اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

گرین ما

ان دنوں گاؤں والیاں سمجھتی تھیں کہ میں سب کچھ سمجھتی ہوں۔ اب صفی کے گھر میں ہر کوئی کہتا ہے....سیما بھی، بہو بھی۔ خود صفی کہتا ہے‘‘اماں نہیں سمجھے گی اس بات کو۔’’ ٹھیک ہی تو کہتا ہے۔ ساری چیزیں ہی بدل گئیں ہیں۔ سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ پرانی باتیں تو رہی ہی نہیں۔ اماں بھلا کیسے سمجھے۔

ممتاز مفتی کے قلم سے 



یا اللہ! تو نے مجھے کتنے بھاگ لگائے ہیں۔ کتنا سوہنا گھر ہے یہ۔ کتنا سجا ہوا ہے۔ ایسا ایسا سامان لگا ہے۔ کیسے کیسے باغیچے ہیں۔ صوفے کرسیاں ہیں۔ کیسی کیسی سجاوٹیں لگی ہوئی ہیں۔ دیواریں روغن سے لشک رہی ہیں۔
ہاتھ لگانے سے میلا ہوتا ہے، یہ گھر۔ نہ میں تو ہاتھ نہیں لگاتی ، میں تو کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگاتی۔ میں کیوں چیزوں کو میلا کروں، خواہ مخواہ۔ بس چیزوں کو دیکھتی، سامان کو دیکھتی ہوں۔ اللہ کی شان ہے! کل ٹمی کہہ رہا تھا:‘‘گرینی، اس ٹیپ رکاٹ کو ہاتھ نہ لگانا۔ نہ نہ۔ جو ہاتھ لگاؤ تو یہ خراب ہوجاتا ہے۔ سمجھی گرین ما؟’’ 
وہ مجھے سمجھاتا رہتا ہے۔‘‘گرینی یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا، یوں کرو تو یوں ہوجاتا ہے۔ ووں کرو تو ووں ہوجاتا ہے۔’’ وہ سارا دن ٹیپ رکاٹ سے کھیلتا رہتا ہے۔ اسے پتا ہے ناں۔ اسے سب چیزوں کا پتا ہے۔ یہ بٹن دباؤ تو ٹیپ رکارڈ بولتا ہے، یہ دباؤ تو چپ ہوجاتا ہے اور مجھے تو کچھ بھی پتہ نہیں میں کیوں لگاؤں ہاتھ....؟
پھر اسمی کہا کرتی تھی:‘‘گرین ما، تیرے ہاتھ کیسے ہیں، جیسے ہڈیوں پر ڈھیلا غلاف چڑھا ہو۔’’
....ہاں.... اب تو ہڈیاں رہ گئی ہیں۔ ہڈیاں اور میلی میلی جھریاں۔ اتنے میلے ہیں میرے ہاتھ کہ میں انہیں چھپائے پھرتی ہوں، پتا نہیں اتنے میلے کیوں لگتے ہیں۔ اللہ کے حکم سے پانچ دفعہ دھوتی ہوں۔ پاک کرتی ہوں پاک تو ہوجاتے ہیں پر رہتے میلے ہی ہیں۔
اسمی کہتی ہے:‘‘گرینی، کسی کھانے والی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا کرتے، ہاں! گلاس نیچے سے اٹھاتے ہیں، اوپر سے نہیں، چینی چمچ سے ڈالتے ہیں، انگلیوں سے نہیں سمجھی گرینی؟’’
اس روز جب میں کچن میں پیڑھی پر بیٹھی روٹی کھا رہی تھی تو  اسمی کتنی ناراض ہوئی تھی۔‘‘ہائے! گرینی۔ روٹی پر سالن؟ ایسا نہیں کیا کرتے۔ روٹی پر سالن نہیں ڈالا کرتے۔ سالن پلیٹ میں ڈالو۔ روٹی دوسری پلیٹ میں رکھو۔ ڈائنگ میز پر بیٹھو پھر کھاؤ۔ ہاں۔’’
اب میں کیا کروں؟ روٹی پر سالن ڈالنے کی پرانی عادت جو ہوئی اور پھر میز پر بیٹھ کر کھانے کی میری عادت نہیں نا۔ مجھے اوپر اوپر لگتا ہے۔ نہ، میں نہیں میز پر بیٹھتی۔ جبھی تو چوری چوری روٹی کھاتی ہوں، کچن میں بیٹھ کر کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ پھر کبھی کبھی پکڑی جاتی ہوں نا۔ پھر بچے مجھ سے لڑتے ہیں‘‘گرینی، تو چور ہے کیا؟ پھر چھپ چھپ کر کیوں کھاتی ہے روٹی؟’’ 
لو، میں کیا چور ہوں۔ یہ میرے بیٹے کا گھر ہے۔ میرا پیٹ جایا، میرا اپنا صفی، میرے جگر کا ٹکڑا۔
پھر وہ بڑی لڑکی ہے سیما، یوں توری کی طرح نکلی ہے کہ حد نہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے جوان ہوگئی ہے۔ بوٹا سا قد، اور ایسی چھب کہ دیکھتے ہی رہ جاؤ۔ یوں پتلی پتنگ اونچی لمبی جیسے تر ہو تر۔ ٹپ ٹپ چلتی ہے جیسے میم ہو میم۔ بس منہ پر ماس (گوشت)نہیں آیا۔ 
پتا نہیں آج کل منہ پر ماس کیوں نہیں آتا!
پہلے کے بچوں کے منہ کی طرف دیکھتے تھے تو گال بھرے بھرے ہوتے اور پھر لال جیسے سیب ہوں۔ آج کل تو گال پچکے ہوتے ہیں اور اللہ ماری زردی ہی زردی، جیسے منہ پر سرسوں کا کھیت اُگا ہو۔
اونہوں!....بیٹھے نہیں سیما کو تو چلتے دیکھو، یوں لگے ہے جیسے ناچ رہی ہو۔ میرا تو جی خوش ہوجاتا ہے دیکھ کر۔ اتنی جان ہے اس میں کہ کوئی حد نہیں، جیسے بجلی بھری ہوئی ہو۔ اللہ عمر دراز کرے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ بیٹھ کر اس سے باتاں کروں، پر وہ بیٹھے بھی۔ جو بیٹھ بھی جائے ٹانگ چلتی رہتی ہے۔ ٹانگ نہیں تو پاؤں ہی چلتا ہے۔ یوں جیسے انڈا پھینٹتے ہوئے چمچ چلتا ہے۔
چلو، اگر سیما بیٹھ بھی جائےتو میں بات کیسے کروں....؟ کوئی بات بھی کروں تو پتا ہے کیا کہتی ہے...؟ 
کہتی ہے:
‘‘گرین ما، آپ سمجھتی نہیں۔’’ 
چاہے موسم کی بات کروں، گاڑی کی بات کروں یا مکھن کی، یہی کہتی ہے:
‘‘گرین ما، آپ نہیں سمجھتی۔’’ 
پھر بے چاری مجھے سمجھاتی رہتی ہے۔ مجھے نہیں آتی سمجھ۔ آج کل کوئی بات بھی سیدھی نہیں ہوتی۔  ہر بات میں بل....ہر بات کنڈلی.مارے بیٹھی ہے.... میری سمجھ میں کیسے آئے بھلا!
ایک وہ زمانہ تھا جب میں سب کچھ سمجھتی تھی۔ گاؤں میں کوئی بات بھی ہوتی، عورتیں کہتیں:
‘‘ہائے ! اب کیا کریں؟ پتا نہیں یہ بات کیسے کی جاتی ہے....؟ مناسب کیا ہے....؟
پھر کوئی نہ کوئی بول اٹھتی:‘‘چلو، ماسی مہراں سے پوچھ لیں۔’’پھر وہ سب میرے گھر آجاتیں۔ 
کہتیں:
‘‘ماسی! یہ بتا کہ یہ بات کیسے کی جاتی ہے؟ مثلاً منگنی کے لیے سوالی بن کر جانا ہوتو ساتھ کس کس کو لے جائیں یا جب پنچایت لگے تو گڑ کا شربت پلائیں یا دودھ....؟’’
ان دنوں گاؤں والیاں سمجھتی تھیں کہ میں سب کچھ سمجھتی ہوں۔ اب صفی کے گھر میں ہر کوئی کہتا ہے....سیما بھی، بہو بھی۔ خود صفی کہتا ہے‘‘اماں نہیں سمجھے گی اس بات کو۔’’
ٹھیک ہی تو کہتا ہے۔ ساری چیزیں ہی بدل گئیں ہیں۔ سبھی کچھ بدل گیا ہے۔ پرانی باتیں تو رہی ہی نہیں۔ 
اماں بھلا کیسے سمجھے۔
کل سیما کہہ رہی تھی:‘‘گرین ما، ڈور بیل بجا کرے تو آپ نہ جایا کریں دروازے پر وزیٹر گھبرا جاتے ہیں دیکھ کر۔ اس میں ہماری بد نامی ہے گرین ما! آپ سمجھتی کیوں نہیں؟ یہ تو نوکر کا کام ہے وہ خود جائے گا۔’’
وہ تو مجھے پتا ہے کہ یہ نوکر کاکام  ہے پر کسی وقت وہ ہانڈی بھون رہا ہوتا ہے بیچارہ، دروازے پر کیسے جائے گا....؟ پھر میں اسے کہتی ہوں:‘‘رشیدے پتر! تو کام کر میں دیکھ لیتی ہوں کہ دروازے پر کون ہے۔’’
چلی تو جاتی ہوں میں دیکھنے، پر سیما کہتی سچ ہے، مہمان مجھے دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں۔
پھر سیما یہ بھی تو کہتی ہے....کہتی ہے:‘‘گرین ما! نوکروں کے ساتھ اس طرح نہیں بولا کرتے۔ رشیدا تو نوکر ہے، پتر نہیں!....گرین ما، آپ کیوں نہیں سمجھتیں؟ اس طرح نوکر بگڑ جاتے ہیں۔’’
شاید سچ کہتی ہو سیما۔ پر بات میری سمجھ میں نہیں آتی۔ لو بھلا، کسی کو پتر کہنے سے وہ بگڑ جاتا ہے کیا....؟
گاؤں میں تو میں سب کو پتر کہا کرتی تھی۔ کوئی نہ بگڑا تھا۔ الٹا سارے ہی جی جی کرتے پھرتے تھے۔ پر وہ گاؤں تھا نا۔ یہ شہر ہوا۔ گاؤں کی بات اور ہوتی ہے، شہر کی اور ہوتی ہے۔ مجھے کیا پتا شہر کی بات کیا ہوتی ہے۔ ضرور سیما سچ کہتی ہوگی۔ اسے کیا پڑی کہ جھوٹ بولے۔ 
سیما نہیں، بہو خود کہتی ہے:
‘‘اماں جی، آپ نوکروں کے ساتھ گھل مل کر نہ بیٹھا کریں۔’’ میں گھل مل کر تو نہیں بیٹھتی۔ ویسے کبھی ویہڑے میں اکیلی پڑی پڑی گھبراجاتی ہوں تو باورچی خانے میں جاتی ہوں۔ باورچی خانے جاؤں تو وہاں رشیدا ہوتا ہے، پھر بات تو کرنی ہی پڑتی ہے، کوئی نہ کوئی....اب یہ تو نہیں ہوتا ناں کہ منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھ رہو۔
رشیدا بیچارہ بڑا ہی اچھا ہے، میری بڑی عزت کرتا ہے۔ پہلے پہل مجھے بڑی بیگم صاحب کہا کرتا تھا۔ لو، میں بیگم ہوں کیا....؟ خواہ مخواہ! بیگم تو ہوتی ہے جو بیگم ہوتی ہے میں بھلا کدھرسے بیگم ہوئی....؟ بہو ہوئی نا بیگم۔ چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، بولنا سب بیگم کا سا ہے۔ 
جب وہ آواز دیتی ہے:‘‘رشید!’’
تو آواز ہی سے پتا چلتا ہے کہ بیگم بول رہی ہے۔ کہتی ہے:‘‘رشید لنچ پر شامی بنالو، ساتھ دال اور کریلے گوشت اور ڈنر پر چکن ہو، چاول ہوں، کوئی سا میٹھا اور ہاں دیکھو، کریلے پہلے اُبال لینا، کسیلے نہ ہوں۔’’
‘‘بہت اچھا بیگم صاحبہ!’’وہ بولتا پھر بیگم رکتی نہیں۔ یہ جا وہ جا۔ رشیدے سے زیادہ بات نہیں کرتی۔ کام بتایا اور گئی، جیسے بیگم کو کرنا چاہیے۔
اے، روز تو دیکھتی ہوں بیگمیں۔ بنی سجی ہوئی آتی ہیں، منہ گول گول کر کے بولتی ہیں۔ بولتی اردو ہیں، پر یوں لگتا ہے جیسے انگریجی بول رہی ہوں۔ تو میں نے کہا:‘‘رشیدے پتر! مجھے بیگم نہ کہا کر۔ میں کدھرسےبیگم ہوں بھلا....؟’’
‘‘تو پھر کیا کہوں، بڑی بیگم صاحبہ!’’اس نے پوچھا۔
میں نے کہا:‘‘تو مجھے بی بی کہہ لیا کر۔’’
اب وہ مجھے بڑی بی بی کہتا ہے۔  بڑا اچھا ہے بیچارہ!میری ساری باتیں سنتا ہے۔ کبھی یہ نہیں کہتا کہ آپ نہیں سمجھتیں، بڑی بی بی....!
وہ سمجھتا ہے کہ میں سب سمجھتی ہوں۔ اس کے ساتھ باتیں کرتی ہوں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے میں پھر سے گاؤں آگئی ہوں۔
اس نے کبھی نہیں کہا کہ بڑی بی بی سالن روٹی پر نہ ڈالیں۔ کبھی نہیں کہا کہ بی بی!روٹی پلیٹ پر رکھ لیں یا پیڑھی نہ بیٹھیں، میز پر بیٹھیں۔ اس نے مجھے کبھی نہیں کہا کہ بڑی بی بی!آپ کچن میں نہ بیٹھا کریں۔
حالانکہ بیگم نے کئی بار رشیدے سے کہا ہے:‘‘رشیدے!بڑی بیگم صاحبہ کو اپنے پاس نہیں بٹھایا کر، بری بات ہے۔’’
 پر اس نے مجھے کبھی نہیں جتایا۔ وہ تو میں نے آپ بیگم کو کہتے ہوئے سن لیا تھا، اس لیے مجھے پتا ہے۔
میں تو کبھی باورچی خانے نہ جاؤں۔ میں بھلا رشیدے کو بیگم کی نظروں میں کیوں برا بناؤں؟ پر کیا کروں، کسی وقت جی چاہتا ہے کہ کسی سے بات کروں، کسی کے پاس بیٹھوں، پر کس کے پاس بیٹھوں؟ سارے ہی اپنے اپنے کمرے میں بند رہتےہیں۔ پتا نہیں یہ آج کل کے لوگ کمروں میں بند کیوں رہتے ہیں؟ 
مل کر ایک جگہ بیٹھتے ہی نہیں۔
میں تو سارا دن پچھلے ویہڑے پر منجی پر پڑی رہتی ہوں۔ پڑے پڑے تھک جاتی ہوں تو رشیدے کے پاس جا بیٹھتی ہوں۔ کیا کروں....؟
سارے گھر میں تین بیڈ روم ہیں ناں، ایک میں صفی اور بیگم سوتے ہیں۔ دوسرے میں ٹمی اور اسمی اور تیسرے میں اکیلی سیما۔
جب میں نئی نئی آئی تھی تو صفی نے کہا تھا:‘‘اماں کا پلنگ سیما کے کمرے میں لگا دو۔’’
دو دن تو میں سیما کے ساتھ سوتی رہی، پھر تیسرے دن بڑی دیر تک صفی، بیگم اور سیما ایک کمرے میں بیٹھے باتاں کرتے رہے۔ پھر صفی آیا اور کہنے لگا:
‘‘بھئی اماں تو اس کمرے میں گھٹی گھٹی سی رہتی ہے۔ اس کی عادت تو کھلی جگہ میں رہنے کی ہے۔ بھئی، اس کی چارپائی تو رسیپشن میں لگا دو....کیوں اماں؟’’
لو، میں بھلا کیا کہتی۔ ٹھیک ہی تو کہہ رہا تھا صفی!مجھے تو کھلی جگہ میں رہنا پسند ہے۔
تو انہوں نے میری منجی رسیپشن میں لگادی۔ اے، وہی جو دالان سا ہے، کمروں سے باہر۔
دوسرے ہی دن بیگم نے کہا:‘‘رشیدے!جب بڑی بیگم صبح اٹھ کر نماز پڑھیں نا، تو تم ان کی منجی اٹھا دیا کرو اور جب رات کو یہ عشاء کی نماز پڑھ لیا کریں تو بچھا دیا کرو۔’’
ہاں بھئی ٹھیک ہی تو ہے، سارا دن منجی رسیپشن میں بچھی رہے تو اچھی نہیں لگتی نا۔ اور میرا کیا ہے، میں سارا دن پچھلے ویہڑے میں ہتھ پکھی لے کر پڑی رہتی ہوں۔ کھلی جگہ ہے، بڑی سوہنی ہوا آتی رہتی ہے اور جو اکیلی پڑی گھبرائی تو رشیدے کے پاس جا بیٹھی۔ ٹمی، اسمی کے پاس جا بیٹھتی  دن گزر ہی جاتا ہے۔
شکر ہے اللہ کا بڑا سوہنا وقت گزرتا ہے۔ اے، اتنا بھرا بھرا گھر ہے۔ اللہ رکھے پوتے ہیں، پوتیاں ہیں، بہو ہے، بیٹا ہے۔ اور پھر گھر اتنا سوہنا ہے، اتنا صاف ستھرا کہ ہاتھ لگاؤ تو میلا ہوجائے۔ مجھے اور کیا چاہیے۔ اللہ نے اتنے بھاگ لگائے ہیں مجھے۔ اللہ رکھے میرا پتر صاب بنا ہوا ہے، صاب!سبھی صاب کہہ کر بلاتے ہیں۔ اللہ نے اتنا مرتبہ دے رکھا ہے۔ اللہ اس سے بڑا مرتبہ دے۔
اور پھر وہ میرا اتنا خیال رکھتا ہے کہ  ہر دوسرے تیسرے دن خود آتا ہے میرے پاس!....کہتا ہے:
‘‘اماں کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دے۔ تجھے کوئی تکلیف تو نہیں اماں....؟’’
اتنا خیال رکھتا ہے میرا پتر۔ میں کتنی خوش نصیب ہوں۔ اس سے زیادہ خوش نصیبی کیا ہوگی بھلا۔ اللہ نے اتنے بھاگ لگائے ہیں مجھے، پھر میں کیوں نہ خوش ہوؤں؟
میں کوئی ناشکری ہوں کہ....نہیں نہیں میں بہت خوش ہوں۔ بہت خوش۔





اردو ادب کے  ممتاز ادیب،  اور افسانہ نگار 

ممتاز مفتی ۔1905ء تا  1995ء 



ممتاز مفتی کا اصل نام مفتی ممتاز حسین تھا۔ ممتاز مفتی 11 ستمبر 1905ء بمقام بٹالہ (ضلع گورداسپور) بھارتی پنجاب میں مفتی محمد حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امرتسر ، میانوالی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں پائی۔ میٹر ک ڈیرہ غازی خان سے اور ایف اے امرتسر سے اور بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ 
بی اے کے بعد سنٹرل ٹیچرز ٹریننگ کالج سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم پنجاب کے سینئر انگلش ٹیچر کے طور تعیناتی ہوئی۔ وہیں  لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔  کچھ عرصے بطور اسکرپٹ رائٹر آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ منسلک ہوئے۔  قیام پاکستان کے بعد لاہور آئے اور  پھر راولپنڈی میں بطور  ڈائریکٹر وزارتِ اطلاعات    اپنی خدمات انجام دیں۔   ان کا پہلا افسانہ ‘‘جھکی جھکی آنکھیں’’ ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوا اور اس طرح وہ مفتی ممتاز حسین سے ممتاز مفتی بن گئے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں ان کہی، گہماگہمی، چپ، گڑیاگھر، روغنی پتلے، اور سمے کا بندھن شامل ہیں۔ علی پور کا ایلی اور الکھ نگری سوانحی ناول میں شمار ہو تے ہیں۔ جبکہ ہند یاترا،  لبیک جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے اور خاکہ نگاری میں اوکھے لوگ، پیاز کے چھلکے اور تلاش جیسی کتابوں کے خالق ہیں۔ممتاز مفتی کی تحریریں زیادہ تر معاشرے میں موجود کئی پہلوؤں اور برائیوں کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ 27 اکتوبر 1995ء کو 91 برس کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پا گئے۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں