The Eyes Have It by Ruskin Bond


ہندوستان کے معروف ادیب رسکن بونڈ کی انگریزی کہانی 

ہمسفر

یہ کہانی  رسکن بونڈ کی ایک مختصر انگریزی کہانی   The Eyes Have It (آنکھیں یہ ہیں)کا  ترجمہ ہے،  جو  کہانیوں کے مجموعہA Night Train at Deoli   اور Contemporary Indian English Stories میں شایع ہوئی تھی۔  یہ کہانی The Girl on the Train اور  The Eyes Are Not Here کے نام سے بھی مشہور ہے۔ !!



ٹرین کے اس کمپارٹمنٹ میں میرے سوا کوئی مسافر نہیں تھا۔ پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے میں نے اتنے بڑے کمپارٹمنٹ میں اکیلے ہی سفر کیا تھا۔ مجھے امید تھی کہ چند منٹ بعد جب یہ ٹرین ایک اور چھوٹے سے اسٹیشن پر ٹھہرے گی تو وہاں سے کچھ مسافر اس کمپارٹمنٹ میں ضرور سوار ہوں گے اور یہ، جان لیوا سکوت ٹوٹ جائے گا۔
اس روٹ پر چلنے والی گاڑیاں زیادہ تر خالی ہی آتی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ شالو نامی یہ اسٹیشن  بہت چھوٹا سا ہے۔ اس کے آس پاس مختصر آبادیوں والے چھوٹے دیہات آباد ہیں۔
شالو اسٹیشن کے ارد گرد کے دیہات غریب اور محنت کش آبادیوں پر مشتمل ہیں۔ ڈھور مویشی پالنا اور کھیت مزدوری کرنا ہی ان کا کام ہے۔ یہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک پیدل یا سائیکل سے آتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ٹرین میں سفر کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔
مجھے شالو سے چلے ہوئے تقریباً ڈیڑھ گھنٹا ہوگیا تھا اور اب ٹرین روہنا Rohanaاسٹیشن کی حدود میں داخل ہو رہی تھی۔ اس اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر بھی مسافروں کا رش نہیں تھا۔ لیکن میری امیدیں خاک میں ملنے سے بچانے کے لیے، ایک مسافر میرے کمپارٹمنٹ میں سوار ہو  ہی گیا۔ یہ ایک نو عمر لڑکی تھی۔ اس لڑکی کو رخصت کرنے اس کے والدین اسٹیشن تک آئے تھے، ایک ادھیڑ عمر عورت اور ایک ادھیڑ عمر مرد۔
وہ عورت بار بار لڑکی کو تاکید کرتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ ‘‘دیکھو بیٹی، اپنا بہت خیال رکھنا، اپنا بیگ اپنے پاس ہی رکھنا اور ہاں کسی کی دی ہوئی کوئی چیز مت کھانا، صرف دو ڈھائی گھنٹے کا سفر ہے اور....’’
‘‘بس بس ماں، مجھے معلوم ہے۔’’ لڑکی نے مترنم آواز میں اپنی ماں کی بات کاٹی اور بولی۔ ‘‘میں پہلے بھی تو ایک مرتبہ آچکی ہوں۔’’
‘‘وہ تو ٹھیک ہے بیٹی، مگر میں تیری ماں ہوں۔ مجھے فکر تو ہوگی۔’’ ادھیڑ عمر عورت نے کہا۔ 
‘‘اچھا دیکھ، تیرے چاچا چاچی تجھے لینے کے لیے آئیں گے۔ تیرے بابا نے تیرے ڈبے کا نمبر انہیں بتا دیا ہے۔’’
‘‘ٹھیک ہے ماں، اب تم لوگ جاؤ۔’’ لڑکی نے کہا۔ ‘‘ٹرین چلنے والی ہے۔’’
مجھے نہیں معلوم کہ وہ لڑکی گوری تھی یا کالی، اس کے بال سنہرے تھے یا سیاہ.... چھوٹے تھے یا لمبے۔ اس نے کون سے کپڑے پہنے تھے اور ان کپڑوں کا رنگ کیسا تھا....؟ میں کچھ بھی تو دیکھ نہیں سکتا تھا۔
تین سال پہلے کی بات ہے کہ میں اور میرا چھوٹا بھائی سڑک کے ایک خوفناک حادثے کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ اس حادثے میں میرے چھوٹے بھائی کے ایک پاؤں اور کندھے میں فریکچر ہوگیا جس کی وجہ سے اسے تقریباً چار ماہ تک بستر پر ہی پڑا رہنا پڑا تھا۔ جبکہ میرے سر کے پچھلے حصے پر لگنے والی زبردست چوٹ نے میری بینائی چھین لی تھی اس لیے میں نہیں بتا سکتا کہ وہ لڑکی دیکھنے میں کیسی تھی....؟
لیکن میں نے یہ اندازہ تو لگا ہی لیا تھا کہ لڑکی نے اونچی ایڑی کے سینڈل پہن رکھے ہیں  کیونکہ جب وہ کمپارٹمنٹ میں داخل ہونے کے بعد کسی سیٹ پر بیٹھنے کے لیے آگے بڑھی تو اس کے سینڈل کی کھٹ کھٹ سے ہی میں سمجھ گیا کہ ایسی آواز اونچی ایڑی والے سینڈل کی ہی ہوسکتی ہے۔
میں  اس کا چہرہ تو نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن اس کی کھنکتی ہوئی سریلی آواز سن کر یہ اندازہ قائم کرلیا تھا کہ اپنی آواز کی طرح لڑکی بھی بہت خوبصورت ہوگی۔
چند منٹوں تک رینگتے رہنے کے بعد جب ٹرین کی رفتار میں تیزی آگئی تو میں نے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے ہی کہا۔ ‘‘کیا آپ میسوری Mussoorie جارہی ہیں یا دہرہ دون Dehradunتک کا ہی  سفر ہے....؟’’
میں شاید کمپارٹمنٹ کے کسی اندھیرے گوشے میں بیٹھا تھا کیونکہ میں نے محسوس کیا کہ میری آواز سن کر وہ بری طرح چونک پڑی تھی۔ وہ کمپارٹمنٹ میں آنے کے بعد سے اب تک مجھے  دیکھ نہیں پائی تھی۔ وہ بولی تو حیرت اس کی آواز سے مترشح تھی۔ ‘‘ارے.... مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہاں کوئی اور بھی ہے! میں تو سمجھی تھی کہ میں اکیلی ہی.ہوں۔’’
‘‘ہاں، اکثر ایسا ہوجاتا ہے۔’’ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔‘‘مثال کے طور پر جب آنکھوں کے آگے اندھیرا  چھا جاتا ہے تو آدمی سامنے کی چیز بھی دیکھ نہیں پاتا۔’’
‘‘نہیں، یہ بات نہیں ہے۔’’ اس کی آواز کی جھنکار میری سماعت  سے ٹکرائی۔ ‘‘اصل میں جس جگہ آپ بیٹھے ہیں، اس طرف میں نے نظر ہی نہیں ڈالی تھی.... سوری۔’’
‘‘نہیں.... نہیں.... اس میں سوری کرنے کی کیا بات ہے....؟’’ 
میں جلدی سے بولا۔‘‘پہلے پہل تو میں نے بھی آپ کو نہیں دیکھا تھا لیکن میں نے آپ کو اندر داخل ہوتے ہوئے سنا ضرور تھا۔’’ 
یہ بات میں بے دھیانی میں کہہ گیا تھا لیکن بات  منہ سے نکل چکی تھی۔ اس لیے مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ میری اس بات سے وہ سمجھ گئی ہوگی کہ میں ایک نابینا شخص ہوں۔  یہی میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ لڑکی مجھے نابینا سمجھ کر تمام راستے مجھ سے ہمدردی کرتی رہے ۔ ر اسی لیے میں سوچ رہا تھا کہ جلد بازی میں جو سچی بات میرے منہ سے نکل چکی ہے اسے ہنسی مذاق اڑایا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر میں اسی ایک جگہ پر دبکا بیٹھا رہا تو اسے ضرور یہ یقین ہوجائے گا کہ میں کوئی معذور آدمی ہوں۔ اس بات کا خیال آتے ہی میں نے تیزی سے اپنی سیٹ پر پہلو بدلا اور اٹھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ لڑکی نے کہا۔ ‘‘میں سہارن پور Saharanpurاتر جاؤں گی.... اسٹیشن پر میرے چاچا چاچی مجھے لینے آئیں گے۔ ویسے آپ کہاں جائیں گے....؟’’
میں پھر اپنی سیٹ پر چپک گیا اور بولا۔ ‘‘پہلے دہرہ دون۔ وہاں ایک دو روز ٹھہر کر میسوری چلا جاؤں گا۔’’
‘’اوہ.... آپ تو واقعی بڑے خوش نصیب ہیں۔’’ وہ پُرمسرت لہجے میں بولی۔ ‘‘میری بڑی خواہش ہے میسوری جانے کی۔ مجھے  پہاڑی علاقے بہت پسند ہیں۔ اونچی اونچی پہاڑیوں کے درمیان گھومنا مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ سنا ہے کہ اکتوبر کے مہینے میں میسوری کے پہاڑوں پر بہار آجاتی ہے۔’’
‘‘ہاں، یہ بہت اچھا موسم ہوتا ہے۔’’ میں نے کہا اور اچانک ہی میری بےنور آنکھوں کے پیچھے میسوری کے وہ خوب صورت مناظر ناچنے لگے جو میں نے ماضی کے اچھے دنوں میں دیکھے تھے۔ 
ہری بھری وادیاں، رنگ بہ رنگے پھولوں کی بہار.... اونچے اونچے پہاڑ اور ان کی سنگلاخ کوکھ سے نکلتے گنگناتے جھرنے۔ 
یہ سارے دلکش مناظر میری  یادوں میں تازہ ہوتے رہے پھر میں نے دھیمی آواز میں کہا۔ ‘‘اس موسم میں وہاں کا ایک ایک منظر آنکھوں کے راستے دل میں اتر جاتا ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیاں بھی رنگ بہ رنگے  جنگلی پھولوں سے ڈھک جاتی ہیں، صبح کی ہلکی ہلکی نرم دھوپ بہت بھلی لگتی ہے اور رات کے وقت سلگتی ہوئی انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر گرم گرم کھانے کھانے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ اس وقت تک، وہاں آئے ہوئے زیادہ تر سیاح واپس چلے جاتے ہیں۔ ان کے جانے کے بعد وہاں کے ہوٹل اور سڑکیں خالی خالی سی ہوجاتی ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں کا ماحول اور بھی زیادہ حسین اور پرسکون ہوجاتا ہے۔’’ 
میں اتنی ساری باتیں کہہ گیا تھا لیکن وہ بالکل خاموشی تھی۔ اس نے نہ تو درمیان میں کچھ کہا اور نہ ہی کچھ پوچھا۔ اس پر مجھے حیرت ہو رہی تھی اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا تھا کہ یا تو میری باتوں نے اس کے جذبات کو کچھ زیادہ ہی متاثر کیا ہے، یا پھر شاید وہ مجھے کوئی پریم دیوانہ، سمجھ بیٹھی ہوگی۔ جب وہ ذرا دیر بعد بھی کچھ نہیں بولی تو ٹھیک اسی وقت میں ایک مرتبہ پھر غلطی کر بیٹھا یعنی اس سے پوچھ لیا۔ 
‘‘آپ چپ کیوں ہوگئیں....؟ لگتا ہے، باہر کے مناظر نے آپ کی توجہ ہٹا دی ہے۔ ذرا بتائیے، کیا منظر ہے باہر کا....؟’’ 
یہ میں نے پوچھ تو لیا مگر پھر فوراً ہی مجھے اپنی حماقت پر غصہ آیا اور مجھے لگنے لگا کہ اس مرتبہ میرا راز فاش ہو کر ہی رہے گا اور یہ لڑکی جان جائے گی کہ میں نابینا ہوں۔
لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ قسمت  نے ایک مرتبہ پھر میرا راز فاش ہونے سے بچا لیا۔ لڑکی کو نہ تو میرے اس سوال پر کوئی حیرت ہوئی اور نہ ہی اس نے اس کا کوئی نوٹس لیا۔ میں نے سکون کا سانس لیا۔
چند لمحوں کے سکوت کے بعد لڑکی نے اپنی خاموشی توڑتے ہوئے کہا۔ ‘‘کتنی اچھی ہوا چل رہی ہے۔ آپ کھڑکی کے قریب کیوں نہیں بیٹھتے....؟’’
‘‘بات دراصل یہ ہے کہ ہوا کے ساتھ دھول مٹی بھی بہت آتی ہے۔’’ میں نے اپنا عیب چھپائے رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا اور اس کے ساتھ ہی دھیرے دھیرے سرکتا ہوا کھڑکی کے پاس آگیا اور ایک ہاتھ سے ٹٹول کر دیکھ لیا کہ کھڑکی کھلی ہوئی ہے یا نہیں....؟ کھڑکی کا شیشہ اوپر اٹھا ہوا تھا، میں نے جلدی سے اپنا چہرہ کھڑکی کے فریم کی جانب کرلیا۔ اب کوئی بھی دیکھنے والا مجھے دیکھ کر یہی سمجھے گا کہ میں باہر کے نظاروں سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ میرے لیے جس طرح کمپارٹمنٹ کے اندر اندھیرا تھا ویسا ہی اندھیرا باہر بھی تھا۔

میں اپنے تصور کی آنکھ سے باہر کی ہر چیز کو پیچھے کی طرف بھاگتے دیکھ رہا تھا۔ ذرا دیر تک تو میں باہر دیکھتے رہنے کا ڈھونگ کرتا رہا پھر اپنی گردن اندر کی جانب موڑ کر بولا۔ 
‘‘آپ نے دیکھا کہ بجلی کے کھمبے اور درخت وغیرہ کتنی تیزی سے پیچھے بھاگ رہے.ہیں....؟’’
‘‘ہاں، لیکن ہم اپنی جگہ پر اسی طرح موجود ہیں۔’’ لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا۔ ‘‘ٹرین کے سفر میں ہمیشہ ہی ایسا ہوتا ہے.... ہے نا....؟’’
‘‘ہاں۔’’ میں نے کہا پھر کھڑکی کے سامنے سے چہرہ ہٹا کر لڑکی کی طرف کرلیا اور تھوڑی دیر اسی طرح بیٹھا رہا تاکہ لڑکی سمجھے، میں اس کی طرف دیکھ رہا ہوں۔
‘‘آپ کے چہرے کے خدوخال بہت دلکش ہیں، آپ سچ مچ بہت ہی خوبصورت ہیں۔’’ میں نے اچانک ہی کہہ دیا کیونکہ اب میں کافی نڈر ہوگیا تھا۔ مجھے دل ہی دل میں خوشی ہو رہی تھی کہ میں ابھی تک اپنی اداکاری میں کامیاب رہا ہوں اور لڑکی کو ابھی تک یہ معلوم ہی نہیں ہوا ہے کہ میں نابینا ہوں۔
اس کے حسن کی تعریف میں جو الفاظ میرے منہ سے نکل گئے تھے انہوں نے لڑکی پر ایک گہرا اور خوش گوار اثر ڈالا تھا۔ بہت کم لڑکیاں ایسی ہوتی ہیں جو خوشامد کو اور اپنے حسن کی تعریف کو پسند نہیں کرتیں.... اور ان سے بھی کم ایسی لڑکیاں ہوں گی جو خود کو حسین نہ سمجھتی ہوں! ورنہ زیادہ تر تو یہ چاہتی ہیں کہ کوئی ان کی طرف دیکھے تو پھر دیکھتا ہی رہے۔ میری ہم سفر لڑکی بھی اپنی تعریف سن کر خوش ہوئی تھی  تبھی دھیرے سے ہنس کر بولی۔ 
‘‘آپ کی بات مجھے بری نہیں لگی۔ بڑے مزے کی بات کہی ہے آپ نے۔ ویسے جو کوئی بھی مجھ سے تھوڑی دیر باتیں کرلیتا ہے، وہ یہی کہتا ہے آپ بہت خوبصورت ہیں اور سچ بات یہ ہے کہ اپنی تعریفیں سن سن کر میں تنگ آگئی ہوں۔’’
اس کی بات سن کر میں سمجھ گیا کہ یہ لڑکی واقعی خوبصورت ہے ورنہ جن لوگوں نے اسے دیکھ کر خوبصورت کہا ہے وہ سب تو میری طرح اندھے تو نہیں ہوں گے۔ اس بات کا یقین کر لینے کے بعد میں نے  مسکراتے ہوئے کہا۔ ‘‘اس میں تنگ آجانے والی بات کون سی ہے....؟ جب چاند نکلتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے۔ لوگ بالکل ٹھیک کہتے ہیں، آپ صرف حسین نہیں ہیں.... آپ کے چہرے کے خدوخال بہت دلکش ہیں۔ اس پر سونے پر سہاگا آپ کی مترنم آواز! جب آپ بولتی ہیں تو لگتا ہے، کسی مندر میں لگی بےشمار نقرئی گھنٹیوں کی جھنکار سنائی دے رہی.ہے....’’
‘‘بس بس، رہنے دیں۔’’ اس نے پھر ہنستے ہوئے کہا۔ ‘‘مجھے تو آپ شاعر لگ رہے ہیں۔ لیکن جو کچھ بھی ہیں، آدمی آپ بہت دلچسپ ہیں۔ آپ کے ساتھ باتیں کرکے کوئی شخص بور نہیں ہوسکتا۔ میں سچ کہتی ہوں، آپ کی باتیں مجھے بہت اچھی لگیں۔’’
‘‘اور مجھے آپ کی آواز بہت اچھی لگی ہے۔’’ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ کیونکہ اس کی کوئی اور خوبی یا خامی تو میں نے دیکھی نہیں تھی۔ ایک آواز ہی تھی جسے میں نے اپنے دل کے اندر تک محسوس کیا تھا۔
‘‘آپ کی شادی ہوچکی ہے....؟’’ یکا یک اس نے سنجیدہ سے لہجے میں پوچھا اور پھر فوراً ہی کہا۔ ‘‘سوری، میں نے ایک نجی سوال پوچھ لیا ہے۔’’
‘‘نہیں.... نہیں سوری کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔’’ اس نے پھر اپنا سوال دہرایا۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ‘‘اگر میں کہوں کہ نہیں ہوئی ہے تو....؟’’
‘‘تو میں پوچھوں گی کہ کیوں نہیں ہوئی....؟’’ وہ بھی ہنس کر بولی۔
‘‘اصل میں ابھی تک کسی لڑکی نے مجھے پسند ہی نہیں کیا۔’’ میں بولا۔ ‘‘یا یوں کہہ لیجیے کسی نے میرے چوکھٹے پر توجہ ہی نہیں دی ہے۔’’
‘‘ایسا کیسے ہوسکتا ہے....؟’’ وہ فوراً ہی بولی۔ ‘‘کیا کمی ہے آپ میں....؟ خوبصورت ہیں، جوان ہیں، شریف اور پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ مجھے تو آپ میں ایسی کوئی خامی نظر نہیں آتی کہ لڑکیاں آپ کی طرف متوجہ نہ ہوں۔’’
‘‘آدمی کو اپنی خامیوں اور خوبیوں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ معلوم ہوتا ہے۔’’ میں نے گھمبیر لہجے میں کہا۔ ‘‘اور جہاں تک میرا تعلق ہے، میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آج کے زمانے کی کوئی بھی لڑکی میرے ساتھ خوش نہیں رہ سکتی۔’’
‘‘کیوں....؟’’
‘‘کیونکہ یہ جدید اور تیز رفتار زمانہ ہے۔’’ میں نےا سی گھمبیرتا سے کہا۔ ‘‘ہر کوئی اپنی توقعات اور خواہش کے مطابق زندگی گزارنا چاہتا ہے اور زندگی گزارنے کےلیے ہر کسی کو اپنی پسند کے ہمسفر کی تلاش رہتی ہے.... جبکہ مجھ جیسا بے کار اور سست آدمی اچھا ہمسفر ثابت نہیں ہوسکتا۔’’
‘‘میں نہیں مانتی۔’’ وہ جلدی سے بولی۔ ‘‘میں کہتی ہوں، وہ لڑکی بدنصیب ہی ہوگی جو اپنے جیسے آدمی کو پسند نہ کرے۔’’
‘نہیں، نہیں اس میں آپ کسی کے نصیب کو الزام نہ دیں۔’’ میں بولا۔ 
‘‘کیونکہ میں خود سمجھتا ہوں کہ میں جب اپنے شریک سفر کی خواہشات اور توقعات پر پورا ہی نہیں اتر سکتا تو پھر جانتے بوجھتے مجھے کسی کی زندگی برباد نہیں کرنی چاہیے۔ خیر، میری بات چھوڑیے....آپ بتائیے، کیا آپ شادی.شدہ.ہیں....؟’’
‘‘کیوں....؟’’ میں نے چونک کر پوچھا۔ ‘‘میرے خیال سے تو اب تک آپ کی شادی ہوجانی چاہیے تھی۔’’
‘‘جی ہاں.... ماں اور باپ بھی یہی چاہتے ہیں۔’’ لڑکی نے افسردہ لہجے میں کہا۔ ‘‘لیکن یہ زندگی بھر کے سفر کا سوال ہے جس کے لیے ایک ایسے ہمسفر کا ہونا ضروری ہے جو صحیح معنوں میں دکھ سکھ کا ساتھی بن سکے۔ جو زندگی کے طویل  راستوں کے اتار چڑھاؤ پر پوری طرح ثابت قدم رہ سکے اور جو مجھ جیسی شریک حیات کو کبھی اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھے۔’’
‘‘بوجھ!’’ میں نے چونک کر کہا۔ ‘‘میرے خیال سے تو وہ شخص انتہائی بدنصیب ہوگا جو آپ جیسی شریک حیات کو بوجھ سمجھے گا۔’’
‘‘اسی لیے تو میں چاہتی ہوں کہ جو شخص بھی میرا ہاتھ تھام کر میرے ساتھ چلنا چاہیے.... وہ پہلے اچھی طرح مجھے دیکھ لے، سمجھ لے۔ پھر کسی لالچ، کسی دباؤ اور کسی شرط  کے بغیر مجھے، میری خوبیوں  اور خامیوں سمیت قبول کرے تاکہ دونوں مل کر زندگی کا یہ طویل سفر سکھ و چین سے طے کر سکیں۔’’
لڑکی یہ کہ کر چپ ہوگئی۔ ذرا دیر تک وہ مزید کچھ نہیں بولی تو میں نے کہا۔ ‘‘بڑے اچھے خیالات ہیں آپ کے۔ میری دعا ہے کہ آپ کو ایسا ہی جیون.ساتھی ملے۔’’
‘‘تھینک یو۔’’ لڑکی نے کہا اور پھر دوسرے ہی لمحے چونک کر بولی۔ ‘‘اوہ.... آپ کےساتھ باتوں  میں وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ میرا اسٹیشن آنے ہی والا ہے۔ میں تو سمجھی تھی کہ ٹرین کے ڈبے میں اکیلے بیٹھے بیٹھے ڈھائی گھنٹے گزارنے مشکل ہوجائیں گے لیکن آپ کی خوبصورت باتوں میں میرا سفر بہت آسان کردیا۔ مجھے آپ سے مل کر سچ مچ بہت خوشی ہوئی۔ اب میں خدا سے یہی دعا مانگا کروں گی کہ وہ ہر  لڑکی کو زندگی کے سفر میں آپ جیسا ہی ہمسفر عطا کرے۔’’
جواب میں مجھے کہنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ رفتار دھیمی کرتی ٹرین نے ایک طویل وسل بجائی اور میرے الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
ٹرین پلیٹ فارم سے لگتے ہی اسٹیشن پر ہلچل سی مچ گئی۔ اترنے اور چڑھنے والے مسافروں کے ساتھ ساتھ قلیوں اور خوانچے والوں کی ملی جلی آوازوں کا شور سنائی دینے لگا۔
‘‘اچھا، اب میں چلتی ہوں۔’’ ٹرین کے رکتے ہی اس نے شاید اٹھتے ہوئے کہا تھا۔ ‘‘آج کا یہ سفر مجھے ہمیشہ یاد رہے گا....’’
بولتے بولتے ہی شاید وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی تھی۔ کیونکہ میں اس کے سینڈل کی کھٹ کھٹ کی آواز کو دور جاتے سن رہا تھا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ اسے رخصت کرنے کے لیے مجھے دروازے تک تو جانا ہی چاہیے ورنہ وہ سوچے گی کہ میں نے اسے خداحافظ بھی نہیں کہا۔ اس خیال کے آتے ہی میں تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اندازے سے چلتا ہوا دروازے کے پاس آکر کھڑا ہوگیا۔
نیچے سے کسی عورت کی آواز آرہی تھی جو شاید لڑکی سے ہی کہہ رہی تھی۔ ‘‘آجاؤ بیٹی.... آج تو ٹرین وقت پر آگئی۔ میں تو سمجھی تھی کہ ہمیشہ کی طرح لیٹ ہوگی۔’’
لڑکی نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ عورت پھر بولی۔ ‘‘ذرا سنبھل کر اترنا۔ لو، میرا ہاتھ پکڑلو۔ اور یہ بیگ مجھے دے دو۔ ایک تو تم نے اتنی اونچی ایڑی کے سینڈل پہن رکھے ہیں کہ....’’
‘‘ارے چاچی، کچھ نہیں ہوتا اس سے۔’’ لڑکی درمیان میں بول پڑی۔‘‘لو یہ بیگ۔’’
‘‘ٹھیک ہے، چلو۔’’ عورت نے کہا۔
میں دروازے کے قریب ہی باہر کی جانب منہ کیے کھڑا تھا اور اس وقت مجھے لگ رہا تھا کہ وہ لڑکی جاتے جاتے پلٹ کر میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی ہے۔ اس کا جواب دینے کے لیے میں نے اپنا ہاتھ اٹھایا ہی تھا کہ یکا یک کسی نے اپنا کوئی سامان میرے پیروں کے پاس رکھ دیا۔ ٹرین آہستہ آہستہ رینگنے لگی اور ٹھیک اسی وقت ایک مسافر ہانپتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس اسٹیشن سے بھی صرف ایک ہی مسافر اس کمپارٹمنٹ میں سوار ہوا ہے اور یہ کوئی.مرد ہے۔
میں اپنی سیٹ پر آکر بیٹھ گیا تو اچانک میرا ہاتھ سیٹ پر رکھی ہوئی اپنی سفید فولڈنگ چھڑی سے ٹکرا گیا اور میں بری طرح سے چونک پڑا۔ مجھے یاد آگیا کہ جب میں شالو سے ٹرین میں سوا ہو کر اس سیٹ پر آکر بیٹھا تھا تو میں نے اپنی سفید چھڑی کو فولڈ کرکے اپنے برابر میں ہی رکھ دیا تھا اور یہ اسی وقت سے اس جگہ پڑی ہے۔ مجھے بھی اب تک اس کا خیال نہیں آیا تھا۔ جبکہ وہ لڑکی بھی اتنی دیر تک میرے سامنے بیٹھی مجھ سے باتیں کرتی رہی تھی۔ ایسی حالت میں یقیناً اس کی نظر میری سفید چھڑی پر پڑی ہوگی اور اسے یہ سمجھنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی ہوگی کہ میں نابینا ہوں۔
اب میرے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ میری حقیقت جان لینے کے باوجود نہ تو اس نے میری بینائی کے بارے میں کچھ پوچھا اور نہ ہی مجھ سے ہمدردی کا اظہار کیا بلکہ وہ تو اس طرح مجھ سے باتیں کر رہی تھی جیسے میں یک نارمل شخص ہوں۔
آخر کیوں....؟ 
کیوں اس نے میری سفید چھڑی کو دیکھنے کے بعد بھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ اسے میرے نابینا ہونے کا علم ہوچکا ہے.... 
کیوں.... ؟ اس نے ایسا کیوں کیا....؟
میں اس کیوں کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش میں کھڑکی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔ اس وقت میں خود کو ایک لٹا ہوا آدمی سمجھ رہا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ اس لڑکی کے جاتے ہی میری دنیا لٹ گئی ہو۔ ٹرین کی رفتار تیز ہوگئی تھی۔ سارے مناظر حسب.معمول بڑی تیزی سے پیچھے جا رہے ہوں گے۔ میں اس طرح باہر کی طرف منہ کیے بیٹھا تھا جیسے یہ سارے مناظر مجھے نظر آرہے ہوں۔ حالانکہ میرے لیے تو باہر بھی اتنا ہی اندھیرا تھا جتنا کمپارٹمنٹ کےاندر تھا۔ اچانک میں نے اپنے پیچھے قدموں کی آہٹ سنی تو میں نے گردن گھمائی۔ میرا نیا ہمسفر ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا۔
‘‘ارے جناب.... ہم اتنے بھی بدصورت نہیں ہیں کہ آپ نظر اٹھا کر بھی ہماری طرف نہ دیکھیں۔  مانا آپ کا پہلا ہمسفر بلا کا حسین تھا.... لیکن ایسا بھی کیا کہ دوسرے ہمسفر سے نہ دعا نہ سلام....’’
‘‘نہیں ، ایسی بات نہیں ہے۔’’ میں نے ہنس کر کہا۔ ‘‘وہ لڑکی واقعی بہت اچھی تھی۔’’ اتنا کہہ کر میں چپ ہوگیا مگر پھر فوراً ہی پوچھ بیٹھا۔ ‘‘آپ بتاسکتے ہیں  اس لڑکی کے بال کیسے تھے....؟ لمبے تھے یا کٹے.ہوئے....؟’’
‘‘میں نے اس کے بالوں پر توجہ نہیں دی۔’’ اس شخص نے گھمبیر سے لہجے میں کہا۔ ‘‘میں تو صرف اس کی آنکھیں دیکھ رہا تھا۔’’
‘‘آنکھیں....؟’’ میں نے حیرت سے پوچھا۔
‘‘ہاں.... نیلی گہری جھیل سی آنکھیں.... جو اس کے گلاب جیسے چہرے سے زیادہ خوبصورت تھیں.... میں نے اتنی حسین آنکھیں پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔’’ اس مسافر نے کہا۔ ‘‘مگر وہ آنکھیں اس کے لیے بالکل بےکار تھیں۔’’
‘‘کیا....؟’’ میں چونک کر  اچھل پڑا۔
‘‘ہاں جناب.... وہ اندھی تھی۔’’ مسافر نے ایک گہرا سانس چھوڑتے ہوئے کہا۔ ‘‘ایک عورت اس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے اتار رہی تھی۔ تب میں نے دیکھا، وہ اندھی تھی۔ بغیر کسی کی مدد کے اس کا کمپارٹمنٹ سے نیچے اترتا بھی محال تھا۔’’
‘‘اوہ!’’ میرے ہونٹ سکڑ کر رہ گئے۔ پھر اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا، وہ بولا۔ ‘‘سوری، میں بیگ سے سگریٹ نکالنا بھول گیا۔ ابھی حاضر ہوتا ہوں۔’’ کہہ کر وہ اپنی سیٹ کی جانب بڑھ گیا اور پھر ذرا دیر بعد واپس آکر، شاید سگریٹ کا پیکٹ میری طرف بڑھا کر بولا۔ ‘‘لیجیے سگریٹ۔’’
‘‘جی شکریہ۔ میں سگریٹ نہیں پیتا۔’’ میں نے اس کی طرف چہرہ کرکے جواب دیا۔ اس کے بعد لائٹر کی کلک کی آواز میں نے سنی۔ سگریٹ سلگانے کے بعد وہ اچانک اس طرح بولا جیسے کوئی بات اسے یاد آگئی ہو۔ ‘‘ارے ہاں، ایک بات تو میں آپ سے پوچھنا ہی بھول گیا۔’’
‘‘کیا....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘اس لڑکی کے ساتھ آپ نے شاید دو تین گھنٹے کا سفر کیا ہوگا لیکن حیرت کی بات ہے، اس عرصے میں نہ تو آپ نے اس کا رنگ و روپ دیکھا، نہ بال اور نہ ہی اس کی آنکھیں! کیا اتنی دیر آپ سوتے رہے تھے....؟’’ بات ختم کرکے وہ بلا وجہ ہنسنے لگا۔
‘‘نہیں، میں سو نہیں رہا تھا۔’’ میں مسکرا کر بولا۔ ‘‘بلکہ ہم دونوں تو ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے باتیں کرتے رہے تھے۔’’
‘‘پھر تو یہ اور بھی حیرت کی بات ہے’’ اس نے کہا۔ ‘‘آمنے سامنے بیٹھے رہنے کے باوجود آپ نے کچھ نہیں دیکھا....؟’’
‘‘اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے جناب۔’’ میں نے اسی طرح مسکراتے ہوئے کہا۔ ‘‘میں تو ابھی تک آپ کو بھی نہیں دیکھ پایا ہوں۔’’
‘‘کیا....؟’’ اس نے چونک کر کہا۔
‘‘جی ہاں۔’’ میں نے افسردہ لہجے میں، ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔ ‘‘مجھے نہیں معلوم آپ کا رنگ روپ.... آپ  کے بال اور آپ کی آنکھیں کیسی ہیں....؟’’ یہ کہہ کر میں نے اپنے قریب رکھے ہوئے بیگ کے نیچے ہاتھ ڈال کر اپنی سفید فولڈنگ چھڑی نکال کر اس کےسامنے کردی۔
‘‘اوہ!’’ وہ چونک کر بولا۔ ‘‘تو آپ بھی....’’
یہاں تک کہہ کر وہ چپ ہوگیا۔ 
مجھے لگ رہا تھا کہ وہ اپنی پھٹی پھٹی حیرت زدہ آنکھوں سے مجھے دیکھ رہا ہے۔  ٹرین اپنی رفتار سے بھاگ رہی تھی۔میں ایک مرتبہ پھر کھڑکی کی طرف منہ کرکے بیٹھ گیا۔ باہر کے سارے ہی مناظر تیزی سے پیچھے کی طرف بھاگ رہے ہوں گے.... لیکن میرے لیے تو باہر بھی، ایسا ہی اندھیرا تھا جیسے کمپارٹمنٹ کے اندر!





[ترجمہ:  یعقوب جمیل / ماہنامہ سب رنگ ڈائجسٹ]

انگریزی زبان کے معروف    ہندوستانی ادیب 

رسکن بونڈ



انگریزی زبان کے معروف ادیب، رسکن بونڈRuskin Bond کو  ہندوستانی ادیبوں اور بچوں کے مصنفین اور ایک اعلی ناول نگار میں ممتاز مقام حاصل ہے۔  81سالہ   رسکن بونڈ  گزشتہ 6دہائیوں سے  کہانیاں لکھ رہے ہیں اور اب تک ان کی 500سے زائد کہانیاں شائع ہوچکی ہیں اور 150ناول اور دوسری کتابیں بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔  آپ کے تین ناولوں کو فلم کے قالب میں ڈھالا گیا، جو ‘‘جنون (1978ء)’’،‘‘دی بلیو امبریلا(2005ء)’’ اور ‘‘7 خون معاف(2011ء )’’ کے نام سے بنیں۔
   آپ  19 مئی 1934ء میں   بھارتی ریاست  ہماچل پردیش کے شہر کسولی میں  ایک اینگلو انڈین گھرانے پیدا ہوئے۔   آپ کی والدہ ایڈتھ کلارک کاتعلق کراچی  سے اور والد  الیکژینڈر بونڈ بنگال سے تھے،  آپ کا بچپن وجے نگر، گجرات اور شملہ میں گزرا، لیکن والدکی وفات کے بعد دہرہ دُون(بنگال)منتقل ہوگئے۔  کالج کے دنوں میں کہانیاں لکھی اور کئی لٹریچر پرائز  حاصل کئے،  اعلیٰ  تعلیم کے لیے لندن   چلے گئے جہاں ان کا پہلا ناول The Room on the Roofشایع ہوا ، جو انہوں نے 17 برس کی عمر میں لکھا  تھا، اس ناول پر انہیں Llewellyn Rhys پرائز سے نوازا گیا۔ واپسی پر انہوں نے چند  سال دہلی اور دہرہ دُون میں صحافت کا شعبہ اپنایا پھر میسوری  میں  بطور ادیب باقاعدہ کہانیاں لکھنا شروع کیں ۔    رسکن بونڈ کو   اعلیٰ معیار کی مخصوص خدمات کے لیے    سال 2014 ء میں بھارتی حکومت کی طرف سے  اعلیٰ ترین شہری ایوارڈز پدم بھوشن سے نوازا گیا، اس سے قبل انہیں   1999ء میں پدم شری اور 1992ء  میں ساہیتہ اکیڈمی ایوارڈ  بھی مل چکا ہے۔    

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں