سندھی ادب سے انتخاب ماہتاب محبوب کا افسانہ

دلی مراد

اس بات سے وڈیرے کی مردانگی پر کاری ضرب لگی۔

‘‘میں کیا علاج کراؤں میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں۔ تم عورتیں اپنا علاج کراؤ۔’’

‘‘ایسا گھمنڈ نہ کرو   وڈیرا! چاروں میں تو عیب نہیں ہوسکتا ایک ہی میں ہوسکتا ہے۔’’

‘‘مجھے کیا خبر۔ میں کوئی دائی تو نہیں ہوں....’’

‘‘اولاد نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی عیب ہے۔ یہ تو رب کی دین ہے کسی کو دے کسی کو نہ دے۔ ایسے بھی شریف لوگ ہیں جو صبر سے بیٹھے ہیں۔ بیوی میں خرابی ہوتی ہے تو دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ پر تم نے جان بوجھ کر چار زندگیاں برباد کردی ہیں پھر بھی اپنا علاج نہیں کراتے، آخر سب ہی تو بانجھ نہیں ہوسکتیں۔ حکیم سے مشورہ کرنے سے کون سی بےعزتی ہوجائے گی۔’’

 زیر نظر افسانہ ماہتاب محبوب   کی سندھی کہانی ‘‘مٺي مراد’’ کا ترجمہ ہے  ۔ 





نیلا آسمان بھی اس کا گواہ ہے کہ وڈیرا مبارک علی بالکل بن مانس نظر آتا تھا۔ رہی سہی کسراس کی بھنوؤں نے پوری کردی تھی، جوگالوں تک جھکی ہوئی تھیں۔ وہ آدھی عمر گزار چکا تھا لیکن اس کی طبیعت میں جوانی کے اطوار بھی تک موجود تھے۔ بوڑھے شیر کی طرح وہ اپنی کچھار میں بیٹھا شکار کو تاکتا رہتا تھا۔ جو بھی داؤ پر لگ گیا کام بن گیا۔ 
وڈیرے کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تپتی دوپہر میں وڈیری شاہ بانو اپنی نوکرانی کے ساتھ کوٹھری سے بستر لیے خود ادھر آنکلے گی۔ اسے دیکھ کر وڈیرے کے ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے۔
‘‘اس موسم میں یہاں گھٹن میں کیا کر رہے ہو....؟ شاہ بانو نے ہاتھ سے چشمہ کو ٹھیک کرتے ہوئے چابیوں کا گچھا نوکرانی کو پکڑایا اور وڈیرے سے سوال کیا۔
‘‘ٹھنڈی جگہ ہےنا! مجھے یہاں سکون ملتا ہے۔’’ وڈیرا منمنایا۔
‘‘وہاں ایئر کنڈیشنر  سے انگارے برس رہے ہیں کیا....؟’’ اس نے ڈپٹ کر کہا۔
‘‘جو مزا قدرتی ٹھنڈک میں ہے وہ ایئر کنڈیشنر کی گھوں گھوں میں کہاں....
اس نے تہمد سنبھالتے ہوئے دانت نکالے.... 
شاہ بانو تو ویسے ہی اسے پسند نہ تھی کیونکہ خاندانی بیویاں تو کم ہی لوگوں کو پسند ہوتی ہیں۔ وہ بھی یوں ہی وقت گزار رہا تھا۔ شاہ بانو بھی سب کچھ بھول کر ریڈیو سننے اور ٹی وی دیکھنے میں گم ہو کر رہ گئی تھی اور کبھی کبھی صوفیانہ کلام اور کافیاں سن کر بھی دل بہلا لیتیتھی۔
مبارک علی کو  جب شاہ بانو سے دلی مراد نہ ملی تو بلا تاخیر اس نے دوسرا بیاہ رچا لیا۔ دوسری بیوی سے شروع شروع میں تو بڑا قرب رہا۔ لیکن کئی ساون آئے اور گزر گئے پر جب کوئی بوٹا نہ پھوٹا تو اسے اٹھتے بیٹھتے طعنے اور تیسری شادی کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ نتیجتاً وہ بھی ہراساں ہو کر درگاہوں اور پیروں فقیروں کے پھیرے لگانے لگی۔ راتیں قبرستانوں میں وظیفے پڑھتے اور دن درگاہوں پر سر جھکائے گزرنے لگے۔ گلے میں اسی آس پر کئی تعویز لٹک رہے تھے کہ شاید  ‘‘دلی مراد’’ مل جائے۔ 
کبھی کھلم کھلا اور کبھی وڈیرے سے چھپ کر پھرتے پھرتے اس کے برقعے کا پکا رنگ بی اڑ گیا تھا اور اس کے چہرے کی ریشم جیسی جلد اپنی چمک کھو بیٹھیتھی۔
مبارک علی بھی آخر اس کو بھلا بیٹھا اور اس کی نگاہیں ایک برقعہ پوش نرس کا طواف کرنے لگیں۔ اتفاقاً اس نرس کے گھر کا راستہ حویلی کے آگے سے ہو کر گزرتا تھا۔ اس کے نئے فیشن والے سینڈل کی ہیل خوبصورت پیروں سمیت وڈیرے کے دل میں دیوار کی کیل کی طرح کھب گئی تھی۔
کبھی کبھی نہ جانے مرد کی کون سی ادا عورت کو بھا جاتی ہے۔ نہ جانے وڈیرا کا بن مانس پن ہی نرس کو اچھا لگ گیا کہ وہ بھی روزانہ نت نئی سستی خوشبوئیں لگا کر گزرتی جو شاید عام حالات میں کبھی وڈیرے کو اپنی طرف متوجہ نہ کرپاتیں۔ 
بہرحال جلد ہی نرس دلہن بن کر وڈیرے کی حویلی آن اتری لیکن وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا تھا اور یہ شادی بھی وڈیرے کو راس نہ آئی۔ ہاں اسے گھٹنوں میں درد کا نیا روگ ضرور لگ گیا۔ وہ سرکاری ہسپتال کے باہر بیٹھنے والی ایک عورت سے جونکیں خرید کر گھٹنوں میں لگائے پڑا رہتا۔
رات ہوتی تو گھٹنوں پر مکھن لگا کر دو دو جونکیں لگا لیتا تب کہیں جا کر اسے آرام ملتا۔ کچھ تو جونکوں کی وجہ سے، کچھ ہر وقت بے ڈھنگے پن سے، منہ کھول کر دانت صاف کرنے کی عادت کی وجہ سے اور کچھ ‘‘دل مراد’’ میں تاخیر کی وجہ سے وڈیرا نرس کے گلے میں پھنس کر رہ گیاتھا۔ جو نہ اگلا جاتا تھا نہ نگلا جاتا تھا۔ وہ پریشان رہنے لگی تھی۔ کبھی کتابیں پڑھ کر دل بہلا لیتی، نہیں تو سر پر پٹی باندھے منہ چھپائے پڑی رہتی۔ وہ یہی چاہتی تھی کہ وڈیرا جتنی دور رہے اچھا ہے۔ 
ایک مرتبہ یوں ہی وڈیرا مونچھیں سنوارتا ہوا اس کے قریب آیا تو اس نے ناگواری سے کہا۔
‘‘وڈیرا۔ دور ہی رہو!’’
‘‘کیوں جی! کیا اب میں تمہیں اچھا نہیں لگتا۔’’
‘‘نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں۔’’ نرس نے کہا ‘‘تم تو اچھے لگتے ہو کیا کروں سر میں درد ہے اس لیے کچھ اچھا نہیں لگتا۔’’
‘‘قریب بیٹھنے پر بھی پابندی ہے کیا....؟’’
‘‘خالی پیٹ پر چائے سے درد کی دو تین گولیاں کھالی ہیں۔ اس لیے جی بھی متلا رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تم وہ کرسی کھینچ کر بیٹھ جاؤ۔’’
یہ بات وڈیرے کے کھٹک گئی وہ فوراً بولا.... ‘‘بس بس میں سمجھ گیا.... کچھ کچا پکا ہے۔ اللہ سے ناامید نہیں ہونا چاہیے اس کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔’’
یہ کہتا ہوا قمیض سنبھال کر وہ جیسے ہی کمرے سے باہر نکلا نرس نے جی ہی جی میں کہا۔
‘‘خدا نے بلا ٹالی’’۔ 
وڈیرا برآمدے سے گزر رہا تھا کہ حویلی کی خاص ملازمہ جعفراں ملی۔ بولی
‘‘وڈیرا۔ بڑے خوش نظر آرہے ہو....؟’’
‘‘مبارک ہو جعفراں! آج تمہاری وڈیری کو متلی ہورہی ہے۔’’
وڈیری نے جان چھڑانے کا بہانہ کیا ہوگا۔’’
‘‘بہانہ کیوں کریں گی۔ ’’
جعفراں کی طرف توجہ بھی نہ کی اور وڈیرا اترتا ہوا چلا گیا۔ پر جعفراں کی طنز بھری مسکراہٹ نے اس کے دل میں شبہات پیدا کردیے تھے۔
تھوڑے دن کے بعد جب جعفراں کی بات سولہ آنے سچ نکلی تو سارا عشق جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور نرس ‘‘خود کردہ را علاجے نیست’’ کے پیش نظر ٹھنڈی ٹھنڈی آہیں بھرتی رہتی اور ساتھ ہی اس گھڑی کو کوسا کرتی جس گھڑی وڈیرا اس کے من کو بھایا تھا۔
وڈیرا مبارک علی کی ماں تو بیٹے سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ ہر روز آنگن میں حقہ پیتے پیتے بہوؤں کا رونا روتی تھی۔
کسی نے پوچھا ‘‘بی بی۔ کیا وڈیرے کے گھر خوشی ہونے والی ہے۔’’
‘‘کہاں سے خوشی ہوگی۔’’ اس نے تیزی سے جواب دیا۔ میرے بیٹے نے ایسی گائیں باندھ رکھی ہیں جو نہ دودھ کی، نہ موت کی۔ مجھے تو ان سے کوئی امید نہیں رہی۔ میرے بچے کی قسمت میں بانچھ عورتیں  ہی لکھی ہیں۔’’
‘‘بی بی.... تو پھر ایک اور شادی کرا ہی دو’’۔ 
‘‘یہ کیسے ممکن ہے۔ آنکھ دیکھے مکھی کون نگلتا ہے۔ تین تین تو پہلے ہی بیٹھی ہیں۔ چوتھی کون دےگا۔’’
‘‘کیوں نہیں ملے گی۔ دولت ہے تو پھر کاہے کی پرواہ، بیٹھ کر سکھ سے کھائے پیےگی، عیش کرےگی۔’’
‘‘کھانے پینے میں کیا ہے اور میں کوئی کھانے پینے کے لیے تھوڑی لاؤں گی۔ جس حسرت میں مری جارہی ہوں بس وہ پوری ہوجائے۔’’
روز روز کے طعنوں سے تنگ آکر آخر وڈیری نے اپنے بیٹے کی چوتھی شادی کا فیصلہ کر ہی لیا۔ آدمی کو نئن کی طرف دوڑایا جو اپنے لال رومال اور نسوار کی ڈبی سمیت فوراً حویلی آ پہنچی اور کرایہ کے پیسے سمیٹ کر مہم پر روانہ ہوگئی۔
اب کے قرعہ شاہدہ کے نام نکلا۔ جس کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ وہ اپنے غریب والدین کے کاندھوں کا بوجھ تھی۔ شادی کے دونوں طرف کے اخراجات وڈیرے نے پورے کرنے کا وعدہ کرلیا تھا لیکن جب تک شادی کی تاریخ مقرر نہیں ہوگئی۔ وڈیرے کو یقین نہ آیا۔
جب سنہری رنگت والی شاہدہ دلہن بن کر دھوم دھام سے حویلی کے آنگن  میں اُتری تو وڈیرے نے اپنی زندگی میں بہار کے نئے جھونکے محسوس کیے۔
ایک طرف عورتیں سریلے نغمے چھیڑے ہوے تھیں تو دوسری طرف ڈھولک کی تھاپ ٹھہرنے کا نام نہ لے رہی تھی۔
غالیچوں میں جھل مل کپڑوں میں ملبوس مہمانوں سے پرے تینوں سوکنیں جو چوتھی کے آنے کے بعد ایک ہی ‘‘گریڈ’’ میں آکر باہم شیر شکر ہوگئی تھیں، اپنے دلوں کا غبار نکال رہی تھیں۔
‘‘ہم نے کون سا تیر مار لیا کہ اب یہ مکڑی آئی ہے سونے کے انڈے دینے۔’’
‘‘اگر اس نے بھی دھوپ میں ننگے سر بڑھیا ساس کی سات پشتوں کو نہ کوسا ہو تو میرے منہ پر تھوک دینا’’۔
شادی کی رسمیں ختم ہوئیں تو دولہا اپنے دوست  یاروں سے جان چھڑا کر سجے سجائے کمرے میں آیا اور دلہن کا گھونگھٹ اٹھاتے ہوئے بولا۔
‘‘اف....! ایسا حسن میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ ’’
یہ شہد جیسے میٹھے بول بھی شاہدہ کو کڑوے لگے۔ البتہ الفاظ کی برجستگی اچھی لگی۔
‘‘ آنکھیں کھول کر میری طرف تو دیکھو۔’’ وڈیرے نے پوپلے منہ سے آواز نکالی۔
دلہن نے جب وڈیرے کی پوپلی آواز کو محسوس کای تو وہ کلی ایک دم مرجھا سی گئی۔ دکھوں میں پلی لڑکی کو یقین ہوگیا کہ باقی جیون بھی کانٹوں بھرا ہے۔ اس کی آنکھوں سے ساون بھادوں کی جھڑی لگ گئی۔ وڈیرے مبارک علی نے گھبرا کر کہا۔
‘‘نہ رو ۔ میں جانتا ہوں کہ رشتہ داروں کی جدائی نے تمہیں بےحال کر رکھا ہے۔ گھبراؤ نہیں۔ ان سے تمہاری جلدی جلدی ملاقات ہوگی۔ یہاں تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ ’’
نئی دلہن سے وڈیرے کی چاہت میں دن بدن اضافہ ہوتا رہا۔ ادھ ادھر سے گھوم پھر کر بار بار اس کے پاس آتا اور میٹھی میٹھی باتیں بناتا، ساس بھی اس سے بہت پیار کرتی تھی اور کہتی رہتی تھی کہ 
‘‘اپنی بہو پر سے واری صدقے جاؤں۔ میری جیت آخر تمہاری ہی وجہ سے ہوگی۔ ہم ماں بیٹے تم ہی سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ’’
اسی طرح ایک روز واری صدقے ہوتے ہوئے ساس جے جب بہو کو گلے لگانے کی کوشش کی تو اس کے جبڑے کی ہڈیاں دلہن کی کنپٹی میں جالگیں اور اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔
‘‘چاچی۔ چاچی تم نے مار ڈالا۔ میری کنپٹی پھاڑدی۔’’
گدھی کو بھی کبھی ہار پہنائے جاتے ہیں۔ ساس آگ بگولہ ہوگئی :
‘‘میرے گلے لگنے سے تمہاری کنپٹی پھٹ رہی ہے۔ خوب اتنی نازک پری ہو۔ کنگلے ماں باپ کی بیٹی ہو۔ کیا وہاں بھی یہی نخرے کرتی تھیں۔ شکر کرو میرے شہزادے نے بیاہ رچا لیا۔ ورنہ ساری عمر بیٹھی رہتیں۔’’
ساس بڑبڑاتی ہوئی جب دوسرے کمرے میں چلی گئی تو شاہدہ نے کنیز کو آواز دی جس پر وہ دوڑی آئی اور پریشان ہو کر بولی 
‘‘میں صدقے۔ کیا ہوا میری چھوٹی دلہن کو۔’’
‘‘تمہاری بڈھی وڈیری کے پیار نے میری جان لے لی۔’’
‘‘ہائے اللہ کیا ہوا۔ وڈیرا آئے گا تو کیا کہے گا۔’’
‘‘وہ آکے کیا کرے گا۔ کوے کے پر سونے کے ہوتے تو اڑتے میں نظر آتے۔’’
‘‘بی بی.... ایسی تو ہم نے نہیں سنی۔ وہ تو کچھ اور ہی ہے۔’’
‘‘جلی جا لڑکی۔ کوئی چیز لاکر دے۔ میں کنپٹی سینکوں۔’’
آدھی رات کو جب وڈیرا بستر پر بےچینی سے کروٹ بدل رہا تھا اس کی کہنی شاہدہ کے جالگی جو نیند میں بیزاری سے چیخ پڑی۔
‘‘کیا کرتے ہو وڈیرا۔ میری پسلیاں توڑ ڈالیں۔’’
‘‘کیڑا’’ وڈیرے نے کراہتے ہوئے صرف اتنا کہا۔ وہ چھلانگ مار کر بستر سے کودی اور دہشت بھری نگاہوں سے چادر کو تکنے لگی۔
‘‘ڈرو نہیں۔ بستر میں تو کیڑا نہیں ہے۔’’
تم نے خواب میں تو نہیں دیکھا کیڑا....؟
‘‘میں اتنا بدذوق تو نہیں ہوں کہ خوابوں میں کیڑے دیکھوں ۔ میں یہ کہہ رہا تھا کہ داڑھ کے کیڑے نے درد سے بےحال کر رکھا ہے.... اللہ رے....’’ وہ کراہنے لگا۔
‘‘دانتوں میں بھی کیڑے پڑ گئے۔ بس وڈیرا تمگئے۔’’
کیوں جاؤں میں.... اچھی بات منہ سے نکالا کرو۔ کبھی کبھی قبولیت کی گھڑی بھی ہوتی ہے۔
پھر درد کو برداشت کرتے ہوئے اکڑ کر بولا۔
‘‘صبح ہی جاکر اس داڑھ کو نکلوا دوں گا۔’’
‘‘کہاں جاؤ گےزمبور سے نکلوانے۔ یہ تو خود ہی گر جائیں گے۔’’
‘‘میں ایسا بوڑھا بھی نہیں ہوں۔’’
‘‘اب کون سی جوانی ٹوٹ رہی ہے تم پر۔’’
‘‘سر نہ کھاؤ جاؤ سوجاؤ۔’’ یہ کہہ کر وہ جیسے ہی اٹھا کمر کے بل نیچے جاگرا۔ دلہن نے اٹھ کر اسے سہارا دینے کی کوشش کی تو وڈیرے نے ہاتھ جھٹک دیا اور بولا۔ 
‘‘تمہاری انٹ شنٹ باتوں میں الجھ کر پیر پھسل گیا اور نہ میں کوئی معذور تو نہیں ہوں کہ تم مجھے اٹھاؤ گی۔’’
 ‘‘پاؤں پھسل گیا۔’’ دلہن نے طنز کیا۔
‘‘پاؤں کیوں پھسلے گا....؟ یہ تو ریاحی درد ہے ورنہ میں کوئی بوڑھا تھوڑی ہوں کہ ابھی سے میرے گھٹنے ٹوٹ جائیں گے۔ 
اس نے پٹی پکڑ کر اٹھنے کی کوشش کی تو برابر میں رکھا ہوا چاندی کا گلاس چھناکے کے ساتھ نیچے جاگرا۔
‘‘آدھی رات کو کیا شور مچا رکھا ہے۔ کیا چاہیے۔ مجھ سے کہو میں دے دوں گی ۔’’
‘‘الماری میں داڑھ کی دوا مل جائے تو لے آؤ۔ اس نے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ کمرے کی چاروں بتیاں روشن کرنے کے باوجود دلہن کو کوئی دوا نہ دکھائی دی تو آخر میں ساس کی نسوار کی ڈبیا میں سے چٹکی بھر ناس لے آئی اور وڈیرے کی داڑ میں بھردی۔
‘‘کاش تمہارے خوبصورت ہاتھوں کے صدقے درد میں کمی ہوجائے۔’’ اس نے لیٹتے ہوئے کہا۔
وہ بھی پہلو میں بیٹھ گئی جب اس نے دیکھا کہ وڈیرے کے منہ سے رنگ برنگی پھوں پھاں کی آوازیں نکلنے لگیں تو وہ سمجھ گئی کہ وڈیرے کو نیند آگئی لیکن اس کی اپنی نیند اڑ چکی تھی اور تکلیف دہ سوچوں نے اسے آگھیرا تھا۔ بظاہر تو وہ بڑے رعب داب سے رہتی تھی اس نے مقدر کا لکھا سمجھ کر اسے جیسے تیسے گزارنے کا فیصلہ تو کرلیا تھا لیکن ایک آسرے اور ایک سہارے پر۔
جب کافی دن ہوگئے تو اسے یقین ہوگیا کہ اس گلشن میں کبھی پھول نہ کھلیں گے، اس کے نصیبوں میں کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ اب وڈیرے سے سخت رویہ اختیار کرے گی۔
صبح اٹھتے ہی اس نے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے وڈیرے کو جھنجھوڑ ڈالا۔
اس نے ابھی سگریٹ کا کش بی نہ لیا تھا کہ وہ بولی ‘‘وڈیرا! میری بی توضرورتوں کا خیال کرو۔ کیا صبح شام بیٹھے کش لگاتے رہتے ہو!’’
اس چھوٹے سے قصبہ میں میں نے تمہیں بی ملکاؤں کی طرح آسائش و آرام مہیا کیا ہے۔ اب اور کیا چاہیے....؟’’
‘‘مجھے صرف دل کا چین چاہیے۔ برسوں گزر گئے وڈیرا! اب مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔ میں چاہتی ہوں کہ کوئی مجھے امی کہہ کر پکارے۔’’
‘‘اللہ سے امید رکھو۔’’ اس نے سگریٹ کا آخری کش لے کر ٹوٹا پھینکتے ہوئے کہا۔‘‘وظیفہ تو ہر جمعرات کو پڑھتا ہوں۔’’
‘‘یہ جمعرات کا کیا شوشا چھوٹا تم نے....؟’’
‘‘اس شوشے کا تمہیں خود پتہ چل جائے گا۔ آخر اپنے مؤذن ساون کے بھی تو کسی وجہ سے ہی اٹھارہ بچے ہوئے تھے۔’’ اس نے آنکھ دبا کر سر ہلاتے ہوئے کہا۔
یہ دلاسے تم کسی اور کو دو۔’’
‘‘نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، اب تم دیکھنا!’’
‘‘دیکھوں گی تم کیا گل کھلاتے ہو۔’’
‘‘اللہ پر چھوڑ دو۔’’ وہ شکار کی نیت سے صبح سویرے بستر سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
‘‘رات کو درد سے چلا رہے تھے۔ اب شکار کے لیے کہاں چلے ہو۔’’
‘‘ایسے درد ہم سخت جانوں کا کیا بگاڑ لیں گے۔’’ یہ کہتا ہوا وہ سینہ تانے کارتوس کی پیٹی اٹھا، بندوق کو بائیں کاندھے پر لٹکائے جیپ میں جا بیٹھا، جہاں دو چار آدی پہلے ہی اس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔
اسی طرح پوری سولہ جمعراتیں گزر گئیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ شاہدہ کے طعنوں میں وہ سارے شوق بھی بھلا بیٹھا تھا بس پڑا رہتا۔ اس دوران مزارعے آکر کہتے کہ سائیں! فصل ڈوب رہ ہے تو وہ جواب دیتا کہ‘‘ڈوبنے دو۔’’
آخر کار زمینوں کا کام اس کے رشتہ کے بھائیوں نے سنبھال لیا۔
ماں کے کہنے پر اس نے یہ نئی جونگ لگوائی تھی۔ پہلی بیویاں تو مقدر کا لکھا سمجھ کر چپ ہو بیٹھی تھیں۔ لیکن  اس طرارہ نے وڈیرے کا ناطقہ بند کردیا تھا۔ دن رات چلاتی رہتی تھی لیکن اس کی ساری چیخ و پکار کا وڈیرا صرف یہی جواب دیتا تھا۔
‘‘میں کیا کروں میرے بس میں تو کچھ نہیںہے۔’’
میں نے مولوی ملا سب آزما لیے۔ سب ہی جمعرات کا وظیفہ بتاتے ہیں۔ آخر یہ بھی نیک فال تو ہوگی ہی۔’’
‘‘جمعرات کے چکر میں کیوں آگئے ہو۔ کسی حکیم کے پاس کیوں نہیں جاتے۔’’ شاہدہ کی اس بات سے اس کی مردانگی پر کاری ضرب لگی۔
‘‘میں کیا علاج کراؤں میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں۔ تم عورتیں اپنا علاج کراؤ۔’’
‘‘ایسا گھمنڈ نہ کرو   وڈیرا! چاروں میں تو عیب نہیں ہوسکتا ایک ہی میں ہوسکتا ہے۔’’
‘‘مجھے کیا خبر۔ میں کوئی دائی تو نہیں ہوں۔’’
اولاد نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی عیب ہے۔ یہ تو رب کی دین ہے کسی کو دے کسی کو نہ دے۔ ایسے بھی شریف لوگ ہیں جو صبر سے بیٹھے ہیں۔ بیوی میں خرابی ہوتی ہے تو دوسری شادی کرلیتے ہیں۔ پر تم نے جان بوجھ کر چار زندگیاں برباد کردی ہیں پھر بھی اپنا علاج نہیں کراتے، آخر سب ہی تو بانجھ نہیں ہوسکتیں۔ حکیم سے مشورہ کرنے سے کون سی بےعزتی ہوجائے گی۔’’
‘‘بہت تقریر کرلی اب چپ رہو کہیں چکر نہ آجائیں۔’’
‘‘چکر مجھے تو نہیں....’’ دسترخوان بچھانے کے لیے آنے والی نوکرانی کو دیکھ کر الفاظ اس کے منہ میں ہی رہ گئے۔
مبارک علی نے حکیم کے ہاں جانے سے بہت جان چھڑائی لیکن شاہدہ نے اسے بھیج کر ہی دم لیا۔
وڈیرا جب حکیم کے یہاں سے لوٹا تو اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔
‘‘حکیم نے کہا کیا۔’’ اسے دیکھتے ہی شاہدہ نے لپک کر پوچھا۔
‘‘حکیم نے تو مجے بڑے جھنجھٹ میں ڈال دیا ہے۔’’ اس نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
‘‘کیسا جھنجھٹ....؟ جو بات ہے وہ صاف صاف بتاؤ۔ دل ہی دل میں کیوں گھٹ رہے ہو۔’’
‘‘میری جان....’’ کہہ کر اس نے ہاتھ میں دی ہوئی حکیم کی بڑی سی پڑیا کو دیکھا اور سوچ میں ڈوبگیا۔
‘‘کیوں کسی سوچ میں پڑ گئے....؟ ایسی کیا بات ہوگئی۔’’ وہ پہلو میں آ بیٹھی۔
‘‘صحیح بات بتاؤں.... حکیم نے کہا ہے کہ مجھ میں ہی تھوڑی سی خرابی ہے۔’’ اس نے جھجھکتے ہوئے کہا۔
‘‘موئے۔ مریض.... تو مجھ سے شادی کیوں کی تھی....؟ مجھ اچھی بھلی لڑکی کی زندگی اجاڑ دی۔’’ یہ کہہ کر اس نے اپنا منہ اور سر پیٹنا شروع کردیا۔
‘‘ہائے مجھے کیا خبر تھی کہ میرے گھر والے مجھے بتیس بیماریوں والے مگر مچھ کے منہ میں دے رہے ہیں۔’’ اس کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے۔
‘‘میری جان.... روؤ تو نہیں۔ میری پوری بات تو سنو۔’’ وڈیرا گھگھیایا۔ ‘‘بس تھوڑی سی خرابی بھیہے....’’
شاہدہ نے بات کاٹ کر کہا ‘‘وہ بےچاری تینوں صابر اور معصوم لڑکیاں تھیں جنہوں نے تمہارے در پر بال سفید کرلیے اور دنیا جہاں کے طعنے سن کر بھی خاموش رہیں لیکن میں چپ نہیں رہوں گی۔’’ اس نے بیباکی سے کہا۔
‘‘اولاد کے لیے تم اپنے شوہر کو بدنام کروگی۔’’
‘‘میں نے کیا قصورکیا ہے کہ تم نے میری زندگی تباہ کردی۔ شریعت میں تو ایسی شادی جائز نہیں۔’’
‘‘تم میرے آپریشن تک تو صبر کرلو۔ نہ مجھے بدنام کرو اور نہ خود....’’
‘‘اس بڑھاپے میں آپریشن کراکے اپنی کھال اترواؤ گے.... اور پھر حاصل کیا ہوگا....؟’’
‘‘پھر کیا کروں....؟ تمہارے لیے تو حکیموں تک پہنچ گیا ہوں۔’’
‘‘میں ساری عمر جوان تو نہیں رہوں گی اور تم بھی ہمیشہ تو نہیں رہو گے۔ بڑھاپے میں تو اپنی اولاد ہی کام آتی ہے۔’’
‘‘میری جان! ہمارے پاس بےانتہا دولت ہے اولاد کا کیا کروگی....؟’’
‘‘میں دولت پر تھوکتی ہوں۔ میرے پکارنے پر دولت دوڑی تو نہیں چلی آئے گی۔ اولاد بیماری آزاری میں کام تو آتی ہے۔ یہ بنگلے، حویلیاں کس کامکے۔’’
‘‘ایسی باتیں تو نہ کرو کچھ تو شرم کرو۔’’
وہ کچھ دیر سوچ میں ڈوبی رہی پھر بولی ‘‘آخر شرع تمہیں چار شادیوں کی اجازت دیتی ہے تو مجھے بھی تین بول حاصل کرنے کا حق ہے تاکہ اس کے بعد میں بھی کسی ٹھکانے جا لگوں۔’’
وڈیرا مبارک علی جو اب تک نرمی سے پیش آرہا تھا، ایک دم بھڑک اٹھا، دوا کی پڑیا کھڑکی سے باہر پھینک کر شاہدہ کو لات رسید کرتے ہوئے بولا۔
‘‘اولاد کی اتنی خواہش ہے تو پوری حویلی بھری پڑی ہے جا کر منہ کالا کرلے۔ باقی طلاق کی بات کی تو لگاؤں گا جوتے....!


سندھی زبان کی اولین  خاتون کہانی نویس اور افسانہ نگار 

ماہتاب محبوب ۔1949ء تاحال


mahtab Mehboob

سندھی افسانہ کی خاتون اول ماہتاب محبوب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، ماہتاب محبوب کا اصل نام ماہتاب منور عباسی ہے،  آپ 14 جولائی 1949ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں، آپ حیدرآباد سندھ کے عباسی کلہوڑا خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اور آپ کے والد پیر  میاں نواز کلہوڑو کے سجادہ نشین تھے،  ماہتاب محبوب نے  1970ء کی دہائی میں مختصر کہانیاں لکھنا شروع کیں، آپ سندھی زبان میں مختصر کہانیاں لکھنے والی پہلی خاتون مصنف مانی جاتی ہیں۔  آپ  کی کہانیوں کے تین  مجموعے ‘‘چاندي جون تارون’’ (چاندی کا طوق)،  ‘‘پرهه کان پهرين’’ (طلوع فجر سے پہلے)،  ‘‘مٺي مراد’’ (میٹھی کامیابی) شایع ہوئے ۔ آپ کے دو ناول   ‘‘پيار پناهون ڇانورا’’ اور  ‘‘خواب خوشبو ڇوڪري’’ بھی  مقبول ہوئے۔    اس کے علاوہ 1974ء سے 1992ء تک آپ کے سندھی کالم محتلف اخبارات و جرائد میں شایع ہوتے رہے ہیں، آپ نے سفرنامے اور دیگر ادبی موضوعات کو بھی قلمبند کیا۔   ماہتاب محبوب کی کتابیں اردو، انگریزی، پنجابی، ہندی اور گجراتی زبان میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ آپ کو سندھی ادب کی  خدمات پر رائٹر گلڈ ایوارڈ، اکیڈمی آف لیٹرز، نئی زندگی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ، سندھی لینگویج اتھارٹی ایوارڈ، سوجھرو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ،  سندھی گریجوئیٹ ایوارڈ، رام پنجوانی جھولے لعل ایوارڈ سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔  ماہتاب محبوب کی کہانیوں کا زیادہ تر موضوع ، عورت، اس کے سماجی مسائل اور معاشرے میں ان پر سلوک اور رویے رہا ہے۔  


اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں