اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

اوور کوٹ

متضاد خیالات پر مبنی  افسانہ ‘‘اوور کوٹ’’ غلام عباس کے شاہکار افسانوں میں سے ایک ہے ... ! 

اوور کوٹ ایک مفلس نوجوان کی دکھ بهری کہانی ہے جو اپنی غربت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔  اوور کوٹ پہن کر جو دیکھنے میں بہت قیمتی تھا۔  لاہور  کی مال روڈ پر ٹہلتا ہوا وہ کئی اہم مقامات کا دورہ کرتا ہے تاکہ    لوگوں پر اس کے امیر ہونے کا تاثر ہو.... 



جنور ی کی ایک شام کو ایک خوش پوش نوجوان ڈیوس روڈ سے گزر کر مال روڈ پر پہنچا اور چیرنگ کراس کا رخ کر کے خراماں خراماں پٹری پر چلنے لگا۔ یہ نوجوان اپنی تراش خراش سے خاصا فیشن ایبل معلوم ہوتا تھا۔ لمبی لمبی قلمیں، چمکتے ہوئے بال، باریک باریک مونچھیں گویا سرمے کی سلائی سے بنائی گئی ہوں۔ بادامی رنگ کا گرم اوور کوٹ پہنے ہوئے جس کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا ایک ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا، سر پر سبز فلیٹ ہیٹ  سفید سلک کا گلوبند گلے کے گرد لپٹا ہوا، ایک ہاتھ کوٹ کی جیب میں، دوسرے میں بید کی ایک چھوٹی چھڑی پکڑے ہوئے جسے کبھی کبھی مزے میں آ کے گھمانے لگتا تھا۔
یہ ہفتے کی شام تھی۔ بھر پور جاڑے کا زمانہ۔ سرد اور تند ہوا کسی تیز دھار کی طرح جسم پر آ کے لگتی تھی مگر اس نوجوان پر اس کا کچھ اثر معلوم نہیں ہوتا تھا۔ لوگ خود کو گرم کرنے کے لئے تیز قدم اٹھا رہے تھے مگر اسے اس کی ضرورت نہ تھی جیسے اس کڑکڑاتے جاڑے میں اسے ٹہلنے میں بڑا مزا آ رہا ہو۔
اس کی چال ڈھال سے ایسا بانکپن ٹپکتا تھا کہ تانگے والے دور ہی سے دیکھ کر سرپٹ گھوڑا دوڑاتے ہوئے اس کی طرف لپکتے مگر وہ چھڑی کے اشارے سے نہیں کر دیتا۔ ایک خالی ٹیکسی بھی اسے دیکھ کر رکی مگر اس نے "نو تھینک یو" کہہ کر اسے بھی ٹال دیا۔
جیسے جیسے وہ مال کے زیادہ با رونق حصے کی طرف پہنچتا جاتا تھا، اس کی چونچالی بڑھتی جاتی تھی۔ وہ منہ سے سیٹی بجا کے رقص کی ایک انگریزی دھن نکالنے لگا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاؤں بھی تھرکتے ہوئے اٹھنے لگے۔ ایک دفعہ جب آس پاس کوئی نہیں تھا تو یکبارگی کچھ ایسا جوش آیا کہ اس نے دوڑ کر جھوٹ موٹ بال دینے کی کوشش کی گویا کرکٹ کا کھیل ہو رہا ہو۔
راستے میں وہ سڑک آئی جو لارنس گارڈن کی طرف جاتی تھی مگر اس وقت شام کے دھندلکے اور سخت کہرے میں اس باغ پر کچھ ایسی اداسی برس رہی تھی کہ اس نے ادھر کا رخ نہ کیا اور سیدھا چیرنگ کراس کی طرف چلتا رہا۔
ملکہ کے بت کے قریب پہنچ کر اس کی حرکات و سکنات میں کسی قدر متانت آ گئی۔ اس نے اپنا رومال نکالا جسے جیب میں رکھنے کی بجائے اس نے کوٹ کی بائیں آستین میں اڑس رکھا تھا اور ہلکے ہلکے چہرے پر پھیرا، تاکہ کچھ گرد جم گئی ہو تو اتر جائے۔ پاس گھاس کے ایک ٹکڑے پر کچھ انگریز بچے بڑی سی گیند سے کھیل رہے تھے۔ وہ رک گیا اور بڑی دلچسپی سے ان کا کھیل دیکھنے لگا۔ بچے کچھ دیر تک تو اس کی پرواہ کئے بغیر کھیل میں مصروف رہے مگر جب وہ برابر تکے ہی چلا گیا تو وہ رفتہ رفتہ شرمانے سے لگے اور پھر اچانک گیند سنبھال کر ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے گھاس کے اس ٹکڑے ہی سےچلےگئے۔
نوجوان کی نظر سیمنٹ کی ایک خالی بنچ پر پڑی۔  وہ اس پر آ کے بیٹھ گیا۔ اس وقت شام کے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سردی اور بھی بڑھتی جا رہی تھی۔  یہ شدت نا خوشگوار نہ تھی بلکہ لذت پرستی کی ترغیب دیتی تھی۔ شہر کے عیش پسند طبقے کا تو کہنا ہی کیا وہ تو اس سردی میں زیادہ ہی کھل کھیلتا ہے۔ تنہائی میں بسر کرنے والے بھی اس سردی سے ورغلائے جاتے ہیں اور وہ اپنے اپنے کونوں کھدروں سے نکل کر محفلوں اور مجمعوں میں جانے کی سوچنے لگتے ہیں ۔ لوگ مال پر حسبِ توفیق ریستورانوں، کافی ہاؤسوں، رقص گاہوں، سینماؤں اور تفریح کے دوسرے مقاموں پر محظوظ ہو رہے تھے۔
مال روڈ پر موٹروں، تانگوں اور بائیسکلوں کا تانتا بندھا ہوا تو تھا ہی پٹری پر چلنے والوں کی بھی کثرت تھی۔ علاوہ ازیں سڑک کی دو رویہ دکانوں میں خرید و فروخت کا بازار بھی گرم تھا۔ جن کم نصیبوں کو نہ تفریحِ طبع کی استطاعت تھی نہ خرید و فروخت کی، وہ دور ہی سے کھڑے کھڑے ان تفریح گاہوں اور دکانوں کی رنگا رنگ روشنیوں سے جی بہلا رہے تھے۔
نوجوان سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے زن و مرد کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر ان کے چہروں سے کہیں زیادہ ان کے لباس پر پڑتی تھی۔ ان میں ہر وضع اور ہر قماش کے لوگ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، سرکاری افسر، لیڈر، فنکار، کالجوں کے طلبا اور طالبات، نرسیں، اخباروں کے نمائندے، دفتروں کے بابو۔زیادہ تر لوگ اوور کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہر قسم کے اوور کوٹ، قراقلی کے بیش قیمت اوور کوٹ سے لے کر خالی پٹی کے پرانے فوجی اوور کوٹ تک جسے نیلام میں خریدا گیا تھا۔
نوجوان کا اپنا اوور کوٹ تھا تو خاصا پرانا مگر اس کا کپڑا خوب بڑھیا تھا پھر وہ سلا ہوا بھی کسی ماہر درزی کا تھا۔ اس کو دیکھنے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کی بہت دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کالر خوب جما ہوا تھا۔ باہوں کی کریز بڑی نمایاں، سلو ٹ کہیں نام کو نہیں۔ بٹن سینگ کے بڑے بڑے چمکتے ہوئے۔ نوجوان اس میں بہت مگن معلوم ہوتا تھا۔
ایک لڑکا پان بیڑی سگریٹ کا صندوقچہ گلے میں ڈالے سامنے سے گزرا۔ نوجوان نے آواز دی۔
"پان والا!۔"
"جناب!"
"دس کا چینج ہے؟"
"ہے تو نہیں۔ لا دوں گا۔ کیا لیں گے آپ؟"
"نوٹ لے کے بھاگ گیا تو؟"
"اجی واہ۔ کوئی چور اچکا ہوں جو بھاگ جاؤں گا۔ اعتبار نہ ہو تو میرے ساتھ چلئے۔ لیں گے کیا آپ؟"
"نہیں نہیں، ہم خود چینج لائے گا۔ لو یہ اکنی نکل آئی۔ ایک سگریٹ دے دو اور چلے جاؤ۔"
لڑکے کے جانے کے بعد مزے مزے سے سگریٹ کے کش لگانے لگا۔ وہ ویسے ہی بہت خوش نظر آتا تھا۔ سگریٹ کے دھوئیں نے اس پر سرور کی کیفیت طاری کر دی۔
ایک چھوٹی سی سفید رنگ بلی سردی میں ٹھٹھری ہوئی بنچ کے نیچے اس کے قدموں میں آ کر میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ اس نے پچکارا تو اچھل کر بنچ پر آ چڑھی۔ اس نے پیار سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرااورکہا۔
"پور لٹل سو ل"
اس کے بعد وہ بنچ سے اٹھ کھڑا ہوا اور سڑک کو پار کر کے اس طرف چلا جدھر سینما کی رنگ برنگی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ تماشا شروع ہو چکا تھا۔ برآمدے میں بھیڑ نہ تھی۔ صرف چند لوگ تھے جو آنے والی فلموں کی تصویروں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہ تصویریں چھوٹے بڑے کئی بورڈوں پر چسپاں تھیں۔ ان میں کہانی کے چیدہ چیدہ مناظر دکھائے گئے تھے۔
تین نوجوان اینگلو انڈین لڑکیاں ان تصویروں کو ذوق و شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ ایک خاص شانِ استغنا کے ساتھ مگر صنفِ نازک کا پورا پورا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ مگر مناسب فاصلے سے ان تصویروں کو دیکھتا رہا۔ لڑکیاں آپس میں ہنسی مذاق کی باتیں بھی کرتی جاتی تھیں اور فلم پر رائے زنی بھی۔ اتنے میں ایک لڑکی نے، جو اپنی ساتھ والیوں سے زیادہ حسین بھی تھی اور شوخ بھی، دوسری لڑکی کے کان میں کچھ کہا جسے سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور پھر وہ تینوں ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔ نوجوان نے اس کا کچھ اثر قبول نہ کیا اور تھوڑی دیر کے بعد وہ خود بھی سینما کی عمارت سے باہرنکلآیا۔
اب سات بج چکے تھے اور وہ مال کی پٹری پر پھر پہلے کی طرح مٹر گشت کرتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ ایک ریستوران میں آرکسٹرا بج رہا تھا۔ اندر سے کہیں زیادہ باہر لوگوں کا ہجوم تھا۔ ان میں زیادہ تر موٹروں کے ڈرائیور، کوچوان، پھل بیچنے والے، جو اپنا مال بیچ کے خالی ٹوکرے لئے کھڑے تھے۔ کچھ راہ گیر جو چلتے چلتے ٹھہر گئے تھے۔ کچھ مزدوری پیشہ لوگ تھے اور کچھ گداگر۔ یہ اندر والوں سے کہیں زیادہ گانے کے رسیا معلوم ہوتے تھے کیونکہ وہ غل غپاڑہ نہیں مچا رہے تھے بلکہ خاموشی سے نغمہ سن رہے تھے۔ حالانکہ دھن اور ساز اجنبی تھے۔ نوجوان پل بھر کے لئے رکا اور پھر آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دور چل کے اسے انگریزی موسیقی کی ایک بڑی سی دکان نظر آئی اور وہ بلا تکلف اندر چلا گیا۔ ہر طرف شیشے کی الماریوں میں طرح طرح کے انگریزی ساز رکھے ہوئے تھے۔ ایک لمبی میز پر مغربی موسیقی کی دو ورقی کتابیں چنی تھیں۔ یہ نئے چلنتر گانے تھے۔ سرورق خوبصورت رنگدار مگر دھنیں گھٹیا۔ ایک چھچھلتی ہوئی نظر ان پر ڈالی پھر وہاں سے ہٹ آیا اور سازوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ایک ہسپانوی گٹار پر، جو ایک کھونٹی سے ٹنگی ہوئی تھی، ناقدانہ نظر ڈالی اور اس کے ساتھ قیمت کا جو ٹکٹ لٹک رہا تھا اسے پڑھا۔ اس سے ذرا ہٹ کر ایک بڑا جرمن پیانو رکھا ہوا تھا۔ اس کا کور اٹھا کے انگلیوں سے بعض پردوں کو ٹٹولا اور پھر کور بند کر دیا۔
پیانو کی آواز سن کر دکان کا ایک کارندہ اس کی طرف بڑھا۔
"گڈ ایوننگ سر۔ کوئی خدمت؟"
"نہیں شکریہ۔ ہاں اس مہینے کی گراموفون ریکارڈوں کی فہرست دے دیجئے۔"
فہرست لے کے اوور کوٹ کی جیب میں ڈالی۔ دکان سے باہر نکل آیا اور پھر چلنا شروع کر دیا۔ راستے میں ایک چھوٹا سا بک اسٹال پڑا۔ نوجوان یہاں بھی رکا۔ کئی تازہ رسالوں کے ورق الٹے۔ رسالہ جہاں سے اٹھاتا بڑی احتیاط سے وہیں رکھ دیتا۔ اَور آگے بڑھا تو قالینوں کی ایک دکان نے اس کی توجہ کو جذب کیا۔ مالک دکان نے جو ایک لمبا سا چغہ پہنے اور سر پر کلاہ رکھے تھا۔ گرمجوشی سے اس کی آؤ بھگت کی۔
"ذرا یہ ایرانی قالین دیکھنا چاہتا ہوں۔ اتاریئے نہیں۔  یہیں دیکھ لوں گا۔ کیا قیمت ہے اس کی﷠﷠﷠....؟
‘‘چودہ سو تیس روپے ہے۔’’
نوجوان نے اپنی بھنووں کو سکیڑا جس کا مطلب تھا ‘‘اوہو اتنی۔’’
دکاندار نے کہا ‘‘آپ پسند کر لیجئے۔ ہم جتنی بھی رعایت کر سکتے ہیں کر دیں گے۔’’
‘‘شکریہ لیکن اس وقت تو میں صرف ایک نظر دیکھنے آیا ہوں۔’’
"شوق سے دیکھئے۔ آپ ہی کی دکان ہے۔"
وہ تین منٹ کے بعد اس دکان سے بھی نکل آیا۔ اس کے اوور کوٹ کے کاج میں شربتی رنگ کے گلاب کا جو ادھ کھلا پھول اٹکا ہوا تھا۔ وہ اس وقت کاج سے کچھ زیادہ باہر نکل آیا تھا۔ جب وہ اس کو ٹھیک کر رہا تھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک خفیف اور پر اسرار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور اس نے پھر اپنی مٹر گشت شروع کر دی۔
اب وہ ہائی کورٹ کی عمارتوں کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ اتنا کچھ چل لینے کے بعد اس کی فطری چونچالی میں کچھ فرق نہیں آیا۔ نہ تکان محسوس ہوئی تھی نہ اکتاہٹ۔ یہاں پٹری پر چلنے والوں کی ٹولیاں کچھ چھٹ سی گئی تھیں اور میں ان میں کافی فصل رہنے لگا تھا۔ اس نے اپنی بید کی چھڑی کو ایک انگلی پر گھمانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ہوئی اور چھڑی زمین پر گر پڑی "اوہ سوری" کہہ کر زمین پر جھکا اور چھڑی کو اٹھا لیا۔
اس اثنا میں ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آ رہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آیا۔ لڑکا دراز قامت تھا اور سیاہ کوڈرائے کی پتلون اور زپ والی چمڑے کی جیکٹ پہنے تھا اور لڑکی سفید ساٹن کی گھیر دار شلوار اور سبز رنگ کا کوٹ۔ وہ بھاری بھرکم سی تھی۔اس کے بالوں میں ایک لمبا سا سیاہ چٹلا  گندھا ہوا تھا جو اس کی کمر سے نیچا تھا۔ 
نوجوان نے شام سے اب تک اپنی مٹر گشت کے دوران میں جتنی انسانی شکلیں دیکھی تھیں ان میں سے کسی نے بھی اس کی توجہ کو اپنی طرف منعطف نہیں کیا تھا۔ فی الحقیقت ان میں کوئی جاذبیت تھی ہی نہیں۔ یا پھر وہ اپنے حال میں ایسا مست تھا کہ کسی دوسرے سے اسے سروکار ہی نہ تھا مگر اس دلچسپ جوڑے نے جس میں کسی افسانے کے کرداروں کی سی ادا تھی، جیسے یکبارگی اس کے دل کو موہ لیا تھا اور اسے حد درجہ مشتاق بنا دیا کہ وہ ان کی باتیں سنے اور ہو سکے تو قریب سے ان کی شکلیں بھی دیکھ لے۔
اس وقت وہ تینوں بڑے ڈاکخانے کے چوراہے کے پاس پہنچ گئے تھے۔ لڑکا اور لڑکی پل بھر کو رکے اور پھر سڑک پار کر کے میکلو ڈ روڈ پر چل پڑے۔ نوجوان مال روڈ پر ہی ٹھہرا رہا۔ شاید وہ سمجھتا تھا کہ فی الفور ان کے پیچھے گیا تو ممکن ہے انہیں شبہ ہو جائے کہ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے۔ اس لئے اسے کچھ لمحےرک جانا چاہئے۔
جب وہ لوگ کوئی سو گز آگے نکل گئے تو اس نے لپک کر ان کا پیچھا کرنا چاہا مگر ابھی اس نے آدھی ہی سڑک پار کی ہو گی کہ اینٹوں سے بھری ہوئی ایک لاری پیچھے سے بگولے کی طرح آئی اور اسے روندتی ہوئی میکلوڈ روڈ کی طرف نکل گئی۔ لاری کے ڈرائیور نے نوجوان کی چیخ سن کر پل بھر کے لئے گاڑی کی رفتار کم کی۔ پھر وہ سمجھ گیا کہ کوئی لاری کی لپیٹ میں آگیا اور وہ رات کے اندھیرے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاری کو لے بھاگا۔ دو تین راہ گیر جو اس حادثے کو دیکھ رہے تھے شور مچانے لگے کہ نمبر دیکھو نمبر دیکھو مگر لاری ہوا ہو چکی تھی۔
اتنے میں کئی اور لوگ جمع ہو گئے۔ ٹریفک کا ایک انسپکٹر جو موٹر سائیکل پر جا رہا تھا رک گیا۔ نوجوان کی دونوں ٹانگیں بالکل کچلی گئی تھیں۔ بہت سا خون نکل چکا تھا اور وہ سسک رہا تھا۔
فوراً ایک کار کو روکا گیا اور اسے جیسے تیسے اس میں ڈال کر بڑے ہسپتال روانہ کر دیا گیا۔ جس وقت وہ ہسپتال پہنچا تو اس میں ابھی رمق بھر جان باقی تھی۔ اس ہسپتال کے شعبۂ حادثات میں اسسٹنٹ سرجن مسٹر خان اور دو نو عمر نرسیں مس شہناز اور مس گِل ڈیوٹی پر تھیں۔ جس وقت اسے سٹریچر پر ڈال کے آپریشن روم میں لے جایا جا رہا تھا تو ان نرسوں کی نظر اس پر پڑی۔ اس کا بادامی رنگ کا اوور کوٹ ابھی تک اس کے جسم پر تھا اور سفید سلک کا مفلر گلے میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے کپڑوں پر جا بجا خون کے بڑے بڑے دھبے تھے۔ کسی نے از راہِ دردمندی اس کی سبز فلیٹ ہیٹ اٹھا کے اس کے سینہ پر رکھ دی تھی تاکہ کوئی اڑا نہ لے جائے۔
شہناز نے گل سے کہا:
"کسی بھلے گھر کا معلوم ہوتا ہے بے چارہ۔"
گل دبی آواز میں بولی۔
"خوب بن ٹھن کے نکلا تھا بے چارہ ہفتے کی شاممنانے۔"
"ڈرائیور پکڑا گیا یا نہیں؟"
"نہیں بھاگ گیا۔"
"کتنے افسوس کی بات ہے۔"
آپریشن روم میں اسسٹنٹ سرجن اور نرسیں چہروں پر جراحی کے نقاب چڑھائے جنہوں نے ان کی آنکھوں سے نیچے کے سارے حصے کو چھپا رکھا تھا، اس کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ اسے سنگ مر مر کی میز پر لٹا دیا گیا۔ اس نے سر میں جو تیز خوشبو دار تیل ڈال رکھا تھا،اس کی کچھ مہک ابھی تک باقی تھی۔ پٹیاں ابھی تک جمی ہوئی تھیں۔ حادثے سے اس کی دونوں ٹانگیں تو ٹوٹ چکی تھیں مگر سرکی مانگ نہیں بگڑنے پائی تھی۔
اب اس کے کپڑے اتارے جا رہے تھے۔ سب سے پہلے سفید سلک گلوبند اس کے گلے سے اتارا گیا۔ اچانک نرس شہناز اور نرس گِل نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ اس سے زیادہ وہ کر بھی کیا سکتی تھیں۔ چہرے جو دلی کیفیات کا آئینہ ہوتے ہیں، جراحی کے نقاب تلے چھپے ہوئے تھے اورزبانیں بند۔
نوجوان کے گلوبند کے نیچے نکٹائی اور کالر کیا سرے سے قمیص ہی نہیں تھی....اوور کوٹ اتارا گیا تو نیچے سے ایک بوسیدہ اونی سویٹر نکلا جس میں جا بجا بڑے بڑے سوراخ تھے۔ ان سوراخوں سے سوئٹر سے بھی زیادہ بوسیدہ اور میلا کچیلا ایک بنیان نظر آ رہا تھا۔ نوجوان سلک کے گلوبند کو کچھ اس ڈھب سے گلے پر لپیٹے رکھتا تھا کہ اس کا سارا سینہ چھپا رہتا تھا۔ اس کے جسم پر میل کی تہیں بھی خوب چڑھی ہوئی تھیں۔ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کم سے کم پچھلے دو مہینے سے نہیں نہایا البتہ گردن خوب صاف تھی اور اس پر ہلکا ہلکا پوڈر لگا ہوا تھا۔ سوئٹر اور بنیان کے بعد پتلون کی باری آئی اور شہناز اور گِل کی نظریں پھر بیک وقت اٹھیں۔ پتلون کو پیٹی کے بجائے ایک پرانی دھجی سے جو شاید کبھی نکٹائی رہی ہو گی خوب کس کے باندھا گیا تھا۔ بٹن اور بکسوے غائب تھے۔ دونوں گھٹنوں پر سے کپڑا مسک گیا تھا اور کئی جگہ کھونچیں لگی تھیں مگر چونکہ یہ حصے اوور کوٹ کے نیچے رہتے تھے اس لئے لوگوں کی ان پر نظر نہیں پڑتی تھی۔ اب بوٹ اور جرابوں کی باری آئی اور ایک مرتبہ پھر مس شہناز اور مس گِل کی آنکھیں چار ہوئیں۔
بوٹ تو پرانے ہونے کے باوجود خوب چمک رہے تھے مگر ایک پاؤں کی جراب دوسرے پاؤں کی جراب سے بالکل مختلف تھی۔ پھر دونوں جرابیں پھٹی ہوئی بھی تھیں، اس قدر کہ ان میں سے نوجوان کی میلی میلی ایڑیاں نظر آ رہی تھیں۔ 
اس وقت تک وہ دم توڑ چکا تھا۔ اس کا جسم سنگ مر مر کی میز پر بے جان پڑا تھا۔ اس کا چہرہ جو پہلے چھت کی سمت تھا۔ کپڑے اتارنے میں دیوار کی طرف مڑ گیا۔
 معلوم ہوتا تھا کہ جسم اور اس کے ساتھ روح کی برہنگی نے اسے خجل کر دیا ہے اور وہ اپنے ہم جنسوں سے آنکھیں چرا رہا ہے۔
اس کے اوور کوٹ کی مختلف جیبوں سے جو چیزیں برآمد ہوئیں وہ یہ تھیں:
ایک چھوٹی سی سیاہ کنگھی، ایک رومال، ساڑھے چھ آنے، ایک بجھا ہوا سگریٹ، ایک چھوٹی سی ڈائری جس میں نام اور پتے لکھے تھے۔نئے گراموفون ریکارڈوں کی ایک ماہانہ فہرست اور کچھ اشتہار جو مٹر گشت کے دوران اشتہار بانٹنے والوں نے اس کے ہاتھ میں تھما دئے تھے اور اس نے انہیں اوور کوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔
افسوس کہ اس کی بید کی چھڑی جو حادثے کے دوران کہیں کھو گئی تھی اس فہرست میں شامل نہ تھی۔

زیر نظر کہانی   اوور کوٹ  ، ایک مفلس نوجوان کی کہانی ہے جو اپنی غربت کو چھپانے کے لیے قیمتی دکھنے والا اوور کوٹ پہن کر لاہور  کی سڑکوں پر ٹہلتا ہے تاکہ    لوگوں پر اس کے امیر ہونے کا تاثر ہو.... 
اس  کہانی کو کئی مرتبہ  ڈرامائی شکل  اور شارٹ فلم میں ڈھالا گیا ہے جسے آپ یوٹیوب پر بھی  دیکھ سکتے ہیں 






اردو ادب کے معروف افسانہ نگار 

غلام عباس ۔1909ء تا 1982 ء 


بحثیت افسانہ نگار غلام عباس کا نام اردو کے افسانہ نگاروں میں ایک منفرد اور اعلیٰ مقام کا حامل ہے ، گو کہ انہوں نے بہت کم افسانے لکھے لیکن جتنے لکھے بہت خوب لکھے۔ غلام عباس 1909ء میں امر تسر میں پیدا ہوئے۔ تعلیم اور پرورش لاہور کے ادب پرور ماحول میں پائی۔ لکھنے لکھانے کا شوق فطرت میں داخل تھا۔ ان کی  باقاعدہ ادبی زندگی کا آغاز 1925ء میں ہوا۔ 1925ء سے 1928ء تک غیر ملکی افسانوں کے ترجمے کرتے رہے۔  1928ء سے 1937ء تک بچوں   کے رسالوں (پھول) اور (تہذیب نسواں) کے ایڈیٹر رہے ملازمت کے دوران افسانہ نگاری کی طرف توجہ کی اور چند کامیاب افسانے لکھ کر اردو افسانہ نگاری میں نمایاں حیثیت حاصل کر لی۔   
ان کی پہلی کہانی کا نام بکری تھا جو انہوں نے 1922ءمیں تحریر کی تھی۔ تاہم ان کا پہلا باقاعدہ افسانہ جلاوطن کو سمجھا جاتا ہے جوٹالسٹائی کے ایک افسانے  سے ماخوذ تھا۔ غلام عباس  کا پہلا طبع زاد افسانہ ”مجسمہ“ تھا  لیکن غلام عباس کی شہرت کا باقاعدہ آغاز آنندی سے ہوا جو سب سے پہلے  1939ءمیں شائع ہوا تھا۔ یہی ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے کا نام بھی تھا جو 1948ءمیں شائع ہوا تھا۔1938ءمیں غلام عباس آل انڈیا  ریڈیو سے منسلک ہوگئے اور اس دوران انہوں نے ریڈیو کے رسالوں آواز اور سارنگ کی ادارت کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور اس کے رسالے آہنگ کے مدیر مقرر ہوئے۔آنندی کے بعد غلام عباس کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔جن میں افسانوں کے مجموعے جاڑے کی چاندنی، کن رس، زندگی نقاب چہرے، ناول گوندنی  والا تکیہ، انگریزی افسانوں کے تراجم الحمرا کے افسانے، فرانسیسی ادب پارے سے ماخوذ جزیرہ سخنوراں، ناولٹ دھنک اور بچوں کے لئے نظموں کا مجموعہ چاند تارا شامل ہیں۔  غلام عباس نے اپنے افسانوی مجموعوں آنندی اور جاڑے کی چاندنی پر انعامات و اعزازات بھی حاصل کئے۔ 1967ءمیں انہیں حکومت پاکستان نے بھی ستارہ امتیاز سے نوازاتھا۔ 2نومبر 1982ءکو غلام عباس کراچی میں وفات پاگئے اورسوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔
غلام عباس ان کے افسانوں میں صداقت، واقعیت اور حقیقت پسندی کا وہ جوہر جھلکتا ہے جو افسانہ نگاری کی جان ہوتا ہے۔ ان کے کردار ہمارے روز مرہ زندگی اور معاشرے ہی کے چلتے پھرتے اور جیتے جاگتے کردار ہیں ۔



اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں