پراسرار ، تحیر خیز  اور محیر العقول   کہانیوں  سے  دلچسپی رکھنے والوں    کے لیے بطور خاص

ٹھنڈے دوزخ کی مخلوق

Cool Air

ابتداء ہی سے انسان موت کو شکست دینے کے  طریقے کھوجنے میں  لگا ہوا ہے، مصر کے فراعین  کے علم ممیات سے افریقہ کے کالے جادو وُوڈو  اور موجودہ دور کے ماہرین طب اور سائنسدانوں تک   انسان اپنی فطرت اور قدرت سے نبر آزما  ہونے کی ناکام کوشش کرتا  رہاہے۔    لیکن قدرت سے مقابلہ کرنے والے ہمیشہ شکست کھاتے ہیں۔   موت کو شکست دینے کی  کوشش میں انسان کبھی کبھی خود کو زندہ عفریت (زومبی ) میں بھی تبدیل کرلیتا ہے۔

ایچ پی لو کرافٹ کی    زیر نظر کہانی   ‘‘کوُل ائیر’’ Cool Airبھی اسی موضوع پر ہے،    یہ کہانی    Tales of Magic and Mystery رسالے کی مارچ 1928ء کی اشاعت میں شایع ہوئی،   ایچ پی لَو کرافٹ کی  سنسنی  خیز کہانی ‘‘Cool Air  ’’ کا ترجمہ   اس کہانی پر  ہالی ووڈ  میں کئی  فلمیں بھی بن چکی ہیں۔اس  کہانی کو 1971ء، 1999ء، 2007 ء اور 2013ء میں   Cool Air اور Chill کے نام سے فلم کی صورت میں بھی ڈھالا جاچکا ہے۔ 




آپ پوچھ رہے ہیں کہ میں سرد اور خنک  ہوا سے کیوں ڈرتا ہوں....؟     
ٹھنڈے کمرے میں داخل ہوتے ہی مجھ پر دہشت کا عالم کیوں طاری ہوجاتا ہے....؟ اور بہار کے دلفریب موسم میں جب کوئی خوشگوار دن، خنک شام میں ڈھلنے لگتا ہے، تو لرز کیوں اٹھتا ہوں....؟ 
 کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میں طبعاً سردی سے متنفر ہوں،  چنانچہ مجھے کئی بار مشورہ دیا گیا کہ مستقلاً کسی گرم استوائی ملک میں رہائش اختیار کرلوں۔ 
بعض لوگ  سمجھتے ہیں کہ میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کے لیے سردی سے خوفزدہ ہونے کا مظاہرہ کرتا ہوں اور اس مظاہرے سے میرا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ متوجہ ہوں اور مجھے حیرت کی نظر سے دیکھیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ میں نمائش پسند ہوں۔ 
لیکن خدا گواہ ہے یہ دونوں نظریے غلط ہیں۔ جو لوگ  مجھے بچپن سے جانتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ مجھے نمائش اور ظاہر پسندی سے ہمیشہ نفرت رہی ہے۔ میں الگ تھلگ اور سادہ زندگی بسر کرنے کا عادی ہوں۔ رہا دوسرا نظریہ، تو اس امر کی تصدیق کرنے والے بھی مل جائیں گے کہ کچھ عرصہ پہلے مجھے سردی سے قطعی خوف محسوس نہ ہوتا تھا۔ کڑکڑاتے جاڑوں میں معمولی کپڑے پہن کر رات گئے برفباری میں تنہا گھومنا میرا محبوب ترین مشغلہ تھا، مگر ایک خاص واقعے نے مجھ سے یہ مشاغل چھین لیے۔
 میں یہ واقعہ من و عن آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ا س طرح آپ خود اندازہ کرسکیں گے کہ میں سردی اور سرد ہوا سے خوف کھانے میں کہاں تک حق بجانب ہوں۔
یہ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ وہ  خوف کو  صرف اندھیرے، سکوت اور تنہائی سے منسوب کرتے ہیں ، کیونکہ مجھے اس کے برعکس تجربات کا سامنا رہا ہے۔   مجھے نیویارک جیسے بڑے شہر  کی گنجان ترین آبادی میں واقع ایک بورڈنگ ہاؤس میں پہلی بار حقیقی خوف سے سابقہ پڑا، جبکہ ایک خاتون اور دو صحت  مند اور توانا مرد میرے ساتھ تھے.... سہہ پہر کا وقت تھا، نیچے سڑک پر سینکڑوں لوگ آجارہے تھے، بسیں اور گاڑیاں چل رہی تھیں، دکانیں کھلی تھیں اور ان پر خریداروں کا ہجوم تھا۔ اس کے باوجود خوف کا سامنا ہوا، تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ  گئیں، مگر ٹھہریے، اس طرح شاید ساری بات آپ کی سمجھ میں نہ آسکے۔ میں شروع سے یہ قصہ سناتا ہوں:
1923ء کا ذکر ہے۔ میں ایک ماہوار میگزین  میں قلیل معاوضے پر ملازم تھا۔ مالی حالت پتلی ہونے کی وجہ سے اکثر مقروض رہتا۔ زیادہ کرایہ ادا کرنے کی سکت نہ تھی، پھر بھی چاہتا تھا کہ کوئی ایسی جگہ مل جائے جو زیادہ گندی اور تکلیف وہ نہ ہو۔ تلاش بسیار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ اتنے کم پیسوں میں معقول جگہ کا ملنا ممکن نہیں، چنانچہ ایک ایسے بورڈنگ ہاؤس میں کمرہ کرائے پر لے لیا جو دوسری جگہوں سے نسبتاً اچھا تھا۔ یہاں سے رسالے کا دفتر نزدیک تھا اور عمارت کے نچلے حصے میں روٹی، گوشت اور دودھ کی دکانیں تھیں اور آمدورفت پر زیادہ خرچ اٹھنے کا امکان نہ تھا۔  
جس عمارت کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے،  نیویارک  کی ویسٹ فورٹین اسٹریٹ پر  واقع چار منزلہ اور بھورے پتھروں سے بنی ہوئی تھی۔ اندرونی دیواریں زیادہ تر چوبی تھیں اور انہیں جگہ جگہ سے دیمک تباہ کرچکی تھی۔ زینوں اور برآمدوں میں کئی ایک مقامات پر سنگ سفید کی ٹائلیں نظر آتی تھیں، لیکن اکثر یہ پتھر گھس کر بےرنگ ہوچکے تھے اور کئی ایک جگہوں پر تو انہیں نکال کر گارے اور چونے سے عام اینٹیں لگا دی گئی تھیں۔  کمروں میں بڑے بڑے سنگی آتش دان اور کارنس(چھجّا) کسی زمانے میں ضرور خوبصورت ہوں گے۔ لیکن اب مکینوں کی عُسرت و افلاس کے سبب بےہنگم اور بےمصرف دکھائی دیتے تھے۔ ان آتش دانوں میں شاید کبھی آگ جلی ہو۔ دراصل نیویارک جیسے مہنگے شہر میں غریب آدمی کے لیے ایندھن اور کوئلے کا خرچ برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔
ہماری مالکہ مکان کا نام مس ہریرو Herrero تھا۔ ادھیڑ عمر کی اس ہسپانوی عورت کی ٹھوڑی پر چند بال تھے جن کی وجہ سے وہ خاصی مضحکہ خیز دکھائی دیتی تھی، تاہم طبیعت کی بہت نرم اور اچھی تھی۔ میں نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ اکثر مالکان کی طرح اسے کرایہ داروں کی شکایتیں کرنے کی عادت نہیں اور نہ وہ رات گئے تک بلب جلانے یا دیر سے گھر لوٹنے پر ناک بھوں چڑھاتی ہے۔ میرے علاوہ دوسرے کرایہ داروں کی اکثریت نچلے طبقے کے ہسپانوی مزدوروں پر مشتمل تھی۔ یہ لوگ شاذ ہی ایک دوسرے سے بات کرتے، اس لیے ماحول خاصا پرسکون تھا۔ نیچے سڑک پر سے گاڑیاں گزرنے کی آوازیں البتہ لکھنے میں مخل ہوتی تھیں، لیکن جلد ہی میں ان کا عادی ہوگیا۔
اس عمارت میں منتقل ہونے کے تین ہفتے بعد ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ ایک شام مجھے اچانک احساس ہوا کہ کمرے کی چھت نم ہے اور کئی جگہوں سے ٹپک رہی ہے۔ باہر جھانکا، مطلع صاف تھا اور بارش کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ میں فوراً نیچے گیا اور مکان مالکہ مس ہریروکو اطلاع دی۔ وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولی:
‘‘اب ڈاکٹر موناز   Muñoz کو کون سمجھائے، اس نے اپنی لیبارٹری میں کوئی دوا گرا دی ہوگی۔  بےچارہ بہت بیمار ہے، روزبروز اس کی حالت بگڑتی جارہی ہے، مگر کیا کروں، وہ کسی سے اپنا علاج کرانے پر رضا مند نہیں ہوتا۔ طویل بیماری نے اسے چڑچڑا کردیا ہے، ورنہ پہلے بہت خوش مزاج انسان تھا۔’’
‘‘آخر ڈاکٹر موناز چھت پر کیا کر رہا ہے....؟’’ میں نے سوال کیا۔
‘‘کچھ کہہ نہیں سکتی، شاید نہا رہا ہوگا۔ دن میں بیسیوں مرتبہ پانی میں عجیب عجیب خوشبوئیں  ڈال کر نہاتا ہے.... بڑی انوکھی عادتیں ہیں اس کی۔’’
‘‘کیا وہ لوگوں کا علاج معالجہ کرتا ہے....؟’’
‘‘نہیں، عرصہ ہوا اس نے یہ کام  چھوڑ دیا۔ کہتے ہیں بہت بڑا ڈاکٹر تھا۔ میرے والد کہا کرتے تھے بارسیلونا Barcelona میں اس کی بڑی شہرت تھی۔ حال ہی میں ہمارا ایک مستری چھت کی مرمت کرتے ہوئے چوتھی منزل سے گر پڑا تھا، ڈاکٹر موناز نے اس کا بازو جوڑ دیا، حالانکہ ہسپتال والوں نے یہ بازو کاٹنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ڈاکٹر موناز اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلتا۔ میرا بھائی استیبان Esteban اسے کھانے پینے کی چیزیں، لانڈری سے دھُلے ہوئے کپڑے اور دوائیں لاکر دیتا ہے۔ وہ منوں کے حساب سے امونیا منگواتا ہے، معلوم نہیں کہاں استعمال کرتا ہے۔’’
میں ڈاکٹر موناز کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا تھا، لیکن مس ہریرو سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ میں کمرے میں لوٹ آیا۔ تھوڑی دیر بعد چھت سے پانی ٹپکنا بند ہوگیا۔ کان لگا کر سنا، تو کسی مشین کی گھر گھر سنائی دی۔ اس سے پہلے بھی میں یہ آواز بیسیوں مرتبہ سن چکا تھا، لیکن کبھی توجہ نہ دی۔ میں ڈاکٹر موناز کے بارے میں سوچنے لگا۔ اگر وہ اتنا بڑا ڈاکٹر ہے، تو اس واہیات بورڈنگ ہاؤس میں کیوں رہتا ہے۔ نہ جانے اسے کیا مرض ہے، لیکن وہ ہسپتال میں کیوں نہ گیا....؟  دن بھر کمرے میں بند رہنے سے اس کا مطلب کیا ہے، کوشش کے باوجود مجھے ان سوالوں کے جواب نہ مل سکے اور بالآخر میں نے سوچنا ترک کردیا۔
حقیقت یہ ہے کہ مجھے دل کا دورہ نہ پڑتا، تو ڈاکٹر موناز سے ملاقات بھی نہ ہوتی۔ ایک سہہ پہر اچانک مجھے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔ ڈاکٹر مجھے بتا چکے تھے کہ دل کا دورہ پڑتے ہی فوراً طبی امداد حاصل کرنی چاہیے، ورنہ یہ دورہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ دونوں ڈاکٹر جن سے میں وقتاً فوقتاً طبی مشورے لیا کرتا تھا، بورڈنگ ہاؤس سے بہت دور تھے، لہٰذا میں نے ایک ہاتھ سینے پر رکھا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ چوتھی منزل پر یعنی میرے کمرے کے عین اوپر ڈاکٹر موناز کا فلیٹ تھا۔ میں نے اس کے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے کسی نے بہت شائستہ انگیزی میں نام اور ملاقات کا مقصد پوچھا اور میرے جواب دینے پر دروازہ کھول دیا۔
مجھے اچھی طرح یہ یاد ہے کہ جون کا مہینہ تھا اور باہر اچھی خاصی گرمی تھی، لیکن کمرے میں داخل ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا کے ایک جھونکے نے میرا خیرمقدم کیا۔ میں کانپنے لگا۔ یوں محسوس ہوا برف خانے میں آگیا ہوں۔ ڈاکٹر موناز کی نشست گاہ، سامان آرائش سے پُر تھی۔ خوبصورت صوفے، سیاہ مہونگنی کی لکڑی کا بنا ہوا اعلیٰ فرنیچر، کتابوں کی منقش الماریاں، حسین  و دلفریب رنگوں کے پردے۔ اس غلیظ اور پرانی عمارت میں ایسا سجا سجایا کمرہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی۔ دائیں طرف چھوٹی سی لیبارٹری تھی جس میں سے کسی مشین کے چلنے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی  اور کھلے دروازے میں سے دواؤں کی بھری ہوئی شیشیاں، فلاسک، اسپرٹ لیمپ ، قمیضیں اور شیشے کی نلکیاں دکھائی دیں.... غالباً یہی کمرہ میرے کمرے کے عین اوپر واقع تھا۔ دروازے کی بائیں جانب اس کی خواب گاہ تھی جس میں پرتکلف بستر، سنگھار، فانوس اور آرائش کی دوسری چیزیں نظر آرہی تھیں۔ خواب گاہ کے دروازے کے ساتھ ہی ایک اور دروازہ تھا جو غالباً غسل خانے کا تھا۔ رہائش سے محسوس ہوتا تھا کہ ڈاکٹر موناز اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باذوق انسان ہے۔
اس کا قد چھوٹا اور سر باقی جسم کی مناسبت سے بڑا تھا۔ لباس انگریزی وضع کا اور نہایت عمدہ سلا ہوا، چہرے پر تفکر کا خاص انداز، گھنی پلکوں کے نیچے تیز اور ہوشیار آنکھیں، فرانسیسی وضع کی سرمئی  ڈاڑھی، آنکھوں پر بغیر فریم کی عینک، قدیم ہسپانیوں کی طرح اونچی ناک اور خوبصورت دہانہ جو اس کی مضبوط اور ناقابل تسخیر قوت ارادی کا پتہ دیتے تھے۔ رنگ برف کی طرح سفید۔ مجموعی طور پر کسی اعلیٰ خاندان کا فرد نظر آتا تھا۔ان خوبیوں کے باوجود پہلی بار اس کے سرد اور ٹھنڈے کمرے میں قدم رکھتے ہی مجھے ایک ناقابل توجیہہ کراہت کا احساس ہوا اور میں خاصی دیر تک اپنے اس ردعمل کی وجہ تلاش نہ کرسکا۔ ہوسکتا ہے یہ کراہت، پھولے ہوئے چہرے اور بے حد سرد انگلیوں کے لمس نے پیدا کی ہو یا اس کا سبب کمرے کا انتہائی سرد ماحول ہو۔ بہرحال اس سے ہاتھ ملا کر مجھے متلی سی ہونے لگی تھی۔
اس کی آواز نامانوس تھی اور وہ ٹھہر ٹھہر کر اور پراسرار لہجے میں گفتگو کرتا تھا۔ میں کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسے اپنا مرض بتا چکا تھا، اس لیے غالباً وہ مرض کی طرف سے میری توجہ ہٹانے کے لیے اپنی سائنسی تحقیقات بیان کرنے لگا۔ میری طبیعت سنبھل گئی تھی، اس لیے یہ باتیں دلچسپ معلوم ہوئیں۔ میں صوفے پر دراز ہوگیا، وہ کہہرہاتھا:
‘‘ادراک ذات اور قوت ارادی، دواؤں سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ اگر مادی جسم صحیح سالم ہو تو قوت ارادی کے بل پر اپنے آپ کو زندہ رکھا جاسکتا ہے، خواہ  اعضائے رئیسہ میں سے ایک آدھ ختم ہوچکا ہو۔’’ قدرے توقف سے وہ ہنستے ہوئے بولا:
‘‘کسی دن میں تمہیں دل کے بغیر زندہ رہنے کا طریقہ بھی بتاؤں گا۔’’
میں خاصی دیر تک اس کے پاس بیٹھا رہا۔ معلوم ہوا وہ بعض جلدی بیماریوں میں مبتلا ہے اور یہ بیماریاں ایسی ہیں کہ ان کے لیے دوا سے زیادہ احتیاطی تدابیر اور شدید سردی کی ضرورت ہے۔ 55 درجے فارن ہائیٹ سے زیادہ درجہ حرارت اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا تھا، چنانچہ اس نے پیٹرول کے انجن اور امونیے سے مطلوبہ سردی پیدا کرنے کا بندوبست کر رکھتا تھا۔ اسی انجن کی گھر گھر مجھے اپنے کمرے میں سنائی دیتی تھی۔
ڈاکٹر موناز کے علاج سے جلد ہی مجھے آرام آگیا۔ وہاں سے لوٹا، تو ہمیشہ کے لیے اس کا مداح بن چکا تھا۔ اس دن کے بعد ہفتے میں دو تین بار میں اسے ملنے جاتا۔ وہ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آتا تھا۔ اس کے کمرے میں سردی ناقابل برداشت تھی اس لیے وہاں جانے سے پہلے میں ایک لمبا اونی کوٹ پہن لیتا۔ وہ مجھے اپنی زندگی کے تجربات سناتا جو بالعموم الف لیلوی داستانوں کی طرح محیر العقول ہوتے تھے۔ 
وہ قدیم اطبا  مثلاً  مصر کے قدیم طبیبوں  اور یونانی حکیم جالینوس   وغیرہ کا ذکر  بہت  جوش سے کرتا تھا، کیونکہ بقول اس کے یہ لوگ ایسے ایسے نسخے جانتے تھے جو موت کے بعد انسانی اعصاب کو انگیخت کرسکتے ہیں۔  کئی بار اس نے مجھے  ہسپانوی صوبہ  بلنسیہ Valencia کے ایک بوڑھے ڈاکٹر تارس  Dr. Torres کی کہانی سنائی جو اٹھارہ سال قبل کئی طبی تجربوں میں اس کا شریک رہا تھا۔ اپنے عجیب و غریب تجربات میں اسے ایک موذی مرض نے آن لیا۔ ڈاکٹر موناز نے بڑی تندہی سے اس کا علاج کیا اور اسے افاقہ ہوگیا، مگر خود ڈاکٹر موناز اس مرض میں مبتلا ہوگیا۔ یہ وہی مرض تھا جس کے لیے موناز اپنے کمرے یخ بستہ رکھتا تھا۔
وقت گزرتا چلا گیا۔ رفتہ رفتہ مجھے احساس ہونے لگا کہ ڈاکٹر موناز مرض سے شکست کھا رہا ہے۔ اس کے چہرے پر موت کی زردی چھانے لگی ہے .... اعضا کی حرکات میں التوا اور بے ڈھنگا پن آگیا اور چال میں لڑکھڑا ہٹ۔ قوت ارادی کمزور پڑ گئی اور یادداشت دھندلانے لگی۔ نہ جانے کیوں میرا پہلے دن کا احساس کراہت لوٹ آیا۔ اب پھر اسے دیکھ کر متلی سی ہونے لگتی۔
 جوں جوں دن گزرتے جارہے تھے، تیز خوبشوؤں سے اس کا عشق بڑھتا جارہا تھا۔  اس نے  اپنے لیے کئی  غیر ملکی   خصوصی مصر کی خوشبوئیں اور خوشبودار مسالہ جات   منگوا لیں تھیں ۔  اب وہ ہر وقت کمرے میں صندل، لوبان اور اگر بتیاں جلائے رکھتا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات تو اس کا کمرے پر اہرام مصر کے لجلجے اور بودار تہہ خانوں  اور مصر کی وادیٔ شاہانValley of Kingsمیں موجود فراعین کے مقبروں کا گمانہوتا۔
اس کی حالت واقعی قابل رحم تھی۔ وہ ہمیشہ کمرے کا درجہ حرارت گرانے کی فکر میں رہتا۔ میری مدد سے اس نے امونیا کے نئے پائپ فٹ کیے اور انجن کی اوور ہالنگ کی۔ اب کمرے کا درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے ہی رہتا۔ صرف باورچی خانہ قدرے گرم ہوتا، چنانچہ میں ملاقات کی غرض سے جاتا، تو ہمیشہ باورچی خانے میں بیٹھتا۔ باورچی خانہ گرم رکھنے کی وجہ محض یہ تھی کہ ٹب اور برتنوں میں پانی جم نہ جائے، وگر نہ ڈاکٹر موناز کو حرارت ہرگز پسند نہ تھی اور وہ ایک منٹ سے زیادہ باورچی خانے میں نہ ٹھہر سکتا تھا۔ چوتھی منزل پر اس کے علاوہ ایک ڈچ جوڑا بھی مقیم تھا۔ ان میاں بیوی نے مالکہ مکان سے شکایت کی کہ ڈاکٹر موناز نے اپنا فلیٹ اتنا سرد کر رکھا ہے کہ وہ دونوں رات بھر سو نہیں سکتے اور سردی سے ان کے دانت بجتے ہیں ۔ مالکہ مکان نے ڈاکٹر موناز سے ذکر کیا۔ وہ بڑے خوفناک انداز میں ہنسا اور بات کا رخ پھیر دیا۔
ان دنوں میں اکثر اسے ملنے جاتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی معیت تھکا دینے والی اور صبر آزما ہوتی تھی۔  کئی بار جی میں آیا کہ اس کی دوستی ترک کردوں، مگر وہ بڑی کامیابی سے میرا علاج کر رہا تھا اور اس کی دواؤں سے مجھے فائدہ پہنچا تھا۔ علاوہ ازیں وہ مجھ سے قیمتی دواؤں کی قیمت لیتا نہ معائنے کی فیس۔ یوں بھی میں اس کا واحد ملاقاتی تھا اور مجھے اس پر رحم آنے لگاتھا۔ کسی روز نہ جاتا، تو اسے بڑی تکلیف ہوتی۔ کمرے کی صفائی اور انجن کی دیکھ بھال ایسے کام تھے کہ وہ تنہا انہیں انجام نہ دے سکتا تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ میں اسے بازار سے چیزیں لا کر دیتا تھا۔ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ وہ ایک سیکنڈ کے لیے بھی اپنے فلیٹ سے باہر نہ آتا تھا۔
رفتہ رفتہ مجھے اس کی بہت سی حیران کن عادتوں کا علم ہوگیا۔ مثال کے طور پر وہ نہاتے وقت پانی میں اتنی خوشبوئیں ملاتا کہ میری ناک پھٹنے لگتی۔ اس کے باوجود ایک بار میں نے اسے جانگیہ پہنے دیکھا، تو میرا سر چکرانے لگا۔ کتنا گھناؤنا مرض تھا اس کا۔ جلد کا گوشت گل سڑ کر نا قابل بیان تعفن چھوڑ رہا تھا۔ جسم کے قدرتی خطوط  اور گولائیاں غائب ہوچکی تھیں اور پہلی نظر میں گوشت یوں نظر آتا تھا جیسے قصائی کی دکان پر لٹکے ہوئے بکرے کا ہو۔
بورڈنگ ہاؤس کے مکینوں  میں میرے علاوہ صرف مس ہریرو اور اس کا بھائی استیبان کبھی کبھار ڈاکٹر موناز سے ملنے جاتے تھے، لیکن بڑھتا ہوا مرض دیکھ کر انہوں نے بھی اوپر جانا بند کردیا۔ مس ہریرو تو اس کا ذکر چھیڑتے ہی سینے پر صلیب کا نشان بناتی اور کسی انجانے خوف سے کانپ اٹھتی۔ دو ایک بار ڈاکٹر موناز نے میرے ذریعے استیبان کو بلایا، مگر مس ہریرو نے سختی سے منع کردیا۔ اس طرح بیچارہ ڈاکٹر میرے رحم و کرم پر زندگی کے دن پورے کرنے لگا۔ کئی بار میں نے دبے لفظوں میں اسے مشورہ دیا کہ کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرو، مگر وہ غصے سے آگ بگولا ہوجاتا اور ایک بار تو اس نے مجھے ڈانٹ بھی پلائی۔ میں اسے مریض سمجھتا تھا، اس لیے چڑچڑا پن اور غصیلی عادات برداشت کرتا رہا۔
ایک اور تبدیلی جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کیا، یہ تھی کہ اب وہ بستر پر لیٹنے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ جب دیکھو کچھ نہ کچھ لکھنے میں مصروف رہتا۔ ہر دوسرے تیسرے دن اپنے لکھے ہوئے کاغذ ایک لفافے میں بند کرکے ڈیسک میں رکھتا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہتا،  ‘‘میرے مرنے کے بعد یہ لفافہ ڈاک میں ڈال دینا۔’’
میں نے ان لفافوں پر ایڈریس پڑھنے کی کوشش کی۔ یہ زیادہ تر مشرقی ہندوستان  کے بڑے بڑے ڈاکٹروں  کے نام لکھے گئے تھے۔ نہ جانے موناز نے ان خطوط میں کیا لکھا تھا۔
 روزبروز اس کی حالت بگڑتی چلی گئی۔ وہ کسی ذہنی کوشش میں ہمہ تن مصروف تھا۔ اس کی شخصیت موت سے نبرد آزما تھی۔ شاید  دوائیں چھوڑ کر وہ صرف قوت ارادی کے بل پر صحت یاب ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ 
ایک روز میں اس کے کمرے میں پہنچا، تو اس نے ایک طویل مسودہ دکھاتے ہوئے ایک ڈاکٹر کا نام لیا اور کہا: ‘‘میرے مرنے کے بعد یہ مسودہ اسے رجسٹری کر دینا۔’’ یہ نام سن کر میں خوف زدہ ہوگیا۔ اتفاق سے میں اس ڈاکٹر کا نام پہلے بھی سن چکا تھا اور مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ کئی برس پہلے وہ انتقال کر چکا ہے۔ کچھ پوچھنے کی کوشش کی....مگر ڈاکٹر موناز کے غصے سے خوف آتا تھا۔ 
انہی دنوں ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ بورڈنگ ہاؤس کے رہنے والوں میں ڈاکٹر موناز کے بارے  میں طرح طرح کی افواہیں پھیل گئیں۔ ہوا یوں کہ ایک شام ڈاکٹر موناز نے میری معرفت بجلی ٹھیک کرنے والے کو بلوایا۔ اس شخص نے عمارت کے نچلے حصے میں دکان کھول رکھی تھی۔ وہ پہلی جنگ عظیم میں حصہ لے چکا تھا اور طبعاً باہمت اور جرات مند تھا۔ میرے سامنے وہ اوزاروں کا تھیلا لے کر ڈاکٹر موناز کی سیڑھیاں چڑھنے لگا۔ دو تین منٹ بعد کی چیخ سنائی دی۔ میں بھاگم بھاگ اوپر پہنچا۔ وہ فلیٹ کے دروازے میں بے ہوش پڑا تھا۔ اوزاروں کا تھیلا وہاں نہ تھا، شاید وہ بھاگتے وقت فلیٹ کے اندر چھوڑ آیا تھا۔ میں نے اسے جھنجھوڑا اور جب وہ ہوش میں آیا، تو ایک لفظ کہے بغیر تیزی سے سیڑھیاں اترتا ہوا نیچے چلا گیا۔ میں ڈر گیا تھا، تاہم ہمت کرکے اندر گیا۔ 
ڈاکٹر موناز غسل خانے میں تھا، وہیں سے غصیلی آواز میں بولا: ‘‘یہ تم کس گدھے کو پکڑ لائے تھے، کم بخت مجھ سے پوچھے بغیر غسل خانے میں آگیا۔’’
میں نے خاموشی سے اوزاروں کا تھیلا اُٹھایا اور نچلی منزل میں مستری کے پاس جاکر کچھ پوچھنے کی کوشش کی، وہ مجھے کچھ نہ بتا سکا، بس کانپتا اور دعائیں پڑھتا رہا۔ اس دن کے بعد بورڈنگ ہاؤس کے رہنے والے ڈاکٹر موناز سے خوف کھانے لگے۔ اس کے پاس جانا تو کجا کوئی اس کاذکر بھی پسند نہ کرتا۔ 
تقریباً بیس دن گزر گئے اور ایک رات وہی ہوا جس کا مجھے ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا تھا۔ ڈاکٹر موناز نے اپنے کمرے کا فرش یعنی میرے کمرے کی چھت بجا کر مجھے بلایا۔ اوپر گیا، تو معلوم ہوا کہ امونیا پمپ کا انجن خراب ہوگیا ہے اور ایئر کنڈیشننگ کا نظام معطل ہونے کی وجہ سے کمرے کا درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے ڈاکٹر موناز سے مل کر انجن ٹھیک کرنے کی کوشش کی، مگر کامیابی نہ ہوئی۔ ڈاکٹر موناز کی حالت قابل دید تھی، وہ پمپ اور انجن بنانے والوں کو برا بھلا کہتا، اپنے بال نوچتا اور مایوسی سے سر کو دائیں بائیں پٹکتا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی اور آدھی رات کے وقت مستری کو بلانے گیا۔ بڑی مشکل سے ایک مستری کو جگایا اور اسے ساتھ لے کر بورڈنگ ہاؤس پہنچا۔ مستری نے انجن کی دیکھ بھال کی اور مایوسی سے بولا:
‘‘پسٹن اور کئی اہم پرزے ناکارہ ہوچکے ہیں، صبح تک کچھ نہیں کیا جاسکتا۔’’
ڈاکٹر موناز بولا: ‘‘جس طرح ہوسکے انجن کو درست کردو، منہ مانگی اجرت دوں گا۔’’
‘‘میں کہہ چکا ہوں اس وقت پرزے کہیں سے نہیں مل سکتے، صبح پتہ کریں گے۔’’
‘‘اف! اف! اف!’’ ڈاکٹر موناز چلایا۔ ‘‘نادانو! یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے، تمہیں کیسے سمجھاؤں انجن کا ٹھیک ہونا کس قدر ضروری ہے۔’’
مستری شاید اس کی حالت دیکھ کر خوف زدہ ہوچکا تھا، اوزاروں کا تھیلا اٹھا کر چلتا بنا۔
ڈاکٹر موناز کسی جان لیوا حملے کی وجہ سے دہرا ہورہا تھا۔ اچانک اس نے اپنے دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھے اور چیختا ہوا غسل خانے کی طرف بھاگا۔ میں کمرے کے وسط میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ چند منٹ بعد وہ باہر آیا۔ اس کا سارا جسم بھاری کپڑوں سے ڈھکا ہوا تھا اور گردن اور سر پر اس طرح پڑیاں بندھی تھیں کہ آنکھوں کے سوا باقی چہرہ دکھائی نہ دیتا تھا۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولا:
‘‘بھاگو اور بازار سے جس قدر برف مل سکے، لےآؤ۔’’
‘‘لیکن اس وقت برف کی دکانیں بند ہوں گی۔’’
‘‘افوہ، بھئی تم جاؤ تو سہی۔ بعض ہوٹل اور ادویہ کی دکانیں رات بھر کھلی رہتی ہیں۔ ان سے پتہ کرنا۔ جلدی کرو، میرا دم گھٹ رہا ہے۔’’
میں تیزی سے سیڑھیاں اتر کر سڑک پر گیا اور ڈیڑھ گھنٹے میں جتنی برف مل سکی، لاکر ڈاکڑ موناز کے بند غسل خانے کے دروازے پر ڈھیر کردی۔ ڈاکٹر موناز غالباً ٹب میں لیٹا ہوا تھا۔ ہر بار جب میں برف کی سل رکھ کر لوٹتا، اس کی غیر قدرتی، غیر انسانی آواز سنائی دیتی:
‘‘اور برف لاؤ.... برف.... جس قدر مل سکے، خرید لو۔’’
رات بھر میں بھاگ دوڑ کرتا رہا اور خدا جھوٹ نہ بلوائے، تو منوں برف جمع ہوگئی، لیکن ڈاکٹر موناز مجھے اور برف لانے کی تاکید کرتا رہا۔ صبح ہوئی، تو میں نے استیبان  سے مدد کی درخواست کی۔ میں چاہتا تھا وہ برف لا کر دیتا رہے اور میں نیا پسٹن ڈھونڈنے کی کوشش کروں، مگر اس نے صاف انکار کردیا۔ میں نے لالچ بھی دیا، مگر وہ کسی طرح ڈاکٹر موناز کے کمرے میں داخل ہونے پر تیار نہ ہوا۔
بالآخر میں نے کسی ایسے شخص کی مدد لینے کا منصوبہ بنایا جو معاوضے پر کام کرسکے۔ بازار میں ایک آوارہ سا آدمی اس کام پر رضا مند ہوگیا۔ میں اسے برف کے لیے پیسے دے کر کسی اچھے مستری اور نئے پسٹن کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ اس بھاگ دوڑ میں کئی گھنٹے صرف ہوگئے، لیکن ہر طرف سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے کھانے کا ہوش تھا نہ آرام کی پروا، ٹراموں، ٹیکسیوں، بسوں اور گھوڑا گاڑیوں پر سارے شہر میں پھرتا رہا۔ کئی جگہ ٹیلی فون کیے، بہت سے مستریوں کے گھر پہنچا اور بالآخر دن کے دو بجے، انجن کا پسٹن اور دوسرے مطلوبہ پرزے ملے اور نصف گھنٹے کی دوڑ دھوپ کے بعد ایک مستری کو اپنے ساتھ چلنے پر رضا مند کرسکا۔
سہہ پہر کے تین بچے بورڈنگ ہاؤس پہنچا، تو قسمت اپنا وار کر چکی تھی۔ اکثر کرایہ دار سہمے ہوئےے باہر سڑک پر کھڑے تھے۔ ایک ہسپانوی مزدور سیڑھیوں میں بیٹھا رقت انگیز لہجے میں مناجات پڑھ رہا تھا۔ میں کسی سے بات کیے بغیر تیزی سے سیڈھیاں چڑھتا ہوا ڈاکٹر موناز کے فلیٹ کےسامنے پہنچا۔ یہاں بھی تین چار افراد ناک پر رومال رکھے سرگوشیاں کر رہے تھے۔ وہیں دروازے پر ایک طرف استیبان  سر جھکائے کھڑا تھا۔ اس کی زبانی پتہ چلا کہ وہ آوارہ شخص جسے میں نے پیسے دے کر اس کام پر رضا مند کیا تھا کہ برف لاکر ڈاکٹر موناز کے کمرے میں ڈھیر کرتا رہے، پہلے ہی پھیرے کے بعد چیختا ہوا کمرے سے نکل بھاگا.... میرا خیال ہے اس نے جھانک کر غسل خانے میں لیٹے ہوئے مریض کو دیکھنے کی کوشش کی ہوگی اور ڈاکٹر موناز کی ایک جھلک نےا سے خوفزدہ کردیا۔ میرے جانے سے کوئی نصف گھنٹہ پہلے بورڈنگ ہاؤس کے رہنے والوں کو شدید بو کا احساس ہوا، معلوم ہوتا تھا ڈاکٹر موناز کے کمرے سے آرہی ہے۔ سب لوگ وہاں پہنچے، مگر دروازہ اندر سے مقفل تھا۔ وہ لوگ اس وقت سے باہر کھڑے حیران ہورہے تھے۔ بو واقعی ناقابل برداشت تھی۔ میں نے کان لگا کر سنا، کمرے میں کسی سیال شے کے قطرے ٹپکنے کی آواز کے سوا مکمل خاموشی تھی۔
کچھ سوچ کر میں نے عمارت کے سارے دروازے اور کھڑکیاں کھلوادیں، پھر دروازہ توڑنے کی کوشش کرنے لگا، لیکن مس ہریرو کو یاد آگیا کہ مالکہ مکان کی حیثیت سے اس دروازے کی ایک چابی اس کے پاس بھی ہے۔ وہ نیچے گئی اور چابی لے کر آئی۔ جونہی میں نے دروازہ کھولا، بدبو کے ایک بھبھکے نے میرا استقبال کیا۔ میں گھبرا کر پیچھے ہٹا اور چند لمحے بعد ایک بڑا سا رومال ناک پر رکھ کر اندر داخل ہوگیا۔ مس ہریرو، استیبان اور چند  لوگ دروازے میں کھڑے ہوئے۔
خدا میرے حال پر رحم کرے، زندگی بھر اس منظر کو نہ بھلا سکوں گا۔ کمرے کے وسط میں صوفے پر ڈاکٹر موناز کا اوور کوٹ کسی مائع میں لتھڑا ہوا پڑا تھا۔ غالباً یہ بُو اسی مائع کی تھی۔ میں نے لپک کر کوٹ اٹھایا۔ نیچے صوفے پر سیاہ رنگ کی گاڑھی سیال کیچڑ پھیلی ہوئی تھی اور اس میں ایک ٹوٹی ہوئی کھوپڑی اور چند انسانی ہڈیاں نظر آرہی تھیں۔ کیچڑ کے قطرے نیچے فرش پر ٹپک رہے تھے۔ باہر سے میں نے یہی آواز سنی تھی۔ ڈاکر موناز اپنے انجام کو پہنچ چکا تھا اور یہ اس کی لاش تھی، مگر اس حالت میں کہ بڑے سے بڑا جرات مند  اور بہادر انسان بھی اسے دیکھ کر خوف زدہ ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ 
مس ہریرو، استیبان  اور کرایہدار چیختے ہوئے بھاگ کھڑے ہوئے۔ صوفے کے سامنے رکھی ہوئی میز پر میرے نام ایک خط پڑا تھا۔ میں نے اسے کھول کر پڑھا اور پھر فوراً ہی جلا دیا۔
اس چار منزلہ عمارت میں دن کے چار بجے مجھ پر ایک ایسا انکشاف ہوا کہ باقی کرایہ دار  اسے جان لیتے، تو بےہوش ہو کر گر پڑتے۔ نیچے ٹریفک کا شور سنائی دے رہا تھا اور میں نیویارک کے گنجان ترین حصے میں ہزاروں لاکھوں زندہ انسانوں کے درمیان کھڑا تھر تھر کانپ رہا تھا۔ معلوم نہیں آپ میری بات پر اعتماد کریں گے یا نہیں، تاہم بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ حقیقت میں موجود ہیں، انسان اس پر یقین نہ کرنے ہی میں اپنی بہتری سمجھتا ہے، وگرنہ یہ زندگی بہت تلخ ہوجائے۔ یہ راز میرے سینے میں دفن ہے۔ 
آپ کے لیے صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی امونیا کی بو، سرد ہوا یا خنکی مجھ پر خوف کی ایسی شدید اور پاگل کردینے والی کیفیت طاری کردیتی ہے کہ میرے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔ اور میں چیخنے اور چلانے لگتاہوں۔
میں زیادہ دیر تک آپ کو اندھیرے میں رکھنا نہیں چاہتا کیونکہ آپ یہ جاننے کے لیے بےتاب ہوں گے کہ ڈاکٹر موناز کی موت کس طرح ہوئی اور اس کی لاش کیچڑ اور شکستہ ہڈیوں میں کیونکر تبدیل ہوگئی۔ ڈاکٹر موناز نے اپنے خط میں لکھا تھا:
‘‘یہ میرا آخری وقت ہے۔ مزید برف ملنے کی کوئی امید نہیں، کیونکہ جس شخص کو تم نے اس کام پر مقرر کیا تھا، اس نے مجھے دیکھ لیا اور چیختا ہوا بھاگ نکلا۔ گرمی لحظہ بہ لحظہ بڑھتی جارہی ہے اور میرا جسم پگھل رہا ہے۔ تمہیں یاد ہوگا ایک مرتبہ میں نے کہا تھا کہ اعضائے جسمانی کام چھوڑ دیں، تو انسان قوت ارادی کے بل پر جسم کو دوبارہ کام کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ یہ نظریہ درست تھا، لیکن ہمیشہ کے لیے نہیں....، کیونکہ مادی جسم بتدریج گلتا اور سڑتا رہتا ہے۔ مجھے اس بات کا علم نہ تھا، ورنہ میں یہ خو ناک تجربہ نہ کرتا۔ ڈاکٹر تارس ان تجربات میں میرا ساتھی تھا۔ دراصل میں نے بستر مرگ پر اسے بلا بھیجا تھا۔ اس نے مجھ پر تجربات شروع کیے اور بالآخر کامیاب ہوا، لیکن یہ علاج خاصا طویل اور اعصاب کو تھکا دینے والا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ خود اعصابی صدمے کا شکار ہو کر اچانک مر گیا اور میں اس کے لیے کچھ نہ کرسکا۔ میری اپنی حالت یہ تھی کہ گو دل اور دماغ اپنا کام کرنے لگے تھے، لیکن گوشت پوست آہستہ آہستہ ہڈیوں کا ساتھ چھوڑ رہا تھا، چنانچہ میں نے اپنے گلتے ہوئے جسم کو ادویہ  کی مدد سے اور انتہائی سردی میں محفوظ رکھا اور ابھی تک زندہ ہوں۔ یہ ایک حیرتانگیز تجربہ تھا اور میری خواہش تھی کہ میری موت کے بعد دنیا کے بڑے بڑے ڈاکٹروں تک اس تجربے کی روداد پہنچ جائے، اس لیے میں نے وہ خطوط لکھے جن میں موت کے بعد زندہ رہنے کے طریقوں پر مفصل بحث تھی، مگر اب میں نے یہ خطوط جلا دیے ہیں، کیونکہ میں نہیں چاہتا کوئی شخص ذہنی اذیت کے ان طویل مراحل سے گزرے جن سے میں  گزرا ہوں۔ قدرت سے مقابلہ کرنے والے ہمیشہ شکست کھاتے ہیں۔ میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خود کو زندہ رکھنے کے لیے جو زبردست جنگ کرنی پڑتی ہے، وہ انسان کے اعصاب کو توڑ مروڑ کر رکھ دیتی ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ طبعی موت کو سینے سے لگا لیا جائے۔ کاش! آج سے اٹھارہ برس پیشتر میں یہ تجربہ نہ کرتا اور مرتے وقت مجھے تکلیف نہ ہوتی۔ اب میری حالت یہ ہے کہ جسم کیچڑ بنتا جارہا ہے، گوشت ٹوٹ کر فرش پر گر رہا ہے، لیکن میں زندہ ہوں اور بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ کو یہ حروف  لکھنے پر مجبور کر رہا ہوں۔ یہ سلسلہ کب تک جاری رہ سکتا ہے! افسوس، صد افسوس، اس انسان پر جو قدرت سے نبردآزما ہونے کی بےکار کوشش کرتا ہے.... ہاتھوں کا گوشت گل کر گر پڑا ہے اور ہڈیوں کی مدد سے قلم پکڑا نہیں جاتا، اس لیے میرے دوست، الوداع۔’’
میں اٹھارہ سال پرانے مردے سے اپنی دوستی کی تفصیلات بھلانا چاہتا ہوں، لیکن جونہی سرد ہوا مجھ سے ٹکراتی ہے، ساری خوف ناک یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔



[حوالہ :  ’’کول ائیر‘‘ ]

پراسرار، ڈراؤنی، آسیبی اور  فکشن  کہانیوں کے مصنف 

ایچ پی لَو کرافٹ ۔1890ء تا  1937  ء  



ایچ پی لوکرافٹ H.P. Lovecraft (ہارورڈ فلپس لوکرافٹ) کے  نام سے برصغیر میں شاید  کم لوگ واقف ہوں، لیکن مغرب میں ان  کی لکھی فکشن پراسرار، ڈراؤنی اور آسیبی کہانیاں   بے حد مقبول ہیں اور ان پر کئی فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔    
ایچ پی لوکرافٹ  20 اگست 1890ء   کو  رہوڈ آئی لینڈ، امریکہ  میں ایک غریب سیلزمین  کے گھر پیدا ہوا۔   3 سال کی عمر میں اس کے والد نفسیاتی مرض  میں مبتلا  ہوکر انتقال کرگئے اور  وہ اپنی والدہ کے ساتھ اپنے  ننہیال آگیا۔  بچپن میں ادب  میں دلچسپی پر  وہ چھوٹی نظمیں لکھنے لگا۔  اس  کے  نانا نے  حوصلہ افزائی  کے لیے اسے  ‘‘الف لیلہ’’ اور دیگر  جادوئی اور پریوں کی  کہانیاں لا دیں لیکن نانا کی وفات پر معاشی  تنگی  نے آگھیرا۔ اسکول میں  لوکرافٹ نے کیمسٹری اور فلکیات میں نمایاں  کارکردگی حاصل کی۔  فراغتِ تعلیم کے بعدلوکرافٹ  کی تحریریں مختلف رسالوں میں شایع ہونے لگیں۔    والدہ کی وفات کے بعد لوکرافٹ نے نیویارک میں قسمت آزمائی اور   Weird Talesاور جیسے  مقبول رسالہ  کے لیے کہانیاں لکھیں۔  رفتہ رفتہ اسے مقبولیت ملنے لگی۔  لوگرافٹ کی کہانیاں تصوراتی اور مافوقیت پر مبنی ادبی صنفWeird Fiction پر  ہوتی تھیں ۔ اس صنف  میں پریوں اور دیومالائی کہانیوں کی طرح قیاس پر مبنی  غیرحقیقی دنیا  اور ان کے تصوراتی  کردار   کی  غیرمعمولی  کہانیاں   لکھی جاتیں۔   ایچ پی لو کرافٹ کی  کہانیوں میں دی کال آف چولہو، شیڈو اوور اِنسموتھ،  شیڈو آؤٹ آف ٹائم، ایٹ دی ماؤنٹ آف میڈنیس  زیادہ مقبول ہوئیں۔    لوکرافٹ نے  پُراسرار کہانیوں کو سائنسی تجربات سے  جوڑ کر کئی نظرئیے پیدا کئے ، جن  میں مقبول موضوع  زندہ عفریت  یعنی زومبی  Zombie کا تھا۔   
اس موضوع پر لو کرافٹ کی کہانیوں میں ہربرٹ ویسٹ ری اینی میٹر،  دی آؤٹ سائیڈر، ان دی والیٹ اور کول ائیر شامل  ہیں۔    ایچ پی  لوکرافٹ 15  مارچ 1937 ء  کو اپنے آبائی شہر رہوڈ آئی لینڈ میں انتقال کرگیا۔


اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں