انگریزی ادب سے ایک پراسرار کہانی

موم کا گُڈا

پراسرار ، تحیر خیز  اور محیر العقول   کہانیوں سے 

دلچسپی رکھنے والے قارئین  کے لیے بطور خاص

زیر نظر کہانی رابرٹ بلوک  کی مختصر  انگریزی  کہانی Sweets to the Sweet کا ترجمہ ہے۔   جو  سب سے پہلے  مارچ 1947ء میں سسپنس میگزین Weird Tale میں شائع ہوئی  تھی ،   یہ کہانی 2000ء میں  کتاب  My Favorite Horror Story  میں دوبارہ شایع ہوئی، اس کتاب کے ابتدائیے  میں معروف   فکشن ناول نگار Stephen King  نے اسے اپنی پسندیدہ ترین پراسرار کہانی قرار دیا تھا ۔ 






‘‘ارما ڈائن نہیں ہوسکتی’’۔
‘‘اس کے نقش بڑے سیدھے اور سادہ سے ہیں۔ لیکن وہ بڑی خوبصورت ہے۔ اس کی آنکھیں نیلی اور اس کا رنگ گندمی ہے۔ اس کے بال طلائی  ہیں اور پھر وہ صرف آٹھ سال کی ہی تو ہے’’۔
‘‘وہ اسے کیوں ایسے تنگ کرتا ہے’’۔  مس پال نے سسکی سی بھری اور اسی کی وجہ سے اس کے دماغ میں یہ بات سما گئی ہے۔ وہ.... وہ اسے ڈائن کہہ کر پکارتا ہے۔
سام اسٹیور اس وقت اپنی جھولا کرسی پر بیٹھ چکا تھا اور بڑے غور سے مس پال کی باتیں سن رہا تھا۔ 
 مس پال جیسی عورتوں کو یقیناً رونا نہیں چاہیے۔ ان کے چشمے اوپر نیچے ہوتے ہیں۔ ان کی ناکیں دائیں بایں مڑتی ہیں۔ ان کے پپوٹے سوج جاتے ہیں اور ان کے بالوں کی عجیب حالت ہوجاتی ہے۔
‘‘ذرا سکون سے محترمہ۔ ’’ سام نے خوشامدانہ لہجے میں کہا۔ ‘‘میرا خیال ہے اگر ہم ذرا طریقے اور اطمینان سے گفتگو کرسکیں تو بہتر....’’
‘‘مجھے کوئی پروا نہیں۔’’ مس پال پھنکاری۔ 
‘‘میں وہاں اب واپس نہیں جاؤں گی، میں یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکتی اور پھر میں وہاں کرتی ہی کیا ہوں۔ وہ تمہارا بھائی ہے اور وہ تمہارے بھائی کی بیٹی۔ یہ میری ذمہ داری تو نہیں اور ویسے بھی  میں تو اپنی تمام کوشش کرچکی ہوں۔’’
‘‘وہ سب ٹھیک ہے۔’’ اسٹیور نے اپنی دھیمی دھیمی مسکراہٹ سے کہا۔ ‘‘میں سب کچھ جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں۔ لیکن محترمہ آخر تمہارے اتنا پریشان ہونے کی وجہ کیا ہے۔’’  
مس پال نے اپنا چشمہ اتارا۔ ایک چھوٹے سے رومال سے آنکھوں کو خشک کیا۔ پھر اسی گیلے رومال کو پرس میں رکھا۔ چشمہ دوبارہ لگایا اور سیدھے طریقے سے بیٹھ گئی۔
‘‘بہت اچھا۔ مسٹر اسٹیور۔ میں تمہیں وہ سب حالات بتانے کی پوری پوری کوشش کروں گی جن کی وجہ سے میں تمہارے بھائی کی ملازمت چھوڑنے پر مجبور ہوں۔’’ اس نے ایک لمبی سانس لی۔
‘‘میں دو سال پہلے جون اسٹیور کے پاس ایک اشتہار کے جواب میں آئی تھی۔ جو اس نے گھر سنبھالنے والی ایک ملازمہ کے لیے دیا تھا۔ یہ تو تم جانتے ہی ہو۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ مجھے ایک چھ سالہ بچی کی بھی نگہداشت کرنی ہوگی تو میں پہلے تو بہت پریشان ہوئی۔ کیونکہ بچوں کی تربیت کے بارے میں، میں کچھ زیادہ نہیں جانتی تھی۔’’
‘‘جون نے پہلے ایک نرس رکھی تھی۔’’ سام اسٹیور نے سر ہلایا۔ ‘‘تم جانتی ہو  کہ ارما کی ماں تو بچی کے پیدائش کے دوران ہی چل بسی تھی۔’’
‘‘مجھے معلوم ہے۔’’ مس پال نے ذرا اونچی آواز میں کہا۔ ‘‘قدرتی طور پر انسان ایسے تنہا اور نظر انداز کیے ہوئے بچے کے لیے لگاؤ محسوس کرتا ہے اور پھر وہ تو بڑی ہی تنہا تھی۔ مسٹر اسٹیور۔ اگر تم نے اسے ان دنوں میں دیکھا ہوتا۔ اوہ۔ خدا کی پناہ۔ وہ اس بڑے اجاڑ سے مکان میں ادھر ادھر چھپتی پھرتی تھی’’۔
‘‘میں نے اسے دیکھا تھا’’۔ سام اسٹیور نے جلدی سے کہا۔‘‘اور میں جانتا ہوں جو کچھ کہ تم نے اس کے لیے کیا ہے۔ میرا بھائی دراصل بڑا بےپرواہ اور غافل سا انسان ہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات وہ کچھ خود غرض سا بھی ہوجاتا ہے۔ وہ.... نہیں سمجھتا۔’’
‘‘وہ بڑا ظالم بھی ہے۔’’ مس پال نے ایک دم جوشیلے انداز میں کہا۔ ‘‘وہ ظالم اور بدطنیت ہے۔ اگرچہ وہ  تمہارا بھائی ہے۔ لیکن وہ کس طرح بھی باپ ہونے کے قابل نہیں۔ جب میں آئی۔ تو.... تو اس بچی کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں پر نیلے اور سیاہ دھبے پڑے ہوئے تھے۔ وہ اسے ایک چابک سے....’’
‘‘میں جانتا ہوں بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ شاید ابھی تک جون اپنی بیوی کی موت کے صدمے کو نہیں بھلا سکا اور اسی لیے جب تم آئیں تو میں بڑا خوش ہوا۔ میرا خیال تھا کہ تم حالات کو بڑی  اچھی طرحسنبھال لو گی۔
‘‘میں نے کوشش کی۔’’ مس پال نے عجیب سے رو دینے والے انداز میں کہا۔ ‘‘میں نے کوشش کی۔ ان دو سالوں میں میں نے کبھی بھی اس بچی پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ اگرچہ کتنی بار تمہارے بھائی نے مجھ کو کہا کہ میں اسے سزا دوں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اس چھوٹی ڈائن کو مرمت کی ضرورت ہے۔ اسے سزا ملنی چاہیے۔ بس تھوڑی سی مرمت۔ وہ پھر میرے پیچھے چھپ جایا کرتی اور کہتی کہ مجھے اس سے بچاؤ۔ لیکن وہ کبھی روتی نہیں تھی ۔ مسٹر اسٹیور....! میں نے اسے کبھی روتے ہوئےنہیں دیکھا۔’’
سام اسٹیور ذرا برہم سے ہوگیا۔ وہ اب اس کی باتوں سے بور ہورہا تھا ۔ ‘‘لیکن اب تمہارا کیا مسئلہ ہے۔محترمہ!!؟’’
‘‘جب میں یہاں آئی تو ہر ایک کام صحیح طریقے سے ہونے لگا۔ ہم بڑے اچھے دن گزارنے لگے۔ میں نے ارما کو پڑھانا شروع کردیا۔ لیکن میں یہ دیکھ کر بڑی حیران ہوئی کہ وہ تو پہلے سے کافی کچھ پڑھنا جانتی ہے۔ تمہارے بھائی نے مجھ سے کہا تھا کہ ‘‘وہ گھنٹوں صوفے پر کتابیں لیے بیٹھی رہتی....  لیکن لیکن پھر ایک دن میں نے اسے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کھولے دیکھا۔ ‘‘تم کیا پڑھ  رہی ہو ارما’’۔ میں نے اس سے پوچھا۔ اس نے مجھے دکھایا۔ یہ جادو Voodoo کے متعلق مضمون تھا۔
تم نے دیکھا۔ کیسے ہولناک سے خیالات تمہارے بھائی نے اس کے ذہن میں بھر دیے ہیں۔
میں نے اپنی پوری کوششیں کیں۔ میں اس کے لیے کھلونے لے کر آئی۔ اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ کوئی گڑیا بھی نہیں ، وہ  کھیلنا بھی نہیں جانتی تھی۔ میں نے اسے اردگرد کے دوسرے بچوں سے ملانے کی کوشش کی۔ لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ وہ بچے اسے نہیں سمجھ سکتے تھے اور ان بچوں کو وہ نہیں جان سکتی تھی، ان کے درمیان اکثر لڑائیاں ہوجاتیں۔ اس کا باپ اسے اسکول نہیں بھیجنا چاہتا تھا۔ اس لیے مجھے اسے پڑھانا بھی تھا۔  پھر میں اس کے لیے (ماڈل) کھلونے بنانے کی مٹی لائی۔ اس نے اسے پسند کیا اور پھر وہ گھنٹوں بیٹھی مٹی کے چہرے بناتی رہتی، چھ سالہ بچی اتنا کچھ کر لیتی تھی   یقیناً وہ  بہت زیادہ ذہین ہے۔  ہم چھوٹی چھوٹی گڑیاں اکٹھے بنایا کرتے تھے۔ میں ان کے لیے کپڑے سیا کرتی تھی، پہلا سال تو بہت اچھا گزرا اور پھر خاص کر وہ  مہینے تو بہت اچھے تھے جب تمہارا بھائی جنوبی امریکہ گیا ہوا تھا۔ لیکن اس سال جب وہ واپس آیا۔  میں.... میں نہیں بتاسکتی کہ وہ کیا کرتا ہے۔’’
‘‘اوہ۔’’ سام اسٹیور نے کہا۔ ‘‘جون آج کل خوشحال نہیں۔ پہلے اس کی بیوی اس سے جدا ہوئی پھر اس کی درآمدی تجارت خراب ہونے لگی اور پھر نشے نے تو اسے بالک بےکار کردیا ہے۔ لیکن تمہیں تو سب معلوم ہے نا۔’’
‘‘میں تو صرف یہی جانتی ہوں کہ اسے ارما سے سخت نفرت ہے۔’’ مس پال فوراً بولی۔ ‘‘اسے اس سے نفرت ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ کوئی غلط کام کرے تاکہ وہ اسے مار سکے۔ اس کی کھال ادھیڑ سکے۔‘‘وہ مجھ سے کہتا تھا کہ اگر تم اس ننھی ڈائن کو قابو نہیں کرسکتیں تو میں کروں گا’’۔   پھر وہ اسے اوپر اپنے کمرے میں لے جاتا ہے اور اپنے چمڑے کی چابک سے اس کی پٹائی کرتا ہے۔ تمہیں کچھ کرنا ہوگا۔ مسٹر اسٹیور۔ تمہیں خدا کے لیے کچھ کرنا ہوگا ورنہ میں خود اس کی شکایت حکام تک لے جاؤں گی۔ ایسا ظلم۔’’
بوڑھی نا معقول عورت ضرور ایسا کرے گی۔ سام اسٹیور نے سوچا۔ ‘‘لیکن اب ارما کو کیا ہوا ہے۔’’ اس نے پھر پوچھا۔
‘‘وہ بالکل بدل گئی ہے۔ اس سال جب سے اس کا باپ واپس آیا ہے۔ وہ اب میرے ساتھ نہیں کھیلتی  بلکہ مشکل ہی سے مجھے رخ دیتی ہے۔ 
غالباً وہ سمجھتی ہے کہ میں اسے اس ظالم انسان سے بچانے میں ناکام ہوچکی ہوں اور پھر.... پھر وہ خود کہتی ہے کہ وہ ڈائن ہے۔’’
حیرانی، دلچسپی اور عجیب سے انداز میں سام اسٹیور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کرسی پر پہلوبدلا۔
‘‘اوہ۔ تم میری طرف ایسے نہ دیکھو مسٹر اسٹیور۔ وہ خود تمہیں بتائے گی۔ اگر تم.... تم کبھی اس سے ملنے جاؤ۔’’ ملامت کا لہجہ اس کے الفاظ میں صاف طور پر عیاں تھا۔ سام نے سوچا۔ وہ واقعی کبھی جون کے گھر نہیں جایا کرتا۔ اسے کتنا زمانہ ہوگیا ہے جون کے ہاںگئے ہوئے۔
‘‘اس نے مجھے بتایا ہے کہ ٹھیک ہے اگر اس کا باپ چاہتا ہے کہ وہ ڈائن بن جائے تو یقیناً وہ ڈائن ہی بنے گی۔ پھر وہ میرے ساتھ نہیں کھیلتی اور نہ ہی کسی اور کے ساتھ کیونکہ وہ کہتی ہے کہ ڈائنیں کھیلا نہیں کرتیں۔ اگر یہ مذاق ہوتا تو ٹھیک ہے لیکن افسوس تو اس بات کا ہے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے۔  دراصل بچی کا ذہن بری طرح متاثر ہوچکا ہے۔
‘‘چند ہفتے کی بات ہے اس نے مجھے کہا کہ میں اسے چرچ لے چلوں۔ میرا خیال تھا کہ وہ ٹھیک ہوگئی ہے۔ لیکن تم جانتے ہو کہ اس نے اور کیا کہا تھا وہ کہتی تھی کہ وہ بپتسمہ (عیسائیوں  میں بچوں کا نام رکھنے کی ایک رسم ) دیکھنا چاہتی ہے۔ ذرا خیال کرو آٹھ سال کی بچی اور بپتسمہ ، دیکھنا چاہے۔ یقیناًوہ اپنے آپ میں نہیں۔  بہرحال ہم چرچ گئے  وہ بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔ اس نے اپنا نیلا پیارا لباس پہن رکھا تھا اور میری انگلی پکڑ رکھی تھی اور میں اس پر فخر محسوس کر رہی تھی۔
‘‘لیکن پھر بعد میں وہ اسی طرح اپنے خول میں سماگئی۔ وہ ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھتی رہتی ہے۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کرتی ہے اور پھر رات کے وقت جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو وہ باہر باغ میں چکر لگاتی ہے۔
اس کے پاس کوئی پالتو جانور بھی تو نہیں ۔
 اس نے ایک بار جون سے کہا تھا کہ اس کے لیے کالی بلی لائی جائے۔ جب جون نے پوچھا کہ کالیکیوں....؟ 
 تو پتا ہے تمہیں، اس نے کیا جواب دیا تھا۔ کیونکہ ڈائنوں کے پاس ہمیشہ کالی بلیاں ہوا کرتی ہیں۔  بیٹی کی یہ بات سن کر وہ اسے اپنے کمرے میں پٹائی کے لیےلے گیا۔
میں اسے نہیں روک سکتی۔ اس نے اسے اس رات بھی مارا تھا۔ جب بجلی فیل ہوگئی تھی اور موم بتیاں گھر سے غائب ہوگئی تھیں۔ وہ کہتا ہے کہ موم بتیاں اس نے چرائی نہیں۔ خیال کرو ذرا تم ارما کو کیا پڑی ہے کہ موم بتیاں چرائے۔ ایک دن  آج معلوم ہوا کہ اس کے کوٹوں کا برش غائب ہے ....
‘‘تم نے کہا تھا کہ وہ اسے اپنے برش سے بھی ماراکرتا تھا۔’’
‘‘ہاں۔ بہرحال ارما نے قبول کرلیا ہےکہ اس نے یہ برش چرایا ہے اور کہا کہ اسے اپنے گڈے کے لیے ضرورت تھی۔’’
‘‘لیکن تم نے تو کہا  تھا کہ اس کے پاس کوئی گڑیا گڈا نہیں۔’’ سام نے پوچھا۔
‘‘اب اس نے اپنے لیے کچھ بنایا ہے میرا خیال ہے اگرچہ میں نے دیکھا نہیں۔ پھر وہ ہمیں کچھ بتاتی بھی تو نہیں۔ وہ تو ہم سے باتیں بھی نہیں کرتی۔’’ اب۔ اب اسے سنبھالنا بڑا مشکل ہے۔
‘‘لیکن جو گڈا اس نے بنایا ہے چھوٹا سا ہے، اتنا میں جانتی ہوں۔ کیونکہ اکثر اوقات وہ اسے اپنے بازوں کے نیچے چھپائے پھرتی ہے۔ وہ اس سے باتیں کرتی ہے۔ اسے لوریاں دیتی ہے۔ لیکن وہ کبھی بھی اسے مجھے یا اپنے باپ کو نہیں دکھاتی۔ جون نے اس سے برش کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ اس نے اسے اپنے گڈے کے لیے چرایا ہے۔
تمہارا بھائی غصے سے بھڑک اٹھا۔ وہ اسے تمام صبح پیٹتا رہا۔ لیکن وہ.... تو بس مسکراتی رہی ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اسے اب برش واپس کرسکتی ہے۔ پھر وہ اپنی الماری کی طرف گئی اور برش لاکر اسے دیا۔ برش اسی طرح تھا البتہ اس کے بال کچھ کم لگ رہے تھے۔
اس نے ایک دم برش سے چھینا اور اس کے کندھوں پر اسی سے مارنا شروع کردیا۔ پھر اس نے اس کے ہاتھ مروڑے اور.... اور....’’
مس پال کرسی پر لڑکھڑا سی گئی۔ اس کی سسکیاں اب کافی اونچی ہوگئی تھیں۔ سام اسٹیور نے اسے تسلی دی اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔‘‘کوئی بات نہیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔’’
‘‘یہی سب کچھ ہے مسٹر اسٹیور۔ میں سیدھی تمہاری طرف آئی ہوں۔ میں واپس اس گھر میں نہیں جاؤں گی۔ اپنی چیزیں لانے کے لیے بھی نہیں۔ مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوسکتا۔ وہ اسے کتنا مارتا ہے میرے خدایا.... اور پھر وہ.... وہ تو غریب روتی بھی نہیں۔ بس جیسے.... جیسے مسکرا رہی ہو۔ وہ مسکراتی رہتی ہے اور پھر بعض اوقات میں یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتی ہوں کہ وہ یقیناً ڈائن ہے۔ وہ ڈائن ہے۔ اس نے اسے ڈائن بنا دیا ہے۔’’
vvv
سام اسٹیور نے ٹیلی فون اٹھایا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی نے مس پال کے جانے کے بعد کی خاموشی کو بڑے حیران کن طریقے سے توڑا تھا۔
‘‘ہیلو۔ سام’’ 
اس نے اپنے بھائی کی آواز پہنچانی۔ شراب آلود سی۔ یہ اس کا بھائی ہی تھا۔ ‘‘ہاں۔ جون۔’’
‘‘میرا خیال ہے کہ وہ بڑھیا بکواس کرنے کے لیے تمہاری طرف ہی آئی ہے۔’’
‘‘اگر تمہارا مطلب مس پال سے ہے تو ہاں وہ مجھ سے ملی ہے۔’’
‘‘اوہ۔ اس کی باتوں پر دھیان نہ دینا۔ میں اصل واقعات تمہیں بتا دوں گا۔’’
‘‘اگر تم چاہو تو میں شام کو دفتر جاتے ہوئے تم سے مل لوں اور پھر تم سے ملے ہوئے عرصہ بھی توہوگیاہے۔’’
‘‘اوہ کوئی خاص ضرورت نہیں۔ سب ٹھیک ہی تو ہے اور پھر آج شام کو تو ڈاکٹر بھی آنے والا ہے۔’’
‘‘کیا تم کچھ بیمار ہو۔’’
‘‘میرے بازوں میں درد ہوتا ہے۔ شاید ریح یا گٹھیا وغیرہ ہو۔ میں ڈایا تھرمی Diathermy (برقی حرارت جو علاج کے طور پر استعمال ہوتی ہے) لے رہا ہوں۔ بہرحال میں کل تمہیں بلاؤں گا اور ہم سب معاملے کو درست کرلیں گے’’۔
‘‘ٹھیک ہے۔’’
جون اسٹیور نے دوسرے دن سام کو نہ بلایا پھر شام کو سام نے خود ہی اسے فون کیا۔ لیکن اسے بڑی حیرانی ہوئی جب اس کے فون کا جواب ارما نے دیا۔ اس کی نازک پتلی، باریک مدہم سی آواز اس کے کانوں میں آئی۔‘‘ابا اوپر کمرے میں ہیں۔ وہ بیمار ہیں۔’’
‘‘اوہ اچھا انہیں کچھ نہ کہو۔ کیا ان کا بازو۔’’
‘‘نہیں اب کمر میں درد ہے۔ شاید وہ ابھی ڈاکٹر سے ملنے جائیں۔’’
‘‘ان سے کہنا کہ میں کل ان سے ملنے آؤں گا اور ہاں۔ سب کچھ ٹھیک ہے نا۔ ارما۔ میرا مطلب ہے تمہیں مس پال کی کمی تو محسوس نہیں ہوتی۔’’
‘‘نہیں تو .... اور میں تو خوش ہوں کہ وہ چلی گئی بیوقوف عورت۔’’
‘‘اوہ۔ اچھا۔ بہرحال اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے فون کردینا اور ہاں اپنے ابا کا خیال رکھو۔’’ جواب میں ہلکی سی ہنسی آئی۔ 
‘‘ہاں! بالکل کیوں نہیں۔’’ اور پھر اس نے فونبند کردیا۔
دوسرے دن سام دفتر میں ہی تھا کہ جون کا فون آیا۔ اس کی آواز بڑی کمزور اور اکھڑی سی تھی۔ شاید درد نے اسے بری طرح مجبور کردیا تھا۔
‘‘سام، خدا کے لیے جلد پہنچو۔ مجھے کچھ ہو رہا ہے۔ مجھے.... کچھ ہورہا ہے۔’’
‘‘آخر بات کیا ہے۔’’
‘‘وہ درد.... بس مجھے مار ڈالے گا.... خدا کے لیے بس جلدی آؤ ۔’’
‘‘دفتر میں اس وقت ایک موکل بیٹھا ہوا ہے میں اس سے بات کرکے فوراً آتا ہوں۔ لیکن تم ڈاکٹر کو فون کیوں نہیں کرتے۔’’
‘‘اوہ۔ وہ جاہل عطائی کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ اس نے میرے بازو کو برقی حرارت، دی پھر کل وہ کمر کے ساتھ لگا رہا۔ لیکن....’’
‘‘کیا اس سے فائدہ ہوا۔’’
‘‘درد وقتی طور پر چلا گیا تھا۔ لیکن اب.... اب تو مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ جیسے میرا گلا گھونٹا جارہا ہو۔ میرا سانس بند ہورہا ہے اور چھاتی جیسے کوئی اس پر ہتھوڑے چلا رہا ہو۔’’
‘‘ لگتا ہے شاید پولرسی Pleurisy (پھیپھڑوں کی سوزش) ہے۔ تم ڈاکٹر کو ضرور بلاؤ۔’’
‘‘یہ پولر سی نہیں۔ اس نے میرا پورا معائنہ کیا تھا اور کہا تھا کہ جسمانی طور پر کوئی گڑبڑ نہیں لیکن میں اسے اصل وجہ بھی تو نہیں بتا سکتا نا۔’’
‘‘اصل وجہ’’
‘‘ہاں۔ وہ بال۔ وہ بال جو ننھی ڈائن اپنے اس گڈے میں چبھو رہی ہے جو اس نے بنایا ہے۔ پہلے بازو میں پھر کمر میں۔ اف۔ جانے۔ وہ ڈائن آخر یہ سب کچھ کیسے کر رہی ہے۔’’
‘‘جون تم آخر کیسی باتیں....’’
‘‘اب کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ میں تو بستر سے بھی نہیں اٹھ سکتا۔ اب تو میں پوری طرح اس کے قبضے میں ہوں۔ میں نیچے نہیں جاسکتا تاکہ اس سے یہ گڈا چھین سکوں اور پھر کوئی دوسرا اس پر یقین بھی نہیں کرتا لیکن یہ سب کچھ اسی گڈے کی وجہ سے ہی ہے۔ جو اس نے موم بتیوں کے موم سے بنایا ہے اور پھر وہ بال.... جو اس نے میرے برش سے نکالے ہیں۔ اوہ خدا.... میں تو بول بھی نہیں سکتا۔ خدا  ! اس ڈائن کو تباہ کرے۔ جلدی کرو سام۔ جلدی۔ وعدہ کرو کہ تم جلد آؤ گے اور کچھ کرو گے۔ ہاں اس سے وہ گڈا چھینو گے۔ وہ گڈا۔’’
vvv
آدھ گھنٹے بعد ساڑھے چار بجے سام اسٹیور اپنے بھائی کے گھر میں داخل ہوا۔ دروازہ ارما نے کھولا تھا۔
سام بڑا حیران ہوا۔ سیدھی سادی ارما وہاں کھڑی تھی۔ وہ بےفکری میں ہولے ہولے مسکرا رہی تھی۔ اس کے سنہری بال پیچھے کی طرف مڑے ہوئے تھے اور وہ تو خود ہی ایک ننھی سی گڑیا لگ رہی تھی۔ ننھی سی گڑیا۔ ‘‘ہیلو۔ چچا سام۔’’
‘‘ہیلو۔ ارما۔ تمہارے ابا نے مجھے بلایا ہے۔ کیا انہوں نے تمہیں نہیں بتایا۔وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی طبیعت کچھ خراب ہے۔’’
‘‘میں جانتی ہوں۔ لیکن وہ تو اب ٹھیک ہیں اور سورہے ہیں۔’’
سام اسٹیور کو ایسے لگا جیسے اسے کچھ ہوگیا ہو۔ ایک ٹھنڈی سرد لہر اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرسرائی۔
‘‘سو رہے ہیں۔’’ اس نے بمشکل کہا   اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی وہ اوپر کی منزل کی طرف دوڑ رہا تھا۔
جون بستر پر پڑا تھا اور یقیناً سو رہا تھا ۔ ہاں سورہا تھا۔  سام اسٹیور نے اس کے سانس کے ساتھ اس کی چھاتی کا اتار چڑھاؤ دیکھا۔ وہ زندہ تھا۔
وہ ٹھنڈی لہر اب گزر چکی تھی۔ سام مسکرا دیا۔  اس کا بھائی زندہ تھا۔ وہ مڑا اور نیچے اترا۔   وہ سیڑھیوں سے اتر رہا تھا۔ اس نے اپنے بھائی کے لیے مختلف پروگراموں کے بارے میں سوچا۔ جون کو چھ ماہ کا مکمل آرام اور ارما کو کسی بہبودی اطفال ادارے کے سپرد کرنا تاکہ وہ اس پرانے کتابوں سے بھرے ہوئے مکان کے گھٹے گھٹے ماحول سے نکل سکے۔
پھر وہ اچانک آدھی سیڑھیوں میں ہی رک گیا۔ مدہم روشنی میں اس نے سیڑھیوں کے جنگلے کے اوپر سے نیچے جھانکا۔ نیچے صوفے پر ارما گڑھی سی بنی ہوئی بیٹھی تھی۔ وہ کسی سے باتیں بھی کر رہی تھی۔ اس کی جھولی میں کچھ تھا اور وہ اسے جھلا  رہی تھی۔
‘‘تو گڈا تھا نا آخر’’۔
سام اسٹیور آہستہ آہستہ خاموشی سے دبے پاؤں نیچے اترا اور پھر ایک دم ارما کے سر پر پہنچ گیا۔
‘‘ہیلو۔’’
ارما ایک دم اچھلی۔ اس نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور جھولے والی چیز کو مکمل طور پر چھپا کر  اسے سختی سے اپنے ساتھ چمٹا لیا۔سام اسٹیور کو یاد آیا۔ اس کے بھائی نے کہا تھا۔ اس کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔ اس کا سانس بند ہورہا ہے اور کوئی اس کی چھاتی پر ہتھوڑے چلا رہا ہے۔
ارما نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر معصومیت چھائی ہوئی تھی۔
‘‘ابا اب اچھے ہیں؟’’اس نے توتلے پن میں پوچھا
‘‘ہاں بہت۔’’
‘‘میں جانتی تھی۔ وہ اچھے ہوجائیں گے۔’’
‘‘لیکن میرا خیال ہے اب انہیں آرام کی ضرورت ہے۔ لمبے آرام کی تاکہ وہ مکمل طور پر صحتیاب ہوسکیں۔’’
ایک عجیب سی مسکراہٹ ا سکے چہرے پر پھیل گئی۔ ‘‘یقیناً۔’’ ارما نے کہا۔
‘‘اور ہاں  ’’ سام بولتا رہا۔‘‘تم یہاں اکیلی بھی تو نہیں رہو گی۔ میں سوچ رہا تھا کہ آیا تمہیں کسی اسکول بھجوا دیا جائے یا پھر کسی پرائیوٹ ہوم میں داخل کردیاجائے۔’’
ارما کھلکھلائی۔‘‘آپ میرے بارے میں فکر نہ کریں۔’’ وہ صوفے پر آگے آئی اور جونہی سام وہاں بیٹھا وہ کود کر نیچے  دوڑ گئی۔ اس حرکت میں سام اسٹیور نے ننھی ننھی دو ٹانگیں دیکھیں۔ جو ارما کے بازوں کے نیچے سے نظر آرہی تھیں۔ ان پر ننھی سی پینٹ بھی تھی اور جوتے بھی۔
‘‘یہ تمہارے پاس کیا ہے۔ ارما....؟’’ اس نے پوچھا۔ ‘‘کیا یہ کوئی گڑیا ہے۔’’ اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا۔وہ ایک دم پیچھے ہٹی۔
‘‘آپ اسے نہیں دیکھ سکے۔’’ اس نے کہا۔
‘‘لیکن میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ مس پال نے مجھے بتایا تھا کہ تم بڑی خوبصورت گڑیاں بناتی ہو۔’’
‘‘مس پال احمق تھی اور تم بھی احمق ہو۔ چلے جاؤ یہاں سے۔’’
‘‘اوہ۔ ارما۔ آخر کیا ہوا ہے تمہیں۔ میں یہ گڑیا دیکھوں گا۔’’ وہ بول رہا تھا۔ اس کی نظریں گڑیا پر ہی لگی ہوئی تھیں اور پھر جونہی ارما پیچھے ہٹی۔ ایک لمحے کے لیے اسے گڑیا کا سر نظر آیا۔ یہ ایک ننھا سا موم کا انسانی سر تھا۔ جس پر بال بھی لگائے گئے تھے اگرچہ مدہم روشنی کی وجہ سے وہ صاف طور پر گڈے کا چہرہ نہ دیکھ سکا۔ لیکن پھر بھی پہچان گیا تھا۔ وہی آنکھیں، وہی ناک، وہ ٹھوڑی۔ بالکل وہی ہو بہو اس کا بھائی تھا۔
وہ اب اور زیادہ صبر نہیں کرسکتا تھا۔ ‘‘یہ گڈا مجھے دو۔ ارما۔’’ وہ چلایا۔ ‘‘میں جانتا ہوں یہ کیا ہے اور کون ہے۔’’ اس کی آواز بڑی کرخت تھی....
اور پھر ایک لمحے کے لیے ارما کے چہرے سے معصومیت کا غلاف اتر گیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کشش اور دبدبہ پنہاں تھا۔ سام نے جھرجھری سی لی۔ وہ جان گئی تھی کہ اس کا چچا سب کچھ جان گیا ہے۔ لیکن پھر.... پھر دوسرے ہی لمحے وہ غلاف دوبارہ چڑھ آیا تھا۔  اور اب ارما۔ وہی ننھی۔ خوبصورت، پیاری  بچی تھی۔ اس کے ننھے ننھے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اور اس کی آنکھوں میں شرارت جھلک رہی تھی۔
‘‘اوہ چچا سام۔’’ وہ مسکرائی ‘‘آپ کیسے چچا ہیں۔ آپ یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ کوئی گڈا نہیں۔’’
‘‘پھر یہ کیا ہے۔’’ سام نے دھیمے سے لہجے میں پوچھا۔ وہ کھلکھلا کر ہنسی۔ اب گڈا اس کے ایک ہاتھ میں تھا۔ وہ اسے لہرا رہی تھی اور کہہ رہی تھی۔
‘‘یہ تو.... یہ تو صرف شکر کا بنا ہوا پتلا ہے۔’’
پھر اس نے نہایت آہستہ سے گڈے اک سر جدا کیا اور اسے منہ میں ڈال کر ہولے ہولے چبانے لگی۔ عین اس وقت اوپر کی منزل سے ایک دلدوز قسم کی چیخ سنائی دی۔  پھر جونہی سام اسٹیور اوپر کی طرف دوڑا ننھی ارما گھر کے بڑے دروازے سے نکل کر باہر رات کی تاریکی میں غائب ہوگئی۔

[حوالہ:  سویٹ ٹو دی سویٹ ، وئیرڈ ٹیل  ؛  ]





امریکی فکشن ادیب  اور تھرلر اور ہارر  ناول نگار 

رابرٹ  بلوک   ۔1917ء تا 1994 ء 


رابرٹ البرٹ بلوک Robert Albert Bloch،  امریکہ کے معروف  کہانی نویس ہیں، جو  اپنی سسپنس، تھرلر، کرائم اور ہارر   کہانیوں اور  اپنے مشہور زمانہ ناول Psycho کی وجہ سے جانے جاتے ہیں  ۔  
رابرٹ بلوک 5 اپریل 1917ء کو امریکی ریاست الینوس کے شہر شکاگو کے مضافاتی علاقے مے وڈ Maywoodمیں  پیدا ہوئے،  لڑکپن میں ہی ان کے والدین وسکونسن  منتقل ہوگئے۔  رابرٹ کو لڑکپن  ہی سے سسپنس اور ڈراونی کہانیوں  میں دلچسپی تھی ، انہوں نے 13 برس کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کردیں ۔ 17 برس کی عمر میں  رابرٹ نے باقائدہ طور پر امریکہ کے مشہور سسپنس میگزین Weird Tales کے لیے  لکھنا شروع کیا اور دیکھتے دیکھتے  رابرٹ  اس میگزین کے مقبول ترین مصنف بن گئے،  1954ء  میں اس  میگزین کے زوال   کے بعد  رابرٹ بلوک نے    دیگر میگزین  کے لیے لکھنے کے ساتھ  ساتھ ناول بھی لکھے۔

 1959ء میں رابرٹ کا لکھا گیا ناول   سائیکو Psycho  اس قدر مقبول ہوا کہ الفریڈہچکاک  نے اسی سال اس ناول پر ہالی ووڈ کی  فلم بنائی ۔  2012 ء میں اسی ناول پر دوبارہ فلم بنائی جاچکی ہے ۔    رابرٹ بلوک کے دیگر ناولوں میں  American Gothic،  The Scarf،  Night of the Ripperمقبول ہوئے۔  سن ساٹھ کی دہائی سے  رابرٹ بلوک نے کئی  فلموں اور ڈراموں کے لیے اسکرپٹس لکھے،  جن میں The Skull،  Asylum ، The  Night Walker اور The Deadly Bees  شامل  ہیں۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں

رابرٹ البرٹ بلوک Robert Albert Bloch،  امریکہ کے معروف  کہانی نویس ہیں، جو  اپنی سسپنس، تھرلر، کرائم اور ہارر   کہانیوں اور  اپنے مشہور زمانہ ناول Psycho کی وجہ سے جانے جاتے ہیں  ۔  
رابرٹ بلوک 5 اپریل 1917ء کو امریکی ریاست الینوس کے شہر شکاگو کے مضافاتی علاقے مے وڈ Maywoodمیں  پیدا ہوئے،  لڑکپن میں ہی ان کے والدین وسکونسن  منتقل ہوگئے۔  رابرٹ کو لڑکپن  ہی سے سسپنس اور ڈراونی کہانیوں  میں دلچسپی تھی ، انہوں نے 13 برس کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنا شروع کردیں ۔ 17 برس کی عمر میں  رابرٹ نے باقائدہ طور پر امریکہ کے مشہور سسپنس میگزین Weird Tales کے لیے  لکھنا شروع کیا اور دیکھتے دیکھتے  رابرٹ  اس میگزین کے مقبول ترین مصنف بن گئے،  1954ء  میں اس  میگزین کے زوال   کے بعد  رابرٹ بلوک نے    دیگر میگزین  کے لیے لکھنے کے ساتھ  ساتھ ناول بھی لکھے۔
 1959ء میں رابرٹ کا لکھا گیا ناول   سائیکو Psycho  اس قدر مقبول ہوا کہ الفریڈہچکاک  نے اسی سال اس ناول پر ہالی ووڈ کی  فلم بنائی ۔  2012 ء میں اسی ناول پر دوبارہ فلم بنائی جاچکی ہے ۔    رابرٹ بلوک کے دیگر ناولوں میں  American Gothic،  The Scarf،  Night of the Ripperمقبول ہوئے۔  سن ساٹھ کی دہائی سے  رابرٹ بلوک نے کئی  فلموں اور ڈراموں کے لیے اسکرپٹس لکھے،  جن میں The Skull،  Asylum ، The  Night Walker اور The Deadly Bees  شامل  ہیں۔