انگریزی ادب سے ایک شاہکار سائنس فکشن کہانی

غیر مرئی شخص


معروف سائنس فکشن ادیب رابرٹ سلور برگ کی سائنسی کہانیاں خلائی سفر، ٹائم مشین، ماضی اور مستقبل کی  سیر،  حیرت انگیز ایجادات، روبوٹ ، کائنات میں نامعلوم دنیاؤں کی کھوج، انجان مخلوقات سے  ملاقات   ، ماضی کی ترقی یافتہ اقوال اور مستقبل کی انوکھی دنیاؤں جیسے اہم سائنسی موضوعات  کا احاطہ تو کرتی ہی  ہیں  مگر ساتھ ہی انسانی فطرت اور انسانی کردار کے مخفی گوشوں کو بھی بڑی خوبصورتی سے قاری کے سامنے لاتی ہیں۔

زیر نظر کہانی رابرٹ  سلور برگ  کی شاہکار کہانی  To See The Invisible Man   کا ترجمہ ہے،  جو انہوں نے 1963ء میں لکھی تھی اور امریکی سائنسی رسالےWorlds of Tomorrow میں شایع ہوئی تھی ۔بعد میں اسے رابرٹ سلورگ برگ کی کہانیوں کے مجموعے The Best of Robert Silverberg  میں بھی شامل کیا گیا۔اس کہانی کےانگریزی متن کو درج ذیل لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

https://www.scribd.com/document/140169435/

1960  کی دہائی میں لکھی اس کہانی میں رابرٹ سلوربرگ  نے  2104ء  کا دور دکھایا ہے اور اس دور میں میں  ڈرون  کیمروں اور  اسمارٹ فونز ویڈیو  کالنگ کا تصور  پیش کیا تھا، یہ تصور آج حقیقت کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔    رابرٹ سلوربرگ کی اس کہانی کو  1985ء میں امریکی ٹی وی چینل CBS کی سائنس فکشن سیریز The Twilight Zone میں ایک ڈرامے کے قالب میں بھی بھی ڈھالا جاچکا  ہے۔   جسے کہانی کے آخر میں دئیے یوٹیوب لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ 



========================================
انہوں نے باقاعدہ مقدمہ چلا کر مجھے مجرم ٹھہرایا اور مجھے ایک سال تک غیر مرئی یا غیبی انسان بنے رہنے کی سزا سنادی۔    11 مئی 2104  ء   سے مجھ پر یہ  سزا نافذ کردی گئی۔  سزا سنانے سے قبل وہ مجھے کمرہ عدالت کے نیچے ایک تہہ خانے میں لے گئے اور وہاں انہوں نے میرے ماتھے کو اس سزا کے خاص نشان سے داغ دیا۔ یہ کام میونسپلٹی کے دو تنخواہ دار مسٹنڈوں نے انجام دیا۔ ایک نے مجھے کرسی پر بٹھا دیا اور دوسرے نے خاص نشان والی ایک مہر ہاتھ میں لی اور ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہنے لگا 
‘‘اس سے تمہیں ذرا سی بھی تکلیف نہیں ہوگی۔’’ 
یہ کہتے ہوئے اس نے وہ مہر میرے ماتھے پر لگا دی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے ٹھنڈک کا احساس ہوا اور بس.... 
‘‘اب میرے لیے کیا حکم ہے....؟’’ میں نے ان سے پوچھا۔ لیکن ان میں سے کسی نے بھی میری بات کا جواب نہ دیا۔ وہ مڑے اور ایک لفظ کہے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ جاتے ہوئے دروازہ وہ کھلا ہی چھوڑ گئے تھے۔ اب یہ میری مرضی پر تھا کہ میں وہاں سے چلا جاؤں یا وہیں پڑا سڑتا رہوں.... اب پورے ایک سال تک کوئی شخص مجھ سے بات نہیں کرے گا۔ میری طرف نہیں دیکھے گا۔ دیکھے گا تو صرف اس خاص نشان کے علاوہ میرا سارا وجود سر سے پاؤں تک دوسروں کی نظروں سے غائب رہے گا۔ ایسا پورے ایک سال تک ہوگا !....یہی میری سزا تھی۔  
سزا کے طور پر میرا دوسروں کی نظروں سے غائب ہونا صرف ایک استعارہ   تھا۔ میرا اپنا جسم بالکل اسی طرح تھا۔جسم کے تقاضوں اور احتیاجات میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ لوگ مجھے دیکھ سکتے تھے مگر دیکھ سکنے کے باوجود نہیں دیکھتے تھے۔  ہے نا عجیب و غریب سزا....؟  ویسے میرا جرم بھی عجیب و غریب تھا۔ شقادت   یعنی سرد مہری کا جرم ۔  میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ  اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے سے انکار کردیا تھا۔ میں چار مرتبہ اس جرم کا ارتکاب کرچکا تھا اور اس کی سزا یہ تھی کہ مجھے ایک سال تک دوسروں کی نظروں سے غائب کردیا جائے۔ 
مجھ پر باقاعدہ مقدمہ چلایا گیا تھا۔ باقاعدہ فرد جرم عائد کی گئی  سزا سنائی گئی اور سزا کا خاص نشان میرے ماتھے پر داغ دیا گیا ۔ اب میں دوسروں کی نظروں سے مجازاً غائب تھا....! میں تہہ خانے کی سرد فضا سے نکلا اور باہر کی دنیا میں آگیا۔ وہ  دنیا جو طرح طرح کے رنگا رنگ ہنگاموں اور گرما گرم دلچسپیوں سے بھرپور تھی۔ سہ پہر کے وقت بارش ہوچکی تھی۔ شہر کی گلیاں اور بازار دھل کر خشک ہورہے تھے۔ باغات سے سوندھی سوندھی خوشبو آرہی تھی۔ کیا مرد، کیا عورتیں، سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف آجارہے تھے۔ میں ان کے درمیان سے ہو کر گزرتا رہا مگر کسی نے میری طرف دھیان نہ دیا۔ اس کی وجہ صاف ظاہر ہے۔ سزا یافتہ  غائب شدہ انسان سے بات کرنا بھی مستوجب سزا ہے۔ جرم کی نوعیت کے لحاظ سے یہ سزا ایک مہینے سے ایک سال تک دوسروں کی نظروں سے غائب رہنا ہوسکتی ہے۔لیکن میں یہ سوچ کر حیران ہورہا تھا کہ معلوم نہیں، اس قانون  پر عمل درآمد ہوتا بھی ہے یا نہیں....؟ ہوتا بھی ہے تو اس میں کس حد تک سختی رکھی جاتی ہے....؟
اس سوال کا جواب مجھے جلد ہی مل گیا۔ میں ایک لفٹ میں داخل ہوا اور معلق باغات کی گیارھویں منزل پر پہنچ گیا۔ اس منزل پر بہت سے  درخت تھے  اور ان وہاں بیٹھ کر میں اپنا موڈ خوشگوار  کرنا چاہتا تھا۔ میں  ٹوکن لینے کے لیے  کاؤنٹر کی طرف بڑھا۔ ایک بھرے چہرے والی عورت کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھی تھی۔ میں نے جیب سے سکہ نکال رک کاؤنٹر پر رکھا اور کہا ‘‘ایک ٹوکن۔’’
عورت کی آنکھوں میں خوف سا لہرایا اور پھر غائب ہوگیا۔ ‘‘ایک ٹوکن’’ میں نے دوبارہ کہا۔
اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ میرے پیچھے دوسرے لوگوں کی قطار تھی۔ میں نے پھر اپنا سوال دہرایا۔ عورت نے بےبسی سے اوپر نگاہیں اٹھائیں اور میرے بائیں کندھے سے پیچھے سے ایک آدمی کا ہاتھ آگے بڑھا اور اس نے کاؤنٹر پر ایک سکہ ڈالا۔ عورت نے وہ سکہ اٹھایا اور اس آدمی کو ٹوکن دے دیا۔ اس آدمی نے ٹوکن دروازے پر نصب مشین میں ڈالا اور باغ کے اندر چلا گیا۔
‘‘مجھے بھی تو ٹوکن دیجیے!’’ میں نے تیزی اور کسی قدر غصہ  سے کہا۔ دوسرے لوگ مجھے ایک طرف دھکیل دھکیل کر آگے بڑھ رہے تھے۔ تب مجھے اپنے دوسروں کی نظروں سے غائب ہونے کی سزا اور اس سزا کی نوعیت کا کچھ کچھ احساس ہوا۔ وہ لوگ مجھ سے ایسا سلوک کر رہے تھے گویا وہ مجھے بالکل دیکھ ہی نہیں رہے ہیں۔ تاہم اس سزا کے  کچھ فائدے بھی تھے۔ میں نے اپنا سکہ اٹھا کر واپس جیب میں ڈال لیا اور کاؤنٹر کے پیچھے جا کر وہاں سے ایک ٹوکن اٹھا لیا۔ میں نے اس ٹوکن کے لیے کوئی رقم ادا نہیں کی ،  مگر اس سے کیا فرق پڑتا تھا چونکہ میں دوسروں کی نظروں سے غائب تھا، اس لیے کوئی مجھے روک بھی نہیں سکتا تھا۔ میں نے ٹوکن مشین میں  ڈالا اور باغ کے اندر داخل ہوگیا۔
پہلے  باغ میں آنا میرے موڈ کو خوشگوار کردیتا تھا مگر کچھ دیر وہاں پھرنے کے بعد وہاں موجود لوگوں کے نظر انداز کرنے پر  ایک ناقابل بیان بے چینی  ہونے لگی اور مجھے وہاں مزید ٹھہرے رہنے کی کوئی خواہش نہ رہی۔ باغ سے باہر نکلتے ہوئے میں نے کیکٹس کے ایک کانٹے پر اپنی انگلی رکھ کر ذرا دبایا تو خون نکل آیا۔ مجھے کچھ اطمینان ہوا کہ چلو  یہ کیکٹس  کاپودا  تو میرا وجود تسلیم کرتا ہے۔ 
میں اپنے اپارٹمنٹ میں واپس آگیا۔ میری کتابیں میری راہ دیکھ رہی تھیں مگر مجھے ان میں کوئی رغبت محسوس نہیں ہورہی تھی۔ میں بستر پر دراز ہوگیا اور اپنی سزا کے بارے میں سوچنے لگا ۔ میں  نے اپنے آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کی یہ سزا کوئی ایسی سخت سزا نہیں ہے۔ زندگی بسر کرنے کے لیے میں نے کبھی دوسرے انسانوں پر انحصار نہیں کیا تھا۔ اب اگر مجھے دوسرے انسانوں سے سردمہری کے ساتھ پیش آنے پر سزا دی گئی ہے تو مجھے ان کی کیا پروا ہوسکتی ہے....؟ وہ بڑے شوق سے مجھے نہ دیکھیں! ایک بار نہیں، سو بار  مجھے نہ دیکھیں!
میں نے سوچا کہ ا س سزا کے ذریعے تو مجھے آرام ملے گا۔ ایک سال  تک مجھے کسی قسم کا کام نہیں کرنا پڑے گا۔ دوسروں کی نظروں سے غائب رہنے والے آدمی تو کام نہیں کرتے اور نہ انہیں کام کرنے کی ضرورت ہی ہوتی ہے۔ وہ کام کر بھی کیسے سکتے ہیں....؟ ایسے ڈاکٹرکے پاس کون سا مریض جائے گا جو دکھائی نہ دے ....؟  ایسے کلرک کو فائل یا دوسرے کاغذات کون دے گا جو نظر نہ آرہا ہو....؟ 
تو گویا یہ طے ہے کہ ایک سال تک مجھے کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔ کام نہیں ہوگا تو کوئی کمائی بھی نہیں ہوگی.... مگر کمائی کی ضرورت کسے  ہے....؟ مالک مکان نظر نہ آنے والے انسان سے تو کرایہ لینے سے رہا اور نظر نہ آنے والے انسان بغیر کسی خرچ کے جہاں جی چاہے آجا سکتے ہیں۔ باغات کی سیر کے دوران یہ بات میرے تجربے میں آہی چکی تھی!
میں محسوس کر رہا تھا کہ میرا دوسروں کی نظروں سے غائب ہونا معاشرے کے ساتھ ایک مذاق کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ سزا تو میرے لیے ایک سال تک مکمل اور بھرپور آرام کے سوا کچھ نہیں تھی۔ مجھے یقین تھا کہ میں اس سے لطف اندوز ہوں گا مگر اس کے کچھ عملی نقصانات بھی تھے۔ اپنی سزا کی پہلی رات میں نے شہر کے نفیس اور مہنگے  ترین ہوٹل کا رخ کیا۔ میرا ارادہ تھا کہ اپنے لیے بہترین کھانا منگواؤں گا اور بل پیش کیے جانے سے پہلے ہی کھسک جاؤں گا۔ کسی کو میری اس حرکت کی خبر تک نہ ہوگی! مگر ہوٹل میں جا کر میری سوچیں الجھ سی گئیں۔  ہوٹل کے بیرے بار بار میرے دائیں بائیں سے گزرتے رہے۔ جلد ہی مجھے احساس ہوگیا کہ کوئی بیرا نظر نہ آنے والے گاہک سے آرڈر لینے نہیں آئے گا!
میں نے سوچا کہ ہوٹل کے کچن کا رخ کروں اور وہاں جس کھانے سے چاہوں، اپنا پیٹ بھر لوں، میں چاہتا تو ہوٹل اور کچن میں سب چیزوں کو الٹ پلٹ کرکے ہوٹل کا سارا نظام تلپٹ کرسکتا تھا۔ غائب  شخص سے براہ راست جوابی کارروائی یا ارادی دفاع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اگر مجھے روکنے کے لیے کوئی کچھ کرتا  تو اس طرح وہ خود غائب  آدمی کی طرف متوجہ ہونے کی بنا پر مستوجب سزا ٹھہرتا ۔
میں ہوٹل سے نکل آیا۔ نفیس ترین ہوٹل سے کھانا مفت کھانے کے بجائے میں نے ایک آٹومیٹک ہوٹل سے اپنا پیٹ بھرا جہاں مشین میں سکہ ڈالنے پر مطلوبہ کھانا سامنے آجاتا تھا۔ کیکٹس  کے درختوں کی طرح مشینیں بھی میرے وجود کے احساس سے بےنیاز نہیں ہوئی تھیں مگر .... پورا ایک سال انسانوں کے بجائے مشینوں کی صحبت میں گزارنا۔ یہ تصور میرے لیے وحشت انگیز تھا۔ اسی وجہ سے رات کو میں ٹھیک طرح سو بھی نہ سکا۔
میری سزا کا دوسرا دن میرے لیے ایک اور امتحان کا دن تھا۔ میں ایک لمبی واک  کے لیے نکل گیا۔ چلتے ہوئے میں نے یہ احتیاط ملحوظ رکھی کہ سڑک کے بجائے فٹ پاتھ پر ہی چلوں۔  میں نے چند شرارتی لڑکوں کے بارے میں سن رکھا تھا جو ہم جیسے سزا یافتہ لوگوں کو دھکا دے کر،  گراکر بھاگ جاتے ہیں۔  ستم ظریفی یہ ہے کہ ان لڑکوں کے خلاف کہیں شکایت بھی نہیں کی جاسکتی اور نہ قانون ایسی شرارتوں کو قابل سزا گردانتا ہے۔ اس لیے میرے لیے احتیاط سے چلنا ضروری تھا ۔  سڑکوں اور گلیوں کے فٹ پاتھ پر لوگوں کا ایک ہجوم چلتا نظر آتا تھا اور میں ان لوگوں کے درمیان سے یوں گزر رہا تھا جیسے ایک چھری مکھن کی ٹکیا میں سے گزرتی ہے۔ وہ سب میری پیشانی کا نشان دیکھتے ہی  میرے لیے راستہ چھوڑ دیتے تھے۔
دوپہر کے وقت میں نے اپنے ہی جیسے ایک سزا یافتہ نظر نہ آنے والے انسان کو دیکھا۔ وہ لمبے قد کا ادھیڑ عمر اور  خاصا معزز آدمی نظر آتا تھا ، میری اور اس کی آنکھیں ایک لمحے کے لیے چار ہوئیں اور دوسرے ہی لمحے وہ آگے بڑھ گیا۔ قانون کی رو سے ایک سزا یافتہ کسی دوسرے سزا یافتہ کو دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔ میں اس صورتحال پر محض مسکرا  کر رہ گیا۔ اس قسم کی سبکی مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتی تھی یا شاید ابھی اس کا وقت نہیں آیا تھا۔
دن کے پچھلے پہر میں ایک بڑے ہوٹل کے سوئمنگ پول سیکشن کی طرف جا نکلا،  جہاں  پر  عورتیں  اور مرد  سوئمنگ کے لیے اپنے مخصوص مختصر لباس  میں سوئمنگ اور سن باتھ میں مصروف   تھے۔ عام حالات میں میں اس  جگہ  جانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ مگر اس وقت میں اپنی نئی زندگی کی تفریحوں  میں کھویا ہوا تھا۔  وہاں موجود ملازمین  نے میری طرف حیرت اور خوف سے دیکھا! تاہم کسی نے مجھے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ میں ایک فاتحانہ کیفیت سے سرشار ہو کر وہاں گھومتا پھرتا رہا۔ وہاں موجود  دو چار نے نہیں، بہت سی عورتوں نے میرے ماتھے پر نمایاں داغ سے میری موجودگی کا احساس کیا ہوگا مگر وہ میری طرف سے پیٹھ پھیر کر ایسا تاثر دینے کی کوشش کر رہی تھیں جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ جیسے وہاں کوئی موجود ہے ہی نہیں.... میں چند لمحے انہیں دیکھتا اور اس ستم ظریفانہ صورتحال پر دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا۔ اپنی سزا کی بدولت میں وہاں  کھڑا  اپنی آزادی  پر مسکراتا ریا۔  
یہ سزا بھی کیسی انوکھی سزا ہے لیکن پھر ایک اور ہی احساس نے میرے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ یہ کیسا احساس تھا....؟ غم کا احساس تھا....؟ اکتاہٹ کا احساس تھا....؟ کراہت کا احساس تھا....؟
میں اس کا تجزیہ کرنے سے قاصر تھا۔ وہ ماحول جس کا تصور ہی ایک مرد کے لیے انتہائی ہیجان خیز ہوتا ہے، اس ماحول میں مجھے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا ۔ میں جلدی سے وہاں سے نکل آیا۔  کھانا بھی میں نے ایک آٹومیٹک ہوٹل سے کھایا اور اب مجھے احساس ہونے لگا تھا کہ اپنی سزا میں تفریح  کا جو رنگ مجھے دکھائی دے رہا تھا ، وہ ختم ہوگیا ہے۔
اپنی سزا کے تیسرے ہفتے میں مجھے بیماری نے آلیا۔ اس کا آغاز تیز بخار سے ہوا پھر معدے میں درد رہنے لگا۔ اس کے بعد ابکائیاں اور اسی قسم کی دیگر علامات  ظاہر ہونے لگیں۔
آدھی رات ہوتے ہوتے مجھے یقین ہونے لگا کہ میں کوئی دم کا مہمان ہوں۔ تشنج اور اینٹھن  کی تکلیف ناقابل   برداشت تھی۔ میں اپنے آپ کو جیسے تیسے گھسیٹتے ہوئے غسل خانے میں پہنچا اور اس کے آئینے میں اپنا عکس دیکھ کرحیران رہ گیا۔ درد کی شدت سے میرے چہرے کی رنگت زرد پڑ گئی تھی۔میں خاصی دیر تک اپنے غسل خانے کے فرش پر پڑا رہا۔ اس فرش کی ٹھنڈی ٹھنڈی ٹائلیں مجھے سکون سا بخش رہی تھیں۔ یکا یک میرے دماغ میں خیال آیا کہ کہیں میری یہ علامتیں اپنڈکس کے باعث تو نہیں ہیں....؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ میری آنتوں میں ورم آگیا  ہو ....؟
مجھے فوری طورپر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت تھی!
ٹیلی فون گرد سے اٹا پڑا تھا۔ محکمے والوں نے اس کا کنکشن نہیں کاٹا تھا مگر اپنی گرفتاری کے بعد سے میں نے کسی کو فون نہیں کیا تھا اور نہ کسی نے مجھے فون کرنے کی ہمت کی تھی۔ ۔ میرے دوست احباب پہلے ہی محدود تھے۔ سزا کے بعد یہ دوست احباب بھی گویا معدوم ہوگئے تھے۔ کوئی بھی مجھے فون کرکے سزا کا طوق اپنے گلے میں ڈالنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا۔ میں نے ٹیلی فون تھاما اور اس کے پینل کا بٹن دبایا۔ پینل روشن ہوگیا اور ٹیلی فون ڈائریکٹری کے روبوٹ کی مشینی آواز آئی ‘‘آپ کسی سے بات کرنا چاہتے ہیں جناب....؟
‘‘ڈاکٹر سے۔ ’’ میں نے جواب دیا۔
‘‘یقیناً! ابھی لیجیے جناب!’’ روبوٹ کی جچی تلی مشینی آواز آئی۔ روبوٹ کو سزا کے طور پر دوسروں کی نظروں سے غائب کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اس لیے وہ مجھ سے بات کرنے میں آزاد تھا۔ قانون شکنی کے کسی خدشے کے بغیر وہ آزادی کے ساتھ مجھ سے باتیں کرسکتاتھا!
ٹیلی فون کے اوپر نصب اسکرین پر ایک ڈاکٹر کی  تصویر نمودار ہویہ اور وہ مجھ سے مخاطب ہوا  ‘‘کیا تکلیف ہے آپ کو....؟’’
‘‘درد معدہ۔’’ میں نے کراہتے ہوئے جواب دیا ‘‘شاید اپنڈکس ہو!’’
‘‘ہم ابھی ایک آدمی بھیجتے....’’ وہ کہتے کہتے رک گیا۔ مجھ سے یہ غلطی ہوگئی تھی کہ شدت درد سے بےتاب ہو کر میں نے اپنا چہرہ اوپر اٹھا لیا تھا۔ ڈاکٹر نے میرے ماتھے پر نشان کو دیکھا اور دوسرے ہی لمحے اسکرین سے ڈاکٹر کی تصویر غائب ہوگئی۔ اسکرین تاریکی میں ڈوب گئی اور میں چیخ اٹھا :
‘‘ڈاکٹر ڈاکٹر!’’ لیکن وہ تو جا چکا تھا۔ میں نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا لیا۔ 
میں سوچنے لگا کہ یہ تو بات حد سے بڑھتی جارہی ہے۔ کیا ڈاکٹروں کا بقراتی  حلف نامہ اس قسم کی حرکت کی اجازت دیتا ہے....؟ کیا ایک معالج کسی مریض کی طرف سے امداد کی التجا کو رد کرسکتا ہے....؟ مگر بقراط بچارے کو اس سزا کے بارے میں کیا خبر تھی....؟ ڈاکٹر پر اس شخص کے علاج معالجے کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں  ہوتی تھی جو سزا کے طور پر دوسروں کی نظروں سےغائب تھا۔ معاشرے کے لیے تو میں گویا موجود ہی نہیں تھا۔ 
اب میں خود اپنے اور اپنی علالت کے رحم و کرم پر تھا! یہ گویا تصویر کا دوسرا رخ تھا۔ آپ درد کے ہاتھوں بےچین ہو کر بےچینی و بےقراری سے بستر میں کروٹیں بدلتے رہیں اور آپ کی طرف کوئی بھی متوجہ نہ ہو۔  اپنڈڈکس کے درد کے ہاتھوں بات یہاں تک پہنچ جائے کہ آپ کی آنت پھٹ جائے اور آپ کی جان چلی جائے تو پھر بھی کوئی آپ کی طرف متوجہ نہیں ہوگا۔  اس سے ان لوگوں کو عبرت ہوسکتی ہے جو آپ کی طرح قانون شکنی کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔
بہرحال قدرت کو  میرے حال پر رحم آیا اور میں مرنے سے بچ گیا۔ گو میرا حال ابتر ہو کر رہ گیا تھا۔ آدمی دوسروں سے بات چیت کیے بغیر ایک سال گزار سکتا ہے، وہ آٹومیٹک گاڑیوں پر سفر کرسکتا ہے، وہ آٹومیٹک ہوٹلوں سے کھانا کھاسکتا ہے مگر وہ بیمار پڑ جائے تو وہ آٹومیٹک ڈاکٹر کہاں ہیں جو اس کا علاج کریں....؟
پہلی بار مجھے احساس ہورہا تھا کہ اس سزا کی صورت میں مجھے دنیا بدر کردیا گیا ہے۔ قتل، چوری، ڈاکے اور زنا بالجبر کے مجرموں کو بھی جیل میں بیمار پڑنے پر علاج معالجے کی سہولت بہم پہنچائی جاتی ہے ۔ میرا جرم تو اتنا  شدید نہیں تھا کہ میں اس کے بدلے سزائے قید کا مستوجب ٹھہرتا مگر اس کے باوجود میری علالت پر کوئی ڈاکٹر میرا علاج کرنے کے لیے تیار نہیں تھا.... یہ تو سراسر ظلم تھا.... شدید ناانصافی تھی!
میں عالم غضب  میں ان ماہرین قانون کو گالیاں دینے لگا جنہوں نے یہ سزا تجویز کی تھی مگر میری گالیوں سے کسی کا کیا بگڑتا ۔ ہر صبح مجھے اکیلے ہی اپنی سزا کی صلیب اٹھانی ہوتی تھی.... لاکھوں انسانوں کے اس شہر میں رہنے اور چلنے پھرنے کے باوجود میں بالکل اس طرح تنہا تھا جس طرح رابنسن کروسو اپنے جزیرے میں تنہا تھا۔
میں اپنی طبیعت کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی کیفیات  بیان کروں تو کیسے کروں....؟ گزرتے وقت اور بدلتی رتوں کے ساتھ مجھے جن جن حالات و کیفیات سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ وہ ناقابل بیان حد تک عجیب و غریب تھیں۔ 
کبھی ایسے مواقع بھی ہوتے تھے جب مجھے اپنی سزا ایک نعمت محسوس ہوتی تھی کہ میں ان قوانین کی پابندی سے آزاد ہوں، جنہوں نے عام انسانوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے۔  میں کھلے بندوں چوری کرسکتا تھا۔ میں چھوٹے چھوٹے اسٹوروں میں داخل ہوتا اور کچھ بھی اٹھا لیتا۔ کوئی دکاندار مجھے روکنے کی کوشش نہ کرتا تھا۔  اسی طرح میں کئی ایسی دیگر جگہوں پر جاتا  کرتا جہاں عام حالات میں جانا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ عالی شان ہوٹلوں میں چلا جاتا تھا۔ ان کے کمروں میں ایک متقدر ہستی کی طرح چکر لگاتا تھا اور اس کے باوجود کوئی مجھے  نہیں روکتا تھا، کوئی میری طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ 
آہستہ آہستہ میری طبیعت میں تلخی بڑھتی جارہی تھی۔ معاشرے کی طرف سے برتی جانے وایل بےنیازی میرے اندر نفرت اور حقارت کے رنگ میں ڈھلتی جارہی تھی۔ میں برستی بارش میں خالی سڑکوں اور ویران  و سنسان چوراہوں میں آکراپنے ارد گرد واقع بلند و بالا عمارتوں کو مخاطب کرتے ہوئے چیختا ‘‘تمہاری ضرورت کسے ہے، مجھے تو نہیں! میں تم سب کو جوتی کی نوک پر رکھتا ہوں۔’’
میں اس طرح چیختے چلاتے ہوئے قہقہے لگانے لگتا۔ یقیناً یہ ایک طرح کی دیوانگی تھی جسے میری تنہائی کیفیت نے جنم دیا اور پروان چڑھایا تھا۔ میں تھیٹروں اور سینما ہالوں میں جا نکلتا جن کی نگاہیں اسٹیج یا اسکرین پر مرکوز ہوتیں میں ان کی نشستوں کے درمیانی راستے میں اچھل کود کرنے لگتا مگر کوئی تماشائی بھی میری اس حرکت پر اعتراض نہ کرتا۔ 
یہ دیوانگی کے لمحات تھے جب میں اپنے گرد و پیش کی ہر چیز پر نفرت اور حقارت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے قدم اٹھاتا تھا.... 
دیوانگی اور مجنونا نہ مسرت کے ان لمحات کے مقابلے میں ایسے لمحات بھی میری زندگی میں آتے تھے جب میری تنہائی میرے لیے جان لیوا عذاب بن جاتی تھی۔ میں پر ہجوم گلیوں، بارونق سڑکوں اور انسانوں سے بھرے پرے بازاروں میں چلتے چلتے تھک جاتا تھا مگر کوئی میری طرف متوجہ نہیں ہوتا تھا، کوئی میرے قریب نہیں آتا تھا.... اور تو اور کوئی فقیر تک میرے پاس نہیں بھٹکتا تھا۔ 
ایک روز یونہی چلتے چلتے میں شہر کے مضافات میں واقع ایک گندی  سی آبادی میں پہنچ گیا۔ اس آبادی میں کتنے ہی بوڑھے اور معذور لوگ درد بھری آواز میں صدا لگا لگا کر بھیک مانگ رہے تھے، وہ قریب سے گزرنے والے ہر شخص سے سوال کرتے تھے۔  میں ان کے پاس سے گزرا لیکن مجھ سے کسی نے سوال بھی نہ کیا۔ ایک بار ایک اندھا فقیر میری طرف بڑھا اور اس نے گڑگڑاتے ہوئے سوال کیا۔
‘‘خدا کے نام پر میری مد کرو۔ مجھے کچھ دو کہ میں آنکھوں کے بینک سے آنکھیں خرید سکوں۔’’
یہ پہلے براہ راست الفاظ تھے جو کسی انسان نے خاص مجھ سے مخاطب ہو کر کہے تھے۔ میرا دل بھر آیا اور میرا ہاتھ فوراً اپنی جیب کی طرف بڑھا۔ میں ان الفاظ کے لیے اس اندھے فقیر کا شکر گزار تھا اور چاہتا تھا کہ احسان مندی کے اعتراف کے بدلے اپنے پاس موجود تمام رقم اس کے حوالے کردوں۔ مگر اس سے پہلے کہ میں جیب سے رقم نکالتا، بیساکھیوں کا سہارا لیے ہوئے ایک بھکاری نہ جانے کہاں سے اور کیسے، میرے اور اندھے فقیر کے درمیان حائل ہوا۔ اس نے اندھے فقیر کے کان میں سرگوشی کی جس میں سے ‘‘غائب’’ کا لفظ ہی میرے پلے پڑا اور پھر وہ دونوں وہاں سے کھسک گئے۔ میں رقم اپنے ہاتھ میں تھامے رہ گیا۔ فقیر بھی مجھ سے بھیک نہیں لے سکتے تھے۔  
اس قسم کے واقعات سے میں پھر نرم پڑ گیا۔ میرا احساس برتری، احساس مسرت، معاشرے کے لیے نفرت و حقارت، یہ سب احساسات اس قسم کے واقعات سے برف کی طرح پگھل گئے۔ اب کون مجھ پر شقادت و سردمہری کا الزام لگا سکتا تھا....؟  میں تو اسفنج کی طرح نرم پڑ گیا تھا۔ میں تو اب بےتاب تھا کہ کوئی شخص مجھ سے مخاطب ہو کر ایک دو لفظ کہے۔ کوئی میری طرف دیکھ کر مسکرائے یا مسکرا کر دیکھے۔ کوئی مصافحے کے لیے میری طرف بڑھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری یہ بےتابی بڑھتی جارہی تھی.... میری  سزا کو  چھ مہینے ہوچکے تھے۔  اس بڑھتی ہوئی بےتابی کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں ایک حماقت کر گزرا۔ اپنی لمبی اور بےمقصد سیروں کے دوران مجھے اپنے جیسے  تین چار سزا یافتہ  انسانوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔  ایک دن ایک سزایاب انسان سے نظریں ایک لحظے کے لیے ملیں، وہ نظریں جھکا کر ایک طرف کر آگے بڑھ گیا۔ وہ  چہرے مہرے سے وہ خاصا پڑھا لکھا معلوم ہوتا تھا اور میں یہ سوچ کر حیران ہو رہا تھا کہ یہ  شخص کیوں اس سزا کا مستوجب ٹھہرا ہے....؟
یک بیک اس خواہش نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا کہ میں اس نوجوان کا پیچھا کروں اور اس سے دریافت کروں...! یہ ساری باتیں ازروئے قانون منع تھیں۔ کوئی انسان مجھ ایسے کسی سزایاب سے بات نہیں کرسکتا تھا.... اور ہم سزایاب بھی ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے تھے۔ معاشرے کے قانون سازوں کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ سزا پانے والے انسان آپس میں رابطہ کرکے ایک برادری یا قبیلہ بنالیں۔
مجھے یہ سب کچھ معلوم تھا ۔ اس کے باوجود میں اس نوجوان کے پیچھے ہولیا۔ میں تین چوراہوں تک اس کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ ارادتاً میں نے بیس سے پچاس قدم تک کا فاصلہ رکھا۔ ہماری اور دوسروں کی نگرانی کرنے والے  ڈرون روبوٹ ہر جگہ پھر رہے تھے۔ یہ حفاظتی ڈرون  روبوٹ غیر معمولی طور پرحساس آلات سے لیس تھے، اس لیے مجھے بھرے بازاروں اور پررونق چوراہوں میں کوئی ‘‘غیر قانونی’’ حرکت کرنے یا خلاف قانون قدم اٹھانے کا حوصلہ نہیں ہورہا تھا۔ پھر وہ نوجوان جب ایک پرانی اجاڑ اور سنسان گلی میں داخل ہوا تو میں نے اپنے قدم تیز کردیے اور اس کے پیچھے جا پہنچا۔ 
‘‘پلیز!’’ میں نے آہستگی سے کہا۔ ‘‘یہاں ہمیں کوئی نہیں دیکھے گا۔ یہاں ہم اطمینان سے باتیں کرسکتے ہیں۔ میرا نام....’’
وہ میری طرف مڑا،  اس کی آنکھوں میں خوف تھا اور اس کا چہرہ ایک دم زرد پڑ گیا تھا۔ اس نے ایک لمحے حیرانی سے میری طرف دیکھا اور پھر یوں آگے کی طرف لپکا جیسے وہ میرے سحر سے آزاد ہو کر نکل جانا چاہتا ہو۔ 
میں نے اس کا  راستہ روک لیا۔وہ مجھے ایک طرف ہٹاتے ہوے آگے بڑھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا لیکن اس نے اپنا کندھا ایک جھٹکے سے آزاد کرلیا۔
‘‘ذرا سنو تو!’’ میں نے التجا کی۔ مگر اس نے کچھ نہیں سنا۔ کوئی جواب نہیں دیا۔ سخت لہجے میں اتنا بھی نہیں کہا کہ ‘‘چھوڑو مجھے!’’.... بس وہ مجھے ایک طرف ہٹاتے ہوئے آگے بڑھا اور پھر دوڑ لگا دی۔ 
میں اسے جاتے دیکھتا رہا ۔ اس کے ساتھ ہی شدید ترین احساس تنہائی نے میرے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ چند لمحوں کے بعد خوف کی لہر میرے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ میں نے گھبراہٹ اور تشویش کے عالم میں ارد گرد دیکھا مگر وہاں کوئی نگرانی کرنے والا سکیورٹی روبوٹ موجود نہیں تھا بلکہ وہاں تو کوئی بھی موجود نہیں تھا۔
میں وہاں تنہا تھا! میں مڑا اور اپنے آپ کو تسلی دیتے ہوئے گلی میں چلنے لگا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے نہایت احمقانہ حرکت کی ہے لیکن حماقت سے زیادہ میری جذباتیت میرے لیے باعث تشویش تھی۔ 
اس انتہائی اضطراب کی حالت میں اپنے جیسے ایک سزا یافتہ انسان سے گڑگڑاتے ہوئے رجوع کرنا ایک طرح سے  پنی تنہائی کا کھلے بندوں اعتراف کرنااور اپنی احتیاج تسلیم کرنا تھا .... نہیں! نہیں....! اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جیت معاشرے کی ہورہی ہے.... میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میں ہار نہیں مانوں گا.... معاشرے کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا!
میں نے اپنی سوچوں اور جذبات کے بھنور سے نکل کر نگاہیں اٹھائیں تو دیکھا کہ میں معلق باغات کے پاس چلا آیا ہوں۔ میرا دھیان ایک بار پھر گیارہویں منزل پر واقع باغات کی طرف گیا۔ میں تیزی سے لفٹ میں داخل ہوا اور معلق باغات جا پہنچا۔ کاؤنٹر سے ایک ٹوکن اٹھایا۔  باغ میں داخل ہو کر میں تھوڑی دیر تک  مختلف درختوں کا جائزہ لیتا رہا اور پھر آٹھ فٹ اونچے ایک کیکٹس کے سامنے جاکر رک گیا۔   میں نے آگے بڑھ کر اسے جڑ سے اکھاڑ لیا اور پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اس کے تنے اور شاخوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔ اس کے ہزاروں کانٹے میرے ہاتھوں میں چبھ گئے۔  میرے ہاتھ لہو لہان ہوگئے۔ میرے اردگرد سینکڑوں لوگ موجود تھے مگر وہ ایسے ظاہر کر رہے تھے، جیسے وہ کچھ دیکھ ہی نہیں رہے ہیں یا دیکھنے کے باوجود کچھ نہیں دیکھ رہے ہیں۔ میں اپنے لہولہان ہاتھوں سے کانٹے نکالتا رہا اور ایک عجیب سے احساس برتری سے سرشار وہاں سے چلا آیا۔
آٹھواں مہینہ گزرا.... پھر نواں اور پھر دسواں مہینہ بھی گزر گیا۔ اپنی سزا کے آخری مہینوں میں مجھ پر ایک بےحسی اور بےنیازی کی سی کیفیت کا غلبہ ہوگیا تھا۔ میرا ذہن اپنے ہی وسائل پر تکیہ کرنے پر مجبور ہونے کے باعث لاپروا یا شاید عادی ہوگیا تھا۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے میرے حواس پر دھند سی چھا گئی ہے۔ مجھے پڑھا ہوا یاد بالکل نہیں رہتا تھا۔ میں کتاب کا صفحہ الٹتا تھا تو پہلے صفحے کی ساری عبارت میرے ذہن سے نکل چکی ہوتی تھی۔
دن اسی طرح بےکیفی، بےزاری، بےحسی اور بےنیازی کے عالم میں گزرتے گئے۔ میں نے دوسروں کی طرح عالم اشتیاق میں اپنی سزا کے ختم ہونے میں باقی لمحوں کا شمار بالکل نہیں کیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ بات میرے ذہن سے بالکل ہی نکل گئی تھی کہ میری سزا کی مدت قریبالاختتام ہے۔ 
11 مئی 2105ء وہ دن جب میری سزا ختم ہورہی تھی، اس دن بھی میں اپنے کمرے میں ایک کتاب کے ورق پہ ورق الٹ رہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ یہ گھنٹی پورے ایک سال خاموش رہی تھی اور میں گویا اس گھنٹی کی آواز کا مفہوم و مقصد ہی فراموش کر چکا تھا، تاہم گھنٹی کی آواز سنتے ہی میں اٹھا اور اٹھ کر دروازہ کھولا۔ دروازے پر میونسپلٹی  کے وہی دونوں مسٹنڈے موجود تھے۔ اپنی زبان سے کوئی لفظ کہے بغیر آگے بڑھے اور انہوں نے ہاتھ بڑھا کر اور ایک مشین کے ذریعے میرے ماتھے سے میری سزا کا نشان مٹا  دیا۔
‘‘ہیلو دوست!’’ وہ خوش دلی سے بولے :
‘‘آج کے دن تمہاری سزا ختم ہورہی ہے۔ معاشرے میں تمہارا مقام بحال کیا جاتا ہے۔ ’’
‘‘شکریہ!’’
‘‘آؤ ہمارے ساتھ چل کے کچھ کھاؤ پیو!’’
‘‘نہیں، شکریہ!’’
قانون  یہی ہے۔’’ وہ بولے ‘‘آؤ۔’’
قانون  کا نام سن کر میں خاموشی سے ان کے ساتھ ہولیا کہ قانون  پر عمل کرنے سے انکار کے جرم میں کہیں مجھے پھر نہ دھر لیا جائے۔ ماتھے سے سزا کا نشان اتر جانے کے بعد مجھے اپنی پیشانی کے ننگے ہونے کا عجیب سا احساس ہورہا تھا جیسے کسی زخم پر طویل عرصے تک پٹہ بندے رہنے کے بعد پٹی اتارنے پر ہوتا ہے۔ 
وہ دونوں مجھے ایک قریبی ریسٹورنٹ میں لے گئے۔ اب میں پہلی مرتبہ انسانوں کے درمیان بیٹھ کر کھا پی رہا تھا۔ مجھے اس سے خوشی بھی ہو رہی تھی اور یہ سب مجھے عجیب سا بھی لگ رہا تھا۔
پھر ایک شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھ سے کہا ‘‘کل ہونے والے میچ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے دوست! کون جیتے  گا....؟’’
‘‘پتہ نہیں’’ میرے منہ سے نکلا۔
‘‘واقعی....؟’’ اس شخص نے حیرت سے کہا۔  ‘‘یہ کچھ عرصہ باہر رہے ہیں۔’’ دونوں سرکاری آدمیوں میں سے ایک نے کہا۔
اس شخص نے سرکاری آدمی کی بات سن کر میرے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر اس نے جیسے کچھ سمجھتے ہوے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے مجھے کچھ کھلانے پلانے کی پیشکش کی اور میں نے اس کی یہ دعوت محض اس خیال سے قبول کرلی کہ کہیں یہ بھی قانونی روایت کا حصہ نہ ہو اور انکار کی صورت میں  پھر قانون کی خلاف ورزی کے جرم میں نہ آجاؤں۔ میں دوبارہ شقادت یا سنگ دلی کے جرم کے ارتکاب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ایک سال کی سزا نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا تھا۔ اب میرے اندر بلا کی عاجزی و انکساری پیدا ہوگئی تھی۔
معاشرے میں دوبارہ اپنی جگہ بنانااور خود کو قابل قبول مقام بنانا میرے لیے ایک نیا مسئلہ تھا۔ ایسا نیا مسئلہ جو میری سزا سے بھی زیادہ عجیب و غریب تھا۔ مجھے پرانے دوستوں سے ملنا تھا۔ اپنی غیر حاضری کے عذر پیش کرنے تھے اور ان کے ملاقاتوں سے قاصر رہنے کے عذر سنتے تھے۔ منقطع روابط کو دوبارہ بحال کرنا تھا۔ میں نے اپنے ہی شہر میں ایک سال تک جلا وطنی کی زندگی گزاری تھی اور جلا وطنی سے واپسی کچھ آسان کام نہ تھا۔
دوست احباب ملاقاتوں کے لیے آتے تھے، باتیں ہوتی تھیں لیکن کسی کی زبان پر میری سزا یا سزا کے طور پر گزارے ہوئے وقت کا ذکر نہ آتا تھا۔ اسے ایک ایسی درد بھری بپتا سمجھ لیا گیا تھا، جس کا ذکر نہ کرنا ہی بہتر ہو۔ میرے نزدیک یہ پرلے درجے کی منافقت تھی مگر اسے قبول کیے بغیر کوئی چارہ نہ تھا، مجھے اندازہ تھا کہ گزرے ہوئے وقت کی بات چھیڑ کر وہ میرے زخموں پر نمک چھڑکنا نہیں چاہتے تھے۔
دوست احباب کے ساتھ باتیں ہوتی تھیں مگر ان باتوں میں ایک خلا رہ جاتا تھا۔ میں انہیں اپنے اس سال تجربے کے بارے میں بتا تو سکتا تھا مگر وہ نہایت دانش مندی سے موضوع بدل کر باتوں کا رخ کسی اور طرف پھیر دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرے پاس اپنے دوستوں کے ساتھ باتیں کرنے کے لیے کوئی موضوع ہی نہ رہا۔ یوں بھی ایک سال تک عملاً  گونگا رہنے کے باعث میں روانی سے بات کرنا اور دوست احباب کی گفتگو اور بحث میں مستعدی سے حصہ لینا بھول ہی گیا تھا۔ مجھے اپنی پرانی زندگی کے لگے بندھے معمولات کے مطابق اپنے آپ کو ازسر نو ڈھالنے میں بھی سخت دشواری پیش آرہی تھی۔ تاہم میں نے حالات کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اور برابر ہمت، محنت اور مستقل مزاجی سے اپنے آپ کو حالیہ تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا رہا۔ 
گاے بگاہے مجھے کوئی نہ کوئی انسان ایسا بھی دکھائی دے جاتا تھا جسے میری طرح سزا کے طور پر ایک سال یا کسی دیگر کم یا زیادہ مدت کے لیے دوسروں کی نظروں سے غائب کر دیا گیا تھا۔ ان کا سراپا اور خاص طور پر ان کے ماتھے پر ثبت سزا کا نشان اس کی ساری داستان سنا دیتا تھا۔ ایسے انسانوں سے صرف نظر کرنا تو ناممکن تھا مگر سال بھر کی سزا کی کڑی تربیت نے مجھے بہت کچھ سکھا اور سمجھا دیا تھا۔ جب بھی کسی ایسے انسان پر میری نظریں پڑتی تھیں تو میں فوراً تیزی سے یوں دوسری طرف نظریں پھیر لیتا تھا جیسے اچانک میں نے کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی عجیب  الخلقت، مکروہ اور بھیانک مخلوق کو دیکھ لیا ہو!
میری سزا کو ختم ہوئے چوتھا مہینہ گزر رہا تھا جب ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس کی بدولت میری سزا کا حتمی سبق میرے ذہن نیشن ہوا۔ میں اپنے کام پر بحال ہوچکا تھا کام نمٹانے کے بعد پرہجوم چوک سے گزر رہا تھا تو اچانک ہجوم سے ایک ہاتھ ظاہر ہوا اور اس نے میرا بازو تھام لیا۔
‘‘پلیز!’’ ایک التجا آمیز آواز آئی۔ ‘‘ذرا ایک منٹ! میری بات تو سنو!’’
میں نے حیران ہو کر نظریں اوپر اٹھائیں۔ میں نے اس انسان کے ماتھے پر سزا کا مخصوص نشان دیکھ لیا اور اسے پہچان بھی لیا۔ یہ وہی نوجوان تھا جس سے میں سنسان گلی میں کوئی چھ ماہ پہلے اسی طرح مخاطب ہوا تھا۔ اب وہ درماندگی و پریشانی کی تصویر تھا۔ اس کی آنکھوں سے وحشت جھانک رہی تھی۔ اس نے میرا بازو تھام رکھا تھا میرے سارے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا تھا۔ یہ جگہ اس گلی کی طرح ویران اور سنسان  نہیں تھی۔ یہ تو شہر کا بارونق ترین اور سب سے زیادہ پرہجوم چوک تھا۔ میں نے اپنا بازو اس کی گرفت سے چھڑا لیا اور اس سے پرے چلے جانے کے لیے قدم بڑھائے۔
‘‘نہ جاؤ! خدا کے لیے نہ جاؤ!’’ وہ چلایا’’ کیا تم مجھ پر ترس نہیں کھا سکتے....؟ تم جو خود بھی اس مصیبت سے گزر چکے ہو!’’
میرے قدموں میں لغزش سی آگئی.... پھر مجھے یاد آگیا کہ کس طرح میں نے سنسان گلی میں اس کی منت کی تھی، اس سے  دور نہ جانے کی التجا کی تھی۔ مجھے یاد آگیا کہ اس وقت میں کیسے شدید احساس تنہائی کی گرفت میں تھا....! تاہم میں نے اس سے پرے جانے کے لیے ایک اور قدم اٹھایا۔
‘‘تم ڈرپوک ہو! بزدل ہو۔’’ وہ میرے عقب میں چیخا :
‘‘تم میرے حال پر ترس کیوں نہیں کھاتے....؟ ’’ 
یہ سب کچھ سننا اور سن لینا میری برداشت سے باہر تھا۔ ایک دم میرا دل بھر آیا، آنکھیں آنسوؤں سے تر ہوگئیں اور میرے قدم وہیں جم گئے۔ میں تیزی سے اس کی طرف مڑا اور پھر میں نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا دیا۔ میں نے اس کی سوکھی، پتلی سی کلائی تھام لی۔ دوسرے ہی لمحے میں اس سے بغل گیر ہوگیا ۔
نگرانی کے لیے ادھر ادھر پھرنے والے ڈرون سکیورٹی روبوٹ ایک دم آگے بڑھے اور انہوں نے ہم دونوں کو اپنے گھیرے میں لے لیا۔ انہوں نے اس نوجوان کو تو ایک طرف دھکیل دیا، البتہ مجھے اپنی تحویل میں لے لیا۔
اب وہ مجھے گرفتار کرکے لیے جارہے ہیں۔ یقیناً اب وہ  پھر مجھ پر مقدمہ چلائیں گے۔ مگر اب کی بار یہ مقدمہ شقادت یا سنگ دلی کے جرم کی بنا پر نہیں بلکہ سخاوت یا رحم دلی کے جرم کی بنا پر ہوگا.... ہوسکتا ہے کہ وہ سارے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے درگزر سے کام لیں اور مجھے رہا کردیں.... اور ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو....! 
کیا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا....؟ 
اب مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ ہاں ایک بات ضرور ہے، اگر انہوں نے مجھے سزا دی تو اب میں اس سزا کو اپنے لیے سزا نہیں، انعام سمجھوں گا اور میرے ماتھے پر ثبت ہونے والا سزا کا نشان میرے لیے سزا کا نشان نہیں، تمغہ افتخار ہوگا....!
========================================

رابرٹ سلوربرگ کی اس کہانی کو  1985ء میں امریکی ٹی وی چینل CBS کی سائنس فکشن سیریز The Twilight Zone میں ایک ڈرامے کے قالب میں بھی بھی ڈھالا جاچکا  ہے۔
اسے اس یوٹیوب لنک پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ 

https://youtu.be/p0oPwt9n-38


https://youtu.be/hGLqjNpRLU4



========================================

امریکی سائنس  فکشن  ادیب ، سسپنس تھرلر اور ہارر کہانیوں کے مصنف 

رابرٹ سلوربرگ       1935ء-حال



رابرٹ  سلور برگ  Robert Silverberg امریکی  سائنس فکشن ادب میں  ایک بڑا معروف اور معتبر نام ہے۔ 
رابرٹ سلوربرگ 15 جنوری 1935ء کو بروکلین نیویارک میں پیدا ہوئے ،  انہیں   بچپن سے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور  اسکول کے دور سے ہی رابرٹ   نے امریکہ کے مختلف سائنس فکشن اور سسپنس رسائل کے لیے کہانیاں لکھنی شروع کردی تھیں۔   کولمبیا یونیورسٹی سے انگریزی لٹریچر میں بی اے کرنے  کے بعد 1955ء میں اپنا پہلا سائنس فکشن ناول ‘‘ریوالٹ آن الفا سی’’ شایع کیا  اور پہلے ہی ناول پر بہترین ادیب کا ہیوگو  ایوارڈ حاصل کیا۔  1960 کی دہائی سے ناہوں نے پیشہ  ورانہ  طور پر مختلف سائنس فکشن رسائل کے لیے سینکڑوں کہانیاں  اور ناول لکھے۔ انہیں اپنے ناولوں  پر کئی ہیوگو اور نیبولا ایوارڈز مل چکےہیں اور ان کی بیشتر کہانیاں 40 زبانوں میں  ترجمہ ہوچکی ہیں۔    1999 میں  انہیں سائنس فکشن اینڈ فنٹاسی ہال آف فیم کے لیے نامزد کیا گیا،  2004 ء میں امریکی  سائنس فکشن مصنفین  کی تنظیم نے انہیں گرینڈ ماسٹر کا اعزاز دیا۔ 
رابرٹ سلور برگ کی  مقبول کہانیوں میں  Nightwings، Gilgamesh the King، Born with the Dead، Passengers، Sailing to Byzantium، A Time of Changes، Dying Inside ، The Book Of SKulls ، Across a Billion Years، Tales of Majipoor، The Man in the Maze ، شامل ہیں۔ 
رابرٹ سلور برگ کی کئی کہانیاں فلم اور ڈرامہ کے قالب میں ڈھالی جاچکی ہیں۔ 1999ء کی مشہور ہالی ووڈ اداکار رابن ولیمز کی سائنس فکشن فلم Bicentennial Man کی کہانی بھی رابرٹ  سلوربرگ کی تحریر کردہ تھی۔ ان کی کہانی پر ایک اور فلم Needle in a Timestack ابھی زیر تکمیل ہے  جس میں آسکرایوارڈ یافتہ اداکارہ فریدہ  پنٹو ہیں۔      
83 سالہ رابرٹ سلور برگ     تاحال حیات ہیں اور سائنسی ادب کے لیے  اب بھی کہانیاں لکھ رہے ہیں۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں