انگریزی ادب سے ایک پراسرار کہانی

The Return of Andrew Bentley

مرنے کے بعد

پراسرار ، تحیر خیز  اور محیر العقول   کہانیوں سے  دلچسپی رکھنے والے قارئین   کے لیے بطور خاص 

زیر نظر کہانی مارک شورر  کی  انگریزی  کہانی The Return of Andrew Bentley   کا ترجمہ ہے۔   جو  سب سے پہلے  ستمبر 1933ء میں سسپنس میگزین Weird Tale میں شائع ہوئی  تھی ،   اس  کہانی کو 1944ء میں بینیٹ کریف Bennett Cerf کی کتاب Famous Ghost Stories   اور مارون کئیے  Marvin Kaye کی 1991ء کی کتاب Haunted Americaمیں شامل کیا گیا۔    کچھ ترمیم اور اضافے کے ساتھ  اس کہانی کو ڈرامائی شکل بھی دی گئی جسے  1961ء میں امریکی نشریاتی   ٹیلی ویژن NBC  کی تھرلر سیزیز میں  پیش کیا گیا۔   اس ڈرامہ کو آج بھی یوٹیوب پر  ‘‘The Return of Andrew Bentley’’ کے نام سے  تلاش کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔  





پُراسرار اور عجیب واقعات کا یہ سلسلہ جس انداز میں شروع ہوا، وہ بجائے خود ایک معما ہے۔ سب سے پہلے میرے بارے میں چند باتیں سن لیجیے کہ اس ڈرامائی اور آسیب زدہ کہانی کا تعلق مجھ ہی سے ہے۔ 
میں ایلیس Ellisتیس سال کا ایک صحت مند اور مضبوط اعصاب رکھنے والا آدمی ہوں۔ جب میں سات سال کا تھا، پہلے میرے والد اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ اس سے اگلے برس والدہ نے رخت سفر باندھا۔ میں اپنی ایک خالہ کے پاس چلا گیا جنہوں نے بڑے لاڈ پیار سے مجھے پالا اور تعلیم دلوائی۔  میرے والد کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا جسے میں نے اپنی زندگی میں صرف دو مرتبہ دیکھا تھا، کیونکہ وہ عرصہ دراز سے خاندان سے الگ ہو چکا تھا۔ میرے اس چچا کا نام Amos Wilder  ایمس ولڈر  تھا۔
مجھے خوب یاد ہے کہ جب بھی میرے والدین یا دوسرے رشتے دار اس کا ذکر کرتے، تو ان کے چہرے از حد سنجیدہ ہوجاتے اور نفرت کے جذبات ابلنے لگتے۔ وہ اس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں کرتے جو میری سمجھ سے بالا تر تھیں! تاہم اتنا میں جان گیا تھا کہ وہ میرے چچا کو منحوس جادوگر کہہ کر پکارا کرتے تھے۔ میرے والد کی سخت ترین ہدایت تھی کہ خاندان کا کوئی فرد، اس  سے تعلقات نہ رکھے، کیونکہ ایسے بدکردار اور بدطینت شخص سے کسی وقت بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
چونکہ بچپن  ہی سے چچا کے بارے میں یہ باتیں میرے کانوں میں پڑ رہی تھیں، اس لیے مجھے شعوری طور پر اس سے نفرت ہو گئی۔ کبھی کبھی میں سوچا کرتا کہ آخر یہ شخص کیسا ہوگا جس سے سبھی خوف زدہ اور ناراض ہیں۔ کاش میں اسے دیکھ سکتا! مجھے گھر کے ایک پرانے نوکر کی زبانی پتہ چلا کہ ایمس ولڈر کی ایک تصویر گھر کے کتب خانے میں موجود ہے، لیکن اس کے دروازے پر ہر وقت ایک موٹا سا زنگ آلود قفل پڑا رہتا تھا۔ میں نے ایک روز والد کے کوٹ کی جیب میں سے چابیوں کا گچھا چرایا، کتب خانے کا دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا۔ بوسیدہ اور پرانی کتابوں کی بدبو کمرے میں پھیلی ہوئی تھی۔ دیواروں پر خاندان کے بزرگوں کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں جن پر گرد کی موٹی تہہ جم گئی تھی۔ 
ایک میز پر چڑھ کر میں نے ان تصویروں پر سے گرد جھاڑی اور سب کو غور سے دیکھنے لگا۔ تصویروں کے نیچے نام تحریر تھے جن سے انہیں شناخت کرنے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ تصویریں دیکھتا ہوا جب میں کمرے کی مشرقی دیوار کے قریب پہنچا، تو سیاہ رنگ کی لکڑی کے ایک نہایت خوبصورت فریم میں لگی ہوئی ایمس ولڈر کی تصویر دکھائی دی۔ مجھے ایک لمحے کے لیے یوں محسوس ہوا جیسے کسی نادیدہ قوت نے مجھے وہیں رک جانے پر مجبور کردیا ہے۔ اس تصویر کو دیکھتے ہی میرے دل میں دہشت اور خوف کے ساتھ ساتھ انتہائی نفرت و کراہت کے جذبات پیدا ہوئے۔ 
تصویر میں جو شخص کرسی پر بیٹھا تھا، شکل و شباہت اور حلیے سے بہت ہی چالاک ،  مکار اور پراسرار شخصیت لگ رہی تھی، چھوٹی چھوٹی آنکھیں، طوطے کی چونچ جیسی خم دار ناک، بڑے بڑے کان جن پر بال اگے ہوئے تھے، پتلے پتلے اور بھنچے ہوئے سرخ ہونٹ جن پر ایک مکروہ مسکراہٹ  پھیلی تھی۔ 
میری عمر اس وقت چھ سال کی تھی ، اپنے چچا کے نقوش میرے دماغ پر اس طرح بیٹھ گئے کہ میں کئی دن تک خوف زدہ رہا۔ جب والد کو پتہ چلا کہ تو وہ بےحد ناراض ہوئے انہوں نے اسی وقت تصویر کو فریم سے نکالا اور آتش دان میں پھینک دیا۔
اس واقعے کے ایک سال بعد جنوری کی ایک صبح کو میرے والد انتقال کر گئے۔ جب ان کا جنازہ قبرستان میں لے جایا جارہا تھا، تو ہمارے گھر کے بڑے دروازے پر ایک گھوڑا گاڑی آکر رکی۔ سر تا پا سیاہ لباس پہنے ہوئے ایک دبلا پتلا سا طویل القامت شخص نہایت وقار کے ساتھ گاڑی سے نیچے اترا۔ اس کودیکھتے ہی سبھی لوگ اپنی اپنی جگہ رک گئے اور ایک عجیب سا سناٹا چھا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں نے اپنے چچا کو دیکھا۔ 
اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں خوب چمک رہی تھیں اور ہر فرد اس سے آنکھ ملاتے ہوئے گھبرا رہا تھا۔ کسی سے کوئی لفظ کہے بغیر وہ والد کے تابوت کی جانب بڑھا۔ پادری نے تابوت کا ڈھکنا اٹھایا۔ چچا نے والد کے چہرے پر ایک نظر ڈالی۔ چچا کے ہونٹوں پر وہی مکروہ مسکراہٹ  نمودار ہوئی  جو میں تصویر میں دیکھ چکا تھا۔  پھر وہ میری والدہ کی جانب مڑا اور دبے الفاظ میں اظہار تعزیت کیا۔ 
میں بوڑھے باورچی کے پیچھے سہما ہوا کھڑا تھا۔ اب اس نے مجھے دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھ میری جانب بڑھا دیے۔ میں دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹ گیا۔  اس کے بعد ایمس ولڈر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر واپس چلاگیا۔
دن گزرتے گئے۔ میں اپنی پڑھائی میں ایسا گم ہوا کہ چچا کو بھول گیا۔ صرف ایک موقع پر اس کی یاد تازہ ہوئی۔ جب میں نے اخبار میں پڑھا کہ ایک شخص ایمس ولڈر براعظم  افریقہ کی طویل    سیاحت کے بعد ساک پیری Sauk  Prairie ، وسکونسن Wisconsin میں مقیم ہوا ہے اور اپنے ساتھ نوادر کا ایک بیش بہا ذخیرہ لایا ہے۔ یہ خبر پڑھتے ہی اپنے چچا کی بھولی بسری یاد میرے ذہن میں تازہ ہوگئی۔ میں نے اپنی خالہ سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: ‘‘بیٹا! تم اپنے چچا کو بالکل بھول جاؤ، تمہارا اس سے کیا واسطہ؟ اس نے  تمہارے باپ کے مرنے کے بعد بھول کر بھی خبر نہ لی۔ وہ نہایت خبیث آدمی ہے اور اس پر بدروحوں کا سایہ ہے۔’’
بات ٹل گئی.... کئی سال بعد میں سینٹ لوئیس Saint Louis کے بازار میں سے گزر رہا تھا، میں نے قریب سے گزرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا۔ وہی سیاہ لباس، طوطے  کی چونچ جیسی مڑی ہوئی ناک اور جھریاں پڑا ہوا چہرہ.... جو پہلے سے کہیں زیادہ زرد تھا اور آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ اس کی شناخت کا سب سے بڑا ذریعہ کانوں کے گرد اُگے ہوئے وہ لمبے لمبے سیاہ بال تھے جنہوں نے اس کا چہرہ انتہائی بدنما اور مکروہ بنا دیا تھا۔ وہ تیزی سے چلتا ہوا ایک عمارت کے صدر دروازے میں داخل ہوگیا۔ پہلے میں نے سوچا کہ اپنے چچا سے ملاقات کروں، لیکن پھر خالہ کے الفاظ کانوں میں گونجنے لگے۔  میں نے نفرت سے زمین پر تھوکا اور چچا سے ملنے کا ارادہ ترک کردیا۔
اس دوران میں میری خالہ بھی وفات پاگئیں۔ میں دربدر کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔ نام پیدا کرنے کی دھن میں دن رات محنت کرتا۔ سینٹ لوئیس میں میں نے ایک چھوٹا سا مکان کرائے پر لے لیا تھا اور بڑی مشکل سے گزربسر کررہا تھا۔  ایک روز شام کی ڈاک سے ایک غیر مانوس تحریر میں لکھا ہوا ایک چھوٹا سا رقعہ لفافے میں سے برآمد ہوا جس میں لکھاتھا:
میرے بیٹے!
‘‘یہ خط ملتے ہی فوراً ساک پیری روانہ ہوجاؤ۔ زندگی اور موت کا معاملہ درپیش ہے اور اس میں مجھے تمہاری مدد کی اشد ضرورت ہے۔ قصبے میں پہنچ کر جس سے بھی میرا مکان معلوم کرو گے، تمہیں بتا دے گا۔ 
امید ہے تم اپنے بوڑھے چچا کو نہ بھولے ہوگے۔ فقط: ایمس ولڈر’’
ایک لمحے میں  بچپن سے لے کر اب تک کے تمام واقعات نظروں کے سامنے سے گزرگئے اور ایمس ولڈر کی شکل حافظے پر ابھر آئی۔ میں دیر تک اس خط کو دیکھتا رہا جس کے ٹیڑھے اور شکستہ حروف ظاہر کرتے تھے کہ لکھنے والے کے ہاتھ میں رعشہ ہے یا اس نے کسی گھبراہٹ اور بدحواسی کے عالم میں لکھا ہے۔ اس رات میں کوئی کام نہ کرسکا۔ بار بار سوچتا رہا کہ مجھے جانا چاہیے یا نہیں۔ اپنے چچا کی جو ہیبت میرے دل و دماغ پر بچپن ہی سے بیٹھی ہوئی تھی، وہ مجھے وہاں جانے سے روکتی تھی، لیکن نوجوانی کا جوش اور کچھ کرنے کا جذبہ مجبور کرتا تھا کہ ضرور جانا چاہیے۔
vvv
 جب میں ساک پیری کے نواح میں پہنچا تو شام   ڈھل چکی تھی، دریائے وسکونسن کی سرد ہواؤں میں شدت پیدا ہوچکی تھی۔ یہ ایک چھوٹا ساقصبہ تھا جہاں بمشکل چند سو مکان تھے جن کی سرخ چھتیں دھند میں چھپی ہوئی تھیں۔ اکثر مکان ایک منزلہ تھے اور کوئی کوئی مکان دو منزلہ یا تین منزلہ  تھا۔ مجھے دیکھ کر سڑک پر  چند آوارہ کتوں نے بھونکنا شروع کردیا۔ انہیں روکنے کے لیے ایک مکان کے دروازے میں سے  ایک عمر رسیدہ آدمی نکلا۔ میں نے اس سے ولڈر ہاؤس کا پتہ پوچھا، تو پہلے اس شخص کے چہرے پر حیرت کے آثار نمودار ہوئے۔ اس نے سر سے پیر تک میرا جائزہ لیا، پھر کہا:‘‘تم بڈھے ایمس سے ملنے آئے ہو....؟ اس کا مکان آخری سرے پر ہے، بس سیدھے چلے جاؤ۔’’
یہ کہہ کر بڈھے نے دروازہ فوراً بند کرلیا۔ آدھے گھنٹے بعد میں ولڈر ہاؤس کے سامنے کھڑا تھا۔ یہ وسیع و عریض مکان بالکل ویران جگہ پر تھا۔ اس کے ارد گرد پرانی اور بوسیدہ عمارتوں کے کھنڈر پھیلے ہوئے تھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ کسی وقت یہاں بھی آبادی تھی، لیکن ان کے مکین کسی اور طرف جا بسے اور یہ مکان کھنڈر ہوگئے  ۔ مغربی جانب جنگل واقع تھا اور شمالی جانب دریائے وسکونسن کے پانی کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی جس سے اندازہ ہوتا تھا کہ دریا زیادہ دور نہیں۔ مکان کا صدر دروازہ بند تھا اور کھڑکیوں پر سیاہ رنگ کے پردے پڑے تھے۔ روشنی کی کوئی کرن دکھائی نہ دیتی تھی۔ جنگل میں پرندوں کی آوازیں اس ہولناک سناٹے کو چیرتی ہوئی میرے کانوں تک آرہی تھیں۔
میں نے اپنے جسم میں خوف کی کپکپی دوڑتی ہوئی محسوس کی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے فوراً لوٹ جانا چاہیے، لیکن کسی اندرونی جذبے کے تحت میرے قدم رک گئے.... جانے سے پیشتر چچا ایمس کو ایک نظر دیکھ تو لوں، اب تو اس کی شکل و شباہت میں تغیر رونما ہوچکاہوگا۔
میں نے آگے بڑھ کر دروازے پر زور سے دستک دی ۔ چند لمحے بعد مکان کے اندر کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی جو آہستہ آہستہ دروازے کے قریب آرہی تھی۔ میرا دل دھڑکنے لگا۔ دروازے کی آہنی زنجیر کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی  شاہ بلوط کی لکڑی کا بنا ہوا انتہائی مضبوط اور سیاہ رنگ کا دروازہ ایک گڑگڑاہٹ کے ساتھ ذرا سا سرکا اور مجھے ایک بدصورت بڈھا کھڑا دکھائی دیا۔ اس کا جسم گردن سے لے کر ٹخنوں تک سیاہ لباد ے سے ڈھکا ہوا تھا۔ ایک ہاتھ میں چھوٹا سا لیمپ تھا جس کی لو ہوا کے جھونکوں سے بھڑک رہی تھی۔ زرد رنگ کی روشنی میں بڈھے ایمس کو پہچان لینا کچھ مشکل نہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میرے سامنے ایک لاش کھڑی ہے۔ میں دہشت سے ایک قدم پیچھے ہٹ گیا اور اس کی شکل کو بغور دیکھنے لگا۔ یہ وہی مکروہ صورت چچا  تھا،  اس نے لیمپ اونچا کیا، میں نے دیکھا کہ اس کا ہاتھ برف کی مانند سپید تھا اور لمبی باریک انگلیاں نہایت سختی سے لیمپ پکڑے ہوئے تھیں، اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ وہ دروازے سے باہر آیا اور تیز آواز میں بولا:‘‘اگر میں غلطی نہیں کرتا، تو یہ میرا عزیز بھتیجا ایلس ہے۔ خوش آمدید.... خوش آمدید....’’
میں نے اثبات میں گردن ہلائی اور دروازے میں داخل ہو گیا۔ بڈھے نے لیمپ فرش پر رکھا۔ دروازے کی زنجیر چڑھائی اور لیمپ دوبارہ ہاتھ میں اٹھا کر مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
‘‘بیٹا ایلس، تم نے بہت اچھا کیا کہ آگئے۔ اب مجھے اطمینان ہوگیا .... تم تھک گئے ہوگے، اس لیے آرام کرو.... کل صبح باتیں کریں گے۔’’
ایک طویل راہداری، کئی برآمدوں اور زینوں کو کے بعد  بڈھا مجھے تیسری منزل کے ایک کشادہ کمرے میں لے گیا جہاں آتش دان کے اندر کوئلہ دہک رہا تھا۔ ایک جانب بڑی سی مسہری پر آرام دہ بستر بچھا ہوا تھا ۔ قریب ہی رکھی ہوئی میز پر رات کا کھانا چنا ہوا تھا۔ میں حیرت سے یہ سامان دیکھ رہا تھا۔ بڈھا میری اس حیرت کو بھانپ کر مسکرایا اور بولا:
‘‘مجھے یقین تھا کہ تم آج رات تک میرے پاس ضرور پہنچ جاؤ گے.... میرا حساب کبھی غلط نہیں ہوتا.... میں نے جیکب سے کہہ دیا تھا کہ کھانا تیار رکھے اور آتش دان جلا دے۔ دریا قریب ہے، اس لیے یہاں سردی بہت ہوتی ہے۔ اچھا، شب بخیر!’’
اس نے جلتا ہوا لیمپ ایک جانب رکھ دیا اور دروازے کی طرف دبے پاؤں جاکر غور سے کچھ سننے کی کوشش کرنے لگا۔ چند سیکنڈ تک وہ دروازے سے کان لگائے رہا۔ اس کی اس حرکت پر میری حیرت بڑھتی جارہی تھی۔ یکا یک اس نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھول دیا۔ باہر کوئی نہ تھا۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور لیمپ بجھ گیا۔ بڈھے کی آواز میرے کانوں میں آئی:  ‘‘طاقچے  پر دیا سلائی موجود ہے، تم لیمپ جلا سکتے ہو۔’’
میں نے ٹٹولتے ہوئے دیاسلائی کا بکس تلاش کیا اور جب لیمپ روشن کرکے دروازے کی طرف گیا، تو دروازہ باہر سے بند تھا۔
vvv
 صبح جب میری آنکھ کھلی، تو  میرے سرہانے ایک اور منحوس صورت بڈھا کھڑا تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ جیکب کنی ہے اور باورچی ہونے کے ساتھ ساتھ عمارت کی چوکیداری بھی کرتا ہے۔ اس نے مودبانہ انداز میں سلام کیا اور ناشتے کی ٹرے میز پر رکھتے ہوئے بولا: 
‘‘غسل خانہ آپ کے بائیں ہاتھ ہے۔ کوئی ضرورت ہو، تو یہ گھنٹی بجا دیجیے گا۔’’
یہ کہتے ہوئے اس نے لوہے کی بنی ہوئی ایک بڑی سی گھنٹی میز پر رکھ دی اور دبے پاؤں کمرے سے باہر نکل گیا.... فریش ہونے  کے بعد میں ناشتہ کرنے لگا۔ اس دوران میرے کمرے کا دروازہ پھر کھلا اور چچا ایمس ولڈر اندر آیا۔ اب میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے چہرے پر موت کی سی زردی چھائی ہوئی تھی۔ اس کے سپید ہاتھوں اور ننگے پیروں کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے برص کا مریض ہے۔ اس نے کل کی طرح  لمبا سیاہ لبادہ پہن رکھا تھا اور سر پر پرانی وضع کا سیاہ کنٹوپ تھا۔ دبلا پتلا ہونے کے باعث وہ پہلی نظر میں لمبا معلوم ہوتا، لیکن حقیقتاً اس کا قد پانچ فٹ سے زیادہ نہ تھا۔ اس کی عمر پچاس کے لگ بھگ ہوگی، لیکن حلیے سے یوں لگتا تھا کہ وہ ستر سال  کا ہوگیا ہے۔
مجھے دیکھ کر وہ مسکرایا اور کہنے لگا ‘‘ناشتہ تمہیں شاید پسند نہ آیا ہوگا۔ جیکب پرانا آدمی ہے، اسے نئے طرز کا ناشتہ تیار کرنا نہیں آتا۔’’
‘‘نہیں چچا، ناشتہ تو خوب ہے۔’’ میں نے اعتراف کیا۔ وہ چند لمحے تک میری جانب پلک جھپکائے بغیر تکتا رہا اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ میرا ذہن پڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس  کی نظریں اتنی مقناطیسی تھیں کہ میں گھبرا کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔کئی منٹ تک کمرے میں خاموشی طاری رہی۔ میں جب ناشتے سے فارغ ہوا تو ایمس نے گھنٹی بجائی ۔  ایک ثانیے بعد بڈھا جیکب کمرے میں داخل ہوا اور برتن اٹھا کر چپکے سے باہر چلا گیا۔ جیکب کے جانے کے بعد ایمس اٹھا۔ اس نے کمرے کا دروازہ او کھڑکیاں بند کیں، ان پر سیاہ پردے کھینچے اور پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد کہ آواز اب کمرے سے باہر سنی نہیں جاسکتی، بالکل میرے قریب آ کھڑا ہوا۔ خوف کی ایک ہلکی سی لہر میرے جسم میں دوڑ گئی۔ خدا معلوم یہ بڈھا مجھ سے کیا بات کہنا چاہتا ہے۔ میں نے رومال نکال کر پسینے کے قطرے پونچھے۔ بڈھے نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگا:
‘‘بیٹا ایمس، میں نے بہت سوچ بچار کے بعد اس کام کے لیے تمہارا انتخاب کیا ہے اور یقین ہے کہ تم مجھے مایوس نہ کروگے۔ میں نے تمہیں اس وقت دیکھا تھا جب تم سات سال کے تھے اور اسی وقت فیصلہ کرلیا تھا کہ تمہیں اپنی کل جائداد کا وارث بناؤں گا۔’’ میرا دل یکبارگی دھڑکا، بڈھا اپنی بات کا اثر دیکھنے کے لیے تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ اس نے دوبارہ گفتگو کا آغاز کیا: ‘‘لیکن اس سلسلے میں تمہیں چند شرائط پوری کرنا پڑیں گی اور.... مجھے یقین ہے کہ تم انکار نہیں کروگے۔’’
 اب میں چونکا۔ ‘‘چچا ایمس، اگر آپ کی شرائط اس قابل ہوئیں جن کومیں پورا کرسکوں، تو مجھے خوشی ہوگی۔’’ بڈھے کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا۔ اس نے اپنا استخوان نما پنجہ  میرے کندھے پر رکھا اور کہا:
‘‘میری شرائط بہت آسان ہیں۔ اب غور سے سنو اور ان پر عمل کرنے کا وعدہ کرو.... سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ تم مستقل طور پر میرے اس مکان میں رہو گے۔ مکان کے عقب میں  ایک تہہ خانہ ہے جس میں مرنے کے بعد میری لاش رکھی جائے گی اور تہہ خانے کا دروازہ سربمہر کیا جائے گا۔ اس تہہ خانے کی نگرانی تمہارے ذمہ ہوگی اور تم کسی کو بھی اس تہہ خانے میں داخل نہ ہونے دو گے۔ اگر تم محسوس کرو کہ ‘‘کوئی’’ میرے مقبرے کے دروازے کی مہر توڑ کر اندر داخل ہونے کی کوشش کر رہا ہے، تو بلا تاخیر میری لائبریری میں جانا اور میز کے خانے میں سے کاغذات نکال کر دیکھنا۔ ان پر جوہدایات درج ہوں گی، ان پر عمل کرنا۔ مگر اس سے پہلے ان کاغذات کو دیکھنے کی کوشش نہ کرنا۔ بس میری یہی شرائط ہیں۔’’
میرے دماغ میں ہل چل مچ گئی۔ میں کچھ نہ سمجھ سکا کہ بڈھا ایمس کیا کہہ رہا ہے....؟ تاہم میں نے اتنا اندازہ لگا لیا کہ کسی حادثے میں  اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے، اس لیے بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔ میں نے بحث کرنے کے بجائے اس سے کہا کہ ان تمام شرائط پر عمل کرنے میں مجھے کوئی انکار نہیں۔ ایمس ولڈر کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ مکروہ تبسم اس کے ہونٹوں پر نمودار ہوا۔ اس نے آگے بڑھ کر پردے ہٹائے۔ ایک کھڑکی کھولی جو باغ کی جانب کھلتی تھی جہاں سوائے جھاڑ جھنکاڑ کے اور کچھ نہ تھا۔ کھڑکی کھلتے ہی بڈھا اپنی جگہ بےحس و حرکت کھڑا ہوگیا۔ اس کی نظریں جھاڑیوں کی طرف اٹھی ہوئی تھیں۔ یکا یک وہ یوں بڑبڑایا جیسے کسی سے باتیں کر رہا ہو: ‘‘میں نے اب تک تمہیں قریب نہیں پھٹکنے دیا.... ایمس ولڈر تمہارے قابو میں آنے والا نہیں.... اینڈریو! کیا تم میری بات سنتے ہو....؟’’
میں حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ دفعۃً وہ میری طرف مڑا اور کہنے لگا: 
‘‘ایلس، اب میں چلتا ہوں ، تم جہاں چاہو جاسکتے ہو.... میں اب تمہیں دوبارہ نہ مل سکوں گا۔’’
یہ کہا اور تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ میں ابھی کچھ سوچنے سمجھنے بھی نہ پایا تھا کہ جیکب کمرے میں داخل ہوا۔ وہ انتہائی بدحواس  تھا۔ 
اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور تقریباً گھسیٹتا ہوا کمرے سے باہر لے گیا۔ ادھر ادھر احتیاط سے دیکھ کر اس نے سرگوشی کے لہجے میں مجھ سےکہا:
‘‘ماسٹر ایمس نے آپ سے کیا کہا....؟’’
میں نے اسے  ڈانٹ کر کہا: ‘‘بےوقوف بڈھے!  کیا تو چھپ کر ہماری باتیں سن رہا تھا....؟’’
وہ خوف سے لرز گیا اور منہ پھیر کر کچھ کہے بغیر وہاں سے چلا گیا۔ میں اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ معاملہ لمحہ بہ لمحہ پراسرار بنتا جارہا تھا۔ ایمس ولڈر کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے اور مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میرے ذہن پر منوں بوجھ رکھ دیا گیا ہے۔ میں نے اس معمے کو غور و فکر کے ذریعے حل کرنا چاہا، لیکن واقعات اس قدر الجھے ہوئے اور بےترتیب تھے کہ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا، تاہم ایک بات یقینی تھی کہ اگربڈھا ایمس پاگل نہیں، تو اسے کسی شخص اینڈریو  سے خطرہ ضرور ہے اور پھر مقبرے والی بات.... میرا دماغ چکرانے لگا۔ آخر اس نے اس بات پر زور کیوں دیا کہ اس کے مقبرے کے اندر کوئی شخص داخل ہونے کی کوشش کرے گا.... حالانکہ وہ   تو ابھی زندہ ہے۔ 
میں دماغ پر جتنا زور دیتا، معاملہ اتنا ہی پراسرار بنتا چلا جاتا۔ آخر میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے چند روز تک ٹھہر  کر اس گتھی کو سلجھانا ہوگا اور اپنے چچا کی گزشتہ زندگی کے حالات کرید کرید کر معلوم کرنے ہوں گے۔
دوپہر کو بڈھا جیکب میرے لیے کھانا لے کر آیا اور کچھ کہے بغیر واپس چلا گیا۔ میں نے بھی اسے منہ لگانا مناسب نہ سمجھا۔ کھانے کے بعد  میں چہل قدمی کے ارادے سے باہر نکلا۔ چچا ایمس غالباً مکان میں نہ تھا ورنہ میں اسے ضرور دیکھتا۔ پھر مجھے اس کے الفاظ یاد آئے کہ اب ہم نہ مل سکیں گے۔ 
ساک پیری کے نواح میں سہہ پہر تک گھومنے کے بعد جب میں تازہ دم ہو کر ولڈر ہاؤس میں پہنچا تو نچلی منزل کے بڑے کمرے میں ایک تیسرے بڈھے کو کرسی پر بیٹھے پایا۔ میں نے دل میں کہا: ‘‘یہ مکان تو بڈھوں کی آرام گاہ لگتا ہے۔ خدا معلوم ابھی یہاں کتنے ایسے ہی زندہ درگور لوگ چھپے ہوئے ہیں۔’’ مجھے دیکھتے ہی  وہ بڈھا کرسی سے اٹھا اور سوالیہ  نظروں سے تکتے ہوئے کہنے لگا: ‘‘کیا آپ ہی کا نام ایلس ہے....؟’’
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ تب اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: ‘‘مسٹر ایلس، میں نہایت رنج کے ساتھ یہ خبر آپ کو سنا رہا ہوں کہ تھوڑی دیر پہلے آپ کے چچا ایمس ولڈر اس دنیا سے چل بسے۔’’
ایک لمحے کے لیے مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے کسی نے پوری قوت سےہتھوڑا میرے سر پر دے مارا ہو۔ میں گم سم ہو کر اس اجنبی بڈھے کی صورت دیکھنے لگا۔ 
‘‘کیا کہتے ہو....؟’’ میں نے  تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ ‘‘چچا  ایمس چل بسے....؟ کیسے....؟ کب....؟’’
‘‘ابھی آدھا گھنٹہ قبل۔’’ بڈھے نے پرسکون لہجے میں کہا۔‘‘جن حالات میں وہ موت سے دوچار ہوئے۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے خود کشی کی ہے۔ میرا نام تھامس ویدربی  Thomas Weatherbee ہے اور میں آنجہانی کا مشیر قانون ہوں.... اور....’’
‘‘ذرا ٹھہریے۔’’ میں نے بات کاٹتے ہوئے  کہا۔ ‘‘میں تفصیل سے تمام واقعہ سننا چاہتا ہوں۔’’
وکیل نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور یوں گویا ہوا:
‘‘جناب، اصل قصہ یہ ہے کہ اب سے کوئی آدھا گھنٹہ قبل حسب معمول جیکب اپنے آقا کو تلاش کرتا ہوا تیسری منزل کے آخری کمرے میں پہنچا، تو اس نے آنجہانی کو ایک میز پر اس عالم میں بیٹھے پایا جیسے وہ لکھتے لکھتے اونگھ گیا ہو، کیونکہ اس کے آگے چند کاغذ پڑے تھے اور ہاتھ میں قلم تھا۔ کاغذ پر چند حروف، آپ کا نام یعنی مسٹر ایلس اورسینٹ لوئیس کا پتہ ہی لکھ پایا تھا کہ زہر نے اپنا کام کردیا اور پھر وہ اس سے آگے نہ لکھ سکا۔ اول اول خیال ہوا کہ اس کی  موت حرکت قلب بند ہوجانے سے واقع ہوئی ہے، لیکن جب ڈاکٹر نے معائنہ کیا، تو انکشاف ہوا کہ دانستہ یا غلطی سے افیون زیادہ کھا جانے کے باعث یہ مہلک حادثہ پیش آیا ہے۔ بہرحال یہ فیصلہ کرنا جیوری کا کام ہے جس کا اجلاس ابھی تھوڑی دیر بعد ہوگا، اس اجلاس میں آنجہانی کا وصیت نامہ بھی پڑھا جائے گا اور آپ کو میرے ساتھ چلنا پڑے گا۔’’
جیوری کے کل 12ارکان تھے جنہوں نے پانچ منٹ میں فیصلہ دے دیا کہ ایمس ولڈر کی موت ناگہانی طور پر افیون زیادہ استعمال کرنے سے ہوئی اور یہ اقدام خود کشی کا نہیں ہے۔ اس فیصلے سے قصبے کے پادری کو، جو دفنائے جانے کی آخری رسوم ادا کرنے والا تھا، قطعاً اتفاق نہ تھا۔ وہ کہتا تھا کہ اس بڈھے نے خود کشی کی ہے اور میں ایسے شخص کے جنازے میں شریک ہونے کے لیے بھی تیار نہیں ہوں۔   وصیت نامہ کھولا گیا۔ تو اس میں چوکیدار اور گھر کی دیکھ بھال کرنے والی ایک خاتون کو معقول رقم عطا کرنے کے علاوہ ساری جائداد میرے نام کردی گئی  تھی، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ میں جب تک زندہ ہوں، ولڈر ہاؤس میں مقیم رہوں گا۔
یہ سارا واقعہ اس سرعت سے پیش آیا کہ غور کرنے اور سوچنے کی تمام قوتیں سلب ہوگئیں۔ جائداد ملنے کی اگرچہ مجھے دل ہی دل میں خوشی بھی تھی، لیکن جب چچا ایمس کی عجیب و غریب شرائط سامنے آتیں، تو ذہن مفلوج ہوجاتا۔ دراصل مجھے یقین ہوگیا تھا کہ ایمس نے خودکشی کی ہے، تبھی وہ مجھ سے کہہ رہا تھا: ‘‘اب ہم دوبارہ نہ مل سکیں گے۔’’
سورج غروب ہونے سے پہلے ہی  ایمس ولڈر کی لاش تابوت میں بند کرکے دفن کردی گئی جس کی اس نے ایک روز پہلے ہدایت کی تھی۔ تہہ خانے کا دروازہ میں نے اپنے سامنے سربمہر کرایا۔ ساک پیری کے وہ سب لوگ جو جنازے کی رسوم میں شریک ہوئے تھے۔ تعزیت کرکے رخصت ہوگئے  اور میں اپنے کمرے میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی اور جیکب اندر آیا۔ اس کی آنکھیں ویران اور سرد تھیں، چہرے پر ایک عجیب قسم کی وحشت برس رہی تھی۔ وہ کہنے لگا:
‘‘جناب ، میں صرف یہ اطلاع دینے آیا ہوں کہ میں اب ایک لمحے کے لیے بھی اس منحوس مکان میں ٹھہرنا نہیں چاہتا۔ میں آپ سے کسی تنخواہ  کا مطالبہ نہیں کرتا۔ بس مجھے فوراً رخصت کردیجیے۔’’
‘‘کیوں....؟ تمہیں یہاں کیا تکلیف ہے....؟’’ میں نے تعجب سے پوچھا۔
‘‘جناب تکلیف تو کوئی نہیں۔’’ جیکب نے رک رک کر کہا۔ پھر کمرے میں چاروں طرف پریشان نظروں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا:
‘‘صاحب، کیا عرض کروں،  ماسٹر ایمس جب تک زندہ تھے، اس مکان میں بڑے بڑے پراسرار  اور ناقابل یقین تماشے میں نے دیکھے ہیں۔ اب ان کے مرنے کے بعد بھی ایسی ہی باتیں ظہور میں آئیں گی۔ میں اب اس آسیب زدہ مکان میں نہیں رہ سکتا۔’’
میں نے جیکب سے ان پراسرار اور ناقابل یقین تماشوں کی تفصیلات پوچھنے کی بڑی کوشش کی، لیکن اس کی حالت اتنی ابتر اور شکستہ تھی کہ وہ کچھ بتا نہ سکا اور جانے پر اصرار کرتا رہا۔ آخر میں نے اس سے کہا کہ ‘‘چند دن مزید ٹھہرو، بعد میں چلے جانا۔ ’’ یہ سن کر اس نے مودبانہ انداز میں گردن جھکائی اور آنسو پونچھتا ہوا باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میں نے گھر کی دیکھ بھال کرنے والی خادمہ مسز سیلڈن کو طلب کیا اور جب اسے بتایا کہ جیکب جانے  کی اجازت طلب کر رہا تھا، تو بڑھیا کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ میں نے دیکھا کہ خوف سے اس کے دونوں ہاتھ کانپ رہے تھے۔ اس نے جلد ہی اپنی اس کیفیت پر قابو پالیا اور کہنے لگی: ‘‘جناب، آپ اس بڈھے کو ہرگز نہ جانے دیجیے۔ وہ سٹھیا گیا ہے۔ غالباً اپنے آقا کی موت کے صدمے سے اس کا دماغ ٹھکانے نہیں رہا۔ میں اسے سمجھا دوں گی۔’’
میں نے مسز سیلڈن سے بھی ایمس ولڈر کی گزشتہ زندگی کے بارے میں کچھ پوچھنا چاہا، تو اس نے نفی میں گردن ہلائی اور کہا: ‘‘جناب، میں کچھ نہیں بتا سکتی.... مجھے کچھ معلوم نہیں۔ میں تو ان کے کسی معاملے میں کبھی دخل نہیں دیتی تھی....’’
ایمس ولڈر کی موت کے تین روز بعد کا ذکر ہے۔ میں رات کا کھانا کھا کر دیر تک ایک کتاب  پڑھتا رہا اور جب سونے کے لیے بستر پر لیٹا، تو ایک بج رہا تھا۔ مکان کے چاروں طرف ایک بھیانک سناٹا اور تاریکی مسلط تھی اور دور جنگل میں کوئی الو اپنی منحوس آواز میں چیخ رہا تھا۔ بستر پر لیٹتے ہی میں نیندکی آغوش میں پہنچ گیا۔ خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ چچا ایمس ولڈر میرے سامنے کھڑا ہے۔ اس نے وہی سیاہ لبادہ پہن رکھا ہے اور اپنی چمکیلی آنکھوں سے مجھے گھور کر مجھ سے  کہہ ر ہا ہے:
‘‘ایلس.... تم بلاتاخیر میری لائبریری میں جاؤ اور ساتویں الماری کے دوسرے خانے میں کتابیں رکھی ہیں، انہیں بغور دیکھو۔ ان کتابوں کے اندر جو ہدایات ملیں، ان پر عمل کرو۔’’
یہ خواب دیکھتے ہی میری آنکھ کھل گئی اور میرا دل تیز تیز دھڑک رہاتھا۔ بڈھے ایمس کی صورت آنکھوں کے آگے گھوم رہی تھی اور خواب میں کہے گئے الفاظ کانوں میں مسلسل گونج رہے تھے۔ میں ساری رات نہ سو سکا۔ سورج کی پہلی کرن نمودار ہوئی تو میرا ڈر دور ہوا۔  پھر میں دیر تک سوتا رہا۔ دوبارہ آنکھ کھلی، تو میں بالکل تازہ دم تھا۔ ناشتے کے بعد  حسب معمول مقبرے کی جانب گیا اور دروازے کی مہر کا معائنہ کیا۔ اسے کسی نے نہ چھیڑا تھا۔ میں مطمئن ہوگیا۔
رات کو پھر جونہی میں بستر پر لیٹا، بڈھا ایمس خواب میں دکھائی دیا۔ اس مرتبہ اس کی حالت پہلے سے بھی ابتر تھی اور چہرہ بڑا بھیانک نظر آرہا تھا۔ اس نے پھر وہی الفاظ دہرائے جو گزشتہ رات کہے تھے۔ میں پھر ساری رات مضطرب رہا۔ تیسری رات ایمس خواب میں میرے سامنے کھڑا تھا اور وہی الفاظ دہرا رہا تھا۔ اس مرتبہ اس کی نگاہوں سے شعلے برس رہے تھے اور لہجے میں حد درجے کی تلخی اور تحکم تھا۔ آنکھ کھلی تو میں نے اپنا جسم پسینے سے تر پایا۔ ایسی ذہنی اذیت سے مجھے کبھی واسطہ نہ پڑا تھا میں نے اسی وقت لیمپ ہاتھ میں لیا اور دبے پاؤں چلتا ہوا لائبریری کی طرف گیا۔ اس کا قفل کھولا اور ساتویں الماری کے قریب پہنچا جس کے اوپر سیاہ رنگ کا پردہ پڑا ہوا تھا۔ پردہ  ہٹایا لکڑی کی اس الماری میں صدیوں پرانی بوسیدہ کتابیں بھری تھیں۔ پہلی کتاب کو اٹھا کر جونہی میں نے پہلا صفحہ الٹا، تو میرے ہاتھ کانپ گئے اور کتاب فرش پر گرپڑی۔ کہہ نہیں سکتا کہ مجھ پر کتنی ہیبت اس کتاب کو دیکھ کر طاری ہوئی ، اس خانے میں جتنی کتابیں رکھی تھیں، ان سب کا موضوع ہی ایسا تھا جو دل میں خوف اور دہشت کے جذبات پیدا کرنے والا تھا، یعنی کالا جادو  یا سفلی علم ....
یہ سب کی سب لاطینی زبان کے قلمی نسخے تھے،  کہیں کہیں سرخ روشنائی سے مختلف عبارتوں کے نیچے نشان لگائے گئے تھے جن پر بڈھے ایمس کے دستخط اور تاریخ درج تھی۔ میں ان تمام نشان زدہ کتابوں کو اٹھا کر اپنے کمرے میں لے آیا اور ان کی عبارتیں سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ عرصہ پہلے  تھوڑی بہت لاطینی زبان پڑھی تھی۔ وہ اب کام آئی، لیکن حروف اتنے پرانے اور شکستہ تھے کہ انہیں پڑھنا مشکل تھا۔ میں صبح تک ان عبارتوں میں سرکھپاتا رہا اور بالآخر ان میں سے ایک پیراگراف کا ترجمہ کرنے میں کامیاب ہو گیا جو یوں تھا:
‘‘اس کائنات کی بےکراں وسعتوں میں لاکھوں بدروحیں، آسیب اور شیطانی قوتیں کارفرما ہیں جو دن رات ، ہر ہر لمحہ زمین کی طرف یلغار کرتی ہیں اور جس روح کو کمزور دیکھتی ہیں، اس پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہیں۔ خصوصاً غروب آفتاب سے صبح کاذب تک ان روحوں کی قوت بہت بڑھ جاتی ہے۔ یہ جہاں چاہے جاسکتی ہیں۔ پس ان کو روکنے کے لیے مختلف تدبیروں پر عمل کیا جاتا ہے۔ مرنے کے بعد جب کوئی روح جسم سے نکل جاتی ہے، تو بدروحیں اسے اپنے ساتھ ملانے کے لیے بےتاب ہوتی ہیں۔ اگر اس وقت مرنے والے کی قبر اور جسم کی حفاظت نہ کی جائے، تو وہ ہمیشہ کے لیے عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے..’’
اس عبارت کے آگے حاشیے میں ایمس ولڈر نے لکھا تھا: ‘‘بیٹا ایلس، جب میں مرجاؤں اور تم میری ہدایت کے مطابق مقبرے میں مجھے دفن کرکے دروازہ سربمہر کردو، تو اس کے بعد میرے مقبرے کو بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے قبرستان میں جانا اور ایک پرانی کھوپڑی کو پیس کر اس کا سفوف بنا لینا۔ بعد ازاں کم سن بچے کے خون میں یہ سفوف حل کرکے چودھویں رات کو تہہ خانے کے دروازے پر کھوپڑی کی تصویر بنا دینا۔ یہ عمل تین مرتبہ چاند کی ہر چودھویں رات کو کرنا ضروری ہے۔’’  جب یہ عبارت میں نے پڑھی، تو دہشت سے میرا رواں رواں کانپنے لگا اور میں نے دیوانگی کے عالم میں کتابیں اٹھا کر فرش پر پھینک دیں۔ 
خدا کی پناہ!.... اگر مجھے علم ہوتا کہ وہ منحوس بڈھا مجھ سے ایسے ناپاک کام لینا چاہتا ہے، تو میں کبھی اس سے وعدہ نہ کرتا۔ میں دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر روتا رہا۔ کاش! میں یہاں نہ آتا اور اپنے آپ کو اس عذاب میں مبتلا نہ کرتا۔
ان کتابوں سے ظاہر ہوگیا تھا کہ میرا چچا نہ صرف کالے جادو پر یقین رکھتا تھا، بلکہ اس پر عمل پیرا بھی تھا اور خدا جانے اس نے اپنی زندگی میں اس جادو کے زور سے کیا کیا کارنامے انجام دیے ہوں گےا ور اب.... مرنے کے بعد بھی اسی میں الجھا ہوا ہے۔ اس روز میری بھوک پیاس سب اڑ گئی۔ بار بار میری نگاہ اس مقبرے کی طرف جاتی جہاں اس جادوگر کی لاش رکھی تھی۔ ایک بار دل  میں آیا کہ دروازے کی مہر توڑ ڈالوں اور لاش کو تابوت سے نکال کر نذر آتش کردوں، لیکن ایسا کرنا میرے بس میں نہ تھا۔ گاؤں بھر کے لوگ میرے اس فعل پر نفرت کرتے اور کہتے کہ چچا نے اپنی ساری جائداد بھتیجے کو بخش دی، یہ اس کا صلہ دیا گیا ہے۔  جیکب اور مسز سیلڈن کا رویہ بھی عجیب تھا۔ اول تو وہ میرے قریب ہی نہ پھٹکتے اور جب آتے، تو سہمے سہمے رہتے۔
رات کو میں ٹہلنے کے لیے دریا کی طرف نکل گیا۔ چودھویں کا چاند اپنی سنہری کرنیں دریا پر بکھیر رہا تھا۔ میں دور تک ٹہلتا چلا گیا اور اس معمے کو حل کرنے میں ایسا محوہوا کہ وقت کا احساس ہی نہ رہا۔ جب میں واپس لوٹا، تو چاند پوری آب و تاب کے ساتھ آسمان کے عین درمیان روشن تھا ۔ جب ولڈر ہاؤس  پہنچا، تو ایک ثانیے کے لیے میری نگاہوں کے سامنے کچھ فاصلے پر کسی آدمی کا ہیولہ دکھائی دیا۔ میں نے غور سے دیکھا، تو یہ سایہ اس جانب بڑھ رہا تھا جدھر ولڈر ہاؤس کے مغربی گوشے میں لائبریری کا کمرہ تھا۔
میں ایک درخت کی آڑ میں کھڑا ہوگیا۔ بلاشبہ یہ کوئی آدمی تھا جو مکان کے اندر جانا چاہتا تھا۔ چند لمحے بعد وہ جھاڑیوں کے اندر سے نکلا اور کھلی جگہ میں آگیا۔ اب میں نے اس کا چہرہ دیکھا جو دودھ کی مانند سپید تھا اور اس کے سر کے بال بھی چاندی کے تاروں کی مانند چمک رہے تھے۔ اس کا قد چھ فٹ ہوگا اور سر سے پیر تک سیاہ لبادے میں لپیٹا ہوا تھا۔ مجھ سے اس کا فاصلہ کافی تھا۔ تھوڑی دیر تک وہ مکان کی طرف دیکھتا رہا، پھر آہستہ آہستہ مقبرے کی طرف بڑھنے لگا۔ اب میں نے دیکھا کہ وہ لنگڑا کر چلتا ہے اور اس کی کمر بھی جھکی ہوئی ہے۔ میں بھی اس کے تعاقب میں دبے پاؤں چل رہا تھا، میں  دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ  کیا کرنے کا ارادہ رکھتاہے۔
مقبرے کے گرد اونچی گھاس اور جھاڑ جھنکاڑ کثرت سے تھا اور ناممکن تھا کہ کوئی شخص ادھر جائے اور اسکے پیر میں کانٹا نہ چبھے، لیکن یہ دیکھ کر مجھ پر خوف طاری ہونے لگا کہ یہ شخص جو ننگے پیر تھا، اس اطمینان اور بےپروائی سے اس کانٹوں  کے اندر چل رہا تھا جیسے اس کے پیروں تلے مخملیں قالین  بچھا ہوا ہو۔ یکایک بادل کے ایک آوارہ ٹکڑے نے چاندنی کا راستہ روک لیا اور گھپ اندھیرا چھا گیا۔ میں نے موقعے کا  فائدہ اٹھایا اور جلدی سے مقبرے کے قریب پہنچ گیا۔ میں چاہتا تھا کہ چپکے سے جا کر اس کو پیچھے سے پکڑ لوں۔ اتنے میں چاند نے پھر بادلوں میں سے جھانکا اور میں نے دیکھا کہ یہ پراسرار شخص گھٹنوں کے بل جھکا ہوا مقبرے کے دروازے کامعائنہ کر رہا ہے۔ غالباً وہ دیکھ رہا تھا کہ اسے کس طرح کھولا جاسکتا ہے۔ اتنے میں مغرب کی جانب سے ایک بہت بڑی چمگادڑ پرواز کرتی ہوئی آئی۔ اس نے فورا! گردن اٹھا کر اوپر دیکھا اور مسکرایا۔ اس کے چمکتے ہوئے نوکیلے دانت دیکھ کر مجھے بڑی وہشت ہوئی۔ دوسرے ہی لمحے وہ دروازے کے قریب لیٹ گیا اور اس وقت میری آنکھوں نے جو دہشت انگیز منظر دیکھا، وہ میں کبھی نہ بھول سکوں گا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہ  شخص آہستہ آہستہ سکڑنے لگا۔ پہلے مجھے اپنی آنکھوں پر یقین  نہ آیا۔ میں چند قدم آگے بڑھا اور میری آہٹ پاکر اس شخص نے جو یقیناً کوئی الگ مخلوق تھی میری جانب دیکھا  اور اچھل کر کھڑا ہوگیا۔ خدا جانے اس وقت وہ کون سی طاقت تھی جس نے مجھے اس سے لپٹ جانے پر مجبور کردیا تھا۔ ایک ہی جست میں میں اس پر جا پڑا۔ اس کا دایاں پنچہ میرے ہاتھ میں آگیا۔ عین اسی وقت کسی نے پیچھے سے میرے سر پر کوئی وزنی شے دے ماری اور میں بےہوش ہوگیا۔
مجھے ہوش آیا  تو میں نے اپنے آپ کو مقبرے کے دروازے کے قریب پڑے پایا۔ میرا دماغ چکرا رہا تھا اور سر کے پچھلے  حصے میں  شدید ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ حواس بحال ہونے کے ساتھ ہی مجھے ہاتھ میں کسی شے  کی موجودگی کا احساس ہوا۔ گہری تاریکی میں پہلے تو اسے  کسی پودے سے اکھڑی ہوئی شاخ سمجھا تھا، لیکن جب اسے اچھی طرح ٹٹول کر دیکھا، تو دہشت کی ایک لہر میرے جسم میں دوڑ گئی اور میری پیشانی پسینے سے بھیگ گئی۔   بلاشبہ وہ انسانی  ہاتھ تھا۔ لمبی، سپید پانچ انگلیوں کا انسانی پنجہ.... جس میں ہڈیاں تھیں اور کھال محض نام کو تھی۔ گرتا پڑتا میں اپنے کمرے میں پہنچا۔ ٹیبل لیمپ روشن کیا اور ایک بار پھر اس پنجے کا معائنہ کیا۔ یہ کسی لاش سے علیحدہ کیا ہوا پنجہ معلوم ہوتا تھا۔ کسی ایسے شخص کی لاش سے جسے مرے ہوے ایک سال گزر  چکا ہو۔ میں نے انتہائی کراہت سے  اس پنجے کو ایک کونے میں پھینک دیا اور بستر پر لیٹ کر اس واقعے پر ازسر نو غور کرنے لگا۔ یہ بات تو یقینی تھی کہ وہ شخص جسے میں نے مقبرے کے قریب دیکھا اور جس پر میں نے حملہ کیا، اس دنیا کی مخلوق ہرگز نہ تھی۔ وہ انسانی روپ میں ضرور کوئی بدروح تھی جو ایمس ولڈر کی لاش کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے آئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی میرے دماغ میں آیا کہ چونکہ ایمس خود بھی کالے جادو سے کام لیتا تھا، اس لیے اسے معلوم تھا کہ بدروحیں اسے ہلاک کرنے کے در پے ہیں، لیکن اس نے خود کشی کیوں کی....؟ اور اگر خودکشی نہیں کی، تو کیا اسے کسی بدروح نے ہلاک کیا ہے....؟ یہ وہ سوالات تھے جن کاکوئی جواب میرے ذہن میں نہ آتا تھا۔ دفعتہً مجھے یاد آیا کہ ایمس ولڈر نے ان کاغذات کا ذکر کیا تھا جو اس کی میز کی دراز میں رکھے ہیں۔ شاید ان کاغذات سے صحیح حل کا سراغ مل سکے ۔  اس کام کو صبح نمٹانے کا فیصلہ کرکے اپنے آپ کو نیند کے حوالے کردیا۔
صبح اٹھتے ہی میں نے سب سے پہلے جیکب کو اپنے کمرے میں بلوایا۔ وہ آیا، تو انتہائی بدحواس اور گھبرایا ہو اتھا۔ میں نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرکے ایک گلاس پانی پیش کیا.... وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔  میں نے اس سے کہا: ‘‘کل رات ایک پراسرار اجنبی  کو میں نے مقبرے کے گرد گھومتے دیکھا  ہے۔ اس شخص کا قد بہت لمبا تھا۔ اس نے ایمس ولڈر کی طرح سیاہ لبادہ پہن رکھا تھا۔ اس کے سر کے بال بالکل سپید تھے اور ایک عجیب بات یہ تھی کہ لنگڑا کر چل رہا تھا.... جب وہ....’’
ابھی میں اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ جیکب تھر تھر کانپنے لگا۔ اس کے چہرے کا رنگ پہلے سرخ ہوا۔ پھر زرد اور آخر میں دھلے کپڑے کی مانند سپید پڑ گیا  اور وہ دھڑام سے فرش پر گر پڑا۔ میں نے اسے سنبھالتے ہوئے دل میں کہا ‘‘یک نہ شد دو شد.... یہ بھی اپنے آقا کے ساتھ ہی چل بسا۔ ’’ لیکن نہیں.... چند منٹ بعد جیکب نے آنکھیں کھولیں۔ میری جانب ڈری ڈری نظروں سے دیکھا اور بھرائی ہوئی آواز میں بولا: ‘‘کیا کہا آپ نے....؟ رات ایک لنگڑے آدمی کو مقبرے کے پاس دیکھا....؟  اس نے سیاہ لبادہ پہن رکھا تھا....؟ خدا رحم کرے.... اینڈریو بینٹلے Andrew Bentley واپس آگیا....’’
‘‘یہ اینڈریو بینٹلے کون ہے....؟’’ میں نے اس سے پوچھا۔  جیکب نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ جلدی سے اٹھا۔ دروازہ کھولا اور بےتحاشا دوڑتا ہوا مکان سے باہر نکل گیا۔ میں اسے حیرت سے دیکھتا رہا۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ اسے ساک پیری میں نہیں دیکھا۔ وہ اپنا سامان بھی نہیں لے جاسکا تھا۔
مسز سیلڈرن نے اینڈریو کے بارے میں جو کہانی سنائی، وہ یہ تھی۔
‘‘اینڈریو بینٹلے پانچ سال قبل اس گاؤں میں آکر آباد ہوا تھا۔ جلد ہی ایمس ولڈر سے اس کی دوستی ہوئی ، دونوں کالے جادو کے ماہر تھے۔ گاؤں والے ان دونوں سے بہت ڈرتے تھے، مشہور تھا کہ ان کے قبضے میں بدروحیں، ہمزاد ہیں جن کے ذریعے یہ جس کو چاہیں ہلاک کراسکتے ہیں۔ ایک سال قبل ان دونوں میں کسی بات پر جھگڑا ہوگیا اور خاصی تو تو میں میں ہوئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو جان سے مار ڈالنے کی دھمکیاں دیں۔ اس جھگڑے کے چند دن بعد ہی اینڈریو بینٹلے پراسرار طور پر غائب ہوگیا۔ پھر کسی نے اسے نہ دیکھا کہ کہاں گیا۔ لوگ دبی زبان سے کہنے لگے کہ ایمس ولڈر نے بینٹلے کو مار ڈالا ہے، لیکن کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ پولیس کو اس کی اطلاع دیتا۔ گاؤں کے وکیل تھامس ویدر بی کو اینڈریو کے بارے میں کچھ باتیں معلوم ہیں اگر اسے مجبور کیا جائے، تو شاید بتا دے کیونکہ اب ایمس ولڈر بھی اس دنیا میں موجود نہیں۔’’
مزید وقت ضائع کیے بغیر میں تھامس ویدر بی کے دفتر پہنچا۔ مجھے بغیر اطلاع اور بےوقت دیکھ کر اس کے چہرے پر پریشانی کے گہرے آثار نمودار ہوئے۔ اس نے اپنا کام چھوڑا اور میری طرف متوجہ ہوگیا۔ میں نے پہلے دروازے اور کھڑکیاں بند کیں اور یہ اطمینان کرلینے کے بعد کہ آواز باہر نہ جائے، اپنی کرسی وکیل کے نزدیک گھسیٹ لی اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آہستہ سے کہا:  ‘‘مجھے اینڈریو بینٹلے کے بارے میں معلومات درکار ہیں۔ کیا آپ کچھ بتا سکیں گے..؟’’
میں وکیل کے چہرے کو بغور دیکھ رہا تھا۔ اس نے مضطرب ہو کر پہلو بدلا۔ دو منٹ تک وہ قطعی گم سم رہا۔ آخر اس نے زبان کھولی: ‘‘مسٹر ایلس ولڈر، میں جانتا ہوں کہ آپ گزشتہ چند روز سے پراسرار واقعات کے درمیان گھرے ہوئے ہیں۔ آپ نے اچھا کیا کہ میرے پاس چلے آئے۔ میں بےشک آپ کے چچا کا قانونی مشیر تھا، لیکن آپ برا نہ مانیں، تو کہوں کہ میں نے کبھی اس شخص کو پسند نہیں کیا۔ وہ افریقہ سے کالا جادو سیکھ کر آیا تھا اور اسے یہاں کے معصوم اور بےگناہ باشندوں پر آزمانا چاہتا تھا۔ میں نے اسے سمجھایا اور روکنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا۔ اسی دوران میں ایک اور  جادوگر اینڈریو بینٹلے یہاں آگیا اور آپ کے چچا نے اسے  فوراً دوست بنالیا، لیکن پانچ سال بعد ایک روز اچانک ان کی دوستی منقطع ہوگئی۔ خیال ہے کہ آپ کے چچا نے اسے مار ڈالا اور لاش کہیں غائب کردی: تاہم اینڈریو کی روح نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا اور جیسا کہ آپ نے گزشتہ رات دیکھا، مقبرے کا دروازہ کھولنے والا ہی اینڈریو.... یا اس کی روح تھی۔’’
‘‘خدا کی پناہ !.... آپ کو کیسے پتہ چلا....؟’’ میں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
‘‘آپ کا ملازم جیکب تھوڑی دیر پیشتر میرے پاس آیا تھا، وہ سب کہانی سنا گیا ہے۔’’
‘‘وکیل صاحب، اتنے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود کیا آپ  بھی کالے جادو پر یقین رکھتے ہیں....؟’’
ویدر بی نے اقرار کرتے ہوئے کہا: ‘‘ایک ہمزاد  اینڈریو کا تابع ہے۔ اپنی زندگی میں بھی وہ اس سے کام لیتا رہا اور اب مرنے کے بعد بھی، جبکہ بینٹلے خود ایک روح ہے وہ اپنے موکل سے کام لے رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بینٹلے کا موجودہ جسم بےکار ہوتا جارہا ہے،اس لیے وہ کسی تازہ لاش میں سمانا چاہتا ہے اور تازہ لاش تمہارے چچا کے سوا اسے کہیں نہیں مل سکی، اس لیے وہ اس کوشش میں ہے کہ اس لاش پر قبضہ کرلیا جائے....  بینٹلے کا ساتھی ہمزاد   دن میں دکھائی نہیں دے سکتا، لیکن رات کو ضرور نظر آتا ہے، البتہ بینٹلے کو میں نے کئی بار دن میں بھی دیکھا ہے۔ ایمس ولڈر اس کی وجہ سے بےحد خوفزدہ  تھا۔  اس نے بینٹلے کی روح کو اپنے جنتر منتر سے دور کرنے کی بڑی کوشش کی، مگر کامیاب نہ ہوا۔ ایمس جانتا تھا کہ ایک نہ ایک دن موت اسے نگل لے گی اور اس کے بعد بینٹلے اس کے جسم پر قبضہ کرلے گا۔ اس نے اس سے نجات پانے کے لیے  تمہیں بلایا اور چند ہدایتیں دیں، اس کے بعد خودکشی کرلی۔ ممکن ہے اس نے اپنی لاش کو بچانے کے لیے کوئی خاص انتظام بھی کیا ہو، لیکن جیسا کہ اس نے آپ کو خواب میں آ کر بتایا، روحیں اس کی لاش کو تہہ خانے سے نکالنے کے لیے بےچین میں۔ اب اس کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم  بینٹلے اور اس کے ہمزاد  کا خاتمہ کردیں۔  میں ایک عامل کو جانتا ہوں جو ان بدروحوں سے مقابلہ کرسکتا ہے۔ اسے میں اپنے ساتھ لاؤں گا، اس کا نام رابرٹ ہے اور عمر ایک سو دس سال.... اب آپ ولڈر ہاؤس جائیں اور ایمس کے کاغذات کی چھان بین کریں۔ ممکن ہے ہمیں ان روحوں کے بارے میں کچھ اور باتیں معلوم ہوں۔’’
اس روز میں نے ایمس ولڈر کی لائبریری میں رکھی ہوئی میز کی دراز میں سے ایک لمبا سربمہر لفافہ نکالا جس پر میرا نام لکھا تھا۔ اس میں ایمس ولڈر کے قلم سے لکھا ہوا ایک رقعہ نکلا اور اسے پڑھ کر واقعات کی تمام گم شدہ کڑیاں میرے سامنے آگئیں:
‘‘پیارے ایلس، جب تم میرا یہ خط پڑھو گے، میں اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہوں گا۔ میں نے تمہیں جو ہدایتیں دی ہیں، امید ہے تم انہیں عمل میں لاؤ گے تاکہ بدروحیں میرے مقبرے میں داخل نہ ہوسکیں۔ اگر تم محسوس کرو کہ یہ روحیں تمہیں نقصان پہنچانے کے در پے ہیں، تو فوراً بینٹلے کی لاش تلاش کرکے اسے جلا دینا۔ تم نے اس کی روح کو ولڈر ہاؤس میں رات کے وقت گھومتے دیکھ لیا ہوگا جیسا کہ میں نے بھی کئی مرتبہ اسے دیکھا ہے۔ اسے آج سے ٹھیک ایک سال پہلے میں نے پسلی میں خنجر گھونپ کر ہلاک کردیا تھا۔ اگر میں ایسا نہ کرتا، تو وہ مجھے مار ڈالتا۔ وہ خنجر اب بھی بینٹلے کی لاش کے ڈھانچے میں پیوست ہوگا۔ میں نے بینٹلے کی لاش اسی تہہ خانے میں رکھ دی تھی ، لیکن بینٹلے کے تابع ایک ہمزاد نے لاش نکال  لی اور اسے کسی جگہ چھپا دیا۔ میں کوشش کے باوجود اسے تلاش نہیں کر پایا۔ یہی وجہ ہے کہ بینٹلے کی روح مجھ سے انتقام لینے پر تل گئی۔ میں جانتا تھا کہ اس سے بچنا محال ہے، پس میں نے اپنے آپ کو موت کے حوالے کردینے کا فیصلہ کرلیا اور تمہاری مدد کی ضرورت پڑی کیونکہ میرے مرنے کے بعد تم ہی ان ہدایات پر عمل کرکے میری روح کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناصرف ابدی مسرت سے ہم کنار کرسکتے ہو، بلکہ بینٹلے کی روح کو بھی ‘‘بھسم’’ کرسکتے ہو۔ مجھے امید ہے کہ تم میرا یہ کام ضرور کردو گے، اسی لیے میں نے تمہارے سپرد یہ کام کیا ہے۔ ایک بات اور سمجھ لو کہ اگر بینٹلے کی روح نے میری لاش حاصل کرلی تو بینٹلے کی لاش کے ساتھ میری لاش کو بھی جلا کر ڈالنا، ورنہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوزخ کی آگ میں جلتا رہوں گا۔
تمہارا بدنصیب چچا  ایمس ولڈر’’
یہ خط لے کر میں وکیل کے پاس پہنچا۔ اس نے بھی اسے پڑھا اور بتایا کہ عامل رابرٹ ان بدروحوں کو بھگانے پر رضا مند ہوگیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ وہ رات کو کسی وقت آپ کے یہاں پہنچ جائے گا.... بہرحال، اگر یہ روحیں یہاں سے دفع ہوگئیں، تو ایمس ولڈر کی لاش کو کوئی خطرہ نہیں۔ میرا خیال ہے کہ آج رات پھر بینٹلے اور اس کے ساتھی کی روح مقبرے کا دروازہ توڑنے کی کوشش کریں گی، اس لیے انہیں آج ہی غارت کردینا چاہیے۔ میں رابرٹ کو ساتھ لے کر رات کے بارہ بجے تک ولڈر ہاؤس پہنچ جاؤں گا۔’’
‘‘لیکن خط میں لکھا ہے کہ جب تک بینٹلے کی لاش نہ ملے،  اس کی روح کو بھگانا محال ہے۔’’ میں نے کہا۔
‘‘بےشک ہمیں اس کی لاش ڈھونڈنی پڑے گی۔ میرا خیال ہے کہ بینٹلے کی لاش، جو اب تک ڈھانچے میں تبدیل ہوچکی ہوگی، ولڈر ہاؤس کے ویران باغ میں ہی کہیں پوشیدہ ہے۔ ہم اس کا چپہ چپہ دیکھیں گے۔’’
وہ لرزہ خیز رات ایسی تھی کہ جب میں اس کا تصور کرتا ہوں، تو خوف سے دل بیٹھنے لگتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وقت کی نبضیں تھم گئی ہیں۔ اس اجاڑ مکان کے اندر میں بالکل تنہا تھا۔ مسز سیلڈن تو سر شام ہی رخصت ہوجاتی تھی اور بڈھا جیکب بھی فرار ہوچکا تھا۔ چاند پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ میں نے اپنے کمرے کی کھڑکی میں لیمپ روشن کرکے رکھ دیا تھا  تاکہ ویدر بی اور رابرٹ کو پتہ چل جائے کہ میں کمرے میں ہوں۔ مجھے شدت سے ان کا انتظار تھا۔ بار بار میری نگاہ گھڑی کی طرف جاتی اور پتہ بھی کھڑکتا، تو میں چونک پڑتا۔ ایک بج گیا۔ ان دونوں کا کہیں پتہ نہ تھا۔ یکا یک مقبرے کی جانب سے ہوا کے دوش پر چلتی ہوئی ایک عجیب سی آواز میرے کانوں میں آئی جیسے کوئی پرندہ پھڑپھڑا رہا ہو۔ میں نے کھڑکی میں سے دیکھا، تو ایک بڑی چمگادڑ مقبرے کے عین اوپر منڈلا رہی تھی۔ پھر یہ چمگادڑ باغ کی جانب اس مقام پر گئی جہاں ایک بہت پرانا تین سو سالہ درخت کھڑا تھا ۔ یہ چمگادڑ اس درخت کے ایک کھوکھلے تنے میں داخل ہو کر غائب ہوگئی۔ چاند کی واضح اور صاف روشنی میں آنکھیں پھاڑے میں اس درخت کو دیکھ رہا تھا کہ مجھے اس کی جڑوں کے پاس ایک سایہ دکھائی دیا جو آہستہ آہستہ  اینڈریو بینٹلے کی شکل اختیار کر رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے یہ سایہ ایک قد آور انسان کی صورت میں تبدیل ہوگیا۔ میں کھڑکی کے قریب کھڑا  یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں بینٹلے کے قریب  ایک اور شخص کو کھڑے پایا۔  اس کا لباس بھی سیاہ تھا۔ دونوں خاموشی سے کھڑے مقبرے کی جانب دیکھ رہے  تھے۔  پھر وہ چند قدم آگے بڑھے۔ اب چاندنی میں ان کے خوفناک سپید چہرے مجھے صاف دکھائی دے رہے تھے، لیکن اس موقعے پر ایک وحشت انگیز انکشاف ہوا اور میرے جسم کا خون کھنچ کر کلیجے میں سمٹ آیا۔ وہ کوئی مادی جسم نہیں  بلکہ وہ ایک شیشے کی مانند دکھائی دے رہے تھے، کیونکہ ان کے جسموں کے پار بھی آسانی سے دوسری طرف کا منظر نظر آتا تھا۔ بینٹلے کا تابع  ہمزادکی شکل اب  میرے سامنے تھی۔ اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ جب وہ وہاں سے ہٹ کر آہستہ آہستہ مقبرے کی طرف چلے، تو میں نے دیکھا کہ اس درخت کے تنے میں ایک بڑا سا سوراخ ہے۔ تب مجھے خیال آیا کہ ہو نہ ہو بینٹلے کی لاش اس کھوکھلے تنے کے اندر پڑی ہوگی۔ میں نے ویدر بی اور رابرٹ کی آمد کا انتظار کیے بغیر لیمپ اٹھایا اور  دبے پاؤں سیڑھیاں اترتا ہوا مکان سے باہر نکل آیا اور آنےوالے خطرے سے بےنیاز ہو کر سیدھا مقبرے کی طرف چلا، کیونکہ وہ دونوں ناپاک روحیں وہاں دروازہ کھولنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میں جب ان کے بالکل قریب جا پہنچا، تو انہوں نے پلٹ کر میری جانب دیکھا۔ مجھ سے ان کا فاصلہ دس بارہ فٹ سے زیادہ  نہ تھا۔ اینڈریو بینٹلے  مجھے دیکھنے کے باوجود دروازہ کھولنے میں مصروف رہا اور اس نے میری آمد کا کوئی نوٹس نہ لیا، البتہ اس کے ساتھی ہمزاد کی سرخ سرخ آنکھیں انگارے برسانے لگیں۔ وہ درندوں کی مانند منہ کھول کر میری طرف بڑھا اور اس وقت مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ میرے پاس ان بدروحوں سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی شے نہ تھی۔ میں نے لیمپ وہیں پٹخا اور بےتحاشا دریا کی جانب بھاگا۔ وہ ہمزاد  میرے تعاقب میں تھا۔
میں تمام رکاوٹوں اور مشکلوں کو پھلانگتا ہوا اندھا دھند دریا کی طرف بھاگ رہا تھا۔ مجھے اپنی جان خطرے میں نظر آرہی تھی۔ کئی مرتبہ مڑ کر دیکھا،تو وہ ہمزاد اب انسانی بھیس میں مسلسل میرا تعاقب کر رہا تھا۔ دریا کی طرف میں اس لیے بھاگ رہا تھا کہ میں نے ایمس ولڈر کی کالے جادو پر مبنی کتابوں میں پڑھا تھا کہ بدروحیں پانی کو عبور نہیں کرسکتیں جب تک ان کو تابع کرنے والا ساتھ نہ ہو۔  دریا کا یخ بستہ پانی اک سبک روندی کی مانند بہہ رہا تھا۔ میں نے بےدھڑک اس میں چھلانگ لگا دی اور درمیان میں جا پہنچا۔ جب پلٹ کر دیکھا تو میری جان میں جان آئی، کیونکہ ہمزاد  کے قدم دریا کے کنارے رک گئے تھے اور وہ خونخوار نظروں سے گھوررہا تھا۔
اب میں پانی کے بہاؤ پر تیزی سے تیرنے لگا۔ اس وقت مجھے یخ بستہ پانی کا قطعاً احساس نہ ہوا۔ کافی دور جا کر جب مجھے اطمینان ہوا کہ ہمزاد  ادھر نہ آئے گا، تو میں دریا سے نکل کر کنارے پر آیا۔ اس وقت مجھے اپنے تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ بھیگے ہوئے کپڑے میرے جسم سے چمٹے ہوئے تھے اور میں دیوانہ وار سڑک کی جانب دوڑ رہا تھا ۔ یکایک میں نے دور سے آتی ہوئی ایک گاڑی  کی بتیاں دیکھیں اور میں سڑک کے عین درمیان میں کھڑا ہو کر اسے رکنے کا اشارہ کرنے لگا۔ موٹر میرے قریب آکر رکی اور اس میں سے رابرٹ اور تھامس ویدر بی باہر نکلے۔ میں نے ہانپتے کانپتے انہیں سارا ماجرا سنایا۔ ویدر بی اور رابرٹ نے  کوئی لفظ کہے بغیر مجھے موٹر میں بٹھایا اور گاڑی پوری رفتار سے دوڑنے لگی۔ چند منٹ میں ہم ولڈر ہاؤس کے باہر پہنچ چکےتھے۔
‘‘جلدی کرو۔’’ ویدر بی نے مضطرب ہو کر کہا۔ ‘‘انہوں نے اب تک مقبرے کا دروازہ توڑ دیا ہوگا۔’’
‘‘گھبراؤ نہیں، ابھی سب ٹھیک ہوا جاتا ہے۔’’ سفید ریش عامل نے اطمینان سے کہا اور ایک لمبی مشعل نکالی اور اسے دیا سلائی سے روشن کردیا۔ مشعل جلی اور اس میں سے نیلے رنگ کا اونچا شعلہ اٹھنے لگا۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ ‘‘میرے بچے، تم خوش قسمت ہو کہ دریا میں چھلانگ لگادی، ورنہ تم نے بڑی حماقت کی رھی کہ ان کے مقابلے پر یوں ہی چلے گئے۔ انہیں فنا کرنے کے لیے مادی ہتھیاروں کی نہیں، ماورائی ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔’’
عامل ایک معمر اور نحیف آدمی ہونے کے باوجود جوانوں کی سی تیزی اور جرات دکھا رہا تھا۔ تیز تیز قدموں چلتے ہوئے ہم ایمس کے مقبرے کی طرف گئے۔ دروازہ ٹوٹا ہوا تھا اور دونوں بدروحیں ایمس ولڈر کی لاش کو اٹھائے باہر آرہی تھیں۔ ایک ثانیے کے لیے رابرٹ رکا اور کچھ کلمات بڑبڑاتا ہوا بدروحوں کی طرف لپکا۔ بدروحوں نے اسے اپنی جانب آتے دیکھا تو ان کے منہ سے بھیانک چیخیں نکلیں۔ انہوں نے ایمس ولڈر کی لاش وہیں چھوڑی اور ویران باغ کی طرف بھاگیں جہاں تین صدیوں پرانا درخت خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ عامل مشعل لیے ان کے تعاقب میں دوڑا۔ اب وہ پوری قوت سے چلایا: 
‘‘جلدی کرو، اس درخت کے کھوکھلے تنے میں بینٹلے کی لاش یا ڈھانچہ پڑا ہوگا۔ باہر نکال کر اسے آگلگادو۔’’ 
بدروحیں مسلسل چیخ رہی تھیں اور ان کی آوازوں سے گرد و نواح کا سارا علاقہ لرز رہا تھا۔ جب عامل درخت کے پاس پہنچا تو بدروحوں نے اسے ڈرانے کی کوشش کی، لیکن عامل قطعاً نہ گھبرایا اور مشعل آگے کردی۔ روحیں اب چیختی ہوئی مکان کے اس حصے کی جانب بھاگیں جہاں لائبریری کا کمرہ واقع تھا۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے درخت کے کھوکھلے تنے میں ہاتھ ڈالا۔ میرا ہاتھ ہڈیوں سے ٹکرایا۔ ایک ایک کرکے میں نے ساری ہڈیاں باہر نکال لیں۔ آخر میں ایک کھوپڑی ہاتھ آئی، اسے بھی میں نے دوسری ہڈیوں پر ڈال دیا۔ عامل نے مشعل سے ان کو آگ لگادی۔ چشم زون میں ہڈیاں جل کر راکھ ہوگئیں۔ اب جو ہم نے دیکھا تو صرف بینٹلے کی روح باقی تھی اور اس کا تابع ہمزاد غائبہوچکا تھا۔
‘‘اس کو ابدی عذاب سے نجات مل گئی۔’’ عامل نے اعلان کیا۔ ‘‘لیکن سمجھ میں نہیں آتا کہ بینٹلے کی روح واپس کیوں نہیں جاتی۔’’ اس نے مجھے حکم دیا کہ ایک بار پھر درخت کے تنے کی تلاشی لوں، شاید کوئی ہڈی جلنے سے باقی بچ گئی ہے۔ بینٹلے کی روح بار بار وحشیانہ انداز میں ہماری جانب حملہ آور ہوتی اور مشعل سے ڈر کر واپس لوٹ جاتی۔ رابرٹ کی پیشانی عرق عرق ہورہی تھی۔ اس نے تھکے ہوئے لہجے میں کہا: ‘‘خدایا، رحم کر۔ اگر یہ مشعل بجھ گئی تو یہ بدروح ہم سب کو ہلاک کر ڈالے گی۔’’
یکایک مجھے کچھ یاد آیا اور میں پاگلوں کی طرح دوڑتا ہوا مکان کے اندر گھسا۔ بیک وقت کئی کئی سیڑھیاں چڑھتا اور برآمدے میں پڑے سامان سے ٹکراتا اور گرتا پڑتا بالآخر اپنے کمرے میں پہنچا۔ 
میں نے کونے میں پڑا ہوا انسانی پنجا اٹھایا اور اسے لے کر باہر بھاگا۔ مشعل بجھنے ہی والی تھی کہ میں نے یہ پنجہ زمین پر پھینک کر رابرٹ کو اشارہ کیا اس نے مشعل کی بجھتی ہوئی لو سے اسے آگ لگا دی۔ بینٹلے کی روح نے ایک ہیبت ناک چیخ ماری اور اس کے جسم میں آگ لگ گئی۔ چند سیکنڈ کے بعد راکھ کے ڈھیر کے سوا وہاںکچھ نہ تھا۔
بڈھے عامل نے یہ راکھ سمیٹ کر ایک کپڑے میں باندھ لی۔ بعد ازاں ہم نے ایمس ولڈر کی لاش اٹھائی اور اسے دوبارہ دفن کیا۔ 
جب ہم اس کام سے فارغ ہوئے، تو صبح صادق کی پہلی روشنی مشرقی کنارے سے پھوٹ رہی تھی اور ولڈرہاؤس پر نجانے کب سے چھائے ہوئے تاریک اور منحوس سائے دور ہو رہے تھے۔


[حوالہ : ریٹرن آف اینڈریو بیٹلی ]

امریکی فکشن ادیب  اور تھرلر اور ہارر  کہانی نویس 

مارک شورر ۔1908ء تا 1977 ء 

مارک شورر Mark Schorer ،  امریکہ کے معروف   ایب، استاد ،  نقاد اور کہانی نویس ہیں، جو  اپنی لکھی سوانحی کتابوں اور  ہارر   کہانیوں کی وجہ سے مشہور ہیں  ۔  
مارک شورر 17 مئی 1908ء کو امریکی ریاست وسکوسن کے شہر ساک سٹی میں  پیدا ہوئے،  ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد 1936ء میں انہوں نے وسکونسن میڈسن   یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی  ڈگری حاصل کی۔   انہوں نے ڈارٹماؤتھ کالج ،  ہارورڈ یونیورسٹی  اور کیلیفورنیا یونیویرسٹی برکلے  کے انگریزی ڈیپارٹمنٹ میں بطور استاد اپنی خدمات انجام دیں۔ اس دوران مارک شورر نے باقائدہ طور پر لکھنا بھی شروع کیا۔   انہوں نے مشہور نوبل انعام یافتہ ادیب سنکلیر لیوس کی طویل ترین سوانح حیات  لکھی ، اس کتاب  نے انہیں شہرت کی بلندیوں  پر پہنچا دیا، مارک شورر کئی ادبی کتابوں پر نقادانہ تبصرے کے لیے بھی مشہور ہوئے ۔ طالب علمی کے دور سے ہی انہیں  سسپنس اور ڈراونی کہانیوں  میں دلچسپی تھی ، انہوں نے 1926ء سے امریکہ کے مشہور سسپنس میگزین Weird Tales ، Strange Stories  کے لیے  لکھنا شروع کیا اور ان کی اکثر کہانیوں میں ان کے دوست اور ادیب آگسٹ ڈیرلیتھ   August Derleth نے ان کی مدد کی۔ 
انہیں اسٹین فورڈ، پیسا یونیورسٹی اور فل برائیٹ فیلوشپ کا اعزا  دیا گیا اور آخری دم تک وہ اپنی تمام یونیورسٹیوں کے ایمریطس  پروفیسر رہے۔مارک    11اگست 1977ء   کو  69 برس کی عمر میں آکلینڈ کیلی فورنیا میں انتقال کرگئے ۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں