‘‘الیوشا’’Alyosha چھوٹے بھائی کا نام تھا۔ سب اسے ‘‘الیوشا’’ ہی کہتے تھے، لیکن ایک دن یوں ہوا کہ اس کی ماں نے اسے کسی محلے دار کے گھر دودھ پہنچانے بھیجا تو وہ راہ میں ٹھوکر کھاکر سنبھل نہیں سکا اور ٹوٹے ہوئے پیالے کے ساتھ گھر لوٹ آیا۔ اس دِن الیوشا کو گھر میں مار پڑی اور جب وہ باہر نکلا تو اسے گلی کے بچوں نے چھیڑنا شروع کردیا۔
‘‘پیالہ! پیالہ! الیوشا پیالہ!’’
اس دن سے الیوشا کا نام پیالہ پڑگیا۔
الیوشا کے کان اس کے چہرے کی نسبت بڑے تھے۔ ایسے بڑے کان جنہیں دیکھ کر لگتا تھا جیسے کوئی بڑا پرندہ پَر پھیلائے اس کے کانوں پر آبیٹھا ہو۔ گاؤں میں ایک اسکول موجود تھا، لیکن پڑھنا الیوشا کے لیے مشکل کام ثابت ہوا اور پھر اس کے پاس وقت نہیں تھا۔ اس کا بڑا بھائی شہر میں ایک تاجر کے گھر میں ملازم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جس دن سے الیوشا نے چلنا شروع کیا، اسی دِن سے گھر کا کام بھی کرنا شروع کردیا تھا۔
چھ سال کی عمر میں وہ اپنے باپ کی تمام بکریوں کا رکھوالا بن گیا اور کچھ ہی عرصے بعد وہ گھوڑوں کی دن رات نگہداشت پر مامور کردیا گیا۔ بارہ برس کا ہوتے ہی وہ کھیتوں میں ہل چلانے اور گھوڑا گاڑی پر شہر کا سامان لانے کے فرائض انجام دینے لگا۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت تازگی اور شگفتگی رہتی۔
محلے کے بچے اس پر ہنستے تو وہ خاموشی سے انہیں دیکھتا رہتا، یا خود بھی ہنسنے لگتا۔ اس کا باپ ناراض ہوتا تو وہ سر جھکاکر اس کی ڈانٹ سنتا اور جب باپ کے دل کی بھڑاس نکل جاتی تو وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ادھورے کام کی طرف پلٹ جاتا۔
جب الیوشا انیس سال کا ہوا تو اس کے بڑے بھائی کو جبری بھرتی والے لے گئے۔ الیوشا کو بتایا گیا کہ اب اسے شہر جاکر اپنے بھائی کی جگہ ملازمت کرنا ہوگی۔ دوسرے دن اس کو بڑے بھائی کے بڑے جوتے پہنائے گئے اور شہر لے جاکر تاجر کے سامنے پیش کردیا گیا۔ تاجر کو الیوشا کے نرم نقوش اور نازک ہاتھ پاؤں، کام کے لیے ناموزوں معلوم ہوئے۔
‘‘میں سمجھ رہا تھا کہ سائمن Simeon کی جگہ مجھے اچھا ملازم مل جائے گا۔’’ تاجر نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے کہا۔
‘‘یہ میرے کس کام کا ہے؟’’
‘‘یہ ہر کام کرسکتا ہے۔’’ الیوشا کا باپ فخر سے بولا۔ ‘‘دس لڑکوں کی جگہ یہ اکیلا کافی ہے۔ کمزور لگتا ہے، لیکن آپ اسے تھکا نہیں سکتے۔’’
‘‘خیر، یہ تو معلوم ہوجائے گا۔’’ تاجر نے ایک مرتبہ پھر الیوشا کو غور سے دیکھا۔
‘‘.... اور پلٹ کر جواب دینا تو اس نے سیکھا ہی نہیں۔ اس کا بس چلے تو ساری زندگی کھانا کھائے بغیر کام کرتا رہے۔’’
‘‘دیکھ لیں گے۔ چھوڑجاؤ۔’’ تاجر نے بے دلی سے کہا۔ یہ الیوشا کی نئی زندگی کا آغاز تھا۔
تاجر کا خاندان زیادہ بڑا نہیں تھا۔ بوڑھی ماں اور بیوی کے علاوہ دو بیٹے تھے، جن میں سے ایک تعلیمی سرگرمیوں میں نمایاں اور دوسرا دنیاوی معاملات میں ہوشیار تھا۔ سب سے چھوٹی بیٹی تھی جو ہائی اسکول کے آخری درجہ میں تھی۔
ابتدا میں الیوشا کسی کو پسند نہیں آیا۔ وہ کسان زادہ تھا اور انہیں اب تک اس کا وجود کھیت کی مٹی سے اٹا ہوا لگتا تھا۔ اس کا لباس دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے اس نے پورا بدن ایک چادر سے ڈھک لیا ہو۔ اسے مذہبی لوگوں سے گفتگو کا ڈھنگ نہیں آتا تھا اور وہ معزز افراد کے احوالیہ جملوں میں استعمال ہونے والے الفاظ سے ناواقف تھا۔
بہرحال کچھ دنوں بعد تاجر کے گھروالے الیوشا کے عادی ہوگئے۔ بالآخر اس کی محنتی طبیعت نے ان کا دل خوش کردیا تھا۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ کسی کام، کسی بات کا برا نہیں مانتا۔ پلٹ کر جواب نہیں دیتا اور ایک کام ختم کرنے کے بعد بغیر دم لیے دوسرا کام شروع کردیتا ہے۔
آہستہ آہستہ تاجر کے گھر کا سارا کام الیوشا کے سپرد ہوگیا۔ جتنی تیزی سے وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتا گیا، اتنی تیزی سے اس کے فرائض میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ علی الصبح بیدار ہوتا اور یکسوئی کے ساتھ ہر کام نمٹاتا جاتا۔ تاجر کی بیوی اور اس کی ماں اور بیٹی اور بیٹے اور خادمہ اور خانساماں چھوٹے بڑے کاموں کے سلسلے میں اسے یہاں وہاں بھیجتے رہتے اور وہ صبح سے شام تک چاروں سمت گردش کرتا نظر آتا۔
اسے تمام دِن اس طرح کے جملے سننے پڑتے:
‘‘الیوشا دوڑکر جاؤ اور اسے یہیں لے آؤ۔’’
‘‘ذرا اس کا خیال رکھنا الیوشا۔’’
‘‘واپسی پر اس کی طرف سے بھی ہوتے آنا اور....یہ نہ سنوں کہ تم بھول گئے تھے۔’’
‘‘ہاں، ہاں! یہ بھی ضروری ہے۔’’
الیوشا سب کی سنتا، یاد رکھتا، مسکراتا رہتا اور ایک کے بعد دوسرا کام کرتا چلا جاتا۔
کچھ عرصے بعد الیوشا کے اونچے جوتے اُدھڑنے لگے اور جگہ جگہ سے اس کی ایڑیوں اور پنجوں کی کھال جھلکنے لگی۔ تاجر نے اسے جوتوں کا نیا جوڑا منگوادیا۔ نئے جوتے دیکھ کر الیوشا کا چہرہ جگمگانے لگا، مگر نئے جوتوں نے اس کے پرانے پیروں کو فوراً قبول نہیں کیا اور شام تک وہ جوتوں کے کاٹنے سے بے حال ہوگیا۔ اسے یہ خوف بھی تھا کہ نئے جوتوں کے پیسے اس کی تنخواہ سے کاٹ لیے جائیں گے اور جب اس کا باپ اس کی تنخواہ وصول کرے گا تو اس پر بہت خفا ہوگا۔
کچھ عرصے سے اس کا باپ اسے مسلسل تنبیہ کررہا تھا کہ وہ اپنے جوتے بہت تیزی سے گھِسارہا ہے اور اس سلسلے میں اسے احتیاط برتنی چاہیے۔
الیوشا منہ اندھیرے اٹھ کر آتش دان کے لیے لکڑیاں تراشتا۔ صحن اور بیرونی احاطے کی صفائی کرتا۔ گھوڑوں کا راتب اور گائے کا چارا تیار کرتا۔ چولہا گرم کرتا۔ گھر بھر کے جوتے چمکاتا۔ مالک کے کپڑے جھاڑکر دھوپ میں پھیلاتا۔ دیواریں اور فرنیچر پونچھتا۔ پھر وہ خانساماں کے کہنے پر سودا لینے بازار کا رُخ کرتا یا خادمہ کی ہدایت پر برتن دھونے لگتا۔ اس سے فارغ ہوتا تو اسے کسی کے نام کی چٹھی دے کر شہر کے دوسرے حصے میں بھیجا جاتا اور واپسی پر چھوٹی بیٹی کو اسکول سے لانے کی ذمہ داری سونپی جاتی۔ اس کے باوجود کوئی نہ کوئی بول پڑتا:
‘‘الیوشا! خدا کے بندے کہاں رہ گئے تھے.... اچھا اب فوراً جاؤ، اور ....’ اور الیوشا فوراً جاتا اور تندہی سے نئے کام میں مصروف ہوجاتا۔
فرصت کا لمحہ ملتا تو وہ روٹی پر سالن ڈال کر کھانے لگتا، لیکن اسی دوران کوئی کام آپڑتا تو وہ روٹی کو گول بناکر ہاتھ میں لیے اپنے ہدف کی طرف دوڑ پڑتا۔ خادمہ اسے کھانے کے وقت پر نہ پہنچنے پر ڈانٹتی، لیکن اس کی مجبوری پر رحم کھاکر وہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ بچاکر بھی رکھ لیتی تھی۔
چھٹیوں کے اوقات میں پہلے سے زیادہ کام ہوتا تھا، لیکن الیوشا کو تعطیلات پسند تھیں کیونکہ سب لوگ اسے ٹپ جو دیتے تھے۔ جو زیادہ نہیں ہوتی تھی، لیکن یقینی طور پر اس کے پاس ساٹھ کوبک* kopeks تک رقم جمع ہوجاتی تھی، تنخواہ کے علاوہ اس کی اپنی ذاتی رقم۔
الیوشا اپنی اجرت پر نظریں کبھی نہیں ڈالتا تھا، جو اس کے والد آکر تاجر سے لے جاتے تھے۔ جنہوں نے نئے جوتے خرید نے پر الیوشا کو ڈانٹا بھی تھا۔
جب اس نے تاجر کی خادمہ تانیا Ustinia کے مشورے پر دو روبل rubles بچائے تو اس نے اپنے لیے ایک سرخ بُنا ہوا جیکٹ خریدا، جیسے پہن کر وہ بہت خوش ہوتا تھا ، اتنا خوش کہ، جب تک جیکٹ اس کے بدن پر ہوتا خوشی کے مارے اس کا منہ بند نہیں ہوتا تھا۔
الیوشا زیادہ تر خاموش رہتا تھا۔ جب اسے بات کرنا ہی پڑجاتی تو وہ جملوں کی جگہ محض الفاظ بول کر اپنا مدعا بیان کرتا۔ اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ کیا وہ فلاں کام کرسکتا ہے؟ ‘‘کیوں نہیں؟’’ وہ جواب دیتا، اور مخاطب کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی کام شروع کردیتا تھا۔ اسے کوئی دُعا یاد نہیں تھی۔ بچپن میں اس کی ماں نے اسے چند دُعائیں یاد کرائی تھیں جو وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول گیا تھا۔
اس طرح الیوشا نے دو برس گزاردیے۔ پھر ایک ایسی بات ہوئی جو اس کی زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
الیوشا جانتا تھا کہ ہر آدمی کو دوسرے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی سطح پر سب ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ اس لیے دُنیا میں انسانوں کے انسانوں سے تعلقات قائم ہیں، لیکن یہ بات الیوشا کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی کہ کوئی صورتِ حال ایسی بھی ہوتی ہے جب آدمی چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے ساتھ رہے جبکہ اسے دوسرے سے کوئی کام بھی نہیں لینا ہوتا۔
انسانوں کے درمیان ایسا بھی تعلق ہوسکتا ہے! یہ الیوشا کے لیے انکشاف تھا، اور یہ بات تانیا کے توسط سے اس پر منکشف ہوئی تھی۔ تانیا نوجوان، یتیم لڑکی تھی جو تاجر کے گھر خادمہ کی حیثیت سے کام کرتی تھی۔ وہ بھی الیوشا کی طرح محنتی طبیعت کی تھی، اور اسے الیوشا کی یکسوئی پر پیار آتا تھا۔ اسے دیکھ کر الیوشا کو پہلی بار محسوس ہوا کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے جسے اس کے کام کی نہیں، بلکہ خود اس کی ضرورت ہے۔
بچپن میں جب الیوشا کی ماں اس سے ہمدردی کا اظہار کرتی تھی تو وہ حیران نہیں ہوتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تمام مائیں اپنے بچوں سے پیار کرتی ہیں، لیکن تانیا نے اسے حیران کردیا تھا۔ اس کا الیوشا سے کوئی رشتہ نہیں تھا، مگر پھر بھی وہ اس کے لیے مکھن لگی روٹی بچاکر رکھتی تھی۔ الیوشا چپڑی روٹی کھاتا تو وہ اس کے سامنے بیٹھ کر خاموشی سے اسے دیکھتی رہتی۔ اس دوران الیوشا کی نظریں اس سے ملتیں تو وہ بے ساختہ ہنس پڑتی۔ ایک لمحے کو الیوشا جھینپ جاتا اور پھر خود بھی ہنسنے لگتا۔یہ صورتِ حال اتنی انوکھی اور پُرکیف تھی کہ ابتدا میں الیوشا خوف زدہ سا ہوگیا۔ اسے خیال آیا کہ وہ پہلے جیسی تیزرفتاری سے کام نہیں کرسکے گا۔
تانیا نے اس کی زندگی میں وہ دریچہ کھول دیا تھا جہاں سے اس نے پہلی بار پھول اور تتلیاں دیکھی تھیں۔ اس سے پہلے بھی اسے یہ چیزیں کہیں نہ کہیں نظر آتی رہی تھیں، لیکن فرصت نہ ہونے کے باعث وہ انہیں کبھی صحیح طور پر دیکھ نہیں سکا تھا۔
کام کے دوران جب اس کی نظر اپنی پتلون کے اس حصے پر پڑتی جو تانیا نے مہارت سے رفور کیا ہوتا تو وہ بے اختیار کہتا: ‘‘شکریہ تانیا، شکریہ! شکریہ!!’’
جب بھی ممکن ہوتا، دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے، ہنستے اور اپنے بچپن کے واقعات دُہراتے۔
تانیا کو باتیں کرنے کا شوق تھا۔ اس نے الیوشا کو بتایا کہ کس طرح اس نے بچپن میں اپنے والدین کو یکے بعد دیگرے مرتے دیکھا اور پھر کس طرح وہ اپنی خالہ کے پاس پہنچ گئی۔ الیوشا نے سن رکھا تھا کہ گاؤں سے کام کی تلاش میں شہر آنے والے اکثر لڑکے گھریلو خادماؤں سے شادی کرلیتے ہیں۔
ایک مرتبہ تانیا نے الیوشا سے پوچھا کہ اس کا باپ اس کی شادی کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟ ‘‘معلوم نہیں!’’
الیوشا نے کندھے اُچکاکر جواب دیا۔ ‘‘بہرحال گاؤں کی لڑکی سے تو شادی مشکل ہے۔’’
‘‘تو تم کسی کو پسند کرتے ہو؟’’ تانیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
‘‘میں تم سے شادی کروں گا!’’ الیوشا نے کسانوں کی پیدائشی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ‘‘تم کروگی؟’’
‘‘لو اور سنو! پیالہ مجھ سے شادی کرے گا!’’ یہ کہہ کر تانیا اس کی سادہ لوحی اور بے باکی پر ہنسنے لگی۔ پھر یکدم سنجیدہ ہوکر بولی:
‘‘کیوں نہیں الیوشا! کیوں نہیں!’’
ایک ہفتے بعد الیوشا کا باپ اس کی تنخواہ وصول کرنے شہر آیا۔ تاجر کی بیوی تک خبر پہنچ چکی تھی کہ الیوشا پر تانیا سے شادی کرنے کی دُھن سوار ہے۔ اس نے اپنے خاوند کو پہلے ہی ہوشیار کردیا تھا۔
‘‘شادی کے بعد کوئی لڑکی اتنی محنت نہیں کرسکتی۔ بچوں کے ساتھ تانیا ہمارے لیے بے کار ہوجائے گی۔’’
تاجر نے الیوشا کی تنخواہ اس کے باپ کی جانب بڑھائی تو وہ ہمیشہ کی طرح کھل اُٹھا۔ ‘‘میرا بیٹا کیسا کام کررہا ہے؟ انکار کرنا تو وہ جانتا ہی نہیں۔’’
‘‘جہاں تک کام کا تعلق ہے۔’’ تاجر سنجیدہ لہجے میں بولا۔ ‘‘مجھے کوئی شکایت نہیں، مگر وہ ہماری خادمہ سے شادی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے سودمند نہیں ہوگا۔’’
‘‘ارے اس کی یہ جرات....؟؟’’
الیوشا کے باپ نے حیرت سے کہا۔ پھر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ پریقین انداز میں بولا ۔
‘‘آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں یہ معاملہ ختم کرکے جاؤں گا۔’’
جب الیوشا کوئی کام نمٹاکر پھولی ہوئی سانس کے ساتھ گھر لوٹا تو اس کا باپ اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ‘‘میں تمہیں سمجھ دار اور سعادت مند بیٹا سمجھتا تھا لیکن....یہ سب کیا ہے؟’’
‘‘کچھ بھی نہیں.... یہ کہ.... کچھ بھی تو نہیں....’’
‘‘کیا کچھ بھی نہیں؟ .... شادی کا خیال دل سے نکال دو۔ جب وقت آئے گا میں خود تمہاری شادی کراؤں گا.... کام کی عورت سے!.... شہر کی مکار عورتوں سے دور رہو۔ سمجھے؟’’
اس کا باپ دیر تک اسے تند لہجے میں نصیحتیں کرتا رہا اور وہ سر جھکائے سنتا رہا۔ جب وہ خاموش ہوا تو الیوشا کے چہرے پر وہی تبسم پھیل گیا۔
‘‘تو پھر؟’’ باپ کا لہجہ سوالیہ ہوگیا۔
‘‘میں یہ معاملہ ختم سمجھوں؟’’
‘‘جی ہاں! ’’ الیوشا نے اثبات میں سر ہلایا۔
جب اس کا باپ رخصت ہوگیا تو تانیا کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ پردے کے پیچھے کھڑی سب کچھ سنتی رہی تھی۔ اس کی آنکھیں نم تھیں۔
‘‘ہمیں یہ معاملہ ختم سمجھنا چاہیے۔’’ الیوشا نے نرمی سے کہا۔تانیا نے پلکیں جھپکائیں تو دو آنسو اس کے رخساروں پر واضح لکیریں بناگئے۔
الیوشا نے نظر بھر کر دیکھا۔ گہری سانس لی اور نحیف آواز میں کہا: ‘‘کیا کریں.... سب ناراض ہورہے ہیں۔۔۔ بھولنا ہی پڑے گا۔’’
رات کو سونے سے قبل گھر کی کھڑکیاں بند کرنے کے دوران جب وہ بڑی خوابگاہ میں داخل ہوا تو تاجر کی بیوی اسے دیکھتے ہی بولی:
‘‘باپ سے ملاقات ہوگئی؟ اب سب کچھ بھول کر کام میں دل لگاؤ۔’’
‘‘لگتا ہے بھولنا ہی پڑے گا’’ الیوشا نے مسکراکر کہا اور اچانک دیوار کی طرف منہ کرکے رونے لگا۔ اس دن کے بعد الیوشا نے کبھی تانیا کا ذکر نہیں کیا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ کام میں مصروف رہنے لگا تھا۔
کرسمس کی سردیوں کی ایک صبح کلرک نے اسے چھت سے برف صاف کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ وہ برف کے ڈھیر بناکر نیچے دھکیلنے لگا اور کچھ ہی میں اس نے پوری چھت صاف کردی۔ اس کے بعد وہ روشن دانوں کے چھجوں پر جمی برف ہٹانے کے لیے جھک رہا تھا کہ اس کا پاؤں پھسلا اور وہ نیچے آگرا۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ برف کے ڈھیر میں دھنستا چلا گیا، لیکن اس کا سر آہنی جنگلے سے ٹکراگیا۔ گرنے کے بعد وہ اُٹھ کھڑا ہوا، مگر فوراً ہی لڑکھڑاکر دوبارہ برف پر لیٹ گیا۔
تاجر کی بیٹی اور تانیا دوڑتی چلی آئیں۔
‘‘الیوشا تم ٹھیک ہو؟’’
‘‘تمہیں چوٹ لگی ہے؟’’
دونوں کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔
‘‘ہاں! ذرا چوٹ لگ گئی۔’’ اس نے دھیرے سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ ‘‘لیکن ٹھیک ہے۔’’
اس نے ایک مرتبہ پھر کھڑے ہونے کی کوشش کی اور دوبارہ ناکام ہونے پر سر واپس ٹیک کر مسکرانے لگا۔
اسے لوگوں کی مدد سے اُٹھاکر بستر پر لٹایا گیا۔ ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد اس سے پوچھا کہ وہ کہاں تکلیف محسوس کررہا ہے؟ ‘‘سب جگہ’’ اس نے آہستہ سے کہا۔ ‘‘لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سب ٹھیک ہے۔’’
کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور بولا: ‘‘روشن دانوں کی برف رہ گئی، مجھے ڈر ہے کہ مالک ناراض نہ ہو جائے اور ابا کو نہ بلوالے۔’’
الیوشا دو دن تک بستر پر رہا اور تیسرے دن انہوں نے پادری کو بلوالیا۔
‘‘تم مررہے ہو الیوشا!’’ تانیا کا لہجہ سوالیہ تھا۔
‘‘ہم ہمیشہ رہنے کے لیے تو نہیں آتے۔ایک دن مرنا سبھی کو ہوتا ہے۔’’ الیوشا نے فطری صاف گوئی سے جواب دیا۔
‘‘شکریہ تانیہ ، تم نے مجھ بہت خوشی دی... ’’ پھر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولا: ‘‘اور دیکھو! یہ بھی تو اچھا ہی ہوا۔ انہوں نے ہمیں شادی نہیں کرنے دی۔ تب ہمیں کتنا افسوس ہوتا۔’’
وہ دھیرے دھیرے پادری کے کہے ہوئے الفاظ دُہراتا رہا۔ اسے خیال آرہا تھا کہ اگر آدمی سب کی بات مانتا رہے اور کسی کو ناراض نہ کرے تو نہایت اطمینان سے زندگی گزارتا ہے۔
‘‘اگر یہاں ایسا ہوتا ہے۔’’ اس نے سوچا۔ ‘‘تو اس جہان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔’’
اس کے بعد اس نے زیادہ باتیں نہیں کیں۔ بس وقفے وقفے سے پانی مانگتا رہا۔
پھر اچانک وہ کسی خیال پر چونک گیا۔ یوں لگا جیسے کوئی بات اسے حیران کررہی ہے۔ آنکھوں میں پھیلی حیرت کے ساتھ اس نے ایک گہری سانس لی۔ بازو اور ٹانگیں سیدھی کیں اور دم توڑ دیا۔
‘‘پیالہ! پیالہ! الیوشا پیالہ!’’
اس دن سے الیوشا کا نام پیالہ پڑگیا۔
الیوشا کے کان اس کے چہرے کی نسبت بڑے تھے۔ ایسے بڑے کان جنہیں دیکھ کر لگتا تھا جیسے کوئی بڑا پرندہ پَر پھیلائے اس کے کانوں پر آبیٹھا ہو۔ گاؤں میں ایک اسکول موجود تھا، لیکن پڑھنا الیوشا کے لیے مشکل کام ثابت ہوا اور پھر اس کے پاس وقت نہیں تھا۔ اس کا بڑا بھائی شہر میں ایک تاجر کے گھر میں ملازم تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جس دن سے الیوشا نے چلنا شروع کیا، اسی دِن سے گھر کا کام بھی کرنا شروع کردیا تھا۔
چھ سال کی عمر میں وہ اپنے باپ کی تمام بکریوں کا رکھوالا بن گیا اور کچھ ہی عرصے بعد وہ گھوڑوں کی دن رات نگہداشت پر مامور کردیا گیا۔ بارہ برس کا ہوتے ہی وہ کھیتوں میں ہل چلانے اور گھوڑا گاڑی پر شہر کا سامان لانے کے فرائض انجام دینے لگا۔ اس کے چہرے پر ہمہ وقت تازگی اور شگفتگی رہتی۔
محلے کے بچے اس پر ہنستے تو وہ خاموشی سے انہیں دیکھتا رہتا، یا خود بھی ہنسنے لگتا۔ اس کا باپ ناراض ہوتا تو وہ سر جھکاکر اس کی ڈانٹ سنتا اور جب باپ کے دل کی بھڑاس نکل جاتی تو وہ ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے ادھورے کام کی طرف پلٹ جاتا۔
جب الیوشا انیس سال کا ہوا تو اس کے بڑے بھائی کو جبری بھرتی والے لے گئے۔ الیوشا کو بتایا گیا کہ اب اسے شہر جاکر اپنے بھائی کی جگہ ملازمت کرنا ہوگی۔ دوسرے دن اس کو بڑے بھائی کے بڑے جوتے پہنائے گئے اور شہر لے جاکر تاجر کے سامنے پیش کردیا گیا۔ تاجر کو الیوشا کے نرم نقوش اور نازک ہاتھ پاؤں، کام کے لیے ناموزوں معلوم ہوئے۔
‘‘میں سمجھ رہا تھا کہ سائمن Simeon کی جگہ مجھے اچھا ملازم مل جائے گا۔’’ تاجر نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھتے ہوئے کہا۔
‘‘یہ میرے کس کام کا ہے؟’’
‘‘یہ ہر کام کرسکتا ہے۔’’ الیوشا کا باپ فخر سے بولا۔ ‘‘دس لڑکوں کی جگہ یہ اکیلا کافی ہے۔ کمزور لگتا ہے، لیکن آپ اسے تھکا نہیں سکتے۔’’
‘‘خیر، یہ تو معلوم ہوجائے گا۔’’ تاجر نے ایک مرتبہ پھر الیوشا کو غور سے دیکھا۔
‘‘.... اور پلٹ کر جواب دینا تو اس نے سیکھا ہی نہیں۔ اس کا بس چلے تو ساری زندگی کھانا کھائے بغیر کام کرتا رہے۔’’
‘‘دیکھ لیں گے۔ چھوڑجاؤ۔’’ تاجر نے بے دلی سے کہا۔ یہ الیوشا کی نئی زندگی کا آغاز تھا۔
تاجر کا خاندان زیادہ بڑا نہیں تھا۔ بوڑھی ماں اور بیوی کے علاوہ دو بیٹے تھے، جن میں سے ایک تعلیمی سرگرمیوں میں نمایاں اور دوسرا دنیاوی معاملات میں ہوشیار تھا۔ سب سے چھوٹی بیٹی تھی جو ہائی اسکول کے آخری درجہ میں تھی۔
ابتدا میں الیوشا کسی کو پسند نہیں آیا۔ وہ کسان زادہ تھا اور انہیں اب تک اس کا وجود کھیت کی مٹی سے اٹا ہوا لگتا تھا۔ اس کا لباس دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے اس نے پورا بدن ایک چادر سے ڈھک لیا ہو۔ اسے مذہبی لوگوں سے گفتگو کا ڈھنگ نہیں آتا تھا اور وہ معزز افراد کے احوالیہ جملوں میں استعمال ہونے والے الفاظ سے ناواقف تھا۔
بہرحال کچھ دنوں بعد تاجر کے گھروالے الیوشا کے عادی ہوگئے۔ بالآخر اس کی محنتی طبیعت نے ان کا دل خوش کردیا تھا۔ انہیں معلوم ہوگیا کہ وہ کسی کام، کسی بات کا برا نہیں مانتا۔ پلٹ کر جواب نہیں دیتا اور ایک کام ختم کرنے کے بعد بغیر دم لیے دوسرا کام شروع کردیتا ہے۔
آہستہ آہستہ تاجر کے گھر کا سارا کام الیوشا کے سپرد ہوگیا۔ جتنی تیزی سے وہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتا گیا، اتنی تیزی سے اس کے فرائض میں اضافہ ہوتا گیا۔ وہ علی الصبح بیدار ہوتا اور یکسوئی کے ساتھ ہر کام نمٹاتا جاتا۔ تاجر کی بیوی اور اس کی ماں اور بیٹی اور بیٹے اور خادمہ اور خانساماں چھوٹے بڑے کاموں کے سلسلے میں اسے یہاں وہاں بھیجتے رہتے اور وہ صبح سے شام تک چاروں سمت گردش کرتا نظر آتا۔
اسے تمام دِن اس طرح کے جملے سننے پڑتے:
‘‘الیوشا دوڑکر جاؤ اور اسے یہیں لے آؤ۔’’
‘‘ذرا اس کا خیال رکھنا الیوشا۔’’
‘‘واپسی پر اس کی طرف سے بھی ہوتے آنا اور....یہ نہ سنوں کہ تم بھول گئے تھے۔’’
‘‘ہاں، ہاں! یہ بھی ضروری ہے۔’’
الیوشا سب کی سنتا، یاد رکھتا، مسکراتا رہتا اور ایک کے بعد دوسرا کام کرتا چلا جاتا۔
کچھ عرصے بعد الیوشا کے اونچے جوتے اُدھڑنے لگے اور جگہ جگہ سے اس کی ایڑیوں اور پنجوں کی کھال جھلکنے لگی۔ تاجر نے اسے جوتوں کا نیا جوڑا منگوادیا۔ نئے جوتے دیکھ کر الیوشا کا چہرہ جگمگانے لگا، مگر نئے جوتوں نے اس کے پرانے پیروں کو فوراً قبول نہیں کیا اور شام تک وہ جوتوں کے کاٹنے سے بے حال ہوگیا۔ اسے یہ خوف بھی تھا کہ نئے جوتوں کے پیسے اس کی تنخواہ سے کاٹ لیے جائیں گے اور جب اس کا باپ اس کی تنخواہ وصول کرے گا تو اس پر بہت خفا ہوگا۔
کچھ عرصے سے اس کا باپ اسے مسلسل تنبیہ کررہا تھا کہ وہ اپنے جوتے بہت تیزی سے گھِسارہا ہے اور اس سلسلے میں اسے احتیاط برتنی چاہیے۔
الیوشا منہ اندھیرے اٹھ کر آتش دان کے لیے لکڑیاں تراشتا۔ صحن اور بیرونی احاطے کی صفائی کرتا۔ گھوڑوں کا راتب اور گائے کا چارا تیار کرتا۔ چولہا گرم کرتا۔ گھر بھر کے جوتے چمکاتا۔ مالک کے کپڑے جھاڑکر دھوپ میں پھیلاتا۔ دیواریں اور فرنیچر پونچھتا۔ پھر وہ خانساماں کے کہنے پر سودا لینے بازار کا رُخ کرتا یا خادمہ کی ہدایت پر برتن دھونے لگتا۔ اس سے فارغ ہوتا تو اسے کسی کے نام کی چٹھی دے کر شہر کے دوسرے حصے میں بھیجا جاتا اور واپسی پر چھوٹی بیٹی کو اسکول سے لانے کی ذمہ داری سونپی جاتی۔ اس کے باوجود کوئی نہ کوئی بول پڑتا:
‘‘الیوشا! خدا کے بندے کہاں رہ گئے تھے.... اچھا اب فوراً جاؤ، اور ....’ اور الیوشا فوراً جاتا اور تندہی سے نئے کام میں مصروف ہوجاتا۔
فرصت کا لمحہ ملتا تو وہ روٹی پر سالن ڈال کر کھانے لگتا، لیکن اسی دوران کوئی کام آپڑتا تو وہ روٹی کو گول بناکر ہاتھ میں لیے اپنے ہدف کی طرف دوڑ پڑتا۔ خادمہ اسے کھانے کے وقت پر نہ پہنچنے پر ڈانٹتی، لیکن اس کی مجبوری پر رحم کھاکر وہ اس کے لیے کچھ نہ کچھ بچاکر بھی رکھ لیتی تھی۔
چھٹیوں کے اوقات میں پہلے سے زیادہ کام ہوتا تھا، لیکن الیوشا کو تعطیلات پسند تھیں کیونکہ سب لوگ اسے ٹپ جو دیتے تھے۔ جو زیادہ نہیں ہوتی تھی، لیکن یقینی طور پر اس کے پاس ساٹھ کوبک* kopeks تک رقم جمع ہوجاتی تھی، تنخواہ کے علاوہ اس کی اپنی ذاتی رقم۔
الیوشا اپنی اجرت پر نظریں کبھی نہیں ڈالتا تھا، جو اس کے والد آکر تاجر سے لے جاتے تھے۔ جنہوں نے نئے جوتے خرید نے پر الیوشا کو ڈانٹا بھی تھا۔
جب اس نے تاجر کی خادمہ تانیا Ustinia کے مشورے پر دو روبل rubles بچائے تو اس نے اپنے لیے ایک سرخ بُنا ہوا جیکٹ خریدا، جیسے پہن کر وہ بہت خوش ہوتا تھا ، اتنا خوش کہ، جب تک جیکٹ اس کے بدن پر ہوتا خوشی کے مارے اس کا منہ بند نہیں ہوتا تھا۔
الیوشا زیادہ تر خاموش رہتا تھا۔ جب اسے بات کرنا ہی پڑجاتی تو وہ جملوں کی جگہ محض الفاظ بول کر اپنا مدعا بیان کرتا۔ اگر کوئی اس سے پوچھتا کہ کیا وہ فلاں کام کرسکتا ہے؟ ‘‘کیوں نہیں؟’’ وہ جواب دیتا، اور مخاطب کا جملہ مکمل ہونے سے قبل ہی کام شروع کردیتا تھا۔ اسے کوئی دُعا یاد نہیں تھی۔ بچپن میں اس کی ماں نے اسے چند دُعائیں یاد کرائی تھیں جو وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھول گیا تھا۔
اس طرح الیوشا نے دو برس گزاردیے۔ پھر ایک ایسی بات ہوئی جو اس کی زندگی میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
الیوشا جانتا تھا کہ ہر آدمی کو دوسرے آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی نہ کسی سطح پر سب ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ اس لیے دُنیا میں انسانوں کے انسانوں سے تعلقات قائم ہیں، لیکن یہ بات الیوشا کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی کہ کوئی صورتِ حال ایسی بھی ہوتی ہے جب آدمی چاہتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کے ساتھ رہے جبکہ اسے دوسرے سے کوئی کام بھی نہیں لینا ہوتا۔
انسانوں کے درمیان ایسا بھی تعلق ہوسکتا ہے! یہ الیوشا کے لیے انکشاف تھا، اور یہ بات تانیا کے توسط سے اس پر منکشف ہوئی تھی۔ تانیا نوجوان، یتیم لڑکی تھی جو تاجر کے گھر خادمہ کی حیثیت سے کام کرتی تھی۔ وہ بھی الیوشا کی طرح محنتی طبیعت کی تھی، اور اسے الیوشا کی یکسوئی پر پیار آتا تھا۔ اسے دیکھ کر الیوشا کو پہلی بار محسوس ہوا کہ دنیا میں کوئی ایسا بھی ہے جسے اس کے کام کی نہیں، بلکہ خود اس کی ضرورت ہے۔
بچپن میں جب الیوشا کی ماں اس سے ہمدردی کا اظہار کرتی تھی تو وہ حیران نہیں ہوتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ تمام مائیں اپنے بچوں سے پیار کرتی ہیں، لیکن تانیا نے اسے حیران کردیا تھا۔ اس کا الیوشا سے کوئی رشتہ نہیں تھا، مگر پھر بھی وہ اس کے لیے مکھن لگی روٹی بچاکر رکھتی تھی۔ الیوشا چپڑی روٹی کھاتا تو وہ اس کے سامنے بیٹھ کر خاموشی سے اسے دیکھتی رہتی۔ اس دوران الیوشا کی نظریں اس سے ملتیں تو وہ بے ساختہ ہنس پڑتی۔ ایک لمحے کو الیوشا جھینپ جاتا اور پھر خود بھی ہنسنے لگتا۔یہ صورتِ حال اتنی انوکھی اور پُرکیف تھی کہ ابتدا میں الیوشا خوف زدہ سا ہوگیا۔ اسے خیال آیا کہ وہ پہلے جیسی تیزرفتاری سے کام نہیں کرسکے گا۔
تانیا نے اس کی زندگی میں وہ دریچہ کھول دیا تھا جہاں سے اس نے پہلی بار پھول اور تتلیاں دیکھی تھیں۔ اس سے پہلے بھی اسے یہ چیزیں کہیں نہ کہیں نظر آتی رہی تھیں، لیکن فرصت نہ ہونے کے باعث وہ انہیں کبھی صحیح طور پر دیکھ نہیں سکا تھا۔
کام کے دوران جب اس کی نظر اپنی پتلون کے اس حصے پر پڑتی جو تانیا نے مہارت سے رفور کیا ہوتا تو وہ بے اختیار کہتا: ‘‘شکریہ تانیا، شکریہ! شکریہ!!’’
جب بھی ممکن ہوتا، دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے، ہنستے اور اپنے بچپن کے واقعات دُہراتے۔
تانیا کو باتیں کرنے کا شوق تھا۔ اس نے الیوشا کو بتایا کہ کس طرح اس نے بچپن میں اپنے والدین کو یکے بعد دیگرے مرتے دیکھا اور پھر کس طرح وہ اپنی خالہ کے پاس پہنچ گئی۔ الیوشا نے سن رکھا تھا کہ گاؤں سے کام کی تلاش میں شہر آنے والے اکثر لڑکے گھریلو خادماؤں سے شادی کرلیتے ہیں۔
ایک مرتبہ تانیا نے الیوشا سے پوچھا کہ اس کا باپ اس کی شادی کے بارے میں کیا ارادہ رکھتا ہے؟ ‘‘معلوم نہیں!’’
الیوشا نے کندھے اُچکاکر جواب دیا۔ ‘‘بہرحال گاؤں کی لڑکی سے تو شادی مشکل ہے۔’’
‘‘تو تم کسی کو پسند کرتے ہو؟’’ تانیا نے مسکراتے ہوئے کہا۔
‘‘میں تم سے شادی کروں گا!’’ الیوشا نے کسانوں کی پیدائشی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ‘‘تم کروگی؟’’
‘‘لو اور سنو! پیالہ مجھ سے شادی کرے گا!’’ یہ کہہ کر تانیا اس کی سادہ لوحی اور بے باکی پر ہنسنے لگی۔ پھر یکدم سنجیدہ ہوکر بولی:
‘‘کیوں نہیں الیوشا! کیوں نہیں!’’
ایک ہفتے بعد الیوشا کا باپ اس کی تنخواہ وصول کرنے شہر آیا۔ تاجر کی بیوی تک خبر پہنچ چکی تھی کہ الیوشا پر تانیا سے شادی کرنے کی دُھن سوار ہے۔ اس نے اپنے خاوند کو پہلے ہی ہوشیار کردیا تھا۔
‘‘شادی کے بعد کوئی لڑکی اتنی محنت نہیں کرسکتی۔ بچوں کے ساتھ تانیا ہمارے لیے بے کار ہوجائے گی۔’’
تاجر نے الیوشا کی تنخواہ اس کے باپ کی جانب بڑھائی تو وہ ہمیشہ کی طرح کھل اُٹھا۔ ‘‘میرا بیٹا کیسا کام کررہا ہے؟ انکار کرنا تو وہ جانتا ہی نہیں۔’’
‘‘جہاں تک کام کا تعلق ہے۔’’ تاجر سنجیدہ لہجے میں بولا۔ ‘‘مجھے کوئی شکایت نہیں، مگر وہ ہماری خادمہ سے شادی کے خواب دیکھ رہا ہے۔ یہ ہمارے لیے سودمند نہیں ہوگا۔’’
‘‘ارے اس کی یہ جرات....؟؟’’
الیوشا کے باپ نے حیرت سے کہا۔ پھر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ پریقین انداز میں بولا ۔
‘‘آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں یہ معاملہ ختم کرکے جاؤں گا۔’’
جب الیوشا کوئی کام نمٹاکر پھولی ہوئی سانس کے ساتھ گھر لوٹا تو اس کا باپ اس کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ ‘‘میں تمہیں سمجھ دار اور سعادت مند بیٹا سمجھتا تھا لیکن....یہ سب کیا ہے؟’’
‘‘کچھ بھی نہیں.... یہ کہ.... کچھ بھی تو نہیں....’’
‘‘کیا کچھ بھی نہیں؟ .... شادی کا خیال دل سے نکال دو۔ جب وقت آئے گا میں خود تمہاری شادی کراؤں گا.... کام کی عورت سے!.... شہر کی مکار عورتوں سے دور رہو۔ سمجھے؟’’
اس کا باپ دیر تک اسے تند لہجے میں نصیحتیں کرتا رہا اور وہ سر جھکائے سنتا رہا۔ جب وہ خاموش ہوا تو الیوشا کے چہرے پر وہی تبسم پھیل گیا۔
‘‘تو پھر؟’’ باپ کا لہجہ سوالیہ ہوگیا۔
‘‘میں یہ معاملہ ختم سمجھوں؟’’
‘‘جی ہاں! ’’ الیوشا نے اثبات میں سر ہلایا۔
جب اس کا باپ رخصت ہوگیا تو تانیا کمرے میں داخل ہوئی۔ وہ پردے کے پیچھے کھڑی سب کچھ سنتی رہی تھی۔ اس کی آنکھیں نم تھیں۔
‘‘ہمیں یہ معاملہ ختم سمجھنا چاہیے۔’’ الیوشا نے نرمی سے کہا۔تانیا نے پلکیں جھپکائیں تو دو آنسو اس کے رخساروں پر واضح لکیریں بناگئے۔
الیوشا نے نظر بھر کر دیکھا۔ گہری سانس لی اور نحیف آواز میں کہا: ‘‘کیا کریں.... سب ناراض ہورہے ہیں۔۔۔ بھولنا ہی پڑے گا۔’’
رات کو سونے سے قبل گھر کی کھڑکیاں بند کرنے کے دوران جب وہ بڑی خوابگاہ میں داخل ہوا تو تاجر کی بیوی اسے دیکھتے ہی بولی:
‘‘باپ سے ملاقات ہوگئی؟ اب سب کچھ بھول کر کام میں دل لگاؤ۔’’
‘‘لگتا ہے بھولنا ہی پڑے گا’’ الیوشا نے مسکراکر کہا اور اچانک دیوار کی طرف منہ کرکے رونے لگا۔ اس دن کے بعد الیوشا نے کبھی تانیا کا ذکر نہیں کیا۔ وہ پہلے سے بھی زیادہ کام میں مصروف رہنے لگا تھا۔
کرسمس کی سردیوں کی ایک صبح کلرک نے اسے چھت سے برف صاف کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ وہ برف کے ڈھیر بناکر نیچے دھکیلنے لگا اور کچھ ہی میں اس نے پوری چھت صاف کردی۔ اس کے بعد وہ روشن دانوں کے چھجوں پر جمی برف ہٹانے کے لیے جھک رہا تھا کہ اس کا پاؤں پھسلا اور وہ نیچے آگرا۔ اس کے جسم کا نچلا حصہ برف کے ڈھیر میں دھنستا چلا گیا، لیکن اس کا سر آہنی جنگلے سے ٹکراگیا۔ گرنے کے بعد وہ اُٹھ کھڑا ہوا، مگر فوراً ہی لڑکھڑاکر دوبارہ برف پر لیٹ گیا۔
تاجر کی بیٹی اور تانیا دوڑتی چلی آئیں۔
‘‘الیوشا تم ٹھیک ہو؟’’
‘‘تمہیں چوٹ لگی ہے؟’’
دونوں کی آواز میں گھبراہٹ تھی۔
‘‘ہاں! ذرا چوٹ لگ گئی۔’’ اس نے دھیرے سے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔ ‘‘لیکن ٹھیک ہے۔’’
اس نے ایک مرتبہ پھر کھڑے ہونے کی کوشش کی اور دوبارہ ناکام ہونے پر سر واپس ٹیک کر مسکرانے لگا۔
اسے لوگوں کی مدد سے اُٹھاکر بستر پر لٹایا گیا۔ ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد اس سے پوچھا کہ وہ کہاں تکلیف محسوس کررہا ہے؟ ‘‘سب جگہ’’ اس نے آہستہ سے کہا۔ ‘‘لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سب ٹھیک ہے۔’’
کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور بولا: ‘‘روشن دانوں کی برف رہ گئی، مجھے ڈر ہے کہ مالک ناراض نہ ہو جائے اور ابا کو نہ بلوالے۔’’
الیوشا دو دن تک بستر پر رہا اور تیسرے دن انہوں نے پادری کو بلوالیا۔
‘‘تم مررہے ہو الیوشا!’’ تانیا کا لہجہ سوالیہ تھا۔
‘‘ہم ہمیشہ رہنے کے لیے تو نہیں آتے۔ایک دن مرنا سبھی کو ہوتا ہے۔’’ الیوشا نے فطری صاف گوئی سے جواب دیا۔
‘‘شکریہ تانیہ ، تم نے مجھ بہت خوشی دی... ’’ پھر چند لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ بولا: ‘‘اور دیکھو! یہ بھی تو اچھا ہی ہوا۔ انہوں نے ہمیں شادی نہیں کرنے دی۔ تب ہمیں کتنا افسوس ہوتا۔’’
وہ دھیرے دھیرے پادری کے کہے ہوئے الفاظ دُہراتا رہا۔ اسے خیال آرہا تھا کہ اگر آدمی سب کی بات مانتا رہے اور کسی کو ناراض نہ کرے تو نہایت اطمینان سے زندگی گزارتا ہے۔
‘‘اگر یہاں ایسا ہوتا ہے۔’’ اس نے سوچا۔ ‘‘تو اس جہان میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔’’
اس کے بعد اس نے زیادہ باتیں نہیں کیں۔ بس وقفے وقفے سے پانی مانگتا رہا۔
پھر اچانک وہ کسی خیال پر چونک گیا۔ یوں لگا جیسے کوئی بات اسے حیران کررہی ہے۔ آنکھوں میں پھیلی حیرت کے ساتھ اس نے ایک گہری سانس لی۔ بازو اور ٹانگیں سیدھی کیں اور دم توڑ دیا۔
روسی ادب کے مایہ ناز افسانہ نگار |
لیو ٹالسٹائی ۔1828ء تا 1910ء |
لیوٹا لسٹائی (9 ستمبر 1828ء۔ 20 نومبر 1910ء) روس کی ریاست تُلّاTula میں یسنایا Yasnaya کے جاگیردار کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے لہٰذا وہ اور اُن کے بہن بھائی مختلف رشتہ داروں کے ہاں پرورش پاتے رہے۔بچپن میں فرانسیسی اور جرمن استادوں سے تعلیم حاصل کی، سولہ سال کی عمر میں اس نے کازاں یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا لیکن اُن کے اساتذہ انہیں نالائق طالب علم خیال کرتے تھے، ساتھی طلٍبا اور اساتذہ کے منفی رویے کے باعث انہوں نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آبائی قصبے یسنایا لوٹ آئے۔ کئی سال تک ماسکو اور پیٹرس برگ میں لوگوں کی سماجی زندگی کا مطالعہ اورکسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے رہے ۔1851ء میں فوج میں شامل ہوکر ترکو ں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا لیکن جلد ہی وہ فوجی زندگی سے اکتا گئے اور پیٹرس برگ آگئے ۔ آپ نے پہلا ناول 1856ء میں بچپن کے نام سے لکھا لیکن آپ کی شہرت اس وقت پھیلی جب اس نے جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں سیواتوپول کی کہانیاں لکھیں ۔ پھر مغربی یورپ کی طویل سیاحت کی ، بعد میں اپنی جاگیر پر واپس آئے کسانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے ۔ اس دوران اس نے اپنا زندہ جاوید امن اور جنگWar & Peace اور اینا کرینینا Anna Kareninaلکھ کر بےپناہ شہرت حاصل کی۔
1876ء کے بعد سے روسی کلیساکے جمود زدہ نظریات کے خلاف خیالات آپ کے ذہن میں چھائے رہے اور آپ نے عیسائیت کی نشاۃ ثانیہ کا اپنا نظر یہ وضع کیا اور انسانی محبت ، سکون اور اطمینان قلب اور عدم تشدد کو اپنا مسلک قرار دیا ، ساتھ ہی ایک اعتراف کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اپنے نظریات کو پیش کیا اور ذاتی ملکیت کے تصور کو رد کیا، انسان سے انسان کے جبرو استحصال کی شدت سے مذمت کی ۔ وہ زبان اور قلم سے جمہوریت، مساوات اور اخوت کی تلقین کرنے لگے ۔ آپ کے انقلابی خیالات روس سے باہر بھی مقبول ہونے لگے لوگوں پر آپ کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ روس کی حکومت کو آپ کی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے کی جرات نہ ہوئی۔ آپ اپنے نظریات کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن خاندان کے افراد اس کے مخالف تھے ، لہٰذا دل گرفتہ ہو کر گھر چھوڑ دیا اور اپنے حصے کی ساری جاگیر اور دولت کسانوں اور مزدورں میں تقسیم کر دی، زندگی کے آخری لمحوں تک تن کے دو کپڑوں کے علاوہ آپ کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ آخر کار 20نومبر 1910ء کو ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کسمپرسی کی حالت میں وفات پاگئے ۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کہتے تھے کہ عیسائی دنیا میں پاکیزہ زندگی، روحانیت، ترک و تجرید، درویشی و ایثار کے اعتبار سےآپ جیسی مثال مشکل سے ملے گی ۔
|
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں