امریکی فکشن کہانی نویس  ڈیوِس گرب     کے قلم سے ایک پراسرار کہانی

دُوسرا جِسم

جب وہ بستر سے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ  اس کا مادی جسم بدستور بستر پر پڑا ہوا ہے اور وہ اپنے دوسرے جسم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔    اس نے یہ صلاحیت حاصل کرلی تھی کہ وہ اپنے مادی جسم سے الگ ہو سکتا تھا اور اپنے دوسرے جسم کو حسب منشاء استعمال کرسکے، اس نے اپنی  صلاحیت کو بروئے کار   لانے کے لیے ایک منصوبہ بنایا مگر   وہ  خود اپنے جال میں پھنس گیا۔ 



زیر نظر کہانی  ڈیوِس گرب کی لکھی ہوئی مختصر کہانی  The Horsehair Trunk کا ترجمہ ہے، جو  مئی 1946ء میں  مشہور امریکی رسالے کولیئرز Collier's اور 1956ء میں Queen's Mystery Magazineمیں شایع ہوئی ۔  1971ء میں اسے برطانوی چینل NBC  کی نائٹ گیلری سیریز  کے ایک ڈرامے میں بھی ڈھالا گیا۔ 



میریس لنڈسے  Marius Lindsay  بخار کی شدت میں بستر پر لیٹا ہوا ایسا محسوس کر رہا تھا گویا گرم گرم بھاپ کے بادلوں میں ملفوف ہے۔ ٹائی فائیڈ اس کے جسم میں لاوے کی طرح اندر ہی اندر جوش کھا رہا تھا۔ وہ اس کیفیت میں گزشتہ ایک ہفتے سے صاحب فراش تھا۔ 
میری این Mary Ann اس کی اطاعت گزار اور فرض شناس بیوی بڑی تن دہی سے اس کی تیمار داری میں مصروف تھی، وہ ٹھیک وقت پر آکر اسے دوا پلاتی تھی اور جب ڈاکٹر، میریس کو دیکھنے آتا تو وہ ہاتھ باندھے میریس کے سرہانے کھڑی ہوئی منہ ہی منہ میں اس کی صحت کے لیے دعائیں مانگتی رہتی۔ اس وقت میریس کبھی کبھی کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیتا رہتا۔ اس کا سُتا ہوا چہرہ پہلے سے زیادہ پیلا اور اداس نظر آتا تھا۔ وہ سوچتا کہ کتنی احمق عورت ہے یہ جس سے پانچ سال قبل شادی کی تھی۔
‘‘تم اس فکر میں گھل رہی ہو کہ میں مر کیوں نہیں جاتا۔’’ اس نے ایک روز طنزیہ انداز میں اپنی بیوی سے کہا، جب وہ صبح کے وقت اسے دوا پلانے آئی تھی۔’’ تم  میرا مرنا چاہتی ہو، یہی بات ہے نا....؟’’
‘‘میریس خدا کے لیے ایسی باتیں نہ کیا کرو۔’’
‘‘لیکن یہ حقیقت ہے!’’ میریس کو اپنی آواز بہت دور سے آتی سنائی دی۔ ‘‘تم میرا مرنا چاہتی ہو لیکن یہ اچھی طرح سمجھ لو میری کہ میں ابھی نہیں مروں گا اور بہت جلد صحت یاب ہوجاؤں گا۔ یہ سن کر تمہیں مایوسی ہوئی نا....؟’’
‘‘نہیں نہیں، تمہارا خیال غلط ہے میریس، تمہیں غلط.فہمی ہوئی ہے!’’
بخار کی حدت سے اس کی آنکھوں کے سامنے دھند سی چھائی ہوئی تھی اس لیے اس وقت وہ اپنی بیوی کی صورت نہ دیکھ سکا، البتہ اس کی سسکیاں لے کر رونے کی آواز اس کے کانوں میں آرہی تھی۔ کتنی احمق ہے یہ عورت وہ سوچ رہا تھا۔
  جب وہ بیدار ہوا تو اس نے خود میں عجیب و غریب اور حیرت انگیز تبدیلی محسوس کی۔ اس کی قوت بصارت اور سماعت میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا تھا۔ اسے اپنا جسم شیشے کی طرح چمکتا ہوا نظر آرہا تھا۔ ایسا شیشہ جسے بھٹی سے نکال کر ابھی سرد نہ کیا گیا ہو۔ اگرچہ اسے ٹمپریچر بدستور تھا لیکن اب وہ کیفیت باقی نہ تھی۔ نہ اس کی آنکھوں کے سامنے دھند چھائی ہوئی تھی اور نہ اندھیرا۔ اب وہ ہر چیز پہلے کی نسبت کہیں زیادہ صاف اور اپنے اصل رنگ و روپ میں دیکھ سکتا تھا۔ 
کمرے کے کونے میں کھونٹی پر ٹنگی ہوئی اس کی سرخ نکٹائی کا عکس ڈریسنگ ٹیبل کے آئینے میں اسے ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے آگ کا لپکتا ہوا شعلہ۔ اس کی سماعت کا یہ عالم تھا کہ خاصی دور کی آوازیں اسے بالکل صاف سنائی دے رہی تھیں۔ گھر کی نچلی منزل میں اس کی بیوی کچن میں کام کر رہی تھی، وہاں کی خفیف آوازیں بھی وہ صاف سن رہا تھا۔ جب اس کی بیوی نے چولہا جلانے کے لیے ماچس کی تیلی جلائی تو اس کی رگڑ کی  آواز اسے اتنی صاف سنائی  دی جیسے اس کی کھڑکی کے باہر پستول داغنے کی آواز! 
وہ اپنی اس حیرت انگیز تبدیلی پر بہت خوش تھا۔ اپنی اس عجیب تبدیلی پر میریس کو ایک لمحے کے لیے گمان گزرا کہ کہیں وہ مر تو نہیں چکا ہے اور یہ موت کا عالم تو نہیں، اور اگر فی الواقعی ایسا ہے تو  اس کے ذہن میں موت کا جو تصور تھا اس کی نسبت یہ کیفیت بہرطور بہتر اور خوش گوار ہے۔ اس نے یہ بھی محسوس کیا کہ وہ اس حالت میں بھی بستر سے اٹھ کر چل پھر سکتا ہے اور بلاتکان اوپری منزل کے زینے پر چڑھ سکتا ہے۔ 
اس صورتحال میں اسے مذاق سوجھا کہ دبے پاؤں نیچے کچن میں جا کر میری کو ڈرایا جائے۔ لیکن جب وہ بستر سے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا مادی جسم بدستور بستر پر پڑا ہوا ہے اور وہ اپنے دوسرے مثالی جسم کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔ چنانچہ یہ ظاہر تھا کہ اس کی بیوی اسے اس حالت میں دیکھ ہی نہ سکے گی.... 
اس اثنا میں جب اس نے دیکھا کہ میری اس کے لیے دوا لے کر اوپر آرہی ہے تو اسے اس سے بہتر مذاق سوجھا۔ وہ خیال کی سرعت کے ساتھ اپنے بستر پر واپس آیا اور رضائی کے نیچے پڑے ہوئے اپنے مادی جسم میں داخل ہوگیا.... ذرا دیر بعد اس کی بیوی دوا کی شیشی ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوئی ۔ میری نے جھک کر اس کی گرم پیشانی کو چھو کر دیکھا اور آہستہ سے بولی‘‘میریس، کیسی طبیعت ہے اب....؟’’
میریس نے آنکھیں کھول کر اس انداز سے اس کی طرف دیکھا جیسے وہ بہت دیر سے سو رہا تھا۔
‘‘میری، میں نے ابھی دیکھا تھا کہ....’’ میریس بولا ‘‘تم نے زینے کے پاس سے پیانو اٹھوا کر دوسری طرف رکھوا دیا ہے۔’’
میری یہ سن کر بوکھلا گئی اس کے ہاتھ سے دوا کا گلاس گرتے گرتے بچا۔
‘‘میریس!’’ اس نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر کہا۔ ‘‘تم بستر سے اٹھ کر نیچے تو نہیں گئے تھے....؟ اس بخار کی حالت میں بستر سے اٹھوگے تو خود کو مار لوگے میریس۔’’
‘‘نہیں’’ میریس نحیف آواز میں بولا، اسے خود اپنی آواز دوسرے کمرے سے آتی ہوئی محسوس ہوئی ‘‘نہیں، میں بستر سے اٹھ کر کہیں نہیں گیا این۔’’
‘‘پھر تمہیں کیسے پتہ چلا میریس....؟’’
میریس نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور مسکرا کر آنکھیں بند کرلیں.... اس کے سوال کا جواب نہ دے کر اس نے میری کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا تھا۔
٭٭٭
اس کی شروعات اسی طرح ہوئی اور یہ اس کے لیے اتنی آسان بات تھی کہ اسے تعجب ہوا کہ وہ اب تک اپنی  اس قدرتی صلاحیت کو بروئے کار کیوں نہ لاسکا.... ذرا دیر بعد اسے خوب پسینہ آیا اور بخار کی شدت کم ہوگئی.... 
ایک دو روز بعد وہ اس قابل ہوگیا کہ بستر سے اٹھ کر کھڑکی کے قریب بچھی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتا.... مہینے کے آخر میں وہ بالکل صحت یاب ہوگیا اور حسب معمول کام پر جانے لگا.... 
وہ روزنامہ ‘‘آرگس’’ Daily Argusکا ایڈیٹر تھا.... بیماری کے دوران میریس میں جو تبدیلی رونما ہوئی تھی اس کی شخصیت بھی اس سے بڑی حد تک متاثر ہوئی جسے اس کے رفقائے کار نے بھی محسوس کیا.تھا۔ 
ایک روز جب کہ میریس لنچ کے بعد دفتر میں کاؤچ پر لیٹا ہوا اونگھ رہا تھا اس نے سوچا کہ اپنی اس خداداد صلاحیت کو ایک مرتبہ پھر آزمایا جائے.... اس نے یہ راز جان لیا تھا کہ وہ اپنے مادی جسم سے اسی وقت الگ ہو سکتا ہے جس وقت اس پر قدرے غنودگی طاری ہو۔ چنانچہ ایک منٹ بعد ہی میریس پر جب غنودگی طاری ہوئی تو وہ کاؤچ سے اٹھ کر کھڑا ہوگیا مگر اس کا مادی جسم بدستور کاؤچ پر پڑا ہوا تھا۔ وہ اس کے قریب کھڑے ہو کر اسے بغور دیکھتا رہا۔ اس کا جسم گہرے گہرے سانس لیتا رہا جس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ خوابیدہ اور بقید حیات.ہے۔
میں مرا نہیں ہوں، اس نے سوچا، یہاں میری سخت جان اور لافانی روح کھڑی ہوئی اپنے  جسم کو دیکھ رہی ہے....! میریس کے لیے یہ عمل اتنا ہی آسان تھا جیسے اپنے پاؤں سے جراب یا جوتے اتارنا.... اس وقت اسے اپنا دوست چارلی Charlie Cunningham  یاد آیا جو اس کےساتھ گھنٹوں موت و حیات کے فلسفے پر بحث کیا کرتا تھا۔ اس کا نکتہ نظر یہ تھا کہ روح جسم سے علیحدگی کے بعد فنا ہوجاتی ہے.... آج اگر چارلی زندہ ہوتا تو وہ اسے ہمیشہ کے لیے قائل کردیتا۔
اس نے فیصلہ کیا کہ اس کے اس راز کو کوئی بھی نہ جان سکے گا۔ حتیٰ کہ وہ اپنی بیوی میری این کو بھی اس راز میں شریک نہیں کرے گا....
اسے خیال آیا کہ اگر اس کی روح کا مثالی جسم کسی طرح اس قابل ہوجائے کہ وہ چیزوں کو حرکت دے سکے، انہیں اٹھا کر ادھر ادھر کرسکے اور بالکل خاکی جسم کی طرح کام کرنے کے قابل ہوجائے تو وہ اپنی صلاحیت کے ذریعے بڑے دلچسپ اور حیرت انگیز کرتب انجام دے سکتا ہے.... وہ اپنے دوست احباب اور بیوی کے ساتھ ایسے دلچسپ مذاق کرسکتا ہے جو ان کے لیے ناقابل فہم ہوں گے.... 
اس عمل کے لیے مضبوط قوت ارادی کی ضرورت تھی چنانچہ اس نے اپنی اس قوت سے کام لینے کے لیے باقاعدہ پریکٹس شروع کردی.... وہ اس حالت میں اپنی میز کے قریب گیا اور اس کے اوپر رکھے ہوئے کاغذ تراش کو اٹھانے کی کوشش کی.... اسے اپنی انگلیاں ایسی محسوس ہوئیں جیسے وہ وہ کہر میں لپٹی ہوئی ہوں.... 
اس نے بار بار اپنی قوت ارادی سے کام لے کر اسے حرکت دینے کی کوشش کی۔ شروع میں وہ اسے تھوڑا سا کھسکانے میں کامیاب ہوگیا۔ پھر دوبارہ کوشش میں اسے میز سے چار پانچ انچ اوپر اٹھا کر چند سیکنڈ اسے روک سکا اور پھر وہ ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑا۔ اسی طرح میریس کئی گھنٹوں تک مختلف چیزوں کو اٹھانے کی پریکٹس کرتا رہا.... بالآخر وہ اس قابل ہوگیا کہ اپنے خاکی جسم کی انگلیوں کی طرح ہر چیز کو حسب منشاء استعمال کرسکتا.تھا۔
٭٭٭
‘‘دیکھو این میں اس وقت بےحد تھکا ہوا ہوں۔ میں اوپر اپنے کمرے میں جا کر سوؤں گا۔ مجھے رات کے کھانے کے وقت جگا دینا۔’’
‘‘بہت اچھا’’ بیوی نے جواب دیا اور کچن میں چلی.گئی۔
میریس دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اس کی بیوی بھی کتنی سادہ لوح اور احمق عورت ہے.... وہ اوپر اپنے کمرے میں گیا اور لباس تبدیل کرکے اپنے بستر میں  جا گھسا.... ذرا دیر بعد ہی جب اس پر غنودگی طاری ہونے لگی تو وہ اپنے مادی جسم کے خول سے باہر آگیا اور بستر سے اٹھ کر نیچے پہنچا.... ابھی وہ زینے کی آخری سیڑھی پر تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو کسی سے باتیں کرتے ہوئے سنا.... وہ کہہ رہی تھی۔
‘‘تم اس وقت چلے جاؤ جمJim .... میں تم سے کئی بار کہہ چکی ہوں کہ جب میریس گھر میں ہو تو تم نہ آیا کرو.... اگر اس وقت اس کی آنکھ کھل گئی اور اس نے تمہیں دیکھ لیا تو خدا جانے وہ کیا کر بیٹھے۔’’
میریس لپک کر کچن میں پہنچا تو دیکھا اس کی بیوی ہاتھ میں فرائی پین لیے کھڑکی پر جھکی ہوئی ہے اور نیچے لان پر کھڑے ہوئے کسی شخص سے کہہ رہی ہے۔
‘‘خدا کے لیے تم اس وقت چلے جاؤ.... اس نے تمہیں یہاں دیکھ لیا تو غضب ہوجائے گا۔’’
میریس یہ گفتگو سن کر دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اس نے صبر و ضبط سے کام لیا اور بہت احتیاط کے ساتھ اپنی بیوی کے بالکل پیچھے آکر اس طرح کھڑا ہوگیا کہ اس کا جسم اس سے مس نہ ہو۔ وہ شخص خوبصورت اور اسمارٹ نوجوان تھا۔ وہ اس کی بیوی سے کچن کی کھڑکی سے لگا ہوا گفتگو کر رہا تھا۔ میری اس کی جانب بڑی وارفتگی اور لگاوٹ کی نظروں سے دیکھ کر مسکرا رہی تھی.... وہ مسکراہٹ جو اس کے لبوں پر رقصاں تھی، میریس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔
‘‘میں جانتا ہوں، مجھے سب پتہ ہے، ’’ وہ شخص بولا۔ ‘‘وہ تمہیں مارتا پیٹتا ہے۔ میں یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکتا۔ وہ اب پہلے سے بھی زیادہ سخت مزاج ہوگیا ہے.... اور میں نے سنا ہے، ٹائی فائیڈ کے بعد سے تو وہ بالکل خبطی ہوگیا ہے۔’’
‘‘ہاں ہاں ، تم اب دیر نہ کرو، جلدی چلے جاؤ۔’’ میری نے سرگوشی میں اس سے کہا اور گھبرائے ہوئے انداز میں پیچھے دیکھا جہاں میریس کھڑا ہوا تھا۔ وہ جلدی سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
‘‘ہم پھر کسی وقت اطمینان سے باتیں کریں گے جم.... میں.... میں جانتی ہوں۔ اب میں زیادہ عرصے اس کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی لیکن تم اس معاملے میں جلد بازی سے کام نہ لو.... مجھے سوچنے کے لیے بھی کچھ وقت دو۔’’
‘‘سنو، تم ابھی اور اسی وقت کیوں نہیں فیصلہ کرلیتیں....’’ اس نے سرگوشی کی....‘‘آج ہی رات کیوں نہیں....؟ ہم آج رات ہی اسٹیمر سے لوویلی Lou’villeکے لیے روانہ ہوجائیں گے اور پھر تمہیں ہمیشہ کے لیے اس ملعون سے نجات مل جائے گی۔ یہ دیکھو اسٹیمر کے دو ٹکٹ بھی میں نے لے لیے ہیں۔ اب مزید سوچنا بےکار.ہے۔’’
‘‘میری این اس کی بات سن کر کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئی پھر کچھ سوچتے ہوئے بولی۔
‘‘اچھا ، ٹھیک ہے، میں تمہارے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔ تم اب جاؤ، جلدی کرو۔’’ 
‘‘گھاٹ wharf  پر ٹھیک نو بجے پہنچ جانا ’’ نوجوان نے کہا ‘‘میریس سے بہانہ کردینا کہ تم گرجا کی مجلس میں جارہی ہو، وہ کوئی شک نہیں کرے گا.... اور پھر ہم تو  ہمیشہ کے لیے ایک ہوجائیں گے.... اور تم اندازہ نہیں کرسکتیں کہ میں تمہیں پانے کے لیے کس قدر....’’ اس وقت میری نے بڑے والہانہ انداز میں اسے دیکھا اور اس کے الفاظ ہونٹوں تلے دب کر رہ گئے....’’ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے ، اب تم چلے جاؤ پلیز!’’ میری نے اداس نظروں سے  گھبرائے ہوئے انداز میں کہا اور پھر وہ نوجوان شخص دیوار کی آڑ لیتا ہوا جھاڑیوں کو پھاندتا ہوا باہر نکل گیا۔
میری این کچھ دیر وہیں ساکت کھڑی اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ میریس کچھ دیر وہاں کھڑے ہوئے دیکھتا رہا، پھر اوپر اپنے کمرے میں آکر بستر پر پڑے ہوئے اپنے مادی جسم میں گھس کر لیٹ گیا۔
نینسی بی ٹرنر Nancy B. Turner   نامی اس اسٹیمر بوٹ کا کیپٹن  جو الگزنڈرJoe Alexander، میریس سے واقف تھا۔ اس نے لویلی کا ٹکٹ لیا اور کیپٹن کو بتایا کہ وہ اپنے الیکشن کے سلسلے میں وہاں کے دورے پر جا رہا ہے۔    وہ میریس لنڈسے کے بارے میں جانتا تھا کہ وہ روزنامہ آرگس   کا ایڈیٹر ہے لیکن کپتان الیگزینڈر  کو اس وقت عجیب لگا جب میریس نے کیپٹن سے اس سے اسٹیمر بوٹ کے مسافروں کی فہرست مانگی جس میں جم اسمتھ Jim Smith کا نام اسے تلاش کرنا تھا لیکن اس نام کا کوئی شخص لسٹ میں نہیں تھا البتہ ویلنگWheeling  کے ایک فرنیچر سیلزمین ‘‘جم ٹول’’Jim O’Toole  کا نام درج تھا جس نے دو کیبن، نمبر تین اور چار ریزرو کروائے تھے.... 
میریس سمجھ گیا کہ اس شخص کا اصل نام جم ٹول ہے، جم اسمتھ نہیں، اس نے دوسرا کیبن اس کی بیوی کے لیے لیا تھا۔ چنانچہ لسٹ دیکھنے کے بعد اس نے اپنے لیے جم کے برابر والا کیبن نمبر پانچ ریزرو کروالیا۔
‘‘اس کا خیال رہے کیپٹن کہ میرے بارے میں یہاں کسی کو پتہ نہیں چلے۔ میرا سفر الیکشن کے سلسلے میں ہے اس لیے میں فی الوقت اسے مخفی رکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔’’
‘‘آپ مطمئن رہیں جناب، کسی کو خبر نہیں ہوگی۔’’ کیپٹن نےا سے یقین دلاتے ہوئے کہا۔
میریس اپنا گھوڑے کی بال والا  سوٹ کیس horsehair trunk  لیے ہوئے اپنے کیبن میں آیا اور سوٹ کیس کو بستر کے قریب فرش پر رکھ دیا۔
ٹھیک نو بجے گھاٹ  کے سامنے واٹر اسٹریٹ Water Street پر دو گھوڑا گاڑیاں آکر رکیں۔ ایک گاڑی سے جم اترا اور دوسری سے میری این۔ جم اپنا سامان لے کر میری کے پاس آیا اور سرگوشی میں بولا:
‘‘جس وقت تم باہر نکلی ہو  کیا میریس گھر پر موجود.تھا....؟’’
‘‘نہیں وہ رات کو اس وقت اکثر اپنے دفتر جاتا ہے۔  اسے اخبار کے مارننگ ایڈیشن کی تیاری کرنا ہوتی.ہے۔’’
‘‘تمہارا کیا خیال ہے، وہ کچھ شک تو نہیں کرے.گا....؟’’
‘‘وہ تو ہر شخص کے متعلق شک کرتا ہے۔’’ میری  نے جواب دیا۔ ‘‘وہ فطرتاً بڑا شکی مزاج ہے لیکن آج رات اسے کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ کبھی بھی ہمارے متعلق نہ جان سکے گا۔’’
وہ دونوں جلدی جلدی قدم اٹھاتے ہوئے گھاٹ  کی طرف آئے اور اسٹیمر پر سوار ہوگئے۔
‘‘میں جم ٹول ہوں۔’’ جم نے کیپٹن کو ٹکٹ دیتے ہوئے بتایا۔ ‘‘اور یہ ہے میری بیوی، ان کا کیبن میرے برابر ہے نا....؟’’
‘‘جی ہاں جناب، کیبن نمبر تین  آپ کی مسز کا ہے اور نمبر چار آپ کا ہے۔’’ کیپٹن نے جواب دیا۔ 
وہ سوچنے لگا کہ اس فرنیچر سیلزمین اور اس کی بیوی کا میریس سے کیا تعلق ہوسکتا ہے جن کا نام وہ پیسنجر لسٹ میں تلاش کر رہا تھا۔
وہ دونوں راہداری سے ہوتے ہوئے اندر پہنچے جہاں دو طرفہ کیبن بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنے کیبن تلاش کیے اور اندر پہنچ کر اپنا سامان اور بستر جمایا۔
‘‘اچھا، شب بخیر۔’’ جم دروازے کے قریب اونگھتے ہوئے سیاہ فام دربان  کو ناگواری سے گھورتے ہوئے بولا۔ ‘‘کل ہم اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجائیں گے اور تمہیں میریس سے ہمیشہ کےلیے نجات مل جائے.گی۔’’
٭٭٭
میریس ان کے برابر والے کیبن میں اطمینان سے لیٹا ہوا تھا۔ ذرا دیر بعد اسٹیمر نے تین مرتبہ وسل دی اور پورٹ سے روانہ ہوگیا۔ میریس چپ چاپ بستر پر لیٹا آوازوں پر کان لگائے ہوئے تھا۔ اسٹیمر کے اندر اور باہر کی آوازیں بھی اسے اتنی صاف سنائی دے رہی تھیں جتنی اس کی جیبی گھڑی کی ٹک ٹک کی بھاری آواز!... اسی دوران میری کی جذبات سے بھرپور آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی اس نے غور سے سننے کی کوشش کی مگر پوری نہ سن سکا۔ جم اپنے کیبن میں لیٹا ہوا اسے کچھ تسلیاں دے رہا تھا۔
تقریباً دو تین گھنٹے گزر جانے کے بعد مسافروں کی آوازیں آنا بند ہوگئیں اور اسٹیمر میں خاموشی چھا گئی۔ گیلری میں دروازے کے قریب لیمپ کے نیچے نیگروپورٹر اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا بدستور اونگھ رہا تھا.... اسی اثنا میں ایک مرتبہ میریس کو میری اور جم کی کچھ آوازیں سنائی دیں لیکن پھر غور سے سننے پر پتہ چلاکہ نیچے کچن میں باورچی لوگ ہنس بول رہے تھے۔
میریس کو جب یقین ہوگیا کہ جم اور میری دونوں سو گئے ہیں تو وہ اپنے مادی جسم کے خول سے باہر نکلا اور آہستہ سے کیبن کا دروازہ کھول کر باہر آیا۔ سوئے ہوئے سیاہ فام دربان کے پاس سے دبے پاؤں نکلا اور نیچے اترنے والے زینے پر پہنچا۔ بعد میں اسے احساس ہوا کہ اپنے مثالی جسم کے ساتھ اسے دبے پاؤں چلنے کی ضرورت ہی نہیں۔ نہ وہ کسی کو نظر آسکتا ہے اور نہ اس کے قدموں کی چاپ کوئی سن سکتا ہے چنانچہ وہ بلاخوف  و خطر زینے سے نیچے اترا اور کچن میں پہنچا۔ 
وہاں ایک لمبی میز کے گرد  باورچی اور بیرے کھانا کھا رہے تھے۔ ان کے قریب ہی ایک چھوٹی سی جست پوش میز پر مختلف سائز کے چاقو اور گوشت کاٹنے کی چھریاں رکھی ہوئی تھیں۔ میریس دیکھتے ہی ان کی جانب لپکا لیکن پھر  ٹھٹھک  کر کھڑا ہوگیا.... اس نے گوشت کاٹنے والی سب سے لمبی اور تیز دھار کی چھری کا انتخاب کیا جس سے ایک ہی وار میں سر، تن سے جدا کیا جاسکتا تھا....! 
میریس نے آگے بڑھ کر اسے اٹھانا چاہا لیکن دفعتاً اسے خیال آیا سامنے بیٹھے ہوئے لوگ اگرچہ اسے دیکھ نہیں سکتے تاہم ان کی نظروں سے بچا کر چھری اٹھانا مشکل ہے.... وہ ابھی کوئی طریقہ سوچ ہی رہا تھا کہ خوش قسمتی سے ان لوگوں میں سے کسی نے کوئی پھڑکتا ہوا لطیفہ سنایا جس پر سب لوگ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر جھکے اور جوں ہی سب کی نظریں نیچی ہوئیں، میریس نے چشم زون میں چھری میز سے اٹھالی اور وہاں سے لپک کر اوپر آیا.... 
دروازے کے قریب بیٹھا ہوا دربان  ابھی تک نیند میں غافل تھا.... گیلری میں اس وقت خاصا اندھیرا تھا، وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا جم کے کیبن کی طرف آیا۔ کیبن کے دروازے کے نیچے روشنی اور ہوا کے لیے تھوڑی سی کھلی ہوئی جگہ تھی اس میں ہاتھ ڈال کر اس نے چھری اندر فرش پر پھینک دی اور پھر خود دروازے کے اندر پہنچ گیا.... 
 کمرے میں  روشنی بہت کم تھی۔اس نے  فرش پر پڑی ہوئی چھری اٹھائی اور بستر پر سوئے ہوئے نوجوان کے قریب پہنچا۔ وہ اس وقت گہری نیند میں معلوم ہو رہا تھا۔ میریس اپنے رقیب سے انتقام لینے کے لیے بےتاب تھا۔ وہ کچھ دیر اس کے اوپر سر جھکائے کھڑا رہا۔ وہ سوچنے لگا کہ میں اس کا کام تمام کردوں گا۔ اس کی چیخ سن کر میری اپنے کیبن سے دوڑی ہوئی آئے گی اور کیبن کا دروازہ زور زور سے پیٹے گی.... اور جب وہ اپنے عاشق کو بستر پر خون میں.غلطاں....
میریس نے یہ سوچتے ہوئے یکایک بےتابانہ اپنا ہاتھ اٹھایا اور چھری کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کردیا۔ اس کے حلق سے چیخ بھی نہ نکل سکی۔ خون فوارے کی طرح اس کے حلق سے ابل رہا تھا۔ 
میریس اس وقت فرط خوشی اور جوش  سے بری طرح ہانپنے لگا،  خون آلود چھری اس کے  ہاتھ سے چھوٹ کر وہیں  گرگئی ۔  قریب تھا کہ وہ غش کھا کر گرجاتا  مگر اس نے خود کو سنبھالا اور کچھ دیر رک کر اپنا سانس درست کیا۔ پھر  وہ چھری اُٹھانے کے لیے جھُکا .... بستر کے نیچے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے قریب کسی بھاری مگر نرم و گداز  چیز سے اس کا ہاتھ  ٹکرایا تو اس ٹٹولتے ہوئے نے قریب ہوکر غور سے اسے دیکھا....وہ اس کا گھوڑے کی بال والا  سوٹ کیس horsehair trunk تھا!
‘‘اوہ! غضب خدا کا۔’’ خوشی اور خوف کی ملی جُلی کیفیت کے ساتھ لرزتی ہوئی آواز میں وہ چلایا۔ ‘‘غضب خدا کا!’’ اسی لمحے کیبن کے دروازے کے پاس دربان  کے کرسی کھسکانے کی آواز آئی۔
‘‘یہ تو میرا اپنا کیبن تھا....!’’ وہ بدحواسی میں چلایا.... اندھیرے میں اسے احساس ہی نہ ہوا  تھا کہ وہ اپنے ہی  کمرے میں ہے۔
‘‘یہ میں نے کیا کردیا!’’....اور وہ بوکھلائے ہوئے انداز میں گردن پر ہاتھ رکھ کر اپنے خون کے ابلتے ہوئے فوارے کو روکنے کی ناکام کوشش کرتا رہا!....

[حوالہ :  ہارس ئیر ٹرنک ۔ کوئینز مسٹری میگزین]

امریکی فکشن  ناول نگار اور  کہانی نویس

ڈیوِس گرب ۔ 1919ء تا  1980 ء


ڈیوِس   الیکژینڈر گرب  Davis Alexander Grubb ، 23 جولائی 1919ء کو امریکہ کی ریاست  ورجینیا کے  مغربی علاقے ماؤنڈ ولے Moundsville میں ایک امیر کبیر گھرانے میں پیدا ہوا،     اس کے دادا مقامی بینک کے بانیوں میں سے تھے، لیکن 1930ء میں امریکہ  کے  عالمی اقتصادی بحران  میں اس کے  گھرانے کو  دربدر  ہونا پڑا۔  ڈیوِس کو بچپن سے ہی لکھنے اور پینٹنگ کا شوق تھا،  لیکن وہ  کلر بلائنڈنیس (رنگ کے اندھا پن ) کے مرض کا شکار  ہوگیا۔ اس معذوری کی وجہ سے اس نے پینٹنگ چھوڑکر  فکشن کہانیاں لکھنا شروع کردیں۔ تاہم اس  نے رنگوں سے مبرّا ڈرائنگ اور خاکے (اسکیچ) بڑی تعداد  میں بنائے۔    1940ء میں، ڈیوِس  نیویارک  منتقل  ہوگیا اور  این بی سی ریڈیو پر  اسکرپٹ رائٹنگ کا کام  کرنے لگا، ساتھ ہی وہ فارغ وقت  میں مختصر کہانیاں بھی تحریر کرتا، وہ عموماً پراسرار، ڈراؤنی ، سسپنس اور جرائم پر مبنی کہانیاں لکھتا تھا۔  1940کی دہائی میں تقریباً ہر اہم رسالوں میں اس کی کہانیاں شایع ہوئیں۔ 
1950 کی دہائی میں اس نے ناول لکھنا شروع کیا،    1953ء میں سچی کہانی پر مبنی اس کا مسٹری  ناول   دی نائٹ آف دی ہنٹر The Night of the Hunter  بے حد مقبول ہوا، جسے نیشنل بُک ایوارڈ سے نوازا گیا بعد میں اسے فلم کے قالب میں بھی ڈھالا گیا ۔  1969ء میں اس کے ایک اور ناول ‘‘فوُل پریڈ’’ پر بھی کامیاب فلم بنائی گئی۔  ڈیوِس  نے  کُل10  ناول اور مختصر کہانیوں کے کئی مجموعے تحریر کیے، اس کی بعض کہانیوں کو الفریڈ ہچکاک  اور روڈ سیلرنگ کی سیریز میں  ٹیلی ویژن  پر پیش کیا گیا۔ آخری عمر میں ڈیوِ س گرب  کینسر میں مبتلا ہوگیا تھا ۔  24 جولائی  1980ء کو وہ  61 برس کی عمر میں نیویارک میں    چل بسا ۔ 

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں