برازیلی ادب کا 
عالمی شہرت یافتہ بیسٹ سیلر ناول

تلاش
(کیمیا گر - الکیمسٹ)

پاؤلو کویلہو

انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور کوشش کرتا ہے تو قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔

کیمیاگر (الکیمسٹ Alchemist ) برازیلی ادیب پاؤلو کویلہو Paulo Coelho کا شاہکار ناول ہے، جس کا دنیا کی 70 زبانوں میں ترجمہ ہوا ۔ اس ناول نے فروخت کےنئے ریکارڈ قائم کرکے گنیز بک میں اپنا نام شامل کیا۔ اس کہانی کے بنیادی تصوّرات میں رومی، سعدی اور دیگر صوفیوں کی کتابوں اور فکرِ تصوّف کی جھلک نظر آتی ہے۔

کیمیا گر ، اندلس کے ایک نوجوان چرواہے کی کہانی ہے جو ایک انوکھا خواب دیکھتا ہے جس کی تعبیر بتائی جاتی ہے کہ اسے کوئی خزانہ ضرورملے گا ۔ وہ خزانے کی تلاش میں نکلتا ہے اور خوابوں، علامتوں کی رہنمائی میں حکمت اور دانائی کی باتیں سیکھتے ہوئے ، افریقہ کے صحراؤں میں اس کی ملاقات ایک کیمیاگر سے ہوتی ہے ، یہ کیمیا گر خزانے کی تلاش کے ساتھ انسانی سرشت میں چھپے اصل خزانے کی جانب بھی اس کی رہنمائی کرتا ہے…. 

یہ بیسٹ سیلر ناول چھ حصوں میں دیا جارہا ہے











اندلس ، براعظم یورپ کے جنوب مشرق میں بحر اوقیانوس، آبنائے جبل الطارق اور بحیرہ روم سے ملحق، ملک اسپین میں واقع ایک بڑا گنجان آباد علاقہ ہے۔ یہ وہی اندلس ہے جس پر آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان سپہ سالار طارق بن زیاد نے بادشاہ راڈرک کو شکست دی تھی اور یہاں مسلم سلطنتِ ہسپانیہ کی بنیاد ڈالی تھی۔
مسلمانوں نے تقریبا 700 برس اندلس پر حکمرانی کی، یہ دور اندلس کا سنہری دور کہلاتا ہے اس دوران ہر میدان میں اندلس نے ترقی کی، اور یورپ کا مرکز بن گیا۔ پورے یورپ سے طالبعلم اندلس آتے اور نئے نئے علوم سیکھ کر جاتے تھے۔ پندرہویں صدی میں نشاۃ ثانیہ اور سقوط ہسپانیہ کے بعد اندلس کی سنہری تہذیب کے امین غرناطہ، قرطبہ اور اشبیلیہ آج اسپین کے صوبے اندلوسیا Andalusia کا حصہ ہیں۔
یہ کہانی ہے اسی صوبے اندلوسیا کی وادیوں میں پھرنے والے نوجوان چراوہے کی ہے ، اس لڑکے کا نام سان تیاگو Santiagoتھا….




 

جب وہ اپنی بھیڑوں کے گلّہ کے ساتھ ایک قدیم اور ویران گرجا گھر میں آرام کی خاطر رُکا تو شام ڈھل چکی تھی اور ہرطرف دھند کے سائے اُتر رہے تھے۔ گرجا گھر کی یہ عمارت برسوں سے متروک تھی، اور امتدادِ زمانہ کے باعث اس کی نصف چھت بہت پہلے ہی گر چکی تھی اور جس جگہ پہلے کبھی وہ مقدّس مقام Sacristyہوا کرتا تھا جہاں کبھی پادری اپنے مقدس ظروف اور لبادے رکھتے تھے وہاں اب انجیر توت Sycamoreکا ایک بڑا سایہ دار درخت اپنی جگہ بنا چکا تھا۔
‘‘رات گزارنے کے لئے یہ جگہ مناسب ہے’’، اُس نے سوچا۔ اسی جگہ رات گزارنے کا فیصلہ کرکےوہ بھیڑوں کو اندر ہنکا لایا۔ جب اس نے اسے دیکھا کہ تمام بھیڑ یں خستہ حال اورٹوٹے دروازے سے اندر داخل ہوچکی ہیں تو اس نے گرجا کے بوسیدہ دروازہ کو لکڑی کے ایک بڑے سے تختے سے بند کردیا تا کہ رات میں کوئی بھیڑ باہر نہ نکل جائے ۔ یوں تو اِس علاقہ میں کسی بھیڑئیے کا ڈر نہیں تھا لیکن کوئی بھیڑ تو باہر جاسکتی تھی۔ ایک دفعہ ایک بھیڑ ریوڑ سے بچھڑ کر باہر نکل گئی تھی۔ اس کو پوری رات اور اگلا پورا دن اس بھیڑ کو تلاش کرتے کرتے گزرگیا تھا۔ تب ہی سے وہ ذرا محتاط ہو گیا تھا۔
اب لڑکے نے اپنی جیکٹ اتاری اُس سے زمین صاف کر کے لیٹ گیا اور وہ کتاب جو اُس نے ابھی پڑھ کر ختم کی تھی، سر کے نیچے تکیہ بنا کر رکھ لی۔ ‘‘آئندہ ذرا موٹی کتاب لوں گا’’ اُس نے اپنے آپ سے کہا ۔‘‘موٹی کتاب سے ایک فائدہ تو یہ ہے کہ پڑھنے میں زیادہ وقت گزرتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ایک اچھے تکیے کا کام بھیدیتیہیں۔’’
آنکھ کھلی تو ابھی بھی اندھیرا چھایا ہوا تھا اور اُسے ٹوٹی ہوئی چھت سے تاروں بھرا آسمان صاف نظر آرہا تھا۔
‘‘مجھے کچھ دیر اور سو لینا چاہیے تھا’’، اُس نے سوچا۔ آج بھی اُسے وہی خواب نظر آیا تھا جسے اس نے ہفتہ بھر پہلے دیکھا تھا اور آج بھی ادھورے خواب میں ہی اُس کی آنکھ کھل گئی تھی۔



وہ اُٹھ کر کھڑا ہوا اور گڈریوں کی مخصوص آنکڑے والی چھڑی لے کر بھیڑوں کو اُٹھانا کرنا شروع کر دیا جو شاید ابھی تک نیندسے مدہوش تھیں، لیکن اُس نے محسوس کیا کہ جیسے ہی وہ جاگتا ہے، زیادہ تر بھیڑوں میں کچھ ہلچل شروع ہو چکی ہوتی ہے۔ اُسے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اُس کی زندگی ان بھیڑوں سے ایک خاص قسم کی پراسرار توانائی یا غیر مرئی طاقت سے جُڑی ہوئی ہے۔ اِن مویشیوں کے ساتھ اُس کا رشتہ گزشتہ دو سالوں پر محیط تھا۔ وہ پانی اور چارہ کی تلاش میں اُنہیں ساتھ لیے اندلوسیا کی وادیوں ، جنگلوں بیابانوں اورمختلف گاؤں میں پھرتا رہا تھا۔
‘‘بھیڑیں اب میرے اوقات کار و اطوار کی عادی ہو گئی ہیں۔ اُنہیں معلوم ہوتا ہے کہ میں کب کیا کروں گا’’ دہ دِل ہی دِل میں اپنے آپ سے کہنے لگا ، پھر تھوڑی دیر بعد بولا‘‘یا شاید میں ہی اُن سے اِس قدر مانوس ہو گیا ہوں کہ اُن کے عادت و اطوار میں ڈھل چکا ہوں ۔’’
لیکن سب بھیڑیں ایک ساتھ نہیں جاگتی تھیں، ان میں سے کچھ تو بہت دیر تک سو تی رہتی تھیں۔ لڑکے نے اُنہیں اپنی آنکڑے والی چھڑی سے ٹہوکا دے کر جگایا۔ اُس نے ہر بھیڑ کو ایک نام دے رکھا تھا اور وہ ہر ایک کو نام لے لےکر آنکڑے والی چھڑی سے ٹہوکا دے کر جگا تا تھا۔ اُسے یقین تھا کہ جو کچھ وہ کہتا ہے یہ بھیڑیں اُس کی زبان سمجھتی ہیں۔
چنانچہ اکثر اوقات وہ اُن کے درمیان بیٹھ کر کتابوں کے کچھ حصے پڑھ کر اُنہیں سنایا کرتا جیسے وہ ان کو سمجھ رہی ہوں ۔ کبھی وہ اُنہیں چرواہا کی زندگی کے دکھ درد، تنہائی اور خوشیوں کی باتیں بتاتا۔ کبھی کبھی وہ راستہ میں گزرنے والے گاؤں کی چیزوں کے متعلق بھیڑوں سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتا ۔ لیکن گزشتہ چند دنوں سے بھیڑوں سے اِس کی گفتگو کا موضوع ایک ہی تھا۔ ایک لڑکی، جس کا تذکرہ وہ بار بار کرتا رہتا تھا، وہ ایک تاجر کی بیٹی تھی جسے اُس نے گزشتہ سال دیکھا تھا ، اور اب اُس لڑکی کا گاؤں قریب تھا، صرف چار دن کا فاصلہ رہ گیا تھا۔
وہ اس گاؤں میں پہلے بھی آیا تھا ، گزشتہ سال جب اُسے کسی دوست کے توسط سے اس تاجر کا پتہ چلا تھا جو خشک سامان Dry Goods کا کاروبار کرتا ہے اور وہ خام مال اور اون بھی خریدتا ہے۔ دوست نے بتایاتھا کہ تاجر ذرا شکیّ مزاج ہے۔ وہ سارا اُون اپنے سامنے کٹوا کر تسلی کر کے ہی خریدتا ہے۔ وہ بھی اپنی بھیڑیں لے کر اس دکان پر پہنچ گیا تھا۔
***
‘‘میں کچھ اون بیچنا چاہتا ہوں، کیا تم اُون خریدوگے ؟ ’’ پچھلے سال لڑکے نے تاجر سےپوچھاتھا۔
دکان میں بھیڑ بہت زیادہ تھی۔ تاجر نے کہا کہ وہ ابھی مصروف ہے اسے دوپہر تک انتظار کرنا پڑے گا۔ لڑکا دکان کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور تھیلے سے ایک کتاب نکال کر پڑھنے لگا۔
‘‘اچھا۔ تو کیا چرواہےبھی پڑھنا جانتے ہیں…. ؟ ’’ اسے ایک لڑکی کی آواز سنائی دی۔ اس نے پیچھے مڑکر دیکھا، وہ اندلسی خد و خال رکھنے والی لڑکی تھی، جس کے لہراتے سیاہ بال اور گہر ی خوبصورت آنکھیں کسی حد تک عربوں جیسی نظرآتی تھیں۔


 

‘‘جی ! لیکن عام طور پر کتابوں سے میں زیادہ اپنی بھیڑوں سے سیکھتا ہوں ’’ اُس نے جواب دیا ۔
کوئی دو گھنٹہ تک وہ دونو ں بیٹھے ایک دوسرے کے متعلق باتیں کرتے رہے۔

لڑکی نے اُسے بتا یا کہ اُس کا باپ تاجر ہے اور اس کی زندگی گاؤں کی زندگی کی طرح ہر روز ایک جیسی ہی گزرتی ہے۔

 


لڑکا اُسے اندلوسیا کے مختلف علاقوں کے بارے میں بتاتا رہا ، جہاں جہاں وہ رکا اور ٹھہرا تھا۔
اب تک تو وہ زیادہ تر بھیڑوں سے ہی بات چیت کیا کرتا تھا، لیکن اِس بار اس لڑکی سے گفتگو کے تجربہ سے اس کے اندر ایک خوش کن تبدیلیپیدا ہوئی۔

 

‘‘تم نے پڑھنا کس سے سیکھا ؟’’ لڑکی نے گفتگو کے دوران سوال پوچھا۔
‘‘جیسے سب پڑھے لکھے لوگ سیکھتے ہیں…. اسکول سے….’’ اُس نے کہا۔
‘‘اچھا !!…. لیکن اگر تم پڑھنا جانتے ہو تو پھر تم چراوہے کا کام کیوں کرتے ہو؟’’
اس سوال کا جواب دینے سے بچنے کی خاطر اس لڑکے نے منہ ہی منہ بڑبڑاکر کچھ کہا تاکہ لڑکی اُس کے جواب کو قطعاً نہ سمجھ پائے اور پھر گفتگو کا موضوع دوبارہ اپنے سفر کی طرف موڑ لیا۔

 

لڑکا مختلف علاقوں کے واقعات اور کہانیاں سناتا رہا اور لڑکی کی چمکدار عربی آنکھیں کبھی خوف اور کبھی حیرت و تعجب سے پھیلتی رہیں۔
وقت گزرتا گیا۔ لڑکے کے دل میں ایک عجیب سی خواہش نے جنم لینا شروع کیا۔ اس نے سوچا کہ کاش وقت تھم جائے ، یہ دن کبھی ختم نہ ہو اور اُس کا تاجر باپ مصروف رہے چاہے مجھے تین دن تک انتظار کرنا پڑے۔ اور مجھے اس لڑکی کے ساتھ مزید وقت گزارنے کا موقع مل جائے ۔

 

اُسے محسوس ہوا کہ وہ کسی بالکل نئے تجربے سے گزر رہا ہے۔ اُسے ایسا احساس آج سے پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ کاش وہ اُسی جگہ اس سیاہ بالوں والی لڑکی کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ رہ سکتا۔
لیکن تاجر کو بہر حال فرصت مل گئی اور وہ وہاں آگیا ۔ اس نے لڑکے سے کہا کہ چار بھیڑوں کی اون اُتار دے۔ پھر تاجر نے اُسے اون کی رقم ادا کی اور اگلے سال دوبارہ آنے کےلئے کہا۔
***
اور اب اُس گاؤں تک پہنچنے میں صرف چار روز کے فاصلہ رہ گیا تھا، جیسے جیسے گاؤں کا فاصلہ گھٹ رہا تھا اس کے اندر جذبات کا دریا تلاطم ماررہاتھا، ایک طرف تو اسے سرور و شادمانی کی کیفیت محسوس ہورہی تھی لیکن دوسری طرف نادیدہ خوف بھی تھا ‘‘کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لڑکی اُسے بھول گئی ہو؟’’ اُس نے سوچا، ‘‘جانے کتنے ہی چرواہے اپنی اُون بیچنے کے لئے وہاں سے گزرتے ہوں گے۔ کیا وہ مجھ اکیلے کو یادرکھےگی’’۔
‘‘ اگر وہ بھول بھی گئی تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا’’ اُس نے پاس کھڑی ایک بھیڑ سے کہا ۔ ‘‘اور جگہوں پر بھی تو دوسری لڑکیاں ہیں جنہیں میں جانتا ہوں ….’’

لیکن اُس کا دِل جانتا تھا کہ فرق تو پڑتا ہے۔ اُسے پتہ تھا کہ چرواہے ہوں یا ماہی گیر یا سفر کرنے والے تاجر ہوں …. اُن کے لئے کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور ہوتی ہے جہاں ان کا دل اٹکا ہوا ہوتا ہے، جس کی یاد میں وہ اپنے تنہا سفر میں گزرے ایّام کی تمام خوشیوں کو بھول جاتے ہیں۔

 دِن نکل آیا تھا۔ چرواہے نے اپنی بھیڑوں کو ہانکنا شروع کیا اور ان کا رخ سورج کی جانب چلنے کے لئے موڑ دیا۔ بھیڑیں بھی مشرق کی سمت بڑھنے لگیں ۔ اُس نے سوچا کہ ‘‘یہ جانور بھی کیسی مخلوق ہے جسے کوئی فیصلہ کرنا ہی نہیں ہوتا۔ شاید اِسی لئے یہ بھیڑیں میرے قریب ہی رہنا پسندکرتیہیں۔’’
‘‘بھیڑوں کو صرف ایک ہی ضرورت کا احساس رہتا ہے، پانی اور خوراک اور جب تک اُن کے گڈریے کو اندلس کی بہترین چراہ گاہوں کا علم رہے گا اوروہ ان کے لیے بہترین چراگاہیں تلاش کرتا رہے گا، یہ بھیڑیں اس کی دوست رہیں گی، باوجود اس کے اُن کا ہر دن دوسرے دن کی طرحہوتا ہے’’۔
بھیڑوں کے لئے دوسری کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں تھی ، نہ کتابوں اور اُن کے مطالعہ سے بھیڑوں کا کوئی تعلق نہ تھا۔ وہ اِس بات سے بھی بے پرواہ تھیں ۔ جب وہ انہیں مختلف شہروں اور مقامات سے گزرتے ہوئے ان کے متعلق باتیں بتاتا ۔ اُنہیں تو پانی اور چارہ سے مطلب تھا اور اِس کے عوض وہ اُون دینے میں خاصی سخاوت دکھاتیں ۔ ساتھ میں اپنی رفاقت اور وفاداری بھی دیتیں اور زندگی میں ایک بار اپنا گوشت بھی….’’
لڑکے نے سوچا کہ اگر وہ ایک دیو بن جائے اور ایک ایک کر کے اِن بھیڑوں کو ذبح کر ڈالے اور یہ آدھی بھی ختم ہو جائیں گی تب بھی ان سب کو معلوم نہ ہو سکے گا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ وہ اِس حد تک مجھ پر بھروسہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی فطری جبلّت کو کام میں لانا ہی بھول گئی ہیں جو انہیں خوف اور خطرے سے آگاہ کرتی ہیں ’’۔ لڑکا کافی دیر تک سوچتا رہا۔
اچانک اس نے اپنے آپ کو جھنجوڑ کر خیالات سے آزاد کیا، ‘‘یہ مجھے کیا ہوگیا ہے، یہ عجیب و غریب خیالات میرے ذہن میں کیوں کر آ رہے ہیں….؟ ، اپنے عزیز اور وفادار ساتھیوں کو ذبح کرنے کے بارے میں ، میں سوچ بھی کیسے سکتا ہوں ؟؟’’۔ وہ بد حواس سا ہو گیا۔
‘‘کہیں ایسا تو نہیں کہ اُس گرجا گھر میں اس انجیر توت کے درخت پر کسی آسیب کا سایہ ہو۔ شاید اِس وجہ سے ہی وہی عجیب و غریب خواب مجھے بار بار نظر آیا تھا اور اِسی وجہ سے اپنی معصوم بھیڑوں کے متعلق اِس قسم کے خیالات میرے ذہن میں آرہے ہیں’’۔
ان خیالات سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے سوچا کہ اُسے کچھ کھا پی لینا چاہیے، گزشتہ رات کھانے سے جو کچھ بچا تھا اسے کھا کر پانی کے چند گھونٹ منہ میں بھرے ۔ پھر جیکٹ کو اپنے بدن پر اچھی طرح کس لیا اور چلنے کی تیاری کرنے لگا۔ کیونکہ چند گھنٹہ کے اندر سورج اپنے نقطہ عروج پر ہو گا اور گرمی اتنی شدید ہو گی کہ بھیڑوں کے گلّہ کو لے کر میدانوں سے نکلنا محال ہو جائے گا۔
یہ وہ وقت تھا جب گرمیوں کے دنوں میں تمام اندلس دوپہر میں قیلولہ کرتا تھا۔ دوپہر سے سورج ڈھلنے تک گرمی شدید رہتی اور یہ بھاری جیکٹ اُس کے کاندھے پر یونہی لٹکی رہتی تھیں ۔ وہ اس بھاری جیکٹ کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ یہی بھاری جیکٹ اُسے رات سے صبح تک کی سردی سے محفوظ رکھتی تھی۔
‘‘ہمیں موسم کی تبدیلی کے لیے بھی تو تیار رہنا چاہیے’’۔ وہ اس بھری گرمی میں جیکٹ کے وزن پر غور کرنے لگا۔ دونوں ہی ضروری ہیں۔
‘‘جیکٹ کا بھی ایک مقصد ہے ، جیسے ہر انسان کا ایک مقصد ہوتا ہے ، جس طرح اس کی زندگی کا مقصد ہےکہ وہ بس سفر کرتا جائے اور دنیا گھومے۔ گزشتہ دو برسوں میں اُس نے اندلوسیا صوبے کا چپہ چپہ دیکھ لیا تھا ، اب وہ اندلوسیا کے سب شہروں اور علاقوں کو جانتا تھا ۔
اب اس کا یہ ارادہ تھا کہ گاؤں پہنچ کر وہ لڑکی کو بتائے گا کہ کس طرح ایک معمولی چرواہے نے پڑھنا سیکھا تھا۔ وہ بتائے گا کہ وہ سولہ سال کی عمر تک ایک درسگاہ میں جاکر پڑھتا رہا۔ اس کے ماں باپ کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک راہب بنے اور اس طرح ایک عام سے کسان خاندان کے لئے فخر کا باعث بنے۔
اُس کے والدین پیٹ بھرنے کے لئے شدید محنت مشقت کرتے تھے بالکل ویسے ہی جیسے بھیڑیں پانی اور چارہ کے لئے جگہ جگہ پھرتی رہتی ہیں۔ درس گاہ میں اُس نے لاطینی اور ہسپانوی زبان کے علاوہ دینیات بھی پڑھی تھی۔ لیکن بچپن ہی سے اُسے دینیات پڑھنے ، گناہ ثواب کو جاننے اور پادری بننے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اسے تو سفرکر کے دنیا کو جاننے کا شوق تھا۔
ایک دن دوپہر کو جب وہ درسگاہ سے واپس آیا تو اس نے ہمت کرکے اپنے ماں باپ کے سامنے اپنی اِس خواہش کا اظہار کربھی دیا کہ وہ پادری یا راہب نہیں بننا چاہتا بلکہ سفرکر کے دنیا دیکھنا چاہتا ہے۔


‘‘بیٹا !! دنیا بھر کے لوگ ہمارے گاؤں سے گزرتے رہتے ہیں’’۔ باپ نے سمجھاتے ہوئے کہا، ‘‘تم یہیں رہ کر بھی دنیا دیکھ سکتے ہو؟…. دنیا کے سب لوگ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ تم نے دیکھا نہیں کہ دنیا بھر کے لوگ نئی نئی چیزوں کی تلاش میں کچھ نیا دیکھنے کچھ نیا سیکھنے یہاں آتے ہیں اور جب وہ واپس جاتے ہیں تو کیا وہ بدل جاتے ہیں؟…. وہ ویسے ہی رہتے ہیں۔ سیاح یہاں آتے ہیں پہاڑی پر چڑھتے ہیں یہاں بنے محلات کو بڑی دلچسپی سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ پہلے کے لوگ ہم سے کس قدر بہتر تھے۔کیا زمانہ تھا…. بس ان کےبال لمبے اور سیاہ اور رنگت گہری ہوتی ہے ، لیکن لوگ ہوتے اصلاً سب ایک ہی جیسے ہیں، بالکل ہماری تمہاری طرح یہاں کے لوگوں کی طرح۔’’
‘‘ لیکن میں اِن کے گاؤں، اُن کے مکانات اور محلات دیکھنا چاہتا ہوں جہاں یہ لوگ رہتے ہیں۔’’ لڑکے نے سمجھانے کی کوشش کی۔
‘‘ لیکن بیٹا جب یہ لوگ ہماری سرزمین کو دیکھتے ہیں تو حسرتیں بھرتے ہیں کہ کاش ہم یہاں ہمیشہ رہ سکتے۔’’ باپ مسکرا کر بولا۔
‘‘بہرحال ، میں تو اُن کی زمین اور اُن کا رہن سہن دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘بیٹے نے جواب دیا ۔
‘‘بیٹا! وہ لوگ تو بہت پیسے والے ہوتے ہیں اور سفر کرنے کے لیے روپیہ پیسہ خرچ کرنا اُن کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا’’ باپ نے کہا، ‘‘ہمارے پاس اتنا پیسہ کہاں ہے، اور ہمارے یہاں تو صرف چراوہے ہی تھوڑا بہت سفر کر پاتے ہیں۔’’
‘‘تو پھر ٹھیک ہے ، میں ایک چراوہا ہی بن جاتا ہوں۔’’ لڑکے نے فیصلہ کن لہجے میں جواب دیا۔
یہ سن کر باپ خاموش ہو گیا۔
اگلے دن باپ نے بیٹے کو ایک جامہ بند پوٹلی پکڑائی ، جس میں تین قدیم اندلسی طلائی سکے تھے اور پھر کہا ‘‘یہ ایک روز مجھے کھیت میں ملے تھے۔ میں نے یہ تمہارے لئے سنبھال کر رکھے تھے۔ اب اِن سے تم مویشی خرید لینا اور میدانوں میں نکل جانا۔ البتہ مجھے یقین ہے کہ گھومنے پھرنے کے بعد تم بھی اِسی نتیجہ پر پہنچو گے کہ ہماری زمین سے بہتر کوئی زمین نہیں۔ یہاں کے لوگوں سے زیادہ خوبصورت لوگ کہیں نہیں پائے جاتے۔’’
باپ نے لڑکے کو دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ لڑکا اپنے باپ کی آنکھوں میں بھی وہ چمک دیکھ رہا تھا جو دنیا کا سفر کرنے کی اُس کی اپنی خواہش کے تصور سے پیدا ہوئی تھی۔ وہ خواہش جو اس کے باپ میں اب بھی زندہ تھی ، جسے وہ روٹی کپڑا اور مکان کی مسلسل جد و جہد کے نتیجہ میں برسوں پہلے دفن کر چکا تھا۔ لیکن آج وہ اپنی اس خواہش کو اپنے بیٹے کے ذریعے پوری کررہا تھا۔






دُور فلک پر شفق کی سرخی پھیلنے لگی، پھر وہ لمحہ آیا کہ سورج اپنی کرنوں کے ساتھ نمودار ہوا اور رو شنی ہر طرف پھیل گئی۔
لڑکے کو اپنے باپ کے ساتھ کی گئی بات چیت یاد آ رہی تھی، لیکن وہ خوش اور مطمئن تھا، کیونکہ اُس نے بہت سے مَحلات اور مقامات دیکھ لئے تھے اور وہ بہت سے لوگوں سے بھی ملا تھا۔ ان میں عورتیں بھی تھیں (لیکن ان میں کوئی بھی اس لڑکی جیسی نہ تھی جس سے ملنے کاوہ انتظار کررہا ہے)۔
ایک جیکٹ ، اور ایک ایسی کتاب ، جس کے بدلے وہ دوسری کتاب لے سکتا تھا اور بہت سی بھیڑوں کا ایک گلّہ ہی اُس کی کل کائنات تھی۔ لیکن اس کے لیے ان سب سے بڑھ کر یہ چیز اہم تھی کہ اب وہ آزاد تھا۔ وہ اپنے ہر خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لئے ہر روز ہمہ وقت مستعد اور تیار رہتا ۔ وہ اپنے خوابوں کے بارے میں سوچتا رہتا کہ اگر میں یہاں گھوم پھر کر اُکتا گیا اور اندلس کے میدانوں سے میرا دل بھرگیا تو تمام بھیڑوں کو بیچ کر میں کسی روز سمندر کی طرف نکل جائے گا۔
اور اگر سمندروں کو بھی چھوڑنا پڑا تو کیا ہو گا….؟؟ ، اُس وقت تک تو جانے کتنے شہروں کو دیکھ چکا ہوں گا اور کتنے ہی لوگوں سے مل چکا ہوں گا اور اسے خوشی کے کئی اور مواقعے بھی مل چکے ہوں گے۔ اُس کے خیالات بھٹکتے رہے۔
جب اُبھرتے ہوئے سورج پر اُس کی نظر پڑی تو اُس کے ذہن میں ایک خیال اور آیا۔ اگر میں اپنے گاؤں اور وہاں کے مدرسہ میں ہی رہ رہا ہوتا تو شاید خالق اور اس کی خلقت کو کبھی جان نہیں پاتا ۔
اب جب بھی اُس کا جی چاہتا وہ کسی نئے راستہ کا انتخاب کرتا اور اُس طرف چل پڑتا۔
اس ویران گرجاگھر کے اندر وہ کبھی نہیں آیا تھا ۔ حالانکہ وہ اس راستہ سے متعدد بار گزر چکا تھا لیکن اس جانب کبھی متوجہ نہیں ہوا تھا۔ یہ دنیا تو بے انتہا وسیع اور لامتناہی ہے کہ اُس کی سیاحت کبھی ختم ہی نہ ہو پائے گی۔ بس بھیڑوں کو ایک نئے راستہ پر ڈالنے کی دیر ہوتی ہے۔ پھر آپ نئی دنیا دریافت کرتے ہیں اور آپ کے سامنے نئی اور دلچسپ کائنات عیاں ہوتی چلی جاتی ہے ۔




لیکن ان بھیڑوں کے ساتھ بھی عجیب مسئلہ ہے۔ اُنہیں تو اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہر روز جس راہ سے گذررہی ہیں وہ نئی ہے یا پُرانی ۔ نہ اُنہیں یہ معلوم ہوتا کہ موسم میں کیا کچھ بدل گیا ہے۔ بس اُن کی سوچ تو پانی اور چارے تک ہی محدود ہے۔لیکن وہ سوچتے سوچتےچونکگیا۔
شاید ہم انسان بھی تو ایسے ہی ہیں۔ اب مجھ کو ہی دیکھ لو ۔ میں جب سے تاجر کی بیٹی سے ملا ہوں اُس کے علاوہ کسی اور عورت کا خیال دل میں آتا ہی نہیں۔ اس نے سورج پر نظر ڈالی اور اندازہ لگایا کہ دوپہر تک وہ طریفا Tarifa پہنچ جائے گا۔
وہاں پہنچ کر پہلے وہ اس پرانی کتاب کے بدلے ایک نئی موٹی کتاب لے سکے گا، اپنے مشکیزے میں تازہ پانی بھی حاصل کر لے گا۔ نائی سے خط بنوا کر اور بال ترشوا کر وہ تاجر کی لڑکی سے ملنے کے لئے تیار بھی ہو جائے گا۔ لیکن اُس وقت وہ یہ خیال دِل میں لانے کے لئے ہرگز تیار نہیں تھا کہ ہوسکتا ہے کہ اب تک کوئی مجھ سے زیادہ بھیڑیں رکھنے والا چرواہا وہاں آچکا ہو اور اُس نے لڑکی کے باپ سے اُس کا ہاتھ مانگ لیا ہو۔
یہ خوابوں کے حقیقت میں بدل جانے کی اُمید ہی تو دراصل زندگی کو دلچسپ اور خوبصورت بناتی ہے…. اُس نے سورج کی بڑھتی ہوئی تمازت دیکھتے ہوئے اپنے قدموں کی رفتار بھی بڑھا دی۔
اچانک اُسے خیال آیا کہ طریفا میں ایک خانہ بدوش بوڑھی عورت بھی رہتی ہے، جو خوابوں کی تعبیر بتاتی ہے۔

***


طریفا ، اسپین کے جنوبی ساحل پر بحیرہ روم کے کنارے، اندلوسیا کے صوبے قادس Cadizمیں واقع ہے۔ یہ کبھی ماہی گیروں کی ایک چھوٹی سی بندرگاہ ہواکرتی تھی۔عرب لوگ اس شہر کو ‘‘جزیرۂ طریف’’ کہتے ہیں کیونکہ 710 ء میں مسلمانوں کے اسپین پر قبضہ سے قبل، افریقا کے اموی گورنر موسیٰ بن نصیر نے اپنے بربر غلام طریف بن مالک کو صرف پانچ سو سواروں پر مشتمل ایک دستہ کے ساتھ اسپین روانہ کیا تھا۔ یہ دستہ ساحلی علاقوں پر حملہ آور ہوکر فتح مند واپس لوٹا۔ اس حملہ سے اسپین کی داخلی کمزوری اور نظام عسکری کی خامیوں کا پتہ چلا اور پھر موسیٰ بن نصیر کے دوسرے غلام طارق بن زیاد نے جبرالٹر میں اتر کر اسپین کی سرزمین کو مکمل فتح کیا ۔
طریف بن مالک اسپین کے جس ساحل پر اترا تھا ، وہاں اس کے نام سے ایک شہر آباد ہوا، جسے جزیرۂ طریف کہا جانے لگا اور یہی شہر آج طریفا Tarifaکے نام سے مشہور ہے۔

***

خانہ بدوش بوڑھی عورت لڑکے کو اپنے مکان کے عقب کے حصہ میں رہائشی کمرے سے متصل واقع ایک کمرہ میں لے گئی، موتیوں سے پرو کر بنایا ہوا ایک پردہ اس کمرے کو رہائشی کمرے سے الگ کرتاتھا۔
وہ بوڑھی عورت کرسی پر بیٹھ گئی اور لڑکے کو بھی ٹھیک سے بیٹھنے کو کہا۔ پھر اس عورت نے اپنے ہاتھ میں لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور خاموشی سے کوئی مخصوص دعا پڑھنے لگی۔







یہ خانہ بدوش جپسیوں کی زبان میں کوئی دعا تھی۔ لڑکے نے اس سے قبل بھی سڑکوں پر آتے جاتے خانہ بدوش بنجاروں کو اکثر کچھ ایسا ہیپڑھتے سنا تھا۔
خانہ بدوش بنجارے بھی چرواہوں کی طرح ہی سفر کرتے ہیں ، بس فرق یہ ہوتا ہے کہ اُن کے پاس بھیڑوں کا گلّہ نہیں ہوتا تھا۔

 

لوگ کہتے ہیں کہ خانہ بدوش بنجارے ٹھگ ہوتے ہیں، اپنی پوری زندگی لوگوں کو بیوقوف بنا کر دھوکہ دیتے اور اپنا کام چلاتے ہیں۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے شیطانوں سے معاہدہ کر رکھا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خانہ بدوش بنجارے بچوں کو اغوا کرکے اپنے ساتھ پراسرار کیمپوں میں لے جاتے ہیں اور انہیں اپنا غلام بنالیتے ہیں۔

 

اس نے بچپن میں سن رکھا تھا ، اکثر مائیں بچوں کو خانہ بدوشوں کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں کہ وہ اُنہیں لے کر بھاگ جائیں گے۔ بچپن میں وہ بھی خانہ بدوشوں سے بہت خوف کھاتا تھا۔ جب اُس عورت نے لڑکے کا ہاتھ پکڑا تو وہی بچپن کا خوف اُس پر طاری ہو نے لگا تھا۔
لیکن یہ بُری عورت نہیں ہوسکتی۔ اُس نے اپنے خوف کو کم کرنے اور اپنے آپ کو یقین اور دلاسا دینے کے لیے سوچا ۔


اگر خوف سے اُس کے ہاتھ میں کپکپاہٹ پیدا ہوئی تو عورت پر اُس کا ڈر واضح ہو جائے گا۔ وہ دِل ہی دِل میں دعائیں پڑھنے لگا….
‘‘بہت ہی دلچسپ….’’
خانہ بدوش عورت لڑے کے ہاتھوں پر نظریں جماتے ہوئے بولی اور پھر خاموش ہو گئی۔
لڑکا کچھ مضطرب ہونے لگا جس کی وجہ سے اُس کا ہاتھ کانپنے لگا۔ اور خانہ بدوش عورت نے اُس کی گھبراہٹ محسوس کر لی۔ لڑکے نے یک دم تیزی سے اپنے ہاتھ کھینچ لیے اور ذرا سراسمیگی سےبولا:
‘‘میں یہاں تمہارے پاس اپنی ہتھیلیوں کی لکیریں پڑھوانے نہیں آیا ہوں ….’’
آخر میں اِس خانہ بدوش عورت کے پاس آیا ہی کیوں….؟، اُس نے تاسّف سے سوچا۔
پھر ایک لمحے کے یے اُسے خیال آیا کہ اُس خانہ بدوش عورت کو اس کی اُجرت دے کر خواب کی تعبیر جانے بغیر واپس چلا جاؤں۔ میں ہی شاید اپنے اس عجیب خواب کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہا ہوں۔
‘‘تم اپنے خوابوں کی تعبیر جاننے کے لئے آئے ہو ناں۔’’ بوڑھی عورت دوبارہ گویا ہوئی
‘‘خواب دراصل قدرت کی زبان ہوتے ہیں جن کے ذریعہ قدرت بعض اوقات اپنا پیغام انسانوں تک پہنچاتی ہے۔ اگر یہ پیغام ہماری زبان میں ہے تو میں اُس کی تعبیر آسانی سے بیان کر سکتی ہوں لیکن اگر وہ روح کی زبان میں پیغام دیتا ہے تو اُس کا مفہوم وہی سمجھ سکتا ہے جس کو یہ پیغام بھیجا گیا ہوگا۔ اگر تمہارا خواب روح کی زبان میں ہوا تو تم کو خود ہی مطلب اخذ کرنا ہو گا….خیر تعبیر جو کچھ بھی ہو لڑکے، تمہیں میری مشاورت کی اُجرت تو دینا ہی ہو گی۔’’


 

‘‘ہے نا چالاکی اِس خانہ بدوش عورت کی…. اسی طرح یہ لوگوں کو ٹھگتے ہیں’’…. لڑکے نے سوچا ، پھر بھی چلو دیکھتے ہیں۔ جب اُجرت دینی ہی ہے تو پھر خواب بتا کر ہی دینا چاہیے۔
اس نے بوڑھی عورت کو ایک موقع دینے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی چراہوں کو زندگی میں ایسے کئی مواقع پُرخطر فیصلہ لینے ہی پڑتے ہیں۔ کبھی بھیڑیوں کا خوف اور کبھی خشک سالی اور اور قحط کا خدشہ اور شاید اِنہیں خدشات میں زندگی کا لطف چھپا ہے۔’’

 


‘‘میں نے ایک ہی خواب دو بار دیکھا ہے ۔’’ لڑکے نے بتانا شروع کیا۔
‘‘میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنی بھیڑوں کے ساتھ ایک میدان میں ہوں کہ اچانک ایک بچہ نمودار ہوتا ہے اور میری بھیڑوں کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے۔ مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ کوئی میری بھیڑوں کو پریشان کرے کیونکہ میری بھیڑیں اجنبیوں سے خوف محسوس کرتی ہیں، لیکن ناجانے کیوں میری بھیڑیں بچوں سے بالکل نہیں ڈر تیں۔
میری سمجھ میں اب تک نہیں آیا کہ آخر بھیڑیں انسانوں کی عمروں کا اندازہ کیسے کرلیتی ہیں۔’’
‘‘مجھے صرف اپنے خواب کے بارے میں بتاؤ،’’ عورت ذرا تلخی سے بولی۔‘‘ مجھے ابھی جاکر کھانا بھی بنانا ہے اور شاید تمہارے پاس پیسے بھی کم ہی ہیں، میرے پاس تمہاری باتیں سننے کے لیےزیادہ وقت نہیں ہے۔’’
لڑکا تھوڑا سا شرمندہ ہو ا۔پھر اپنا خواب بیان کرتے ہوئے بولا۔
‘‘تھوڑی دیر تک تو وہ بچہ میری بھیڑوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ لیکن پھر اچانک اُس نے میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑا اور یکایک مجھے مصر کے قدیم اہرام تک پہنچا دیا۔’’


 

لڑکا ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوا، یہ جاننے کے لیے کہ کہیں مصر کے اہرام کا لفظ اُس خانہ بدوش بوڑھی عورت کے لئے اجنبی تو نہیں، لیکن عورت خاموشی سے اس کی بات سن رہی تھی۔
‘‘پھر مصر کے اہرام میں ….’’ لڑکے نے ایک بار پھر مصر کے اہرام کے تین الفاظ ذرا زور دیتے ہوئے دہرائے تاکہ بوڑھی عورت سمجھ سکے اور کہنے لگا کہ :
‘‘پھر اس بچے نے مجھ سے کہا کہ اگر تم اِس جگہ آئے، تو تم یہاں ایک پوشیدہ خزانہ پاؤ گے۔ لیکن جیسے ہی وہ بچہ خزانہ کے درست مقام کی نشاندہی کرنے جا ہی رہا ہوتا ہے ، کہ میری آنکھ کھل جاتی ہے’’
دوسری بار بھی یہی خواب دیکھتے ہوئے ایسے ہی موقع پر میری آنکھ کھل گئی تھی۔
خانہ بدوش عورت تھوڑی دیر خاموش رہی۔ پھر دوبارہ لڑکے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اسے احتیاط سے دیکھنے لگی ۔ پھر بولی۔
‘‘فی الحال میں تم سے کوئی اُجرت نہیں لوں گی، لیکن اس تعبیر کے عوض اگر تم خزانہ ڈھونڈ لیتے ہو تو اُس کا دسواں حصہ مجھے دینا پڑے گا۔’’
لڑکا ہنس پڑا….اس کی ہنسی میں ایک قسم کی خوشی بھی شامل تھی کہ چلو اچھاہوا خزانہ کے خواب کی وجہ سے ، کم از کم ابھی اِس کی رقم توبچگئی۔
‘‘ٹھیک ہے، مجھے خواب کی تعبیر تو بتاؤ’’ لڑکے نے پوچھا۔
‘‘نہیں سب سے پہلے، تم قسم کھاؤ کہ جو کچھ میں تمہیں بتاؤں گی اُس کے عوض تم خزانہ کا دسواں حصہ مجھے ضرور دو گے۔’’
لڑکے نے فوراً قسم کھا کر وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کرے گا۔ لیکن اُس عورت نے کہا کہ
‘‘تم دوبارہ قسم کھاؤ۔’’
جب لڑکے نے دوبارہ قسم کھالی تو وہ خانہ بدوش بوڑھی عورت بولی کہ ‘‘یہ خواب ہماری دنیا کی زبان ہی میں ہے اُس لیے میں اس کی تعبیر کرسکتی ہوں، لیکن چونکہ اس خواب کی تعبیر بہت مشکل ہے اِس لئے میں خزانہ کا دسواں حصہ تم سے مانگ رہی ہوں۔’’
‘‘اچھا سنو !…. میرے مطابق اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم مصر کے اہرام ضرور جاؤ گے….، اگر چہ میں نے ان کے بارے میں کبھی نہیں سُنا کہ یہ کہاں ہے، لیکن اگر خواب میں اس بچے نے اُن کودکھایا ہے تو سمجھ لو کہ وہ واقعی موجود ہیں اورتمہیں وہاں خزانہ ملے گا جو تمہیں دولت مند بنادے گا۔’’
لڑکا جو پہلے تو حیرت اور غور سے اس عورت کی باتیں سن رہا تھا، اب چڑچڑا سا گیا۔ لیکن وہ اپنی جھنجھلاہٹ عورت پر واضح نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے سوچا کہ کیا بے وقوفی ہے ۔ اس میں نئی بات کیا ہے، یہ بات تو خواب سے ویسے ہی واضح ہورہی ہے۔ اس میں اس بوڑھی عورت کا کیا کارنامہ….؟ لیکن پھر وہ یہ سوچ کر مطمئن ہوگیا کہ اچھا ہوا مجھے پیسے نہیں دینے پڑیں گے۔
‘‘مجھے اس بات کے لئے اپنا وقت برباد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں….‘‘لڑکے نے کہا۔
‘‘میں نے بتایا ناں کہ تمہارے خواب کی تعبیر تھوڑی مشکل ہے اور بعض اوقات زندگی میں بظاہر عام سی نظر آنے والی باتیں بھی انتہائی غیر معمولی ثابت ہوتی ہیں۔ صرف ذہین، صاحبِ فہم و بصیرت انسان ہی ان کو سمجھ پاتے ہیں ۔ عقل مند لوگ بھی اُن کو نہیں سمجھ پاتے۔میں اتنی ذہانت اور بصیرت نہیں رکھتی ، اِسی لئے صرف ہاتھ کی لکیریں پڑھنے کا ہنر سیکھ کر کام چلا رہی ہوں۔’’
‘‘اچھا یہ تو ٹھیک ہے ، یہ تو بتاؤ کہ میں وہاں تک کیسے پہنچوں گا۔’’ لڑکے نے سوال کیا۔
‘‘میں تو صرف خوابوں کی تعبیر بتا سکتی ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ اُنہیں حقیقت میں کس طرح تبدیل کیا جائے، اگر میں اس قابل ہوتی تو اس طرح یہاں کسمپرسی میں اپنی بیٹیوں کی مدد پرگزارا نہیں کررہی ہوتی ۔‘‘
‘‘اور اگر میں مصر کبھی نہیں جا سکا تو….’’
‘‘ظاہر ہے کہ مجھے میری رقم نہیں مل پائے گی اور میرے ساتھ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہو گا۔’’
اب خانہ بدوش بوڑھی عورت نے اس لڑکے سے جانے کو کہا کیونکہ اس نے پہلے ہی اس کا بہت زیادہ وقت ضائع کروادیا ہے۔


 

***

خواب کی تعبیر سننے کے بعد، لڑکا خاصا دل شکستہ اور مایوس ہوگیا تھا ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ کبھی بھی خوابوں کو اتنی سنجیدگی سے نہیں لے گا اور نہ خوابوں پر یقین نہیں کرے گا…. پھر اچانک اسے یاد آیا کہ طریفا میں اسے آج بہت سارے کام کرنے تھے …. وہ فوراً بازا ر گیا تاکہ اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرسکے، پھر اپنے پرانی کتاب کے بدلے نئی اور قدرے موٹی کتاب خرید ی اور بازار کے مرکز میں عوامی چوک میں رکھی ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔
دھوپ کی شدّت کی وجہ سے دِن خاصا گرم تھا اور وہ مشروب نکال کر پینے لگا، جس سے اُ سے تازگی اور فرحت محسوس ہوئی۔ بھیڑوں کا گلّہ شہر کے داخلی دروازے پر ایک دوست کے اصطبلمیں تھا۔
طیفا شہر میں اس لڑکے کے کئی دوست تھے۔ دوستی کرنا اُس کا محبوب مشغلہ تھا اور شاید اِسی لئے سفر کرتے رہنے میں اور نئے دوست بنانے میں اُسے مزہ بھی آتا تھا۔ لیکن وہ ایک ہی دوست کو زندگی بھر یا ہر وقت برتنے کا قائل نہیں تھا۔ ہر روز ایک ہی جیسے چہرے نظر آئیں یہ اُس کو پسند نہ تھا۔ درس گاہ میں تعلیم کے دوران بھی اُسے ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا تھا۔
اگر آپ روز کسی ایک شخص کے ساتھ زندگی، گزارنے لگیں ، تو وہ شخص آپ کی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے ۔ پھر وہ شخص آپ کو اپنے حساب تبدیل کرنا چاہتا ہے اور جب کوئی دوسروں کی توقعات پر پورا نہ اتر پائے تو ظاہر ہے کہ خود بخود ناراضیاں اور دوریاں بڑھنے لگتی ہیں۔ اس طرح زندگی کا لطف بھی متاثر ہوتا ہے اور دوستی بھی….
یوں تو ہر شخص رائے رکھتا ہے کہ دوسروں کو کیسے رہنا چاہیے اور لوگ اپنی زندگی کیسے گزاریں، مگر خود ان کی اپنی زندگی کیسی ہو اور ان کا برتاؤ دوسروں کے ساتھ کیسا ہو ، یہ کسی کو خیال نہیںآتا۔
وہ سوچتا رہا …. اس نے آسمان کی جانب دیکھا سورج کی تمازت میں ابھی بھی شدت تھی، جب تک سورج قدرے ڈھل نہ جائے، اس نے انتظار کرنے کا فیصلہ کیا ۔ تھوڑی دیر میں گلّہ کو لے کر وہ اپنی راہ لے گا۔ بس اب تاجر کی بیٹی تک پہنچنے میں تین ہی دن تو بچے تھے۔
اُس نے خریدی ہوئی نئی کتاب کھول کر پڑھنا شروع کر دی۔ پہلے صفحہ پر کسی رسمِ تدفین کا احوال تھا۔ جس میں شریک لوگوں کے ناموں کا تلفّظُ خاصا مشکل تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر اُسے کبھی کوئی کتاب لکھنے کا موقع ملا تو وہ ایک وقت میں صرف ایک ہی نام کا تذکرہ کر دے گا تاکہ پڑھنے والوں کو ڈھیر سارے نام یاد رکھنے میں دِقّت نہ ہو۔
آخر کار یکسوئی سے تھوڑی دیر پڑھنے کے بعد اُس کی دلچسپی بڑھتی گئی اور کتاب اُسے پسندآنےلگی۔
تدفین کے دن برف باری ہو رہی تھی۔ یہ پڑھتے ہوئے گرم دھوپ میں اسے ٹھنڈک کا پرلطف احساس پیدا ہوا۔ ابھی وہ پڑھنے میں محو ہی تھا کہ ایک ضعیف شخص اُس کے قریب آ کر اس طرح بیٹھ گیا جیسے اس سے کچھ پوچھنا چاہتا ہو۔

بوڑھے نے بازار کے اس چوک میں آتے جاتے لوگوں کی طرف اِشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔
‘‘یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟….’’
‘‘اپنے اپنے کام کر رہے ہیں۔ ’’لڑکے نے انتہائی روکھے لہجے میں مختصر جواب دے کر بوڑھے کو ٹالنا چاہا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ ابھی کتاب پر زیادہ توجہ دینا چاہتا ہے ۔ جبکہ حقیقتاً وہ تاجر کی لڑکی کے تصوّر میں محو تھا اور سوچ رہا تھا کہ اس بار وہ تاجر کے پاس پہنچ کر بھیڑوں کے اون لڑکی کے سامنے ہی اُتارے گا۔ تاکہ لڑکی اُس کی صلاحیتوں سے متاثر ہو اور سوچے کہ اتنا مشکل کام کتنی آسانی سے کر لیتا ہے۔ وہ چشم تصور میں کئی بار اسی منظر کو دہرا چکا تھا ، ہربار جب وہ لڑکی کو بتاتا ہے کہ اون نکالنے کے لئے بھیڑ کے اون پیچھے سے آگے کی طرف کاٹے جاتے ہیں تو لڑکی اُس کی معلومات اور طریقے کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔ اُس نے بھیڑوں اور چرواہوں کے متعلق کچھ کتابوں میں پڑھ کر کہانیاں اور واقعات بھی یاد کرلئے تھے لیکن اب یہ کہانیاں وہ لڑکی کو اس طرح بتائے گا کہ جیسے یہ واقعات خود اُس کے ساتھ گزرے ہوں۔ لڑکی تو پڑھی لکھی ہے ہی نہیں ، اُسے حقیقت کا پتہ کہاں چل سکے گا۔




 

وہ سوچتارہا، لیکن اِس دوران بوڑھا مستقل اُسے متوجّہ کرکے بات کرنے کی کوشش کرتا رہا۔
پھر اس بوڑھے نےاُس نے لڑکے سے کہا کہ میں بہت تھک گیا ہوں اور پیاس بھی لگی ہے۔ اس نے مشروب مانگا۔ لڑکے نے اسے بوتل تھمادی، یہ سوچ کر کہ شاید اب بوڑھا خاموشی سے چلا جائے گا اور اُسے تنہا چھوڑ دے۔
لیکن وہ اجنبی بوڑھا ضد کا پکا تھا اور اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا ، ‘‘کون سی کتاب ہے؟’’۔
لڑکا جھلّا گیا ، اور چاہا کہ اُس جگہ سے ہٹ کر کہیں اور جابیٹھے مگر یہ اسے غیر مہذب لگا، اُسے والد کی نصیحت یاد آ گئی کہ بزرگوں اور ضعیفوں کا احترام کرنا چاہیے۔ چنانچہ اُس نے کتاب بوڑھے کی طرف بڑھا دی۔اس کی دو وجوہات تھیں:
ایک وجہ تو یہ تھی کہ لڑکا خود ہی کتاب کے نام کے عنوان کا صحیح تلفظ نہیں جانتا تھا، اور دوسری یہ کہ اگر یہ اجنبی بوڑھا پڑھنا نہ جانتا ہو گا تو خود ہی شرمندہ ہو کر یہاں سے ہٹ کر دوسری بنچ کر جانے کا فیصلہ کرلے گا۔
‘‘ہمم ….’’ بوڑھے نے کتاب کو الٹ پلٹ کر ایسے دیکھا، جیسے یہ کوئی عجیب و غریب چیز ہو اور پھر بولا:
‘‘یہ کتاب ہے تو ٹھیک ٹھاک، لیکن تھوڑی خشک سی ہے اور پڑھتے ہوئے دقّت محسوس ہوتی ہے۔’’
یہ سن کر لڑکا کو دھچکا لگا اور حیرت بھی ہوئی کہ یہ بوڑھا تو نہ صرف پڑھ سکتا تھا بلکہ اُس کتاب کو پہلے ہی پڑھ چکا تھا۔ لڑکے نے سوچا کہ اگر یہ کتاب واقعی خشک اور الجھا دینے والی ہے تو ابھی بھی وقت ہے، میں یہ کتاب تبدیل کردیتاہوں۔
‘‘اِس کتاب میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وہی کچھ ہے جو دنیا کی دوسری کتابوں میں ہے ’’۔ بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا،
‘‘اِس کتاب کا مرکزی خیال یہی بتاتا ہے کہ انسان اپنی منزل مقصود کو پانے کی کوشش میں کس طرح قسمت کے ہاتھوں بے بس ہوجاتے ہیں، اور اس کتاب کا انجام اس کہاوت پر ہوا ہے کہ ہر انسان دنیا کے سب سے بڑے جھوٹ پر یقین رکھتا ہے۔’’
‘‘اور یہ بڑا جھوٹ کیا ہے؟ ’’ لڑکے نے تعجب سے پوچھا۔‘‘عظیم ترین جھوٹ یہ ہے کہ انسان کی زندگی میں ایک خاص مرحلہ آتا ہے جہاں حالات اس کے قابو میں نہیں رہتے اور اس کی زندگی قسمت کے کنٹرول میں ہوجاتی ہے ۔ یہی دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہے ۔’’
‘‘میرے ساتھ تو کبھی ایسا نہیں ہوا۔’’ لڑکا بولا۔ ‘‘میرے والدین مجھے ایک راہب بنانا چاہتے تھے لیکن میں نے چرواہا بننے کا فیصلہ کیا ۔’’
‘‘یہ بہت اچھا ہے….’’ بوڑھے نے کہا۔ ‘‘ویسے بھی تمہیں سفر کرنا اچھا لگتا ہے….’’
‘‘میں کیا سوچ رہا ہوں یہ اس بوڑھے کو کیسے معلوم ہوا۔’’ لڑکا دِل میں سوچنے لگا۔
بوڑھا کتاب کی ورق گردانی میں ایسے مصروف تھا جیسے کتاب واپس کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہو۔ لڑکے نے بوڑھے پر غور سے ایک نظر ڈالی ۔ اس کا لباس اجنبی سا تھا۔ بوڑھا حلیے سے ایک عرب لگتا تھا جو اُس علاقہ میں اکثر نظر آتے رہتے تھے۔ افریقہ، طریفا کے ساحل سےمحض چند گھنٹوں کی مسافت ہی پر تو ہے۔ بس بحرہ اوقیانوس اور بحر روم کے درمیان موجود تنگ آبنائے کشتی کے ذریعہ پار کرنے پر افریقہ کی سرزمین آجاتی ہے۔
عرب لوگ اکثر و بیشتر اس علاقہ میں تجارت کے لئے آتے رہتے تھے۔ اس نے دن میں کئی بار ان عربوں کو اجنبی زبان میں دعائیں پڑھتے اور عبادات کی ادائیگی کرتے دیکھا تھا۔
‘‘آپ کس علاقے سے آئے ہیں؟…. ’’ لڑکے نے پوچھا۔
‘‘بہت سے علاقو ں سے….’’
‘‘کسی بھی شخص کا تعلق بیک وقت کئی علاقوں سے کیسے ہوسکتا ہے….’’ لڑکے نے پوچھا:
‘‘اب دیکھو جیسے کہ میں چرواہا ہوں ، میں نے اندلوسیا میں بہت دور دور تک سفر کیا ہے اور بہت سے علاقوں میں گھوما ہوں، لیکن میرا اصل علاقہ تو ایک ہی ہے۔ اندلوسیا کے تاریخی عالیشان محل (قصبہ المریہ)کے قریب آباد ایک چھوٹا سا شہر…. جہاں میں پیدا ہوا تھا۔’’
‘‘اچھا اگر ایسی بات ہے تو ٹھیک ہے…. میں کہہ سکتا ہوں کہ میں شالیم Salemمیں پیدا ہوا تھا۔’’ بوڑھے نے جواب دیا۔
لڑکے کو پتہ نہ تھا کہ شالیم کہاں ہے، لیکن اس نے مزید کچھ نہ پوچھا، اُسے خوف تھا کہ اگر میں نے پوچھ لیا تو کہیں بوڑھے پر اُس کی کم علمی ظاہر نہ ہو جائے۔ اپنے تاثرات چھپانے کے لیے اس نے اپنی نظریں سامنے بازار کے چوک کی جانب پھیر لیں جہاں لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ سب بہت مصروف لگ رہے تھے۔
‘‘تو شالیم ….!! کیسی جگہ ہے’’ لڑکے نے کچھ جاننا چاہا۔ شاید کچھ اسی طرح جگہ کے متعلق اندازہہو سکے۔
‘‘ویسی ہی ہے جیسی ہمیشہ رہی ہے۔’’ بوڑھے نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
اس سے بھی لڑکے کو کچھ سراغ نہ مل سکا کہ شالیم کہاں ہے۔ البتہ اُسے یہ تو معلوم تھا کہ شالیم اندلس کا کوئی شہر نہیں ہوسکتا، اگر ہوتا تو اُس نے کبھی نہ کبھی تو اُس کا نام سنا ہی ہوتا۔
لڑکے نے مزید جاننے کے لئے پوچھا ‘‘شالیم میں آپ کیا کام کرتے ہیں ۔’’
‘‘شالیم میں میں کیا کام کرتا ہوں؟؟؟’’ بوڑھا ہنسنے لگا اور پھر بولا ‘‘میں شالیم کا بادشاہ ہوں۔’’
شالیم کا بادشاہ!!…. لڑکا سوچنے لگا۔ آدمی بھی کیسی کیسی عجیب باتیں کرتے ہیں۔ اُن سے تو اچھا ہے کہ بھیڑوں کے ساتھ وقت گزارا جائے یا بس اپنی کتابوں کے ساتھ تنہا ہی رہا جائے ۔ کتابوں کم از کم دلچسپ اور حیرت انگیز کہانیاں تو سناتی ہیں اور وہ بھی اُس وقت جب سننے کو دل چاہتا ہو۔ لیکن جب انسانوں سے بات کرنے کا معاملہ ہو تو وہ بعض اوقات ایسی عجیب و غریب باتیں کردیتے ہیں کہ ان سے بات کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لڑکا سوچتا رہا۔
‘‘میں ملکیِ صادق Melchizedek ہوں۔’’ بوڑھے نے اپنا تعارف کرایا اور پھر بولا۔ ‘‘کتنی بھیڑیں ہیں تمہارے پاس۔’’
‘‘کافی زیادہ ہیں ’’ لڑکے نے جواباً کہا۔ اسے لگا کہ بوڑھا اُس کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہے۔
‘‘اچھا! یہ تو کافی بڑا مسئلہ ہے۔ اگر تم محسوس کرتے ہوکہ تمہارے پاس کافی زیادہ بھیڑیں ہیں تو میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں۔’’
یہ سُن کر لڑکا چڑچڑا گیا۔مدد ، کیسی مدد….؟ میں نے کب اس بوڑھے سے مدد مانگی، بلکہ اسی نے پہلے مجھ سے مشروب مانگا تھا اور پھر گفتگو کا آغاز بھی اُسی نے ہی کیا تھا۔ اب لڑکا اُکھڑ ے لہجے میں بولا،
‘‘مجھے میری کتاب واپس دے دیجئے۔ مجھے جاکر اپنی بھیڑیں اکٹھی کرنا ہیں اور کہیں جانا بھی ہے ۔’’
‘‘اگر تم مجھے اپنی بھیڑوں کا دسواں حصہ دے دو گے تو ….میں تمہیں اس پوشیدہ خزانے تک پہنچنے کا طریقہ بتا سکتا ہوں۔’’ وہ بوڑھے اچانک بول اٹھا، اور وہ نوجوان حیرت زدہ رہ گیا۔

پوشیدہ خزانہ …. اس بوڑھے کو کیسے پتا چلا….؟؟؟




اس بوڑھے شخص کے منہ سے پوشیدہ خزانہ کے الفاظ سن کروہ نوجوان حیرت زدہ رہ گیا۔
پوشیدہ خزانہ …. پوشیدہ خزانے کے بارے میں اس بوڑھے کو کیسے پتا چلا….؟؟؟

پھر لڑکے کو یکدم اپنا خواب یاد آ گیا اور پوری بات صاف سمجھ میں آ گئی۔ اس بوڑھی خانہ بدوش عورت نے تو اُس سے کوئی رقم نہیں لی تھی لیکن یہ بوڑھا جو ممکن ہے کہ اُس خانہ بدوش عورت کا شوہر ہو، اور مجھ سے زیادہ سے زیادہ رقم اینٹھنا چاہتا ہو اور وہ بھی خوابوں کی ایسی بات کے لیے جو ممکن ہے کہ وجود ہی نہ رکھتی ہو۔ جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہے بھی یا نہیں۔ کہیں یہ بوڑھا بھی ان خانہ بدوشوں میں سے تو نہیں….؟؟ لڑکے نے سوچا۔
لیکن اِس سے قبل کہ لڑکا اُسے کچھ کہتا بوڑھا آدمی ایک طرف کو جھکا اور ایک لکڑی کی چھڑی اُٹھا کر ریت پر کچھ لکھنے لگا۔ اِس دوران بوڑھے کے سینہ سے لگی کسی چیز سے اِس قدر زور سے چمک منعکس ہوئی کہ لڑکے کی نظر کچھ دیر کے خیرہ سی ہو گئی۔ البتہ بوڑھے نے جوانوں کی سی پھُرتی کے ساتھ اپنی قبا سے اُسے چھپا لیا ۔ حالانکہ اس عمر میں اس قدر پھرتی دکھانا ممکن نہیں ہوتا۔ جب اس چمک کا اثر تھوڑا کم ہوا اور لڑکا ریت پر لکھی تحریر کو پڑھنے کے قابل ہوسکا تو وہ حیرت زدہ رہ گیا۔

 


ریت پر لڑکے کے والد اور والدہ کا نام لکھا ہوا تھا اور اُس مدرسہ کا نام بھی جہاں اُس نے ابتداء میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یہاں تک کہ تاجر کی بیٹی کا نام بھی تحریر تھا جسے خود وہ لڑکا بھی نہ جانتا تھا اور دوسری ایسی باتیں اُس میں تحریر تھیں جو اُس نے آج تک کسی کو نہیں بتائی تھیں۔
‘‘اب تمہیں یقین آیا میں شالیم کا بادشاہ ملکیِ صادق* ہوں۔’’

* دراصل یہودی اور عیسائی روایات میں ایک ایسی روحانی ہستی کا تذکرہ ملتا ہے جو خدا کے مقرب اور دائمی کاہن رہے ۔ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد تھے۔ اس ہستی کا ذکر شالیم Shalem کے بادشاہ ملکیِ صادق Melchizedek کے نام سے ہوا ہے۔
***



‘‘میں شالیم کا بادشاہ ملکیِ صادق ہوں۔’’ بوڑھے کے الفاظ اس لڑکے کے ذہن میں اب تک گردش کررہے تھے۔
‘‘مگر بادشاہ ہو کر آپ ایک معمولی چرواہے سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں۔’’ لڑکے نے جھجھک، شرمندگی ، حیرت اور مرعوبیت کے ملے جُلے تاثرات سے کہا۔
‘‘اِس کی بہت سی وجوہات ہیں…. لیکن میں کہہ سکتا ہوں کہ میرے نزدیک سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ تم اپنے تقدیر کی گتھی کو سلجھانے میں کامیاب ہو گئے ہو۔’’
لڑکے کو تو شاید یہ بھی پتا نہ تھا کہ تقدیر کا کیا مطلب ہوتا ہے ۔
‘‘یہ وہی ہے جس کے حصول کی تمنّا تمہیں ہردم متحرّک رکھتی ہے۔ ہر شخص جب بچپن چھوڑ کر عقل و شعور کی زندگی میں قدم رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اُس کا مقدر کیا ہے۔ زندگی کے اِس حصہ میں ہر چیز واضح اور ہر خواہش ممکن نظر آتی ہے۔ بڑی سے بڑی خواہش اور تمنّا کا خواب دیکھنے اور اِس خواب کو تعبیر میں بدلنے کے لئے قدم اُٹھانے میں اسے کوئی خوف مانع نہیں ہوتا۔ لیکن پھر جیسے جیسے وقت گزرنے لگتا ہے، ایک دوسری پُراسرار قوّت سَر اُٹھانے لگتی ہے اور اُسے یہ باور کرانے لگتی ہے کہ اِن مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے۔’’
بوڑھے کی یہ باتیں لڑکے کی سمجھ سے بالکل بالاتر تھیں لیکن اس ‘‘پُراسرار قوت’’ کے لفظ نے اسے مجبور کردیا تھا کہ اسے اس بوڑھے کی باتوں میں دلچسپی لینا چاہیے ، تاکہ وہ اسے سمجھ سکے اور جب اِس کے بارے میں وہ تاجر کی بیٹی کو بتائے گا وہ یقیناً بہت متاثّر ہو گی۔
‘‘یہ پُراسرار قوت بظاہر تو منفی نظر آتی ہے لیکن درحقیقت یہ انسانی تقدیر کے مقصد کے حصول کو بروئے کار لانے میں بڑی معاون ہے۔
یہ قوت تمہارے مقدّر کے حصول کے لئے ہے تمہاری روح کو جِلا دیتی ہے اور تمہاری خواہشات و قوتِ ارادی کو بیدار کرکے اُس کی آبیاری کرتی ہے۔ کیونکہ اِس دنیا میں ایک بہت بڑی سچائی ہے اور وہ یہ کہ تم چاہے کوئی بھی ہو اور چاہے کچھ بھی حاصل کرنا چاہتے ہو ۔ جب تم اپنی خواہش کو مقصد بنا کر اُس کے حصول کے لئے انتہائی سنجیدہ ہو جاتے ہو تو قدرت کی طرف سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔
باالفاظِ دیگر تمہارا مقصد زمین پر اب تمہارا مشن بن گیا ہے ۔چاہے یہ مقصد محض سفر سے ہی عبارت ہو یا تاجر کی بیٹی سے شادی تک ہی محدود کیوں نہ ہو…. یہاں تک کہ اُس کا تعلق کسی پوشیدہ خزانہ کی تلاش سے ہی کیوں نہ ہو۔ ’’
‘‘دراصل یہ کائنات انسان کے لیے ہی تخلیق کی گئی ہے، انسانوں کی خواہش اور ارادے پورے کرنا ارکان کائنات کی خوشی بن جاتا ہے۔ مقصد کے حصول کی تمنّا کس جذبہ کے تحت ہے، یہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اِس مقصد کے حصول میں ارادہ اور سعی کتنی ہے۔ بس جو کچھ مقدر میں ہے اُس کے حصول کی کوشش ایک انسان کا واحد حقیقی فریضہ ہونا چاہیے۔ اِس کائنات میں تمام چیزیں اِسی ایک نکتہ پر مرکوز ہیں۔’’
بوڑھا پھر بولا :
‘‘ہاں ! ایک بات اور جو بڑی اہم ہے۔’’
‘‘انسان اگر کوشش کرے تو سب کچھ ممکن ہے، حصولِ مقصد کی راہ میں حائل مشکلات، رکاوٹیں نہیں بلکہ آزمائش ہوتی ہیں، جب انسان کےدل میں کوئی خواہش سراٹھاتی ہے اور وہ کسی چیز کو پانے کی جستجو اور سعی کرتا ہے تو در اصل قدرت اس کی خواہش کی تکمیل میں مددگار بن جاتی ہے ، تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار ہوتی ہے کہ تمہاری یہ خواہش پوری ہو ۔ اگر لگن سچی ہو تو خدا کی اس کائنات میں بکھری نشانیاں اِس جدوجہد کے دوران راہنمائی اور معاونت کرتی نظر آتی ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ کائنات انسان کے لئے مسخّر کر دی گئی ہے۔’’
کچھ دیر تک دونوں خاموش رہے ا ور بازار میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھتے رہے۔ اِس سکوت کو پھر بوڑھے نے توڑا۔
‘‘تم بھیڑیں کیوں چَراتے ہو؟’’
‘‘کیونکہ مجھے گھومتے پھرتے رہنے میں مزہ آتا ہے۔’’ لڑکے نے جواب دیا۔
بوڑھے نے بازار کے کونے میں واقع ایک دکان کی کھڑکی کے سامنے کھڑے بیکری کے مالک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ
‘‘جب یہ بچہ تھا تو اِس کی خواہش بھی طویل سفر کرنے کی تھی، لیکن اُس نے سوچا کہ پہلے بیکری خرید کر کچھ رقم اکٹھا کر لے اور پھر جب وہ بوڑھا ہو جائے تو پھر کم از کم ایک ماہ کے لئے افریقہ میں قیام کرے گا ۔ لیکن اُس بے چارے کو اِس حقیقت کا علم ہی نہ ہو سکا کہ خوابوں کی تعبیر کے لئے کوئی مخصوص عمر نہیں بلکہ محض ارادے کی پختگی اور فیصلہ کی قوت درکار ہے۔’’
‘‘میرے خیال میں اُسے پھر ایک چرواہا بننا چاہیے تھا۔’’ لڑکا بولا۔
‘‘ہاں ! اُس نے یہ سوچا تھا۔’’ بوڑھا بولا ‘‘دراصل معاشرہ میں نان بائیوں کو چَرواہے کے مقابلہ میں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ باقاعدہ گھروں میں رہتے ہیں جب کہ چرواہوں کی راتیں جنگلوں اور میدانوں میں گزرتی ہیں۔ والدین اپنی بچیوں کی شادی کے لئے چرواہے پر نان بائی کو ترجیح دیتے ہیں۔’’
لڑکے کو ایک دھچکا سا لگا اور اس کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ تاجر کی بیٹی کے لئے بھی تو شہر میں نان بائی ضرور ہوں گے۔اُس نے سوچا۔
بوڑھے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ‘‘لیکن اہم بات یہ ہے کہ آخر میں ایسا مرحلہ آتا ہے کہ لوگ اپنے اصل مقدّر اور مقاصد کو بھول جاتے ہیں اور نان بائی اور چرواہوں کی زندگی کو ہی اپنا مقصد و محور بنا لیتے ہیں۔’’
بوڑھا کتاب کے اوراق پلٹتا رہا۔ ایک جگہ اُس کی توجہ مرکوز ہو گئی۔ لڑکے نے کچھ دیر انتظار کیا پھر دخل انداز ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
‘‘یہ سب کچھ آپ مجھے کیوں بتا رہے ہیں۔’’


‘‘کیونکہ تمہیں اپنی تقدیر کا احساس ہے، تم اپنے مقدّر کو حاصل کرنا چاہتے ہو، اور اس کے لیے کوشش کررہے ہو۔ سب سے اہم بات یہ کہ تم ابھی زندگی کے ایسے مقام پر ہو جہاں حصولِ مقصد کی خاطر سب کچھ چھوڑا جا سکتا ہے۔’’
‘‘تو اس کا مطلب ہے آپ سے میری ملاقات کا تعلق اسی مرحلہ سے ہے۔ یہ سب تقدیر طرف سے ہے اور قدرت جب کسی کی مدد کرنا چاہتی ہے تو ایسے وقت میں رہنمائی کے لیے آپ جیسے لوگوں سے اچانک ملاقات ہوجاتی ہے۔’’

 

‘‘ہاں!…. لیکن ہمیشہ ملاقات ہی مدد کا واحد طریقہ نہیں ہوتا…. بلکہ یہ مدد لوگوں کی رہنمائی کے لیے کسی بھی وضع اور شکل و صورت میں آسکتی ہے ، کبھی کسی مسئلہ کے حل کی صورت میں اور کبھی کسی اچھے نکتہ اور خیال کی شکل میں۔ بعض دفعہ کڑے وقت اور فیصلہ کن مراحل کی صورت میں بھی کسی زیادہ آسان اور سہل الحصول راستہ کی طرف رہنمائی کے ذریعہ کی پراسرار قوتیں لوگوں کی مدد کرتی ہیں۔
ایسی اور بھی بہت سی چیزیں کائنات کی ان پراسرار قوتوں کی دسترس میں ہوتی ہیں جنہیں تصرّف میں لاکر اُنہیں انجام دینا ہوتا ہے، کائناتی تصرّفات کی یہ دنیا بہت ہی وسیع ہے، لیکن اکثر اوقات لوگوں کو اس بات کا احساس تک نہیں ہوپاتا کہ جب وہ اچانک کسی الجھن اور مشکلات سے نکل جاتے ہیں، تو انہیں نکالنے میں پس پردہ کن پراسرار غیبی قوتوں کا عمل دخل تھا….؟’’
پھر بوڑھے شخص نے مثال دیتے ہوئے ایک واقعہ بیان کیاکہ



 

‘‘ایک ہفتے پہلےکی بات ہے کہ ، ایک کان کن کی مدد اس کے سامنے ایک پھر کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔ اس کان کن کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ وہ ایک بیش قیمت پتھر حاصل کرے گا۔ اس کی تلاش میں اس نے کان کنی شروع کی۔ اپنے اس مقصد کو پانے کے لیے اس نے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا تھا۔ پانچ سال تک وہ ایک دریا کے کنارے پہاڑوں اور چٹانوں میں پتھر توڑتا رہا ، قیمتی زمرد کی تلاش میں اس نے سینکڑوں ہزاروں چٹانیں توڑیں، لاکھوں پتھروں کی ایک ایک کرکے جانچ پڑتال کی۔ لیکن عین اس وقت پر جب قریب تھا کہ صرف ایک آخری پتھر کو توڑ کر جانچ کرلے اور اس میں سے زمرد حاصل کرلے، اس وقت میں کان کن کی ہمت جواب دینے لگی۔ کیونکہ کہ اس کان کن نے اپنے مقصد اور مقّدر کی تلاش کے لیے لگن دکھائی، سب کچھ قربان کردیا، اس لیے اس کی مدد کرنا قدرت پر گویا فرض ہوگیا تھا۔ اس موقع پر پراسرار قوتیں اس کی مدد کو پہنچیں اور ایک پتھر کی صورت میں لڑھکتی ہوئی اس کے قدموں میں جاگریں ۔ اس شخص نے مایوسی اور غصہ کی اس حالت میں جو پانچ سال بے ثمر ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ پتھر اٹھایا اور اتنی شدت سے سامنے کی چٹان پر دے مارا کہ پتھر کے دو ٹکڑے ہوگئے اور اس پتھر میں سے دنیا کا سب سے بڑا ، بیش قیمت رنگارنگ و خوبصورت زمرد نکل آیا۔ ’’
‘‘در اصل انسان بڑا جلدباز ہے۔ اکثر لوگ اپنی زندگی کی ابتداء میں ہی یہ سمجھنے اور طے کر نے میں بہت جلدی دکھالیتے ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور اُنہیں کرنا کیا ہے؟ ’’ بوڑھے کے لہجے سے تلخی عیاں تھی ….
‘‘اور شاید اسی جلد بازی کی وجہ سے ذرا سی ناکامی ہونے پر بھی وہ مایوس ہوکر جستجو ترک کر دیتے ہیں…. لیکن اِس دنیا میں ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔’’
‘‘آپ مجھ سے پوشیدہ خزانے کے بارے میں کچھ کہہ رہے تھے….؟؟ ’’ لڑکے نے بوڑھے سے خزانہ کے بارے میں جاننا چاہا۔ اس کا ذہن ابھی تک اس پوشیدہ خزانے کی بات پر اٹکا ہواتھا۔
‘‘ہاں یوں سمجھو جیسے خزانہ پانی میں چھپا ہے۔ جس طرح بہتے ہوئے پانی کی ایک لہر ساحل سمندر کو ڈھک دیتی ہے اور دوسری لہر اُسے واضح کر دیتی ہے۔’’ بوڑھا بولا:
‘‘اگر تم خزانہ کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہو تو اُس کی ایک شرط ہے، وہ یہ کہ تمہیں اپنی بھیڑوں کا دسواں حصہ مجھے دینا پڑے گا۔’’
‘‘بھیڑوں کا دسواں حصہ ہی کیوں، میں اُس خزانہ کا دسواں حصہ آپ کو نہ دے دوں۔’’
یہ سن کر بوڑھے کے چہرے پر تھوڑی سی خفگی ظاہر ہوگئی، شاید اس کی اب تک کی گئی باتوں اور نصیحتوں کا لڑکے پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ پھر بوڑھے نے سمجھاتے ہوئے کہا


 


‘‘دیکھو!…. اگر تم کسی ایسی چیز کے دینے کا وعدہ کر و گے، جو ابھی تمہاری دسترس میں بھی نہیں ہے تو پھر اُسے حاصل کرنے کے لئے جس خواہش، لگن، جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے وہ شاید تم میں پیدا نہ ہوسکے گی۔’’
لڑکے نے اس بوڑھے بتایا کہ وہ پہلے ہی ایک خانہ بدوش خاتون کو خزانہ کا دسواں حصہ دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔
بوڑھے نے گہری سانس لے کر کہا :
‘‘مجھے خوشی ہے ۔ ایک طرح سے یہ اچھا ہی ہوا ، اس طرح سے تم نے یہ سیکھ لیا کہ اِس دنیا میں کچھ حاصل کرنے کے لئے اُس کی کچھ قیمت دینا ضروری ہوتی ہے۔’’
بوڑھے نے کتاب واپس کر دی اور اُٹھ کھڑاہوا۔
‘‘کل دوپہر اِسی وقت تم اپنے بھیڑوں کی تعداد کا دسواں حصہ لے کر آ جاؤ گے تو میں تمہیں خزانہ تک پہنچنے کا طریقہ بتا دوں گا۔ خدا حافظ۔’’
وہ بوڑھا شخص وہاں سے چل دیا اور بازار کے نکڑ تک جاکر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔


***

لڑکے نے دوبارہ سے کتاب پڑھنے کی کوشش کی ، لیکن وہ توجہ مرتکز کرنے میں کامیاب نہ ہوپایا۔ وہ بے چین اور پریشان تھا۔ بوڑھے نے اس سے جو کچھ بھی کہا تھا، وہ حقیقت پر مشتمل تھا …. اس نے بیکری کی طرف رخ کیا ۔ بیکری سے روٹی خریدتے ہوئے اسے خیال آیا کہ بوڑھے نے اُس نانبائی کے متعلق جو کچھ قصہ بیان کیا ہے اگر وہ تصدیق کے لیے اُس سے پوچھ لے تو کیسا رہےگا۔ لیکن دوسرے ہی لمحہ اُس نے اپنا ارادہ ترک کردیا کہ اِس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ میری باتیں سن کر نان بائی کسی ذہنی کشمکش میں پھنس جائے اور اس سے نکالنے میں اُسے کئی دن لگ جائیں ۔
‘‘چھوڑو….! جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دو، کبھی کبھی چیزوں کو حالات پر چھوڑنا ہی بہتر ہوتا ہے۔ ’’
یہ سوچ کر لڑکا وہاں سے چل پڑا اور شہر میں اِدھر اُدھر گھومتے ہوئے شہر کے جنوبی صدر دروازے تک پہنچ گیا۔ صدر دروازے کے ساتھ ہی ایک چھوٹی سی عمارت تھی۔ اُس میں ایک کھڑکی کے سامنے لوگوں کی قطار کھڑی تھی۔ یہ لوگ افریقہ جانے کے لئے وہاں سے ٹکٹ خرید رہے تھے۔ اُسے معلوم تھا کہ مصر افریقہ ہی میں ہے۔ وہ ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے قریب پہنچا۔


‘‘میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں….؟؟ کیا آپ کو ٹکٹ چاہیے؟’’ کھڑکی کے پیچھے ٹکٹ بیچنے والے نے لڑکے کو دیکھ کر پوچھا۔
‘‘نہیں آج نہیں، شاید کل لوں۔’’ لڑکا ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے سامنے سے ہٹتے ہوئے بولا۔
اگر میں ایک بھیڑ بھی فروخت کر دوں تو اتنی رقم تو مل ہی جائے گی کہ آبنائے کے دوسرے کنارے پر پہنچ جاؤں۔ جانے کیوں اس خیال نے اُسے تھوڑا خوف زدہ سا کر دیا۔
‘‘خوابوں کی دنیا کا ایک اور باسی دیکھو….’’ کھڑکی کے پیچھے ٹکٹ بیچنے والے نے اپنے ماتحت سے کہا ۔ ‘‘شایداِس بے چارے کے پاس سفر کے لئے رقم نہیں ہے۔’’
ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے پاس کھڑے کھڑے لڑکے کو دفعتاً اپنی بھیڑوں کا خیال آ گیا۔اس نے دل میں سوچا کہ چھوڑو یہ خزانے کی تلاش، بہتر ہے کہ میں واپس چلا جاؤں اور محض چرواہا ہی بنا رہوں، اب دیکھو گزشتہ دو سالوں میں میں اُن بھیڑوں کے بارے میں کتنا کچھ جان چکا تھا۔ اُن بھیڑوں سے اون کیسے حاصل کیا جائے۔ جو بھیڑیں حاملہ ہوتی ہیں اُن کی دیکھ بھال کس طرح کی جائے اور بھیڑیوں سے اپنے گلّہ کی کی حفاظت کیسے کی جائے، یہ سب اُسے معلوم تھا۔
اندلس میں بڑی بڑی چراگاہیں اور سبزہ زار میدان کہاں کہاں ہیں اور یہ بھی کہ اُس کی ہر بھیڑ کتنی قیمت کی ہے۔ یہ سب وہ جانتا تھا۔
اپنے دوست کے اصطبل تک پہنچنے کے لیے اُس نے جان بوجھ کر طویل راستہ کا انتخاب کیا، تاکہ وہ اس بارے میں مزید سوچ سکے ۔ جب وہ شہر طریفا کے قلعہ Castle of Guzman گزمان کیسل *کے سامنے سے گزر رہا تھا تو تھوڑی دیر کے لئے اصطبل واپسی کا ارادہ ملتوی کرتے ہوئے ، وہ دیوار کے اوپری حصہ تک پتھروں کی بنی سیڑھی سے قلعہ کے اوپر چڑھنے لگا۔ اِس اونچے مقام سے افریقہ نظر آ رہا تھا۔ کسی نے اُسے بتایا تھا کہ یہیں سے مورز (عرب اور افریقی بربر قبائل کے مسلمانوں ) نے اندلس پر حملہ کیا تھا اور پورے اسپین پر قبضہ کر لیا تھا۔




* طریفا میں یہ قلعہ گزمان کیسل Castle of Guzman آج بھی موجود ہے، اسے مسلم اسپین کے خلیفہ عبدالرحمٰن سوم نے تعمیر کیا تھا۔ سقوط اندلس کے بعد اس قلعہ کی باگ دوڑ ہسپانوی سپہ سالار گزمان البوئنو کے ہاتھ میں آئی اور اسی کے نام پر اس قلعہ کا نام رکھا گیا. 

یہاں اس قلعے کی بالائی منزل پر بیٹھے ہوئے اُسے تقریباً پورا شہر بھی نظر آ رہا تھا۔ وہ بازار بھی نظر آ رہا تھا جہاں بیٹھ کر اُس نے بوڑھے کے ساتھ دیر تک گفتگو کی تھی۔
‘‘کاش کہ وہ اُس بوڑھے سے نہ ملا ہوتا۔ ’’لڑکے نے ایک لمحہ کے لئے سوچا۔
وہ تو اِس شہر میں صرف اِس لئے آیا تھا کہ اُس خانہ بدوش بوڑھی عورت سے خواب کی تعبیر پوچھ سکے۔ نہ وہ عورت اور نہ یہ بوڑھا ، ان دونوں کی نظر میں اِس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں کہ وہ ایک چرواہا ہے ۔ بس وہ لوگ تو اکیلے ہی اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ بالکل تارک الدنیا لوگوں کی طرح۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ایک چرواہے کو اپنی بھیڑوں سے کتنا لگاؤ ہوتا ہے۔
اُسے مختلف خیال پریشان کرتے رہے۔ ان بھیڑیں کے ساتھ اُس کی اپنی ایک دنیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اُن میں کون سی لنگڑی ہے اور کون سی دو ماہ بعد بچہ جنے گی اور اِس میں سب سے سست کون سی ہے۔ کس طرح ان کا اون مونڈھنا ہے یا پھر اِنہیں ذبح کس طرح کیا جاتا ہے۔
وہ سوچنے لگا اگر وہ ان بھیڑوں کو چھوڑ دےگا، تو پتہ نہیں اُن کا کیا حشر ہو گا…. میرے بغیر انہیں کیا کیا بھگتنا پڑے گا….. ؟
ہوا کی رفتار بڑھنے لگی۔ وہ تو اندلس کی ہواؤں تک سے بھی بخوبی واقف تھا۔ یہ مشرقی بحرِ روم سے آنے والی باد ِشام تھیں جسے اندلس کے لوگ لیوانٹر levanter کہتے تھے ، لیوانٹ دراصل بحرِ روم کے اُس مشرقی ساحلی علاقے کو کہا جاتا ہے جہاں سے گزر کر مسلمان اندلس میں داخل ہوئے تھے۔ لیوانٹ کی ہوائیں مزید تیز ہونے لگیں۔
لیکن لڑکا ابھی تک ذہنی کشمکش سے نکل نہیں پارہا تھا۔ ایک طرف خزانہ تھا اور دوسری طرف اس کی بھیڑیں۔ وہ ایک دوراہے پر کھڑا تھا، یہ فیصلہ نہ کرپا رہا تھا کہ کدھر جائے۔ لیکن اسی وقت اِسی لمحہ اُسے ایک چیز کا انتخاب کرنا ۔
ایک طرف وہ بھیڑیں جس کے بارے میں وہ سب کچھ جانتا ہے اور جہاں سب کچھ اُس کی دسترس میں ہے، اُسے چھوڑ دے یا اُس خزانے کو چھوڑ دے جس کے بارے میں اس کی معلومات تو صفر تھیں لیکن اُس کے حصول کی خواہش بار بار دِل میں انگڑائیاں لے رہی تھی۔ پھر تاجر کی بیٹی بھی تو ہے ، لیکن لڑکے نے سوچا کہ وہ تاجر کی لڑکی ان بھیڑوں کے مقابلے میں زیادہ اہم نہیں، کیونکہ وہ اُس پر انحصار نہیں کرتی ۔ کیا پتہ وہ اُسے بھول ہی چکی ہو۔
اُسے لڑکی کی یہ بات بھی یاد آئی جب اس نے کہا تھا کہ اُس کے لئے سب دن ایک جیسے ہیں۔ چھوٹے سے قصبے میں پوری زندگی گزارنے والوں کے لیے ہر دن وہی سورج وہی پہاڑ ہوتا ہے۔ ہوسکتاہے کہ مجھ سے ہوئی ملاقات بھی اس کے لیے ایک عام ملاقات جیسی ہو۔ جب کسی کا ملنا نہ ملنا برابر ہی ہے تو کیسی خوشی اور کیسا غم۔ خوشی کا احساس اور اُس کی پہچان ہی تو کسی دن یا لمحہ کو اہم اور یادگار بناتی ہے ۔
پھر لڑکے کو اپنے والدین یاد آئے…. میرے ماں ، باپ ، میرا شہر ، وہاں کی خوبصورت فَضائیں، جنہیں میں نے خیرباد کہا تھا۔ جس طرح میرے والدین اب میرے بغیر رہنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہی حال میرا بھی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بھیڑیں بھی مجھے نہ پا کر میرے بغیر رہنے کی عادی ہو جائیں۔
لڑکا سوچتا رہا۔
جہاں وہ بیٹھا تھا شہر کا بازار بآسانی نظر آ رہا تھا۔ اس بیکری میں گاہکوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ جس جگہ اُس نے بوڑھے کے ساتھ بیٹھ کر گفتگو کی تھی۔ اُس جگہ ایک نوجوان جوڑا آ کر بیٹھ گیا تھا۔ اُن کے اظہارِ تعلق کی وارفتگی اُس کے ذہن کو مرتعش کئے بغیر نہ رہ سکی۔
‘‘اور پھر وہ نانبائی….’’
وہ مزید کچھ سوچنا چاہ رہا تھا لیکن وہ اپنے خیال کو مکمل نہ کر سکا۔ بادِ شام کی تیز ہواؤں کی شدت نے اُس کے خیالوں کو منتشر کردیا۔
بادِ شام کی اِن ہواؤں کے دوش پر صرف مسلمان فاتحین ہی اندلس نہیں آئے تھے ، بلکہ یہ ہوائیں تو افریقی ریگستان کی مخصوص خوشبو بھی اپنے ساتھ لاتی ہیں اور وہاں کے لوگوں کی خوشبو بھی اُن کے ساتھ آتی تھی۔ اس ہواؤں میں اُن باہمت نوجوانوں *کے خوابوں اور پسینہ کی خوشبو کی بھی شامل ہے جنہوں نے ارضِ نامعلوم (موجودہ امریکہ) کی جستجو، نعمتوں کی تلاش اور مہم جوئی کے شوق میں اپنی سر زمین چھوڑ دی تھی۔

*یہاں باہمت نوجوانوں سے مراد مغربی افریقہ کے وہ آٹھ عرب مسلم نوجوان ہیں، جو بحرظلمات کو عبور کرنے کے ارادہ سے نکلے اور طویل سفر کے بعد دوسرے کنارے پر جاپہنچے۔ انہوں نے کرسٹوفر کولمبس سے بھی چھ سو سال قبل ہی امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھ دیا تھا۔ اس دور میں بحر اوقیانوس کے پار اس خطہ امریکہ کو ارض مجھولہ (انجان زمین) کہا جاتا تھا۔ اہل عرب میں اس کارنامے کی بہت شہرت ہوئی اور لوگوں نے انہیں الفتیۃالمغررین(باہمت نوجوانان) کا لقب عطا کیا۔ انہی نوجوانوں کی دیکھا دیکھی آٹھویں صدی عیسوی میں قرطبہ کا اندلسی سیاح خشخاش بن سعید بن اسود بھی بحراوقیانوس کو عبور کرنے کے لئے نکلا تھا، اور کئی دن کئی راتیں مسلسل سفر میں رہنے کے بعد بالآخر بحر اوقیانوس کے دوسرے کنارے پر جا پہنچا اور وہاں سے بہت سا سازو سامان لے کر لوٹا۔

ان باہمت نوجوانوں کے قصوں کے خیال نے لڑکے کے اندر مزید جوش بھردیا۔ ایک لمحہ کے لیے اس نے سوچا کہ کاش ! اس کی زندگی بھی اسی طرح مہم جوئی سے بھرپور ہو ۔ اُسے بھی ایسی ہی آزادی حاصل ہو۔ وہ بھی لیوانٹر ہواؤں کی طرح آزاد ہوکر بحر و بر کا سفر کرتا پھرے۔ وہ سوچنے لگا کہ اُس کی آزادی کے حصول میں اُس کی اپنی ذات کے علاوہ اور کوئی حائل نہ تھا۔ بس صرف یہ بھیڑیں، تاجر کی بیٹی اور اندلس کی چراہ گاہیں ہی اس مقصد کے حصول کے لیے وہ چند قدم ہیں جن کے عبور کرتے ہی اُس کے مقدّر کا راستہ کھل سکتا تھا۔

 


***


اگلے دن دوپہر جب لڑکا بوڑھے سے ملنے گیا تو چھ بھیڑیں اُس کے ہمراہ تھیں۔
‘‘عجیب سی بات ہے….’’، لڑکا حیرت سے کہنے لگا۔
‘‘میرے دوست نے میری سب بھیڑیں بلاجھجھک فوراً ہی یہ کہتے ہوئے خرید لیں کہ یہ میرے دِل کہ سب سے بڑی خواہش تھی اور اس نے بتایا کہ وہ بھی برسوں سے یہی خواب دیکھ رہا ہے کہ وہ بھی ایک چرواہا بنے۔ اور اس نے میری تمام بھیڑوں کو قدرت کی طرف سے نیک شگون سمجھتے ہوئے خرید لیا۔ ’’
‘‘ہاں !ایسا ہی ہوتا ہے ہمیشہ۔’’ بوڑھا شخص کہنے لگا۔ ‘‘اب دیکھو !جب کوئی شخص پہلی مرتبہ تاش یا کوئی کھیل کھیلتا ہے تو اُسے اپنی جیت یقینی نظر آتی ہے، اور اتفاق سے اس کے یقین کو مستحکم کرنے کے لیے ایسے میں قسمت بھی اس کا ساتھ دیتی ہے۔ یہی موافقت کا اصول principle of favorability ہے، اسے عموماً ابتدائی قسمت Beginner’s luck کہتے ہیں۔ ’’
‘‘ایسا کیوں ہوتا ہے ؟’’
‘‘دراصل کائنات میں ایک ایسی پراسرار قوت پائی جاتی ہے، جو ہمارے خواہشوں اور خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے اور قسمت اور مقدّر کی منزل تک پہچانے میں ہماری معاونت کرتی ۔ اسی لیے وہ ابتداء میں کامیابی کا مزہ چکھا کر ہماری جستجو، شوق اور دلچسپی کو مزید بڑھاتی ہے۔’’
اتنا کہہ کر بوڑھا بھیڑوں کی طرف متوجہ ہوا اور ان کا معائنہ کرنے لگا۔ ان بھیڑوں میں ایک ایسی بھیڑ بھی تھی جس کی ایک ٹانگ میں تھوڑا نقص تھا۔ بوڑھے نے جب اس کی کی نشاندہی کی تو لڑکے نے بوڑھے کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ
‘‘یہ بھیڑ لنگڑی ضرور ہے لیکن اس خامی سے زیادہ اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ دیگر بھیڑوں میں زیادہ سمجھدار ہے اور سب سے زیادہ اون دیتی ہے۔’’
‘‘اب بتاؤ، خزانہ کہاں ہے؟’’ لڑکے نے فوراً اصل سوال کر ڈالا۔
‘‘مصر کے اہرام کے نزدیک۔’’
لڑکا یہ سُن کر بھونچکا رہ گیا اور سوچنے لگا کہ اتنی سی بات تو بنا کچھ لئے اُس بوڑھی خانہ بدوش عورت نے ہی بتا دی تھی۔بوڑھا مزید کہنے لگا ۔
‘‘البتہ خزانہ تک پہنچنے کے لئے تمہیں فال نکالنا ہوگی۔ خدا نے ہر انسان کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ متعیّن کر دیا ہے۔ کوئی راستہ کامیابی کی طرف جاتا ہے تو کوئی ناکامی کی طرف۔ کوئی نیکی کا راستہ ہے تو کوئی بدی کا…. اور خدا نے ہی ان راستوں کی پہچان کے لیے کائنات میں نشانیاں بکھیری ہوئی ہیں ، بس تمہیں ان نشانیوں کو دیکھ اور سمجھ کر اپنے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرنا ہے۔’’
قبل اِس کے کہ لڑکا کچھ بولتا، ایک تتلی اڑتی ہوئی آئی اور اُن دونوں کے درمیان منڈلانےلگی۔
لڑکے کو یاد آیا کہ ایک بار اُس کے دادا نے بتایا تھا کہ کسی کے ارد گرد تتلی کا منڈلانا اچھا شگون ہوتا ہے اور ایسا ہی شاید اُنہوں نے بعض دوسری چیزوں کے متعلق بھی بتایا تھا۔ جیساکہ جھینگرکا گیت سننا، بیر بہوٹی Ladybugکا کسی شخص پر بیٹھنا، ہما (پرندے) کا سر پر اُڑنا، دورانِ سفر سوسمار (صحرائی چھپکلی)، البتروس (ساحلی پرندہ)، سرخ چمگادڑ، کچھوے یا ڈولفن کو دیکھنا ، شاہ بلوط کا پھل، چہار برگہ (چار پتیوں والا پودا )four-leaf clovers اور سماروغ (سرخ مشروم)کا ملنا، یا راستے میں گھوڑے کی نعل یا لوہے کی چابی پانا، یا پھر اچانک کسی توقع پورا ہونا یعنی کسی چیز کی آس اور امید ہو اور وہ اچانک سے وہ واقع ہوجائے، یہ سب اچھے اور سعد شگون کی علامت ہوتی ہیں۔
‘‘بالکل ٹھیک ہے۔’’ بوڑھے نے لڑکے خیالات کو پڑھتے ہوئے کہا، ‘‘تمہارے دادا نے تمہیں ٹھیک ہی سکھایا تھا، یہ سب اچھے شگون اور فالِ نیک ہیں۔ سوسمار ، البتروس، سرخ چمگادڑ، کچھوے یا ڈولفن ان سب جانوروں میں قدرتی طور پر یہ صلاحیت ہوتی ہے یا یوں کہہ لو کہ ان کی جبلت میں ایسا دفاعی نظام ہوتا ہے کہ یہ آنے والے خطرات ، موسم کی شدت ، مثلاً طوفان وزلزلہ کا پہلے ہی اندازہ لگالیتے ہیں۔ خطرے کے وقت یہ اپنے مسکن اور بلوں میں چھپے رہتے ہیں اور صرف امن و سکون کی فضا میں ہی باہر نکلتے ہیں۔یہی وجہ سے کہ انہیں باہر کی فضا میں دیکھنا سکون اور خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ’’
بھیڑوں کے معائنہ سے فارغ ہونے کے بعد بوڑھے نے لڑکے کی جانب رخ کیا اور اپنی قبا ہٹائی۔ اس کے بعد لڑکے نے جو دیکھا تو وہیں دنگ رہ گیا۔ اس بوڑھا کے سینے کے گِرد سونے کی ایک بھاری سینہ پوش طلائی زرہ breastplateلپٹی ہوئی تھی۔ جس میں پیش قیمت جواہرات جڑے ہوئے تھے، ایک دم اسے یاد آیا کہ کل اچانک جو چمک اُس کی آنکھوں میں پڑی تھی وہ اسی طلائی زرہ سے آئی ہوگی۔



‘‘اس کا مطلب ہے یہ بوڑھا صحیح کہتا ہے۔ یہ یقیناً شالیم کا بادشاہ ہی رہا ہو گا اور محض چوروں، لٹیروں کے خوف سے اس نے یہ بہروپ اختیار کیا ہوا ہے۔’’ لڑکے نے سوچا۔
‘‘یہ لے لو’’ بوڑھے نے اپنا ہاتھ لڑکے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ جس میں سفید اور سیاہ دو چھوٹے پتھر نظر آرہے تھے۔ یہ وہی پتھر تھے جو بوڑھے کے سینے پر لگی ہوئی طلائی زرہ میں جڑے ہوئے تھے۔





ان پتھروں کو اُوریمUrim اور تُمّیم Thummimکہا جاتا ہے*۔ یہ سفید پتھر اُوریم ‘‘ہاں ’’ کے لئے اشارہ ہو گا اور سیاہ پتھرتُمیّم ‘‘نہیں ’’کے لئے….اگر کبھی ایسا ہو کہ تم قدرت کے اشاروں کو سمجھ نہیں پارہے ہو تو یہ دونوں پتھر قدرت کے اشاروں کو سمجھنے میں تمہاری مدد کریں گے۔ البتہ کوشش کرنا کہ سوال بالکل واضح اور بامقصد ہو۔لیکن بہتر یہی ہو گا کہ تم اپنے فیصلہ خود اپنی عقل سے کرنے کی کوشش کرو۔ ’’
لڑکے نے دونوں پتھر اپنے تھیلے میں ڈالے اور مصمم ارادہ کیا کہ وہ پہلے خود فیصلے لے گا۔
اب بوڑھا دوبارہ گویا ہوا ‘‘اب جیسا کہ تم پہلے سے ہی جانتے ہو کی خزانہ اہرامِ مصر میں ہے۔ اور میں نے یہ چھ بھیڑیں تم سے اِس لئے مانگی تھیں کیونکہ یہ میری اس کوشش کی اُجرت ہے۔ اس کی بدولت ہی تم اس فیصلہ تک پہونچ سکے ہو۔’’
‘‘ہاں! اس سفر میں میری یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنا کہ جو چیز بھی تمہارے سامنے آئے وہ محض ایک چیز ہے اور اِس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔
قدرت کے اشاروں کی اپنی زبان ہوتی ہے اُسے ضرور یاد رکھنا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنی منزل، اپنے مقصد کی اس تلاش کو کبھی بیچ میں ادھورا مت چھوڑنا۔ تمہاری کوشش نتیجہ خیز ہونا چاہیے۔’’

 


* اوریم اور تُمیم قدیم دور سے یہودی کاہنوں میں فال نکالنے کا ایک طریقہ چلا آرہا ہے اور طلائی سینہ پوش بھی دراصل کاہنوں کے مقدس لباس حوشن Hoshen کا ایک حصہ ہوتا ہے، جسے وہ افود Ephod کہتے ہیں، اس میں قیمتی زر و جواہر کے ساتھ اوریم اور تُمیم بھی لگے ہوتے ہیں۔


بوڑھے نے نصیحت کے انداز میں لڑکے کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ اچھا ! اب میرا کام ختم ، لیکن جانے سے پہلے ایک چھوٹی سی کہانی سُن لو:
‘‘ایک تاجر نے اپنے بیٹے سے کہا کہ جاؤ اور دنیا کے سب سے عقلمند اور جہاں دیدہ عالم سے یہ معلوم کرو کہ
‘‘ابدی خوشی کا راز کیا ہے’’۔
وہ لڑکا وہاں سے روانہ ہوا اور تقریباً کوئی چالیس دن تک صحرا و بیابان میں بھٹکتا رہا ۔ آخر کار ایک قصبہ میں پہاڑی کے اوپر واقع ایک قلعہ تک اُس کی رسائی ہوگئی۔ کسی نے اُسے بتایا کہ یہیں وہ دانشمند اور صاحب بصیرت عالم رہتا ہے۔
لڑکے کی توقع تویہ تھی کہ اس قلعہ میں کتب خانوں کی طرح کتابوں کے ڈھیر لگے ہوں گے اور اس علمی ماحول میں کسی بزرگ درویش سے اس کی ملاقات ہو گی۔ لیکن جب وہ قلعہ میں داخل ہوا امید کے برخلاف اُس نے دیکھا کہ وہ قلعہ تو ایک خوبصورت محل جیسا تھا، وہاں تو انتہائی بڑا اور سرگرم بازار لگا ہوا ہے۔
اس کاروباری ماحول میں تاجروں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ کچھ لوگ اِدھر اُدھر کھڑے ہو کر گفتگو میں مصروف تھے۔ کہیں سازندوں کا ایک چھوٹا طائفہ بیٹھا ہلکی موسیقی کی دھنیں بجا رہا ہےاور ایک طرف بڑی سی میز پر انواع و اقسام کی کھانے پینے کی اشیاء کی تھالیاں بھی سجی ہوئی تھیں تھیں۔
لڑکے کی نظریں اس دانا عالم کو ڈھونڈ رہی تھیں ۔ پوچھنے پر محل کے ایک حصہ کی جانب اشارہ کیا گیا جہاں ایک کمرے میں خوشنما لباس میں ایک ایک شخص بیٹھا کچھ لوگوں سے گفتگو میں مصروف تھا ۔ کمرے کے باہر اس سے ملاقات کے لیے لوگوں کی ایک بھیڑ تھی۔ وہ شخص بہت مصروف تھا لیکن پھر بھی ہر ایک فرد سے ایک ایک کرکے بات کررہا تھا۔ سب لوگوں سے ملاقات میں تقریباً دو گھنٹہ لگ گیے اس کے بعد ہی وہ نوجوان کی طرف متوجہ ہوا۔
پہلے اس داناعالم نے پوری توجہ سے نوجوان کی بات سنی اور پھر کہا:‘‘دیکھو نوجوان !فی الحال تو میرے پاس اتنی فرصت نہیں ہے کہ تمہیں تفصیل سے بتاسکوں کہ دائمی خوشی کا راز کیا ہے۔ البتّہ تم ایسا کرو کہ ذرا یہ پورا محل گھوم پھر لو اور پھر دو گھنٹہ بعد میرے پاس آنا۔ جب تک میں ان کاموں سے فارغ بھی ہو جاؤں گا۔ ہاں البتّہ اِس دوران میرا ایک کام کرنا کہ یہ چمچہ جس میں چند قطرے تیل کے پڑے ہوئے ہیں، اپنے ساتھ رکھنا اور یہ خیال رہے کہ گھومنے کے دوران یہ تیل گرنے نہ پائے۔



اب وہ نوجوان محل کو دیکھنے کی خاطر وہاں سے نکلا، اس نے تمام ضروری راستے اور سیڑھیاں طے کیں اوپر چڑھائی پر بھی گیا اور نیچے بھی اُترا، لیکن اِس دوران اُس کی نظریں چمچے ہی پر مرتکز رہیں کہ مبادا تیل کے قطرے گر نہ جائیں۔ جس کی حفاظت کا ذمہ اسے دانا عالم نے دیا تھا۔
دو گھنٹہ بعد جب وہ واپس آیا تو وہ دانا عالم لوگوں سے ملاقات سے فارغ ہوگیا تھا، اس نے اُس لڑکے کو دیکھتے ہی کہا ‘‘اوہ اچھا تم آگئے ، پورا محل گھوم لیا….’’
پھر دانا عالم نے لڑکے سے گفتگو شروع کی ‘‘تم نے دیکھا کھانے کی میز کے پاس کی دیواروں پر انتہائی حسین و خوبصور ت گلکاری شدہ غلاف ٹنگا ہوا ہے جسے فارس سے منگوایا گیا ہے ، اور تم نے محل کے باغ کو دیکھا کتنا دلکش ہے، اسے تیار کرنے میں مالی کو دس سال لگے تھے اور کیا تم نے میرے کتب خانے میں رکھی وہ کتابیں دیکھیں جن پر خوبصورت نقشی والی چرمی جِلدیں چڑھی ہوئی ہیں…. ؟’’
دانا عالم کے محل کے متعلق ان سوالات پر نوجوان کو بڑی شرمندگی کا احساس ہوا۔ اس نے سوچا کہ وہ تو محل میں کچھ بھی صحیح سے نہیں دیکھ پایا ، اُس کی ساری توجہ تو محض چمچہ کے تیل پر رہی کہ کہیں وہ گر نا جائے ، جو دانا عالم نے اسے انتہائی بھروسہ سے دیا تھا۔ اس عالم نے لڑکے سے کہا کہ
‘‘تم کسی شخص کی باتوں پر اس وقت تک یقین نہیں کرسکتے جب تک تم خود اس کے بارے میں جانتے نہ ہو۔ میں نے اپنے محل کے بارے میں جو کچھ بتایا ، اسے سنتے ہوئے تمہارے چہرے پر یقین کا عنصر نظر نہیں آہا، اس پر تمہیں تبھی یقین آئے گا جب تک دیکھ نہ لو، اب دوبارہ واپس جاؤ اور میرے اِس محل کو اچھی طرح دیکھو، کہ اس میں کس قدر خوبصورت اور حیرت انگیز دنیا آباد ہے، تبھی میں سمجھوں گا کہ خوشی کا دائمی راز جو میں تمہیں بتاؤں گا تم اس پر یقین کرو گے۔ یہ تمہارا امتحان ہے۔ ’’
نوجوان کو ذرا اطمینان ہوا ، اور پھر اُس نے چمچہ اٹھا کر دوبارہ محل کا دورہ شروع کر دیا، اس مرتبہ اس نے ہر چیز کو بغور دیکھا۔ چھت اور دیواروں پر آویزاں فن کے نمونوں کو دیکھا۔ باغ کی سیر کی، قلعہ سے نظر آنے والے پہاڑوں اور ارد گرد کے مناظر دیکھے۔ جو کچھ سازو سامان ، ظروف اور آرائش کی اشیاء خوبصورتی کے ساتھ محل کے مختلف حصوں میں آویزاں کی گئی تھیں اُن سے بھی محظوظ ہوا، پھولوں کی خوبصورتی اور مہک محسوس کی۔ لذیذ خوانوں کو چکھا، اور واپس آ کر اس عالم کو ایک ایک چیز کی تفصیل اور اپنے تاثرات بیان کئے۔
‘‘لیکن تیل کے ان قطروں کا کیا ہوا، جس کی حفاظت کی ذمہ داری میں نے تمہیں دی تھی۔’’ دانا عالم کے سوال پر نوجوان چونک اٹھا ۔ اس کی نظر جب چمچ پر پڑی تو وہ خالی تھا۔ تیل کے قطرے گر چکے تھے۔
اب دانا عالم نے لڑکے کو سمجھانے کے انداز میں کہا ‘‘اچھا اب میری یہ بات غور سے سنو اور یاد رکھو :
‘‘دائمی خوشی کا راز اِسی بات میں پنہاں ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے اس کے تمام عجائبات کو دیکھو ضرور لیکن اِس طرح کے تیل کے قطروں کو یعنی جو تمہاری ذمہ داریاں ہیں انہیں فراموش نہ کیا جائے۔’’
نوجوان چرواہا خاموشی سے اس بوڑھے کی بیان کردہ حکایت سن رہا تھا۔ اس کی بات پوری طرح سمجھ چکا تھا۔ چرواہے بھی تو بستی بستی کا سفر کرتے ہیں لیکن بھیڑوں کو نہیں بھولتے۔
بوڑھے نے لڑکے کو آخری مرتبہ غورسے دیکھا اور کچھ پڑھتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ سے لڑکے کے سر کے اوپر پھیرے اور اپنی بھیڑوں کو لے کر ایک طرف چل دیا۔




اطریفا کے بلند ترین مقام پر جہاں مسلمانوں کا تعمیر کردہ قلعہ تھا۔ اُس کی دیواروں کے اُس پار دُور افریقہ کی سرزمین کی جھلک نظر آتی تھی۔
اُسی دوپہر شالیم کا بوڑھا بادشاہ ملکی صادق قلعہ کی دیوار پر بیٹھا ہوا تھا اور اپنے چہرے پر مشرق سے آنے والی لیوانتر ہوؤں کو محسوس کررہا تھا۔ بھیڑیں اِدھر اُدھر چارہ چر رہی تھیں۔ ان کا مالک اب بدل چکا تھا۔ لیکن یہ تبدیلی اُن بھیڑوں کے لئے کسی اہمیت کی حامل نہ تھی، نہ ہی انہیں مالک سے بچھڑنے کا کوئی غم تھا۔ انہیں تو بس کیسے بھی چارہ اور پانی چاہیے تھا۔
قلعہ کی دیوار پر بیٹھے بوڑھے ملکی صادق کی نظر بندر گاہ سے نکلنے والےایک چھوٹے سے بحری جہاز پر پڑی جو افریقہ کی طرف گامزن تھا۔ اُس نے حسرت بھری نگاہ اس پر ڈالی اور دل میں سوچا کہ اس لڑکے سے آئندہ کبھی ملاقات نہ ہو سکے گی۔ جیسے ابراہیم سے ملنے کے بعد میں پھر کبھی نہ مل سکا تھا۔ لیکن قدرت کے فرائض کی انجام دہی میں ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔ یہی طریقہکار ہے۔
ویسے بھی کائنات اور تقدیر کی مرضی میں خود کو ضم کردینے والے بندے خواہشات سے ماورآ ہوتے ہیں۔ ولیوں کی نہ کوئی خواہشات نہیں ہوتی ہیں نہ ہی کوئی مرضی یا چاہت۔
لیکن جانے کیوں شاہ شالیم کے دل میں یہ شدید خواہش بار بار سر اُبھارتی کہ کسی نہ کسی طرح یہ لڑکا کامیابی سے ہمکنار ہو جائے۔البتہ اسے اس بات کی بھی فکر تھی کہ اس سفر کی صعوبتوں میں یہ لڑکا جلد ہی اس کا نام تک بھول جائے گا۔
‘‘ میں نے بھی تو صرف ایک ہی بار اُسے اپنا نام بتایا تھا’’۔ اس نے سوچا۔
‘‘کیا ہی اچھا ہوتا کہ میں اس کے سامنے بار بار اپنا نام دہراتا رہتا ، تاکہ کہیں اگر میرا تذکرہ ہو تو شالیم کے بادشاہ ملکی صادق کے نام سے ہو۔’’
لیکن پھر خود ہی نادم ہوکر بولا: ‘‘اےمیرے مالک ! میں جانتا ہوں کہ یہ خود نمائی، جھوٹی شان تیرے نزدیک بالکل بے بنیاد اور ہیچ ہے۔ لیکن کبھی کبھی تھوڑی ہی دیر کے لئے ہی صحیح، ماضی کے ایک بادشاہ کو اپنے اوپر تھوڑا ناز تو کرنے دے۔’’
***





بحر اوقیانوس کو بحیرہ روم سے منسلک اور یورپ اور افریقہ کو جدا کرنے والی آبنائے جبرالٹر Strait of Gibraltar شاندار محل وقوع کے باعث دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔ اس کو یہ نام جبل الطارق (جبرالٹر) کے نام پر ملا، جہاں 711ء میں مسلم جرنیل طارق بن زیاد اسپین فتح کرنے کے لیے اترے اور یورپ کے ایک نئے سنہری دور کا آغازکیا۔
اس آبنائے کے شمال میں جبرالٹر (جبل الطارق)اور اسپین کا ساحلی شہر طریفا جبکہ جنوب میں مشہور ساحلی شہر ‘‘طنجہ’’Tangier واقع ہے، جبرالٹر کے پہاڑ سے طنجہ کی روشنیاں صاف نظر آتی ہیں۔ شہر طریفا سے طنجہ صرف 30 کلومیٹر دور ہے۔ یہ سفر فیری کشتی پر آدھ گھنٹے میں مکمل ہو جاتا ہے۔

***


‘‘افریقہ بھی کتنا عجیب و غریب خطہ ہے،’’ لڑکے نے سوچا۔ وہ اِس وقت ایک قہوہ خانہ میں بیٹھا تھا۔ طنجہ Tangier کی پتلی پتلی گلیوں میں ایسے بہت سے قہوہ خانے تھے۔ ایک مجلس میں یہاں کچھ لوگ ایک لمبا سا پائپ لیے تمباکو نوشی کر رہے تھے، جب ایک پی چکتا تو وہ یہ طویل پائپ دوسرے کی طرف بڑھا دیتا ۔ اب دوسرا اُس سے لطف اندوز ہونے لگتا۔ بعد میں اسے معلوم ہوا کہ اس پائپ کا نام یہاں حقہ hookahہے ۔ کچھ لوگ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے گھوم رہے تھے۔ جتنی بھی عورتیں نظر آئیں چہروں کو نقابوں میں چھپائے ہوئے تھیں۔ اس نے بلند و بالا میناروں پر چڑھ کر عابِدوں کو عربی زبان میں خوش الحانی سے پکارتے بھی سنا اور لوگوں کو ایک خاس طریقے سے عبادت کرتے بھی دیکھا۔ اس پکار کو اذان اور اس طریقہ عبادت کو صلوٰۃ کہتے ہیں۔
اسپین کی بہ نسبت مراکش میں زیادہ مسلمانوں آباد ہیں، ایک مسیحی گھرانے میں پرورش پانے والے اس لڑکے کے لیے یہ سب ماحول عجیب تھا۔
‘‘یہ غیر مسیحی مورش کے رواج بھی عجیب ہیں۔’’ اُس نے اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہوئے دل میں سوچا۔ (اسپین کے لوگ مسلمانوں کو مراکش کی نسبت سے مور یا مورش کہتے تھے۔ )
بچپن میں اُس نے چرچ میں سینٹ سانتیاگو* کی ایک تصویر دیکھی تھی جس میں وہ ننگی شمشیر لئے ایک سفید گھوڑے پر سوار ہیں اور مورش فوجوں سے مقابلہ کررہے ہیں۔ بطور مسیحی بچپن ہی سے اسے مسلمانوں سے خوب ڈرایا گیا تھا اور اب ان عرب اجنبیوں کے درمیان لڑکا وہ آپ کو بالکل تنہا اور اُداس محسوس کر رہا تھا۔ اُس نے سوچا کہ وہ ایسے اجنبی لوگوں کے درمیان آگیا ہے جو شاید اسے دشمن نظر آرہے تھے۔

* * سینٹ سانتیاگو جنہیں ہسپانوی ماتا مورو یعنی مور کش کہتے ہیں ، دراصل ایک فرضی کردار تھے، مسلمانوں کی اسپین فتح کے وقت جب عیسائی تعداد میں روز بروز کم ہو رہے تھے اور عیسائیت سکڑ کر صرف اشتوریش Asturian سلطنت تک رہ گئی تھی، تو اشتوریش کے بادشاہ الفانسو دوم نے عیسائیوں کے گرتے حوصلوں کو تقویت دینے کے لیے ایک ایسی مقدس ہستی تخلیق کرنے کا سوچا جو میدان جنگ میں عیسائیوں میں جوش و جذبہ بھر دے ۔ یہ شخصیت حضرت عیسٰی کے حواری یعقوب زبدی کی تھی جو اسپینی زبان میں سان تیاگو کہلائے گئے۔ جب کسی جنگ میں اشتوریش کی فتح ہوتی جو کہ بہت کم تھیں ، یہ مشہور کیا جاتا کہ میدان جنگ میں سینٹ سانتیاگو سفید گھوڑے پر سوار اور بہت بڑی آسمانی تلوار اور سفید علم کو ہاتھ میں لیئے بذات خود عیسائیوں کی مدد کے لیے تلوار چلاتے دیکھا گیا۔ 

سفر کی خوشی اور عجلت میں اُس نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ یہاں آتو گیا ہے مگر یہاں کے لوگوں کی زبان سے بالکل ناواقف ہے۔ یہاں سب لوگ صرف عربی بولتے ہیں۔ اُس نے سوچا کہ کہیں عربی سے ناواقفیت، خزانہ کی تلاش میں دشواری اور تاخیر کا باعث نہ بن جائے۔
اتنے میں قہوہ خانہ کے مالک نے اُس کے پاس آکر پوچھا تو لڑکے نے اُس مشروب کی طرف اشارہ کر دیا جو برابر والی میز پر بیٹھے شخص نے منگوایا تھا۔ لیکن مشروب کا پہلا گھونٹ اُس کے لئے تلخ اور اجنبی تھا، یہ چائے تھی جسے شاید وہ کوئی شربت سمجھ رہا تھا۔
اجنبی شہر، اجنبی لوگ، اجنبی زبان اور اجنبی مشروب …. لیکن یہ سب اِس کے لیے اتنی فکر مندی کا باعث نہ تھے۔ اُسے تو بس اِس بات کی فکر تھی کہ اس اجنبی ماحول میں خزانہ کی تلاش کا آغاز کس طرح ہوگا۔
یوں تو اُس کے جامہ بند پوٹلی میں کافی رقم موجود تھی جو اس نے بھیڑیں بیچ کر حاصل کی تھی اور لڑکے کو یہ تو معلوم تھا کہ پیسے میں جادو ہوتا ہے ، جس سے کوئی کام ناممکن نہیں، اور جب تک اس کے پاس پیسہ ہے تنہائی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کچھ ہی دِنوں میں وہ اہرام تک پہنچ جائے گا۔
اُسے یقین تھا کہ بوڑھے آدمی نے محض چھ بھیڑوں کے لئے جھوٹ نہ بولا ہو گا۔ پھر اُسے یاد آیا، بوڑھے نے شگون اور نشانیوں کے بارے میں بتایا تھا۔ جب وہ آبنائے جبرالٹر پار کر رہا تھا تو اُسے اُن نشانیوں کا خیال آیا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ بوڑھے کو اِن سب باتوں کی اچھی معلومات تھیں۔ اندلس کے میدانوں میں اپنی بھیڑوں کے ساتھ گھومتے ہوئے بھی اُسے بہت سی نشانیوں اور علامات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ میدان کی کیفیت اور آسمان دیکھ کر راستے کا اندازہ کرنا اُسے آتا تھا۔
ایک چرواہا ہونے کی حیثیت سے وہ اُس چڑیا کو پہچانتا تھا جو اگر کہیں پائی جائے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ کہیں قریب میں سانپ موجود ہے۔ بعض گھاس ایسی ہیں جو اگر کہیں موجود ہوں تواِس کا مطلب یہ ہے کہ قریب میں کہیں پانی موجود ہے۔ یہ سب چیزیں اُس نے بھیڑوں سے سیکھی تھیں۔
جب خدا بھیڑوں کو اتنی آسانی سے راستہ سُجھا اور دکھا دیتا ہے تو میں تو انسان ہوں۔ اِس خیال نے جیسے ایک بڑا بوجھ کم کر دیا۔ چائے کی تلخی بھی اس کے لیے کم ہو گئی تھی۔
‘‘تُم کون ہو ….؟’’ کسی نے ہسپانوی زبان میں اُس لڑکے سے پوچھا۔
اپنی زبان کے الفاظ سن کر لڑکے کو تعجب ہوا تھا…. یہ سوچتے ہوئے کہ ابھی تو وہ شگون کے متعلق سوچ رہا تھا کہ ان اجنبیوں کے دیس میں فوراً ہی ایک ہم زبان شخص مل گیا ، یہ بھی ایک اچھا شگون ہے۔
کوٹ پینٹ، گلے میں ٹائی، نووارد اپنے خوش لباس اور مہذبانہ انداز سے تو کوئی یورپی لگتا تھا، لیکن اُس کی رنگت بتا رہی تھی کہ وہ اسی شہر کا باشندہ ہے، اُس کی عمر اور قد لڑکے جیسی ہی تھی۔ لڑکے نے اس سے سوال کیا:
‘‘تم ہسپانوی کیسے جانتے ہو؟’’
‘‘اِس علاقہ میں ہر کوئی ہسپانوی زبان جانتا اور سمجھ لیتا ہے۔ اسپین یہاں سے محض دو گھنٹہ ہی کی مسافت پر تو ہے۔’’ اجنبی نووارد بولا ۔
‘‘آؤ بیٹھو ! کیوں نہ ہم لوگ کچھ اور مشروبپئیں۔
مجھے یہ چائے تو کڑوی لگتی ہے۔’’لڑکے نے نووارد سے کہا۔
‘‘یہ اسپین نہیں ….! اس ملک میں کسی قسم کی الکوحل یا مشروب نہیں مل سکتا، یہاں اس کی ممانعت ہے۔ ’’ نووارد نے بتایا۔
لڑکا اور نووارد آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ لڑکے نے گفتگو کے دوران نووارد سے مصر کے اہرام دیکھنے کی خواہش ظاہر کی، اور بتایا کہ وہ اسپین سے یہاں اس لیے آیا ہے کہ مصر کے اہرام گھوم سکے، لیکن وہ خزانہ کی بات کہتے کہتے رک گیا۔
اُس نے سوچا کہ کہیں یہ عرب بھی اہرام تک پہنچانے کے عوض خزانہ کا کوئی حصہ نہ مانگ بیٹھے۔ اُسے یاد آیا کہ بوڑھے نے بھی ایسے ہی موقع پر حصہ مانگا تھا۔ پھر اس نے نووارد شخص سے پوچھا کہ :
‘‘اگر تم اہرام مصر تک پہنچنے میں میری رہنمائی کرو گے تو میں تمہیں اُس کا مناسب معاوضہ ادا کروں گا۔’’
‘‘کیا تمہیں اندازہ ہے کہ اہرام تک کیسے پہنچا جاتا ہے ۔’’ نووارد نے پوچھا۔
لڑکے نے انکار کیا، اس دوران لڑکے نے محسوس کیا کہ قہوہ خانہ کا مالک اُسے بغور دیکھ رہا ہے اور اُن کے بیچ ہونے والی گفتگو کو سننے کی کوشش رہا ہے۔یہ بات لڑکے کو ناگوار لگی لیکن اُس وقت وہ اس کوشش میں تھا کہ کسی نہ کسی طرح کوئی ایسا رہنما مل جائے جو اُسے اہرام تک پہنچا دے۔ اس نووارد سے معلومات حاصل کرنے کے اس موقع کو وہ ہاتھ سے گنوانا نہیں چاہتا تھا۔
‘‘اہرام تک پہنچنے کے لیے صحارا کا پورا ریگستان پار کرنا ہو گا ’’ نووارد نے لڑکے سے کہا‘‘یہ خاصا مشکل اور دقّت طلب کام ہے اور اِس کے لئے کافی رقم درکار ہو گی۔ کیا تمہارے پاس اتنی رقم ہے؟’’






لڑکے کو یہ سوال عجیب سا لگا، لیکن اُسے بوڑھے بادشاہ کی اس بات پر اعتماد تھا۔
‘‘جب تم اپنی کسی خواہش کو مقصد بنا کر اُس کے حصول کے لئے انتہائی سنجیدہ ہو جاتے ہو تو قدرت کی طرف سے کائنات کی قوتیں تمہارا ساتھ دینے ، تمہاری مدد کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔’’
لڑکے نے اپنی جامہ بند پوٹلی نکالی اور اُس میں رکھی رقم نکال کر اجنبی کو دکھادی۔ اِس دوران قہوہ خانہ کا مالک بھی اُن کے قریب آ گیا، اُس نے بھی رقم دیکھ لی۔
نووارد اور قہوہ خانہ کے مالک کے درمیان عربی زبان میں کچھ تلخ کلامی ہونے لگی۔ دونوں ایک دوسرے کو عربی میں پتہ نہیں کیا کچھ کہہ رہے تھے، لڑکے کو ایسا لگا کہ قہوہ خانہ کا مالک کچھ پریشانی اور ناراضی کا اظہار کر رہا ہے۔
‘‘آؤ یہاں سے باہر چلیں ….قہوہ خانہ کا مالک ہمیں یہاں سے سے جانے کو کہہ رہا ہے۔’’ نووارد بولا ، لڑکے کو اطمینان ہو گیا۔
وہ چائے کی قیمت ادا کرنے کے لئے کاؤنٹر پر گیا تو قہوہ خانہ کے مالک نے اُسے بازو سے پکڑ لیا اور بڑے غصہ سے عربی میں کچھ کہنے لگا۔
قہوہ خانے کا مالک بوڑھا تھا اور لڑکا ڈیل ڈول میں اس سے زیادہ مضبوط تھا ۔ وہ چاہتا تو قہوہ خانے کے مالک کو دھکّا دے کر گرا سکتا تھا لیکن بہر حال اس نے ایسا نہیں کیا، وہ ایک اجنبی ملک میں تھا۔
لیکن اِس دوران نووارد ساتھی نے مداخلت کرتے ہوتے ہوئے قہوہ خانہ کے مالک کو دھکّا دے کر لڑکے کو باہر کی طرف کھینچ لیا اور لڑکے سے ہسپانوی میں بولا ‘‘ چلو یہاں سے مجھے لگتا ہے کہ اس قہوہ خانے کے مالک کی نظر تمہارے پیسوں پر ہے، طنجہ کیونکہ ساحلی بندرگاہ اور سیاحوں کا شہر ہے اس لیے افریقہ کے دوسرے علاقہ کی بہنسبت اس علاقے میں ٹھگ اور چور بہت ہیں۔
لڑکے کو اپنے اس نئے دوست پر بھروسہ تھا، ویسے بھی اِس نووارد ساتھی نے اجنبی دیس میں ایک خطرناک صورت حال میں اُس کی حفاظت کی تھی۔ چنانچہ اس نے جامہ بندپوٹلی سے اپنی رقم نکالی اور گننے لگا
‘‘اتنی رقم سے تو ہم لوگ اہرام مصر تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔’’ اُس نووارد نے لڑکے سے رقم اپنے ہاتھوں میں لیتےہوئےکہا۔
‘‘البتہ اِس کے لئے دو اونٹوں کی ضرورت پڑے گی۔’’
***
وہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے چلتے باتیں کرتے ہوئے طنجہ کی پتلی پتلی سڑکوں پر لگے بازار میں مختلف اشیاء کو دیکھتے ہوئے مرکزی بازار میں پہنچے۔
یہ شاید بہت بڑی منڈی تھی جہاں بہت بھیڑ تھی۔ کہیں دکاندار اپنی دکانوں کے سامان بڑھ چڑھ کر بولیاں لگانے میں مصروف تھے، دوسری جانب گاہک سامان کا تول بھاؤ کر رہے تھے، کہیں سبزیاں فروخت ہورہی تھیں تو کہیں دیواروں پر تلواریں، خنجر اور قالین لٹکے نظر آرہےتھے ، کہیں صراحیاں اور حقہ کی دکانیں تھیں، فروخت کے لئے اور بھی بہت سی اشیاء کی ریڑھی پتھارے لگے ہوئے تھے۔ لیکن اس دوران لڑکا مسلسل اپنے نووارد ساتھی پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ آخر پوری رقم بھی تو اُسی کے پاس تھی۔
اُس نے سوچا بھی کہ اپنی رقم واپس مانگ لے لیکن یہ سوچ کر کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے، واپس مانگنے کی ہمت نہیں ہوئی، کیونکہ نا صرف یہ علاقہ اُس کے لئے اجنبی تھابلکہ یہاں کے رسم و رواج اور مزاج سے بھی وہ واقف نہیں تھا۔
‘‘لیکن اُس پر نظر رکھنا بھی ضروری ہے’’ وہ لڑکا اپنے آپ سے بولا۔ ویسے بھی میں اس سے ڈیل ڈول میں مضبوط ہوں اور اُسے زیر کرنا میرے لئے مشکل نہیں۔ اگر اُس نے نیت بدلی تو میرا مقابلہ نہ کر سکے گا۔

 

ابھی وہ اسی الجھن میں تھا کہ اُس لڑکے کی نظر ایک دکان پر لٹکی ہوئی انتہائی خوبصورت تلوار پر پڑی۔ ایسی خوبصورت تلوار اس سے قبل اُس نے نہ دیکھی تھی۔ اُس تلوار کی نیام والا حصہ چاندی کا تھا اور تلوار کادستہ سیاہ رنگ کا تھا۔ دونوں پر بیش قیمت جواہرات کی باریک تہہ جڑی ہوئی تھی۔ لڑکے نے سوچا کہ مصر سے واپسی کے سفر پروہ اُسے ضرور خریدے گا۔
‘‘اس دُکان کے مالک سے ذرا عربی میں پوچھنا تو کہ اس تلوار کی قیمت کیا ہے….؟’’ تلوار پر نظر جمائے ہوئے اُس نے اپنے نووارد ساتھیسےکہا۔
لیکن جب کوئی جواب نہ ملا تو اُسے لگا جیسے اُس کا دِل بیٹھا جارہا ہو، جیسے کسی نے اُس کاسینہ بھینچ دیا ہو ا، اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اُسے احساس ہوا کہ تلوار دیکھنے میں وہ اتنا مگن تھا کہ اس دوران وہ اپنے نئے دوست سے توجہ ہٹا چکا تھا…. لیکن اب وہ فوری طور پر ادھر دیکھنے کی ہمت بھی جٹا نہیں پارہا تھا کہ آیا اُسے جس بات کا اندیشہ ہے وہ کہیں یقین میں نہ بدل جائے۔ وہ جسے دیکھنا چاہتا تھا شاید وہ وہاں موجود نہ ہو ۔
ایک لمحہ کے لئے اُس نے پھر ایک نظر تلوار پر ڈالی اور آخر ہمت کر کے نظر اُٹھا کر نو وارد ساتھی کی جانب دیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن چاروں طرف بازار ہی بازار تھا۔ اس نووارد کے علاوہ بازار میں وہی کچھ تھا جو اس نے پہلے دیکھا تھا ، لوگ آ جا رہے تھے، خریدو فروخت کرنے والوں کا شور اور ہنگامہ، اجنبی کھانوں کی خوشبو…. لیکن اُس کا وہ نیا دوست اُسے کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔
***
پہلے تو لڑکے نے خود کو سمجھانا چاہا کہ اُس کا نیا دوست محض اِتّفاق سے بازار کی بھیڑ میں بچھر گیا ہوگا ، چنانچہ اُسے کچھ دیر رک کر اُس کا انتظار کرنا چاہیے۔ وہ ایک جگہ بیٹھ کر اپنے دوست کا انتظار کرنے لگا۔ اِس دوران قریب ہی بلند بالا مینار پر چڑھے ایک شخص نے خوش کن آواز میں اذان کے ذریعہ لوگوں کو صلوٰۃ کے لیے پکارا۔ لڑکے نے دیکھا کہ بازار میں تمام لوگ ہی اپنا سب کام چھوڑ کر اکھٹا ہوگئے ۔ سب لوگ ایک ساتھ مل کر صلوٰۃ میں مصروف ہوگئے، جیسے یہ عمل اُن کے شعور کا حصہ ہو، سب کو خبر تھی کہ کیا کرنا ہے۔ کچھ دیر بعد سب لوگوں نے اپنی اپنی دکانیں بند کیں اور اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔
سورج بھی اب واپسی کے سفر پر روانہ ہو رہا تھا۔ لڑکا ٹکٹکی باندھے سورج اُس کو اُس وقت تک دیکھتا رہا جب تک وہ بازار کے ارد گرد کی بلند بالا سفید عمارتوں کے عقب میں چھپ نہ گیا۔
آج صبح جب وہ اسی سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہا تھا تو وہ ایک دوسرے برِّ اعظم میں تھا۔ وہاں وہ چرواہا تھا ، ساٹھ بھیڑوں کا مالک اور تاجر کی بیٹی سے ملنے کی امید دِل میں بسائے۔ اُسے نہ مستقبل کی فکر تھی اور نہ آنے والے وقت کے اندیشے تھے۔ اسے انہی چراگاہوں سے گزرنا ہوتا تھا جن سے وہ روز گزرتا رہتا تھا۔ کوئی نئی چیز ہونے والی نہ تھی۔
لیکن اب جب وہی سورج غروب ہونے لگا تو اس کی دنیا بدل چکی تھی۔ وہ ایک دوسرے براعظم میں ہے، اجنبی شہر ، اجنبی ماحول میں وہ خود بھی بالکل اجنبی ہے، اوپر سے زبان بھی اجنبی کہ وہ کسی سے بات کرکے اپنا مدعا بھی بیان نہیں کرسکتا۔ اب وہ نہ تو کوئی چرواہا ہے ، نہ ہی کوئی چیز اس کی ملکیت ہے۔ اُس کے پاس تواب کچھ بھی نہیں تھا۔ بے یار و مددگار اور بے سرو سامان…. اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ واپس اپنی سرزمین اندلوسیا جاکر دوبارہ کوئی کام کر سکے۔
اور یہ سب کچھ محض سورج کے طلوع اور غروب ہونے کی درمیانی مدّت میں ہو گیا۔ لڑکا غمگین تھا اور خود پر ترس کھارہا تھا ۔ وہ اس حقیقت پر نوحہ کناں تھا کہ اس کی زندگی میں اتنی تیزی سے اور اِس حد تک بڑی تبدیلی اتنے کم وقت میں کیسے آگئی ہے۔
اپنی بے چارگی اور بے کسی پر اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر روئے، لیکن اِس سے قبل وہ کبھی بھی نہ رویا تھا، تب بھی جب بھیڑیں اس کے پاس تھیں۔ لیکن اب وہ خالی بازار میں تنہا اور اکیلا کھڑا تھا اور کوئی اُسے دیکھنے والا نہ تھا۔ اُس کی آنکھیں قابو میں نہ رہ سکیں اور وہ رونے لگا۔ وہ خدا سے شکوہ کرنے لگا۔ کیا اُس خواب پر یقین کر کے اُس سے غلطی ہو ئی تھی، منفی جذبات نے لڑکے کو جیسے جکڑ لیا ۔ وہ سوچنے لگا۔
‘‘جب بھیڑیں میرے پاس تھیں تو مجھے کوئی غم نہ تھا بلکہ میں اپنے اردگرد کے دوسرے لوگوں کو بھی خوش رکھتا تھا۔ لوگ مجھے آتا دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے تھے، میرا خیر مقدم کرتے تھے۔’’ اُس نے سوچا‘‘لیکن آج خوشیاں مجھ سے روٹھ گئی ہیں، غم اور تنہائی نے مجھے آگھیرا ہے۔
اس ایک شخص نے مجھے دھوکا دے کر میری زندگی میں تلخیاں بھردی ہیں، اب میں شاید کسی انسان پر پھر کبھی اعتماد اور اعتبار نہ کر سکوں گا۔ اب مجھے اُن تمام قصوں اور اُن تمام لوگوں سے نفرت ہورہی ہے جن کے بارے میں میں نے کتابوں میں پڑھا تھا ، جو اپنی کوششوں سے خزانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے، لیکن میں اب شاید اس خزانے کو پانے کے قابل نہ رہا اور نہ ہی اس دنیا کو فتح کرنے کی اہلیت ہے۔اب میرے پاس جو کچھ بھی بچا ہے، اسی میں مجھے گزاراکرناہوگا۔ ’’
یہ سوچ کر ان لڑکے نے بیگ کھول کر یہ دیکھنا چاہا کہ اُس کے پاس اب بچا کیا ہے۔ شاید جو سینڈوچ اُس نے بحری جہاز میں کھایا تھا، اس کا کچھ حصہ بچا پڑا ہو، لیکن اس بیگ میں سوائے ایک موٹی سی کتاب، جیکٹ اور دو پتھروں کےاورکچھنہ تھا۔
پتھروں پر نظر پڑتے ہی کچھ سوچ کر اُسے اطمینان ہوا، اُس نے سوچا کہ چھ بھیڑیں دے کر اُس نے یہ دو پتھر لیے تھے۔ یہ بہت قیمتی پتھر ہوں گے تبھی تو یہ اس بوڑھے بادشاہ کے سونے کے سینہ بند زرہ میں جواہرات کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ اگر ضرورت پڑی تو ان قیمتی پتھروں کو بیچ کر وہ واپسی کا ٹکٹ تو خریدا ہی جاسکتا ہے۔
‘‘لیکن اب مجھے ہوشیار اور چوکنّا رہنا ہو گا۔ ’’ اُس نے دونوں قیمتی پتھر بیگ سے نکال کر احتیاطاً اپنی جیب میں رکھ لئے۔ اُس اجنبی نووارد شخص نے ایک بات جو سچ بتائی تھی وہ یہی تھی کہ یہ ساحلی بندرگاہ، سیاحوں کا شہر ہے اور ایسے علاقے چوروں لٹیروں سے بھی بھرے ہوتے ہیں۔
‘‘اب میری سمجھ میں آیا کہ قہوہ خانہ کا مالک اِس قدر پریشان اور غصہ میں کیوں تھا۔ وہ شاید مجھے یہی بات بتانے کی کوشش کر رہا تھا کہ مجھے اس اجنبی شخص پر ہرگز بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، لیکن میں بھی تو دُنیا کو اپنی نظر سے دیکھتا ہوں، اوروں کو اپنے جیسا سمجھتا ہوں ، ہر ایک شخص کو میں اپنی طرح سیدھا سادہ سمجھتا ہوں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ دنیا اپنے حساب سے چلتی ہے۔’’
وہ اپنی اُنگلیاں ان پتھروں پر پھیر ریا تھا اور اُن کی حرارت ، خوبصورت خدوخال اور سطح کو محسوس کررہا تھا۔ اب یہی تو اُس کا سرمایہ تھا۔ پتھر کے لمس سے اُسے سکون اور اطمینان کا احساس ہوا۔ یہ پتھر بوڑھے بادشاہ کی یاد دلارہا تھا۔
‘‘جب تم کسی چیز کو حاصل کرنے میں لگ جاتے ہو تو قدرت تمہاری مدد کی تدبیر کرنے لگتی ہے’’۔ بوڑھے نے ایک بار کہا تھا۔
لڑکا بوڑھے بادشاہ کے بیان کی سچائی پر غور کرتا رہا۔ وہ بازار میں بالکل تنہا تھا، نہ تو اب اُس کے پاس بھیڑیں تھیں جن کی نگرانی کرتے وہ رات گزار سکتا اور نہ ہی جیب میں کچھ پیسے تھے۔ لیکن یہ دونوں پتھر اِس بات کا ثبوت ضرور تھے کہ وہ ایک بادشاہ سے ملا تھا۔ ایسا بادشاہ جو اس کے ماضی کے بارے میں سب کچھ جانتا تھا۔
‘‘دیکھو ….! یہ سفید پتھر اوُریم و سیاہ پتھر تُمیّم ہے، یہ تمہیں قدرت کی نشانیاں سمجھنے میں مدد کریں گے۔’’ اُسے شالیم کے بوڑھے بادشاہ الفاظ یاد آئے۔ لڑکے نے دونوں پتھروں کو اپنی پوٹلی میں رکھ کر انہیں آزمانے کا فیصلہ کیا۔
بوڑھے بادشاہ نے بتایا تھا کہ اگر کسی الجھن میں ہو اور قدرت کا کوئی اشارہ کوئی نشانی سمجھ میں نہ آئے تو ان پتھروں کی مدد حاصل کرنا اور یہ بھی کہا تھا کہ ان پتھروں سے بالکل واضح سوال کرنا ہیں۔
چنانچہ ابھی اس کے سامنے سب سے پہلا سوال تو یہی تھا کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ اُس نے یہ جاننا چاہا کہ بوڑھے بادشاہ کی دی ہوئی دعا کا اثر اب بھی اس کے ساتھ ہے یا نہیں۔
اُس نے تھیلے میں ہاتھ ڈال کر ایک پتھر باہر نکالا۔ یہ سفید پتھر ‘‘اُوریم ’’تھا یعنی جواب ‘‘ہاں ’’ میں تھا۔
‘‘کیا مجھے خزانہ مل پائے گا۔’’ اُس نے پتھر تھیلے میں ڈالتے ہی فوراً دوسرا سوال پوچھا۔
اب لڑکے نے پتھر نکالنے کے لئے ہاتھ تھیلے میں ڈالا اور پتھر کو نکالنا چاہا تو اسے احساس ہوا کہ تھیلے میں دونوں پتھر نہیں ہیں، بلکہ پتھر تھیلے کے ایک چھوٹے سوراخ سے باہر نکل کر نیچے گِر پڑے ہیں۔ لڑکے کو اِس سے قبل اس بات کا علم بالکل نہ تھا کہ اس کے تھیلے میں کوئی سوراخ بھی ہے۔
لیکن جب اُسے وہ دونوں پتھر زمین پر پڑے نظر آئے، وہ جھکا اور دونوں پتھروں کو اُٹھا کر پھر تھیلے میں رکھنا چاہا تو اُس کے ذہن میں شالیم کے بوڑھے بادشاہ کا ایک اور فقرہ یاد آ گیا۔
اُس نے کہا تھا:‘‘ بس غیبی اشاروں کو پہچاننا سیکھو اور پھر اُن کے مطابق کام کرو۔ خدا نے راستوں کی پہچان کے لیے کائنات میں نشانیاں بکھیری ہوئی ہیں ، بس تمہیں ان نشانیوں کو دیکھ اور سمجھ کر اپنے لیے صحیح راستے کا انتخاب کرنا ہے۔’’
‘‘شاید پتھروں کا نیچے گرنا بھی ایک غیبی اشارہ ہی ہے۔’’ لڑکا یہ سوچ کر خود ہی مسکرا اُٹھا۔ اُس نے دونوں پتھروں کو اُٹھا کر تھیلے میں ڈال لیا۔ تھیلے کے سوراخ کو رفو کرکے بند کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔ پتھروں کو جب گِرنا ہوگا تو خود ہی گِر جائیں گے۔
اب اُس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی کہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے ورنہ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے مقدّر سے بھاگنے لگتا ہے اور اپنے مقصد سے بھٹک جاتا ہے۔


 


اُسے یاد آیا کہ میں نے شالیم کے بوڑھے بادشاہ سے یہ بھی تو وعدہ کیا تھا کہ ‘‘میں اپنے فیصلے اپنی عقل سے خود ہی کیا کروں گا۔’’
البتہ پتھروں کے اس تجربے سے اُسے یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ شالیم کے بوڑھے بادشاہ کی دی ہوئی دعا ابھی تک اس کے ساتھ ہے ۔
اِس احساس نے اُسے اور بھی پُراعتماد کر دیا۔
اُس نے مسکراتے ہوئے خالی پڑے ویران بازار کے چاروں طرف نظر دوڑائی ۔ اب وہ خود کو اکیلا اور رقم سے محسوس نہیں کررہا تھا ۔ انجان جگہ کی اجنبیت کا وہ احساس جو تھوڑی دیر پہلے اُسے گرفت میں لئے ہوئے تھا، اب اس کے دل میں بالکل نہیں تھا ۔
‘‘یہ جگہ نئی ضرور ہے، لیکن میری بچپن سے تمنّا بھی تو آخر یہی تھی کہ نئی نئی جگہ گھوموں، دنیا کے نئے نئے علاقے دیکھوں….
اگر میں کبھی اہرامِ مصر نہ بھی جا سکا تو کیا ہوا، میں نے ابھی تک جتنا بھی سفر کیا ہے ، دنیا کے کسی چرواہے نے آج تک نہیں کیا ہو گا….
کاش میرے چرواہے دوستوں کو اس بات کا ذرا بھی احساس ہوتا کہ اندلس کے میدانوں سے محض دو گھنٹہ کی بحری مسافت پر کیسی مختلف اور نئی دنیا آباد ہے….’’ حالانکہ اِس وقت یہ نئی دنیا محض ایک خالی ویران بازار ہے، لیکن چند لمحے پیشتر میں اسے گہما گہمی اور رونق سے بھر پور دیکھچکا ہوں۔
بازار کی رونق کے گزشتہ لمحوں کو یاد کرتے ہوئے اُسے وہ خوبصورت تلوار بھی یاد آ گئی جس کی بدولت وہ لُٹ گیا تھا۔ اس واقعہ کو وہ زندگی بھر نہیں بھول پائے گا…. اس نووارد اجنبی کا خیال آتے ہی اس کو تھوڑی تکلیف تو ہوئی اور اس کا دِل تھوڑا افسردہ بھی ہوا، لیکن پھر اُس نے سوچاکہ یہ بھی تو سچ ہے کہ اُس نے آج تک ایسی تلوار کبھی نہیں دیکھی تھی۔
پھر اس نے خود کو گزرے لمحات کے بھنور سے جھنجھوڑ کر باہر نکالا، میں نے شالیم کے بوڑھے بادشاہ سے عہد کیا تھا اور یہ مصمم ارادہ کیا تھا کہ میں اپنی عقل سے اپنے فیصلے خود کروں گا….
اب مجھے ان دو باتوں کے درمیان فیصلہ کرلینا چاہیے کہ میں خود سے کیا چاہتا ہوں،
میں اپنی آئندہ زندگی کس طرح گزاروں ؟…. کیا میں آنے والا وقت محض یہی سوچ کر افسردگی میں گزارتا رہوں کہ میں ایک چور سے لُٹا ہوا بدحال انسان ہوں یا پھر میں خود کو خزانہ کی تلاش میں نکلا ایک مہم جو مانتا رہوں۔
پھر اُس نے خوداعتمادی سے کہا۔
‘‘میں کوئی چورگزیدہ مفلوک الحال شخص نہیں بلکہ میں ایک مہم جو ہوں، خزانہ کی تلاش میں نکلا ہوا مہم جو….’’

(جاری ہے)

الکیمسٹ  حصہ 1 >>
الکیمسٹ  حصہ 2 >>
الکیمسٹ  حصہ 3 >>
الکیمسٹ  حصہ 4 >>
الکیمسٹ  حصہ 5 >>
الکیمسٹ  حصہ 6 >>


تحریر : پاؤلو کویلہو ; ترجمہ: ابن وصی 

ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ میں دسمبر 2017 تا  نومبر 2019  قسط وار شایع ہوئی




عالمی شہرت یافتہ برازیلین  ادیب  

پاؤلو کویلہو  24 اگست 1947ء تا حال  





برازیلی ناول نگار پاؤلو  کویلہو ٖPaulo Coelho،  24 اگست 1947ء کو برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں پیدا ہوئے ۔  ان کا تعلق ایک متوسط خاندان سے تھا۔ ان کے والدین انتہائی کٹر کیتھولک عیسائی تھے۔ نوعمری میں ، پاؤلو ادیب مصنف بننا چاہتے تھے اور  اسکول کے ادبی مقابلوں میں اول آتے تھے،  لیکن ان کے والدین   ان پر انجینئر یا وکیل   بننے پر زور دیتے۔ روز روز کی سختیوں اور  پابندیوں سے پاؤلو  سخت ذہنی دباؤ میں آگئے  ، نتیجتاً والدین نے انہیں نفسیاتی ہسپتال  میں داخل کروادیا۔
ایک ڈاکٹر کے مشورے پر  پاؤلو کے والدین نے  اپنے رویے میں تبدیلی کی ۔ پاؤلو کو لاء اسکول بھیجا گیا لیکن ایک سال بعد ہی پاؤلو وہاں سے بھاگ گئے اور اپنی پوری جوانی  وہ ہپی کی طرح  شمالی و جنوبی امریکہ،  میکسیکو  ،  یورپ اور دیگر ممالک میں آوارہ گردی کرتے رہے، اس دوران وہ خانہ بدوشوں میں رہے،  انہوں نے نشہ بھی کیا اور کالا جادو بھی سیکھا، مختلف اخباروں اور تھیٹر کے لیے لکھا بھی، لیکن ان کا تمام وقت  مفلسی اور تنگ دستی کے عالم میں گزرا۔
پاؤلو کوئلو کو شہرت برازیل کے گلوکاروں کے نغمات لکھنے پر ملی،  ان کے نغموں میں آزادی پسندی، سرمایہ دارانہ نظام سے نفرت  اور باغیانہ خیالات  کی بنا پر خفیہ ایجنسیوں نے انہیں گرفتار کرکے زدو کوب کیا، بہرحال  وہ جلد ہی بازیاب ہوگئے۔   پاؤلو لویلہو نے ایک آرٹسٹ  و مصورہ کرسٹینا اوٹیسیکا سے شادی اور پھر اپنے دیرینہ خواب یعنی بطور ادیب   اپنا کیرئیر شروع کیا۔ انہوں نے مختلف ناول لکھے جن میں بعض  دنیائے ادب کے بیسٹ سیلرز میں شمار ہوئے ۔  اس وقت ان کا شمار انتہائی  مقبول اور بہت دولت مند ادیبوں میں ہوتا ہے۔

   پاؤلو کویلہو  کے معروف ناول میں الکیمسٹ Alchemistکے علاوہ 11 منٹ ، بریدا Brida،   ظاہرZahir،  ڈیول ایند مس پریئمThe Devil & Miss Prym،  ففتھ ماؤنٹین، ایڈلٹیری Adultery،   الفAleph، دی اسپائی  اور ہپی مقبول ہیں۔ 




اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں