انگریزی ادب سے انتخاب

ادائے   قرض

زیر نظر کہانی  ادائے قرض،  رابرٹ  کی انگریزی کہانی Payment Received  کا ترجمہ ہے جو انہوں نے  اپنی طالب علمی کے دور   میں لکھی تھی۔  اس کہانی کو سسپنس او رتھرلر فلموں  اور کہانیوں کے معروف مصنف الفریڈ ہچکاک Alfred Hitchcockنے اپنے مسٹری میگزین  کی ستمبر 1966ء کی اشاعت میں شامل کیا اور پھر   اس کہانی کو  1973ء میں اپنے مرتب کردہ  مختصر سسپنس کہانیوں کے مجموعے، Stories to be read with the lights on   (ایسی کہانیاں جو صرف اُجالے میں ہی پڑھی جائیں) میں بھی شامل کیا۔


ایک ایسی اثر آفرین کہانی جو خاص وجدانی کیفیت میں تخلیق ہوتی ہے اور ذہن کی دنیا تہہ و بالا کر دیتی ہے!




چُولی کچھ عجیب سی ہستی تھی اور سب کو اس کا اعتراف تھا۔ اس کی عمر بمشکل نو سال ہوگی، لیکن باتوں میں بڑے بڑوں کے کان کاٹتا تھا۔ پڑھنے لکھنے کا بھی شوقین تھا، لیکن ان خصوصیات کے باوجود بستی کے لوگ اس کی طرف زیادہ توجہ نہ دیتے تھے۔
اس وقت جب چوپال میں ہگنز کا مقدمہ پیش تھا وہ بلی کا سیاہ بچہ گود میں اٹھائے وہاں پہنچ گیا۔ اگرچہ بچوں کا وہاں کوئی کام نہ تھا، لیکن چُولی کو کسی نے بھگایابھی نہیں۔
‘‘اب معاملہ طے ہوجانا چاہیے۔’’ کسی نے چیختے ہوئے کہا۔
‘‘اسے اپنی صفائی تو پیش کرنے دیں!’’ ایک اور آواز آئی۔ 
‘‘اگر صفائی کے بغیر کسی کو پھانسی دے دی جائے، تو ا سکی روح ستر برس تک پیچھا کرتی ہے۔’’
بستی کے سب لوگ چوپال میں موجود تھے.... کٹلر، جو جج، پادری اور مجسٹریٹ وغیرہ سبھی کچھ تھا....  اینڈرز، جو ہندوستان تک ہو آیا تھا اور شاید اسی لیے وہ تھوڑا بہت توہم پرست ہوگیاتھا.... 
ہگنز، جو کبھی اسکول ماسٹر تھا اور اب ملزم کی حیثیت سے کھڑا تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے اپنے دوست جیک کو قتل کردیا ہے.... 
ان سب کے علاوہ بستی کے بہت سے باشندےوہاں موجود تھے۔ 
اس دور  میں روایات کے مطابق یہ بات ضروری تھی کہ سورج نکلنے سے پہلے پہلے اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیا جائے اور مجرم اپنے انجام کو پہنچ جائے۔
‘‘ٹھیک ہے، دوستو!’’ کٹلر نے کہا۔ 
‘‘ہر شخص کو صفائی پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔  ہگنز! تم جو کچھ اپنے حق میں کہنا چاہتے ہو، کہو، مگر جلدی، ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں۔’’
‘‘کیا فائدہ....؟’’ ہگنز نے کہا۔ اسے گھوڑے پر الٹا بٹھایا گیا تھا اور اس کے ہاتھ پشت پر بندے ہوئے تھے۔’’ میں پہلے ہی سب کچھ کہہ چکا ہوں۔’’
‘‘اور تو کچھ نہیں کہنا چاہتے....؟’’ کٹلر نےپوچھا۔
‘‘میں نے اسے قتل نہیں کیا!’’ ہگنز نے چیختےہوئے کہا۔ 
‘‘میرے پاس قتل کا کوئی ہتھیار ہی نہیں!’’
‘‘پھر کس نے قتل کیا ہےا سے....؟’’ کٹلرنےپوچھا۔
‘‘میں کہہ چکا ہوں.... مجھے علم نہیں!’’ ہگنز نے مایوسی میں اپنا سر ہلایا۔
‘‘کیا کلہاڑی تمہاری نہیں تھی....؟’’ کٹلر نےجرح کی۔
‘‘ہاں، میری ہی تھی، لیکن قتل میں نے نہیںکیا۔’’
‘‘کیا یہ درست ہے کہ وہ تمہاری دوست کی طرف مائل تھا....؟’’
‘‘ہاں! وہ میری دوست تھی، لیکن اس بات پر میں کسی کو قتل نہیں کرسکتا۔’’
‘‘پھر روپے پیسے کی بات ہوگی....؟’’ کٹلر نے دریافت کیا۔ ‘‘لوگ کہتے ہیں جیک کے پاس بہت رقم تھی۔’’ شاید اسی لالچ میں تم نے اسے ختم کردیا ہو۔
‘‘میں آخری بار یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے اس کو قتل نہیں کیا۔ وہ اچھا انسان تھا اور میرا گہرا دوست بھی ! میں اسے کیسے قتل کرسکتا تھا....؟ میں تو کسی جانور کو بھی نہیں مارسکتا۔’’
اینڈرز نے بات کاٹتے ہوئے کہا:
‘‘ہم وقت ضائع کر رہے ہیں۔ سورج نکلنےو الا ہے، اب اس قصے کو ختم کرو!’’
‘‘اچھی بات ہے، دوستو!’’ کٹلر نے کہا۔ ‘‘ذرا گھوڑا ادھر لاؤ!’’
‘‘مسٹر کٹلر! ٹھہرو!’’ کسی کی باریک سی آوازسنائی دی۔
‘‘کیا ہے....؟ اوہ چُولی! دیکھو تم گھر جاؤ۔ یہ بچوں کی جگہ نہیں۔’’ کٹلر نے برہم ہو کر جھڑکدیا۔
‘‘کیا آپ مسٹر ہگنز کو واقعی سزا دینا چاہتےہیں....؟’’ چُولی نے پوچھا۔
‘‘ہاں، ہوسکتا ہے۔’’ کٹلر نے بےچینی سے جواب دیا۔ تم گھر جاؤ وہی تمہاری صحیح جگہ ہے!’’
‘‘لیکن مسٹر کٹلر ! ہگنز کا کوئی قصور نہیں، بالکلنہیں۔’’
‘‘ارے کوئی اس بچے کو یہاں سے ہٹائے!’’کٹلرچیخا۔
‘‘جناب! انہوں نے جیک کو قتل نہیں کیا، ہرگز نہیں کیا!’’ چُولی نے اصرار کیا۔
‘‘چلو، بھاگو یہاں سے! بچوں کا یہاں کیا کام....؟’’ اینڈرز نے چُولی کا بازو بےرحمی سے کھینچا، لیکن بلی کے بچے نے غصے میں آکر زور سےپنجےمارے۔
‘‘لعنت ہو تم پر....!’’ اینڈرز نے درد سے بےتاب ہو کر کہا۔
‘‘میں جانتا ہوں جناب! قتل کس نے کیا تھا!’’ چُولی نے بلی کے بچے کی سیاہ ملائم جلد پر ہاتھ پھیرتےہوئے کہا۔ 
‘‘مجھے معلوم ہے جیک کو کس نے قتل کیا تھا!’’
لمحے بھر کے لیے مجمع ساکت ہوگیا، پھر کٹلر نے نرمی سے پوچھا ‘‘کیا کہا تم نے....؟’’
‘‘جناب! میں.... میں نے کہا ہے کہ مجھے معلوم ہے جیک کو کس نے قتل کیا ہے.... لیکن وہ مسٹر ہگنز بالکل نہیں۔’’
‘‘ہونہہ! تو پھر شاید تم نے قتل کیا ہوگا اسے!’’ اینڈرز نے طنز کا تیر چلایا۔
چُولی خاموشی سے بلی کے بچے کی جلد پر ہاتھ پھیرتا رہا۔
‘‘تو بیٹے! تم جانتے ہو  کہ قتل کس نے کیا ہے۔ اس کا نام بتاؤ ہمیں۔’’ کٹلر نے ملائمت سے پوچھا۔
‘‘کیا یہ بتانا ضروری ہے....؟’’ چُولی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بےنیازی سے کہا۔
‘‘میرا خیال ہے، بہت ضروری ہے۔’’ کٹلر نرمی سے بولا۔ ‘‘آخر مجھے انصاف کرنا ہے!’’
‘‘یہ.... یہ....!’’ چُولی نے سب کو باری باری دیکھتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
‘‘کہو، کہو!’’ کٹلر نے حوصلہ دلایا۔
‘‘یہ.... یہ اس کا کام ہے!’’ اپنی چھوٹی سی انگلی سے اس نے ایک آدمی کی طرف اشارہ کیا۔ 
بلی کے بچے سمیت، سترہ آدمیوں کی آنکھیں ادھر گھوم گئیں۔ وہ اینڈرز کی طرف اشارہ کررہا تھا۔
‘‘بکواس کرتا ہے!’’ اینڈرز نے گرم ہو کر کہا۔ اس کا چہرہ غصے سے سرخ ہورہا تھا۔
‘‘کیا آپ لوگ اس ٹانگ برابر لونڈے کی بات پر یقین کرلیں گے....؟’’
‘‘کس نے کہا کہ یقین کرلیا جائے گا....؟’’ کٹلر کی آواز گونجی۔ ‘‘آج کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، سورج نکل آیا ہے۔’’
حاضرین نے مشرقی افق کی طرف دیکھا اور پھر مایوسی سے ہگنز، کٹلر، چُولی اور بلی کے بچے پر نظر ڈالی۔
‘‘چُولی!’’ کٹلر نے نرمی سے پوچھا۔
‘‘تمہارے پاس کیا ثبوت ہے کہ اینڈرز نے جیک کو قتل کیاہے....؟’’
‘‘میں.... میں نے خود دیکھا تھا!’’ بچے نے ڈرڈرکر کہا۔
‘‘میں چھپ کر دیکھ رہا تھا۔’’
‘‘اول درجے کا جھوٹا ہے!’’ اینڈرز نے جوش بھری آواز بلند کی۔
‘‘چُولی!’’ کٹلر نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔ ‘‘تم جانتے ہو اس کا کیا مطلب ہے....؟ تمہیں یقین ہے کہ....’’ اس نے حاضرین پر ایک نظر ڈالی۔ ‘‘کہ کسی کتاب میں ایسا واقعہ تو نہیں پڑھا۔’’
‘‘میں نے خود دیکھا تھا!’’چُولی نے اصرار کیا۔ ‘‘میں نے اور جیک نے۔’’
‘‘جیک....؟’’ جیک کون....؟  وہ تو مرچکا ہے۔ وہ کیسے دیکھ سکتا تھا....؟’’
‘‘وہ جیک نہیں۔’’ چُولی نے کہا۔  ‘‘یہ بلی کا بچہ! ہم دونوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔’’
کٹلر نے بڑے تحمل سے پوچھا:
‘‘سوال یہ ہے کہ اینڈرز نے اسے کیوں قتل کیا، اسے جیک سے کیا دشمنی تھی....؟’’
لڑکے نے اینڈرز کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ‘‘روپیہ.... روپے کے لیے!’’
اینڈرز پھرتی سے لڑکے کی طرف بڑھا۔ بلی کے بچے نے زور سے میاؤں میاؤں کی اور آینڈرز کا دوسرا بازو بھی مشکل سے بچا۔
‘‘دیکھ لیجیے، یہ بلی کا بچہ بھی اسے پسند نہیں کرتا۔’’ چُولی نے وار کیا۔
سب کی نظریں اینڈرز پر تھیں اور اس کا رنگ اب آٹے کے تھیلے کی طرح سفید ہوچکا تھا۔ 
اس نے کچھ کہنا چاہا، لیکن الفاظ حلق میں اٹک کررہ گئے۔
کٹلر نے نئی صورتحال کو بھانپتے ہوئے کہا:
‘‘چُولی! تم ذرا پرے  ہٹ جاؤ اور بلی کے اس بچے کو بھی لے جاؤ۔’’ 
چُولی پاؤں پٹختا، گرد اڑاتا، دور ہٹگیا۔
‘‘ہاں اب کہو!’’ کٹلر نے اینڈرز سے مخاطب ہو کر کہا۔’’ تم کیا کہنا چاہتے ہو....؟’’
‘‘یہ.... یہ بلی کا بچہ نہیں، جیک ہے، اس کی روح اس میں آگئی ہے!’’ اینڈرز اب سسکیاں لے رہا تھا۔‘‘میں اقرار کرتا ہوں جیک کو میں نے ہی قتلکیاہے!’’
‘‘اور تم نے ہگنز کی کلہاڑی دانستہ استعمال کی تھی....؟’’ کٹلر نے سنجیدگی سے پوچھا۔
‘‘میں نے.... میں نے اس سے عاریتاً لی تھی۔ میں اسے قتل نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن وہ میری رقم واپس دیتا ہی نہ تھا۔’’ اینڈرز سخت تکلیف میں تھا۔ ‘‘مجھے کیا معلوم تھا اس کی روح واپس آجائے گی!’’
کٹلر نے فیصلہ دینے کے انداز میں کہا:
‘‘دوستو! شکر ہے، ہم بہت بڑی غلطی سے بچ گئے۔ ہم سب کو مسٹرہگنز سے معافی مانگنی چاہیے۔ بےچارے کو بہت تکلیف پہنچی ہے۔ اس کے زخم بھرنے میں وقت لگے گا۔’’
ہگنز پسینے پسینے ہورہا تھا۔ 
‘‘میرا خیال ہے ہم سب کو چُولی کا شکر گزار ہونا چاہیے.... اور کسی اور کا بھی !’’ یہ کہہ کر اس نے آسمان کی طرف دیکھا۔ سب لوگ شرم کے مارے زمین پر نظریں گاڑے کھڑے تھے۔
‘‘تم ہمارے ساتھ آؤ اینڈرز!، کٹلر نے کہا اور چاقو نکال کر ہگنز کے ہاتھوں کی رسیاں کاٹ دیں۔ ایک نظر اس پر ڈالی اور وہاں سے چل دیا۔
ہگنز وہیں رکا رہا جب ایک ایک کرکے سب رخصت ہوگئے، تو وہ گھوڑے پر سے اتر آیا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا چُولی کے پاس آگیا اور بولا:
‘‘میں تمہارا شکر گزار ہوں چُولی!’’ وہ نرمی سے بولا: ‘‘تم نے بڑی جرات سے کام لیا ہے۔’’ اس نے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا اور چُولی نے شرماتے ہوئے اسے تھام لیا۔
‘‘لیکن تم اتنے دن خاموش کیوں رہے....؟ تمہیں چاہیے تھا پہلے ہی بتا دیتے۔ اتنا انتظارکیوںکیا....؟’’
‘‘مجھے.... مجھے معلوم نہ تھا وہ کیا کرنے والے ہیں....؟’’ لڑکے نے کہا، 
پھر عجب انداز میں کہہ کر اٹھا: ‘‘مسٹر ہگنز....!’’
‘‘کیا بات ہے چُولی....؟’’
‘‘مسٹر ہگنز! اینڈرز یہ کیوں کہہ رہا تھا کہ جیک کی روح واپس آگئی ہے....؟’’
‘‘میرا خیال ہے چُولی! وہ اس بلی کے بچے کو مرحوم جیک سمجھ رہا تھا۔ بعض توہم پرست لوگ سمجھتے ہیں کہ مرنے والوں کی روحیں کسی اور روپ میں آجاتی ہیں۔’’
‘‘جیسے بعض لوگ الو کی آواز کو منحوس سمجھتے ہیں....؟’’ چُولی نے معصومیت سے پوچھا۔
‘‘بالکل! چونکہ تمہارے بلی کے بچے کا نام بھی جیک ہے، اس لیے اینڈرز نے یہی سمجھا کہ مقتول جیک کی روح واپس آگئی ہے!’’
‘‘مسٹر ہگنز، ایک بات بتاؤں....؟’’ چُولی نے رازداری سے کہا۔
‘‘کہو!’’
‘‘جیک کی روح بلی کے اس بچے میں آہی نہیں سکتی! یہ تو جیکی ہے، عورت ! میں نے سوچا کہ اگر اس کا اصلی نام بتایا، تو لوگ ہنسیں گے، اس لیے میں نے اسے جیک بنا دیا!۔’’
ہگنز نے ہاتھ سے ماتھے کا پسینہ صاف کیا اور عقیدت سے آسمان کی طرف دیکھا۔
‘‘مسٹر ہگنز....!’’
‘‘کچھ اور بھی کہنا ہے چُولی....؟’’
‘‘جی ہاں! میں نے.... دراصل میں نے اینڈرز کو قتل کرتے دیکھا ہی نہ تھا۔ میں نے اندازہ ہی لگایا تھا کہ قتل اسی نے کیا ہوگا!’’
‘‘اوہ!’’ ہگنز  کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہگئیں۔
‘‘برابر ....’’ ہگنز نے تعجب سے پوچھا ‘‘وہکیسے....؟’’
‘‘میں نے آپ پر احسان کیا ہے نا....؟’’ چُولی نے کہا۔ ‘‘اس طرح میں نے قرض اتار دیا ہے۔’’
‘‘کون سا قرض....؟’’ میں نے کون سا قرضدیا تھا....؟’’
چُولی نے گود میں اٹھائے ہوئے بلی کے بچے کو پیار سے تھپکا:
‘‘آپ کو یاد نہیں مسٹر ہگنز! آپ ہی نے تو مجھے لکھنا پڑھنا سکھایا ہے۔’’

[حوالہ : رابرٹ ایل میک ]


امریکی  مصنف ، مصوری ، مناظر قدرت اور  آرٹس کے مؤرخ

رابرٹ  ایل میک گرا -   1935ء تا حال

رابرٹ ایل میک گرا Robert L. Mc Grath ،    فی الحال امریکی ریاست نیوہیمپشائر   کے  ڈرٹماؤتھ کالج Dartmouth Collegeمیں  آرٹ ہسٹری کے ایمریطس پروفیسر ہیں،  رابرٹ 1935ء میں پیدا ہوئے۔ 1959ء میں انہوں نے مڈلبری کالج سے گریجوئیٹ کیا اور پھرپرنسٹن یونیورسٹی سے  1962ء میں ماسٹر آف فائن آرٹس اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔   انہوں نے ڈرٹ ماؤتھ کالج کے آرٹ ڈپارٹمنٹ میں بطور انسٹرکٹر    خدمات انجام دیں اور ترقی کرتے کرتے  پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ انہوں نے آرٹس کی تاریخ پر کئی کتابیں تحریر کیں ۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں