|
ماورائی علوم اور روحانی صلاحیتوں کے ماہر لوب سا نگ ـ رمپا کی کہانی .... جس میں وہ لہاسا تبت میں طبیب لامہ بننے ، اپنی باطی آنکھ کھولنے اور روحانی علوم سیکھنے کے بعد چین کا سفر کرتے ہیں اور چینی اور مغربی سائنس پڑھ کر اپنے طبی تحقیق میں اضافہ کرتے ہیں، وہاں جاپانی انہیں قیدی بنالیتے ہیں لیکن اس دوران ہیروشیما پر ایٹم بم گرائے جاتے ہیں ۔ مگر لوب سانگ رمپا وہاں سے زندہ بچ نکلتے ہیں ۔ زیرِ نظر کہانی 1959ء میں شایع ہوئی رمپا کی کتاب ‘‘لہاساکا ڈاکٹر’’ Doctor from Lhasa، کی تلخیص ہے۔رمپا کی یہ کتاب انٹرنیٹ پر درج ذیل لنک پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے:https://www.lobsangrampa.org/books/en/Doctor-from-Lhasa.htmhttps://www.lobsangrampa.org/books/en/Doctor-from-Lhasa.pdf |
میرا نام لوبـ سانگـ رمپا Lobsang Rampa ہے۔ ہمارا خاندان تبت کی سب سے بڑی جاگیر کا مالک تھا۔ میرے والد دلائی لامہ کے بعد سب سے زیادہ لائق احترام اور مقدس شخص سمجھے جاتے تھے۔ میں پیدا ہوا، تو میرے والد نے ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا۔ جس میں ملک کی بڑی بڑی شخصیتیں اور لہاسا Lhasa کے معززین شریک ہوئے۔ مہمان خصوصی خود تیرہویں دلائی لامہ تھے۔
کھانے کے بعد تبت کے سب سے بڑے نجومی نے میرے مستقبل کے متعلق پیشن گوئی پڑھ کر سنائی۔ پیشن گوئی کے مطابق میری زندگی مصائب و آلام سے بھری ہوئی تھی، تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں ایک بے مثال طبیب اور عظیم لامہ بننےوالا تھا۔
بچپن کے دن گھر میں ہنستے کھیلتے گذرگئے۔ سات سال کی عمر میں مجھے چکپوری Chokporiکی طبی درس گاہ میں بھیج دیا گیا۔ وہاں ایک ہفتہ مختلف کٹھن آزمائشوں میں گزرا۔ صبح سے شام تک بوڑھے لامے مختلف طریقوں سے میری جسمانی و ذہنی صلاحیتوں کو جانچتے رہتے۔ میرے ممتحن میرے بارے میں مطمئن نظر آئے، آخر ساتویں دن درس گاہ کے استاد لامے نے مجھے باقاعدہ طالب علم بنا لیا۔
اپنی عمر کے ساتویں سال سے میں دس سال تک چپکوری میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس درس گاہ میں مجھے تبتی طب، طبیعات، روحانیت، مذہب اور دیگر علوم سیکھائے گئے۔ یہاں مجھے جسمانی مشقت کےسخت ترین مراحل سے بھی گزرنا پڑا۔ اب میں طبیب، لامہ بن چکا تھا۔
چکپوری کے زمانہ قیام میں میں نے جنگلی جڑی بوٹیوں کی تحقیق میں بھی حصہ لیا۔ اس دوران میں نے تقریباً چھ ہزار جڑی بوٹیوں کے خواص اور اثرات کا تفصیلی علم حاصل کیا۔
اپنے بزرگ استاد، کے ہمراہ اڑن کھٹولے (آدمی کو اُڑانے والی ہوائی پتنگ Manlifting Kites)میں بیٹھ کر مجھے تبت کے دور دراز اور سطح سمندر سے 12 ہزار فیٹ بلند ترین مقامات تک جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ چانگ تانگ کی یادگار اور ناقابل فراموش مہم میں میں اپنے عظیم استاد کے ہمرا ہ تھا۔ اس مہم کے دوران ہم اڑن کھٹولے کے ذریعے چینگ تانگ Chang Tang کی پراسرار گھاٹی میں جاپہنچے۔ راشن ختم ہوگیا، لیکن علم کی جستجو نے حوصلے بلند رکھے اور ہم تین ہفتے تک اس قدیم شہر کے غار نما کھنڈروں میں سرگرداں رہے۔ دوران لاکھوں ٹن برف میں دبی ہوئی قدیم تبتی تہذیب کا تفصیلی مطالعہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس مہم کے ذریعے ہماری فراہم کردہ معلومات سے تبت کی تاریخ مرتب کرنے میں بےحد مدد ملی۔
میری سوجھ بوجھ ذرا پختہ ہوئی، تو مجھے روحانیت کا درس دینا شروع کیا گیا۔ درس گاہ کے بڑے لامہ نے جڑی بوٹیوں سے ایک خاص قسم کا محلول تیار کیا۔ نگاہ باطن یعنی تیسری آنکھ Third Eye کھولنے کےلیے چاندی اور لکڑی سے بنی ایک سخت کیل کو اس محلول میں بھگوکر میرے ماتھے میں ٹھونک دیا گیا۔
تبتی طبیبوں کا خیال ہے کہ دماغ کے اگلے حصے میں ایک خاص غدود (پائنل گلینڈ Pineal Gland)ہوتا ہے۔ لکڑی کا کیل ٹھونک دینے سے اس غدود کو تحریک ملتی ہے، اس سے انسان کی روحانی حس بیدار ہوجاتی ہے اور وہ روحانی تعلیمات کو بآسانی سمجھنے لگتا ہے۔
اس درس گاہ میں میری روحانی تربیت کا ایک مرحلہ مکمل ہوا تو مجھ پر انسان کا باطن آشکار ہو نے لگا اور مجھے ہر آدمی کا پَرتو (اوراء Aura ) نظر آنےلگا۔ لوگوں کا پَرتو دیکھ کر میں ان کی اُمیدیں اور خوف بھی جان جاتا تھا۔
چکپوری کی درس گاہ سے فارغ ہوا، تو دلائی لامہ نے ہماری خاندانی حیثیت اور میری روحانی اور علمی قابلیت کے پیش نظر مجھے اپنا مصاحب مقرر کردیا۔ دلائی لامہ کے دربار میں جو شخص بھی آتا، میں اس کاپُر تو، دیکھ کر اس کے دل کا حال دلائی لامہ کو بتا دیتا۔ چند ہی روز میں دلائی لامہ میری خاص روحانی قوت کے معترف ہوگئے۔ انہی دنوں لہاسا میں ایک انگریز وارد ہوا۔ اس کے عجیب و غریب طور اطوار دیکھ کر میرے دل میں تبت سے باہر جانے کا خیال پیدا ہوا۔ میں دلائی لامہ کا معتمد خاص بن چکا تھا۔ ایک دن وہ مجھے پوتالا محل Potala Palaceکے نیچے خفیہ سرنگ میں لے گئے۔ یہاں بدھ کے مقدس نواردات محفوظ ہیں۔ دلائی لامہ کے علاوہ کسی شخص کو سرنگ کا راستہ معلوم نہیں ہوتا۔ دلائی لامہ مرنے سے چند روز قبل اپنے جانشین کو اس خفیہ سرنگ کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔ یہاں دلائی لامہ بدھ، سے ہم کلام ہوتے ہیں اور گیان حاصل کرتے ہیں۔
میں نے دیر تک سرنگ میں رکھے ہوئے نایاب اور گراں بہا نواردات کا بغور مطالعہ کیا اور دس پندرہ فٹ لمبے دیووں Giants کی محفوظ شدہ لاشیں دیکھیں۔ دیواروں پر منقش تصویروں اور خاکوں کے ذریعے زندگی اور موت کے اسرار حقائق کا مطالعہ کرنے کے بعد جب ہم سرنگ سے باہر نکلے، تو یوں محسوس ہوا جیسے بیرونی دنیا سے رابطہ ٹوٹے صدیاں گزر گئی ہوں۔
چند روز بعد دلائی لامہ نے مجھے بلایا اور کہا:
‘‘تمہاری ذہنی اور روحانی صلاحیتوں کا تقاضا ہے کہ تم دیگر دنیاوی علوم بھی حاصل کرو۔ اس طرح تم تبت کی ایک ایسی بڑی علمی شخصیت بن سکو گے جو روحانیت اور مادیت دونوں طرح کے علوم می ماہر ہو۔ اگر تم پسند کرو، تو میں چنگ کنگ Chungking، کی مشہور چینی درس گاہ میں تمہارے داخلے کا بندوبست کردوں....؟’’
دلائی لامہ کی یہ بات سن کر میرا دل خوشی سے بے قابو ہونے لگا۔ دراصل مجھے تبت سے باہر کی دنیا دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا۔ میں نے چینی درس گاہ میں داخلے کے لیے دلائی لامہ کے سامنے فوراً آمادگی ظاہر کردی۔
ہم 1927ء کے آغاز میں لہاسا سے روانہ ہوئے۔ عظیم اتالیق لامہ منگیار Mingyar Dondup میرے ساتھ تھے۔ وہ اپنے عزیز شاگرد کو بذات خود چنگ کنگ چھوڑنے جارہے تھے۔ ہم دن بھر سفر کرتے اور رات کسی خانقاہ یا سرائے میں گزارتے۔ راستے میں جہاں کہیں بھی جاتے، ہماری بےحد آؤ بھگت کی جاتی۔
وادی کین تنگ Kanting میں پہنچے، تو ایک عجیب رواج دیکھنے میں آیا۔ لوگ چائے کی پتیوں کو ایک خاص طریقے سے چھوٹی چھوٹی اینٹوں میں تبدیل کرلیتے اور سردیوں میں استعمال کرنے کے لیے محفوظ کرلیتے۔ یہاں چائے کی اینٹیں کرنسی سکوں کی جگہ بھی استعمال کی جاتی تھیں۔
کین تنگ کے بعد سائی کانگ Xikang پہنچے اور یہاں سے دریائےینگ سی Yangtze کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شکوان Szechwan پہنچے اور وہاں سے چین میں داخل ہوگئے۔
یہاں ایک گونج سی پیدا ہوئی۔ ہمارے گھوڑے بدک کر بےقابو ہوگئے۔ اس اثنا میں گردوغبار کا ایک بادل بڑی تیزی سے ہماری جانب بڑھتا چلا آرہا تھا۔ چند لمحے بعد اس بادل میں سے ایک دوڑتا ہوا مکان نمودار ہوا۔ میرے اتالیق نے بتایا کہ یہ موٹر کار ہے۔ میں دیر تک اس سواری کو دلچسپی سے دیکھتا رہا۔ آخر وہ نظر سے اوجھل ہوگئی اور ہم اپنی منزل کی طرف چل کھڑے ہوئے۔
رات ہوئی تو ہم ایک چینی خانقاہ میں ٹھہرے۔ یہاں ہماری ملاقات ایک جاپانی بدھ بھکشو سے ہوئی۔ وہ لہاسا میں میرے اتالیق منگیار کا شاگرد رہ چکا تھا۔ اس نے ہمیں دیکھتے ہی پہچان لیا اور بےحد خاطر مدارات کی۔ اس نے ہمیں چینی خانقاہوں کے تازہ ترین حالات بتائے جنہیں سن کر مجھے بےحد دکھ ہوا۔
اس نے بتایا کہ روسی نمائندے ، چینی لوگوں کے مذہبی اعتقادات کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں اور گوناگوں لالچ دے کر لوگوں کو خانقاہوں کے خلاف بغاوت پر آمادہ کر رہے ہیں۔
اگلی صبح ہم منہ اندھیرے روانہ ہوگئے اور سہہ پہر کے وقت چنگ کنگ Chungking کے نواح میں پہنچ گئے۔ شہر کی بلند و بالا عمارتیں دیکھ کر میرے دل میں خوشیوں کے طوفان مچل گئے۔ چنگ کنگ، دریائے ینگ سیYangtzeاور دریائے شیلانگ Chialing کے سنگم پر چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں پر واقع ہے۔ پہاڑیوں کے دامن سے لے کر سنگم تک ریت کی چمکتی ہوئی چادر پھیلی ہوئی ہے۔ درس گاہ میں داخل ہوئے، تو بڑے دروازے پر دو چینی ملے۔ ان کےلباس سے ظاہر ہوتا تھا کہ درسگاہ کے ملازم ہیں۔ وہ مجھے درسگاہ کے بڑے استاد کے پاس لے گئے۔
‘‘لوب سانگ، میں چین کے اس عظیم کالج کا پرنسل لی Lee ہوں اور تمہیں کالج کی نتظامیہ کی طرف سے خوش آمدید کہتا ہوں۔’’
‘‘عزت افزائی کا شکریہ۔’’ میں نے کہا اور دلائی لامہ کا تعارفی خط اس کے حوالے کردیا۔
‘‘مجھے، بودھ لامہ ، کا حکم نامہ پہلے ہی موصول ہوچکا ہے اور میں تمہارے متعلق بہت کچھ جان چکا ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ تم جیسا عظیم لامہ میرا شاگرد بن رہا ہے۔’’ پرنسپل نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پرنسپل کچھ دیر مجھ سے تبت کے حالات سنتا رہا، پھر گھنٹی بجائی۔ نیلے لباس میں ایک کلرک حاضر ہوا پرنسپل لی نے اس سے چینی زبان میں کہا،
‘‘آفوAhFu ....!، لوب سانگ کو دفتر میں لے جاؤ اور اس کا نام وغیرہ درج کروادو۔’’
دفتر سے فارغ ہو کر میں کالج کے مہمان خانے میں پہنچا جہاں اتالیق منگیار اور دوسرے ساتھی میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ پھر ہم سب کھانا کھانے بازار کی طرف چل دیے۔
بیس لاکھ نفوس پر مشتمل یہ شہر اپنی مثال آپ تھا۔ ایسی چہل پہل اور رونق میں نے زندگی میں پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ ہم ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں داخل ہوئے۔ تبت میں کھانا کھاتے وقت باتیں کرنا نہایت برا سمجھا جاتا تھا، لیکن یہاں لوگ کھانے کے دوران بھی گرما گرم بحث میں مصروف تھے۔ ہوٹل میں بیٹھے لوگوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا۔ اگلی صبح عظیم استاد منگیار اور دوسرے ساتھی تبت واپس روانہ ہوگئے۔ میں نے انہیں بادیدہ نم رخصت کیا۔
جب میں کالج پہنچا، تو ہانگ Huangنامی ایک چینی راہب سے ملاقات ہوئی۔ وہ بھی میری طرح نووارد تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم آپس میں گھل مل گئے۔
استاد نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی لڑکوں میں کاغذ اور سوال نامے تقسیم کردیے۔ وہ طالب علموں کی انفرادی قابلیت کا اندازہ کرنا چاہتا تھا۔ امتحان کے مطابق مجھے پہلے سال زیادہ تر توجہ الیکٹرسٹی اور مقناطیسیت پر دینا تھی۔
اگلے روز ہمیں پہلی بار ایک لیبارٹری میں لے جایا گیا۔ سب سے پہلے ہمارے استاد نے بجلی کے متعلق بہت سی دلچسپ باتیں بتائیں۔ میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا۔ پھر ان باتوں کے دوران استاد نے مجھے اپنے قریب بلایا، میرے ہاتھوں میں تانبے کی دو نلکیاں پکڑادیں اور ایک بٹن دبایا۔ مجھے کچھ محسوس نہ ہوا۔ میں آرام سے کھڑا رہا۔استاد نے پوچھا۔
‘‘تمہیں کیا محسوس ہورہا ہے....؟’’
‘‘کچھ بھی نہیں۔’’ میں نے جواب دیا۔
میری بات سن کر استاد کو کچھ حیرت ہوئی۔ استاد کو خیال آیا شاید تار ٹھیک طرح نہیں لگے ہوئے۔ انہوں نے نلکیاں خود پکڑلیں اور بٹن پھر دبایا۔ اچانک استاد کو ایک جھٹکا سا لگا اور وہ گر پڑے۔ اس کا رنگ سفید پڑنے لگا۔ لیبارٹری کا کلرک بھاگم بھاگ آیا اور سوئچ آف کردیا۔
کچھ دیر بعد استاد کو ہوش آگیا۔ اس نے چھوٹے سے بلب کے ذریعے برقی، روٹیسٹ کی اور نلکیاں میرے ہاتھ میں دے کر بٹن دبا دیا، لیکن مجھے کچھ بھی نہ ہوا۔ آخر تنگ آکر بولا:
‘‘220 وولٹ کے بجائے 440 وولٹ لگاتے ہیں۔’’
دیوار میں نصب شدہ چند بٹن دبانے کے بعد اس نے نلکیاں پھر میرے ہاتھ میں دے دیں۔ اس بار مجھے ہاتھوں پر چیونٹیاں سی رینگتی ہوئیں محسوس ہوئیں۔ 440 وولٹ کرنٹ کے باوجود مجھے زندہ سلامت کھڑا دیکھ کر استاد ششدر ہوگیا: ‘‘عجیب انسان ہےیہ ، اس پر برقی رو کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔’’ وہ بڑبڑایا۔
بہر حال کلاس ختم ہوئی اور ہم باہر آگئے۔
چین میں سب سے بڑا مسئلہ خوراک کا تھا۔ تبت کی سی سادہ اور طاقتور غذا ناپید تھی۔ لامہ کے لیے مچھلی اور گوشت کھانا گناہ ہوتا ہے، لیکن دلائی لامہ نے مجھے ضرورت کے وقت یہ چیزیں کھا لینے کی اجازت دے دی تھی۔ چین پہنچ کر میں نے زندگی میں پہلی بار کچھوے، گھونگھے اور مینڈک کا گوشت بھی کھایا۔ سیپ کا گوشت، بانس کی کونپلیں، مچھلی اور بطخ کاشوربا میرے پسندیدہ کھانے تھے۔ چین میں منہ سے سگریٹ کا دھواں نکالنا بھی ایک فن ہے۔ بعض لوگ ناک کے علاوہ کانوں سے بھی دھواں نکالتے ہیں۔ا س مقصد کے لیے کان کے پردے میں سوراخ کروالیتے ہیں اور صرف شوق پورا کرنے کے لیے زندگی بھر کے لیے بہرے ہوجاتے ہیں۔
ہمارے کالج میں مردہ خانہ بھی تھا، کالج کے اس مردہ خانے کا ماحول بےحد خوفناک تھا۔ بیسوں لاشیں ادھر ادھر پڑی رہتیں۔ بعض اوقات کسی لاغر لاش کو حاصل کرنے کے لیے لڑکے آپس میں جھگڑ پڑتے۔ یہ مغربی طریقہ ہے تبت میں کبھی ایسا نہیں ہوتا، تبتی لامہ لاشوں کا بہت احترام کرتے ہیں ، یہاں تک کہ تبتی طب میں جسم کو چیرنا پھاڑنا بھی منع ہے لامہ طبیب صرف بیرونی طور پر ہی اندرونی امراض کا علاج بخوبی کردیتے ۔
تو ہم پرستی نے چین کو اپنے نرغے میں لے رکھا تھا۔ بیمار ہسپتال آتے، ایکسرے کرواتے اور دوا تک لیتے، مگر ڈاکٹروں پر ان کا اعتقاد نہ تھا۔ غیر مستند لامہ طبیبوں کا رخ کرتے۔ یہ طبیب بڑے ماہر نبض تھے۔ نبض دیکھ کر کھایا پیا تک بتا دیتے۔ لیکن ان مغربی اور چینی طبیبوں کا ڈھنگ بھی نرالا تھا۔ جسم کے مختلف حصوں کے لیے مختلف رنگ کی دوائیں تجویز کرتے۔ تمام بیماریوں کا علاج کرتے۔ آپریشن بھی کرتے اور دانت بھی نکالتے۔ دانت نکالنے کا طریقہ بےحد دلچسپ تھا۔ طبیب اپنے پڑوسی دکانداروں اور بعض اوقات راہ گیروں کو مدد کے لیے بلا لیتا۔ وہ مریض کو جکڑ لیتا اور طبیب ٹیڑھے میڑھے آلات سے دانت نکالنے لگتا، ایسے میں تکلیف کی شدت کی وجہ سے مریض کے منہ سے ایسی آوازیں نکلتیں جیسے بکرے کو ذبح کیا جارہا ہو۔
چند روز بعد ایک اور استاد ہماری کلاس میں آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مقناطیس تھا۔ استاد نے لڑکوں سے پوچھا:
‘‘کیا تم بتا سکتے ہو مقناطیس کا حلقہ کشش magnetic field کیسا ہوتا ہے....؟’’
سب لڑکے خاموش رہے۔ میں نے اس مقناطیس پر ایک نظر ڈالی تو مجھے وہاں ایک جال سا دکھائی دیا ‘‘میں دیکھ رہا ہوں، استاد مکرم۔’’
میں نے اٹھ کر کہا۔
‘‘تم کیا دیکھ رہے ہو....؟’’ استاد نے پوچھا
‘‘میں مقناطیس کا حلقہ کشش دیکھ رہا ہوں ’’
‘‘اچھا....تو پھر بنا کر دکھاؤ۔’’ استاد نے کچھ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
میں نے بلیک بورڈ پر ایک سفید چاک سے لہروں کا ہوبہو وہ جال بنا دیا جو مجھے مقناطیس کے گرد ہلکی سی روشنی کی صورت میں نظر آرہا تھا۔
استاد بےحد حیران ہوا، کیونکہ ان کے خیال میں تکنیکی لحاظ سے میرا بنایا ہوا جال بالکل درست تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید میں پہلے ہی مقناطیسیت کے متعلق بہت کچھ جانتا ہوں اور انہیں بیوقوف بنا رہا ہوں۔ اب انہوں نے لوہے کا ٹکڑا لیا، اس کے گرد تار لپیٹ کر عارضی مقناطیس بنایا اور مجھے حلقہ کشش بنانے کو کہا۔ میں نے چاک سے جال بنانا شروع کیا۔
اچانک روشنی غائب ہوگئی۔ میں نے استاد سے کہا کہ ‘‘مجھے اب کچھ نظر نہیں آرہا۔’’
وہ بہت حیرت زدہ ہوا۔ جونہی اس نے خفیہ بٹن کے ذریعے برقی رو بند کی، عارضی مقناطیس ختم ہوگیا اور دائرہ کشش میری نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ برقی رو دوبارہ جاری ہوئی، تو میں نے حلقہ کشش کا پورا نقشہ بنا دیا۔
استاد کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ بار بار میری طرف دیکھتا۔ آخر اس نے لڑکوں کو چھٹی دے دی اور مجھے اپنے کمرے میں لے گیا۔ میں نے بتایا: ‘‘مجھے مقناطیس دیکھنے کا اتفاق پہلی بار ہوا ہے۔ نیز یہ کہ میں انسان کا ‘‘پرتو’’ Auraدیکھ سکتا ہوں۔’’
یہ سنتے ہی استاد مجھے پرنسپل کے پاس لے گیا۔ پرنسپل کرسی پر خاموش بیٹھا ہوا تھا۔
‘‘یہ تبتی نووارد بھی عجیب وغریب آدمی ہے۔ کہتا ہے ہر انسان کا پَرتو، Aura ہوتا ہےا ور میں اس کو دیکھ سکتا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے مقناطیس کے حلقہ کشش کو بھی آنکھوں سے دیکھ لینے کا دعویٰ کیا ہے۔’’ استاد ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا۔
پرنسپل نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر بولا:
‘‘لوب سانگ، میں جانتا ہوں تم نے روحانی تعلیم حاصل کی ہے، مگریہ پرتُو (اورا Aura)، کیا بلا ہوتی ہے؟....’’
‘‘جناب والا!....، ہر انسان میں مقناطیسی طاقت ہوتی ہے، چنانچہ اس کے جسم سے برقی لہریں نکلتی رہتی ہیں جو تقریباً ڈیڑھ انچ موٹی ہوتی ہیں۔ یہ لہریں انسان کے جسم کے اردگرد موجود رہتی ہیں۔ یہی روشنی پرتو، کہلاتی ہے۔ میں پر تو دیکھ سکتا ہوں اور اس کو دیکھ کر انسان کے خیالات، دل میں ہونے والی کشمکش اور ذہن اور جسم کی حالت معلوم کرلیتا ہوں۔’’ میں نے جواب دیا۔
‘‘پوچو Po Chu، لوب سانگ درست کہتا ہے۔ چند سال قبل اس کے اتالیق منگیار نے بھی ایسی ہی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ یہ بتاکر پرنسپل نے میرے استاد سے کہا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم تبت کے علوم کو جھٹلانے کے بجائے ان کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کریں۔’’
درسگاہ سے تھوڑی دور دریائے ینگ سی کے کنارے چنگ کنگ کا ہوائی اڈہ تھا۔ دریا کے ساتھ ساتھ ریت کا میدان دور تک پھیلا ہوا تھا اور ہوائی اڈے کی سڑک سفید کاغذ پر سیاہ لکیر کی مانند دکھائی دیتی تھی۔ ایک دن میں اپنے دوست ہانگ کے ہمراہ ہوائی اڈے گیا۔ وہاں دو طیارے کھڑے تھے۔ ہانگ نے میرا تعارف پائلٹوں سے کرایا۔ وہ جھک کر ملے اور بےحد احترام سے پیش آئے۔ میں نے انہیں بتایا کہ تبت میں طیاروں کا کام اُڑن کھٹولوں (ہوائی پتنگ )سے لیا جاتا ہے، تو وہ بےحد حیران ہوئے۔ پائلٹ ہمارے دوست بن گئے اور ہم گاہے گاہے ہوائی اڈے پر جانے لگے۔ انہوں نے ہمیں طیاروں کے متعلق معلومات فراہم کیں۔ بعض اوقات وہ مجھے کیبن میں اپنے ساتھ بٹھا لیتے اور فضا کا چکر لگاتے۔ پرواز کے دوران میں میری نگاہیں کنٹرول بورڈ پر جمی رہتیں۔
آہستہ آہستہ میری خود اعتمادی نے یقین کی شکل اختیار کرلی۔ میرے دل میں یہ خیال جاگزیں ہوگیا کہ میں طیارہ چلا سکتا ہوں۔ آخر ایک دن مجھے اپنے ارمان پورے کرنے کا موقع مل گیا۔
ہانگ اور میں ہوائی اڈے پر پہنچے، تو دونوں پائلیٹ ایک طیارے کی صفائی میں مصروف تھے۔ ہانگ ان کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا۔ میں چپ چاپ دوسرے طیارے کی طرف چل دیا۔ قریب پہنچا، تو میرا دل بےقابو ہوگیا۔ کنٹرول بورڈ مجھے ایک مانوس کتاب کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ میرا ہاتھ بےساختہ اسٹارٹر کی طرف بڑھ گیا۔
یکایک گڑگڑاہٹ سی پیدا ہوئی اور پھر ایک زور دار جھٹکے سے طیارہ رن وے پر دوڑنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد سڑک ختم ہوگئی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، دل دھک دھک کرنے لگا اور جسم پسینے میں بھیگ گیا۔ طیارے کے پہیے ریت میں دھنستے چلے جارہے تھے۔ مجھے جھرجھری سی آگئی۔ میں نے طیارے کا رخ اوپر نیچے کرنے والا بٹن دبا دیا۔ فوراً طیارے کا اگلا حصہ اوپر کی طرف اٹھ گیا اور طیارہ فضا میں بلند ہوگیا۔
طیارہ تیز رفتاری کے ساتھ زمین سے تقریباً 90 درجے کے زاویے پر اوپر کی طرف جارہا تھا۔ میرے ہاتھ شل ہوگئے۔ کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔‘‘اگر طیارہ اسی انداز میں اڑتا چلا گیا، تو زمین پر زندہ واپس آنے کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔’’میں نے سوچا اور تھروٹل Throttleکو دبا دیا۔ پہلے تو طیارہ ڈگمگایا اور پھر نیچے آنے لگا۔ اب وہ ناک کی سیدھ میں زمین کی طرف آرہا تھا۔ چنگ کنگ کی عمارتیں میرے سامنے تھیں۔ میں نے اعصاب کو قابو میں رکھنے کی کوشش کی اور تھروٹل Throttle کو تھوڑا سا کھینچا۔ اس طرح کرنے سے طیارے کا رخ تو ٹھیک ہوگیا، مگر اب وہ ہچکولے کھانے لگا۔ میں نے سیٹ کو ٹانگوں میں جکڑ لیا اور کنٹرول بورڈ پر پوری توجہ کی۔ آخرکار طیارہ زمین کے متوازی اڑنے لگا۔
اب مجھے نیچے اترنے کی فکر لاحق ہوئی۔ اس وقت اپنی جان بچانے کی جدوجہد کرتے ہوئے مجھے زندگی میں پہلی بار یہ احساس ہوا کہ نظریے اور عمل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
جونہی رخ بدلنے کے لیے میں نے بٹن دبایا، طیارے نے غوطہ لگایا۔ ایک لمحے کے لیے میرے ہوش جاتے رہے، کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوگیا ہے۔ طیارہ تیزی سے نیچے جارہا تھا۔ اس کا رخ سامنے ایک اونچی پہاڑی کی طرف تھا۔ خون میری رگوں میں جم گیا، آنکھوں کے سامے دھند سی چھا گئی،لیکن پھر میں فوراً سنبھلا، زور سے اپنے سر کو جھٹکا دیا اور ہمت کرکے پوری قوت سے تھروٹل کو کھینچا۔ طیارے کا رخ یک لخت اوپر کی طرف اٹھ گیا اور وہ پہاڑی کے اوپر سے گزر گیا۔
یہ جان لیوا مرحلہ گزرا، تو میں نے دیکھا کہ میرے کپڑے پسینے میں بھیگ چکے ہیں۔ مجھے کوئی بات سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ آخرکار میں نے طیارے کا رخ ٹھیک کیا اور ڈیش اسکرین میں سے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔
چنگ کنگ شہر کا کہیں پتہ نہ تھا۔ میں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کے طویل سلسلے پر پرواز کر رہا تھا۔ میں نے طیارے کی رفتار کم کی اور اس کا رخ دائیں طرف موڑ دیا۔ دفعتاً مجھے زمین پر ایک سفید سی لکیر دکھائی دی۔ یہ دریائے ینگ سی تھا۔ اسے دیکھ کر کچھ امید بندھی۔ بڑی احتیاط سے طیارے کو موڑا اور اسے دریا کے رخ پر ڈال دیا۔
کچھ دیر بعد مجھے احساس ہوا کہ طیارہ بالکل مخالف سمت میں جارہا ہے۔ اب تک مجھے خاصی مہارت ہوچکی تھی، اس لیے سمت تبدیل کرنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آئی۔ اب چنگ کنگ کا شہر نظر آیا تھا۔ میں نے طیارے کی رفتار خاصی کم کردی۔
اچانک میری نظر ہوائی اڈے پر پڑی۔ ہانگ اور دونوں پائلٹ مجھے ننھے ننھے کیڑوں کی طرح دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے طیارے کا رخ نیچے کی طرف موڑ دیا۔ طیارے نےاچانک غوطہ لگایا، قریب تھا کہ وہ دریا میں گر کر غرق ہوجاتا، لیکن میں نے پھرتی سے کام لیا اور ایک بار پھر موت کےمنہ سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا۔
اب میں پھر بلندی پر اڑ رہا تھا۔ میں نے شہر کا ایک چکر لگایا اور پھر دریا کے کنارے کنارے نیچے آنے لگا۔ اس بار بھی اندازہ غلط نکلا اور ہوائی اڈے کی سڑک پیچھے رہ گئی۔ لاچار طیارے کو پھر اوپر لے جانا پڑا۔ میں نے شہر کے گرد ایک اور چکر لگایا۔اب کی بار میں نے دور ہی سے طیارے کو اتارنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ طیارہ ہوائی میدان کے قریب ہوتا گیا۔
اچانک جھٹکا لگا اور پہیے رن وے سے ٹکرائے، طیارہ زمین پر دوڑنے لگا۔ میں نے انجن بند کردیا۔ طیارہ سڑک سے اتر کر دور تک ریت میں دھنستا چلا گیا اور پھر رک گیا۔ طیارہ زمین پر اتار کر میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، دونوں پائیلٹ کبھی میری طرف دیکھتے اور کبھی طیارے کی طرف۔ آخر طیارے کو صحیح سالم دیکھ کر ان کے چہروں کی رونق لوٹ آئی۔ ایک نے مجھے گھورتے ہوئے کہا ‘‘تمہارے جنون کا صحیح علاج یہ ہے کہ تمہیں فضائیہ میں پائیلٹ بھرتی کروا دیا جائے۔’’
ہانگ نے خوب مرچ مسالہ لگا کر یہ داستان کالج کے دوستوں کو جاسنائی۔ تقریباً ہفتہ بھر ہسپتال اور کالج میں میری جرات مندی اور انتہائی خطرناک کارنامے کے تذکرے ہوتے رہے۔
دو ہفتے بعد مجھے چیانگ کائی شیک Chiang Kai-Shek کی طرف سے بلاوا آگیا۔ پائیلٹوں نے یقیناً اس واقعے کی اطلاع چین کی ہوائی فوج کے اعلیٰ افسروں کو دے دی تھی۔ میں نے رضا مندی ظاہر کردی۔ اس طرح چند سال بعد میں بیک وقت تربیت یافتہ ڈاکٹر اور پائیلٹ بن گیا۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں چنگ کنگ کے ہسپتال میں ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگا۔ میں عموماً شام کا کھانا کھانے کے بعد سیر کو نکل جاتا۔ ایک دن حسب معمول میں کالج سے نکل کر دریاے ینگسی کی ساحلی چٹانوں کی طرف جارہا تھا مجھے کسی کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ کوئی میرے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔ مڑ کر دیکھا لیکن دور تک کوئی آدمی نظر نہ آیا۔ سورج غروب ہوچکا تھا، مگر ابھی کافی روشنی موجود تھی اور کئی فرلانگ تک کی چیزیں نظر آرہی تھیں۔ شاید مجھے وہم ہوا تھا۔ میں نے سوچا اور پھر چل کھڑا ہوا لیکن چاپ پھر سنائی دی۔ میں نے دوبارہ مڑ کر نظر ڈالی۔ تھوڑی دور ایک شخص کمر پر ہاتھ رکھے جھکے جھکے میری طرف آرہا تھا۔
جونہی قریب پہنچا، میں نے پہچان لیا۔ یہ میرا عظیم استاد منگیار تھا۔ میں نے اسے غور سے دیکھا، تو میرے ہوش اڑ گئے۔ اس کی پشت میں چھرا پیوست تھا اور زخم سے خون نکل کر بہہ رہا تھا۔ میں اسے سہارا دینے کے لیے آگے بڑھا۔
‘‘لوب سانگ، مجھ سے دور رہو، میں صرف خدا حافظ کہنے آیا ہوں۔ میں تم سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ رہا ہوں۔’’ میرے اتالیق منگیار نے کہا۔
‘‘میرے پیارے لوب سانگ ، دنیا کی جھوٹی قدروں کو چھوڑ کر سچائی سے آگاہ ہونے کا نام موت ہے۔ انسان مر کر ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ابدی زندگی حاصل کرتا ہے۔ سب سے بڑی قیامت وہ ہے جو انسان خود اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ سچائی اور برائی کی قوتیں جنگ کرتی ہیں۔ سچائی جیت جائے، تو انسان ابدی زندگی پالیتا ہے اور اگر برائی غالب آجائے، تو ابدی زندگی سے محروم ہوجاتا ہے.... میں تم سے بچھڑ رہا ہوں، لیکن اگر اس عارضی فرقت کو دائمی وصل میں تبدیل کرنا چاہتے ہو، تو سچائی کا دامن تھام لو اور اپنی روح کو کٹھن اور پاکیزہ راستے پر چکا کر مجھ سے آ ملو۔ یہی میری آرزو ہے، یہی میرا پیغام ہے، کیا تم اسے پورا کروگے....؟’’
‘‘ضرور، ضرور.... میرے عظیم استاد، میں آپ کی آخری خواہش ضرور پورا کروں گا، خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔’’ میں نے گلوگیر آواز میں کہا۔
میرا جواب سن کر وہ مسکرائے اور پھر زمین پر لیٹ گئے ۔ میں دوڑ کر اس کے قریب پہنچا، لیکن وہاں کچھ بھی نہ تھا، البتہ تازہ خون کے چند قطرے اس زمین پتر ضرور موجود تھے۔
میں سخت حیران پریشان کانپتا ہوا واپس لوٹا۔ ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر سے کہا کہ آج میں رات کی ڈیوٹی نہ دے سکوں گا۔ اس نے میری طبیعت مضمحل دیکھی، تو پوچھا۔ ‘‘کیا بات ہے....؟’’
میں نے تمام داستان کہہ سنائی۔ بڑے ڈاکٹر نے میری باتوں کو واہمہ قرار دیا۔ میں اس کی باتوں کا جواب دیے بغیر خاموشی سے اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا۔ انتہائی تھکن کے باوجود نیند نہ آئی۔ کروٹیں بدلتے بدلتے آدھی رات کے وقت ایک اور واقعہ پیش آیا۔ میرے کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ تقریباً بارہ بجے ایک کونے میں روشنی سی نمودار ہوئی جس میں لہاسا کی بڑی خانقاہ کے لامہ کا چہرہ دکھائی دیا۔ لامہ میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ اپنی روح کو بیرونِ جسم دوردراز مقامات پر لے جاکر یا پھر ٹیلی پیتھی کے ذریعے اپنے شاگردوں سے رابطہ قائم کرلیتے ہیں۔ وہ لامہ میرے قریب آیا اور بولا:‘‘میرے بیٹے، تیرھویں دلائی لامہ تھبتین گیاستو Thubten Gyatso اب اس دنیا میں نہیں رہے ، تم سے جیسے بھی ممکن ہو فوراً لہاسا پہنچو۔’’
جونہی میں بستر سے اٹھا، روشنی جاتی رہی اور ساتھ ہی لامہ کا چہرہ اندھیرے میں غائب ہوگیا۔
میں نے جلدی سے کپڑے تبدیل کیے اور ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر کی طرف روانہ ہوا۔ میں اندھیرے میں ڈوبے ہوئے برآمدے سے گزراتو قریب ہی کوئی چیز اچانک دھڑام سے گری۔ میں نے قریب ہو کر دیکھا، یہ میرا دوست لامہ جرسی Jersi تھا۔ یہ بھی تبت کا رہنے والا تھا اور چنگ کنگ کی درس گاہ میں سائنس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔اس کا پاؤں پھسل گیا تھا اور ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ درد کے مارے اس کا برا حال تھا۔
میں نے اسے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا۔ اس نے بتایا کہ لہاسا کے بڑے لامہ کی روح نے اسے بھی ٹیلی پیتھی کے ذریعے تیرہویں دلائی لامہ تھبتین گیاستو Thubten Gyatso کے مرنے کی خبر دی ہے اور فوراً لہاسا پہنچنے کا حکم دیا ہے۔
میں ہسپتال کے بڑے ڈاکٹر کے پاس پہنچا، تو پتہ چلا کہ ایسا ہی واقعہ اس کے ساتھ بھی پیش آچکا ہے، اس نے مجھے لہاسا جانے کی اجازت دے دی۔
اسی رات دو بجے کے قریب میں ہسپتال کی موٹر میں لہاسا روانہ ہوگیا۔
جب میں لہاسا پہنچا، دلائی لامہ تھبتین گیاستو اور اتالیق منگیار کی آخری رسوم ادا کی جارہی تھیں۔
دلائی لامہ دراصل ایک منگولی عہدہ ہے، تبتی زبان میں اسے گیاستوGyatso کہا جاتا ہے ۔ جس کا مطلب ہوتا ہے علم کا سمندر ....
دلائی لامہ کا خطاب سب سے پہلے منگول بادشاہ التان خان (وفات 1583) نے دیا تھا۔ بعدازاں منگولوں نے پانچویں دلائی لامہ گوانگ لوب سانگ گیاتسو ( 1617تا 1682 ) کو تبت کے روحانی اور سیاسی رہنما کا مقام دیا۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے تیرہویں دلائی لامہ تک آن پہنچا تھا ۔ جن کی آخری رسوم ادا کرنے میں یہاں آیا ہوں۔
تبت میں بدھ مت کے پیروکاروں کی ایک شاخ گیلوگاپا (Gelug) ہے جس کے مطلب ہے پیلے ہیٹ والے۔ بودھ کی اس شاخ میں دلائی لامہ کو رحمت و شفقت کی خصوصیات رکھنے والے بدھا کے طور مانا جاتا ہے۔ گیلوگاپا (پیلے ہیٹ) کا یہ عقیدہ ہے کہ جب کوئی دلائی لامہ فوت ہونے لگتا ہے تو وہ یہ بتا دیتا ہے کہ آئندہ آنے والا دلائی لامہ کن کن نشانیوں کے ساتھ کب اور کہاں، مثلاً کس خاندان یا کس گاؤں میں پیدا ہو گا۔
ان ہدایات کے پیش نظر اہل تبت بیان کر دہ خاندان یا گاؤں کے نوزائدہ بچہ میں مطلوبہ نشانیاں دیکھتے ہیں اور پھر اُسے پوتالہ پیلس میں دلائی لامہ کی مسند اقتدار پر بٹھادیتے ہیں۔ جوان ہونے پر وہ تبت کا سربراہ اور روحانی پیشوا بن جاتا ہے ۔
لہاسا میں قیام کے دوران شاہی طبیب نے مجھ سے چینیوں کے طریق علاج کے متعلق دریافت کیا۔ جب میں نے بتایا کہ اہل چین اکثر بیماریوں کا علاج سوئی اور آگ سے کرتے ہیں، تو وہ بےحد حیران ہوئے اور پوچھا۔
‘‘وہ کیسے....؟’’
‘‘سوئی کے اس خاص طریقے میں، جسے وہ ژین جیو، یعنی ایکو پنکچرAcupuncture کہتے ہیں بال جیسی باریک سوئی جسم کے اندر بیمار مقام پر پہنچا دی جاتی ہے۔ا س طرح بیمار گوشت میں ننھے ننھے سوراخ ہوجاتے ہیں، خون کی آمدورفت شروع ہوجاتی ہے اور آدمی تندرست ہوجاتا ہے۔
آگ کا طریقہ موکسا Moxibustion ، جسے وہ جیو کہتے ہیں، بیرونی امراض میں استعمال کیا جاتا ہے۔ موکسا جسم کے مختلف حصوں پر حدت پہنچانے یا انہیں داغنے کا نام ہے۔ جڑی بوٹیوں میں ایک خاص آتش گیر مادہ ملا کر نلکیاں سی بنا لیتے ہیں، پھر انہیں آگ لگا کر بیمار مقام پر لگایا جاتا ہے۔ اس طرح بیمار گوشت پر دوا کا براہ راست اثر ہوتا ہے اور بیماری جاتی رہتی ہے۔ ان دونوں طریقہ علاج کا نظریہ یہ ہے کہ جسم میں توانائی کی اہم روشوں میں بندش ہو جاتی ہے داغنے یا سوئیاں لگانے سے یہ رکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ ’’
دراصل تبتی طب میں ہر مرض کا علاج صرف اور صرف جڑی بوٹیوں سے ہی علاج کیا جاتا ہے، یا پھر مختلف مذہبی رسوم ادا کرکے ۔
تبتی طب میں نہ مالش پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور نہ ہی جراحی کی جاتی ہے۔ تبتی طب میں بیماریوں کی تین درجہ بندی کی گئی ہیں ۔ پہلی قسم مستحکم بیماریاں، جس میں جینیاتی خرابیاں اور پیدائشی نقص شامل تھے۔ ان کا علاج تبتی طب کے نقطہ نظر سے بہت ہی مشکل ہے۔ آپ اس میں مبتلا شخص کو صرف آرام مہیا کر سکتے ہیں۔
دوسری قسم ہے ماحولیاتی بیماریاں ۔ اس میں جسم میں وہ عدم توازن شامل ہیں جو کہ مختلف حالات مثلاً ماحول، آلودگی، غذا ، جراثیم وغیرہ کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں یہ عام بیماریاں ہیں اور تبتی طب کی زیادہ توجہ انہیں پر ہے۔
تیسری قسم فرضی بیماریوں کی ہےاور اس سے مراد ذہنی عوارض اور بیماریاں ہیں جو کہ تبتیوں کے خیال میں نقصان دہ طاقتوں سے پیدا ہوتی ہیں۔ اس میں مایوسی اور دماغی ہیجان شامل ہیں ۔ ان بیماریوں کا علاج بنیادی طور پر مختلف رسوم کی ادائیگی کے ذریعہ کیا جاتا۔ مثلاً اگر کوئی بہت بیمار یا صدمہ میں ہو تو اُس کا رویہ اس کے مدافعتی نظام پر بہت حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر کسی شخص کا تمام محلہ اس کی خاطر رقص اور رسوم کی ادائیگی کرتے ہوئے ساری رات جاگے، تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر کوئی اس کی مدد کر رہا ہے ۔ یہ عمل اس کا حوصلہ بلند کرتا ہے جس کا اس کے مدافعتی نظام پر مثبت اثر ہوتا ہے اور اس سے مریض جلد تر شفا پاجاتا ہے۔
ماحولیاتی بیماریاں میں جسم کا معائنہ پانچ عناصر یا تین مزاجوں کے توازن کی بنا پر کیا جاتا ہے۔ پانچ عناصر زمین، پانی، آگ، ہوا اور خلا ہیں۔ تبتی طب کا تین مزاجوں کا نظریہ یونانیوں اور ہندیوں جیسا ہی ہے ، مزاج جسم کے تین نظام ہیں بادی ، صفراوی اور بلغمی۔ بیماریوں کا تصور ان تینوں مزاجوں کے غیر متوازن ہونے کے سبب سے کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان میں سے کوئی ایک یا تو بہت ایکٹیو ہے یا بہت کمزور....اور پھر جڑی بوٹیوں سے اس کا علاج کیا جاتا ہے۔
دلائی لامہ کی آخری رسوم سے فارغ ہو کر تین دن تک میں اپنے والدین کے پاس رہا اور پھر بوجھل دل کےساتھ لہاسا سے روانہ ہوگیا۔
چنگ کنگ پہنچا، تو ہانگ نے بتایا کہ جاپان نے جنگ چھیڑ دی ہے اور جاپانیوں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر لوگ دھڑا دھڑ چنگ کنگ پہنچ رہے ہیں، تمام ڈاکٹروں کو فوج میں بھرتی کیا جارہا ہے۔ میں نے بھی اپنی خدمات پیش کردیں۔ مجھے فوراً چینی فوج میں کمیشن دے دیا گیا۔
میری خدمات شنگھائی Shanghai میونسپل ہسپتال کے حوالے کردی گئیں۔ جاپانیوں نے جنگ کے اصولوں کو یکسر نظر انداز کردیا تھا۔ وہ شہری آبادی پر بےتحاشا بمباری کر رہے تھے، ہسپتال زخمیوں سے کھچا کھچ بھر گئے تھے۔ چنانچہ ہمیں شہر کی پرائیویٹ عمارتوں اور اسکولوں میں عارضی ہسپتال قائم کرنے پڑے۔ مردوں کی تدفین کا کوئی انتظام نہ تھا، انہیں رات کے وقت ہسپتال سے باہر لے جاکر جلا دیا جاتا اور گوشت جلنے کی سڑاند سارے شہر میں پھیل جاتی۔ وباؤں کو روکنے اور مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو ٹھکانے لگانے کا اس کے سوا اور کوئی حل نہ تھا۔
کچھ مدت کےبعد ہم نے جرنل چیانگ کائی شیک Chiang Kai-Shek کے ذاتی حکم پر ائیر ایمپولینس سروس و ہوائی ہسپتال قائم کیے۔ اب میں مریضوں کو بھی دیکھتا اور ہوائی جہاز بھی اُڑاتا۔ شنگھائی سے چنگ کنگ تک مریضوں کی منتقلی اور ادویات سپلائی کا کام کرتا۔
ایک دن صبح سویرے مجھے ہیڈ کوارٹر میں طلب کیا گیا۔ میرا پائیلٹ دوست پوکو Po Ku وہاں پہلے سے موجود تھا۔ پتہ چلا کہ چینی فوج کا ایک جرنل چیانگ کائی شیک سے کسی خفیہ مقام پر ملنے جارہا ہےا ور ہوائی جہاز چلانے کی ڈیوٹی ہم دونوں دوستوں کو انجام دینی ہے۔
ہمیں جاپانی کیمپ کے اوپر سے گزر کر جانا تھا اور ہماری حفاظت تین لڑاکا طیاروں کے ذمہ تھی۔ لیکن میں پھر بھی اس پرواز سے مطمئن نہ تھا۔ جونہی جرنیل داخل ہوا، طیارہ روانہ ہوگیا۔ پوکو احتیاطاً طیارے کو دس ہزار فٹ کی بلندی پراڑائے لیے جارہا تھا۔
دائیں بائیں تین لڑاکا طیارے ہمارے ہمراہ تھے۔ جونہی ہم جاپانیوں کے اوپر پہنچے، ان کی طیارہ شکن توپیں آگ اگلنے لگیں، پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمیں بیسیوں طیاروں نے گھیر لیا۔ حفاظتی لڑاکا طیارے پہلےہی حملے میں تباہ ہوگئے اور ہم پر چاروں طرف سے گولیاں برسنے لگیں۔ ایک برسٹ سے طیارے میں ایک بڑا سا شگاف ہوگیا۔ دوسری بوچھاڑ سے جرنیل کے محافظ موت کے گھاٹ اتر گئے۔ میں سیٹ کے نیچے دبک گیا۔ اگلے ہی لمحے طیارہ شکن توپ کا ایک گولا لگا اور طیارے کا اگلا حصہ ٹوٹ گیا۔ جرنیل کا سر پھٹ چکا تھا اور اُس جا بھیجا کھوپڑی سے باہر نکل آیا تھا۔ ادھر پائیلٹ بھی مر چکا تھا۔ بڑا ہی نازک وقت تھا۔ میں نے پوکو کی لاش کو ایک طرف دھکیلا اور طیارے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اچانک زبردست دھماکا ہوا اور طیارہ زمین سے ٹکرا گیا۔ یوں محسوس ہوا جیسے ساری دنیا پاش پاش ہوگئی ہے۔
ہوش آیا، تو گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی۔ فضا میں جاپانی طیارے چکر لگا رہے تھے۔ انہوں نے کئی بار تباہ شدہ طیارے پر فائر کیے اور بم پھینکے، لیکن خوش قسمتی سے میرا جسم طیارے کے نیچے محفوظ پڑا رہا۔
میں نے ہلنے کی کوشش کی، تو ٹانگوں سے ٹیسیں اٹھنے لگیں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میرے دونوں گھٹنے اتر چکے تھے اور جسم زخموں سے چور چور تھا۔ زخموں کی پروا ہ نہ کرتے ہوئے میں نے رینگنا شروع کیا اور جھاڑیوں میں چھپتا چھپاتا طیارے کے تباہ شدہ ڈھانچے سے دور گندے نالے کے کنارے پہنچ گیا۔ درد اور نقاہت کے باعث مجھ پر غشی طاری ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جاپانی سپاہی وہاں آپہنچےا ور اپنے بھاری بھرکم بوٹوں سے میری ایسی خاطر مدارت کی کہ میرے ہوش ٹھکانے آگئے۔
میں نے آنکھیں کھولیں، تو دیکھا ایک جاپانی سپاہی ٹامی گن لیے کھڑا ہے۔ وہ مجھ پر فائر کرنے ہی کو تھا کہ ا س کا ایک ساتھی بولا۔
‘‘یار، اسے کیمپ میں لے چلتے ہیں، شاید کوئی کام کی بات بتا دے۔’’
سپاہی کو یہ تجویز پسند آگئی۔ چنانچہ وہ دونوں ڈنڈا ڈولی کر کے مجھے ایک بہت بڑی عمارت میں لےآئے اور ایک تنگ سی کوٹھڑی میں بند کرکے چلتے بنے۔
مجھے اچھی طرح ہوش آیا، تو میں نے اپنے گھٹنوں کے جوڑ درست کیےا ور اپنا جبہ پھاڑ کر انہیں باندھ دیا۔ تقریباً ہفتہ بھر میں اس کوٹھڑی میں پڑا رہا۔ اس دوران کھانے کو روزانہ سوکھی روٹی کے چند ٹکڑے اور پانی کا ایک پیالہ ملتا رہا۔ آخر ایک رات کوٹھڑی کا دروازہ کھلا۔ محافظ نے مجھے سہارا دے کر نکالا اور ایک افسر کے سامنے پیش کردیا۔ اس نے پوچھا۔
‘‘تم کون ہو....؟’’
‘‘میں چینی فوج میں ڈاکٹر ہوں۔’’ میں نے مختصر سا جواب دیا۔ اس کے بعد اس نے کئی ایک سوال کیے، مگر میں چپ رہا۔ مجھے خاموش دیکھ کر افسر چراغ پا ہوگیا۔
‘‘ہم سب کچھ تم سے اگلوا لیں گے.... بدمعاش’’۔ وہ غرایا اور پھر سپاہی مجھ پر پل پڑے۔ مجھے سنگینوں کے خول اور بندوق کے کندوں سے بری طرح پیٹا، جلتے ہوئے سگریٹ میرے جسم پر بجھائے، میری انگلیوں کے درمیان جلتی ہوئی دیا سلائی رکھی، لیکن میں چپ چاپ عذاب سہتا رہا۔ افسر کا پارہ اور چڑھ گیا۔ ایک زور دار لات میرے منہ پر ماری، میرا ہونٹ پھٹ گیا اور میں اوندھے منہ فرش پر گر پڑا۔ افسر نے حقارت سے میرے منہ پر تھوکا اور چلایا۔
‘‘اسے لے جاؤ.... تھوڑی دیر بعد پھر تمہاری خبر لیتا ہوں، دیکھتا ہوں تم کب تک چپ رہتے ہو....’’
مجھے ایک بار پھر غلیظ کوٹھڑی میں بند کردیا گیا۔ تین دن تک کسی نے ادھر کا رخ نہ کیا، نہ کھانے ہی کو کچھ دیا گیا۔ چوتھے روز ایک اور افسر آیا، کہنے لگا۔
‘‘ہمیں معلوم ہوچکا ہے کہ تم تبت کےمعزز لامہ ہو۔ اگر چینی فوجوں کے متعلق معلومات دے دو، تو ہم تمہارے ساتھ بےحد اچھا سلوک کریں گے۔’’ اتنا کہہ کر افسر چلا گیا۔
اب جاپانیوں کا رویہ بالکل بدل گیا۔ تقریباً ہفتہ بھر میرے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتے رہے۔ دن میں دو بار کھانا دیتے اور بہت کم پوچھ گچھ کرتے۔
ایک روز صبح سویرے مجھے ہتھکڑی لگا کر باہر نکالا گیا۔ چند جاپانی افسر میرا استقبال کرنے کے لیے دروازے پر کھڑے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے تعظیم سے سر جھکا لیے.... پہلے تو خیال آیا شاید میرے مرتبے سے متاثر ہوچکے ہیں، مگر جلد ہی ثابت ہوگیا کہ یہ سب کچھ مجھ سے راز اگلوانے کے لیے کیا جارہا تھا۔ پہلے تو وہ لوگ بڑی عزت و احترام سے باتیں کرتے رہے، لیکن جب میں نے ان کے الٹے سیدھے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کردیا، تو گالیوں پر اتر آئے اور اندھا دھند لاتیں برسانا شروع کردیں۔ وہ مجھے مسلسل پیٹتے رہے حتیٰ کہ میرے ناک اور منہ سے خون بہنے لگا۔ آکر تنگ آکر جاپانی کرنل نے حکم دیا ‘‘اسے کوٹھڑی میں بند کردو۔’’
سپاہی مجھے کوٹھڑی میں لے گئے، میرے بازو، گردن کے گرد لے جاکر پیچھے مڑی ہوئی ٹانگوں سے اس طرح کس کر باندھ دیے کہ میرے پاؤں سر سے جالگے، پھر بندوق کے کندوں سے مجھے خوب اچھی طرح پیٹا اور چلے گئے۔
میں کئی دن تک یونہی پڑا رہا۔ کبھی کبھار کوئی سنتری آتا اور میرے منہ میں پانی کے چند قطرے اور روٹی کا سوکھا ٹکڑا ڈال کر اور چند ٹھوکریں رسید کرکے چلا جاتا۔ ان کے سوالوں کا جواب میرے پاس صرف ایک تھا ‘‘میں چینی فوج کا ڈاکٹر ہوں۔’’
ایک بار ان کے شدید تشدد کے باعث میں کئی دن بےہوش رہا۔ ہوش میں آیا، تو انہوں نے میری ٹانگیں کھول دیں۔ میرے پٹھے اکڑ چکے تھے اور بازو اور ٹانگیں شل ہوچکی تھیں۔ کافی کوشش کے باوجود میں انہیں سیدھا نہ کرسکا۔ چند سپاہیوں نے کھینچ کر میری ٹانگیں اور بازو سیدھے کیے۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن دھڑام سے نیچے گر گیا۔ ٹانگوں نے میرا وزن اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔ آخر وہ مجھے گھسیٹتے ہوئے کوٹھڑی سے باہر لائے۔ یہاں ایک بار پھر جاپانی افسروں سے واسطہ پڑا۔
‘‘تمہیں سب کچھ سچ سچ بتا دینا چاہیے۔’’ جاپانی کرنل نے کہا۔
‘‘جو کچھ مجھے معلوم تھا، بتا چکا ہوں۔ ’’ میں نے مختصر جواب دیا۔ کرنل کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اس نے جاپانی زبان میں کچھ کہا۔ چند سپاہی مجھ پر پل پڑے۔ جان لیوا اذیت برداشت کرنے کے لیے میں نے خیالات کا رخ بیتے ہوئے دنوں کی طرف موڑ دیا اور اپنے عظیم اتالیق منگیار کی باتوں میں کھو گیا۔ تھوڑی دیر میں مجھے آس پاس کی کچھ خبر نہ رہی۔
ہوش آیا، تو میں کوٹھڑی میں پڑا تھا۔ میرے ناک، منہ اور ہاتھ پاؤں کی انگلیوں سے خون رس رہا تھا۔ زخموں سے اُٹھنے والی ٹیسوں نے دماغ کو جلتے ہوئے چولہے میں تبدیل کر دیا تھا۔ میرا سارا جسم پھوڑے کی طرح دکھ رہا تھا۔ جونہی ہوش آیا، مجھے دوبارہ کوٹھڑی سے باہر نکالا گیا۔ میرے ناک پر ایک ہتھوڑے سے ضربیں لگائیں گئیں۔ یہاں تک کہ ناک کی ہڈی چور چور ہوگئی اور ناک کا نام و نشان مٹ گیا۔ جبڑے کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی اور میرے خدوخال بگڑ گئے۔
آخر جاپانی مجھے اذیتیں دیتے دیتے تنگ آگئے۔ ایک ہفتے تک کوٹھڑی میں نیم مردہ حالت میں پڑا رہا۔ ساتویں دن چند سپاہی آئے اور مجھے باہر لے گئے۔ اعصاب کو شکست دینے کے لیے انہوں نے مکروہ ترین کام میرے ذمہ لگا دیے۔
میں تمام قیدیوں کی گندگی صاف کرتا اور سخت گرمی میں مردہ قیدیوں کے گلے سڑے جسموں کو اکیلا دفن کرتا۔
ایک دن میرے سامنے ایک قیدی بھوک، پیاس اور گرمی کی شدت سے مرگیا۔ سپاہیوں نے اسے اٹھا کر لاشوں کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اگلے دن دوپہر کے وقت میں اچانک لڑکھڑایا اور گر پڑا۔ میرے منہ سے جھاگ بہنے لگی اور تھوڑی دیر میں میری پتلیاں مردوں کی طرح باہر ابل پڑیں۔ میں نے سانس روک لی۔ قریب کھڑے ہوئے سپاہی نے لاپرواہی سے میری طرف دیکھا اور چلا گیا۔
مجھے تین گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔ اف! تین گھنٹے، جیسے تین سو سال بغیر آنکھیں جھپکائے اور جسم اکڑائے پڑا رہا۔ آخر وہ سپاہی اپنے ایک ساتھی کو لے کر آیا۔ مجھے خوب اچھی طرح دیکھا بھالا اور جب یقین ہوگیا کہ میرے جسم میں زندگی کی کوئی رمق نہیں، تو اٹھا کر لاشوں کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ میں سارا دن گلی سڑی لاشوں میں پڑا رہا۔
غضب کی گرمی پڑ رہی تھی اور بدبو سے دماغ پھٹا جارہا تھا۔ شام ہوئی اور کیمپ کے محافظوں کی آمدورفت کم ہوگئی، تو میں نے اپنے اعصاب ڈھیلے چھوڑ دیے اور آرام سے سانس لینے لگا۔ سخت بدبو کے باوجود مجھے سکون محصوس ہوا۔ اندھیرا گہرا ہوا، تو میں لاشوں میں سے نکلا اور چھپتا چھپاتا خاردار تاروں کو عبور کرکے کیمپ سے دور، بہت دور نکل آیا۔ قریب ہی ایک چینی کا مکان تھا۔ وہ کئی دن تک ہسپتال میں میرے زیر علاج رہا تھا۔ میں نے اس کے دروازے پر ہولے سے دستک دی۔ مجھے دیکھ کر اس کے اوسان گم ہوگئے۔ مجھے فوراً اندر لے گیا۔ میرا مسخ شدہ چہرہ دیکھ کر اسے بےحد رنج ہوا۔ اس نے پانی گرم کیا، میرے زخم دھوئے اور مرہم پٹی کی۔ میں کئی دن تک اس مکان میں چھپا رہا۔ چلنے پھرنے کے قابل ہوا، تو اس نے مجھے کسی نہ کسی طرح چینی فوج کے ہیڈکوارٹر میں پہنچادیا۔ ان لوگوں نے مجھے فوراً ناک کے آپریشن اور علاج معالجے کے لیے چنگ کنگ کے ہسپتال میں منتقل کردیا۔
میں چنگ کنگ ہسپتال سے فارغ ہوا، تو جنرل یو نے مجھے محاذ کے عارضی ہسپتال کا انچارج بنا کر بھیج دیا۔ یہ ہسپتال شنگھائی سے چند میل کے فاصلے پر ایک کھلی جگہ واقع تھا۔ ہمارے پاس دوائیں اور آلات برائے نام تھے۔ بس مرہم پٹی ہی کی جاتی تھی۔
ایک روز بمباری نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لیا اور جاپانی فوجیں ہمیں روندتی ہوئی گزر گئیں ہسپتال میں موجود تمام زخمیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور عملے کو گرفتار کرلیا۔ مجھے شنگھائی کے جنگی کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ یہاں ایک بار پھر پوچھ گچھ کا اذیت ناک سلسلہ شروع ہوا۔
آخرکار مجھے قیدیوں کا علاج معالجہ کرنے کا کام سونپ دیا گیا۔ چار مہینے بعد میں ایک اور کیمپ میں یہی کام کر رہا تھا۔ ایک روز میجر کیمپ کا معائنہ کرنے آیا۔ مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ ایک سپاہی سے کچھ کہا۔ تھوڑی دیر میں سپاہی لوٹ کر آیا، تو اس کے ہاتھ میں ایک فائل تھی۔ میجر نے فائل کھولی۔ اس میں چسپاں تصویر سے میری شکل ملائی اور چیخا۔
‘‘تم نے کیمپ سے فرار ہو کر ہمارے شہنشاہ معظم کی توہین کی ہے۔ تمہیں سنگین ترین سزا دی جائے گی۔’’
اب میرے بازوپشت پر لے جاکر ٹانگوں سے باندھ دیے گئے اور سپاہی مجھے گھسیٹتے ہوئے ایک کوٹھڑی میں لے گئے۔ دس دن کے بعد میرے ہاتھ پیر کھول دیے گئے اور کوٹھڑی سے نکال کر قیدیوں کے علاج معالجے پر لگا دیا گیا۔
ایک رات موقع پا کر میں پھر بھاگ نکلا۔ قریب ہی امریکی ریڈ کراس کے افسروں کے کوارٹر تھے۔ پہلے تو انہوں نے مجھے چھپا لیا، لیکن جب میری تلاش شروع ہوئی، تو جاپانی سپاہیوں کے حوالے کردیا۔ امریکیوں کی اس منافقت پر مجھے بہت افسوس ہوا۔
اگلی صبح مجھے کیمپ کے کمانڈنٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے سزا کے طور پر میری ٹانگیں توڑ دینے کا حکم دیا۔ فوراً حکم کی تعمیل ہوئی۔ درد کی شدت سے میں بے ہوش ہوگیا۔
ہوش میں آیا، تو میں اندھیری کوٹھڑی میں پڑا ہوا تھا۔ میری ٹانگیں سوج کر کپا بن چکی تھیں۔ آخر کوٹھری میں پڑے ہوئے بانس توڑ کر میں نے چھوٹی چھوٹی تختیاں تیار کیں اور انہیں ٹانگوں کے گرد رکھ کر باندھ دیا۔ میں وہاں کئی دن نیم مردہ حالت میں پڑا رہا۔ آخر تین ماہ بعد میری ٹانگیں ٹھیک ہوگئیں اور مجھے خطرناک قیدی قرار دے کر کیمپ میں منتقل کردیا گیا اور بیڑیاں بھی پہنا دی گئیں۔
دن گزرتے رہے ، میرے زخم مندمل ہونے لگے۔ آخر کار میں تندرست ہوگیا۔ ایک دن ایک جاپانی افسر آیا اور ایک فہرست پڑھ کر سنائی۔ اس میں میرا نام بھی شامل تھا۔ الزام یہ تھا کہ ہم خطرناک قیدی ہیں اور ہم نے شہنشا معظم کی توہین کی ہے۔
ہمیں ایک دخانی جہاز میں بٹھا کر جاپان بھیج دیا گیا۔ مجھے دوسرے قیدیوں سے الگ ایک جیل میں لے جایا گیا جہاں جاپانی افسروں نے پوچھ گچھ کی۔ میں نے اپنا وہی ایک جواب دہرا دیا۔ ‘‘میں چینی فوج میں ڈاکٹر ہوں۔’’
جاپانی افسر آپے سے باہر آگئے۔ مجھ پر پھر وہی پہلے جیسے ظلم و ستم توڑے جانے لگے۔ جب اس پر بھی جی نہ بھرا، تو انہوں نے مجھے الٹا لٹکا دیا اور میرے نیچے گھاس پھونس جمع کرکے آگ لگا دی۔ آگ کے شعلے لحظہ بہ لحظہ بلند ہوتے چلے گئے۔ میرے سر کی کھال جھلس گئی اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا دماغ پگھل رہا ہے، پھر مجھے دنیا و مافیہا کی کچھ خبر نہ رہی۔
ہوش آیا تو میں ایک کال کوٹھڑی میں پڑا تھا۔ سر سے لے کر کندھوں تک تمام کھال جل چکی تھی اور چہرہ جھلس چکا تھا۔ جاپانی افسر میری قوت برداشت پر حیران تھے۔ وہ چند دن تک مختلف طریقوں سے راز اگلوانے پر مجبور کرتے رہے۔ آخر کار تنگ آکر مجھے موت کے گھاٹ اتارنے کا فیصلہ کرلیا۔
مجھے اپنی قبر خود کھودنے کا حکم ملا۔ میں دن بھر بیلچہ ہاتھ میں لیے گڑھا کھودتا رہا۔ اگلے روز مجھے اس گڑھے کے کنارے ایک کھمبے کے سہارے کھڑا کردیا گیا۔ کچھ فاصلے پر چھ سپاہی رائفلیں تانے کھڑے تھے۔ اچانک آواز آئی۔
‘‘فائر’’
پھر رائفلیں حرکت میں آئیں اور ان سے نکلنے والی گولیاں میرے جسم میں دھنس گئیں اور میں چھ فٹ گہرے گڑھے میں گر گیا۔
پتہ نہیں کتنی دیر گزر گئی تھی مگر جب ہوش آیا، تو ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا اور چیخ پکار جاری تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے دنیا بھر کے درندے ایک جگہ جمع ہو کر چیخ رہے ہوں۔ گولیاں لگنے سے جسم میں نصف درجن سوراخ ہوچکے تھے اور مٹی میرے خون سے گیلی ہوچکی تھی.... دفعتاً میرے ذہن میں عظیم اتالیق منگیار کی تصویر ابھر آئی میرے کانوں میں ان کے الفاظ گونجنے لگے۔
‘‘موت ابدی زندگی تک لے جانے والے راستے کا نام ہے اور سچائی پر قائم رہ کر ہی ابدی زندگی کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے۔’’
میں اٹھ کھڑا ہوا۔ گڑھے میں گرے ہوئے ایک کھمبے کا سہارا لے کر باہر نکلا۔ چاروں طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ باہر نکل کر میں نے ایک عجیب منظر دیکھا ، میں نے دیکھا کہ کیمپ میں ہر طرف جاپانی سپاہیوں اور افسروں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ میں رینگتا ہوا ساحل کی طرف بڑھا۔ راستے میں کراہتے ہوئے ایک قیدی نے مجھے بتایا۔
‘‘ایٹم بم نے ناگا ساکی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اور جاپان ہتھیار ڈال چکا ہے۔’’
میں اسے چھوڑ کر ساحل کی طرف بڑھا۔ خاصی دیر کے بعد بندرگارہ پر پہنچا۔
بندرگاہ سونی پڑی تھی۔ دور دور تک کوئی متنفس نظر نہ آتا تھا۔ فضا میں چاروں طرف چیلیں اور گدھ منڈلا رہے تھے۔
میں نے اپنے آپ کو ایک کشتی میں گرا دیا اور ساحل سے بندھا ہوا رسا دانتوں سے کاٹنے لگا۔ آخر دو گھنٹے کی لگاتار کوشش کے بعد رسا کاٹنے میں کامیاب ہوگیا۔ کشتی آہستہ آہستہ سمندر کی لہروں سے کھیلنے لگی۔ میں زخموں سے چور ہوچکا تھا۔ مسلسل خون بہنے کی وجہ سے نقاہت بڑھتی چلی گئی اور پھر مجھے کچھ سدھ بدھ نہ رہی۔
ہوش آیا، تو میں ایک امریکی جہاز کے ہسپتال میں پڑا ہوا تھا۔ آپریشن کے ذریعے میرے جسم سے چھ کی چھ گولیاں نکال لی جا چکی تھیں۔ ڈاکٹر مجھ پر جھکا ہوا تھا۔ مجھے ہوش میں دیکھ کر مسکرایا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔
‘‘خطرے سے باہر ہے۔’’
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں