مشہور روسی افسانہ نگار  انتون چیخوف  کی کہانی 

بھکاری


زیر نظر چیخوف کی روسی کہانی  The Beggar  کا ترجمہ ہے۔

مشہور روسی افسانہ نگار  انتون چیخوف  کی کہانی کا ترجمہ




‘‘جناب عالی، مجھ پر رحم کیجیے!.... مہربانی فرمائیں، ایک بےکس غریب کے حال پر ترس کھائیں۔  بھوکا ہوں۔ تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ رات بسری کے لیے پانچ کو پک Copeck (روسی کرنسی سکے) بھی نہیں۔ خدا کی قسم پانچ سال تک گاؤں کے مدرسے میں پڑھاتا رہا ہوں۔ لیکن بعض لوگوں کی سازشوں کے باعث مجھے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ میں جھوٹے گواہوں کا نشانہ بنا۔ سال بھر سے بےروزگار ہوں۔’’
اسکورٹساف Skvortsov،  روس کے ساحلی شہر سینٹ پیٹرزبرگ کا وکیل تھا۔ اس نے اپنے گھر کے  دروازے پر اس بھکاری کے پھٹے پرانے نیلے اور کوٹ کو اس کی میلی شرابی آنکھوں کو ،اس کے گالوں پر سرخ دھبوں کو دیکھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ اس شخص کو پہلے بھی دیکھ چکا ہے۔ 
بھکاری نے کہا ‘‘اب مجھے کالوگا  Kaluga صوبے میں ایک نوکری مل رہی ہے، لیکن میرے پاس جانے کے اخراجات نہیں ہیں۔ مہربانی فرمائیں میری مدد کریں۔ مجھے مانگتے ہوے شرم آ رہی ہے ،لیکن میں اپنے حالات سے مجبور ہوں۔’’
اسکورٹساف نے اس کے جوتوں پر نظر ڈالی جن میں سے ایک جوتا واجبی سا تھا جبکہ دوسرا بوٹ کی طرح ٹانگوں کے اوپر تک آ رہا تھا۔ اسے یکدم یاد آیا۔ 
‘‘سنو! پرسوں تم مجھے ساڈوئی Sadovoy اسٹریٹ پر ملے تھے ،اس وقت تم نے مجھے یہ تو نہیں بتایا کہ تم گاؤں کے مدرسے کے استاد ہو، تب تم نے اپنے آپ کو طالب علم بتلایا تھا اور کہا تھا کہ فیس ادا نہ کرنے کی وجہ سے تمہیں نکال دیا ۔ ’’
اس نے بھکاری کو جتلایا۔‘‘یاد ہے تمہیں ؟’’
‘‘نن....نہیں.... ایسا نہیں ہو سکتا۔’’  بھکاری الجھا ہوا، حیرت کے ساتھ   بات چبا کر بولا۔ 
‘‘میں گاؤں میں استاد ہوں، اور اگر آپ تسلی کرنا چاہیں تو میں آپ کو کاغذات دکھا سکتا ہوں۔ ’’
‘‘کافی جھوٹ بول لیا۔  تم اس دن اپنے آپ کو طالب علم کہ رہے تھے ،اور سکول سے نکالے جانے کی وجہ بھی بتائی تھی ،یاد ہے ؟ ’’
یہ کہتے ہوئے اسکورٹساف کا چہرا سرخ ہوگیا اور وہ تھوڑا جذباتی ہوگیا۔  بھکاری کے لیے اپنے چہرے پر حقارت کی نظر سجائے اس پھٹیچر سے منہ موڑ کر پرے ہٹ گیا۔ اور غصے سے چلایا،
‘‘یہ بے ایمانی  ہے ، یہ سرا سر دھوکہ  بازی ہے، میں تمہیں پولیس کے حوالے کروں گا۔ بدمعاش کہیں کے لعنت ہے تم پر ،تم بھوکے اور غریب ضرور ہو، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس ڈھٹائی اور بے شرمی سے جھوٹ بولو۔ ’’
اس خستہ حال بھکاری نے دروازے کے ہینڈل کا سہارا لیا۔  پھندے میں پھنسے ہوئے پرندے کی مانند مایوسی سے ہال میں نگاہیں دوڑائیں، جیسے کوئی چور دیکھتا ہے پھر کہنے لگا
‘‘مم ....میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ میں دستاویزات دکھا سکتا ہوں۔ ’’  
‘‘تمہارا اعتبار کون کرے گا؟ ’’ اسکورٹساف نے بات جاری رکھی۔ وہ ابھی تک مشتعل تھا۔  ‘‘یہ  استاد اور طالب علم کے لیے لوگوں کے ہمدردانہ جذبات کا استحصال ہے۔ یہ پستی کمینگی اور گندگی کی انتہا ہے ،قابل نفرت ہے۔ ’’
اسکورٹساف نے بھکاری کو خوب لتاڑا۔ اس پھٹیچر  کے دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنے سے اسے  کراہت محسوس ہوئی۔  نرم دلی ،حساس دلی اور ناخوش لوگوں کے لیے خدا ترسی جیسی صفات جن کی وجہ سے وہ اپنے آپ پر فخر کرتا تھا ،ان کو زک پہنچانے پر بھکاری کا رویہ اسے جرم محسوس ہوا۔  اسے بھکاری کا جھوٹ دوسروں کے جذبات سے ظالمانہ کھلواڑ لگا۔ 
بھکاری نے پہلے تو اپنا دفاع کیا ،قسمیں اٹھا اٹھا کر احتجاج کیا ،بلا آخر خاموش ہو گیا اور شرمندگی سے سر جھکا دیا ،   پھر اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر جھکے ہوئے سر کے ساتھ بولا۔ 
‘‘جناب ! میں واقعی جھوٹ بول رہا تھا۔ نہ تو میں طالب علم ہوں اور نہ ہی کسی گاؤں کے مدرسے کا استاد۔ یہ سب میری اختراع ہے۔ میں ایک روسی طائفہ (قوال کی ٹولی ) میں تھا۔ مجھے میری شراب نوشی کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔ لیکن یقین کریں جھوٹ بولنے کے سوا میرے پاس کوئی حل نہیں۔ اگر میں سچ بولوں تو مجھے کوئی خیرات نہیں دے گا۔ سچ کے ساتھ بھوکا مر جاؤں، رہائش کے بغیر ٹھنڈ سے منجمد ہو جاؤں۔ آپ سچ کہہ رہے ہیں ،میں سمجھ رہا ہوں لیکن میں کر کیا سکتا ہوں ؟‘‘
‘‘تم کیا کر سکتے ہو ؟ تم پوچھتے ہو تم کیا کرو ؟ ’’
‘‘کام....’’سکورسٹوف اس کے قریب ہوتےہوئے چلایا ،‘‘تمہیں کام کرنا چاہیے ، ہر حالت میں کام ’’
‘‘کام ....میں بھی جانتا ہوں ،لیکن مجھے کہاں سے ملے گا کام .... ؟’’
‘‘سب بکواس ، تم جوان ہو توانا اور صحت مند .... اگر تم چاہتے تو تم کام ڈھونڈ سکتے تھے .... لیکن تمہیں پتہ ہے تم سست ہو،  بگڑے ہوئے ہو اور نشئی ہو.... تمہارے منہ سے شراب  کی بد بو آرہی ہے۔ جھوٹ اور بےایمانی تمہاری رگوں میں گھس چکی ہے۔ تم جھوٹ بولنے اور بھیک مانگنے کے قابل ہی رہ گئے ہو۔ اگر تم سنجیدگی سے کام کرنا چاہتے تو تمہیں کسی دفتر میں کسی روسی طائفے میں یا بلیئرڈ مارکر (اسنوکر کی کھیل میں اسکور کا ریکارڈ رکھنے والا)کی نوکری ہی مل جاتی۔  جہاں کچھ بھی کئے بغیر تنخواہ ملتی رہتی۔ لیکن تم کیسے جسمانی مشقت کرو  گے....؟ میرے خیال میں تم نہ گھر مزدور اور نہ ہی فیکٹری مزدور بن سکتے ہو۔ تم  اتنے نخریلے ہو کہ تم سے یہ سب نہیں ہوگا۔’’
‘‘جو آپ کہہ رہے ہیں .... واقعی میں جسمانی مشقت کیسے کر سکتا ہوں ؟ " بھکاری نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ‘‘دکانداری کے لیے بھی دیر ہو گئی۔ تجارت لڑکپن سے ہی شروع کرنی چاہیے۔ گھر مزدور بھی مجھے کوئی نہیں رکھے گا۔ اس لیے کہ میں اس قسم کا نہیں ہوں۔  فیکٹری میں ملازمت کے لیے کوئی ہنر چاہیے جبکہ مجھے کوئی ہنر نہیں آتا۔ ’’
‘‘سب بکواس ،تم کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ لیتے ہو۔  کیا تم لکڑیاں کاٹنا پسند کرو گے ؟’’
‘‘میں انکار نہیں کروں گا لیکن باقاعدہ لکڑہارے بھی آج کل بیکار ہیں۔’’
‘‘اوہو تمام بےروز گار ایسے ہی بحث کرتے ہیں۔ جوں ہی تمہیں کوئی کام بتاؤ تم انکار کر دیتے ہو۔  کیا تم میرے لیے لکڑیاں کاٹ سکتے ہو ؟ ’’
‘‘جی ضرور....’’
‘‘بہت خوب ! شان دار ، چلو دیکھتے ہیں۔ ’’
اسکورٹساف نے خنداں مسکراہٹ لیے جلدی سے اپنے کچن  سے نوکرانی بلایا۔ 
‘‘یہاں  آؤ، اولگاOlga ،اس کو ٹال کے چھپر  میں لے جاؤ اور کچھ لکڑی کٹوا لو۔ ’’
بھکاری نے شانے اچکائے۔ کچھ الجھا ہوا اور گو مگو کی کیفیت میں خانساماں کے پیچھے چل پڑا۔ اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ لکڑی کاٹنے پر اس لیے راضی نہیں ہوا کہ وہ بھوکا تھا اور کچھ رقم کمانا چاہتا تھا۔ بلکہ محض شرمندگی مٹانے اور عزت نفس کے لیے کیوں کہ وہ اپنے ہی الفاظ پر پکڑا گیا تھا۔ 
یہ بھی واضح تھا کہ وہ نشے کے اثر تلے تھا اور کام کرنے کی اسے ذرا سی بھی خواہش نہیں۔ اسکورٹساف کھانے کے کمرے میں چلا گیا۔ جہاں کھڑکی سے وہ لکڑی والا چھپر ،صحن اور ہر چیز دیکھ سکتا تھا۔  کھڑکی سے اس نے بھکاری اور نوکرانی  کو پچھلے راستے سے آتے دیکھا۔ 
اولگا نے ناراضی سے اپنے ساتھی کا جائزہ لیا۔ کہنی جھٹکتے ہوے چھپر کا کنڈا کھولا۔ غصے سے دروازہ جھٹکے سے کھولا۔ 
‘‘شاید ہم نے اس نوکرانی کے آرام کرنے اور کافی پینے کے وقت میں خلل  ڈال دی ہے۔’’ اسکورٹساف نے سوچا،‘‘ویکھو! کیسی بد مزاج عورت ہےیہ ۔’’
تبھی اس نے اس خود ساختہ بنے ہوئےاستاد (یا طالب علم) کو لکڑیوں کے گٹھے پر بیٹھتے دیکھا۔ اپنے سرخ گال ہتھیلیوں پر ٹکائے سوچ میں غرق۔  باورچن  اولگا نے لکڑی اس کے پاؤں میں پھینکی ،غصے سے زمین پر تھوکا۔ 
اسکورٹساف نے اس کی ہونٹوں کی حرکت سے اندازہ لگایا کہ وہ اسے برا بھلا کہہ رہی ہے۔ 
بھکاری نے لکڑی کا ایک شہتیر اپنی طرف کھینچا۔ بے اعتمادی سے اسے اپنے پاؤں کے درمیان رکھا اور جھجھکتے ہوئے اس پر کلہاڑی چلائی۔ لکڑی ڈگمگائی اور اچھل کر گر پڑی۔ بھکاری نے اسے پھر اپنی طرف گھسیٹا ،اپنے منجمد ہوتے ہاتھوں پر پھونک ماری اور اب کے بہت محتاط انداز سے کلہاڑی کا وار کیا جیسے وہ اپنے بوٹ یا انگلیوں پر ضرب لگنے سے ڈر رہا ہو۔ شہتیر دوبارہ سے گر گیا۔ 
اسکورٹساف کے غصے کی شدت اب تک کم ہو گئی تھی۔ اسے شرمندگی محسوس ہوئی کہ اس نے ایک عادی شرابی اور شاید ایک بیمار آدمی کو ٹھنڈ میں اتنے سخت کام پر لگا دیا۔ 
‘‘خیر کوئی مضائقہ نہیں ’’، اس نے ڈائینگ روم سے سٹڈی روم میں جاتے ہوے سوچا ،‘‘میں یہ اسی کے فائدے کے لیے کر رہا ہوں۔ ’’
ایک گھنٹے بعد اولگا آئی اور بتایا کہ لکڑی کاٹی جاچکی ہے۔ 
‘‘اسے آدھا روبل  Ruble (روسی کرنسی نوٹ تقریباً 100 کوپیک  سکے کے برابر ہوتا ہے) دے دو.... ’’،اسکورٹساف بولا، 
‘‘اگر وہ پسند کرے تو ہر مہینے آکر لکڑی کاٹ جایا کرے .... اسے ہمیشہ کام ملے گا۔’’
اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو بھکاری پھرآیا اور آدھا روبل کما کر لے گیا۔ اب وہ لڑکھڑائے بغیر  بمشکل اپنے پاؤں پر کھڑا رہنےلگا تھا،  اس کے بعد وہ اکثر آتا اور کام کرتا۔ کبھی برف گھسیٹ کر اس کا ڈھیر لگا دیتا ،کبھی شیڈ کی صفائی کر جاتا ،کبھی قالین اور دریاں  جھاڑ جاتا ،اور ہمیشہ اسے تیس سے چالیس کو پک مل جاتے ،ایک دفعہ پرانا پاجامہ بھی اسے دیا گیا۔ 
جس دن اسکورٹساف نے گھر بدلنا تھا تو بھکاری کو سامان کی پیکنگ اور فرنیچر اٹھانے کے لیے بلایا گیا۔ اس موقع پر بھکاری کافی سنجیدہ ،خاموش اور بغیر نشے کے تھا۔ اس نے شازونادر ہی فرنیچر کو ہاتھ لگایا۔ جھکے سر کے ساتھ فرنیچر وین کے آگے پیچھے ہوتا رہا اور مصروف دکھائی دینے کی کوشش بھی نہیں کی۔ ٹھنڈ سے کانپتا رہا۔ وین والے اس کی کمزوری ،بےکاری ،اور پھٹے پرانے کوٹ (جو کبھی کسی شریف آدمی کا تھا ) کا مزاق اڑاتے رہے۔ آخر میں اسکورٹساف نے اسے بلا بھیجا۔ 
‘‘میں دیکھتا ہوں کہ میرے الفاظ کا تم پر مثبت اثر ہوا۔’’ یہ کہتے ہوئے اسے ایک روبل دیا۔ ‘‘یہ لو تمہاری محنت کا صلہ....میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نشے میں بھی نہیں ہو اور کام سے متنفر بھی نہیں۔ تمہارا نام کیا ہے ....؟’’
‘‘لشکوو....Lushkov’’
‘‘لشکوو ! میں تمہیں اس سے بہتر کام دلوا سکتا ہوں ،کیا تم لکھنا  پڑھنا جانتے ہو۔ ؟’’
‘‘جی جناب ’’
‘‘تو بس کل میرا یہ رقعہ لے جاؤ میرے ایک ساتھی کے پاس۔ وہ تمہیں کچھ نقول بنانے کے لیے دے گا۔ کام کرنا۔ نشہ  مت کرنا  اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے بھولنا مت ،خدا حافظ ’’
اسکورٹساف خوشی سے پھولا نہ سما رہا تھا  اس نے ایک شخص کو سیدھے رستے پر لگایا۔ اس کے بعد اس کے کندھے پر تھپکی دی ،بلکہ رخصت ہوتے ہوئے اس سے ہاتھ بھی ملایا۔ 
لشکوو نے خط لیا اور چلا گیا اور اس کے بعد وہ کام کرنے اسکورٹساف کے گھر نہیں آیا۔ 
دو سال گزر گئے۔ ایک دن جب اسکورٹساف تھیٹر گھر کے ٹکٹ آفس کے باہر اپنے ٹکٹ  کے لیے کھڑا تھا تو اس نے اپنے ساتھ کھڑے ایک چھوٹے شخص کو دیکھا ،جو پروں والے کالر والا چمڑے کا کوٹ اور خستہ حال چمڑے  کی ٹوپی پہنے تھا،  اس شخص نے کلرک سے ہچکچاتے ہوئے گیلری ٹکٹ مانگا اور کو پک میں ادائیگی کی۔ 
‘‘لشکوو! کیا یہ تم ہو ؟’’ اسکورٹساف نے اپنے سابقہ لکڑیاں کاٹنے والے کو پہچانتے ہوے پوچھا۔  
‘‘تم خیریت سے ہو ؟ تم کیسے ہو، کہاں ہوِ ، کیا کر رہے ہو؟   گزر بسر کس طرح ہورہی ہے۔ ’’
‘‘بہت عمدہ جناب ....اب میں ایک نوٹری (دستاویزات کی تصدیق ) آفس میں کام کرتا ہوں۔ پینتیس روبلز کما لیتا ہوں۔’’
‘‘بہت خوب ,شکر خدا کا ، مجھے بہت خوشی ہوئی۔ تم جانتے ہو تم ایک طرح سے میرے روحانی شاگرد  ہو۔ یہ میں تھا جس نے تمہیں سیدھا رستہ دکھایا۔  تمھیں یاد ہے میں نے تمہیں کتنا ڈانٹا تھا۔ تم شرم سے پانی پانی ہو گئے تھے۔ بہرحال بہت شکریہ میرے الفاظ یاد رکھنے کا۔ ’’
‘‘آپ کا بھی شکریہ ! ’’ لشکوو بولا۔  ‘‘اگر میں اس دن آپ کی طرف نہ آتا تو شاید میں ابھی تک خود کو اسکول ماسٹر یا طالب علم  بنا کر بھیک مانگتا ہوتا۔ جی بالکل آپ کے گھر نے مجھے بچایا اور ذلت کے گڑھے سے نکالا۔  میں بہت بہت خوش ہوں آپ کے خدا ترسی والے الفاظ اور عمل کا شکریہ۔ اس دن آپ نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح تھا۔ میں زندگی بھر آپ کا ممنون رہوں گا۔
لیکن سچ تو یہ ہے کہ جس نے مجھے حقیقتا ً بچایا وہ آپ کی نوکرانی  اولگا تھی۔ ’’
‘‘وہ کیسے.... ؟’’
‘‘وہ ایسے کہ میں جب لکڑیاں کاٹنے آتا ،وہ کہتی ،‘‘آہ افسوس، تم قابل ترس انسان ....تمہیں موت بھی نہیں آتی’’،اور میرے سامنے بیٹھ جاتی۔  افسوس کرتی ،میرے چہرے کو دیکھتی اور واویلا کرتی ،
‘‘تم بد قسمت انسان ! کیوں نشہ کرتے ہو، تمہارے لیے دنیا میں کوئی خوشی نہیں اور آخرت میں دوزخ میں جلوگے۔  ’’
وہ اسی طرح راگ الاپتی ، بہت پریشان ہوتی اور میرے لیے آنسو بہاتی۔ کہنے کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ میں کم زور اور ناتجربہ کار تھا، وہ میری جگہ میرے لیے لکڑیاں کاٹتی۔ آپ نہیں جانتے صاحب ! میں نے کبھی بھی آپ کی لکڑیاں نہیں کاٹیں۔ وہی ہمیشہ کاٹتی۔ 
میں بتا نہیں سکتا مجھ پر کس کا زیادہ اثر ہوا۔    میں بتا نہیں سکتا کہ اس نے کس طرح میرے لیے رنج و غم برداشت کیا،   کس طرح اس نے مجھے بچایا۔ اسے دیکھتے ہوئے میں نے کیوں شراب چھوڑ دی۔ 
میں نہیں بتا سکتا ،میں اتنا جانتا ہوں جو وہ کہتی اور جس حسن سلوک اور شریفانہ طریقے سے وہ برتاؤ کرتی اس سے میری روح بدلنا شروع ہو گئی۔ 
میرے دل میں تبدیلی آنے لگی، اس نے مجھے سیدھا رستہ دکھایا، میں اسے کبھی نہیں بھلا سکتا۔ اب جانے کا وقت ہے وہ گھنٹی بجانے لگے ہیں۔ ’’
لشکوو نے جھک کر تعظیم دی اور گیلری کی طرف بڑھ گیا۔ 






روسی ادیب ، افسانہ نگار   و  ڈرامہ نویس

انتون چیخوف ۔1860ء-1904ء

روس کا مشہور ادیب،   مصنف،  افسانہ نگار  اور ڈرامہ نویس انتون پاؤلاو چ چیخوف  Anton Pavlovich Chekhov، 29 جنوری 1860ء میں روس کے شہر ٹیگانرگ میں پیدا ہوا ۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا ۔ ان کے والد پاول سودا سلف کی ایک چھوٹی دکان چلاتے تھے مگر وہ ایک سخت مزاج  انسان تھے اور اپنی بیوی اور بچوں پر مارپیٹ کرتے تھے۔ چیخوف  کے بچپن کی ناخوشگوار یادیں ان پر تمام عمر حاوی رہیں ۔ چیخوف  اسکول میں داخل ہوئے مگر  تعلیمی میدان میں اوسط درجے کی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے رہے ۔البتہ ان کی والدہ محبت کرنے والی خاتون تھیں اور قصہ گوئی کے ذریعے اپنے بچوں کی تربیت کرتی تھیں۔     1876 ء  میں چیخوف کا باپ  دیوالیہ ہونے پر  قرضہ کی ادائیگی کے خوف سے چیخوف کو اکیلا چھوڑ کر اپنے خاندان کے ہمراہ ماسکو بھاگ گیا ۔ چیخوف نے ہمت نہیں ہاری اور ٹیوشن اور چھوٹے موٹے کام کر کے اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرتا رہا اور تین سال بعد ماسکو اپنے خاندان سے جا ملا ۔ وہاں پر اس نے ایک طبی کالج میں داخلہ لے لیا اور  1884ء میں انیس برس کی عمر میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے چیخوف کے قلمی نام سے ایک روزنامے humorous sketches میں کالم  اور مختصر افسانے لکھنے شروع کیے۔  پہلے مجموعے کی کامیابی کے باعث ڈاکٹری ترک کرکے افسانے اور ڈرامے لکھنے شروع کیے۔  اسے ٹی بی کا مرض بھی لاحق ہو گیا جو اس نے اپنے خاندان سے چھپائے رکھا  اور اسی مرض میں 15جولائی 1904 کو  جرمنی کے شہر بیدینويلر میں  انتقال کرگیا ۔  چیخوف کو جدید افسانہ نگاری کا بابا  سمجھا جاتا ہے اور ان کہانیاں دنیا کے مبصرین اور ناقدین میں بہت احترام کے ساتھ سراہی جاتی ہیں۔ 
چیخوف   کے تمام افسانوں کا رجحان زندگی کے روزمرہ کے معاملات کی طرف ہوتا۔  انسانی فطرت اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس نے شدید طنز کیا۔ اس کی تحریروں میں سب طبقوں کی تنگ نظری اور سادہ لوحی یوں ریکارڈ ہوگئی ہے کہ جیسے کیمرے نے زندگی کی تصویر کھینچ لی ہو۔ 

اس بلاگ پر انتون چیخوف کی تحریریں