اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

رشتے ناتے

اردو کے ممتاز ادیب اور افسانہ نگار   ممتاز مفتی کی ایک خوبصورت کہانی، بطورِ خاص....




جوں جوں عینی اور آن جوان ہوتی جارہی تھیں، توں توں ان کی والدہ صدیقہ بیگم کا دل فکر میں ڈوبا جارہا تھا۔ جوں جوں صدیقہ بیگم کا دل فکر میں ڈوبا جارہا تھا۔ توں توں ان کو اپنے میاں منور علی سے شکایت بڑھتی جارہی تھی کہ انہیں احساس ہی نہ تھا کہ لڑکیاں جوان ہوگئی ہیں اور وہ بیٹیوں کے رشتے کے لیے کچھ نہیں کر رہے تھے۔
جوں جوں صدیقہ بیگم کا غم و غصہ بڑھتا جارہا تھا توں توں گھر کی فضا مکدر ہوتی جارہی تھی۔ انہیں احساس ہوتا بھی تو بات سمجھ میں نہ آتی۔ کیسے سمجھ میں آتی بھلا جوانی کو فکر و اندیشے یا غم و غصے سے کیا تعلق۔ الٹا جوانی تو بے فکری کا عالم ہوتی ہے۔
سچ پوچھو تو انہیں پتا ہی نہ تھا کہ وہ جوان ہوگئی ہیں۔ کیسےپتا ہوتا۔ ان کی جوانی ماڈرن جوانی تو تھی نہیں جو انسٹنٹ ہوتی ہے، منہ زور ہوتی ہے۔ ایک دم آجاتی ہے۔ چھا جاتی ہے۔ ان کی جوانی تو اولڈ فیشن جوانی تھی، جو سہج سہج پکتی ہے۔
سیانے کہا کرتے تھے سہج پکے سو میٹھاہو۔ سچ کہتے تھے لیکن سیانوں کو پتا نہیں تھا کہ ایک ایسا دور آنے والا ہے، جب مٹھاس ناقابل قبول ہوجائے گی، لوگ تلخی کی آرزو کریں گے۔ کھانوں میں تلخی، مشروبات میں تلخی، مزاجوں میں تلخی، محبوباؤں میں تلخی۔ عینی اور آن دونوں ہی مٹھاس سے بھری تھیں۔ خدوخال میں مٹھاس، نگاہوں میں مٹھاس، دونوں کی شخصیتوں سے مٹھاس کے چھینٹے اڑتے تھے۔
اگر انداز میں خالی مٹھاس ہوتی، تو بھی گزارہ ہوجاتا، لیکن ان میں حیا دامن گیر تھی۔ کسی کی بے تکلف نگاہ پڑجاتی تو چھوئی موئی سمٹ جاتیں، نگاہیں جھک جاتیں۔ گالوں پر سرخی کی لہر دوڑ جاتی۔ انہیں پتا نہیں تھا کہ جھکی جھکی آنکھوں کا دور گزر چکا ہے۔ اب تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی پڑتی ہے۔
پرانے زمانے میں دوسرے کو ملغوب کرنے کے لیے حیا بہت بڑا نسوانی ہتھیار تھی۔ سیانے کہا کرتے تھے کہ بے حیائی کی نسبت حیا زیادہ مہلک ہتھیار ہے۔ حملہ آور کو روکنے کے بجائے وہ اسے دعوت دیتا ہے۔ لیکن یہ تو پرانی بات تھی۔ اب تو حیا کو جھینپ کہتے تھے، اور جو جھینپ جاتی تھی اسے گنوار سمجھا جاتا تھا۔ اب تو حالات بالکل الٹ چکے تھے۔ مٹھاس کی جگہ اسٹی مولیٹ کرنے والی  تلخی آگئی تھی اور حیا کی جگہ نمائش۔ اسی وجہ سے عینی اور آن کی شخصیتوں میں توجہ طلبی کا عنصر پیدا نہیں ہوا تھا۔
ایک بدقسمتی یہ بھی تھی کہ وہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم تھیں جسے ‘‘کزن’’ کہتے ہیں۔ ان کا کوئی رشتہ.دار نہ تھا ۔تقسیم کے وقت ان کے دادا بڑی مشکل سے اپنی بیوی اور بچے کی جانیں بچا کر پاکستان پہنچے تھے، جو بچے تھے وہ بکھر گئےتھے۔ کسی کو دوسرے کے پتے کا علم نہ رہا تھا۔
پرانے زمانے میں رشتوں کی آسانیاں کزن کے رحم وکرم سے ہوتی تھیں۔ کزن، بیٹیوں کی ماؤں کے لیے نعمت غیر مترقبہ تھے۔ لیکن کزن تو جائنٹ فیملی کی پیداوار ہوتے ہیں۔ جائنٹ کی بات چھوڑیے دورِ حاضر میں تو فیملی ہی ٹوٹ رہی ہے۔
پرانے لوگ کتنے سیانے تھے، انہوں نے یہ بھید پالیا تھا کہ اگر جائنٹ نہ ہوئی، تو فیملی ہی نہیں ہوگی۔ اس کا وجود خطرے میں پڑ جائے گا اور ‘‘کسے راہا کسے کارے نہ باشد’’ کا دور آجائے گا۔
پھر ایک غیر متوقع واقعہ عمل میں آیا....!
دو سال کے لیے منور علی کی ڈیوٹی اسلام آباد میں لگ گئی۔
اس پر گھر والے ہکا بکا رہ گئے۔ یہ خبر حیران کن تھی مگر ساتھ ہی خوشگوار بھی۔
اسلام آباد کو دیکھ کر ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ باچھیں کھل گئیں۔ اتناخوبصورت شہر، روشنیوں کا شہر، پھولوں کا شہر، بنگلوں کا شہر۔ اسلام آباد آنے پر سبھی خوش تھے۔
منور علی اس لیے خوش تھے کہ ان کی ترقی کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ لڑکیاں اس لیے خوش تھیں کہ وہ نئے شہر میں آئی تھیں۔ صدیقہ سمجھتی تھیں کہ اسلام آباد میں لڑکیوں کے رشتے ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
پہلے چند روز تو خوشی کے عالم میں گزر گئے، پھر آہستہ آہستہ ان پر منکشف ہوا کہ اسلام آباد میں نہ تو اسلام کا رنگ ہے نہ پاکستان کا۔ سارے شہر میں ایک بھی پاکستانی گھر نہیں تھا۔
پاکستانی گھر کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ فطرت گھر کے اندر آتی ہے۔ آسمان نظر آئے تو ایسا لگتا ہے کہ آسمان والا دیکھ رہا ہے، سن رہا ہے۔ قریب ہی ہے دور نہیں۔  حوصلہ سا ہوجاتا ہے۔
گھر میں بیٹھے بیٹھے ادلتے بدلتے موسم نظر آتے ہیں۔ اگرچہ دیہات کی طرح سامنے کھیت نہیں ہوتے، پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ موسم ادلنے بدلنے والا کوئی ہے۔ پاکستانی گھر میں اللہ بہت قریب آجاتا ہے، اسلام آباد کے بند، روغنی بنگلوں میں لوگ اللہ سے بہت دور ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنا موسم خود بناتے ہیں۔ ایک بٹن دباتے ہیں، تو ٹھنڈی ہوا چلنے لگتی ہے دوسرا دباتے ہیں ، تو ہوا گرم ہوجاتی ہے۔ شاور کھولتے ہیں تو بارش ہونے لگتی ہے۔ اس لیے احساس نہ رہا تھا کہ موسم بدلنے والا کوئی اور ہے۔
اسلام آباد میں سب ہی کچھ تھا، چاروں طرف تخلیق ہی تخلیق پھیلی ہوئی تھی۔ تخلیق کار تو تھا مگر اس کی موجودگی کا احساس نہ تھا۔ جہاں یہ احساس نہ ہو، وہاں انسان، خدا بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں میں، میں ، میں، کا جنگل پھیل جاتا ہے۔
کچھ دنوں کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام آباد میں آکر بڑے افسر بننے کے بجائے وہ بالکل ہی چھوٹے بن کر رہ گئے ہیں، اتنے چھوٹے کہ کوئی انہیں قابل التفات نہیں سمجھتا۔
اسلام آباد تو اسٹیٹس کا شہر ہے اور اسٹیٹس کا نظام تو منوجی کے ذات پات کے نظام سے زیادہ کڑا ہے، مہلک ہے۔
اس بارے میں جان کر صدیقہ بیگم نے لڑکیوں کے رشتوں کے بارے میں جو امیدوں کا محل بنایا ہوا تھا، وہ دھڑام سے گر گیا۔
انہیں دنوں ساتھ والے بنگلے کی میڈ زبیدہ کی صدیقہ سے ملاقات ہوگئی ۔صدیقہ نے بر سبیل تذکرہ رشتوں کی بات چھیڑ دی۔ زبیدہ نے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ‘‘بیگم آپ کس خیال میں بیٹھی ہیں۔ نہ بی بی! یہاں گریڈ پوچھتے ہیں۔ تنخواہ نہیں۔ اوپر کی آمدنی گنتے ہیں۔ پلاٹ دیکھتے ہیں، گاڑیاں گنتے ہیں۔ میل کرانے والی ایک ہے تو سہی اسے میڈم کہتے ہیں، لیکن وہ بیس سے کم گریڈ والے کا کیس نہیں لیتی۔’’
پھر زبیدہ ان کے گھر آنے جانے لگی۔ دونوں بیٹھ کر لڑکیوں کے رشتوں کی باتیں کرتیں۔ زبیدہ طبیعت کی بڑی ہنس مکھ تھی، بے تکلف بات کرتی تھی۔
اونچی آواز میں، اس نے بھی نہ سوچا تھا کہ لڑکیاں سن رہی ہیں، اس لیے سرگوشی میں بات کرے، الٹا وہ تو چاہتی تھی کہ لڑکیا ں سنیں۔
وہ صدیقہ سے کہا کرتی ‘‘بی بی ایک ہی طریقہ ہے کہ لڑکیاں از خود کچھ ہمت کریں۔’’
اس پر صدیقہ حیرت سے ہونٹوں پر انگلی رکھ لیتی۔ ‘‘ہئے یہ کیا کہا تو نے زبیدہ ....! لا حول ولا....!’’
زبیدہ قہقہہ لگا کر جواب دیتی ‘‘بی بی اب لا حول چھوڑ لاحول چھوڑے بغیر یہ کام راس نہ آئے گا۔ اللہ رکھے تیری بیٹیاں خوش شکل ہیں۔ منہ چت لگتی ہیں۔ بس یہی ہے نا کہ انگلش میڈیم نہیں ہیں۔ نہیں ہیں تو پھر کیا ہوا....؟ بی بی تو انہیں پھول پتیاں لگا، بال کٹوا، چین پہننی سکھا، بھنووں کی کمان ہو، آنکھوں میں سرمے کی دھار، ہیلو ہائی ہیلو ہائی کرتی پھریں، تو چار دن میں بوائے فرینڈ پیچھے لگا ہوگا۔ آزما دیکھو بی بی....!’’
آزمائے بغیر ہی، پھول پتیاں لگائے بغیر ہی، آن کے پیچھے ایک بوائے فرینڈ لگ گیا تھا۔ پتا نہیں اسے ان کی کون سی ادا پسند آگئی تھی کہ گرل فرینڈ بنانے کے سارے اصول قانون ٹوٹ گئے تھے۔
ایک روز جب وہ کالج کے باہر کالج بس کا انتظار کر رہی تھیں، تو ایک اتنی لمبی کالی کار آن کے قریب سے زوں کرکے نکل گئی۔ ابھی وہ دونوں سنبھلنے نہ پائیں تھیں کہ وہی کار زوں کرکے بیک مار رہی تھی۔ ان کے قریب آکر وہ رک گئی، ایک البیلا نوجوان باہر نکلا، آن کے روبرو کھڑا ہو کر بولا ‘‘کم ہیو اے لفٹ’’ آن نے منہ موڑ لیا۔
اگلے روز وہ عینی سے پوچھ رہا تھا ‘‘ہائی ڈارلنگ واٹ از آن۔ از اٹ....؟ ہائی گاڈ واٹ اے نیم۔’’ عینی مسکرا کر آگے بڑھ گئی۔
پھر چار ایک دن وہ کالج بس کے ساتھ ساتھ آن والی کھڑکی تلے گاڑی چلاتا رہا۔ جب وہ بس سے اترتی تو اسے ٹاٹا کرکے چلا جاتا۔
آن، عینی سے دو سال بڑی تھی لیکن دونوں بہنیں ایک دوسرے پر جان چھڑکتی تھیں۔ وہ آپس میں اس قدر بے تکلف تھیں، جیسے بالکل ہم عمر ہوں، ایک روز آن کہنے لگی‘‘عینی یہ تو لسوڑی کی لیس ہوگیا ہے۔’’
’’پھر کیا ہوا باجی’’ عینی نے جواب دیا۔
آن بولی‘‘مجھ سے کہہ رہا تھا چلو ایک کپ کافی کا ہوجائے۔’’
‘‘کیا حرج ہے باجی’’ عینی بولی ‘‘ہوجائے اس سے کیا ہوتا ہے۔’’ عینی، زبیدہ کی باتیں سن سن کر سیانی ہوگئی تھی۔ پھر ایک روز تو اس لڑکے نے حدود توڑ دی۔ جب آن بس میں بیٹھنے لگی تو اپنی گاڑی لاک کرکے وہ بھی اس کے پیچھے پیچھے بس میں سوار ہوگیا اور آن کے ساتھ بیٹھ گیا، کہنے لگا ‘‘آن تو کیا چیز ہے ، تو بولتی کیوں نہیں۔کیا ‘‘ڈف ڈمپ ہے....؟’’ وہ بولے جارہا تھا۔
آن کا دل دھک دھک کر رہا تھا، بس میں بیٹھی ہوئی لڑکیاں حسرت بھری نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ رہی تھیں۔
اگلے دن سارے کالج میں اس بات کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ لڑکیاں زیرِ باتیں کر رہی تھیں۔ پتا نہیں آن میں وہ کون سی بات ہے کہ جہانگیر اس کے پیچھے پاگل ہورہا ہے۔
لڑکیوں کی زیر لبی باتیں سن کر آن کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ عینی اسے سمجھا رہی تھی ‘‘باجی آپ گھبرائی ہوئی کیوں ہیں  کیا ہوا، اگر وہ بس میں آپ کے پاس بیٹھ گیا تو کیا ہوا، اگر اس نے آپ سے دو باتیں کرلیں تو۔’’
پھر ایک روز آن اپنے کمرے میں بیٹھی اسٹڈی ٹیبل پر نوٹس لکھ رہی تھی۔ اس نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ سامنے بنگلے کے بیک یارڈ میں کرسی پر بیٹھا اسے ٹاٹا کر رہا ہے۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ سیدھی عینی کے پاس گئی، اس سے شکایت کی ‘‘عینی وہ تو یہاں آپہنچا ہے سامنے بنگلے کے بیک.یارڈ میں آؤ میں تمہیں دکھاؤں، وہ سامنے۔ آیا نظر، ہئے اب میں کیا کروں....؟’’
عینی بولی ‘‘باجی آپ کھڑکی میں نہ بیٹھیں اپنی میز کسی اور جگہ لگالیں۔’’
اپنی اسٹڈی ٹیبل کو کھڑکی سے ہٹا نا آن کو منظور نہ تھا چونکہ پڑھتے پڑھتے جب وہ بور ہوجاتی تھی، تو سر اٹھا کر کھڑکی سے باہر کا منظر سیکھنے لگتی۔ باہر کا منظر اس قدر خوبصورت تھا کہ اس کی ساری بوریت ختم ہوجاتی تھی۔
جہانگیر اکثر سامنے بنگلے کے بیک یارڈ میں آبیٹھتا۔ بلکہ کبھی کبھی اس کی کھڑکی کی پرانغلی سے ٹک ٹک شیشہ بجاتا، اس پر وہ گھبراجاتی۔
عام طور سے تو ان ہاتھوں پر اسے خوشی محسوس کرنی چاہیے تھی۔ لیکن اس نے سن رکھا تھا کہ اسلام آباد میں محبوبائیں نہیں ہوتیں، گرل فرینڈز ہوتی ہیں، محبتیں نہیں ہوتی ‘‘افیئرز’’ ہوتے ہیں اور ‘‘افیئرز’’ کے خیال ہی پر اس کا دل بیٹھ جاتا تھا۔
پھر ایک دن اس کی سہیلی نے اسٹڈی میز پر کھڑکی کا مسئلہ حل کردیا۔ کہنے لگی‘‘ نو پرابلم گرینڈ اسٹیشنری مارٹ میں وال پیپر جیسا ایک شیٹ ملتا ہے، جسے شیشے پر لگادیں، تو اندر سے باہر کا منظر صاف دکھائی دیتا ہے لیکن باہر سے اندر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔’’
پہلے تو آن کو یقین ہی نہیں آیا کہ ایسا ایک طرفہ کاغذ بھی ہوسکتا ہے لیکن جب سہیلی نے لا کر دیا، تو وہ حیران رہ گئی۔
اس رات دونوں بہنوں نے بڑے اہتمام سے وہ ون وے شیٹ کھڑکی کے شیشے پر لگایا۔ پھر آن یوں مطمئن ہوگئی، جیسے اس نے خود کو افیئر سے محفوظ کرلیا ہو۔
انہی دنوں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ ان کے گھر میں گویا ایک طوفان آگیا۔
ایک روز زبیدہ نے آکر صدیقہ کو خبر سنائی کہنے لگی ‘‘بی بی وہ کل لڑکی کو دیکھنے آرہے ہیں۔’’
‘‘کون آرہے ہیں....؟’’ صدیقہ نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔
‘‘لڑکے کی ماں اور باپ، لڑکا سعودی عرب میں ڈاکٹر ہے، اس کے رشتے کے لیے لڑکی کو دیکھنے کے لیے آغا صاحب اور ان کی بیگم پنڈی سے آرہے ہیں۔ میں نے انہیں آپ کا پتا دیا تھا۔’’
اس خبر نے گھر میں ہلچل مچادی۔
کارپٹوں پر گرد جھاڑنے کی مشین چلنے لگی۔ بانس پر بندھے کپڑے سے دیواریں صاف ہونے لگیں۔ کھڑکیوں کے شیشوں پر چاک کے کوٹ ہونے لگے۔ کچن کے تینوں چولہے آن ہوگئے۔ ایک پر پکوڑے تلے جانے لگے، دوسرے پر گاجر کا حلوہ اور تیسرے پر کباب۔
ماں نے دونوں لڑکیوں کو بریف کرنا شروع کردیا، یوں میک اپ کرنا، یوں مسکرانا!
سب کی توجہ آن پر مبذول تھی۔ ماں بار بار عینی کو سمجھاتی‘‘آن کو بنانے سنوارنے کی تمام تر ذمہ داری تجھ پر ہے سمجھی....؟’’ عینی خود باجی پر نچھاور ہوئی جارہی تھی۔
‘‘باجی اگر وہ کہیں، بیٹھ جاؤ تو شرمانہ جانا، یوں بیٹھ جانا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ اگر وہ کچھ پوچھیں تو سر لٹکا کر خاموش نہ ہوجانا۔ گھبرا نہ جانا۔’’
جب تک مہمان بیٹھے رہے، صدیقہ کے شانوں پر منوں بوجھ پڑا رہا۔ مہمان چلے گئے تو جان میں جان آئی لیکن دل میں کھتر پھتر رہی۔ امتحان تو ہوچکا تھالیکن ابھی نتیجہ باقی تھا۔
اگلے روز شام کو زبیدہ آئی، تو آن اچھل کر کھڑی ہوگئی، وہ دروازے سے لگ کر کھڑی ہوگئی۔ ضرور زبیدہ پیغام لائی ہوگی۔ وہ دروازے سے کان لگا کر سننے لگی۔
‘‘بیگم مبارک ہو۔’’ زبیدہ بولی ‘‘آغا اور ان کی بیگم کو آپ لوگ بہت پسند آئے ہیں۔ سارے گھر کی تعریفیں کرتے تھے لیکن بیگم....’’ زنیدہ نے مدھم آواز میں کہا ‘‘انہوں نے چھوٹی پسند کی ہے۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ کو منظور ہو تو اگلے مہینے منگنی اور تیسرے مہینے شادی۔’’
‘‘چھوٹی کو پسند کیا ہے....؟’’
آن کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ وہ گرے جارہی تھی۔ گرے جارہی تھی۔ اتھاہ گہرائیوں میں گرے جارہی تھی۔ ایک گہرے سیاہ کالے اندھیرے نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔
پھر جو اسے ہوش آیا تو دیکھا کہ وہ اپنے بستر پر اوندھے منہ پڑی تھی۔
اس نے محسوس کیا جیسے گھر والوں نے اس کی تذلیل کرکے، کہڑے اتار کر اسے گھر سے باہر نکال دیا ہو۔
پھر اسے ہوش آیا، تو امی ابا آپس میں کھسر پھسر کررہے تھے لیکن ان کی مدھم آوازیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔
ابا کہہ رہے تھے ‘‘صدیقہ میں کہتا ہوں رشتہ منظور کرلے کم از کم ایک بوجھ تو اتر جائے گا۔’’
یہ سن کر آن پر ایک وحشت سوا ہوگئی۔ دیوانہ وار اٹھی۔ اپنی اسٹڈی ٹیبل کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔ اس نے ایک نظر اس نیلے ون وے کاغذ کو دیکھا ، جو کھڑکی پر لگا رکھا تھا اور ایک جھٹکے سے اسے اکھاڑ کر نیچے پھینک دیا۔
پھر وہ شیلف کی طرف گئی۔ سامنے نیند کی گولیوں کی بوتل پڑی تھی۔ بوتل میں صرف دو گولیاں باقی تھیں۔ اس نے حسرت سے ان دو گولیوں کو دیکھا اور پھر انہیں کھا کر لیٹ گئی۔
جب وہ جاگی تو کمرے میں دھوپ آچکی تھی۔ دفعتاً اسے کل کی باتیں یاد آگئیں، غصے کی ایک رو اس کے جسم میں یوں لہرا گئی، جیسے ایک کوڑا چل گیا ہو۔ پھر اس کی نگاہ کھڑکی پر جا پڑی۔ نیلا کاغذ کھڑکی پر جوں کا توں لگا ہوا تھا۔ وہ حیرت بھرے غصے سے چلائی ‘‘یہ کس نے لگایا ہے....؟’’
‘‘میں نے لگایا ہے باجی!’’ عینی نے کہا۔ عینی اس کے بیڈ کے پاس کرسی پر بیٹھی تھی۔ ‘‘کیوں....؟’’ وہ غصے میں چلائی۔
‘‘باجی میں نے ابو سے کہہ دیا ہے کہ یہ رشتہ مجھے منظور نہیں!’’







اردو ادب کے  ممتاز ادیب،  اور افسانہ نگار 

ممتاز مفتی ۔1905ء تا  1995ء 



ممتاز مفتی کا اصل نام مفتی ممتاز حسین تھا۔ ممتاز مفتی 11 ستمبر 1905ء بمقام بٹالہ (ضلع گورداسپور) بھارتی پنجاب میں مفتی محمد حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امرتسر ، میانوالی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں پائی۔ میٹر ک ڈیرہ غازی خان سے اور ایف اے امرتسر سے اور بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ 
بی اے کے بعد سنٹرل ٹیچرز ٹریننگ کالج سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم پنجاب کے سینئر انگلش ٹیچر کے طور تعیناتی ہوئی۔ وہیں  لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔  کچھ عرصے بطور اسکرپٹ رائٹر آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ منسلک ہوئے۔  قیام پاکستان کے بعد لاہور آئے اور  پھر راولپنڈی میں بطور  ڈائریکٹر وزارتِ اطلاعات    اپنی خدمات انجام دیں۔   ان کا پہلا افسانہ ‘‘جھکی جھکی آنکھیں’’ ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوا اور اس طرح وہ مفتی ممتاز حسین سے ممتاز مفتی بن گئے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں ان کہی، گہماگہمی، چپ، گڑیاگھر، روغنی پتلے، اور سمے کا بندھن شامل ہیں۔ علی پور کا ایلی اور الکھ نگری سوانحی ناول میں شمار ہو تے ہیں۔ جبکہ ہند یاترا،  لبیک جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے اور خاکہ نگاری میں اوکھے لوگ، پیاز کے چھلکے اور تلاش جیسی کتابوں کے خالق ہیں۔ممتاز مفتی کی تحریریں زیادہ تر معاشرے میں موجود کئی پہلوؤں اور برائیوں کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ 27 اکتوبر 1995ء کو 91 برس کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پا گئے۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں