احمد ندیم قاسمی کے قلم سے اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

مشورہ 

مجھے غصہ ساآرہا تھا کہ راجہ صاحب اس سیدھے سادے سوال کو حل کرنے سے کیسے قاصر ہوسکتے ہیں۔



راجہ صاحب کا ڈرائیور ایک رقعہ لایا۔
[محترمی ندیم صاحب ۔ سلام مسنون! .... میری ٹانگوں  پر فالج کا اثر ہے ورنہ میں  خودحاضر ہوتا۔آپ ہی کرم کیجیے اور کل شام کے چار بجے میرے ہاں  تشریف لانے کی زحمت گوارا فرمائیے۔  چائے میرے ساتھ پیجئے گا پچھلے دنوں  میں  نے آپ کا کلام پڑھا ہے اور آپ سے چند باتیں  کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ میں  گھنٹہ سوا گھنٹہ سے زیادہ وقت نہیں  لوں  گا ۔ تو یہ طے سمجھیے کہ آپ کل شام چار بجے میرے پاس تشریف لارہے ہیں ۔ شکریہ!
 چشم براہ: راجہ عرفان اللہ]
مجھے حیرت ہوئی کہ راجہ صاحب نے مجھے کیوں  بلایا ہے۔ علم و ادب سے انہیں  شغف تو تھا اور اسی لیے میں  ان سے متعارف بھی تھا مگر میرے ادبی نظریات کسی صورت بھی ان کے لیے قابل قبول نہیں  ہوسکتے تھے۔ راجہ صاحب جس طبقے سے تعلق رکھتے تھے وہ زردار تو ہوتا ہی ہے مگر راجہ صاحب کے بارے میں  مشہور تھا کہ وہ زرپرست بھی ہیں  اور ہم جیسے متوسطیوں  کی صحبت میں  ان زرپرستوں  کا دم اسی طرح گھٹتا ہے جس طرح ہمارا دم ان کی صحبت میں  گھٹتا ہے۔ 
میں  معذرت کرلیتا مگر انہوں  نے اپنی علالت کا ذکر کرکے مجھے بے بس کردیا تھا۔ چنانچہ میں  دوسرے روز ان کے ہاں  جانے کے لیے گھر سے نکلا۔
گھر سے نکلتے ہی مجھے ایک عجیب تجربہ ہوا۔ اب سوچتا ہوں  تو جھینپ سی ہوتی ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے سہی مگر یکایک مجھے کیا ہوگیا تھا میں  اچھی طرح جانتا ہوں  کہ میری طبقاتی حدود کیا ہے، مگر اونچے طبقے کے ایک اہم رکن کے ہاں  جانے کے فیصلے کے ساتھ ہی مجھے اپنا طبقہ بدلنے کی احمقانہ کوششوں  کی کیا ضرورت تھی۔
میں  عموماً رکشے میں  سفر کرتا ہوں  مگر اس روز سڑک پر سے کئی خالی رکشے میرے سامنے سے گزر گئے اور مجھے انہیں  روکنے کے لیے ہاتھ اٹھانے کی توفیق نہ ہوئی۔ کہیں  اندر شاید میں  نے طے کرلیا تھا کہ رکشا راجہ صاحب کے عالیشان بنگلے میں  داخل ہوتا ہوا بھلا نہیں  لگے گا اور رکشے میں  بیٹھا ہوا تو اور برا لگے گا مگر شاید دوسری بات زیادہ صحیح تھی۔ راجہ صاحب تو فالج کے مریض تھے۔ انہیں  اپنے کمرے میں کیسے پتہ چلتا کہ میں  رکشے میں  آیا ہوں  یا کار میں ۔ بہر حال میں  نے ایک ٹیکسی لی اور جب راجہ صاحب کے بنگلے کے صدر دروازے میں  داخل ہوا تو جیسے میں  ایک دم اپنے طبقے کے مین ہول سے باہر نکل آیا۔
وسیع و عریض لان پر جیسے گہرے سبز رنگ کا مخمل کا فرش بچھا تھا اور اس فرش پر جیسے ابھی ابھی کوئی استری پھیر کر ہٹا تھا۔ مجال ہے جو کہیں  ایک بھی شکن دکھائی دے۔
لان کے آخری سرے پر بنگلے کی لمبی حد بندی کے ساتھ ساتھ سفیدے کے بہت اونچے درخت کھڑے اپنی ٹہنیاں  لچکا رہے تھے۔ ان کی آسمان کو گدگداتی ہوئی چوٹیاں  دیکھتے ہوئے میں  نے سوچا کہ اگر میرے سر پر پگڑی ہوتی تو گرجاتی۔
لان کی نیم بیضوی حد بندی پر اتنے لمبے بے شمار رنگوں  کے پھول کھلے تھے کہ خلا نوردوں  نے کرہ ارض کے پیچھے چھپنے والے سورج کے بھی اتنے رنگ نہیں  دیکھے ہوں  گے۔ مجھے تو پہلی بار معلوم ہوا کہ زمین سے اتنے بہت سے پھول بھی اگ سکتے ہیں  اور پھولوں  کے اتنے بے شمار رنگ بھی ہوسکتے ہیں ۔
ٹیکسی رکی تو راجہ صاحب کا ایک ملازم میری طرف آیا۔برآمدہ طے کرتے ہوئے اس نے قدم یوں  احتیاط سے اٹھائے جیسے بلور کے فرش پر چل رہا ہے۔ میں  نے اتنی احتیاط کے ساتھ صرف کبوتروں  کو چلتے دیکھا ہے۔
اس نے مجھے سلام کیا اور ٹیکسی کا میٹر دیکھ کر جیب میں  سے پانچ روپے کا نوٹ نکالا۔
‘‘صاحب نے فرمایا ہے کہ کرایہ آپ ادا نہیں  کریں  گے’’۔
مجھے یوں لگاجیسے ایک طبقے نے دوسرے طبقے کے منہ پر تھپڑ دے مارا ہے۔
‘‘جی نہیں ’’ میں  نے کہا ۔‘‘راجہ صاحب سے کہیے گا ۔ ان پانچ روپوں  کا اپنی کار میں  پٹرول ڈلوالیں’’۔
ملازم جیسے ہکّا بکّارہ گیا۔ اس کے چہرے پر غصے کے آثار بھی پیدا ہوئے جیسے میں  نے راجہ صاحب کے ساتھ اس کی بھی ہتک کر ڈالی ہے۔
میں  نے کرایہ اد اکردیا اور ٹیکسی روانہ ہوگئی۔ 
ایک نظر پھر لان کی طرف دیکھا اب کے مجھے سارے پھول پلاسٹک کے معلوم ہوئے۔ ٹہنیاں  جھلاتے سفیدوں  پر مجھے پاگلوں  کا گمان ہوا۔ پھر میں  نے پہلی بار دیکھا کہ لان کے ایک گوشے میں  ایک مالی بھی کام کرہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ اس سے پہلے وہ مجھے بالکل نظر نہیں  آیا تھا۔ حالانکہ لان کے مخمل میں  وہ کھدر کے پیوند کی طرح بہت نمایاں  تھا اور اس کی ایک کہنی ہل رہی تھی۔ شاید وہ کھرپا چلا رہا تھا۔
‘‘آپ شاعر صاحب ہیں  نا؟’’۔ ملازم نے پانچ روپے کا نوٹ جیب میں  رکھتے ہوئے پوچھا۔ مجھے اس کے ہونٹوں  میں  مسکراہٹ دبکی ہوئی نظر آگئی۔ شاید وہ میرے شاعر ہونے سے محظوظ ہو رہا تھا۔
‘‘ جی ہاں ’’۔ میں  نے کہا ۔‘‘میرا نام ندیم ہے’’۔
‘‘جی ہاں  جی ہاں ’’۔ اب کے وہ کھل کر مسکرانے لگا۔‘‘صاحب نے صبح بتایا کہ شام ہمارے ہاں  ندیم صاحب آرہے ہیں ۔ میں  حیران ہوا کہ صاحب تو دیسی فلمیں  نہیں  دیکھتے اور ندیم تو دیسی فلموں  کے ایک مشہور ایکٹر کا نام ہے۔ اس پر صاحب خوب ہنسے اور مجھے بتایا کہ آپ ایک مشہور شاعر ہیں  اور آپ کا نام ندیم قاسمی ہے۔ آپ اپنا نام ندیم قاسمی ہی بتایا کیجئے۔ صرف ندیم سے دھوکا ہوجاتا ہے’’۔
میں  نے کہا ۔‘‘بہت اچھا ۔ آئندہ ایسا ہی کروں  گا۔ آپ ذرا راجہ صاحب کو اطلاع دے دیجئے کہ ندیم قاسمی آیا ہے’’۔
‘‘وہ تو دس منٹ سے آپ کا انتظار کررہے ہیں’’۔  ملازم نے دس منٹ کے الفاظ پر یوں  زور دیا جیسے مجھ سے دس دن کی تاخیر کا ارتکاب ہوگیا ہے۔ ‘‘آپ کو ٹھیک چار بجے پہنچنا تھا مگر اس وقت چار بجکر دس منٹ ہیں ۔ صاحب کو ایک منٹ بھی انتظار کرنا پڑے تو پریشان ہوجاتے ہیں ’’۔
میں  گنہگاروں  کی طرح اس کے پیچھے چلنے لگا۔
برآمدے کے بعد گیلری میں  اور پھر پہلے اور دوسرے کمرے میں  سے گزر کر جب میں  تیسرے کمرے میں  پہنچا تو یوں  لگا جیسے میں  یکا یک یو ڈی کلو ن میں  نہا گیا ہوں ۔ خوشبو کسے بھلی نہیں  لگتی جب چاروں  طرف ہوا کی جگہ خوشبو ہو تو مجھے دمہ محسوس ہونے لگتا ہے۔
اس تیسرے کمرے میں  راجہ صاحب ایک ویل چیئر پر بیٹھے تھے۔ وہ بہت دبلے اور پیلے ہورہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے ہاتھ ملایا تو وہ اتنا ٹھنڈا تھا جیسے ابھی ابھی فریج سے نکالا گیا ہے۔
انہوں  نے ملازم کو چائے کا حکم دے کر مجھ سے میرے مزاج پوچھے ۔ میرے مشاغل کی تفصیل معلوم کی۔ معذرت کے ساتھ میری آمدنی کے بارے میں بھی استفسار کیا۔ مجھے ان کے پانچ روپوں  کا غصہ تھا اس لیے میں  نے انہیں  جلانے کے لیے اپنی آمدنی دگنی بتائی۔ اس پر بھی وہ بولے ‘‘گزر ہوجاتی ہے نا؟....’’۔ اور ابھی میں  اس صدمے سے سنبھل نہ پایا تھا کہ کہنے لگے ۔‘‘برٹرینڈرسل کی خود نوشت پڑھی ہے آپ نے ؟....’’۔
میں  سوچنے لگا۔ ان دو سوالوں  میں  سے پہلے کس کا جواب دوں  کہ وہ بولے۔‘‘ سچ بولنے کی حد کردی ہے رسل نے۔ ہم لوگ صبح کو اتنا سچ بولیں  تو شام تک قتل ہوجائیں۔ اللہ اللہ ! کیا بے لاگ جرأت ہے۔ میں  تو کہتا ہوں  یہ ملحد قیامت کے روز سیدھا اور کھرا سچ بولنے کی وجہ سے بخشا جائے گا’’۔
‘‘ بجا فرمایا آپ نے ’’ میں  نے کہا ۔مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ انہیں  میری رائے کی کچھ ایسی ضرورت نہیں  ہے۔ انہیں  صرف ایک سامع درکار تھا اور سامع کا کام صرف سننا ہے۔
‘‘میں  نے بھی اپنے سوانح لکھنے شروع کیے تھے’’۔  راجہ صاحب بولے ۔‘‘میں  نے بچپن کے حالات میں  ہم جنسی کے بعض تجربات کا اپنی طرف سے بڑے سلیقے سے ذکر کیا تھا۔ مگر میری بیگم نے یہ حصہ پڑھ لیا اور میری تحریر کو پرزے پرزے کرکے آتش دان میں  پھینک دیا۔ اب بتائیے سچ بولنا کتنا بڑا گناہ ہے ہمارے ہاں ’’۔
میرا کچھ عرض کرنا ضروری ہوگیا تھا اس لیے عرض کیا ۔‘‘ہمارے معاشرے کے اور بے شمار پہلو صدیوں  سے ہمارے سچ بولنے کے انتظار میں  ہیں ۔ اپنے سوانح میں  ان کے متعلق سچ بولنے کی کوشش کیجئے ۔ ہم جنسی تو عالمی بیماری ہے اس کے بارے میں  سچ بول کر آپ کیا لیں  گے۔ یہ سچ تو آندرے ژید اور آسکروائلڈ خوب کھل کر بول چکے ہیں ۔ آپ اس میں  کیا اضافہ فرمائیں  گے!’’۔
انہوں  نے مجھے یوں  گھو ر کر دیکھا جیسے اپنی تحریر کے پرزے اڑنے پر اپنی بیگم کو دیکھا ہوگا۔ پھر سنبھل کر انہوں  نے ایک دم موضوع بدلا اور مجھے بتایا کہ وہ مہینے بھر سے علیل ہیں  ۔پہلے بلڈ پریشر ہوا پھر فالج کا حملہ ہوگیا۔ ڈاکٹر نے چلنے پھرنے سے منع کررکھا ہے  اور ویل چیئر استعمال کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ 
‘‘ویسے میری طبیعت دو تین روز سے سنبھل گئی ہے۔ صرف ٹانگیں  بے حس ہوئی ہیں ۔ سوئی چبھو ؤ تو جلد میں  درد نہیں  ہوتا۔ مگر جلد کے نیچے سارا نظام زندہ ہے۔ سوئی ذرا نیچے اتر جائے تو باقاعدہ درد ہوتا ہے ’’۔ آخری جملہ انہوں  نے بڑی آسودگی کے ساتھ مکمل کیا جیسے درد ہوتا ہے تو بڑی خوشی کی بات ہے اور جیسے اب یہ درد ہی ان کی زندگی کا واحد ثبوت ہے۔
میں  نے کہا۔‘‘اگر درد ہوتا ہے تو آپ شفایاب ہوجائیں  گے’’۔
‘‘انشاءاللہ انشاءاللہ ’’۔ وہ ویل چیئر کے پہیوں  کو ذرا گھما کر میرے قریب آگئے اور بولے۔ ‘‘آپ سے چند ضروری باتیں  کرنے کو جی چاہا آپ کو تکلیف دی۔ میں  نے بیماری کے اس ایک مہینے میں  صرف آپ کا کلام پڑھا ہے۔ کسی دوست نے مجھے سے کہا تھا کہ اس شاعرکو بھی پڑھ دیکھو۔ ما شاءاللہ آپ خوب کہتے ہیں’’۔
‘‘شکریہ’’۔ انہوں  نے مجھے رسمی دادی تھی اور میرے منہ سے بھی شکریہ کا لفظ عادتاً نکل گیا تھا۔
‘‘میں  نے دیکھا ہے ’’۔ وہ بولے ‘‘کہ آپ زندگی کی بہت سی آزمائشوں  سے گزر ے ہیں ۔ ویسے آزمائشوں  میں  سے ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہی ہے۔ مجھے دیکھیے کہ آج کل بھی مجھ پر زمینوں  اور شہری املاک کے چار مقدمات چل رہے ہیں اور خود میں  نے دو مقدمات دائر کررکھے ہیں ۔ سو میں  یہ کہہ رہا تھا کہ آزمائشوں  میں  سے گزرنے کے علاوہ آپ اس نظام سے بھی بدظن ہیں  جو ہمارے ملک میں  رائج ہے ۔ ابھی آپ نے اپنی جو آمدنی بتائی ہے وہ بھی زیادہ معقول نہیں  ہے ۔ اس کے باوجود آپ پر سکون ہیں  یہ بڑی عجیب بات ہے ۔ میں  آپ سے یہی پوچھنا چاہتا تھا کہ آپ اتنے پر سکون کیوں  ہیں ؟’’۔
میں  نے ان سے اختلاف کیا ۔ ‘‘پرسکون تو راجہ صاحب، میں  قطعی نہیں  ہوں ، میں  تو اندر سے بہت مضطرب قسم کا آدمی ہوں ۔ اضطراب ہی تو فن کی تخلیق کرتا ہے ۔ مزاج کا سکون تو شاعر کو مار ڈالتا ہے۔ میں  سمجھتا ہوں  آپ نے مجھے پر سکون کہہ کر مجھے داد نہیں  دی بلکہ یہ کہا ہے کہ آپ مجھے سمجھ نہیں  سکے یا میں  آپ کو سمجھا نہیں  سکا’’۔
‘‘آپ میرا مطلب نہیں  سمجھے’’۔ انہوں  نے ہاتھ بڑھ اکر میرے گھٹنے کو تھپتھپایا۔ شاید میرے چہرے کا سکون بگڑگیا تھا اور انہوں نے دیکھ لیا تھا۔  ‘‘میرا مطلب ہے کہ آپ اپنے آپ سے بدظن کیوں  نہیں  ہوتے؟’’۔
میں  نے کہا ۔‘‘اس لیے کہ اپنے ضمیر سے میری کبھی لڑائی نہیں  ہوتی ’’۔
وہ حیران ہوکر میری طرف دیکھنے لگے اور دیکھتے رہے جیسے دیکھ کم رہے ہیں  اور سوچ زیادہ رہے ہیں ۔ ‘‘ ٹھیک ہے ’’۔ آخر انہوں  نے کہا ۔‘‘آپ اور آپ کا ضمیر صلح صفائی سے رہتے ہیں’’’۔ پھر مسکرا کر بولے۔ ‘‘یعنی آپ اپنی ذات کو بقائے باہم کے اصول پر زندہ رکھتے ہیں ’’۔
میں  نے کہا ۔‘‘میرے خیال میں  ہر شخص کو ایسا ہی کرنا چاہیے ۔ اگر آ پ کا ضمیر کچھ کہے اور آپ کچھ اور کہیں  تو اس طرح آپ کے دماغ میں  جنگ عظیم شروع ہوجائے گی اور آپ کے اندر کشتوں  کے لیے پشتے لگ جائیں  گے’’۔
‘‘جسمانی صحت پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے ’’۔ وہ بولے۔‘‘‘مثلاً نیند بہت کم آتی ہے مثلاً مجھے نیند بہت کم آتی ہے ۔ آپ کا کلام پڑھ کر آپ سے دوستی ہوگئی ہے اس لیے اب دوست سے کیا پردہ ۔میرے ضمیر اور میرے درمیان عموماً لڑائی رہتی ہے۔ میرا ضمیر ایک دو صدی کے پرانے کلیے دوہراتا ہے مگر مجھے ایک دو صدی بعد کی دنیا میں  زندہ رہنا ہے۔ چنانچہ اس کے تقاضے ضمیر کی فرمائشوں  سے سراسر مختلف ہوتے ہیں ۔ ضمیر کا کہا مانو ں  تو میرے وارث مجھے پاگل خانے بھیج دیں۔ زندہ رہنے کا جذبہ ہر جاندار میں  موجود ہے ۔اس لیے میں  بھی زندہ رہنا چاہتا ہوں۔  میں  اگر اپنے ضمیر کو پوری آزادی دیتا تو وہ مجھے مار ڈالتا ۔ میں  حیران ہوں  آپ زندہ کیسے ہیں !’’۔
انہوں  نے مجھے دوست کہا تھا اس لیے میں  نے بھی ذرا آزادی سے کام لیا اور کہا ‘‘میں  حیران ہوں  کہ آپ کا ضمیر کچھ کھائے پیے بغیر سترا کہتر سال سے زندہ کیسے ہے’’۔
‘‘ کتابیں !’’ انہوں  نے کہا اور پھر مسکرائے ۔ ‘‘میں  اپنے ضمیر کو اعلیٰ درجے کے عالمی ادب کی کتایں  کھلاتا پلاتا ہوں ۔ چنانچہ ضمیر زندہ ہے اور بیدار ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ مجھے نیند نہیں  آتی۔ نیند کی گولیاں  بھی مجھے نیند نہیں  دے سکتیں ۔ بس ذرا سا غنودہ ہوتا ہوں  کہ کوئی ایک گھونسا میرے دل پر مارتا ہے اور میں  ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ہوں ’’۔
‘‘یہ گھونسا مارنے والا ،‘‘کوئی’’ آپ کے ضمیر کے سوا اور کون ہوسکتا ہے ’’۔ میں  نے کہا ۔ وہ جواب میں  مسکرائے۔
‘‘یوں  کیجیے’’۔ میں  نے کہا ۔‘‘ کہ جو کتابیں  آپ نے پڑھی ہیں  انہیں  بھول جائیے اور آئندہ کتابیں  پڑھنا ترک کردیجیے ۔ آپ کے ضمیر کو نیند آگئی تو آپ کو بھی نیند آجائے گی’’۔
‘‘ اگر آپ مجھ سے وعدہ کریں  کہ آپ جو سگریٹ اس وقت پی رہے ہیں  یہ آپ کا آخری سگریٹ ہوگا تو لائیے ہاتھ میں  بھی کتابیں  پڑھنا ترک کرتا ہوں ’’ پھر وہ ہنسے۔‘‘عادت بری بلا ہے ندیم صاحب!’’۔
اتنے میں  چائے آگئی۔ چند مدراتی کلمے ادا کرنے کے بعد انہوں  نے مجھ سے پوچھا۔ ‘‘آپ کی نیند کیسی ہے ؟’’۔
‘‘بہت اچھی’’۔ میں  نے کہا ۔ ‘‘ضمیر سے صلح صفائی کی وجہ سے مجھے بہت گہری نیند آتی ہے۔ سات گھنٹے سے ادھر آنکھ کھلتی ہی نہیں ’’۔
اب کے انہوں  نے میری طرف یوں  دیکھا جیسے ایک گنگلا سڑک کی پٹڑی پر پڑا اپنے سامنے سے پانچ گز لمبی کار میں  بیٹھے شخص کو دیکھتا ہے ۔ حسرت سے بھی اور غصے سے بھی۔
‘‘مگر مجھے نیند نہیں  آتی’’۔ انہوں  نے بڑے کرب سے کہا ۔‘‘مثلاً !’’ انہوں  نے ویل چیئر کو باہر کھلنے والی کھڑکی طرف گھمایا۔ پھر پلٹ کر بولے۔‘‘مگر پہلے آپ چائے پی لیجیے’’۔
‘‘میں  چائے پیتا رہوں  گا ’’۔ میں  نے کہا ۔ ‘‘آپ ارشاد فرماتے رہیے’’۔
‘‘نہیں  ’’۔ وہ بولے‘‘میں  آپ کو اس کھڑکی کے پاس لے جانا چاہتا ہوں ’’۔
‘‘لیجیے’’۔ میں  پیالی ہاتھ میں  لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔‘‘فرمائیے’’۔
میں  کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا ۔ وہ بھی ویل چیئر کو کھڑکی کے پاس لے کر آئے۔ باہر جھانکا فوراً ذرا پیچھے ہٹ گئے اور مجھ سے کہا ۔‘‘ذرا پیچھے ہٹ جائیے وہ آپ کو دیکھ لے گا’’۔
‘‘کون؟’’۔ میں  نے پوچھا۔
‘‘مالی’’ وہ بولے۔‘‘آپ بیٹھ جائیے اس سیٹی پر’’۔
میں  چمڑے کی سیٹی پر بیٹھ گیا۔ مگر حیران تھا کہ اگر مالی نے ہمیں  دیکھ لیا تو کون سی قیامت آجائے گی۔
‘‘آپ مالیوں ، کسانوں ، مزدوروں  کے حالات اور نفسیات کو مجھ سے بہتر جانتے ہیں ’’۔
انہوں  نے کہا ۔
‘‘شاید’’۔ میں  بولا۔
‘‘تو مجھے کوئی مشورہ دیجیے’’۔ انہوں  نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
‘‘کس بارے میں ؟’’ میں  نے پوچھا۔
وہ بولے۔ ‘‘آپ نے دیکھا میرے مالی کو ؟’’۔
‘‘جی ہاں ’’۔ میں  نے کہا ۔
اور وہ بولے ۔‘‘یہ میرے پاس پچھلے بائیس سال سے کام کررہا ہے اور مجھے نیند نہ آنے کے جو اسباب ہیں  ۔ ان میں  سے ایک بڑا سبب یہ بھی ہے’’۔
‘‘یعنی مالی؟’’ میں  نے حیرت سے پوچھا۔
‘‘جی ہاں  مالی ....’’۔ انہوں نے کہا ۔‘‘یہ جب میرے پاس آیا تو جوان تھا اور بہت عمدہ جوان تھا۔ ان دنوں  کئی بار مجھے اس پر غصہ بھی آیا کہ اتنا غریب ہونے کے باوجود اتنا خوبصورت کیوں  ہے ۔ ایک بار یہ پاگلوں  کا سا خیال بھی آیا کہ اس کا سرکاٹ کر اپنی گردن پر رکھ لوں ۔ میرا مطلب ہے وہ صحیح معنوں  میں  جوان رعنا تھا۔ اب ادھیڑ عمر کا ہورہا ہے ۔ اس کی ایک بیوی اور چار بیٹیاں  ہیں ۔ خیال فرمائیے اکٹھا چار بیٹیاں! .... سب سے بڑی کی عمر اٹھارہ انیس سال تو ضرور ہوگی۔ میرا مطلب ہے بالکل تیار جواں  لڑکی ہے۔ شکر ہے میرا بیٹا آج کل آکسفورڈ میں  ہے ورنہ جو نیند مجھے آتی ہے وہ بھی نہ آتی۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں  نا۔ ظاہر ہے کہ مالی کو شادی کی بھی فکر ہوگی ۔ پھر دوسری لڑکی ہے ، تیسری ہے، چوتھی ہے۔ یہ بیمار بھی ہوتے ہیں  علاج کرانے کو بھی ان کا جی چاہتا ہوگا کہ کبھی کبھی اچھا کھانا بھی کھانا چاہتے ہوں گے اور اچھا کپڑا بھی پہننا چاہتے ہوں  گے۔ مگر اس کی کل تنخواہ ساٹھ روپے ہے۔ کوارٹرتو میں  نے اسے مفت دے رکھا ہے ، مگر آپ خود ہی غور کیجئے کہ ساٹھ روپے کی رقم بھی کوئی رقم ہے ! آج کے ان ساٹھ روپوں  کو پرانے زمانے کے چھ روپے سمجھئے۔ آپ چمڑے کی جس سیٹی پر بیٹھے ہیں  وہ میں  نے وی آنا سے خریدی تھی اس کی قیمت بتا سکتے ہیں  آپ ؟ چار سو روپے ! مالی کی چھ سات مہینے کی تنخواہ ! اب آپ ہی کہیے کہ مجھ جیسا ایک حساس اور پڑھا لکھا آدمی گھر کے اندر اس مالی کی موجودگی میں  آرام کی نیند کیسے سو سکتا ہے ؟’’۔
میں  نے دیکھا کہ وہ بہت سنجیدہ ہورہے تھے اور ان کا رنگ اور بھی زرد ہوگیا تھا۔میں  نے کہا ۔‘‘جو کچھ آپ نے کہا ہے یہ تو آپ کے ضمیر کی آواز معلوم ہوتی ہے ۔ خود آپ بھی تو کچھ کہیے’’۔
وہ بولے ‘‘آپ مجھے یہ بتائیے کہ آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟’’۔
مجھے غصہ ساآرہا تھا کہ راجہ صاحب اس سیدھے سادے سوال کو حل کرنے سے کیسے قاصر ہوسکتے ہیں۔  میں  نے ذرا تلخی سے کہا۔‘‘میں  مالی کی تنخواہ ، دگنی، تگنی، چوگنی کر دیتا اور پھر مزے سے سوتا’’۔
وہ میری طرف دیکھ کر یوں  مسکرائے جیسے میرا مذاق اڑا رہے ہیں ۔پھر نہایت مایوسی سے ویل چیئر کے پہیوں  کو گھما کر کھڑکی سے ہٹ آئے۔ ‘‘آپ کا یہ جواب سن کر مجھے بہت افسوس ہوا ندیم صاحب۔ میں  سمجھا آپ کوئی نئی بات سمجھائیں  گے۔ آپ تو مجھے خاصے اوریجنل معلوم ہوئے تھے۔ مگر آپ نے تو وہی بات کہہ دی جو ساری دنیا کہتی ہے اور بے سوچے سمجھے کہتی ہے’’۔
‘‘بے سوچے سمجھے؟’’۔ میرے لہجے میں  کچھ اور تلخی آگئی تھی۔
‘‘جی ہاں ’’۔ وہ بولے۔‘‘مگر آپ لوگ سوچنا سمجھنا بھی چاہیں  تو ہماری مجبوریاں  نہیں  سمجھ سکتے ۔ سنیے میں  نے ایک دن ضمیر کی کھسر پھسر سے تنگ آکر مالی کی تنخواہ پانچ روپے بڑھا دی ۔ شام کو میرے پاس ساری برادری اکٹھی ہوگئی اور شور مچا دیا کہ تم نے اپنے مالی کی تنخواہ بڑھا کر ہم سب کے مالیوں  کے دماغ خراب کردیے ہیں۔ میری برادری کے سبھی افراد ماشا اللہ کھاتے پیتے لوگ ہیں ۔ سب کے بنگلے ہیں  اور سب کے ہاں  مالی ہیں۔ ظاہر ہے کہ صرف میری طرف سے پانچ روپے کے اضافے کی وجہ سے میری برادری کے مالیوں  کی تنخواہوں  میں  اضافہ ضروری ہوگیا تھا اور اس طرح میری برادری کی جیب میں  سے ایک دم ڈھائی سو روپے ماہانہ نکلنے لگے تھے۔ یہ ہوتی ہیں  معاشرے کی اور زندگی کی مجبوریاں ۔ میں  سمجھا آپ یہ سب باتیں  سمجھتے ہیں  مگر معاف کیجئے آپ نے مجھے اس بارے میں بہت مایوس کیا۔ ویسے آپ شعر خوب کہتے ہیں …….. چائے اور پیجئے گا ؟ اور یہ کیک پیس تو آپ نے چکھا ہی نہیں ۔ آخر ایسا تکلف بھی کیا ……..’’۔

اتنے میں  ملازم مزید چائے کے بارے میں  پوچھنے آیا تو وہ بولے ۔‘‘دیکھو کسی کو گیٹ پر کھڑا کر دوکہ ندیم صاحب کے لیے ٹیکسی روکے’’۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے۔‘‘یار کشا؟ آپ کیا پسند کریں  گے؟’’۔


ادیب شاعر اور افسانہ نگار

احمد ندیم قاسمی ۔ 1916ء تا 2006ء


احمد ندیم قاسمی کا شمار پاکستان کے معروف اور ترقی پسند  ادیب ، شاعر، افسانہ نگار، صحافی،  مدیر اور کالم نگار میں ہوتا ہے۔ آپ مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں  انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔
اصل نام احمد شاہ  تھا اور ندیم تخلص تھا۔ عالم جوانی میں شاعری سے شغف تھا، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ  ریفارمز کمشنر اور محکمہ آبادکاری میں ملازم ہوئے، 1942 ءمیں مستعفی ہوکر لاہور چلے آئے  جہاں خواتین اور بچوں کے رسالے تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی، پھر ادبی رسالہ ادبِ لطیف کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ تقسیم ہند کے بعد  ریڈیو پشاور سے وابستہ ہوئے اور اپنا ادبی رسالہ ‘‘فنون’’کا اجراء کیا۔ قاسمی صاحب نے لگ بھگ نوے برس کی عمر پائی، انہوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں،  یوں  تو انہوں نے  ادب کی ہر صنف  میں طبع آزمائی کی لیکن انہیں افسانے اور غزل کے حوالے سے بہت شہرت ملی۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں