انگریزی  ادب کا ایک شاہکار افسانہ

وہ دولہا تھا یا روح؟

یورپ  کی لوک داستانوں  پر مشتمل واشنگٹن ارونگ   کی کتاب The Sketch Book میں شامل  داستان  دی اسپیکٹر برائیڈ گرُوم The Specter Bridegroom یعنی ‘‘بھُوت دُولہا ’’  کا ترجمہ 





بالائی جرمنی کے پہاڑوں پر حسین قدرتی مناظر اور روح پرور ماحول میں گھرا ہوا ایک شاداب و پربہار علاقہ اوڈنؔ والڈ Odenwaldہے۔ دریائے مینؔ Mainاور رہاینؔRhine  کا سنگم یہیں ہوتا ہے۔ مدت گزری اسی اوڈنؔ والڈ میں نوابؔ لینڈ شارٹ Baron Von Landshort کا ایک قلعہ تھا اس قلعے سے ایک دلچسپ و حیرت انگیز داستان منسوب ہے۔  امتدادِ زمانہ اور وقت کے ظالم تھپیڑوں نے قلعہ کو مسمار کرکے خاک میں ملا دیا۔ کھنڈرات پر خود رو گھاس پھونس نے اگ کر اس کے آثار تک چھپا دیے مگر اس کا ایک اونچا بُرج آج بھی  لڑکھڑاتے قدموں پر کھڑا اپنا سر اسی وقار و تمکنت سے بلند کیے ہوئے ہے جیسے کبھی یہاں کا مکین آخر دم تک اپنی وضع داری پر قائم رہتے ہوئے مخالفوں کے سامنے ڈٹا رہا تھا۔
نواب کو خاندانی جھگڑوں کے باعث اجڑی  پجڑی جو جائداد وراثت میں ملی وہ اگرچہ اس کے گھرانے کی کفالت نہیں کرسکتی تھی مگر آباؤ اجداد کے تبرک اور یادگار کے طور پر اسے عزیز تھی۔ کیونکہ اصل ورثہ تو وہ قابل فخر خودداری اور عزت نفس تھی جو نسلی اعتبار سے اس کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی اور جسے برقرار رکھنے کے لیے وہ تنگی و عسرت میں بھی ایک شان کے ساتھ زندگی بسر کر رہا تھا۔وہ امن و خوشحالی کا زمانہ تھا بالائی جرمنی کے تقریباً دوسرے سارے ہی امراء  ورؤساء اپنے پرانے خستہ قلعوں کو جو پہاڑوں پر عقابی نشیمنوں کی مانند تھے خیر باد کہہ کرمیدانی علاقوں میں منتقل ہوئے تھے۔ یہاں انہوں نے آرام و آرائش کی حامل آراستہ و پیراستہ نئی عمارات تعمیر کرالی تھیں لیکن نواب لینڈ شارٹ اب تک خاندانی رنجشوں اور رقابتوں کے بخشے ہوئے زخم اپنے سینے میں چھپائے اسی چھوٹے سے قلعہ میں بصد تمکنت فروکش تھا۔  زخم دینے والے اس کے قریبی ہمسائے تھے جن کے دادا پر دادا سے اس کے دادا پر دادا کے جھگڑے ہوتے رہے تھے۔ وہی دیرینہ دشمنی اب تک قطع تعلق کا باعث بنی ہوئی.تھی۔
نواب موصوف کو قدرت نے صرف ایک بچی عطا کی تھی مگر یہی اکلوتی بچی ایسے غیر معمولی اوصاف کی مالک تھی کہ اسے نرینہ اولاد سے محرومی کا احساس ہی نہ ہوا۔ علاقے کی کھلائیوں، بھانڈوں اور دیہاتی لڑکے لڑکیوں نے نواب کو یقین دلا دیا تھا ان کی چہیتی کا حسن ایسا بےمثال ہے کہ ساری جرمنی میں اس کا ثانی ڈھونڈے نہیں مل سکتا۔ صورت تو تھی ہی اعلیٰ سیرت سونے پر سہاگہ کا کام کر گئی۔  نواب نے اس کی تعلیم و تربیت پر ایسی   اناؤں کو مامور کیا جو علم و ہنر کی شاخوں میں کمال مہارت رکھتی تھیں۔ ان تجربہ کار اساتذہ  نے بچی کو زیور علم و ہنر سے آراستہ کرکے مجموعہ صد حسن و خوبی بنا دیا۔ اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے وہ علم و ادب کی شناور اور دیگر فنون کی ماہر ہوچکی تھی۔ لکھنے پڑھنے میں نستعلیق، بُننے کاڑھنے اور سینے پرونے میں طاق، پکانے  میں یکتا اور سگھڑاپے سلیقے میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی۔ کشیدہ کاری اور زردوزی کے کام میں اس نے سینٹ  کی زندگی کے تاریخی واقعات کو اس طرح مصور کردیا تھا کہ ان بزرگوں کی روحیں فریموں میں ایسے دکھائی دیتی تھیں جیسے یہی عالم اعراف ہو۔ دقیق سے دقیق اشعار کے معنی و مفہوم کو فوراً سمجھ لیتی۔ 
کئی دل گداز نظمیں اور طویل رزمیہ  اسے ازبر تھے۔ رقص بہترین  کرلیتی تھی۔ بربط اور ستار پر موسیقی کی ایسی دلکش اور پرسوز دھنیں چھیڑتی کہ فضا مسحور ہو کر تھم جاتی۔ اس کی آواز میں بلا  کی شیرینی اور غضب کا لوچ تھا۔ جب وہ نغمہ سرا ہوتی تو ہر شے ناچ اٹھتی تھی۔
اس کی اتالیق اناؤں کو اپنی لائق شاگرد پر فخر و ناز تھا۔ اپنے تجربات کی بنا پر وہ اڑتی چڑیا کے پر گن سکتی تھیں۔ چنانچہ مجال نہیں تھی کہ ان کی شاگرد میں کوئی نازیبا بات پیداہوسکے۔ وہ اس کے اٹھنے بیٹھے، چلنے پھرنے، بولنے ، دیکھنے غرض ہر ادا اور ہر بات پر کڑی نگاہ رکھتیں اور سخت محاسبہ کرتی تھیں۔ وہ اپنی شاگرد کو ایک پل کے لیے آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتیں۔ وہ جہاں جاتی سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتیں۔ ان کی اس چوکسی، سنگ دلی اور کٹھور پن نے گنجائش نہیں چھوڑی تھی کہ کسی کو حرف گیری کا موقع ہاتھ آسکے۔ انہوں نے جس نہج پر اسے پروان چڑھایا تھا اس کے پیش نظر اس کی اناؤں کا دعویٰ تھا کہ وہ عصمت و عفت، نیکی و پاک بازی اور شرم و حیا کا ایسا مکمل نمونہ بن گئی ہے کہ اگر دنیا کا کوئی حسین سے حسین اور جوانمردی و شجاعت کا مجسم پیکر مرد بھی اس کے قدموں میں پڑا تڑپ رہا ہو تب بھی وہ  اس کی طرف دیکھنا گوارا نہ کرے گی۔
نواب کا دل اپنی اکلوتی بچی کو دیکھ دیکھ کر نہاں ہوتا تھا اور وہ اسے اکیلے پن کے احساس سے بچائے رکھنے کے لیے قلعہ میں کسی نہ کسی بہانے آئے دن تقریبات کا اہتمام کرتا رہتا تھا۔ قدرت نے نواب کو اولاد تو فقط ایک دی تھی مگر غریب رشتہ.داروں کا کوئی شمار نہیں تھا۔ وہ بن بلائے بھی آئے دن پرے کے  پرے باندھ کر آتے اور قلعہ میں زندگی کے ہنگامے پیدا کرتے رہتے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان غریبوں کے اپنے یہاں بھی جب کوئی خوشی منانے کا موقع آتا تو اس کے سارے اخراجات نواب ہی کی جیب سے ادا ہوتے تھے۔ نواب کی فراخ دلی۔ فیاضی اور خوش اخلاقی دیکھ کر ان بےچاروں کے دل جذبہ ممنونیت سے لبریز ہو کر بھرآتے۔ وہ خوشی سے سرشار ہو کر کہتے دنیا میں آپس کے میل جول اور بھائی چارے سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے۔ دلوں میں چاہ ہو تو دولت کے خزانے ہیچ ہیں۔
نواب قد کے لحاظ سے اگرچہ چھوٹا اور ٹھگنا تھا مگر دل بہت بڑا اور روح عظیم تھی۔ وہ محض اسی خوشی سے پھولا نہ سماتا کہ قلعہ میں جمع ہونے والے سب عزیز و اقربا اس کی بڑائی کے گن گاتے اور اسے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ نواب انہیں اپنے  اپنے آباء کی بہادری کے قصے اور اپنی کئی باتیں سنایا کرتا تھا۔
ایسی کہانیاں جو نواب سنایا کرتا تھا اس کے دسترخوان پر پیٹ بھرنے والوں کے سوا کوئی اور سننے کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ بےتحاشا کھانے کھاتے اور پورے صبر و سکون کے ساتھ چپ چاپ بیٹھے کھانا ہضم ہونے تک نواب کی باتیں سنتے رہتے۔
نواب کا اعتقاد تھا کہ جرمنی کے پہاڑوں اور وادیوں میں جنوں، بھوتوں کی بہتات ہے اور ان کے متعلق جتنی کہانیاں بھی مشہور ہیں سب سچی ہیں۔ نواب کے مخاطب غریب مہمان جنوں، بھوتوں کے وجود پر اس سے بھی زیادہ ایمان رکھتے تھے۔ وہ آنکھیں اور منہ پھاڑے یہ حیرت ناک قصے سنتے اور خواہ نواب سے وہی واقعہ کئی بار پہلے بھی سن چکے ہوتے مگر ہر بار حد درجہ حیرت کا اظہار کرتے۔ نواب کی زندگی کا یہی معمول بن چکا تھا۔ دسترخوان سجا رہتا،  لوگ کھاتے پیتے رہتے اور نواب ہاتفِِ غیبی کی طرح ایک سے بڑھ کر ایک محیر العقول قصہ سنا کر داد پاتا اور خوش ہوتا۔ ان کے لیے سب سے بڑھ کر باعث مسرت یہ بات تھی کہ وہ اپنی چھوٹی سی ریاست میں مینار  عظمت اور ولیٔ نعمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ جب غریب رشتہ دار اسے وقت کا سب سے بڑا عالم قرار دیتے تو اس کو حد درجہ تسکین پہنچتی تھی۔
اس داستان کا اصل واقعہ تب پیش آیا جب قلعہ میں ایک نہایت اہم اور شاندار تقریب کے سلسلے میں تقریباً سارے ہی عزیز و اقارب جمع تھے۔ نواب کا خوش قسمت داماد آرہا تھا۔ اس کی زندگی میں صرف ایک بار ہی یہ خوشی کا موقع آنا تھا اور وہ اپنے سارے ارمان اکلوتی بچی کی شادی کے اس موقع پر ہی نکال لینا چاہتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ دولہا کا ایسا بےمثال استقبال کیا جائے جو ہمیشہ یادگار رہے۔
نواب اور بویریا Bavariaکے ایک معزز عالی نسبت بزرگ کے درمیان عرصے سے گفتگو ہورہی تھی۔ دونوں ایک دوسرے کے ہم پلہ تھے اور دوست تھے۔ لہٰذا رشتہ طے ہوگیا۔
ابتدائی رسومات بڑی دھوم دھام سے انجام پاچکی تھیں۔ نہ لڑکے نے لڑکی کو دیکھا نہ لڑکی نے لڑکے کی جھلک تک دیکھی اور دونوں طرف کے بزرگوں نے اپنے اپنے اعتماد پر بچوں کی نسبت پکی کرکے شادی کا دن تاریخ بھی مقرر کردیا۔ لڑکا اس وقت محاذِ جنگ پر تھا۔ اسے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ سیدھا نواب لینڈ شارٹؔ کی  خدمت میں اوڈنؔ والڈ پہنچے اور شادی کے بعد دلہن کے ہمراہ گھر آئے۔ نواب موصوف کو سرکاری طور پر اطلاع مل چکی تھی کہ آلٹنؔ برگ کا یہ نوجوان رئیس زادہ Count Von Altenburg فوج سے رخصت لے کر چل پڑا ہے۔ وہ راستے میں ایک جگہ رُکا تو وہاں سے قاصد بھیج کر اپنی آمد کے دن اور وقت سے نواب کو مطلع کردیا تھا۔
قلعے میں خوشی و مسرت کی پرجوش لہریں دوڑ رہی تھیں اور قہقہوں کے فوارے سے چھوٹ رہے تھے۔ حسین و جمیل دلہن کو غیر معمولی طور پر خوشبوؤں میں بسا کر سولہ سنگھار کرائے گئے تھے۔  لڑکیاں اسے گدگداتیں اور سرگوشی میں مشورے دیتیں کہ دولہا کے سامنے وہ کیسے بیٹھے، کیسے دیکھے اور کیسے بات کرے۔
نواب بھی کچھ کم مصروف نہیں تھا۔ استقبال کی بڑے زور شور سے تیاریاں کرا رہا تھا۔ وہ فطرتاً تیز و طرار تھا۔  ہر طرف سرگرمی اور گہماگہمی جاری تھی۔  خادموں اور نوکروں کی ایک فوج تھی جو گویا محاذ پر لڑ رہی تھی۔ موٹے تازے دنبے سینکڑوں کی تعداد میں چھریوں کی زد میں آئے ہوئے تھے۔ میر مطبخ نے نواع و اقسام کے کھانے وسیع پیمانے پر تیار کیے ہوئے تھے۔ قلعہ کے زمین دوز ذخیروں میں جمع تمام شراب نکال لی گئی تھی۔ شراب بھی اعلیٰ درجے کی تھی۔ جو سوائے امراء و روساء کے اور کسی کے دیکھنے میں نہیں آئی۔ نواب جرمن مہمان نوازی کا پوراپورا مظاہرہ کرنے پر تلا ہوا تھا مگر…. جس مہمان کے اعزاز میں یہ شان و شکوہ دکھائی جارہی تھی وہ اب تک آتا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
سورج نے ڈھلنا شروع کردیا تھا اور جوں جوں شام بڑھتی جارہی تھی نواب کی بےچینی اور پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ جب سورج کی کرنیں سنہری ہو کر پہاڑوں کی چوٹیوں کو قرمزی رنگ دینے لگیں تو نواب قلعہ کے سب سے اونچے برج پر چڑھ گیا اور اس امید پر کہ شاید رئیس زادہ دور سے آتا دکھائی دے جائے راستے پر نگاہیں گاڑ دیں۔ ایک بار اسے دور وادی سے بگلوں اور قرنوں کی گونج سنائی دی تو اس کی جان میں جان آئی۔ پھر کچھ گھڑ سواروں کو دیکھ کر اسے آس بندھی کہ جن کا انتظار تھا وہ آگئے۔ مگر ذرا دیر بعد جب وہ لوگ دوسری طرف مڑ گئے تو نواب کا دل بیٹھ گیا۔ آفتاب اس کی بےقراری کی تاب نہ لاکر غروب ہوگیا۔ شام کے دھنددلے میں چمگادڑوں نے اڑنا شروع کردیا۔ راستے دھندلانے اور تاریکی میں چھپنے لگے۔ گڈریے اور کسان تھکے ماندے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔ نواب کی آنکھیں اندھیرے میں راہ پر جمی جمی پتھرا گئیں مگر دولہا کا کہیں پتہ نہیں تھا۔
نوجوان رئیس زادہ بڑے مزے میں اوڈنؔ والڈ کی طرف گامزن تھا۔ اس کے دل میں وہی ولولے موج زن تھے جو دلہن کے گھر کی طرف جاتے ہوئے ہر دولہا کے دل میں مچلتے ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اس سفر کے اختتام پر خوش بختی اس کے قدم چومے گی۔ ایک حسین ترین دوشیزہ اور پرتکلف انتہائی شاندار جشن اس کی آمد کے منتظر ہوں گے۔ وہ مسرور کن خیالات میں مگن پرپیچ راہوں سے گزرتا ہوا جب ورٹزؔبرگ Wurtzburgکے مقام پر پہنچا تو اتفاقاً اس کی ملاقات ہرمنؔ Herman Von Starkenfaustسے ہوگئی جو اسی کی طرح فوج سے چھٹی ملنے پر گھر آرہا تھا۔ ہرمنؔ اس کا بچپن کا دوست اور محاذ جنگ کا ساتھی تھا۔ وہ ان دلیرو جری اور شجاع و جان.نثار بہادروں میں سے تھا جن پر جرمن قوم فخر کرتی ہے۔ اس کے باپ کا قلعہ لینڈ شارٹؔ کے قلعہ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا مگر دونوں خاندانوں میں زمین کے جھگڑوں پر دیرینہ دشمنی چلی آرہی تھی۔ بزرگوں کے قطع تعلق کے باعث دونوں گھرانوں کے نوجوان ایک دوسرے کے لیےاجنبی بن گئے تھے۔  اسی لیے جب رئیس زادے سے اس نے نواب لینڈ شارٹ کی حسین بیٹی سے اپنی شادی کا ذکر کیا تو اس کے دوست ہرمنؔ نے لاعلمی اور عدم واقفیت کا اظہار کیا۔
 رئیس زادے نے کہا ‘‘دوست میں نے بھی اسے دیکھا نہیں ہے مگر اس کے حسن و جمال کی اتنی تعریفیں سنی ہیں کہ نادیدہ عاشق ہوگیا ہوں۔
ہرمنؔ نے اصرار کیا کہ باقی سفر باتیں کرتے ہوئے پیدل طے کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ دیر ایک دوسرے کے قریب رہنے کا موقع مل جائے۔ ویسے بھی پیدل یہ سفر زیادہ پرلطف رہے گا۔ رئیس زادے نے دوست کی خاطر دل ناخواستہ یہ تجویز منظور کرلی اور اپنے خادموں نوکروں کو ہدایت کی کہ وہ اس کے پیچھے آئیں اور قلعہ کے قریب اس سے آملیں۔
دونوں دوست اپنے اپنے معرکے، کامیابیاں اور محاذ جنگ کے ہولناک مناظر ایک دوسرے کو سناتے ہوئے چلتے رہے۔ رئیس زادے کی توجہ دوست کی باتوں کے بجائے اپنی رفیق حیات کے تصور میں لگی رہی۔ جس سے وہ عشق کی حد تک کشش محسوس کرنے لگا تھا اور اسے خیالوں میں بھٹکا ہوا پا کر ہرمنؔ ہر بار اس کا مذاق اڑاتا۔ اسی طرح ہنسی دل لگی کی باتیں کرتے ہوئے وہ اوڈنؔ والڈ کے پہاڑوں میں پہنچ گئے۔ یہاں سنسان راستے گھنے جنگلات میں سے گزرتے تھے جہاں دن میں بھی اندھیرا  چھایا رہتا ہے۔ یہ بات مشہور ہے کہ جرمنی کے جنگلات ڈاکوؤں اور لٹیروں کی بالکل اسی طرح کمین گاہیں بنے ہوئے ہیں جیسے یہاں کے پرانے قلعے جنوں، بھوتوں اور آسیبوں کی آماجگاہ ہیں۔ اس وقت ڈاکوؤں کی بہتات تھی۔
ان دونوں نوجوانوں پر بھی ڈاکو بلائے ناگہانی بن  کر ٹوٹ پڑے۔ دونوں نے بڑی بےجگری اور جواں مردی سے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا۔ ڈاکو ان پر غالب آچلے تھے کہ رئیس زادے کے ہمراہی خدام آپہنچے انہیں دیکھتے ہی ڈاکو بھاگ اٹھے مگر بھاگتے بھاگتے بھی ظالم ایک ایسا بھرپور وار رئیس زادے پر کر گئے کہ وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑا۔
ہرمنؔ نے فوراً نوکروں چاکروں کی مدد سے زخمی رئیس زادے کو بہ.احتیاط واپس وارٹزؔبرگ  Wurtzburg پہنچایا اور اسی وقت ایک قریبی عبادت گاہ سے راہب کو بلوایا۔ جو روحانی  و جسمانی علاج کے لیے بےحد مشہور تھا۔ مگر اس کی مسیحائی کا وقت گزر چکا تھا بدنصیب رئیس زادے کا وقت آگیا تھا۔آخری سانس لیتے ہوئے رئیس زادے نے اپنے دوست ہرمنؔ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھام کر بڑے درد ناک لہجے میں التجا کی کہ وہ اسے کفنانے دفنانے سے پہلے لینڈ شارٹ کے قلعے میں جا کر بتادے کہ موت نے اسے مہلت نہ ددی ورنہ وہ دلہن کو ضرور بیاہ کر اپنے ساتھ لے جاتا۔
ہرمنؔ عشق و محبت کا قائل نہ تھا۔ نہ اسے ابھی تک اس الجھیڑے میں پھنسنے کی فرصت ملی تھی مگر وہ انتہا درجے کا فرض شناس اور وعدے کا پابند تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو ایفائے عہد اور ادائے فرض کی خاطر جان تک دینے سے گریز نہیں کرتے۔ اسی لیے جب اس کے مرتے ہوئے دوست نے یہ کہا۔ ‘‘جب تک تم میرا یہ پیغام نہیں پہنچا دو گے مجھے قبر میں چین نہیں آئے گا۔’’ اس کے ان لفظوں میں ایسی حسرت اور درد تھا کہ ہرمنؔ نے وعدہ کرلیا وہ ہر قیمت پر اس کی وصیت پوری کرے گا۔ اس نے اسے تسلّی دی اور اپنی آغوش میں بھینچ لیا۔ رئیس زادے نے بھی اپنے دونوں ہاتھ پھیلا کر اسے مضبوطی سے بغل گیر کرلیا اور اسی لمحہ اس کا سر ڈھلک گیا۔ ارمانوں کا جوش ایک سرد ہچکی بن کر نکل گیا اور جسم بے جان ہوگیا۔
نواب لینڈؔ شارٹ اس نوجوان سپاہی ہرمنؔ کے خاندان کا دشمن تھا مگر ہرمنؔ کے کانوں میں دوست کے آخری الفاظ گونج رہے تھے۔ وہ نوکروں چاکروں کو اس کے کفنانے اور وارٹزبرگ میں دفنانے کی ہدایت کرکے تیزی سے گھوڑے پر سوار ہوکر برق رفتاری سے قلعہ لینڈ شارٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔  وہ حد درجہ اداس تھا دل بوجھل ہو رہا تھا۔ وہ گھوڑے کو ایڑ پر ایڑ مارے جا رہا تھا اور ذہن میں بار بار بجلی کی مانند ایک خیال چمکتا تھا کہ وہ دلہن کیسی پری وش ہوگی جس پر اس کا دوست ان دیکھے فریفتہ ہوچکا تھا۔ مرتے دم تک جس کا تصور اس پر اس طرح چھایا رہا کہ باقی تمام رشتے بھلا دیے۔ اس تکلیف دہ فرض کی ادائیگی کا صلہ اس کی ایک جھلک دیکھنے سے مل جائے.گا۔
قلعہ میں نواب سے زیادہ اس کے مہمان جنہیں کھانے میں دیر ہورہی تھی بےصبر ہورہے تھے۔ رات گئے نواب برج سے مایوس و دلبرداشتہ اترا۔ رات پل پل کرکے بیت گئی مگر انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے میں نہ آئیں۔ صبح ہوگئی مگر ہنوز دولہا غائب اور برات حاضر تھی۔ کھانے ٹھنڈے ہوچکے تھے۔ ضیافت کی پررونق جگمگاہٹ ماند پڑ گئی تھی۔ دن بھی چڑھ آیا  تھا اب تاخیر ممکن نہ تھی۔ نواب نے حکم دیا کہ مہمان دسترخوان پر تشریف لے آئیں اور دولہا کے بغیر ہی کھانا شروع کردیں۔ بھوک سے بےتاب مہمان جلدی جلدی نشستیں سنبھال کر بیٹھ چکے تھے کہ عین اس وقت قلعہ کے بیرونی پھاٹک پر قرنے کی آواز گونجی۔ اس کے فوراً بعد قلعہ کی فصیل سے بگلوں اور نفیریوں کی تیز آوازیں سنائی دینے لگیں جس سے اداس قلعہ کے سب ایوانوں میں خوشی کےنعرے گونج اٹھے۔ نواب تیزی سے پھاٹک کی طرف لپکا تاکہ اپنے معزز داماد کا خود استقبال کرے اورعزت کے ساتھ اسے اندر مہمانوں کےسامنےلائے۔
خندق پر پل بچھا دیا گیا اور اجنبی دروازے میں داخل ہوا۔ قدآور، وجیہہ و شجاع نوجوان گھوڑے پرسوار۔ مگر چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی۔ آنکھیں گہری سیاہ بڑی بڑی پرکشش مگر غم ناک، اسے اس حال میں اور یکہ و تنہا دیکھ کر نواب کے جذبات کو ٹھیس لگی۔ ایک لمحہ کے لیے اس کی عظمت اور وقار نے انگڑائی لی، وہ برہم ہوتا مگر دوسرے ہی لمحہ اس خیال سے مسکرا دیا کہ شاید نوجوان اپنے جوش اشتیاق میں ہمراہیوں کو پیچھے چھوڑ کر خود پہلے آپہنچا ہے اور خود ہی اپنے قیاس پر مطمئن ہوگیا۔
اجنبی نے بڑی متانت اور احترام سے کہا ‘‘اس بےموقع اور بےوقت آنے پر میں انتہائی شرمسار ہوں۔ دراصل….’’ نواب نے بات پوری ہونے سے پہلے ہی اسے بغل گیر کرلیا اور اسے کچھ کہنے کا موقع دینے کی بجائے اس کی تعریف و توصیف شروع کردی۔ نوجوان نے ایک دو بار پھر اصل مقصد بیان کرنے کی کوشش کی مگر نواب نے اسے پیار سے ڈانٹ کر صاف کہہ دیا کہ پہلے ہی ہم بہت انتظار کی کوفت برداشت کر چکے ہیں۔ مہمان کھانے پر بیٹھ چکے ہیں۔ اب باتیں پھر کسی وقت اطمینان سے ہوں گی۔ اس نے سر تسلیم خم کردیا اور نواب اپنی ہی سناتا ہوا اسے اندرونی ایوان میں لے آیا۔ نوجوان پھر اصل بات کہنے ہی والا تھا کہ اس کی نگاہ سامنے دلہن پر پڑ گئی جسے کنیزیں اور خادمائیں جھرمٹ میں لیے آرہی تھیں۔ شرم و حیا سے دلہن کا چہرہ کندن کی طرح دمک رہا تھا۔ جو کبھی کبھی گلناری ہوجاتا تھا۔ ایک نگاہ میں نہ جانے اس پر کیا جادو ہوگیا کہ وہ دم بخود رہ گیا۔ اس کا دل دھڑکنے لگا اور دھڑکن میں ایک ٹیس سی محسوس ہونے لگی۔ مگر اسی وقت اس کے ذہن میں دوست کے درد ناک الفاظ گونج گئے اور اس کا رنگ پہلے سے بھی زیادہ پیلا پڑگیا۔
ایک انا نے دلہن کے کان میں کچھ کہا۔ اس نے اپنی لمبی لمبی پلکیں اٹھاکر خمار آلود مست نگاہوں سے دولہا کی طرف دیکھا کچھ کہنے کے لیے لب کھولے مگر وہ گلاب کی پنکھڑیوں کی مانند کپکپا کر رہ گئے۔ نگاہیں جھک گئیں اور چاند سے زیادہ حسین چہرہ مسکرا اٹھا۔ محبت کی زبان یہی جذباتی کیفیات ہوتی ہیں جنہیں صرف دل محسوس کرکے مفہوم سمجھ لیتا ہے۔ تجربہ کار اناؤں نے تاڑ لیا کہ پہلی نگاہ ہی میں دولہا دلہن ایک دوسرے پر فدا ہوگئے ہیں۔ دونوں کو پہلو بہ پہلو بٹھا دیا گیا اور ہر طرف لذت کام  و دہن کی تسکین کی جانے لگی۔ دسترخوانوں پر زور شور سے دست درازیاں ہورہی تھیں منہ چل رہے تھے اور بےہنگام آوازیں نکل رہی تھیں۔ یہ محفل ناؤ نوش قلعہ کے ایوان خاص میں سجی تھی جہاں دولہا کو بٹھایا گیا تھا وہاں دیوار پر وہ تمغے اور انعامات سجے ہوئے تھے جو اس خاندان کے بہادر جنگ آزماؤں نے معرکوں کے دوران جیتے تھے۔ کہیں کٹی پھٹی زریں لٹک رہی تھیں۔ کہیں گھوڑے سوار نیزہ بازی میں اپنے جوہر دکھانے والے نیزے  چمکا رہے تھے۔ ایک طرف جنگلی ہاتھی کے بڑے بڑے دانت ٹنگے ہوئے تھے دوسری طرف بھیڑیے کی کھوپڑی دانت نکالے دکھائی دیتی تھی۔ 
ان کے اوپر کمانیں آویزاں تھیں اور جنگلی پھریر سے خوبصورت انداز میں رکھے ہوئے تھے۔ عین دولہا کے سر پر بارہ سنگھوں کے سینگوں کا ایک جھرمٹ عجیب  چھتر سا بنائے تھا۔
نواب بےحد خوش تھا کیونکہ اس کا داماد توقع سے زیادہ وجیہہ و شکیل اور پروقار قدآور تھا۔ اس نے جھوم جھوم کر پہلے لطائف و ظرائف سنانے شروع کیے۔ مہمانوں نے حسب معمول قہقہے لگا کر مزاح کا لطف لیا۔ حالانکہ نواب کے لطیفے پھسپھسے تھے۔ پھر وہ اپنے اصل موضوع پر آگیا اور روحوں کے حیرت انگیز کارنامے بیان کرنے لگا۔ دولہا دلہن کی نظریں کبھی کبھی آپس میں ٹکراتیں اور کوئی پیغام ایک دوسرے کو پہنچا کر جھک جاتیں۔ ہر بار دلہن کا چہرہ پہلے سے زیادہ گلناری اور دولہا کا چہرہ پیلا ہوجاتا۔
نواب میز پر مکے مار مار کر بڑے جوشیلے اور ڈرامائی انداز میں ڈراؤنے قصے اور محیر العقول واقعات بیان کیے جارہا تھا۔ اس سے پہلے اس نے اتنا زور بیان کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بوڑھی انا ئیں پنکھوں کی اوٹ میں نہیں  رہی تھیں۔  حاضرین  کبھی بےتحاشا ہنستے اور کبھی حیرت سے منہ پھاڑ کر تکنے لگتے۔ نواب حیران تھا کہ اس کا داماد بدستور متین و سنجیدہ اور اپنے ماحول سے قطعی بےگانہ دکھائی دے رہا تھا۔ کبھی کبھی وہ خیالات میں بالکل کھوجاتا۔ کبھی اذیت و کرب کے بادل اس کے چہرے کو دھندلا  کر دیتے۔ اس نے پہلو میں بیٹھی ہوئی دلہن سے ہولے ہولے جو باتیں کیں وہ بڑی پراسرار اور عجیب تھیں۔ جنہیں سن کر اس کی درخشاں پیشانی پر پسینے آگئے تھے اور اس کے پھول سے جسم میں خوف کی لہریں دوڑنے لگیںتھیں۔
باقی مہمانوں کو بھی دولہا کی شخصیت بہت عجیب محسوس ہونے لگی تھی۔ اور وہ ایک دوسرے سے اشاروں میں حقیقت حال پوچھ رہے تھے۔ بعض کانا.پھوسی کر رہے تھے۔ نواب نے ایک اور حیرت انگیز بھیانک  کہانی شروع کی تھی کہ دولہا آہستہ آہستہ اپنی کرسی سے بلند ہوتا ہوا اٹھا۔ نواب کو ایسا لگا جیسے کہانی کے جِن کی طرح اس کا قد بھی لمبا ہوتا ہوتا قلعے کی چھت سے جا لگا ہے۔ نواب پر دہشت غالب آنے لگی۔ دولہا اس کی نظروں میں نظریں ڈالے عجیب انداز میں اس کی طرف بڑھا اور ہاتھ اٹھا کر الوداع کہا۔ آدھی رات گزر چکی تھی۔ اس وقت یہ کیوں اور کہاں جا رہا ہے….؟ نواب نے سہمے ہوئے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔ جو  دلہن اور حجلہ عروسی کو چھوڑ کر آدھی رات کے وقت کہیں اور جانا چاہتا تھا۔
نوجوان نے خود ہی ایک گھمبیر آواز میں کہا۔ ‘‘آج رات میں نے ایک ایسے گوشہ تنہائی میں سونا ہے جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے اور مجھے ضرور وہاں پہنچنا ہے۔’’ یہ کہتے ہوئے وہ ایوان سے باہر جانے لگا۔ نواب اس کے پیچھے لپکا اور پکار کر کہا کہ وہ اس کی عزت و وقار کا کچھ تو خیال کرے۔ اس کے دشمن کیا کہیں گے….؟ مگر وہ نفی میں سر ہلاتا ہوا ایوان سے باہر نکل گیا۔ غلام گردش میں جہاں تاریکی زیادہ گہری تھی وہ ذرا رکا۔ باہر گھوڑا زور زور سے ہنہنا رہا تھا اور زمین پر اگلا کھر مار رہا تھا۔ اور یہ آواز گنبدوں میں گونجتی ہوئی کتنی دیر تک گھومتی رہتی تھی۔ نوجوان نے بھی ایسی ہی پراسرار آواز میں نواب کو مخاطب کرکے کہا۔
‘‘اب تنہا ئی میں آپ کو حقیقت حال سے آگاہ کیے دیتا ہوں۔ سنیے! میرا حجلۂ عروسی میری قبر ہے اور میری دلہن وہ کیڑے مکوڑے ہیں جو قبر میں میرے  منتظر ہیں۔ میں مرچکا ہوں۔ ڈاکوؤں نے مجھے قتل کردیا تھا۔ میرا بے روح جسم وارٹر برگ میں رکھا ہوا ہے جسے آدھی رات کو دفنایا جائے گا۔ قبر میری چشم براہ ہے۔ مجھے وعدہ کے مطابق فوراً اپنے مردہ جسم کے پاس پہنچنا ہے۔’’  یہ کہتے ہی وہ پھرتی سے اچھل کر اپنے سیاہ اصیل گھوڑے پر سوار ہوا ایڑی ماری اور تاریکی میں غائب ہوگیا۔
نواب اس طرح سکتہ کے عالم میں کھڑا رہ گیا جیسے اس کی روح بھی جسم سے پرواز کر گئی ہو پھر وہ بمشکل گھسٹتا ہوا ایوان خاص میں پہنچا۔ اس کا چہرہ بھیانک طور پر سفید ہو رہا تھا ، اس نے مری ہوئی آواز میں سارا واقعہ مہمانوں کو کہہ سنایا۔ اچانک خوف و ہراس پھیل گیا۔ ہر شخص اپنی سمجھ کے مطابق رائے  زنی کرنے لگا۔ بھوت پریت، جن، روح، چھلاوہ سب کچھ بتایا گیا اور بقیہ آدھی رات انہی چہ میگوئیوں میں بیت گئی۔ مگر یہ سارے شکوک و شبہات صبح اجالے کے ساتھ ہی دور ہوگئے۔ دن نکلتے ہی رئیس زادے کے ہمراہی نوکر چاکر قلعے میں آپہنچے اور اپنے نوجوان بدقسمت آقا کی بےوقت اچانک موت اور وارٹزبرگ میں آدھی رات کے وقت دفنائے جانے کی عام تفصیل بیان کرکے رات کے واقعہ پر مہر تصدیق ثبت کردی۔
شادی کا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ نواب نے اپنا سر پیٹ لیا۔ انا ئیں پچھاڑ کھا کر بےہوش ہوگئیں۔ آہ و بکا اور نالہ و شیون سے سارے قلعے میں کہرام مچ گیا۔ سب سے زیادہ قابل رحم حالت نوجوان حسین دلہن کی تھی جو شوہر کی آغوش میں جانے سے پہلے ہی بیوہ ہو کر رہ گئی تھی اور شوہر بھی کیسا جس پر دنیا رشک کرے۔ وہ درد ناک چیخیں مارتی اور غش پر غش کھاتی تھی۔ اس کی اس دل شکستہ حالت اور حسرت ناک بیوگی پر ہر ایک کا دل تڑپ رہا تھا۔ نواب غم سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔ وہ اپنے ایوان میں دروازے بند کرکے تنہائی میں بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔
اس دل دوز سانحہ اور اپنی بیوگی کی دوسری رات دلہن حجلۂ عروسی میں مغموم و رنجور پڑی تھی۔ ایک انّا اس کے ساتھ لیٹی غم غلط کرنے کے لیے اسے جنوں پریوں کی کہانی سنا رہی تھی۔ اس خاتون کی داستان.گوئی ساری جرمنی میں مشہور تھی وہ اسی فن کی ماہر تھی۔ مگر اس کے فن کا جادو اس پر ہی چل گیا تھا یعنی وہ کہانی کہتے کہتے سوگئی تھی جبکہ سوگوار دوشیزہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ یہ خوابگاہ قلعے کے آخری سرے پر تھی اور باہر ایک خوبصورت چھوٹا سا باغ تھا۔ چاند کی کرنیں کھڑکی میں سے اندر آرہی تھیں اور دوشیزہ ٹکٹکی باندھے کھڑکی سے آتی ہوئی چاندنی کو دیکھ رہی تھی۔
تھوڑی دیر پہلے قلعہ کے گھڑیال نے آدھی رات بیتنے کا اعلان کیا تھا۔ اچانک اسے باغ سے بڑی مدھر اور دلکش موسیقی کی آواز سنائی دی۔ وہ اچھل کر مسہری سے اٹھی اور لپک کر کھڑکی میں پہنچ گئی۔ چاندنی اور تاریکی کے جال میں چھپی ہوئی ایک وجیہہ و قدآور شخصیت باغ میں کھڑی دکھائی دی۔
جیسے ہی اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا چھٹکی ہوئی چاندنی میں اس کا چہرہ صاف اور واضح نظر آیا۔ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات سے اس کا دل تیز تیز دھڑکنے لگا کیونکہ سامنے اس کے دولہا کی وہی روح کھڑی محبت بھری نظروں سے اسے تک رہی تھی۔
موسیقی کی آواز نے انا کو بھی جگا دیا تھا اور وہ بھی دوشیزہ کے پیچھے آکھڑی ہوئی تھی۔ اس نے بھی دیکھتے ہی پہچان لیا اور دہشت کےمارے اس کی چیخ نکل گئی۔ دوشیزہ نے پلٹ کر بڈھیا کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا اور سہارا دے کر دوبارہ باغ میں نگاہ ڈالی تو وہاں کچھ بھی نہ تھا۔
بڑھیا کا خوف و دہشت کے مارے برا حال تھا۔ مگر دوشیزہ کا دل چاہ رہا تھا اس کے محبوب کی روح پھر آئے بالکل قریب آجائے۔ روح میں بھی وہی مردانہ وجاہت اور خوبروئی تھی، جیسی اس نے دولہا کے مجسم سراپا میں دیکھی تھی۔ بڑھیا نے گھگیا کر اعلان کردیا کہ آج کے بعد وہ پھر کبھی اس خوابگاہ میں نہیں سوئے گی۔ تاہم دوشیزہ نے اپنی دہشت زدہ انّا سے یہ حلف لے لیا کہ وہ روح کے آنے کا کسی سے ذکر نہیں کرے گی۔ تاکہ کم از کم اسے تو اپنی اسی خوابگاہ میں سونے کا موقعہ ملا رہے جہاں اس کے محبوب کی روح اپنی جھلک دکھا کر اس کے دل کو قدرے سکون دے گئی تھی اور امید تھی کہ وہ پھر بھی اس سے ملنے آئے گی۔ عرسی و فرشی عاشق و معشوق کا تعلق ہر رات قائم ہوتا رہا۔ روح باغ میں نے نوازی کا جادو جگاتی اور دوشیزہ کھڑکی سے اسے دیکھ دیکھ کر اپنے ارمانوں کو سلانے کے لیے تھپکیا دیا کرتی۔ ادھر بوڑھی انّا اس راز کو ہضم نہ کر پائی اس کا پیٹ پھول گیا اور اس نے ہر ایک سے یہ حلف لے لےکر کہ کسی سے ذکر نہ کرنا روح کے آنے کا واقعہ بیان کرنا شروع کردیا۔  مگر یہ احتیاط اور پابندی ایک ہفتہ بعد خودبخود ختم ہوگئی جب صبح ناشتے پر ایک کنیز نے یہ انکشاف کیا کہ چندہ بی بی خوابگاہ سے غائب ہیں۔
بستر پر شکن تک نہیں جیسے اس پر کوئی بیٹھا تک نہیں۔ کھڑکی کھلی ہوئی ہے۔
یہ سنتے ہی نواب کا تو یہ حال ہوگیا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس کے دوست دشمن اس واقعہ کو کیسے کیسے رنگ دیں گے۔ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ آخر یہ کیسے ہوا….؟
اس نے  تلاش میں چاروں طرف جاسوس اور گھڑسوار دوڑا دیے ، اوڈن والڈ کا کونہ کونہ، چپہ چپہ اور جنگلوں کا پتہ پتہ دیکھ ڈالیں خواہ کچھ بھی کرنا پڑے اس کی پیاری بچی ڈھونڈ نکالیں۔ اس موقعہ پر انّا کی چیخ نکل گئی اور وہ بےساختہ کہہ اٹھی۔ ‘‘وہ اب کہاں ملے گی اسے تو بھوت…. بھوت…. بھوت  اٹھا لے گیا ہے۔’’ اس نے ڈرتے ڈرتے روح کے آنے اور باغ میں کھڑے ہو کر ساز بجانے اور دوشیزہ کا اسے محویت سے دیکھنے کا سارا واقعہ سنا ڈالا۔ سب سننے والوں کو یقین آگیا کہ دولہا کی روح دلہن کو اٹھا لے گئی ہے۔ شاید ان کی بچی بھی اب قبر میں سوتی ہوگی۔ یہ ہولناک خیال نواب کے لیے سوہان روح ہوگیا۔ قلعہ کے محاظ نے بھی تصدیق کی کہ قریب آدھی رات اسے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز گونجتی سنا ئی دی تھی۔ جو دور ہوتی چلی گئی جیسے کوئی پہاڑ کے ڈھلوان پر گھوڑا دوڑائے جا رہا ہو۔ جرمنی میں روحوں کا یوں آنا اور کسی کو اٹھا لے جانا عام واقعہ تھا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
نواب کی حالت ناقابل بیان ہوچکی تھی۔ وہ زندہ دل انسان بجھی ہوئی راکھ کی مانند خاموش ہوگیا تھا۔ ہر طرف سے یہی اطلاع آتی تھی کہ نواب زادی کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ ناامید ہو کر نواب نے خود کمر ہمت کسی اور یہ سوچا کہ یہ تو وہ اپنی لخت دل کو ڈھونڈ لائے گا یا خود بھی کسی گوشۂ گمنامی میں کھو جائے گا۔ یہ تہیہ کرکے اس نے گھوڑا تیا ر کرنے کا حکم دیا۔ وہ رکاب میں پاؤں رکھنے لگا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ سامنے اٹھی۔ اس کی حسین و جمیل من موہنی بیٹی جوش مسرت سے ہاتھ ہلاتی ایک گھوڑے پر سوارچلی آرہی تھی جس کے ساتھ اس کا وجیہہ و شکیل دولہا بیٹھا مسکرا رہا تھا۔ دولہا تھا یا دولہے کی روح! نواب حیرت و استعجاب سے انہیں دیکھے جا رہا تھا۔
 لڑکی گھوڑے سے اتر کر باوقار انداز میں چلتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔ نواب کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ ارد گرد کھڑے ہوئے مہمان، خادم، کنیزیں نوکر چاکر سب ہی بت بنے یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ دولہا کا لباس شاندار اور دیدہ زیب تھا، اس کا سرخ و سپید چہرہ ہشاش بشاش تھا۔ اس کی چال سے جوانی کی ترنگ عیاں تھی۔ خوبصورت آنکھیں مسکرا اور ناچ رہی.تھیں۔
جلد ہی یہ بھید کھل گیا کہ دولہا کی روح نہیں بلکہ مجسم انسان دلہن کے ساتھ ہے اور یہ انسان سرہرمن والئی اسٹارکن فاسٹHerman Von Starkenfaust ہے۔ ہرمن نے تمام داستان من و عن سنا ڈالی اور بتا دیا کہ وہ اپنے عزیز دوست کی اچانک موت کی اطلاع دینے ہی پہنچا تھا۔ مگر نواب نے اسے انتہائی کوشش کے باوجود بات کرنے کا موقعہ نہ دیا۔ آخر نواب کی کہانیاں سنتے سنتے اسے ایک نیا خیال سوجھا۔ اس نے اپنا فرض بھی پورا کردیا اور دلہن جسے ایک نظر دیکھ کر ہی وہ دل ہار بیٹھا تھا اور ذرا دیر کے قُرب نے اسے اس درجہ متاثر کردیا تھا کہ وہ محسوس کرنے لگا اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ خاندانی دشمنیوں کے پیش نظر یقین تھا کہ عام حالات میں نواب زادی کو حاصل کرنا قطعی ناممکن تھا۔ اسی لیے چوری چوری رات کے وقت قلعے میں آکر روح کا تاثر دیتا رہا۔ نواب زادی کی خوابگاہ کی کھڑکی کے نیچے کھڑے ہو کر دلکش ساز بجاتا رہا اور آخر اسے ایک روح کے ساتھ جانے پر آمادہ کرکے یہاں سے لے بھاگا اور گھر جاتے ہی شادی کرلی۔
حالات کا یہ پراسرار تانا بانا نہ بنا گیا ہوتا تو نواب کے سخت مزاج میں ذرا سی بھی لچک پیدا نہ ہوسکتی۔ وہ اپنی ہتک اور بیٹی کے اغوا پر برا فروختہ ہو کر مرنے مارنے پر تل جاتا۔ دونوں خاندانوں میں خون کی ندیاں بہہ جاتیں۔ مگر اب اسے یہ خوشی تھی کہ اس کی اکلوتی لاڈلی بچی جسے وہ کھو بیٹھا تھا جیتی جاگتی ہنستی کھیلتی مل گئی تھی۔ اسے لے جانے والا بھوت، جن یا روح نہیں تھی۔ بلکہ وہی قابل فخر بہادر و خوبرو نوجوان تھا جس پر خود اس نے اپنے داماد ہونے کا قیاس کرلیا تھا۔  قدرت کو یہی منظور تھا۔ اس ملاپ نے دو خاندانوں کی دیرینہ دشمی کا خاتمہ کرکے نفرت محبت میں بدل دی۔


[ماخوذ از :  ’’ہمدر صحت ڈائجسٹ‘‘ کراچی]

امریکی داستان گو  مصنف اور  انشاپرداز

واشنگٹن ارونگ ۔1783ء تا 1859ء


امریکی داستان گو  مصنف اور   انشاپرداز Washington Irving  واشنگٹن ارونگ ،    1783ء میں نیویارک میں پیدا ہوئے  ۔ قانون کی تعلیم کے زمانہ ہی سے اس نے رسالوں کے لیے لکھنا شروع کر دیا تھا۔   اس نے تقریبا دو سال یورپ میں گزارے۔ وہاں سے واپسی پر اس نے کئی فرضی ناموں سے مزاحیہ اور طنزیہ مضامین کے مجموعے  شائع کیے۔    1809 میں ارونگ نے امریکا کی تاریخ طنزیہ اسلوب میں لکھی جسے نقادوں نے امریکا کے طنزیہ ادب کا پہلا شاہکار قرار دیا۔  1815ء  میں  وہ انگلستان چلا گیا اوروہاں آبائی پیشہ لوہے کا کاروبار کرنے لگا لیکن کامیابی نہیں ہوئی، چنانچہ اس نے تصنیف و تالیف کو مستقل پیشہ بنا لیا ۔  1826 ء میں ارونگ میڈرڈ کے امریکی سفارت خانہ میں نوکر ہو گیا۔  اسکے بعد چند دن وہ امریکی سفارت گھر میں لندن میں بھی رہا اور اسکے بعد وطن لوٹ آیا۔ 1842 سے 1846 تک وہ میڈرڈ میں امریکی سفیر رہا۔  28 نومبر 1859ء  کو  مغرب کا یہ داستان گو  مصنف 76 برس کی عمر میں چل بسا۔ 
1819ء    کو  اپنی تصانیف کے ابتدائی دور میں واشنگٹن ارونگ نے یورپ  کی لوک داستانوں سے متاثر ہوکر The Sketch Book کے نام سے داستان گوئی کے انداز میں خاکے شائع کیے۔ جن میں  رِپ وان ونکل Rip Van Vinkleاور لیجنڈ آف سلیپی ہالو  Legend of Sleeping Hollow  کہانی  لوگوں  میں  بے حد مقبول ہوئی ۔    زیر نظر  کہانی ان ہی خاکوں میں شامل ایک داستان  دی اسپیکٹر برائیڈ گرُوم The Specter Bridegroom یعنی ‘‘بھُوت دُولہا ’’  کا ترجمہ  ہے۔   واشنگٹن ارونگ کے لکھے ہوئے مضامین و کہانیاں آج بھی شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ امریکا کا یہ پہلا ادیب تھا جسے انگلستان اور یورپ کے دانشوروں نے بحثیت ادیب تسلیم کیا۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں