احمد ندیم قاسمی کے قلم سے اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

پاؤں کا کانٹا

زمیندار تو جہاں کھڑا تھا وہیں جم کر رہ گیا۔ جو شخص بغیر حیل و حجت کے دو روپے ماہوار پر نوکری کرنے پر رضا مند ہوجائے، وہ مالک سے ناراض ہو کر چل دے تو کیا اسے مرنے کا خوف نہیں ہوتا....؟ 

وہ حیران ہورہا تھا کہ کیا غریبوں کو بھی غیرت کا احساس ہوتا ہے....؟ کیا یہ بھی سوچ سکتے ہیں....؟ کیا مفلسی غیرت اور سیرت کا خون نہیں کردیتی....؟

اس کے بعد تین چار بار مجھے اپنا پیٹ غیرت کے بدلے خالی رکھنا پڑا.... ماں، کتنی بہادر تھی میری ماں....! کتنی عجیب عورت تھی وہ.... عام عورتوں سے کس قدر مختلف! 



پاؤں سے کانٹا نکالتے ہوئے ننھے کریم کی چیخ نکل گئی۔ وہ ایڑی کو دونوں ہتھیلیوں سے دباتے ہوئےپکارا .....
‘‘ہائے اماں !’’
 وہ مبہوت و ساکن بیٹھ گیا اور سامنے ویران کھیتوں پر نگاہیں گاڑھ دیں، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی ماں کی آواز کا منتظر ہوتا ہے۔ ‘‘میرے انمول لال! میں آئی، میں ابھی کانٹا نکالے دیتی ہوں !’’.... 
اس کے سر پر ایک کّوا کائیں کائیں کرتا ہوا گزرا اور لڑکھڑاتا ہوا ایک جھاڑی میں جا گرا کریم بھول گیا کہ اس کے پاؤں میں کانٹا ہے۔ وہ لنگڑاتا ہو بھاگا اور کّوے کو پکڑ لیا ۔ وہ اپنے پروں کو پھڑپھڑانے لگا۔ اڑنے کی کوشش کی مگر اس کا داہنا بازو زخمی ہوچکا تھا ۔ 
کریم نے زمین سے مٹی اٹھا کر اس کے زخم پر چھڑکی، دو چار ٹھنڈی سانسیں دیں۔ کّوے کو آرام پہنچا تو کھلی ہوئی چونچ بند کر لی اور آنکھوں میں وحشت کی بجائے اطمینان چھلکنے لگا ۔ کریم نے بہت سے پتے اکھٹے کر کے سب سے بڑے نیم کی سب سے اونچی چوٹی پر جمائے۔ کّوے کو ایک دو بار تھپک کر وہاں بٹھا دیا اور گھر کو لوٹ آیا ۔ اس مصروفیت میں اس کے پاؤں کے درد میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔
وہ ایک کسان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ ایک سال ہوا اس کی ماں مر گئی۔ اس کے والد نے پچھلے دنوں ایک شادی کر لی تھی لیکن اب یہ نئی ماں اس سے عجیب طرح سے پیشآتی تھی۔
‘‘ وہ برتن اندر کیوں نہیں رکھا؟’’
وہ پکار اٹھتا ۔‘‘ اندر ہی تو پڑا ہے۔’’
وہ اس کے جبڑوں میں گھونسا جماتے ہوئے کہتی۔ ‘‘تو مجھے بتایا کیوں نہیں؟’’
وہ چیخ کر کہتا ۔‘‘بتایا تو تھا میں نے!’’
کریم نے کئی بار محسوس کیا کہ گھونسے کے زور سے اس کا دل رک گیا ہے لیکن وہ کمبخت اچانک پھر دھڑک اٹھتا اور وہ سہمی ہوئی نظروں سے ایک اور گھونسا سر پر منڈلاتے ہوئے دیکھتا ۔ اوّل اوّل تو اس نے سوتیلی ماں کے خلاف صدائے احتجاج بھی بلند کی۔
‘‘چھوڑ دے ۔ چھوڑ دے مجھے ۔ ورنہ میری امّی تیری بوٹیاں نوچ لے گی، چھوڑ دے مجھے ورنہ میرا ابّا تجھے مار ڈالے گا۔’’ لیکن ایک دن جب اس کی سوتیلی ماں نے یہ کہا کہ
‘‘تیری ماں کو تو قبر کے سانپ اور بچھو چمٹے پڑے ہوں گے، وہ تیرے باپ کا گھر تباہ کر کے اگلے جہاں میں آرام سے تھوڑا رہے گی!’’ تو ننھا کریم غصے سے بے بس ہو کر اس پر جھپٹا مگر دھکا کھا کر اوندھے منہ جا گرا ۔ دوڑا دوڑا باپ کے پاس گیا اور چیخنے لگا 
‘‘ابّا، خالہ نے میرے دانت توڑ دیئے ۔ یہ دیکھو تو مسوڑھوں سے خون بہہ رہا ہے۔ یہ دیکھو نا میری کہنیاں چھل گئیں۔ وہ کہتی ہیں تیری ماں کو سانپ بچّھو کھا رہے ہیں۔ وہ جھوٹ بکتی ہے ابّا ۔ میری ماں ہر رات آ کر میرا ماتھا چوم ....’’
تڑاخ کی آواز اور پھر کریم کا کان اس کے باپ کی انگلیوں میں تھا۔ کان کو اینٹھتے ہوئے بولا۔‘‘خالہ کے خلاف بک رہا ہے ۔ اب تیری ماں کا راج نہیں رہا کہ گھر کا غلہ نکال کر دکانداروں کے آگے جا ڈالے اور گلچھڑے اڑائے، اب انسانوں کی طرح رہنا پڑےگایہاں!’’
اس دن کے بعد اس نے باپ کے آگے کوئی شکایت نہ کی، نہ اپنی خالہ کے گھونسوں کا جواب کسی دھمکی سے دیا ۔ بس چپ چاپ گھونسے سہہ لیتا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی کھاٹ پر بازو کا تکیہ بنا کر سو جاتا ۔ صبح گھونسے سہہ کر باہر جاتا۔ مویشی چرا کر لاتا اور گھونسے سہہ کر سو جاتا۔اس دن وہ ایک بیل کے پیچھے بھاگا تو اس کی ایڑی میں کوئی بہت لمبا کانٹا چبھ گیا۔ زخمی کّوے کو گھونسلے میں بیٹھا کر گھر آیا اور اپنی ٹوٹی پھوٹی کھاٹ پر لیٹ گیا جو صحن کے پرلے سرے پر بیلوں کے تھانوں کے پاس دن رات پڑی رہتی تھی۔ کھاٹ کیا تھی ایک جھولا تھا ۔ جس میں ننھا کریم گھٹنے سینے سے لگائے، بازو جسم سے چمٹائے پڑا رہتا تھا۔
اس کی خالہ چولہے کے سامنے بیٹھی تھی اور اس کا باپ پاس ہی ایک پلنگ پر لیٹا حُقّہ پی رہا تھا ۔ اس کیخالہکہنے لگی ۔
‘‘ابھی تک کریم نہیں آیا جانے گاؤں میں کیا کرتا رہتا ہے۔ پرسوں کی بات ہے ہمسائی کے ہاں گیا اور کہنے لگا کہ مجھے میری نئی ماں مارتی ہے، روٹی نہیں دیتی۔میں بھوکا ہوں ننگا ہوں.... اب اس سے پوچھو میں نے اسے کب مارا ۔ میں نے اسے کب کھانا نہیں دیا۔  کب کپڑے نہیں پہنائے۔ اس بچے کو سمجھاؤ، ورنہ یہ گھر گھر کھانے کو مانگتا پھرے گا، اور تم شریکوں کے سامنے سر نہاُٹھاسکو گے۔’’
اس تقریر کے دوران میں کریم نے ایک دو بار آواز دی ۔‘‘میں آگیا ہوں ابّا ، میں آ گیا ہوں۔’’  لیکن نہ اس کے باپ نے کچھ سنا نہ اس کی خالہ نے۔ جب وہ سانس لینے کے لئے رکی تو کریم ان کے قریب آیا اور بولا ‘‘میں تو کب کا بیٹھا ہوں خالہ ۔’’
اس کا باپ حُقّہ ایک طرف کر کے اس کی طرف بڑھا ۔‘‘ کیوں بے! تیری ماں کیا مری کہ تو ہر بندھن سے آزاد ہو گیا ۔ گھر گھر میرے گِلے ہو رہے ہیں۔’’ ایک تھپڑ کریم کے منہ پر پڑا۔ 
اس کے جی میں آئی کہ باپ کے اس ظلم کے خلاف احتجاج کرے، مگر زبان بے حِس ہو کر رہ گئی ۔ وہ چپ چاپ اٹھا اور اپنی کھاٹ کا رُخ کیا ۔
‘‘آج لنگڑا کیوں رہا ہے ۔’’ اس کے باپنےپوچھا۔
‘‘ کانٹاچبھ گیا تھا جی ۔’’ کریم نے درد ناک لہجے میں جواب دیا۔ آخری الفاظ کہتے ہوئے اس کی آوازکانپ گئی۔
اس کا باپ گرجنے لگا ۔‘‘ کانٹا چبھ گیا امیر زادے کے .... آفت آ گئی، اور لنگڑا یوں رہا ہے، جیسے کسی نے پاؤں ہی اڑا دیا ہے۔ ادھر آ، سوئی لے کر دئیے کے پاس بیٹھ جا اور نکال اسے ۔’’
کریم اندر جا کر سوئی لے آیا ۔ دیئے کے پاس بیٹھ کر ایڑی اٹھائی اور سوئی سے کانٹے کے اِرد گرد کا گوشت کریدنے لگا۔ رہ رہ کر اِسے اپنی ماں یاد آ رہی تھی جو اِسے ہاتھوں پر اُٹھائے رکھتی تھی۔ جو اِس کے لئے قسم قسم کی چیزیں خرید لاتی تھی۔ کھانے کی چیزیں، پہننے کی چیزیں ۔ جس نے اپنی پڑوسن جو ایک دن کریم کے پاؤں سے کانٹا نکال رہی تھی کہا تھا۔‘‘اری ذرا دھیرے دھیرے سوئی پھیر۔ بس یہ سمجھ تو میرے کلیجے پر سوئیپھیر رہی ہے!’’
کریم کو یہ بات یاد آئی تو اِس کی چیخ نکل گئی۔ اس کا باپ صحن کے پرلے سرے پر بیلوں کے آگے گھاس ڈال رہا تھا ۔ اس کی خالہ اٹھی اور اس کے پاس آ کر کہنے لگی۔ ‘‘کیوں بے لونڈے، رو کیوں رہا تھا ۔ سانپ نے ڈس لیا ہے کیا؟’’
اس نے حسرت بھری نگاہیں اٹھائیں اور خالہ کی گھورتی ہوئی آنکھوں میں گاڑ دیں ۔ اس کی خالہ نے اس کی گردن پر غصے سے اُلٹا ہاتھ مارا۔ کریم دیئے پر جا گرا ۔ دیا لڑھک کر اس کی گود میں آ رہا ۔ اس کے کپڑوں کو آگ لگ گئی۔ لہراتے ہوئے شعلوں سے چیخوں کا ایک طوفان بلند ہوا۔ 
‘‘ابّا، دوڑیو، میرے ابّا، میں جل مرا، ہو ابّا۔’’
اس کا باپ ہوا کی طرح اس کے پاس پہنچا۔ گھڑے پر گھڑا انڈیلنا شروع کر دیا۔ آگ بجھ گئی اور اب زمین پر کیچڑ میں لت پت بے ہوش کریم آہستہ آہستہ سانس لے رہا تھا ۔ سارا محلہ اکٹھا ہو گیا ۔ لالٹین جلائی گئی۔ کریم کا داہنا بازو، داہنی ران اور داہنی پسلیاں بری طر ح جل چکی تھیں۔ کھال اڑ چکی تھی ۔ اور نیچے سفید چربی چمک رہی تھی ۔ اسے چارپائی پر لٹا دیا گیا۔ حکیم جی نے زخموں پر مکھن ملنے کو کہا اور سب لوگ چلے گئے!
اب اس کے باپ کا دل پسیجا ۔ اسے اپنی بیوی کی مغموم روح سامنے منڈیر پر اپنا چہرہ ہتھیلیوں میں سنبھالے بیٹھی آنسو گراتی نظر آئی۔ اس کی نگاہیں اپنے جلے ہوئے بے ہوش بچے پر گڑی ہوئی تھیں۔ پھر اس نے تاروں کی طرف اڑتے وقت ایک سمت اشارہ کیا۔ کریم کا باپ سب کچھ سمجھ گیا ۔ اسے وہ دن یاد آ گیا جب شہر کے باہر بوڑھے نیم کی ٹیڑھی شاخوں کے گھنے سائے میں ان دونوں نے اپنے والدین کی باہمی دشمنی سے بے پروا ہو کر ہمیشہ کے لئے ایک ہونے کا عہد کیا تھا! اس کے روئیں روئیں سے پسینہ پھوٹ نکلا۔ اس کا سارا جسم سو گیا۔ وہ غیر ارادی طور پر اپنے بچے کی طرف بڑھا ۔ جس نے اب آنکھیں کھول دی تھیں اور جس کی سوتیلی ماں روٹی پر گھی ڈال کر کھا رہی تھی۔ وہ کریم کے قریب گیا ۔ ماتھے پر ہاتھ پھیر کر پوچھا ۔ ‘‘میرے کریم کہاں کہاں درّد ہے تمہارے ؟ تمہارے کہاں کہاں درد ہے ؟ بتاؤ نا، مجھے بتاؤ کہ وہاں میں اپنے کلیجے کا خون نچوڑ دوں ۔ تم مجھے گھور کیوں رہے ہو ، میرے بچے تم مجھے اس طرح نہ دیکھو ، میرے ننھے اس طرح تمہارے کمینے باپ کی روح میں نشتر گڑ جاتے ہیں ۔ کہاں کہاں درد ہے تمہارے ؟ بتاؤ نا ُُ
‘‘ایڑھی پر ابّا ۔’’ ایک نحیف آواز آئی ۔ ‘‘ وہاں کانٹا چبھ گیا تھا ۔ ’’
کریم کا باپ کلیجہ پکڑ کر رہ گیا ۔ ابھی تک کریم کو اپنے جلنے کی خبر نہیں تھی ۔ وہ بولے جا رہا تھا ۔ ‘‘ابّا یہاں ایڑھی میں اتنا لمبا کانٹا چبھ گیا ، خالہ، ذرا سوئی دینا، میں کانٹا نکال لوں ۔ ’’
کریم کا باپ شدت درد سے بلبلا اٹھا، ‘‘ہائے میرے بچے، میرے کریم، تم جل گئے ہو، تمہیں معلوم نہیں کیا ؟ اللہ تمہیں اچھا کر دے، بہت جلد اچھا کر دے ۔ میں اپنے کریم کے لئے اتنی چیزیں لاؤں گا کہ میرا کریم انہیں اٹھا تک نہ سکے گا ۔’’
کریم کو اب آہستہ آہستہ اپنے جلنے کا احساس ہو رہا تھا ۔ اس کا باپ اس کی رنگت کی تبدیلی دیکھ کر ہراساں ہو گیا ۔ ‘‘اری لانا ذرا، کھانڈ لانا ۔ کریم کے منہ میں ڈالوں۔ یہ تو پیلا پڑ رہا ہے ۔ ’’
وہ گھی میں لقمہ بھگو کر بولی ۔ ‘‘اچھا ہو جائے گا۔ بچے جلتے ہی رہتے ہیں اکثر، تم پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہے ۔ اچھا ہو جائے گا کمبخت، تم کیوں اپنی جان ہلکان کرتے ہو ۔ ادھر کھانا کھا لو، پروٹھےٹھنڈے .... !’’
کسان کے بھاری جوتے نے اِسے آگے بڑھنے کی مہلت نہ دی ۔ لقمہ اس کے منہ سے نکل کر فرش پر جا گرا ۔ اس کی کھوپڑی تڑا تڑ جوتے کھانے لگی ۔ اس نے سارا محلہ سر پر اٹھا لیا۔ لوگ جمع ہو گئے ۔ اسے خاموش کرایا۔ کسان کو ضبط کرنے کی تلقین کی اور چلے گئے ۔ 
کریم اب چارپائی پر بل کھا رہا تھا۔ گوشت کے ننھے ننھے پرزے آپ سے آپ گر رہے تھے، ساری رات اس کا باپ اس کے سرہانے بیٹھا رہا ۔
صبح ہوئی تو کریم نے گھٹنے سے سر اٹھاتے ہوئے کہا۔ ‘‘ابّا تم مجھے اب ماروگے تو نہیں ؟’’ 
کسان کی آنکھوں سے آنسوؤں کے چشمے پھوٹ بہے ۔ اس نے انتہائی ضبط سے کہا ۔ ‘‘نہیں بیٹا ۔ ’’
 کریم بولا ۔ ‘‘تو ابّا ایک کام کرو۔ گاؤں کی پوربی چراگاہ کے اتری کونے پر نیم کے درختوں کا جھنڈ ہے نا ؟ سب سے بڑے نیم کی سب سے اونچی ٹہنی پر ایک کوّے کا گھونسلہ ہے ۔ اسے جا کر کچھ پانی اور دانے ڈال آؤ۔جاؤگے ؟ ’’
‘‘ ابھی جاتا ہوں ۔ ’’ کریم کے باپ نے جواب دیا۔  لیکن کریم کی ان بے سر و پا باتوں کو نیم بیہوشی پر محمول کرنے لگا ۔ کچھ دیر کے بعد کریم نے آنکھیں کھولتے ہوئے پھر کہا ۔ ‘‘ کیا نہیں جاؤ گے ابّا ؟ ’’
‘‘ابھی جاتا ہوں میرے بچے، کریم یہ کہہ کر اٹھا ۔ پانی کے لئے مٹی کا ایک چھوٹا سا پیالہ لیا ۔ دانے مٹھی میں ڈال کر گاؤں کی مشرقی چراگاہ کی طرف گیا ۔ بڑے نیم کی اونچی ٹہنی پر ایک کوّا گھونسلے سے پر نکالے کائیں کائیں کر رہا تھا ۔ وہ اوپر چڑھا کوّے کے پاس پانی رکھ دیا دانے بکھیر دئیے ۔ کوّے کو اٹھا کر دیکھا اس کا ایک بازو بری طرح زخمی تھا ۔ وہ یہ معمّہ نہ سمجھا اس کا دماغ گھو منے لگا ۔ واپس ہوتے وقت ایک شخص نے اسے پوچھا ۔ کہاں گئے تھے آپ ....؟ 
اس نے جواب دیا ۔ ‘‘رات کو ۔ رات کو۔  رات کو جلا ۔ بس دئیے نے کپڑوں کو آگ لگا دی اور جسم کا دائیا ں حصہ گل گیا ۔ ! ’’ پوچھنے والا شخص متعجب اور شرمندہ ہو کر گلی میں مڑ گیا ۔
کریم کا باپ اپنے بیٹے کے پاس آیا ۔ جھک کر پوچھا۔ ‘‘جاگ رہے ہو بیٹا ؟ ’’
‘‘جاگ رہا ہوں ابّا ، کوّے کا کیا حال ہے ؟ ’’
‘‘اچھا تھا میرے بچے ۔ تمہیں سلام کہتا تھا ۔’’
کریم نے ہنسنے کی کوشش کی ۔ ‘‘تو میں خود اسے سلام کا جواب دوں گا ابّا ۔ اب ذرا بیل کھول دو ، باہر جانے کا وقت ہو گیا ! ’’
کسان ضبط نہ کر سکا ، بے اختیار رونے لگا ۔ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیوی کی طرف دیکھا جو ایک کونے میں بیٹھی اسے بے انتہا نفرت سے گھور رہی تھی ۔ اسے وہ دن یاد آ گئے ۔ جب بیلوں کے لئے ایک علیحدہ ملازم ہوتا تھا اور پھر جب کریم کی ماں چل بسی، تو ملازم کو نکال دیا گیا اور بیل کریم کے آگے لگا دیئے گئے، اسے اپنی ساری زندگی پر اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہوا دکھائی دینے لگا ۔ وہ دل ہی دل میں اپنے آپ کو ملامت کرنے لگا کہ وقتی مسّرتوں کے سیلاب میں اس کی اوّلیں محبت اور خاندانی غیرت کا فولادی قلعہ جڑ سے اکھڑ کر بہہ گیا تھا !
وہ روزانہ صبح وشام کوّے کے لئے دانہ پانی لے جاتا اور پھر کریم کے پاس بیٹھا رہتا۔ کوئی تیمار دار آتا اسے کہتا۔ ‘‘بلا ناغہ صبح حکیم جی آتے ہیں، دوا لگا جاتے ہیں ، لیکن کریم کی حالت گرتی جاتی ہے ۔ حکیم جی کہتے ہیں کہ روزانہ کوئی اس کے زخموں کو چھیڑ دیتا ہے ۔’’
تیماردار کہتا ۔‘‘کروٹ بدلنے سے کچے زخم چھل جاتے ہوں گے۔’’
مگر اس کی تسلی نہ ہوتی !
کریم کی حالت روز بر وز ابتر ہوتی گئی اور آخر ایک دن ایسا آیا کہ کریم صبح کو بیہوش ہوا تو دوپہر تک اس کی آنکھیں نہ کھلیں ۔ اس کا باپ دیوانوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ بیٹھتا۔ بے مطلب بغیر کسی کام کے۔  اس نے سر کو زانوؤں پر رکھا ۔ پیچھے دیوار سے سہارا لے کر بیٹھنا چاہا ۔ پاؤں پسار دیئے ۔گھٹنے سیکڑ لئے ، لیکن اس کے اندر کا غم اندوہ اور پشیمانیوں کا دوزخ دہک رہا تھا ۔ اسے ایک لمحہ بھی سکوں میسّر نہ آ سکا ، اور اس کی بیوی مکان کے ایک کونے میں بیٹھ کر انگریزی صابن سے ہاتھ منہ اور پاؤں دھوتی رہی ۔
دوپہر کو کریم نے آنکھیں کھولیں ۔ حکیم جی پاس بیٹھے تھے ۔ انہوں نے پکار کر کہا ۔ ‘‘ملک جی....! بچہ ہوش میں آ گیا ۔ ’’ کریم کا باپ دوڑا آیا، کریم کی پیشانی کو اس نے اتنی محبت سے چوما کہ آس پاس کھڑی عورتوں کی آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ اس نے پوچھا ۔ ‘‘کریم بیٹا، کیا حال ہے اب ؟ طبیعت کیسی ہے ۔ درد کہاں ہے؟’’
جواب ملا ۔ ‘‘ایڑی میں ابّا ، ایڑی میں درد ہے ۔ ایک لمبا سا کانٹا چبھ گیا وہاں ۔ ’’
آئینہ دیکھتی ہوئی سوتیلی ماں کانپ اٹھی ۔ کریم کا باپ بولا ۔ ‘‘بیٹا کل تمہارا کوّا پر تول رہا تھا ، مجھے ڈر ہے وہ اُڑ نہ جائے ۔’’
کریم بولا ۔ ‘‘تو ابّا ! آج آخری بار اسے دانے ضرورڈال آؤ ۔ ’’
حکیم جی نے کہا ۔ ‘‘اب بچے کی حالت اچھی ہے ۔ ’’ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ کریم کے باپ نے اپنی بیوی کو کریم کی دیکھ بھال کی تاکید کی اور مٹھی میں دانے دبائے کوّے کے گھو نسلے کی طرف بھاگا ۔
وہ گلیوں میں بگولے کی طرح اڑا جا رہا تھا ۔ چرا گاہ میں اس کے پاؤں ہوا میں تھرکتے ہوئے معلوم ہوتے تھے ۔ سورج آسمان کے سینے میں دہک رہا تھا ۔ ڈھیروں پر بھیڑیں، بکریاں اور بیل گردنیں جھکائے چر رہے تھے.... ساری کائنات اونگھ رہی تھی!
کریم کا باپ تیزی سے بڑے نیم پر چڑھا ۔ گھونسلے کے پاس پہنچا ہی تھا کہ کّوا  پُھر ررر  کی آواز پیدا کرتا گھونسلے سے باہر نکلا اور چراگاہ پر اڑتا، کھیتوں پر سے تیرتا، ڈھیروں پر سے لپکتا ہوا لرزتے ہوئے افق میںغائب ہو گیا ۔
اس کے حواس معطل سے ہو گئے ۔ وہ ٹہنیوں سے لٹک کر نیچے آ رہا ۔ پوری قوت سے گھر کی طرف بھاگا اور دروازے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔ 
‘‘بیٹا کریم ....!وہ کّوا تو اڑ گیا!’’
کریم کے لبوں پر ہنسی کھیل رہی تھی جیسے وہ اپنے باپ کے جنون کا مضحکہ اُڑا رہا ہے!
حکیم جی آئے۔ انہوں نے کریم کی نبضیں ٹٹول کر کہا۔ ‘‘آج اس کے زخموں کو کسی نے بہت سختی سے چھیلا ہے، اسی لئے جانبر نہ ہو سکا۔ آپ کے گھر میں کون تھاملک جی؟’’
نئی بیوی کے ہاتھ سے لقمہ گر کر پانی کے برتن میںجا گرا۔
کریم کا باپ کپڑے پھاڑتا ہوا باہر نکل گیا۔
‘‘ لوگو ....!
میرے بچے کی ایڑی میں کانٹا چبھ گیا ہے، اسے نکالو۔ نیم کے درخت میں ایک کوّا رہتا تھا۔ وہ آج پربت سے پرے اڑ گیا ۔ اس کو پکر لاؤ۔ میری بیوی نے میرے بچے کے زخم چھیل دیئے ان پر پھاہا رکھو .... لوگو....لوگو! تم میرا منہ کیا تک رہے ہو! ’’   



ادیب شاعر اور افسانہ نگار

احمد ندیم قاسمی ۔ 1916ء تا 2006ء


احمد ندیم قاسمی کا شمار پاکستان کے معروف اور ترقی پسند  ادیب ، شاعر، افسانہ نگار، صحافی،  مدیر اور کالم نگار میں ہوتا ہے۔ آپ مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں  انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے۔
اصل نام احمد شاہ  تھا اور ندیم تخلص تھا۔ عالم جوانی میں شاعری سے شغف تھا، تعلیم سے فراغت کے بعد آپ  ریفارمز کمشنر اور محکمہ آبادکاری میں ملازم ہوئے، 1942 ءمیں مستعفی ہوکر لاہور چلے آئے  جہاں خواتین اور بچوں کے رسالے تہذیب نسواں اور پھول کی ادارت سنبھالی، پھر ادبی رسالہ ادبِ لطیف کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ تقسیم ہند کے بعد  ریڈیو پشاور سے وابستہ ہوئے اور اپنا ادبی رسالہ ‘‘فنون’’کا اجراء کیا۔ قاسمی صاحب نے لگ بھگ نوے برس کی عمر پائی، انہوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں،  یوں  تو انہوں نے  ادب کی ہر صنف  میں طبع آزمائی کی لیکن انہیں افسانے اور غزل کے حوالے سے بہت شہرت ملی۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں