظ گونج اٹھے تھے۔
‘‘خانو ! چور ہے !..... ہاں ہاں چور ہے ..... چورہے !’’
‘‘ نہیں ! خانو چور نہیں ہے’’ اپنے آپ سے بولتا ہوا وہ جذباتی انداز میں پھر کرسی پہ چڑہ گیا اور جو دو آنے اس نے لیے ہوئے تھے وہ پیالے میں ڈال کر کرسی کو اپنی جگہ لے آیا اور باہر صحن میں آکر گھر کے صدر دروازے سے نکل گیا۔خانو جب اسکول پہنچا تو رسیس ختم ہو چکی تھی اور ماسٹر جی جماعت کو بورڈ پہ حساب لکھوا رہے تھے ۔وہ ڈرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ کلاس میں داخل ہونے لگا تو اس کے جماعت کے لڑکوں نے آپس میں سرگوشیاں کرنا شروع کر دیں ۔پیچھے سے شور آہستہ سے بڑھنے لگا تو ماسڑجی نے پیچھے کی طرف شوخی سے دیکھا اور کہنے لگا ۔
‘‘ کس بات پہ مستی ہو رہی ہے ؟ !’’
‘‘ ماسٹر جی ! وہ ....وہ خانو !’’ اتنا ہی بول سکا تھا ۔
‘‘ خانو ! کیا ؟ .... بتاؤ کیا ہوا ہے خانو کو ؟!!۔’’
‘‘ نہیں نہیں ماسڑ جی ! خانو چور نہیں ہے ’’ خوف اور ڈرسے بے ساختہ بول بیٹھا تو پہلے خانو پہ بہت حیرانگی ہونے لگی .... پھرغصے کی حالت میں ہاتھ میں ڈنڈی گھماتے ہوئے خانو سے مخاطب ہونے لگا۔
‘‘اے لڑکے ! تمہیں یہ کیسا مذاق سوجھا ہے .... ہاں ! چل جلدی جلدی بتاورنہ ..... !’’
‘‘ ماسڑ جی ! قرآن کی قسم ! سچی کہہ رہا ہوں خانو چور نہیں ہے! ’’
خانو ابھی تک بوکھلایا ہوا تھا اور خانو کی بات پر پوری جماعت ٹہہ .....ٹہہ کرتے ہنسنے لگی تو شور اور بڑھتا گیا جس پہ ماسٹر جی کا غُصّہ چڑھنے لگا۔
‘‘خاموش !’’ ماسٹر جی نے اپنی رعب دار آواز نکالتے ڈنڈی کو زور سے میز پہ دے مارا تو سب سہم کر رہ گئے۔
‘‘اب اگر کسی نے کوئی مستی دکھائی تو اس نالائق کی ہڈی پسلی توڑ کے رکھدوں گا ’’....
جب سب خاموش ہو گئے تو ماسٹر صاحب پھر سے اپنے کام میں لگ گئے مگر سارا وقت خانو جماعت میں یوں بیٹھا تھا جیسے وہاں موجود نہ ہو۔جب چھٹی کی بیل بجی.... جماعت کے لڑکے اپنی اپنی کتابیں سنبھالے کلاس سے باہر آئے .... اسے کسی بات کا کوئی ہوش نہ رہا تھا اور جب ہوش آیا تو پیر و      رعب دار آواز کے ساتھ سامنے تھا۔
‘‘ جلدی باہر چلورے خانو چورا’’ اپنے سامنے کھڑے پیروکو یوں مذاق اڑاتے دیکھ کر وہ بھی بول اٹھا ۔
‘‘ دیکھو پیرو ! خانو چور نہیں ہے.... اور نہ ہی کوئی چوری کرتا ہے۔ ’’
‘‘ اچھا !تو پھر کیا کرتا ہے ( پیرو زور سے ہنستے ہوئے ) چور تو چوری کرے گا نہ .... چل جلدی سے میرے دو آنے دے....صبح تم نے وعدہ کیا تھا اب اسے پورا کر۔ ’’
‘‘ تمہیں روز ایک آنادے کر میں تنگ آچکا ہو ں اور اب تم دو آنے کا تقاضا کرتے ہو.... کوئی آنا دو آنا نہیں ملے گا سمجھے ....!’’
‘‘ یہ بات ہے.... ٹھیک ہے پھر تیار ہو جا بچو!’’ پیرو اپنے ساتھیوں کو آوازیں دے کر پکارنے لگا۔
‘‘ ارے اور وشو ..... گلو .... کہاں ہو.... آؤ جلدی آجاؤ!’’
خانو بھی دیکھنے لگا کہ پیرو اپنے دوسرے بدمعاش ساتھیوں کو بلانے لگا تھا ۔ اسکول میں بھی کوئی نہیں رہا تھا سب کے سب جا چکے تھے۔ اپنے سامنے مشکل دیکھتے ہوئے اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری تھی۔
‘‘ چلو اب جلدی سے دے دو دو آنے ؟ ’’ پیرو نے شوخی کے لہجے کے ساتھ خانو کو دھمکایا۔
‘‘ نہیں دوں گا .... کوئی دادا گیری ہے کیا ؟ ’’
‘‘ہا ں سمجھو کہ دادا گیری ہے’’ یہ کہتے ہوئے پیرو نے خانو کے دائیں گال پر ایک زور سے گھونسہ مارا اور ساتھہی کہنے لگا....
‘‘ اب زندہ نہیں بچو گے بچو!’’ خانو لڑا کھڑا کر گر پڑا .....گرتا بھی کیسے نہ اپنے وجود میں وہ ایک کمزور سا انسان تھا جو شروع سے ہی ڈرا سہما ہوا رہتا آیا تھا اور جماعت میں اس کی کمزوری کا فائدہ اٹھا تے ہوئے پیرو جیسے اوباش لڑکے اسے ڈرا دھمکا کر روزانہ ایک آنا بطور بھتا وصول کر کے مزے سے چیزیں کھا یا کرتے تھے۔
‘‘خانو نے جیسے  ہی خود کو سنبھالنے کی کوشش کی تو پھر سے پیرو نے ایسے زور سے دھکا مارا کہ وہ جا کے دیوار سے ٹکرایا جہاں لوہے کا ٹکڑا لگا ہوا تھا جس سے خانو کا وسر پھٹ گیا اور وہ خون میں لت پت ہونے لگا پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری تھی
‘‘دو آنے تو کیا ایک ٹکا بھی نہیں ملے گا.....ہاں ہاں ! نہیں ملے گا بچو !....خانو چور نہیں ہے ’’۔
کہنے اور دیکھنے میں پیرو اور اس کے ساتھی خانو کے مدمقابل ہٹے کٹے تندرست صحت کے مالک تھے پر تھے تو وہ بھی آخر کا بچے ہی ۔جب ان سب نے خانو کو خون میں لت پت ہوتے دیکھا تو ایکدم گھبرا کر وہاں سے بھاگ نکلے جن کے پیچھے ٹھوکریں کھاتا ہوا خانو بھی آنے لگا ۔  اس کی نظریں جماعت کے کچھ دوسرے ساتھیوں پڑیں ۔  اس کی جان میں  جان آگئی ۔ تب خانو نے اعلان جنگ کرتے ہوئے اپنی آواز کو فضا میں بلند کیا ۔
‘‘ او علن ..... شمن .... نورا.... رحیمو! سب جلدی آؤ اور سنو آج سے کوئی بھی پیرو اور اس کے بدمعاشوں کو کوئی ایک آنا نہیں دے گا .... سمجھ گئے نا اا  اب کوئی کچھ بھی نہیں دے گا’’
لاتے چلاتے وہ گر پڑا تو اس کے ساتھیوں نے دوڑ کر سہاارا دیا خانو اپنے درد سے بے فکرہو کر خود کو چھڑاتے ہوئے چیخنے لگا۔
‘‘ وہ دیکھو ! جا رہا ہے پیرو اپنے غنڈوں کے ساتھ .... اسے پکڑ لو.... جاؤ ہمت کرو آج وہ سب بچ کے جانے نہ پائیں ’’....
تب سب کے سب بجلی کی تیزی سے دوڑ کر پیرو اور اس کے ساتھیوں کے راستے میں دیوار بن گئے ۔ ادھر پیرو والے بھی ان سب کو خونخوار نظروں سے گھورنے لگے۔ خانو بھی گرتا ، سنبھلتا ہوا وہاں آپہنچا تھا جس کی کڑکتی آواز نے علن ، شمن ، نورا ، اور رحیمو کو اک نئی ڈھارس باندھی تھی۔
‘‘ میں کہتا ہوں کوئی بھی آنا دو آنا نہیں دے گا....یہ ہی موقعہ ہے ساتھیو پکڑ لو ان حرامیوں کو اور ایسا مزا چکھاؤ کہ زندگی بھر یاد رکھیں ’’....
ایک بار پھر خانو کے ساتھی اسے خون میں سسکتے کانپتے .... لزرتے ہوئے دیکھنے لگے جن سب کی آنکھوں میں بھی اب خون اتر آیا تھا اور اندر ہی اندر سے کمزور وجود طاقتور پہاڑ بن گئے تھے..... بس ! پھر ایک طوفان سا بر پا ہوگیا۔ سب کے سب قہر خدائی بن کر پیرو اور اس کے ساتھیوں پہ ٹوٹ پڑے جن کے ساتھ گھایل خانو بھی آملا تھا۔ خانو کی حق گوئی اور مرد مجاہدی نے سب کو ایسا غازی بنا دیا کہ وہ پیرو والوں کو روندتے ، پیٹتے ایک ہی صدا میں ساتھ کہتے جارہے تھے۔
‘‘ آج سے کوئی آنا دو آنا نہیں دے گا.... کوئی چوری بھی نہیں کرے گا.... ہاں ہاں کوئی بھی چور نہیںہے۔ ’’
بہت دیر تک پیرو اور اس کے اوباش ساتھی ایسے پٹتے رہے جیسے گھاٹ پر دھوبی کپڑے زور سے پیٹتے صاف کرتے رہتے ہیں ۔ ان سب کو اگر آج بھاگنے کا موقع نہ ملتا تو یہ یقین ہو چلا تھا کہ سب کے سب خانو اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں جان سے مارے جاتے....
تھوڑی دیر پہلے جو طوفان اٹھا تھا وہ کسی تیز آندھی کے جھونکے کی طرح تھا جو اب تھم چکا تھا ۔ ماحول پہ خاموشی چھا گئی تھی اور خانو زمین پہ پڑا ہوا تھا مگر اس کے ہونٹوں  پہ ایسی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی جیسی ایک جنگی سپاہی کے ہونٹوں پہ دشمن پر غالب آنے کر بعد پھیل جایا کرتی ہے۔ خانو کا چہرہ خون میں لال پیلا ہو چکا تھا پھر بھی فتح یابی سے چہک رہا تھا اور ایسی ہی خوشی خانو کے زخمی ساتھیوں کے چہروں سے بھی عیاں تھیں جن سب نے مل کر اپنے ہاتھوں کے سہاروں پہ خانو کے سست وجود کو اٹھایا تو وہ سب ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے وہ کسی باہمت نڈر جواں مرد کو اٹھائے جا رہے ہوں ۔

[ترجمہ: جہانگیر عباسی]
http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/apirl2012/april_iv.html




سندھی زبان کے معروف ادیب  اور کہانی کار

حمید سندھی۔1939ء تا  حال 


حمید سندھی  کا اصل نام عبدالحمید میمن تھا اور وہ 12 اکتوبر 1939ء کو نوشہروفیروز  کے ایک متوسط گھرانے میں  پیدا ہوئے تھے۔  ابتدائی  تعلیم کے بعد انہوں  نے بی اے اکنامکس (ایگریکلچر)، ایم اے  اکنامکس  اور مانچسٹر  یونیورسٹی یوکے سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔  آپ شاہ عبداللطیف یونیورسٹی خیر پور میرس میں بطور وائس چانسلر  خدمات انجام دی ، اس کے علاوہ آپ سندھی لینگویج اتھارٹی کے سربراہ اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ  میں چئیر مین بھی رہے ۔ ساتھ ہی سندھی زبان کے کئی ادراروں میں مختلف عہدے پر فائز رہے ۔  1990ء میں آپ کو حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ فی الحال آپ پبلک اسکول لطیف آباد،  حیدرآباد میں چئیر مین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔   آپ نے معاشرتی مسائل کو مختلف  کہانیوں  کے روپ میں  ڈھالا ، آغاز کیا۔ان کی پہلی  کہانی ‘‘ڪارو رت’’ میں ماہنامہ مہران میں شایع ہوئی۔  1958ء میں انکی کہانیوں کا   پہلا مجموعہ ‘‘سيمي’’ شائع ہوا ۔ ان کی کہانیوں  کے دیگر  مجموعوں میں  ‘‘اداس واديون​’’ ،  ‘‘راڻا جي رجپوت’’، ‘‘ويريون’’، ‘‘جاڳ به تنهنجي جيءُ سان’’،   ‘‘درد وندي جو ديس’’، ‘‘سو مون سڀ ڄمار’’، خصوصاً قابل ذکر ہیں ۔   زیر نظر کہانی  سوکي ڌرتي اسی نام سے ان کی سندھی کہانیوں کے تراجم میں شایع ہوئی تھی۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں