فرانسیسی ادب کا ایک شاہکار افسانہ

روٹی کے گناہ

 حقیقت پسند افسانوں  سے  دلچسپی رکھنے والے  قارئین  کے لیے بطور خاص ہنرسی موپاساں  کی  فرانسیسی کہانی  La Vegabond کا ترجمہ 

موپاساں فطرت پسند مصنفین (Naturalists) میں سے تھا۔ وہ اپنی غیر معمولی بصیرت اور عمیق مشاہدہ کیوجہ سے بےمثال آرٹسٹ مانا جاتا ہے کیونکہ حقیقت میں اسکے پاس آرٹ کے نظریات نہیں تھے اور وہ اخلاقی و سماجی تعصبات سے  بھی پاک تھا۔ اس نے زندگی کو جیسا دیکھا ویسا ہی پیش کیا۔ اس نے بےرحم ظالموں اور چالاک لوگوں سے بھری ہوئی ایک دنیا دیکھی۔ اس نے تباہی، بربادی اور سرابوں کے پرفریب نظارے دیکھے۔




جیکس  رینڈل Jacques Randel کام کی تلاش میں ایک مہینے سے زیادہ اِدھر اُدھر پھرتا رہا۔ جب اسے اپنے وطن ویلی ایوری Ville-Avary میں ، جو صوبے لاماشے  La Manche کا ایک گاؤں تھا، کہیں کام نہ مل سکا تو وہ روزگار کے لیے اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوگیا ۔
وہ ایک سفری بڑھئی تھا، عمر ستائیس سال تھی۔ وہ بہت اچھا کاریگر تھا لیکن دو مہینے سے اپنے خاندان کا یہ سب سے چھوٹا رکن اپنے رشتے داروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگیا تھا۔ عام بے کاری کی وجہ سے ادھر ادھر گھومنے پھرنے کے سوا اب اس کا کوئی اور کام نہیں تھا۔ بمشکل تمام اسے روٹی نصیب ہوتی تھی۔ اس کی دو بڑی بہنیں جو دن میں کہیں باہر کام کرنے چلی جاتی تھیں۔ شام کو تھوڑے سے پیسے لے کر واپس آتیں، 
جیکس رینڈل بے روزگار تھا حالانکہ خاندان میں وہ سب سے زیادہ مضبوط اور طاقتور تھا۔   کام نہ ملنے کی وجہ سے اب وہ دوسروں کی کمائی پر انحصار کررہا تھا۔
جب وہ ہر جگہ سے مایوس ہوگیا تو آخر میونسپلٹی میں اپنے ضلع کے افسر سے ملنے گیا۔ وہاں سکریٹری سے یہ ہدایت ملی کہ وہ ‘‘لیبر ایجنسی’’  Labor Agencyجائے۔ وہاں اسے کام مل جائے گا۔ 
اس نے اپنے کاغذات اور سندیں، ایک نیا جوتا، ایک جوڑا قمیض اور پاجامہ، ایک بیگ میں رکھا اور روانہ ہوگیا۔  آرام کیے بغیر وہ مسلسل چلتا رہا۔ اپنا طویل سفر طے کرنے کے لیے اُس نے نہ دن دیکھا نہ رات، نہ اسے بارش کی فکر تھی نہ دھوپ کی۔ وہ تو اس جگہ پہنچنے کے لیے بے قرار تھا جہاں بے روزگاروں کو کام مل جاتا ہے۔ 
 اس نے طے کرلیا تھا کہ وہ اپنے پیشے کاکام کرے گا لیکن وہاں ہر بڑھئی کی دکان سے اسے ناکامی ہوئی اور اس سے کہا گیا کہ مال کی کھپت نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے لگے ہوئے آدمیوں کو بھی الگ کردیا ہے۔ اپنا یہ ذریعہ معاش ختم ہوتا دیکھ کر اس نے یہ ارادہ کر لیا کہ جو بھی کام اسے کہا  جائے وہ کرے گا۔ اس نے نہریں بنانے کے لیے زمین کھودی، سائیس بنا، پتھر توڑے،  لکڑیاں چیریں، درختوں کی شاخیں کاٹیں، کنویں کھودے، لکڑیوں کے گٹھے اٹھائے۔ پہاڑوں پر بکریاں چرائیں،   گارا ڈھویا ۔  یہ سب کام اس نے چند ٹکوں کے بدلے کیے۔  یہ کام اس نے کافی محنت اور کوشش سے کیے تاکہ اس کے آقا اور دیہاتی کسانوں کو دوبارہ اس سے کام لینے کی ترغیب ہو۔
لیکن  اب ایک ہفتے سے نہ تو اس کے پاس کوئی کام تھا اور نہ پیسے رہے تھے۔ اس کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا  تھا، جو دروازوں پر بھیک مانگ مانگ کر اس نے چند ہمدرد عورتوں سے حاصل کیا تھا۔ اندھیرا ہوتا رہا تھا اور جیکس رینڈل تھک گیا تھا، اس کے پیر جواب دے چکے تھے۔ معدہ خالی تھا اور وہ مایوسی اور شکستہ دلی کے ساتھ ننگے پاؤں سڑک کے ایک طرف گھاس پر چل رہاتھا۔ اس کا جوتا پھٹ چکا تھا اور دوسرا جوڑا حفاظت سے اس نے رکھا ہوا تھا۔
 موسم خزاں کے آخری ایام تھے۔ پانی سے بھرے ہوئے سیاہ بادل درختوں کے اوپر تیزی سے دوڑتے پھر رہے تھے۔ ہفتے کی اس شام جب کلیسا میں کوئی تقریب ہورہی تھی، پورا قصبہ سنسان تھا۔ کھیتوں میں ادھر ادھر غلے اور گھاس پھوس کے بڑے بڑے انبار زرد کلاہ باراں کی طرف لگے ہوئے تھے۔ خالی کھیت دوسرے سال کے لیے ہوتے جاچکے تھے۔
رینڈل بھوکا تھا۔ ایک جنگلی جانور کی طرح بھوک سے بے تاب ہورہا تھا۔ اس بھوک کی وہی کیفیت تھی جو بھیڑیے کو انسان پر حملے کے لئے مجبور کردیتی ہے۔ ضعف و ناتوانی سے نڈھال ہوکر اس نے بڑے بڑے ڈگ بھرنے شروع کیے تاکہ چھوٹے چھوٹے قدموں کی مصیبت سے بچ جائے۔ اس کا سر بھاری ہورہاتھا۔ اور خون کی تیز گردش کی وجہ سے اس کی کنپٹیاں پھٹی جارہی تھیں۔ اس نے اپنی لاٹھی اپنے ہاتھوں میں اس خواہش کے ساتھ مضبوط پکڑلی کہ جو آدمی بھی اپنے گھر کھانا کھانے جاتا ہوا اسے ملے گا وہ اپنی پوری طاقت سے اس کا سر پھوڑ دے گا۔
اس نے سڑک کی طرف دیکھا۔ عالمِ تصور میں اسے یہ نظر آیا کہ آلو زمین پر بکھرے پڑے ہیں۔ اس نے سوچا کہ  وہ اپنے سرد ہاتھوں سے ان کے ریشے پکڑ کر بھونے گا، لیکن یہ سب ایک تصور تھا، ایک خیال تھا۔ آلو کی فصل کا یہ موسم ہی نہیں تھا، اگر وہ کچھ کھانا جاہے تو روز کی طرح آج بھی اسے کھیت سے چقندر نکال کر کچے ہی کھالینے چاہیں۔
اپنے تیز قدموں کی طرح، خیالات کی فراوانی کی وجہ سے وہ دو دن تک بڑ بڑاتا رہا۔ اس سے پہلے اس کے دماغ میں خیالات کا اتنا ہجوم نہیں ہوتا تھا۔ وہ اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا تھا۔ اس کی وہ صنعتی لیاقت اور ذہنی قوت جو اس کے پیشے کے لیے ضروری تھی، سب برباد ہوچکی تھی۔ اس کے علاوہ کمزوری، نقاہت اور کام نہ ملنے کی وجہ سے مایوسی، ناامیدی اور پریشانی ہر جگہ سے صاف انکار، کھلی ہوا میں گھاس پر لیٹ کر راتیں گزارنا،بھوک پیاس کی شدت سے ان سب نے مل کر اسے ایک پیٹ بھرے کی نظر میں....  اس شخص کی نظر میں جس کا گھر بارہو، آوارہ اور بدمعاش بنا دیا تھا۔ 
رہ رہ کر ایک سوال وہ اپنے آپ سے کرتا تھا۔ ‘‘جب یہ حالات ہیں تو تم اپنے گھر کیوں چلے جاتے؟؟’’ مصیبتوں اور تکلیفوں نے اس کے مضبوط ہاتھ ناکارہ بنا دیے تھے۔ اسے اپنے عزیزوں اور رشتےداروں کی یاد نے، جن کے پاس اس کے لیے ایک دھڑی بھی نہ تھی اور بھی زیادہ غصے سے بھر دیا تھا۔ ضبط کے باوجود ہر ہر لمحے اس کا رنج و غم بڑھتا جارہا تھا اور رہ رہ کر وہ اپنے دانت پیستا اور بڑبڑاتا۔
جب اس کے ننگے پیروں میں پتھروں کی ٹھوکریں لگتیں وہ کراہ اُٹھتا۔ ‘‘اُف کیسی مصیبت ہے، کتنی تکلیفیں ہیں! آہ ! کتنی بدبخت ہے یہ دنیا۔ کتنی خودغرض، مکار، دغاباز، کمینی اور اذیتوں سے بھری ہوئی ہے یہ دنیا۔  اس میں رہنے والے کس قدر رکھاؤ، اڑاؤ اور پیٹو ہیں۔  کتنے غلیظ، نجس اور کندے ہیں.... میں....میں ایک دست کار، ایک ہوشیار بڑھئی، ایک عمدہ کاریگر.... آہ! مجھے اس طرح بھوکے مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے....میرے لیے.... میرے لیے ان کے پاس دو پیسے بھی نہیں .... اف!
 بارش بھی ہونے لگی....’’
اس ناانصافی پر وہ بے حد غضب ناک اور برہم تھا۔ وہ انسانوں کو اپنی تباہی کا ذمے دار قرار دیتا تھا۔ دنیا کے تمام انسانوں کو قدرت کو.... اس بڑی اور اندھی ماں کو جو مہربان، بے انصاف سنگدل، بے رحم ظالم، دھوکے باز، فریبی اور خائن ہے۔
صبح کے کھانے کا وقت تھا۔  مکانوں کی چمنیوں سے آہستہ آہستہ دھواں نکل رہا تھا۔ اس کا خیال انسانوں کی اس کمزوری کی طرف منتقل ہونے لگا جسے چوری، ڈاکا اور تشدد کہتے ہیں، بالکل غیرارادی طور پر اس کا دل چاہا کہ وہ ان مکانوں میں گھس جائے اور ان میں رہنے والوں کو قتل کردے اور خود ان کی جگہ میز پر بیٹھ کر کھانا کھائے۔
وہ اپنے دل میں کہنے لگا۔ ‘‘مجھے بھی حق ہے کہ میں کھاؤں پیوں اور زندہ رہوں۔’’ لیکن کمینے انسان مجھے مار ڈالنا چاہتے ہیں.... ان رذیلوں نے مجھے بھوکا مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے.... اور میں کہتا ہوں کہ مجھے کام دو، میں محنت کرکے پیٹ بھرنا چاہتا ہوں....’’
 اس کے بدن کے ہر حصے میں سخت درد ہونے لگا۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی اور درد کی وجہ سے اس کا سر پھٹنے لگا۔ اس پر بے ہوشی سی طاری ہونے لگی۔ اس کے دماغ میں صرف یہ خیال گونج رہا تھا کہ ۔‘‘اس دنیا میں میں بھی رہتا ہوں، اس ہوا میں، میں بھی سانس لیتا ہوں.... پھر جب ہوا کسی کی ملکیت نہیں.... ہوا پر کوئی پابندی نہیں لگائی جاسکتی تو روٹی پر کیوں پابندی لگائی ہے؟ میرا بھی حق ہے کہ میں سب کی طرح کھاؤں.... کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ مجھ سے روٹی چھین لے۔’’
برفیلی سرد، موسلادھار نہایت نفیس بارش شروع ہوگئی۔ وہ چلتے چلتے رُک گیا اور بڑبڑانے لگا۔ ‘‘ہائے کتنی بدقسمتی ہے! مجھے گھر سے آئے ہوئے ایک مہینہ گزر چکا ۔ اس نے گھر کے متعلق سوچا۔ اسے خیال آیا  کہ واپس گھر چلنا چاہیئے وہ اپنے گھر پر زیادہ آسانی سے کوئی کام تلاش کرے گا۔ وہاں اسے سب جانتے ہیں.... اور اب تک جو کچھ گزر چکا ہے اسے بھول جانا چاہیئے۔  یہاں ان سڑکوں پر راہ گیر اس کے متعلق کیا خیال کرتے ہوں گے.... اپنے وطن میں اگر اسے اپنے پیشے کا کام نہیں ملا تو وہ کوئی دوسرا کام کرنے لگے گا۔ زمین کھودے گا یا سڑک پر پتھر توڑنے والوں میں شامل ہو جائے گا۔ اگر اس کام سے اسے دو آنے روز کی آمدنی بھی ہونے لگے گی تو وہ کسی طرح اپنے گزر بسر تو کر ہی لے گا’’۔ 
 اس نے اپنی دستی اپنے گلے میں باندھی تاکہ سینے اور پیٹھ پر بہتا ہوا سرد پانی روک سکے لیکن اس کی یہ کوشش فضول تھی۔ پانی کپڑوں میں سے گزر کر پھر اس کا جسم شرابور کرنے لگا۔ وہ سخت مایوس اور سنجیدہ نظروں سے اپنا جسم دیکھنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کس جگہ اپنا سر چھپا کر تھوڑا سکون حاصل کرے۔ اس مہذب اور متمدن دنیا میں پناہ کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔
رات آئی اور پورے قصبےپر تاریکی چھاگئی۔ دور سبزہ زار پر اس نے ایک سیاہ نشان دیکھا۔ یہ ایک گائے تھی۔ وہ پگڈنڈی سے ہٹ کر سڑک پر آگیا اور سوچے سمجھے بغیر اس کی طرف روانہ ہوگیا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو گائے نے اپنا سر اُٹھایا.... اور ایک دم اسے یہ خیال آیا کہ اگر اس کے پاس کوئی برتن ہوتا تو وہ کچھ دودھ دوہ لیتا۔ وہ کھڑا ہوگیا اور گائے کی طرف غور سے دیکھنے لگا۔ گائے نے بھی اس کی طرف منہ اُٹھایا  اور پھر یکا یک ایک زور کی ٹھوکر مار کر اس نے گائے سے کہا۔ ‘‘اُٹھ’’
غریب جانور اپنے بھاری تھن لٹکا کر آہستگی سے کھڑا ہوگیا اور رینڈل اس کے پیروں میں گھس کر اس کا دودھ پینے لگا۔ جب تک اس جاندار کے تھنوں  میں دودھ کا ایک قطرہ بھی باقی رہا، وہ برابر پیتا رہا۔  اب بارش بہت تیزی سے شروع ہوگئی تھی اور اس اجڑی زمین میں سر چھپانے کو کوئی جگہ نہیں تھی۔ اس وقت اسے بہت سردی لگنے لگی۔ دور کسی مکان کی کھڑکی میں اس نے روشنی کی ایک جھلک دیکھتی۔
گائے بھد سے پھر بیٹھ گئی اور رینڈل بھی اسی کے پاس بیٹھ کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ گائے کا دودھ پی کر اس کا ممنون ہوگیا تھا۔ دو بڑی گرم سانسیں کسی فوارے کی طرح جانور کے نتھنوں سے نکل کر اس سرد موسم میں کاریگر کے منہ پر لگیں تو وہ حیرت سے کہنے لگا۔ ‘‘ارے تمہارے پیٹ میں سردی نہیں ہے؟’’ اس نے اپنے دونوں ہاتھ اس کے سینے پر رکھ دیے اور خود وہ اس کے قریب کھسک گیا، وہاں اسے کچھ گرمی محسوس ہوئی.... اور پھر اسے خیال آیا کہ اس بڑے پیٹ کے پاس لیٹ کر رات گزارنا چاہیے۔ اس نے اپنا سر گائے کے ان تتھنوں کے قریب کرلیا جن سے کچھ دودھ پی کر وہ سکون حاصل کر چکا تھا۔ نیند آگئی۔
اس کے باوجود وہ کئی بار اُٹھا۔ اس کی پیٹھ اور پیٹ کا وہ حصہ جو ہوا میں کھلا تھا اسے ایسا معلوم ہونے لگا کہ منجمد ہو گیا ہے۔ اس نے کروٹ بدل لی اور پھر گہری نیند سو گیا۔ مرغ کی بانگ نے اسے جگایا۔ صبح ہونے والی تھی۔ بارش بند ہوچکی تھی اور مطلع بالکل صاف ہو چکا تھا۔ گائے اپنا منہ چلا چلا کر جگالی کر رہی تھی۔ رینڈل اپنے ہاتھ ٹیک کر زمین پر جھکاتا کہ گائے کے مرطوب تھنوں کو پیار کرے۔ وہ کہنے لگا۔
 ‘‘خدا حافظ میری پیاری، کل شام تک کے لیے خدا حافظ۔ تو کتنی نیک اور پیار کے قابل ہے۔’’ 
اس نے اپنے نئے جوتے پہنے اور روانہ ہوگیا۔ دو گھنٹے تک وہ اس سیدھی اور لمبی سڑک پر برابر چلتا رہا لیکن اب اس میں چلنے کی سکت نہیں تھی، وہ بے دم ہوکر زمین پر بیٹھ گیا۔ دن کافی چڑھ گیا تھا اور کلیسائی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ مرد اپنے آسمانی لباسوں میں اور عورتیں سفید ٹوپیاں لگائے پیدل یا گاڑیوں میں بیٹھے آس پاس کے گاؤں میں جارہے تھے تاکہ اتوار کا دن وہ اپنے دوستوں اور رشتےداروں کے ساتھ گزاریں۔
ایک طاقت ور دیہاتی، خوفزدہ اور چلاتی ہوئی بھیڑوں کا ایک گلا گھیرے ہوئے آرہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک بہت چست و چالاک کتا تھا، جو بھیڑوں کو ادھر ادھر بھٹکنے نہیں دیتا تھا۔
رینڈل اپنی جگہ سے اُٹھ کر سڑک پر آیا اور اپنی ٹوپی اُٹھا کر دیہاتی کو سلام کیا اور غصے سے کہنے لگا۔ ‘‘جناب کیا آپ کے پاس بھوک سے مرتے ہوئے آدمی کے لیے کچھ کام ہے؟’’
دیہاتی نے قہر آلود نظروں سے آوارہ گرد کی طرف دیکھا اور غصے سے کہنے لگا:
 ‘‘میرے پاس ان بدمعاشوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، جو سڑکوں پر ادھر ادھر مارے مارے پھرتے ہوں۔’’
بڑھئی پھر ایک گڑھے پر آکر بیٹھ گیا اور دوبارہ التجا کرنے سے پہلے وہ بہت دیر تک بیٹھا کسی ایسے آدمی کا انتظار کرتا رہا، جس کی صورت سے نیکی اور رحم دلی ظاہر ہوتی ہو۔ آخر ایک آدمی کا انتخاب کرکے جو اورکوٹ پہنے تھا اور جس کے کوٹ پر سونے کی زنجیر لٹک رہی تھی، کہنے لگا۔
‘‘جنابِ عالی! دو مہینے سے کام کی تلاش میں سرگرداں پھر رہا ہوں لیکن مجھے اب تک کوئی کام نہیں ملا اور اب میرے پاس ایک دھیلا تکنہیںہے۔’’
اس نیم شریف آدمی نے کاریگر کو غور سے دیکھا اور پھر جواب دیتے ہوئے کہا۔
 ‘‘جاؤ اور جاکر وہ نوٹس بورڈ پڑھ لو جو گاؤں کے سرے لٹکا ہوا ہے، تمہیں معلوم ہے وہ کیا ہے؟ بستی کی حدود میں بھیک مانگنا ممنوع ہے اور تم مجھے جانتے ہو میں کون ہوں؟ میں اس ضلع کا حاکم ہوں.... اگر تم فورا" ہی یہاں سے نکل نہ گئے تو میں تمہیں گرفتار کروادوں گا۔’’
رینڈل جسے حاکمِ ضلع کی بات سن کر غصہ آگیا تھا، جھنجلا کر کہنے لگا۔ 
‘‘اگر تم مجھے گرفتار کرنا چاہو تو گرفتار کرلو میرے لیے ہر صورت میں یہ بہتر ہے۔ میں بھوک سے تو نہ مروں گا اور مجھے سر چھپانے کو جگہ تو مل جائے گی۔’’ اور پھر واپس جاکر اس گڑھے پر بیٹھ گیا۔ 
ابھی اسے آئے پندرہ منٹ بھی نہ گزرے تھے کہ دو سپاہی سڑک پر دکھائی دیے۔ وہ پہلو بہ پہلو آہستہ آہستہ چل رہے تھے اور ان کی چمک دار ٹوپیاں سورج کی روشنی میں جگمگا رہی تھیں، ان کی زرد وردیاں اور پیتل کے بٹن ایک اوباش آوارہ گرد کو ڈرا کر بھگانے کے لیے کافی تھے، وہ سمجھ گیاکہ سپاہی اسی کے پاس آرہے ہیں مگر وہ اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ مقابلہ کرکے اپنے آپ کو گرفتار کرا دینے کی خواہش اس کے دل میں پیدا ہوچکی تھی۔
سپاہی اس کی طرف اس طرح آرہے تھے جیسے انہوں نے کاریگر کو دیکھا نہ ہو۔ اپنا توازن قائم کیے اور فوجی انداز میں ہنسی کی چال چلتے ہوئے وہ جب اس کے پاس سے گزرنے لگے تو ایکدم ٹھہر گئے۔ افسر نے غصے سے دھمکا کر پوچھا۔ 
‘‘یہاں بیٹھے تم کیا کررہے ہو؟’’
‘‘میں یہاں آرام کر رہا ہوں۔’’ کاریگر نے سکون سے جواب دیا۔
‘‘کہاں سے آئے ہو؟’’
‘‘ویلی ایوری’’
‘‘یہ کہاں ہے؟’’
‘‘صوبے اماشے میں۔’’
‘‘وہیں کے رہنے والے ہو؟’’
‘‘ہاں’’
‘‘وہاں سے کیوں آئے؟’’
‘‘روزگار کی تلاش میں۔’’
افسراپنے چالاک ساتھی کی طرف مڑا اور غصے کے لہجے میں کہنے لگا۔ ‘‘میں ان بدمعاشوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔’’ اور کاریگر کی طرف مڑ کر بولا۔ ‘‘تمہارے  پاس کاغذات ہیں....؟بتاؤ....؟؟’’
رینڈل نے اپنی شکستہ سندیں اور کاغذات جو میلے کچیلے اور بھٹے پُرانے تھے، جیب سے نکال کر دیے جنہیں اس نے رک رک کر اور ہجے کر کرکے پڑھا اور یہ دیکھ کر کہ وہ سب صحیح ہیں، اسے واپس کر دیے۔ مگر اس نے رینڈل کو ایسی شکی اور مشتبہ نظروں سے دیکھا جو کہہ رہی تھیں کہ تم مجھ سے بھی زیادہ چالاک نکلے اور مجھے بھی فریب دے دیا۔
افسر نے چند لمحوں تک اسے دیکھنے کے بعد پھر پوچھا۔ ‘‘اچھا تمہارے پاس کچھ روپیہ بھی ہے؟’’
‘‘نہیں ....’’
‘‘ایک پیسہ بھی نہیں؟’’
‘‘تو پھر تم کھاتے پیتے کہاں سے ہو؟’’
‘‘جو کچھ کہیں سے مل جاتا ہے، کھا پی لیتا ہوں۔’’
‘‘اچھا تو تم بھیک مانگتے ہو؟’’
رینڈل نے استقلال سے جواب دیا۔ ‘‘ہاں صاحب جب بھوک سے جان نکلنے لگتی ہے تومانگتاہوں۔’’
‘‘ٹھیک ہے’’ افسر نے کہا اور پھر اپنا سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بولا، ‘‘تمہارے پاس جائز طریقے سے کھانے پینے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے اس لیے تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تم خود کو میرے حوالے کر دو اور میرے ساتھ ضلع کے حاکم اعلا کے پاس چلو۔’’
کاریگر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا۔ ‘‘جو آپ کا مزاج چاہے کریں۔’’ اور پھر وہ ان کے کہنے سے پہلے ہی ان دونوں کے بیچ میں آکر کھڑا ہوگیا، اور افسر سے مخاطب ہو کر بولا۔ ‘‘چلو مجھے قید کرادو۔ وہاں بارش کے ایام میں سر چھپانے کو جگہ مل جائے گی۔’’اور پھر وہ سب کے سب گاؤں کی طرف چل دیے۔
ایک میل دور ہی سے مکانوں کے سرخ کھپرل بے جان درختوں کی شاخوں سے نظر آنے لگے۔ جس وقت وہ گاؤں میں پہنچے، عبادت شروع ہونے والی تھی۔ کلیسا کا احاطہ آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔ آدمی اس ملزم کو دیکھنے لگے جو دو سپاہیوں کی حراست میں آرہا تھا اور جس کے پیچھے گاؤں کے شوریدہ سر لڑکے غل غپاڑا مچاتے آرہے تھے۔ مرد اور عورتیں اس قیدی کو نفرت اور حقارت سے دیکھ رہی تھیں۔ سب اس پر پتھر پھینکنے کو تیار تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بس چلے تو وہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں۔ اپنے پیروں سے اسے کچلیں اور روند ڈالیں۔ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ اس نے ڈاکا ڈالا ہے یا کسی کو قتل کیا ہے؟ 
ایک شخص۔ جو پہلے کبھی سپاہی رہ چکا تھا، کہنے لگا کہ ‘‘یہ تو عادی مجرم ہے۔ فرار ہو گیا تھا، اب ہاتھآیاہے۔’’
ایک تمباکو فروش نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ ‘‘نہیں یہ وہ شخص ہے جو صبح مجھے ایک کھوٹی اکنی دے گیا تھا۔’’
تیسرے آدمی نے جو لوہے کا سامان فروخت کرتا تھا، اپنی رائے پیش کی کہ ‘‘یہ تو فلاں بیوہ کا قاتل ہے، پولیس چھ مہینے سے اس کی نگرانی کر رہی تھی۔’’ 
سپاہی اسے میونسپل کے دفتر میں لے گئے، جہاں رینڈل نے دوبارہ حاکمِ ضلع کو دیکھا۔ وہ ایک اسکول ماسٹر کے بازو میں اپنی منصفی کی کرسی پر متکبرانہ انداز سے بیٹھا ہوا  تھا۔
مجسٹریٹ اسے دیکھتے ہی چلاتا، ‘‘ارے! ارے! تم آخر یہاں آگئے، دیکھو میں نے تم سے کہا تھا کہ میں تمہیں گرفتار کرادوں گا۔’’ اور پھر اس افسر کی طرف دیکھا جو اسے گرفتار کر کرکے لایا تھا۔
‘‘اچھا! اس نے کیا جرم کیا ہے؟’’
‘‘جنابِ عالی! یہ ایک آوارہ گرد ہے، بےخانماں۔ نہ اس کا کوئی وطن ہے نہ گھر بار.... یہ سب باتیں خود اسی نے بتائی ہیں۔ البتہ اس کے پاس کچھ کاغذات اور سندیں ہیں جو ٹھیک اور درست معلوم ہوتی ہیں، میں نے اسے بھیک مانگنے کےجرم میں گرفتار کیا ہے۔’’
مجسٹریٹ نے رینڈل سے کاغذات طلب کیے اور انہیں پڑھا۔ دوبارہ پڑھا پھر واپس کر دیے۔ پھر اس نے افسر سے کہا، اس کی تلاشی لی جائے اور جب تلاشی میں اس کے پاس کچھ نہیں نکلا تو مجسٹریٹ سخت پریشان ہوا اور کاریگر سےکہنے لگا۔
‘‘آج صبح سڑک پر بیٹھے تم کیا کر رہے تھے؟’’
‘‘میں کام کی تلاش میں بیٹھا تھا۔’’
‘‘کام کی تلاش میں سڑک پر....’’
‘‘تو اور کیا جناب آپ کا خیال ہے۔ میں جنگل میں جاکر چھپ جاؤں تو مجھے کام ملے گا؟’’ سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر رینڈل پر نفرت و حقارت کی نگاہ ڈالی۔ گویا وہ کسی عجیب مخلوق سے تعلق رکھتا تھا۔ مجسٹریٹ نے پھر اس سے کہا۔
‘‘اچھا میں تمہیں اس وقت چھوڑتا ہوں.... جاؤ بھاگ جاؤ۔ اب کبھی میرے سامنے نہ آنا۔’’
کاریگر سخت پریشان ہوا.... مجسٹریٹ سے کہا۔ ‘‘ میں نے اپنے روزگار کی تلاش میں اتنی دوڑ دھوپ کی ہے کہ اب میں خود....’’
‘‘خاموش رہو’’ مجسٹریٹ نے ڈانٹا اور پھر سپاہیوں سے کہا کہ ‘‘اس منہ زور کو گاؤں کی حد سے دو سو گز دور نکال دو اور پھر اسے مجبور کرو کہ یہ اپنا سفر جاری رکھے اور دوبارہ واپس نہ آنے پائے’’
‘‘جناب آپ کچھ بھی کیجیے۔’’  کاریگر نے مایوسی سے کہا۔  ‘‘مگر مجھے کچھ کھانے کو دیجیے۔’’ لیکن اس کی سنتا کون! مجسٹریٹ بھڑک اُٹھا۔ ‘‘خوب ایک تو جرم کرو اور کھانے کو بھی مانگو؟ دور ہو جاؤ۔ تم جیسوں کے لیے ہمارے پاس کچھنہیںہے۔’’
لیکن رینڈل استقلال سے کہے جارہا تھا۔ ‘‘آپ لوگ مجھے بھوکا مار کر اس بات کے لیے مجبور کررہے ہیں کہ میں واقعی کسی جرم کا ارتکاب کروں اور یاد رکھیے، میرا جرم آپ جیسے پیٹ بھروں کے لیے مصیبت بن جائے گا۔’’
مجسٹریٹ کھڑا ہو گیا اور سپاہوں سے مخاطبہوکر کہا۔ 
‘‘لے جاؤ۔ لے جاؤ۔ اسے دیکھ کر مجھے سخت غصہ آرہا ہے۔’’
دونوں سپاہیوں نے اس کے بازو پکڑ کر اسے باہر نکال دیا۔ اس نے بھی کوئی مدافعت نہ کی اور گاؤں سے گزرتا ہوا پھر ایک بار اس گڑھے کے پاس آگیا۔ جب وہ دو سو گز دور آگیا تو سپاہی نے اس سے کہا۔ ‘‘دفعان ہو جاؤ۔ اب کبھی یہاں نہ آنا، اور اگر پھر میں نے تم کو گرفتار کرلیا تو یہ تمہارے لیے بہت بُرا ہوگا۔’’
رینڈل نے کوئی جواب نہیں دیا اور سوچے سمجھے بغیر ایک طرف چل دیا۔ پندرہ بیس منٹ تک وہ گھومتا پھرتا رہا۔ اس پر غشی طاری ہونے لگی تھی۔ اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہا۔ جب وہ ایک چھوٹے سے مکان کے پاس سے گزرا جس کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی تو وہ یکایک رُک گیا۔ مکان میں سے بھنے ہوئے گوشت اور شوربے کی خوشبو آرہی تھی۔ بھوک کی خوفناک شدت نے اسے دیوانہ کردیا۔ وہ سخت مضطرب اور بے چین ہوگیا اور کسی جنگلی جانور کی طرح بےتاب ہو کر مکان کی طرف چھپٹا۔
مکان اور دروازے پر جاکر وہ گڑگڑانے لگا اور التجا کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا۔
‘‘میں آپ کو خدا کا واسطہ دیتا ہوں، کچھ میری بھی خبر لو، میں بھوک سے مرا جارہا ہوں۔’’ 
اس نے دروازے پر دستک دی لیکن جب اندر سے کوئی جواب نہیں ملا تو اس نے پوری قوت سے اپنی لکڑی دروازے پر ماری اور پھر گڑگڑانے لگا۔ ‘‘خدا کے لیے کچھ پر رحم کرو، دروازہ تو کھولو۔’’
اس کے باوجود بھی جب اندر سے کوئی جواب نہیں ملا تو کھڑکی کے پاس آگیا اور اب بالکل قریب سے گوشت، چوزے، گوبھی اور شوربے کی خوشبو آئی، اب ضبط کرنا اس کے اختیار سے باہر ہوگیا تھا وہ اچک کر کھڑکی پر چڑھ گیا اور مکان میں داخل ہوگیا۔ میز پر دو آدمیوں کے لیے کھانے کا سامان رکھا تھا۔ اس نے خیال کیا کہ مکان والے گرجا چلے گئے ہوں گے اور وہاں سے واپس آکر کھانے کے لیے یہ چیزیں چھوڑ گئے ہوں گے۔ چولھے پر نہایت عمدہ ابلا ہوا گوشت رکھا تھا اور دوسری طرف دودکش پر ترکاریوں کا شوربا اور  ڈبل روٹیاں رکھی تھیں۔ رینڈل نے سب سے پہلے روٹی پر ہاتھ مارا اور اتنی طاقت سے اسےتوڑا گویا وہ کسی آدمی کا گلا دبا رہا ہو اور پھر کسی ندیدے کی طرح کسی پیٹو اور حریص آدمی کی مانند، اس نے روٹی کا ٹکڑا اپنے منہ میں رکھ لیا اور جلدی جلدی سے اسے نگلنے لگا لیکن چولھے پر چڑھے ہوئے گوشت کی خوشبو نے اسے اپنی کی طرف متوجہ کرلیا۔ اس نے کڑھائی کا ڈھکن ہٹایا اور کانٹے سے گائے کے گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا نکال لیا، پھر اس نے گاجر، گوبھی اور پیاز کی ترکاریاں رکابی بھر بھر کے نکالیں اور یہ ساری چیزیں میز پر رکھ کر خود ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ پہلے گوشت کے چار ٹکڑے کیے۔ پھر نہایت اطمینان سے اپنے گھر کی طرح انہیں کھانے لگا۔ ان ترکاریوں کے علاوہ جب وہ بہت سا گوشت بھی کھا چکا تو اسے پیاس لگنے لگی، وہ اُٹھا اور دودکش پر سے شراب کی بوتل اُٹھا لایا۔ جب وہ شراب میں ڈالنے لگا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ براندی تھی۔ اچھا ہے اس نے اپنے دل میں کہا، سردی میں ٹھٹرنے کے بعد یہ شراب میرے بدن اور خون میں آگ لگائے گی۔ اور یہ بہت اچھا ہوگیا۔ اس نے تھوڑی سی شراب پی۔ وہ بہت تیز اور نہایت عمدہ تھی۔ شاید اتنے عرصے تک شراب نہ ملنے کی وجہ سے وہ اس کا عادی نہ رہا ہو۔ اس کے باوجود وہ پورا گلاس دو گھونٹوں پر ختم کر گیا۔ اب اسے سکون ہوا۔ الکحل کے اثر سے وہ بے خود ہوگیا۔ اسے ایسا محسوس ہونے لگاکہ خوشی و مسرت کی لہریں اس کے جسم میں دوڑنے لگی ہیں اور اس پر مستی اور بے خودی کا ایک دورہساپڑنےلگا۔
مگر وہ اب تک کھائے جارہا تھا۔ اگرچہ اب اس کے کھانے میں پہلے کی طرح بے تکا پن نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ وہ شورب میں روٹی ڈبوتا اور کھا لیتا۔ اس کا بدن جلنے لگا اور اس کی رگیں پیشانی کے آس پاس پھرکنے لگیں۔ یکایک اس نےگرجا کی گھنٹی سنی، عبادت  ختم ہورہی تھی۔ اسے فوری خطرے کا احساس ہوگیا۔ اپنی حفاظت کی وہ تدبیر جو غیر محسوس طریقے سے انسان میں ہوتی ہے، اس میں عود آئی اور وہ ایک دم کھڑا ہوگیا۔ اپنی روٹی کا بچا ہوا ٹکڑا اور شراب کی بوتل اس نے اپنی جیب میں رکھی اور کھڑکی کی طرف دوڑا اور سڑک پر نگاہ ڈالی۔ وہ اب تک سنسان تھی اور کوئی آدمی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ کھڑکی سے نیچے کودا اور سڑک پر چلنے کے بجائے کھیتوں میں ہوتا ہوا جنگل کیطرف بھاگا۔
اب وہ اپنے جسم میں چُستی و چالاکی، طاقت و توانائی اور خوشی و مسرت محسوس کررہا تھا، اپنے کیے پر اسے ذرا بھی ملال اور صدمہ نہ تھا بلکہ وہ خوش اور مطمئن تھا۔ وہ کھیتوں اور باڑوں میں سے اچھلتا کودتا ہوا بھاگا جارہا تھا، جب وہ ایک گھنے درخت کے نیچے پہنچا تو اس نے دوبارہ اپنی جیب سے شراب کی بوتل نکالی اور ٹھیرے بغیر تھوڑی سی پی لی۔ اب اس کے خیالات میں ہیجان پیدا ہونے لگا اور اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں، شراب اور کھانے سے اس کے پیروں میں لچک پیدا ہوگئی تھی۔ وہ کوئی گیت گاتا ہوا برابر آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔
اس وقت وہ ایک گھنی، تاریک اور سرد دلدل کے پاس سے گزر رہا تھا، اس کے پاؤں کے نیچے سبزہ زار تھا۔ سبزہ زار دیکھ کر اسے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ اپنے بچپن کی طرح اس وقت بھی گھاس پر سوئے اور قلابازیاں لگائے.... اس کا دماغ بے قابو ہو رہا تھا۔ اس نے گھاس پر خوب قلابازیاں لگائیں اور پھر کوئیگیت گانے لگا۔
وہ چلتے چلتے ایک ڈھلوان سڑک کے کنارے پہنچا۔ سڑک پر ایک دراز قد لڑکی جارہی تھی۔ اس کے پاس دو گھڑے تھے جن میں دودھ بھرا ہوا تھا۔ شاید وہ اپنے گاؤں واپس جارہی تھی۔ رینڈل نے اسے دیکھا تو تھوڑا اور آگے جھک گیا اور اس کی آنکھیں اس کتے کی طرح چمکنے لگیں، جسے اپنے شکار کا کھوج مل گیا ہو۔ جب لڑکی اس کے قریب آئی تو کھڑی ہوگئی اور اپنا سر اُٹھا کر کہنے لگی، ‘‘کیا تم تھے جو ابھی گا رہے تھے؟’’
اس نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اپنی جگہ سے سڑک پر کود پڑا۔ حالانکہ وہ سڑک سے تقریباً چھ فٹ بلند جگہ پر تھا۔ جب وہ لڑکی کے سامنے اس طرح یکایک کودا تو وہ سہم گئی اور کہنے لگی، ‘‘اے تم نےتومجھے ڈرا دیا۔’’
اس نے لڑکی کا کہنا بالکل نہ سنا۔ وہ شراب کے نشے میں بدمست ہورہا تھا۔ وہ کسی دوسری خواہش کے ماتحت دیوانہ ہورہا تھا۔ ایک ایسی خواہش جو بھوک سے بھی زیادہ بے تاب کردینے والی ہے.... جس میں شراب سے بھی زیادہ نشہ ہے۔ جو شراب سے بڑھ کر انسان کے بدن میں آگ پھونک دیتی ہے اور خصوصاً اس آدمی کی خواہش جو دو ماہ سے صبر کیے ہوئے ہو، جو جوان اور تندرست ہو جس کی رگ رگ میں فطری خواہشات پوری کرنے کے لیے آگ سلگ چکی ہو۔ لڑکی اسے گھورنے لگی۔ وہ اس سے خوف زدہ ہورہی تھی، اس کی سرخ سرخ آنکھیں، تمتمایا چہرہ، کھلا ہوا منہ اور دراز بازو، ان سب سے وہ ڈر رہی تھی لیکن رینڈل نے ایک لفظ کہے بغیر اس کے شانے پکڑ کر اسے سڑک پر پچھاڑ دیا۔
اس کے دونوں گھڑے دور دور تک لڑھکتے چلے گئے۔ ان میں بھرا ہوا تمام دودھ زمین پر بہنے لگا۔ وہ چلا چلا کر شور مچانے لگی۔ لیکن یہ دیکھ کر کہ اس سنسان اور اجاڑ جگہ کون اس کی امداد کرے گا، وہ خاموش ہوگئی اور رینڈل اس پر غالب آگیا۔
تھوڑی دیر بعد  اسے اپنے گھڑے اور دودھ کا خیال آیا۔ وہ غصے سے کانپنے لگی۔ اب اس کی باری تھی۔ اس نے اپنے پاؤں سے لکڑی کی بنی ہوئی کھڑاؤں اُتاری اور مطالبہ کیا کہ وہ دودھ کی قیمت ادا کرے ورنہ وہ اس کا سر توڑ دے گی۔ 
رینڈل  لڑکی کےاس حملے کے لیے بالکل تیار نہ تھا۔ وہ گھبرا گیا ، اس کی آنکھیں کھل گئیں، اپنے کیے پر وہ سخت خوفزدہ ہو رہا تھا، اس نے وہاں ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور بھاگ کھڑا ہوا، لیکن لڑکی نے اس پر پتھروں کی بارش شروع کر دی، کچھ پتھر اس کی پیٹھ پربھی لگے۔
وہ دیر تک دوڑتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ تھک گیا، اس کے پیروں میں سخت درد ہونے لگا۔ اس کے خیالات منتشر ہونے لگے تھے اور اس کا دماغ پریشان ہورہاتھا۔ اسے کسی چیز کا خیال نہیں رہا اور وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا اور فوراً  ہی اسے نیند آگئی لیکن جلد ہی اسے کسی کے کھردرے اور مضبوط ہاتھوں نے جگا دیا۔ اس نے اپنے اوپر دو چمکدار چمڑے کی بنی ہوئی ٹوپیاں جھکی ہوئی دیکھیں، وہی دونوں سپاہی جو ایک مرتبہ اسے گرفتار کرچکے تھے، اپ پھر اس کی مشکیں کس رہے تھے۔
افسر نے خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے رینڈل سے کہا ‘‘میں پہلے ہی جانتا تھا کہ تم اپنی حرکتوں سے باز نہیں آؤ گے۔ اورمجھے پھر سے تمہیں گرفتار کرنا پڑے گا۔’’  
رینڈل نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ کھڑا ہوگیا۔ اب اگر رینڈل ذرا بھی کوئی حرکت کرے تو وہ اسے مارنے پیٹنے کو تیار تھا.... وہ ان کا شکار تھا۔ جیل کی چڑیا تھی۔ پھر مجرموں کے شکاری بھلا کیسے نکل جانے دیتے۔
‘‘اچھا چلو’’ افسر نے حاکمانہ انداز سے کہا اور تینوں روانہ ہوگئے۔
شام ہوچکی تھی اور موسمِ خزاں کی شفق ماند ہوتی جارہی تھی۔
ادھر اُدھر تاریکی کے سیاہ دھبے زمین پر  دکھائی دینے لگے تھے۔ آدھ گھنٹے میں وہ گاؤں پہنچ گئے۔ سارے گھروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ دیہاتی مرد اور عورتیں لڑکیاں اور لڑکے اس طرح جوش میں تھے، جیسے ہر مکان میں چوری ہوئی ہے اور ہر لڑکی کا دامن عصمت تار تار کردیا گیا ہے۔ وہ گالیوں سے اس کا تکا بوٹی کردینا چاہتے تھے۔ پہلے ہی دروازے سے اس پر طعنہ زنی شروع ہوگئی اور حاکمِ ضلع کے مکان تک یہی حال رہا۔ حاکمِ ضلع اپنے مکان میں بیٹھا اس کا انتظار کررہا تھا۔ خود اس کے دل میں بھی غصے اور انتقام کی آرزو شدت سے پیدا ہوچکی تھی۔ جیسے  ہی اس نے آوارہ گرد کو دیکھا وہ چلا اُٹھا۔
‘‘اچھا! تم آگئے بدمعاش! اب تمہیں سزا ملے گی....’’  یہ کہہ کر اس نے خوشی اور مسرت سے ہاتھ ملے اور پھر سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا:
 ‘‘میں سمجھتا تھا کہ تم باز نہیں آؤ گے، میں نے تو سڑک پر دیکھ کر تمہیں پہلی نظر میں پہچان لیا تھا۔’’ اور پھر اطمینان و سکون کا سانس لے کر کہنے لگا۔
‘‘اچھا بدمعاش! کمینے! حرام خور! .... میں تمہیں بیس سال کی سزا دیتا ہوں۔’’


حقیقت پسند  کہانیوں، جدید مختصر افسانے  کا باوا آدم  

ہنری موپاساں  ۔1850ء تا  1893  ء  


ہنری موپاساں   Henri René Albert Guy de Maupassant (ہنری رینے البرٹ گوئے دی موپاساں  )  انیسویں صدی کا مشہور فرانسیسی مصنف تھا ۔ اسے جدید مختصر فسانے کا بابا آدم کہا جاتا ہے۔  موپاساں 5 اگست 1850ء  کو  دیپ Dippe کے قریب Chateau of Maupassant میں پیدا ہوا۔ موپاساں نے Yvetot اور Iycee میں تعلیم پائی۔ جوانی کے ایام میں وہ مناظر فطرت سے بہت قریب رہا جن کا ذکر اسکے  ناولوں میں محفوظ ہے۔ وہ بحریہ کے محکمہ میں ملازم ہوا لیکن کلرکی کے کام سے اسکی دلچسپی برائے نام تھی کیونکہ وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ کشتی رانی اور گستائے فلابیر کے گھر پر منعقد ہونے والے ادبی جلسوں کی شرکت میں گزارتا تھا۔1871 اور 1880 کے درمیان موپاساں نے کچھ نظمیں موزوں کر کے پیشہ ورانہ طور پر لکھنےکا آغاز کیا۔ اسی سال اس گمنام مصنف نوجوان نے"Boule de Suif" پیش کر کے ایک طباع اہل قلم کی حیثیت سے اپنے آپکو روشناس   کرالیا۔ دوسرے ناول "La Maison Telliet" نے یہ مستقل تاثر دیا کہ موپاساں گہرے مشاہدے اور جچے تلے اسلوب بیان کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔ بعد ازاں 1880 سے 1891 تک اسکے کئی مختصر افسانے شائع   ہوئے۔ مجموعی طور پر اس نے تین سو مختصر افسانے اور چھ ناول لکھے ہیں۔ یہ تمام تخلیقات شدید جذباتی داستانوں کے لاجواب نمونے تھے جن کی کامیابی نے موپاساں کے لیے شہرت کے دروازے کھول دیے اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے بادبانی کشتی خریدی اور اپنے بحری سفر کی روداد بھی لکھی ہے۔1891 تک نشہ   کی وجہ سے وہ پہلے ہی اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہوا پھر توہمات نے اسے آن گھیرا، بالآخر ہو پوری طرح مفلوج ہو گیا۔ جنوری 1891 میں اس نے خودکشی کی کوشش کی اور 6 جولائی 1893 میں بڑے دردناک حالات میں سینی ٹوریم میں دم توڑ دیا۔    
موپاساں فطرت پسند مصنفین (Naturalists) میں سے تھا۔ وہ اپنی غیر معمولی بصیرت اور عمیق مشاہدہ کیوجہ سے بےمثال آرٹسٹ مانا جاتا ہے کیونکہ حقیقت میں اسکے پاس آرٹ کے نظریات نہیں تھے اور وہ اخلاقی و سماجی تعصبات سے  بھی پاک تھا۔ اس نے زندگی کو جیسا دیکھا ویسا ہی پیش کیا۔ اس نے بےرحم ظالموں اور چالاک لوگوں سے بھری ہوئی ایک دنیا دیکھی۔ اس نے تباہی، بربادی اور سرابوں کے پرفریب نظارے دیکھے۔ بہرحال موپاساں ادب کا سب سے زیادہ سچا اہل قلم ہے۔ جسکا اسلوب سادہ اور مؤثر ہے۔ اس نے زندگی کو بڑی گہرائی سے دیکھا اور اسکی تصویر بہت ہی صاف اور متعین اسلوب میں کھینچی ہے اور خود کو مکمل فن کار ثابت کر دکھایا ہے۔ 

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں