اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

کالی بونی دیواریں 

‘‘افراد کی ڈھکی چھپی الائشیں دیکھنا اور ماتھے پر بل نہ لانا ، کتنی مشکل بات ہے ! گندگی بُودار حقیقتوں کو دیکھ کر دل میلا نہ کرنا۔ یوں رہنا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ اگر ایسے بزرگ ہیں ، تو یقیناًوہ سمندر ہوں گے جن میں لاکھوں الائشیں پڑی ہیں مگر،  ناپاک نہیں ہوپاتا ۔’’

پراسرار اور ماورائی علوم سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے عجیب و غریب اور محیر عقل   کہانی   ممتاز مفتی کے قلم سے 




ابھی پیر سائیں نے بات شروع ہی کی تھی کہ پیچھے سے آواز آئی : ‘‘ نہ سائیں نہ ۔ یہ ظلم نہ کیجئے۔’’ سب کی نگاہیں پیچھے کی طرف اُٹھ گئیں ۔ یہ کون شخص ہے جو سائیں کی بات کاٹنے کی جسارت کررہا ہے ۔ پیر سائیں کے حضور بات کرنے کی تمیز نہیں رکھتا ۔ پیر صاحب کشف بزرگ تھے ۔ آپ جانتے ہیں کہ سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ صاحب کشف ہو۔ پیر سائیں بڑی دنوں کے بعد ہمارے قصبے میں آئے   تھے اور  چودھری صاحب نے اپنی بیٹھک میں محفل کا انتظام کیا تھا۔ سارے قصبے والے پیر سائیں کے عقیدت مند تھے۔ ان حالات میں کسی کا محفل کو یوں روہم برہم کردینا اہلِمحفل کے لیے بے حد تکلیف دہ تھا ۔ حاضرین کی غصے سے بھری ہوئی نگائیں پیچھے کی طرف اُٹھیں پچھلی قطار میں ایک اجنبی کھڑا تھا ۔ پتلا دبلا، زرو رو، بڑی بڑی چھلکی چھلکی آنکھیں جیسے باہر کی بجائے اندر کی طرف دیکھنے والی ہوں۔ ان آنکھوں میں شوخی نہ تھی شرارت نہ تھی ۔ چمک نہ تھی وہ تو گویا جذب کر لینے والی آنکھیں تھیں پی جانے والی۔
اجبنی کے انداز میں جسارت نام کو نہ تھی۔ اداسی تھی بے کسی تھی ۔ پر اسرار سا خوف طاری تھا ۔ خوف اور گھبراہٹ ۔ کون ہے یہ میں نے سوچا اتنا بے بس بھی اور اتنی جسارت ۔ پھر میری نگائیں پیر سائیں کی طر ف اُٹھ گئیں ۔ وہ سرجھکائے بیٹھے تھے۔ ہونٹوں پر روواری بھری ہلکی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔کچھ دیر وہ چپ چپ بیٹھے رہے ۔ پھر انہوں نے بڑی شفقت سے سر اٹھایا بولے :‘‘ہم ظلم تو نہیں کررہے میاں !’’
 اجبنی نے سر اٹھا کر جھکی جھکی نگائیں سے کہا ،‘‘پیر سائیں! جو ہونے والا ہے اس پر سے پردہ اٹھا نا ظلم عظیم ہے۔ جو ہونے والا ہے ، اسے پہلے سے جاننا بہت بڑا عذاب ہے چاہئے اس کی نوعیت المیہ ہویا طربیہ.... اللہ کا بڑا کرم ہے کہ اس نے مستقل پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ یہ بہت بڑی ر حمت ہے ۔ بہت بڑادین ہے ۔ اس دین کو ہم سے نہ چھینے حضور !’’ اس کی آواز میں ایسی ٹوٹ تھی جیسے بال زرہ پیالی کی آواز ہوتی ہے اس کے انداز میں بلا کر منت تھی‘‘یہ میری ایک استدعا ہے ۔’’ وہ گنگنایا ‘‘اسے شرف قبولیت بخشیش ، تو کرم فرمائی ہوگی’’ یہ کہہ کر اجبنی چپ ہوگیا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی طاری رہی۔
پیر سائیں خود سر جھکائے بیٹھے تھے ۔وہ گہری سوچ میں پڑے تھے اور انجانے میں چٹائی کے ایک تنکے کو کرید رہے تھے ۔ دفعتاً انہوں نے سر اٹھایا اور اجبنی کی طرف دیکھ کر فرمایا : ‘‘میاں آپ کو مشاہدہ ہوا ہے کیا !’’
‘‘ جی’’اجنبی نے جھکے جھکے سر سے جواب دیا ۔ ‘‘حضور ! تین سال میں نے جگہ جگہ درگاہوں پر حاضری دی ہے ۔ بزرگوں کی خدمت میں حاضری دی ہے ۔ ہر جگہ منتیں کیں ، آہ وزادی کی ، دعائیں مانگیں یا باری تعالیٰ مجھے مستبقل کی جھلکیوں سے محفوظ فرما، مجھے اس عذاب سے نجات دے ! مجھ پر رحم کر ! میں ہونے والے واقعات کو جاننے کی آرزو نہیں رکھتا ۔ یا اللہ! مستقبل کو نہ جاننا یاایک عظیم نعمت ہے مجھے اس نعمت ِسعید محروم نہ کر ’’
محفل پر گہری خاموشی طاری ہوگئی ۔
اہل محفل کا غصہ کا فور ہوچکاتھا ۔لوگ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اجنبی کی طرف دیکھ رہے تھے ۔
***
اس رات مجھے نیند نہ آئی ۔ کیسے آتی ؟ میرے واحدشغل کا محل جو میں نے گزشتہ بیس سال میں اینٹ اینٹ تعمیر کر رکھا تھا دھڑام ہے زمین پر گر گیا تھا ۔ مجھے زندگی میں صرف ایک ہی شوق ہے ۔مستقبل کے متعلق جاننا۔ عجیب سا شوق ہے یہ اس کی نوعیت سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر ذات کے بارے میں جاننے کا شوق ہوتا ،تو عام سی بات ہوتی ۔ نہیں مجھے اپنی زندگی کے بارے میں جاننے کا شوق نہیں ۔ مجھے تو دنیا کا مستقبل جاننے کا چسکا پڑا ہوا ہے۔  امریکہ میں کیا ہوگا ؟ چین میں کیا تبدیلی رونما ہوگی ؟ بھارت کا کیا انجام ہوگا ؟ اس سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کا کیا بنے گا ؟ خیر پاکستان تو میرا وطن ہے ، اس کے بارے میں تشویش توقدرتی بات ہے ۔ مجھ سے کوئی پوچھے کہ میاں چین کا تو چاچا لگتا ہے کیا جو اس کے متعلق فکر مند ہے ۔ یہ سارافساد کیرو کا برپا کیا ہوا ہے ۔ نوجوانی میں اتفاقاً کیروکی وہ کتاب میرے ہاتھ لگ گئی جس میں پیدائشی شخصیتوں کا تذکرہ ہے ۔ اس کتاب سے میں بہت متاثر ہوا   اس حد تک کہ افراد کے چہرے اور رخ دیکھ کر انجانے میں اندازے لگانے لگاکہ یہ شخص کس شخصیت کا مالک ہے۔ ترت پھر ت ایری AERIESہے ۔ سینگوں والا کپری کارن CAPRI-CORNہے ۔یا گم صُم پائسزPICES۔ بد قسمتی سے میرے اندازے خاصے درست نکلے۔ نہ نکلتے تو شوق میں اضافہ نہ ہوتا ۔ بہرحال میں نے مطالعہ کے لیے اسٹرالوجی کے دو ایک یورپی رسالے لگوالیے اور انہیں باقاعدگی سے پڑھنے لگا ۔ ان رسالوں عالمی پیشین گوئیاں ہوتی تھیں ۔ یوں مجھے عالمی پیشین گوہیوں سے دلچسپی ہوگئی ۔ پھر میں نے SEERSکے بیانات پڑھنے شروع کر دیے ہالینڈ کے CROSETکی سوانح پڑھی ۔ امریکہ کی جین ڈکسن کی کتاب پڑھی ۔ اسرائیل کے اُوری کے مشاہدات پڑھے ۔
اس کے بعد مجھے بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہونے کا شوق پیدا ہوا ۔ بزرگوں سے مستقبل کے متعلق پوچھنے کی تو مجھے کبھی جرأت نہ ہوئی ، لیکن ان کے ارشادات میں یہاں وہاں کہی ان کہی مستقبل کی جھکیا ں عطا ہوتی رہیں اور میں انہیں دیوانہ وار اکھٹا کرتارہا ۔
علم بخوم کے پرچوں میں دنیا کے سارے سرکر وہ منجم یک زبان ہوکر رہے تھے کہ چودھویں ہجری کے اختیام پر 1980ء کے بعد دنیا پر ایک عظیم انقلاب آنے والا ہے جسے مغرب کے منجم گولڈن ایج کے نام سے منسوب کرتے تھے ایک ایسا دور جب دنیا پر سکون، امن، ایمان اور بھائی چارے کا دور دورہ ہوگا۔  ان کا کہنا تھا کہ آسمانوں پر ابھی سے مبارک ستاروں کے جھر مٹ لگنے شروع ہوگئے ہیں جو گولڈن ایچ کی آمد کے شاہد میں ۔ جین ڈکسن نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوچکا ہے جس میں نیکی کی اس قدر صلاحیت موجو د ہے جو پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئی ۔  بزرگوں کی باتوں سے اخذ ہوا کہ پاکستان کا ستارہ اتنا درخشاں ہوگا کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی ۔ چین کی عظیم کابیابی کے ساتھ ہی اس کے قلب میں ایک عظیم تبدیلی واقع ہوگی ۔ ایران گھوڑے پر بیٹھے گا ۔ بھارت میں آپا دھاپی کا طوفان آنے والا ہے بنگلہ دیش کٹ کر قریب آجائے گا ۔ صرف یہی نہیں ایسی بیسیوں باتیں میں نے ذہن میں اکٹھی رکھی تھیں ۔ مستقبل کے متعلق میرے ذہن میں ایک ایوان تعمیر ہوچکاتھا ۔ ذرا سوچیے تو اگر کسی نے مستقبل کا اتنا بڑا ایوان تعمیر کر رکھا ہواور ایک گمناکم اجنبی اسے ایک لات مار کر گرادے ، تو کیا ہو؟....
اس رات مجھے نیند کیسے آتی بھلا ، بڑی مشکل سے رات بیتی ۔ صبح سویرے ہی میں باہر نکل گیا تاکہ اجبنی کا پتہ لگاؤں ۔ میری خواہش تھی کہ اس کی آپ بیتی سنوں ۔ پوچھ گچھ کے بعد پتہ چلا کہ اجنبی ، چودھری صاحب کے چھوٹے بھائی کا دوست ہے ۔ جو گاؤں میں چند روز سیروتفریح کے لیے آیا ہے ۔ چودھری صاحب کے ڈیرے پر پہنچا ،تو معلوم ہوا کہ چھوٹے چودھری صادق اپنے دوست کے ساتھ واپس لاہور جا چکے ہیں ۔ یہ خبر سُن کر مجھے بہت صدمہ ہُوا ۔ اسی وقت لاہور روانہ ہو جاؤں چند ایک مجبوریاں نہ ہوتیں تو میں اسی وقت لاہور چلا جاتا ۔
ایک مہینے کے بعد لاہور پہنچا ، تو چودھری صاحب سے پتہ چلا کہ ان کا دوست سلیم ملازمت کے سلسلے میں کہیں باہر چلا گیا ہے ۔یہ خبر سن کر مجھے بہت افسوس ہو الیکن میں کر ہی کیا سکتا تھا ؟ دل پر جبر کرکے بیٹھ گیا ۔ پھر آہستہ آہستہ بات میرے ذہن سے نکل گئی ۔  اسی سال گرمیوں میں ہم چار دوستوں نے کاغان جانے کا پروگرام بنایا ۔ ناران میں ہمیں کینال ریسٹ ہاؤس میں جگہ مل گئی ۔ صبح جب میں بیدار ہو، تو منظر دیکھنے کے لیے کھڑکی جا کھڑا ہوا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے ریسٹ ہاؤس کے باغیچے میں وہ بیٹھا ہے ۔ وہی اجنبی، چودھری صادق کا دوست سلیم خوشی سے میرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے ۔
سلیم ایک مخلص آدمی نکلا،  اس نے میری درخواست منظور کر لی ۔ اسی رات ہم چاروں دوست اصغر ، امجد ، رشیداور میں ریسٹ ہاؤس کے برآمدے میں بیٹھے سلیم کی انوکھی آپ بیتی سن رہے تھے ۔
‘‘ہاں ’’ سلیم بولا ....‘‘پتہ نہیں کیوں مسلسل تین سال مجھ پر یہ افتاد پڑی رہی ۔ تین سال مجھے مستقبل کیا جھکیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ میں نے کبھی یہ خواہش نہ کی تھی کہ مستقبل کو جانوں ۔ میں نے یہ طاقت حاصل کرنے کے لیے کوئی وظیفہ نہ پڑھا تھا ۔ جنتر منتر نہ پڑھا تھا ۔ الٹا مجھ پر تو مصیبت پڑ گئی ۔ آپ اس کا اندازہ نہیں کر سکتے کہ جو ہونا ہے اسے پہلے ہی جان لینا کتنا تکلیف وہ ہے۔ ’’
سلیم خاموش ہوگیا ۔ ہم چاروں دوستوں کی توجہ سلیم پر مرکوز تھی ۔ ریسٹ ہاؤس اندھیرے میں لپٹا ہوا تھا۔ سامنے درختوں کے پتے سر گوشیاں کر رہے تھے ۔ پرے سیاہ پہاڑوں کی ڈراؤنی دیواریں کھڑی تھیں ۔ دریائے کنارے کی آوازیوں سنائی دے رہی تھی جیسے وادی کسی انجانی افتاد تلے چیخ رہی ہو، چلا رہی ہو۔ سلیم نے ایک لمبی آہ بھری کہنے لگا : ‘‘سب سے پہلے اس کا مشاہدہ اس وقت ہوا جب میں ہسپتال میں تھا ۔ ہسپتال میں بیماری کی دجہ سے نہیں گیا تھا ۔ سر پر معمولی سی چوٹ لگی تھی ۔ ایسی چوٹیں لگتی رہی رہتی ہیں ۔ کبھی ہسپتال نہیں گیا ۔ لیکن میرے والدین نے زبردستی مجھے ہسپتال بھیج دیا تھا ۔ ’’
‘‘زبردستی ؟’’ رشید نے دہراتا ۔ ‘‘ہاں زبردستی .... ہمارے گھر میں دو سال پہلے ایک حادثہ ہو چکا تھا ۔ میر ا بڑا بھائی کلیم ، اسپورٹس مین تھا ۔ ایک روز سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اس کا پاؤں پھسل گیا اور سر دیوار سے ٹکرا گیا ۔ معمولی سی چوٹ لگی ......دس پندرہ منٹ کے بعد وہ ٹھیک ہوگیا ۔ کچھ دیر وہ ہمارے پاس بیٹھا رہا پھر سونے کے لیے اپنے کمرے چلا گیا ۔ اگلے روز جب امی ناشتے کے لیے اسے بلانے گئی تو دیکھا کہ وہ بستر پر مرا پڑا ہے ۔’’
‘‘ارے !’’ انجانے میں ہم سب چونک گئے ۔
دو سال کے بعدمجھے چوٹ لگی ، تووہ گھبرا گئے ۔ اتفاق سے مجھے بھی چوٹ سر پر لگی تھی، اسی جگہ جس جگہ بڑے بھائی کو لگی تھی ۔ اس پر امی ابا خوفزدہ ہوگئے اور انہوں نے زبردستی مجھے ہسپتال بھیج دیا ۔ سفارش پر ڈاکٹر نے مجھے انڈرآبزرویشن رکھ لیا ۔ ہسپتال کے جس کمرے میں تھا وہاں ایک اور مریض بھی تھا ۔ مریض نہیں وہ بھی انڈرآبررویشن تھا ۔ اس کا کوئی خصوصی ٹیسٹ لینا تھا جس کے لیے اس کا اڑتالیس گھنٹے ہسپتال میں رہنا ضرورتھا ۔ وہ پروفیسر تھا اس لیے پلنگ پر پڑا  پڑھتا رہتا تھا ۔ لیٹے لیٹے مجھے آواز سی آئی جیسے کتاب گری ہو۔ میں نے مڑ کر پروفیسر کی طرف دیکھا ۔ کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر مرا پڑا ہے ۔ منہ کھلا ہے آنکھیں بند ہیں ، بازو لٹک رہے ہیں ، کتاب پلنگ سے نیچے گری ہوئی ہے ۔ اسے دیکھ کر میں گھبرا گیا ۔ اسی وقت برآمدے سے نرس گزر ی ، تو میں نے اسے آواز دی۔ وہ آئی ، تو میں نے اس کے قریب ہوکر پروفیسر کی طرف اشارہ کرکے زیر لب کہا ۔ وہ مرگیا ہے ۔ نرس، اس کی لاش یہاں سے اٹھوا دو ۔ نرس بھاگی بھاگی پروفیسر کی طرف گئی ۔ پھر مجھے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی ۔ نر س کچھ پوچھ رہی تھی پتہ نہیں کس سے کچھ دیر کے بعد نرس میرے پاس آئی ۔ وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی ۔ آتے ہی اس نے میری نبض دیکھی، پھر بلڈپریشر لیا ۔ وہ مجھے تشویشناک نگاہوں سے دیکھتی رہی ۔ پھر بولی : ‘‘یُو او کے مسٹر!....’’ میں نے کہا ‘‘ میں او کے ہوں ،  وہ مرگیا ہے ، آنکھیں بند ہیں ، منہ کھلا ہے ، ہاتھ لٹک رہے ہیں ، کتاب نیچے گری ہوئی ہے۔’’ نرس کی آنکھیں گویا ابل کر باہر نکل آئیں۔ بولی میں ابھی ڈاکٹر کولاتی ہوں ۔ آپ سیدھے لیٹے رہیں۔ ہلیں جلیں نہیں ۔ یہ کہتے ہوئے وہ باہر کی طرف بھاگی ۔ دراصل چونکہ یہ میرا پہلا مشاہدہ تھا۔ مجھے پتہ نہ تھا کہ میں پروفیسر کا حال نہیں ، بلکہ مستقبل دیکھ رہا ہوں ۔ مجھے پتہ نہ تھا کہ پروفیسر ابھی بھلا چنگا ہے ، نرس سمجھی تھی کہ میرے حواس جواب دے رہے ہیں مجھے ہیلوسی نیشن ہو رہا ہے۔  پانچ چھ منٹ کے بعد وہ ڈاکٹر کو ساتھ لیے لوٹی ۔ ڈاکٹر آتے ہی میری نبض ٹٹولنے لگا ۔ پھر میری آنکھیں الٹا کر دیکھنے لگا۔   عین اس وقت نرس کی نگاہ پروفیسر پر پڑی ۔ پروفیسر مر ا پڑا تھا ، آنکھیں بند تھیں ، منہ کھلاتھا ، ہاتھ لٹک رہے تھے اور کتاب نیچے گری ہوئی تھی ۔ اس کے منہ سے ایک چیخ سی نکلی ،اس نے پروفیسر کی طرف اشارہ کیا ۔ پھر ڈاکٹر اور نرس دونوں پروفیسر کو اسٹریچر پر ڈال کر لے گئے ۔
شام کو ڈاکٹر اور نرس دونوں میرے پاس آئے ۔ دونوں خاصے گھبرائے ہوئے تھے ۔ انہوں نے مجھ پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی ۔ پھر بھی میں بات نہ سمجھا ۔ میں نے کہا ‘‘ڈاکٹر ! سیدھی بات ہے میں نے لیٹے لیٹے آواز سنی جیسے کتاب زمین پر گری ہو۔ مڑ کر دیکھا تو پروفیسر مرا ہواتھا ۔ آ نکھیں بند تھیں ، منہ کھلا تھا ، ہاتھ لٹک رہے تھے اور کتاب زمین پر گری ہوئی تی ۔ میں نے نرس کو بلایا اور سے بتایاکہ کتاب زمین پر گری ہوئی تھی میں نے نرس کو بلایا اور اسے بتایا کہ پروفیسر مر گیا ہے۔’’ میری بات پر نرس چلائی ۔ بولی ‘‘جس وقت انہوں نے مجھے بتایا تھا اس وقت تو پروفیسر اچھا بھلاتھا۔لیٹے لیٹے پڑ ھ رہا تھا اس نے مجھ سے باتیں بھی کی تھیں۔’’ میں اس کا کیا جواب دیتا۔میں نے کہا۔ ‘‘اچھا مجھے نہیں پتہ ۔’’
نرس ڈاکٹر سے کہنے لگی ۔ ‘‘الٹا مجھے تو ان کے متعلق تشویش پیدا ہوگئی تھی ۔ میں نے ان کی نبض دیکھی ۔ بلڈ پریشر دیکھا ۔ سب کچھ نارمل تھا ۔ پھر ہیلوسی نیشن سمجھ کر میں گھبرا کر آپ کو بلانے چلی گئی اور جب آپ آئے تومیں نے وہی منظر دیکھا ۔ پروفیسر مرا پڑا تھا ۔ آنکھیں بند تھیں ، منہ کھلا تھا ، بازو لٹک رہے تھے اور کتاب نیچے گری ہوئی تھی ۔’’
اگلی صبح باری باری سارے ڈاکٹر آکر مجھ سے پوچھتے رہے ۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ کوئی گڑ بڑہے ۔ پھر مجھے یا دآیا کہ پروفیسر کو دیکھنے سے پہلے میں نے ایک عجیب سا احساس محسوس کیا تھا ۔ پہلے تو سارے بدن پر سوئیاں سی چھبی تھیں ۔ پھر ایک جھنجھنا ہٹ سی ہوئی تھی ایسے لگا تھا جیسے میں جھنجھنا ہوں اور کوئی مجھے بجا رہا ہے۔ یہ کہہ کر سلیم خاموش ہوگیا ۔
اس وقت ہم سب پر عجیب سی کیفیت طاری تھی ۔ ہم سب اس ڈراؤنے اندھیرے میں یوں بج رہے تھے جیسے جھنھنے ہوں ایسے محسو س ہو رہا تھا جیسے دریا کی آواز ہمارے اندر سے ابھر رہی ہوں جیسے وہ سار امنظر ہو اندھیرا ، وہ آواز وہ کالی بولی دیواریں ہمارے اندر کا ایک حصہ ہوں ۔ سلیم نے بات شروع کی ، تو ہم چونک پڑے۔ ‘‘دوسری مرتبہ مشاہدہ ہوا ، تو بات واضح ہوکر سامنے آگئی۔  اس وقت میں ایک بس میں سوار تھا ۔ جب یہ کیفیت مجھ پر طاری ہوئی ۔ اس روز مجھے ضروری کا م سے شاہد رہے جانا تھا ۔ بس میں جگہ نہ تھی میں زبردستی چڑھ گیا اور پائیدان پر کھڑا ہوگیا ۔ جب بس شاہی مسجد کے قریب پہنچی ، تو میرے بد ن میں سوئیاں چھبنی شروع ہوگئیں ۔ جھنجھنا بجنے لگا ، لیکن ابھی مجھے یہ شعور نہ ہوا تھا کہ یہ کیفیت پردہ اٹھنے کا پیش خیمہ ہے ۔ پھر جو میں نے سڑک کی طرف دیکھا ، تو کیا دیکھتا ہوں کہ آگے پچاس گز کے فاصلے پر ہماری ہی بس جارہی ہے ۔ معاً ایک ٹرک سائیڈ روڈ سے مین روڈ پر آیا اور ہماری بس سے ٹکرا گیا ۔ ایک دھماکا ہوا اور پھر چیخیں سنائی دیں ۔ مجھ پر خوف طاری ہوگیا ۔بغیر جانے بوجھے میں نے بس سے چھلانگ لگا دی ۔ خوش قسمتی سے اس وقت بس بہت آہستہ چل رہی تھی۔مجھے معمولی سی چوٹ آئی ۔ چکرآیا اور پھر سنبل کر کھڑا ہوگیا ۔پھر ایک دھماکے کی آواز آئی ۔میں نے سرُ اٹھا کر دیکھا ۔ پچاس گز آگے عین اسی مقام پر بس ٹرک سے ٹکرا چکی تھی ۔ ایک کہرام مچا ہوا تھا ۔ اس وقت میں نے جانا کہ یہی وہ منظر تھا جو میں نے ایک منٹ پہلے بس کے پائیدان پر کھڑے ہوئے دیکھا ۔اس روز پہلی مرتبہ مجھے اس بات کا شعور ہوا کہ میں مستقبل کی جھلکیاں دیکھتا ہوں۔ اس احساس پر میرا دل ڈوبنے لگا ، حالانکہ مجھے خوش ہونا چاہئے تھا .....اگر مجھے ایکسیڈنٹ کی پہلے سے خبر نہ، ملتی ، تو یا تو میں مر جاتا یا بری طرح سے زخمی ہوجا تا ۔ پھر پتہ نہیں کیوں مجھے کوئی خوشی محسوس ہوئی الٹا اپنے آپ سے خوف آنے لگا ۔ اس روز میں نے جانا کہ ایک ماہ پہلے ہسپتال میں جب میں نے پروفیسر کو مرے ہوئے دیکھا تھا اس وقت وہ مرا ہوا نہیں تھا ۔ اس روز مجھے اس بات کا بھی شعور ہوگیا کہ مستقبل کی جھلکی دیکھنے سے پہلے مجھ پر ایک مخصوص کیفیت طاری ہوجاتی ہے جسم میں سوئیاں سی چھبتی ہیں اور پھر جھنجھنا سا بجتا ہے ۔ ‘‘
ہم چاروں دوست اس وقت جھن جھنے کی طرح بج رہے تھے ۔ میں تو ایسے محسوس کر رہا تھا کہ ابھی اس کالے  اندھیرے میں دیوار کی ایک کھڑکی کھل جائے گی اور اس کھڑکی سے ایک منظر ہماری طرف جھانکنے لگا اور ساری وادی پر موت کا ساسکوت طاری ہوجائے گا۔ محفل پر گہری خاموشی طاری تھی ۔ کنہار کی گھمر گھمر اسے اور بھیانک بنا رہی تھی ۔ سلیم سر جھکائے خاموش بیٹھا تھا .....صدیاں بیت گئیں ۔پھر سلیم کی پھٹی پھٹی آواز سنائی دی ۔‘‘اس واقعے کے بعد میں خوفزدہ ہوگیا ۔ آپ اندازہ نہیں لگا سکتے کہ میں کس قدر خوفزدہ تھا ایسے لگتا تھا جیسے میرے دل پر ایک بوجھ پڑا ہو۔ ایک گھٹن تھی ۔ جسم پرذرا بھی خاموش ہوتی یا سرسراہٹ سی محسوس ہوتی ، تو میں چونک اٹھتا ۔ خوف سے برا حال ہوجا تا ۔ کہیں وہی کیفیت نہ ہو۔ گھر والے میری حالت دیکھ کر حیران تھے، فکر مند تھے ۔ امی با ر بار پوچھتیں،  کیا ہے تجھے سلیم ! یہ تجھے کیا ہوگیا ؟.... ابا پوچھتے،  بھئی کوئی بات ہے تو ہمیں بتاؤ ۔ بہن بڑے غور سے ٹکٹکی باندھ کر مجھے تکتی رہتی ہے۔ وہ کچھ کہتی نہ تھی ۔ مگر اس کی خاموش نگاہیں اتنا کچھ کہتیں ، اتنا کچھ پوچھتیں کہ مجھے پسینہ آجاتا ۔
کئی بار مجھے خیال آتا کہ امی سے ساری بات کہہ دوں۔ وہ ایک بار کہتے کہتے رک گیا ۔ بیچاری پہلے اگز ایٹی کی مریضہ ہے ۔اُسے ایک اور روگ کیوں لگاؤں ۔
بس کے حادثے کے بعد دو تین مہینے گزر گئے ۔ پھر ایک رو زجب میں اوپرکی  منزل پر اپنے کمرے میں لیٹا کچھ پڑھ رہا تھا ، تو ایک دم دورہ پڑگیا ۔ جسم میں وہی سرسراہٹ وہی سوئیاں ۔ جھنجھنا بجنے لگا۔ میں نے زور سے آنکھیں بند کرلیں ، لیکن بند آنکھیں کے باوجود مجھے کمرہ صاف دکھائی دے رہا تھا ۔ اس پر میں ہکا بکارہ گیا ۔ پھر میں نے اپنا سر سرہانے میں گاڑ دیا ۔ پھر بھی میری آنکھوں کے سامنے وہی کمرہ تھا ۔ اس کی ہر تفصیل سامنے تھی ۔ دونوں کھڑکیاں کھلی تھیں ۔ دونوں پلنگ صاف نظر آرہے تھے ۔ بے کار ہے بیکار رہے ! میں تڑپ کر اٹھ بیٹھا ۔ آنکھیں کھول دیں ۔ مجھ میں ایک انجانی سپردگی پیدا ہوگئی ۔ اگر دیکھنے سے مفر نہیں ، تو ٹھیک ہے !
عین اس وقت ہوا میں تیرتا ہو ا ایک تابوت آیا۔ کھڑکی سے اندر داخل ہوا اور پھر آرام سے دوسرے پلنگ پر ٹک جو میرے پلنگ سے پانچ چھ قدم سے کونے میں لگا ہوا تھا ۔ضرور اس گھر میں کوئی موت ہونے والی ہے ۔ مجھے خیال آیا ، مگر کس کی ؟ گھر میں ہم پانچ افراد تھے ۔ امی ابا، بہن میں اور نوکر انی ۔ کون ؟ میرے ذہن پر ہتھوڑے بجنے لگے ۔ بھاگ کر میں باورچی خانے چلا گیا ۔ وہاں ان بہن اور آمنہ نوکرانی تینوں کام میں مشغول تھیں ۔ پتہ نہیں اس وقت میں کیسی نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا کہ مجھے دیکھ کر وہ گھبرائیں ۔خیر  تو ہے امی بولی ۔ خیر نہیں دِکھتی بہن نے زیر لب کہا ۔ آمنہ پھٹی پھٹی آنکھوں مجھے دیکھ رہی تھی ۔ گھبرا کر میں وہاں سے بھاگا ۔ بازار میں ایک واقف کارکی دکان سے ابا کو فون کیا ۔ ابا جان آپ خیریت سے تو ہیں ۔ یہ بات سن کر الٹا ابا گھبرا گئے میں جھٹ فون بند کردیا ۔ پھر میں بازار میں بے مقصد گھوم رہا تھا ۔
پھر جو مجھے ہوش آیا ، تو شہر سے باہر قبرستان میں بیٹا تھا ۔شام کو جب میں گھر پہنچا ، تو وہاں بھی گھبرائے ہوئے تھے ۔ میری ڈھونڈ مچھی ہوئی تھی ۔ سب باری باری مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ خیر تو ہے ۔ ادھر میں باری باری ان کو غور سے دیکھ رہا تھا کہ کون خیریت سے نہیں ہے کون؟.... اس رات میں ہر آہٹ پر چونک ا ٹھتا ۔ پوچھتا خیر تو ہے میری اس پر یشان حالی پر وہ سب گھبرائے ہوئے تھے۔  اس رات امی دبے پاؤں مجھے دیکھنے آئی ۔ مختصر یہ کہ سارا گھر پریشان حال تھا ۔دو دن گزر گئے ۔ کچھ بھی نہ ہوا ۔ جان کنی کے عذاب میں مبتلا رہا ۔  تیسرے روز گاؤں سے چچا آگئے ۔ انہیں شہر میں کوئی کام تھا ۔ چچا بڑے رنگین مزاج واقع ہوئے ہیں ان کے آنے سے گھر میں رونق کی ایک لہر دوڑ گئی اور وہ گھٹن دو رہوگئی ۔چچا سارا د ن مجھ سے گپیں ہانکتے رہے ۔ جب رات پڑی اور امی نے اسی پلنگ پر چچا کا بستر میرے پلنگ پر بھچا دیجئے ۔ کونے والے پلنگ پر میں سوؤں گا ۔ ابھی ہم اس بات پر بحث ہی کررہے تھے کہ چچا آگئے ۔ انہوں نے مجھے ڈانٹا بولے : میں ہمیشہ کونے والے پلنگ پر سوتا ہوں ، مجھے یہاں آرام رہتا ہے ۔ اب میں کیا کہتا چپ ہورہا ۔ آدھی رات کے وقت چچا کے سینے میں درد اٹھا ۔ ڈاکٹر کے آنے سے پہلے وہ فوت ہوچکے تھے۔ اگلی صبح اسی پلنگ پر چچا کی لاش پڑی تھی ۔ ’’
‘‘آپ کے تابوت دیکھنے سے کتنے دن بعد ؟’’ امجد نے پوچھا ۔ ‘‘تین دن بعد’’۔ سلیم نے جواب دیا ‘‘یہ نقطہ تو بعد میں کھلاکہ مستقبل کی جھلکی جو میں دیکھتا تھا اس میں اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی تھی کہ وہ مستقبل قریب کی جھلکی ہے یابعید کی ......وہ منظر چند ساعتوں میں رونما ہونے والا ہے چند دنوں میں ، مہینوں میں ، سالوں میں یا صدیو ں میں صرف یہی پتہ چلا تھا کہ یہ ہونے والا ہے کب ہونے والا ہے ؟ اس کا پتہ نہیں چلتا تھا ۔’’  رشید بولا ۔ ‘‘حیرت کیا بات ہے !’’
سلیم بولا ’’ ‘‘حیرت نہیں ۔مصیبت .... اگر آپ کو پتہ چل جائے کہ آپ کے گھر میں کوئی مرنے والا ہے، تو پھانسی لگ جائیں گے چاہے مرنے والا دس سال کے بعد مرے ۔عمرِ طبعی پر پہنچ کر مرے ۔ ’’
‘‘یہ تو بڑی تکلیف دہ بات ہوئی ۔ ’’ اصغر سی سی کرنے لگا جیسے اسے بہت کچھ برداشت کرنا پڑرہا ہے ۔‘‘پھر ؟’’ ان جانے میں میرے منہ سے نکل گیا ۔
‘‘پھر حالات نے اس سے بھی زیادہ خوفناک شکل اختیار کر لی’’ یہ کہہ کر سلیم رک گیا ۔سامنے پہاڑوں کی سیاں دیوار کے ایک جھرو کے میں میلا میلا پیلا چاند ٹنگا ہوا تھا ۔ عجیب سا چاند تھا وہ جیسے اسے چاندنی سے محروم کر دیا گیا ہو۔سلیم نے ایک لمبی آہ بھری ۔ بولا :‘‘اب تک تو صرف آنے والے حادثات کی جھلکیاں دکھائی دیتی تھیں۔ اب افراد کے باطن کی جھلکیاں ، احساسات کی صورت میں نظر آنے لگیں ۔ پہلے روز بستر پر لیٹے لیٹے میں نے بُو کا ایک ریلا محسوس کیا جیسے گندگی ڈھیر لگا ہو۔ وہ بُو اس قدر شدید تھی کہ میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا ۔ سونگھتا سونگھتا نیچے اتر گیا۔ ڈرائنگ روم سے بُو کا ایک بھجھا کا آیا ۔ اندر داخل ہوا ، تو ایک اجنبی ابا جان کے پاس بیٹھا تھا ۔ جب اجنبی چلا گیا ، تو میں نے اباسے پوچھا ۔ ‘‘یہ کون صاحب تھے ؟ ’’ابا بولے ‘‘ہم دونوں مل کر بزنس کرنا چاہتے ہیں ۔’’
‘‘نہ نہ نہ ۔’’ میں بے ساختہ چلایا ۔‘‘ ان کے ساتھ کوئی اشتراک نہ کرنا ابا جی !’’....‘‘ کیوں ؟’’ ابانے پوچھا ۔
‘‘یہ اچھا آدمی نہیں۔’’ میں نے جوا ب دیا ۔ ‘‘تم انہیں جانتے ہوکیا ؟’’ ابا نے پوچھا، ‘‘نہیں۔’’ میں نے بڑی معصومیت سے کہا ۔ابا نے ایک زبردست قہقہہ لگا یا ۔ تحقیر بھر اقہقہہ۔میں شر م سے پانی پانی ہوگیا اور باہر کی طرف بھاگا ۔ اس رات میں سوچتا رہا ۔ وہ بُو کیا تھی ؟ اتنی شدید بُو۔ اور کیا واقعی وہ بُو اس اجنبی سے آرہی تھی ۔ دفعتاً ابا کا قہقہہ سنائی دیا۔ اس قہقہے میں کتنی تحقیر تھی ، کتنی کاٹ تھی ! ساری رات میں اس بُو کے بارے میں سوچتا رہا ساری رات ابا کا قہقہہ بجتا رہا ۔’’ ایک ساعت کے لیے سلیم یوں چپ ہوگیا جیسے وہ ابا کا قہقہہ سن رہا ہو۔
‘‘پھر جلد ہی اسی قسم کا دوسرا واقعہ پیش آیا ۔ میں دفتر جانے کے لیے تیار ہوا ، تو محلے کی ایک خاتون آگئی ۔ اسے میرے دفتر سے متعلق کوئی کام تھا ۔ امی نے مجھے بتایا ۔ میں نے اندر داخل ہوکر خاتون کو سلام کیا ۔ میں نے سر اٹھا یا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے پیٹ سے ایک FOCTUSچمٹا ہوا ہے ۔میں گھبراگیا ۔ ہاں ہاں کر تا رہا لیکن اس کی بات میرے پلے نہ پڑی ۔ جب وہ چلی گئی ، تو میں نے امی سے پوچھا ۔یہ کس کی بیوی تھی ۔ کیوں ؟امی چلائی ۔ اس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے ۔ انجانے میں میرے منہ سے نکل گیا ۔ ہے لڑکے پاگل تو نہیں ہوگیا تو جو بیوہ کے متعلق ایسی کرتا ہے کوئی سن لے گا ، تو کیا کہے گا ؟....میر ا دل بیٹھ گیا ۔یہ میں نے کیا کہہ دیا ۔میرے اندر ایک کہرام مچ گیا ۔ادھر امی بولے جارہی ہے : سارے محلے میں اس کی شرافت کی دھوم ہے ، ساری جوانی بیوگی میں گزار دی ، کبھی آنکھ اٹھاکر کسی سے بات نہیں کی ۔ اتنی پارسا خاتون ہے اور تو کہہ رہا ہے کہ .....وہ خاموش ہوگئیں ۔
‘‘ایسے صاحب نظر بزرگ بھی ہوتے ہیں ۔’’ رشید نے کہا جن کی ایکسرے نگاہ اندر کے آدمی کو دیکھ لیتی ہے ۔  ‘‘یقیناًہوتے ہیں’’۔ امجد بولا ۔ ‘‘شاید ہوتے ہوں ’’۔ سلیم نے کہا ۔ ‘‘مجھے ذاتی تجربہ نہیں ۔میں صرف یہ جانتا ہوں کہ صاحب نظر ہونا بہت بڑی سزا ہے ۔’’
‘‘کیا کہا ؟’’اصغر چلایا ۔ ‘‘افراد کی ڈھکی چھپی الائشیں دیکھنا اور ماتھے پر بل نہ لانا ، کتنی مشکل بات ہے ! گندگی بُودار حقیقتوں کو دیکھ کر دل میلا نہ کرنا۔ یوں رہنا جیسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ اگر ایسے بزرگ ہیں ، تو یقیناًوہ سمندر ہوں گے جن میں لاکھوں الائشیں پڑی ہیں مگر ، ناپاک نہیں ہوپاتا ۔’’
‘‘ایک بات بتائیے’’۔رشید نے کہا ۔‘‘کیا ہر آدمی کو دیکھ کر آپ کو اس کی اندرونی کیفیت نظر آجاتی تھی ۔’’
‘‘نہیں .... ہر ایک کی نہیں ، کسی کسی کی ۔مخصوص افراد کی ۔‘‘ وہ بولا۔
‘‘اس وقت بھی کیفیت طاری ہوتی ہے کیا؟’’ امجد نے پوچھا ۔‘‘ہاں’’ سلیم بولا ۔ ‘‘مستقبل کی جھلکی دیکھنے سے پہلے تو جھن جھنے کی کیفیت پیدا ہوتی تھی ، لیکن فرد کو دیکھ کر بائیں آنکھ پھڑکتی تھی پھڑکے جاتی تھی ۔آنکھ پھڑکتی ، تو مجھ پر ایک اضطراب طاری ہوجاتی ۔ ’’ وہ چپ ہوگیا پھربولا:‘‘میں سمندرنہیں ہوں ، میں تو ایک نالی ہوں ۔ مجھ میں اتنا ظرف نہ تھا چھپی ہوئی حقیقتیں مجھے کاٹ کر رکھ دیتی تھیں ۔ زخم آجاتے ۔ پھر وہ ستے ناسور کی طرح رہتے۔ ان دنوں میں بہت بڑا ناسور تھا ۔’’ وہ خاموش ہوگیا ۔ہو ادرختوں سے لپٹ لپٹ کرروہی تھی ۔ کالے پہاڑوں کی دیوار مجھے یوں لگے رہی تھی جیسے بہت بڑا ناسور اور دریارس رہاتھا رس رہاتھا ۔پھر اصغر بولا۔ ‘‘پھر کیا ہوا ۔’’
‘‘پھر کیا’’۔ سلیم نے سلسلہ ٔ کلام جاری کیا۔ ‘‘بیسیوں جھلکیاں دیکھیں ۔ قسم قسم کی جھلکیاں ۔عجیب واقعات ۔ وہ تعداد میں اتنے ہوگئے کہ میں نے انہیں نوٹ کرنا شروع کردیا ۔ سب تفصیلات میری ڈائری میں محفوظ ہیں ۔ تین سال مسلسل میں یہ جھلکیاں دیکھتا رہا ۔ یہ جھلکیاں میں اپنی مرضی سے نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اگرمیں چاہتا کہ کسی خصوصی فرد کی اندرونی انا کو جانوں ۔ تو یہ ضروری نہ تھا کہ مجھے اس فرد کی جھلکی دکھائی دے پتہ نہیں وہ کونسی طاقت تھی ۔ جو مجھے یہ تماشادکھارہی تھی ۔ صرف وہی جھلکی دکھاتی تھی جو وہ دکھانا چاہتی تھی ۔ پتہ نہیں اس طاقت کا مقصد کیا تھا ۔ پتہ نہیں کیوں مجھے میڈیم بنادیاگیا تھا ۔ پتہ نہیں مجھے خصوصی جھلکیاں کیوں دکھائی جارہی تھیں ۔’’ ایک ساعت کے لیے وہ رکا ۔ اس نے ایک شدید جھرجھری لی اور پھر سلسلۂ کلام جاری کر دیا ۔‘‘میں ان جھلکیوں سے اس قدر تنگ آچکا تھا کہ ہر وقت دعائیں مانگتا ، آہ وزاری کرتا کہ یااللہ مجھے اس مصیبت سے نجات دے۔’’ آہ وزادی سے کچھ نہ بناتو میں نے مزاروں پر جا کر منتیں ماننا شروع کردیں ۔ بزرگوں کی خدمت میں حاضر ہونے لگا ......جہاں کہیں کسی بزرگ کا پتہ ملتا فوراً وہاں پہنچتا ۔ اپنا حال زار سناتا ۔ عرض کرتامیری نجات کے لیے دعا کریں ۔ گھروالے میرے رویے پر حیران تھے ، چونکہ میں نے لوگوں سے ملنا چھوڑ رکھا تھا ۔ دفتر سے سیدھا گھر آتا پھر اپنے کمرے میں مقید ہوکر بیٹھ رہتا ۔ ہر اتوار کو صبح سویرے کسی بزرگ کے ڈیرے پر یا کسی درگاہ پر جاپہنچا وہاں بڑے خشوع اور خضوع سے دعائیں مانگتا اور پھر رات گئے گھر گھر لوٹتا ۔’’
‘‘سلیم صاحب ! کیا آپ نے اپنے ذاتی مستقبل کے متعلق کوئی جھلکی دیکھی رشید نے پوچھا ۔ ’’
‘‘ہاں ۔’’سلیم نے کہا ۔‘‘صرف چند ایک ۔ مثلاْ ایک رات میں اکیلے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا ۔ غالباً لڑکیوں کا کوزِQUIZ پروگرام تھا۔ بہت سی لڑکیاں حاضرین کی حیثیت سے بیٹھی ہوئی تھیں ۔ ایک معمر خاتون کمپئر کر رہی تھی ۔ دفعتاً جھنجھنا بجا ۔ اور، اور میں نے دیکھا کہ حاضریں میں سے ایک لڑکی ا ٹھی اور کمپئر کی طرف جانے کے بجائے سید ھی آئی اور ٹیلی ویژن اسکرین سے نیچے اتر آئی ۔’’
‘‘کیا کہا ؟’’امجد چلایا ۔ ‘‘ہاں ، ٹیلی ویژن اسکرین سے اتر کر کمرے میں آگئی جہاں میں پلنگ پر بیٹھا ہو اتھا ۔ پھر وہ پلنگ کے پاس پڑئے ہوئے صوفے پر آبیٹھی ۔ اس جھلکی نے مجھے بے حد پریشان کیا ۔ یااللہ یہ کون لڑکی ہے ؟ اس کا میرے کمرے میں آنے کا مطلب کیا ہے ؟ کیا وہ میرے کمرے میں آئے گی ؟ کس حیثیت سے؟ وزیٹر کی حیثیت سے ، سائل کی حیثیت سے یا دفتری ٹائپسٹ کی حیثیت سے ؟.... ساری رات میں سوچتا رہا ۔ کروٹیں بدلتا رہا سوچتا رہا کروٹیں بدلتا رہا ۔اس کے بعد راہ چلتے ہوئے ان جانے میں میں ہر راہ لڑکی کو غور سے دیکھنے لگا ۔ کہیں یہ تو نہیں؟ دفتر میں ہر نئی ٹائپسٹ کا جائزہ لیتا رہا۔ اگلے ہفتے میں نے بڑی توجہ سے اس پروگرام کی اگلی قسط دیکھی ۔ ا ب کی بار و ہ اگلی بنچوں پر بیٹھی تھی ۔ بال لٹکے ہوئے ، معصوم چہرا،  اس دوران کمپئر نے کہا ۔ آپ بتائیے عندلیب!....
عندلیب ! عندلیب ! سارا کمرہ گونجنے لگا ۔خوف کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی ۔خوف کی وجہ عندلیب کی شخصیت نہ تھی ۔ معصوم غم سے بھیگا بھیگا چہرہ خوف پیدا نہیں کرتا ۔ خوف کی وجہ سے بے یقینی تھی ، اسرار تھا پتہ نہیں یہ کون ہے ، کیا کرنے والی ہے ، کہیں عندلیب میری بیوی  بننے والی تو نہیں ؟.... شاید اسی لیے میں نے عندلیب سے نفرت پال لی ۔ شاید نفرت یہ ایک ڈیفنس میکنز م تھا ۔ پورے دو مہینے میں عندلیب کی کشش اور خوف کے پاٹوں تلے پستا رہا ۔پھر ایک روز ابا نے اعلان کر دیا کہنے لگے ۔ ‘‘سلیم ! میں نے تجھے اپنے ایک مرحوم دوست کی بیٹی سے منسوب کردیا ہے ۔’’ 
‘‘نہیں ابا جان ! میں ابھی شادی کرنا نہیں چاہتا ۔’’ میں نے کہا ۔ عرصۂ درازے سے میں شادی کی ہر تحریک کو ٹالتا جارہاتھا ۔ میری عمر تیس سال ہونے کو آئی تھی ۔ شادی کو ٹالنے کی کوئی اور وجہ نہ تھی نہ تو میں شادی کے خلاف تھا نہ مجھے شادی کا شوق تھا اور نہ ہی مجھے کسی لڑکی سے دلچسپی پیدا ہوئی تھی ۔ اگرمیں اس مصیبت میں گرفتار نہ ہوتا ، تو شاید ہوجاتی ، لیکن اگر آپ کے سر پر مستقبل کا عفریت چمٹا ہو اہو تو آپ کو نہ تو محبت سوجھتی ہے نہ شادی۔  
‘‘دیکھو سلیم !’’ ابا بولے ۔ ‘‘ میں نے فیصلہ کر دیا ہے۔  ان کو زبان دے دی ہے ۔ اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔’’
معاً مجھے خیال آیا کہ کہیں میری منسوبہ عندلیب ہی نہ ہو۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ اگروہ عندلیب ہے تومیں گھر چھوڑ کر چلا جاؤ گا ،لیکن عندلیب سے شادی نہیں کروں گا۔ شام کو بہن آئی ، تومیں نے پوچھا ۔ میں نے کہا ‘‘صادقہ، ابا نے مجھے کہاں منسوب کیا ہے تم نے وہ لڑکی دیکھی ہے کیا؟’’
‘‘ہاں ’’، وہ بولی ۔ ‘‘میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔ کانونٹ کی ہے ۔
‘‘بال کھلے رکھتی ہے کہ کیا؟’’ میں نے پوچھا۔ ‘‘نہیں تو چوٹی بناتی ہے ۔ ’’وہ بولی ۔ 
‘‘کیا نام ہے ؟’’
‘‘آپ کو نہیں پتہ ؟ سمیع اللہ کی بیٹی ہے ۔ باپ ہارٹ اٹیک سے فوت ہوگیا ہے ۔ ماں بیٹی اکیلی رہ گئی ہیں ۔ اسمارہ کا باپ ابا کا دوست تھا ۔ اب ابا دوست نوازی کررہے ہیں۔’’
‘‘نام کیا ہے نام۔’’ میں نے چڑ کر پوچھا ۔‘‘نام اسمارہ ہے ۔رائٹر ، رسالوں میں مضمون چھپتے ہیں ۔’’ اسمارہ سن کر میرے دل سے بوجھ اتر گیا ۔چھ مہینے کے بعدہماری شادی ہوگئی ۔ پہلی رات جب میں کمرے میں داخل ہو۔ تووہ اسی صوفے پر بیٹھی تھی ۔ میں نے دیوانہ وار گھونگھٹ اٹھایا ۔ وہ عندلیب ہی تھی ۔  
‘‘اس کا نام تو اسمارہ تھا’’ ،میں  بولا ۔
‘‘ہاں نام تو اسمارہ ہی تھا۔ رائٹر تھی نا.... عندلیب اس کا قلمی نام نیم تھا ۔ ’’ سلیم تمسخر آمیز ہنسی ہنسا اور پھر چپ ہوگیا ۔
پہاڑوں کی کالی دیوار سبزی مائل ہوگئی تھی ۔ وادی پر چھایا ہوا اندھیرا پھیکا پڑتا جارہا تھا ۔ دریا کے شور پر ایک نغمہ سا پیدا ہوتا جارہا تھا ۔‘‘ کیا آپ نے اپنی بیوی کو ساری بات بتادی ؟’’ رشید نے پوچھا ۔
‘‘ہاں سب کچھ .... لیکن شادی سے ایک مہینے پہلے میں نارمل ہوچکا تھا ۔ یہ قیامت ٹل چکی تھی ۔ ’’
‘‘کیسے ٹلی ؟’’ امجد نے پوچھا ۔  ‘‘پتہ نہیں کیسے ۔ ایک روز پچھلے پر میری آنکھ کھل گئی ۔ دل بھر ا ہوا تھا ۔ بہت دکھی تھا میں ۔ اس رات میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ تہجد پڑھی ۔ پھر سجدے میں بڑی آہ وادی کی ۔ رو رو کے ہچکی بندھ گئی ۔ وہیں آنکھ لگ گئی ۔ صبح بیدار ہو ا۔ تو پوپھٹ رہی تھی ۔ اتفاق سے دیوار کی طرف دیکھا ، تو وہاں ایک نئی تصویر آویزاں تھی ۔ کسی معمولی سے مزار کا بیرونی منظر تھا ۔ دروازہ کھلا تھا ......چوکھٹ کے تلے چار سیڑھیاں تھیں۔ اس تصویر کو دیکھ کر میں نے بہت حیران ہوا ۔ میرے کمرے میں چار لینڈا سکیپ آوایزاں تھے ۔ یہ پانچوں کہاں سے آگیا ؟....میں نے سوچا ۔
دوسرے دن دفتر سے واپس آیا ، تو دیکھاکہ وہ تصویر موجود نہیں۔ اس کے بعد کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ کمرے میں ٹنگی ہوئی کسی تصویر کو دیکھتا ، تو وہ بتدریج دھندلی پڑجاتی اور پھر اس پر مزار کاوہی بیرونی منظر ابھرتا ۔ بہت سوچا لیکن اس کا مطلب سمجھ میں نہ آیا ۔ ایک روز کسی دوست کی برات کے ساتھ گاؤں میں جارہاتھا راستے میں بس خراب ہوگئی ۔ ہم سب اتر آئے ۔ ڈرائیور بس کو ٹھیک کرنے میں مصروف ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ سڑک کے قریب ہی مزار ہے ۔ سوچا جب تک بس مرمت ہوتی ہے میں مزار پر حاضری دے آؤں ۔
وہ ایک چھوٹا سامزارتھا ۔ دروازہ تھا ۔ دروازہ کھلاتھا ۔ وہاں کوئی متنفس نہ تھا ۔میں اندر داخل ہوا ۔ سورۂ فاتحہ پڑھی ۔ دعامانگی .......کہ مجھے اس اذیت سے چھٹکارا مل جائے ۔ یہی میری دعاتھی جو میں ہر مزار پر مانگتا تھا ۔
دُعا پڑھنے کے بعدمیں پچھلے پاؤں باہر نکلا ۔ بھول گیا کہ چوکھٹ کے تلے سیڑھیاں ہیں پاؤں پھسلا اور دھڑم سے صحن میں پاؤں کے بل جاگرا......آنکھوں میں تارا سے ٹوٹے ۔ پھر اندھیرا چھا گیا ۔پتہ نہیں وہاں کتنی دیر پڑا رہا ۔ ہوش آیا ۔ تو سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ اٹھنے کی طاقت نہ تھی۔ وہاں پڑا پڑا پھٹی پھتی آنکھوں سے دیکھتا رہا ۔ دفعتاً مجھے محسوس ہواکہ وہ جگہ مانوس ہے پھر کمرے کی اس تصویر کا منظر یادآ گیا ۔وہی مقبرہ ، وہی دروازہ ، وہی سیڑھیاں ۔ معاً ساری بات سمجھ میں آگئی ۔یہ وہی مقام ہے میری دعا قبول ہوگئی۔ اللہ نے مجھے نجات دے دی ۔پتہ نہیں کیوں میرے محسوسات یقین کی صورت لیے ہوئے تھے ۔ حالانکہ عقلی طو رپر کوئی بات نہ تھی جو اس یقین کو تقویت دیتی ۔ شکر گزاری سے مجھ پر رقت طاری ہوگئی اور میں پڑ ا پڑا روتا رہا ، روتا رہا ۔
‘‘اس کے بعد پھر کبھی کوئی جھلکی نظر نہیں آئی یا محسوسات ؟’’ رشید نے پوچھا ۔ ‘‘نہیں’’سلیم نے جواب دیا۔....
‘‘کیا کوئی ایسی جھلکیاں بھی ہیں جو آپ نے اس دور میں دیکھی ہوں لیکن ابھی تک ان کی تعبیر نہ نکلی ہو۔’’ امجد نے پوچھا ۔‘‘ہاں’’ سلیم نے کہا ‘‘چندایک ابھی پوری نہیں ہوئیں ۔’’ ....‘‘مثلاً ’’امجد بولا ۔
‘‘مثلا ؟سوچ میں پڑ گیا ۔ ایک جھلکی تو ایسی ہے کہ دیکھ کر میرا خون خشک ہوگیا تھا ۔ ایک بڑی خوفناک جگہ تھی ۔ چاروں طرف سے بند بند کالا سیاہ اندھیرا اور پھر ایک شور جیسے صوراسرافیل بج رہا ہوں’’ وہ خاموش ہوگیا۔ ہمارے دلوں پر ایک بے نام بوجھ پڑگیا ۔ محسوس ہونے لگا جیسے کالی دیواریں آگے بڑھ رہی ہوں ، قریب اور قریبْ ‘‘مجھے پوری تفصیلات اس وقت یاد نہیں’’ سلیم نے سلسلۂ کلام جاری رکھا ۔ ‘‘میں نے سب ڈائری میں نوٹ کر رکھی ہیں میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ میرے ارد گرد بیٹھے ہیں ........اجنبی لوگ جس طرح آپ بیٹھے ہیں۔  ہاں ، بالکل اسی طرح۔ اندھیرے میں لپٹی ہوئی چاروں طرف کالی بونی دیواریں اور صوراسرافیل ۔پھر پھر ایک دم آذان سنائی دی ’’۔
 اللہ اکبر اللہ اکبر ناران کی مسجد سے صبح کی آذان گونجی۔‘‘بالکل ایسے ہی بالکل ایسے ہی ’’ سلیم جوش میں اٹھ بیٹھا ۔‘‘ ٹھہرو میں اپنی ڈائری لاتا ہوں۔’’وہ بولا۔ ‘‘اس میں سب تفصیلات لکھی ہیں ۔ ابھی آتا ہوں ابھی ایک منٹ ’’۔ وہ ٹارچ اٹھا کر اندر چلا گیا ۔ ہم حیرت سے یوں ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے جیسے پتھر کے بنے ہوئے ہوں ۔ چہرے خوف سے بگڑے ہوئے تھے۔ دفعتاًرشید شدید کوشش کرکے اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف بھاگا۔ پھر گویا وہ طلسم ٹوٹ گیا۔ سب رشید کے پیچھے کمرے میںٖ داخل ہوئے ہم نے جلدی جلدی اپنی چیزیں تھیلوں میں ڈالیں اور تھیلے اٹھاکر جیپ کے اڈے کی طرف بھاگے ۔ ‘‘چلو چلو’’ ہم نے جیپ والے سے کہا۔
وہ بولا : ‘‘ابھی اور سواریاں لینی ہیں صاحب!’’
دور سڑک پر ایک سایہ ہماری طرف بھا گتا ہوا آرہا تھا ۔‘‘ رُک جاؤ رُک جاؤ۔’’ وہ ہاتھ میں ایک کتاب سی لہررہا تھا ۔ ‘‘رُک جاؤ ۔ رُک جاؤ ۔’’جیپ کاغان کی طرف لڑھکتی ہوئی جارہی تھی ۔ رشید کی پھٹی ہوئی آواز چلائے جارہی تھی۔‘‘ڈائیور جلدی اور جلدی’’
شاید اسے بھی  خوف تھا کہ اللہ نے مستقل پر جو پردہ ڈال رکھا ہے ۔  کہیں وہ اُٹھ نہ جائے .... واقعی  جو ہونا ہے اسے پہلے ہی جان لینا کتنا تکلیف وہ ہے۔




اردو ادب کے  ممتاز ادیب،  اور افسانہ نگار 

ممتاز مفتی ۔1905ء تا  1995ء 



ممتاز مفتی کا اصل نام مفتی ممتاز حسین تھا۔ ممتاز مفتی 11 ستمبر 1905ء بمقام بٹالہ (ضلع گورداسپور) بھارتی پنجاب میں مفتی محمد حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امرتسر ، میانوالی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں پائی۔ میٹر ک ڈیرہ غازی خان سے اور ایف اے امرتسر سے اور بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ 
بی اے کے بعد سنٹرل ٹیچرز ٹریننگ کالج سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم پنجاب کے سینئر انگلش ٹیچر کے طور تعیناتی ہوئی۔ وہیں  لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔  کچھ عرصے بطور اسکرپٹ رائٹر آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ منسلک ہوئے۔  قیام پاکستان کے بعد لاہور آئے اور  پھر راولپنڈی میں بطور  ڈائریکٹر وزارتِ اطلاعات    اپنی خدمات انجام دیں۔   ان کا پہلا افسانہ ‘‘جھکی جھکی آنکھیں’’ ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوا اور اس طرح وہ مفتی ممتاز حسین سے ممتاز مفتی بن گئے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں ان کہی، گہماگہمی، چپ، گڑیاگھر، روغنی پتلے، اور سمے کا بندھن شامل ہیں۔ علی پور کا ایلی اور الکھ نگری سوانحی ناول میں شمار ہو تے ہیں۔ جبکہ ہند یاترا،  لبیک جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے اور خاکہ نگاری میں اوکھے لوگ، پیاز کے چھلکے اور تلاش جیسی کتابوں کے خالق ہیں۔ممتاز مفتی کی تحریریں زیادہ تر معاشرے میں موجود کئی پہلوؤں اور برائیوں کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ 27 اکتوبر 1995ء کو 91 برس کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پا گئے۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں