|
ایک انوکھا خواب.... ایک انوکھا تجربہ....ایک انوکھالمحہ .... محیر عقل، عجیب و غریب ، پراسرار اور ماورائی علوم سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے ....پراسرار اور ماورائی علوم سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے عجیب و غریب اور محیر عقل کہانی ۔ مایہ ناز افسانہ نگار ممتاز مفتی کا حیرت میں ڈوبا ہوا افسانہ۔ |
میرا نام کیا ہے....؟
ٹھہریے یہی تو مشکل ہے.... میرا نام کیا ہے....؟ مجھے نہیں پتہ کہ میں کون ہوں....؟
آپ کہیں گے یہ ایکسیڈینٹ کی وجہ سے ہے۔
ہاں ایکسیڈینٹ تو ہوا تھا، لیکن میرا ذہن ماؤف نہیں ہوا تھا۔ میری یادداشت شل نہیں ہوئی تھی، صرف چہرہ مسخ ہوا تھا۔ ساری چوٹیں چہرے اور سر پر آئی تھیں، مگر میرا ذہن کام کرتا رہا، بلکہ مجھے تو یہ مشکل ہے کہ میرا ذہن کچھ زیادہ ہی کام کرتا ہے۔
کاش! میرا ذہن ماؤف ہوگیا ہوتا۔ ذہنی کشمکش سے تو جان چھوٹتی۔ اب میں پلنگ پر پڑے پڑے سوچتا رہتا ہوں، میں کون ہوں....؟
ایک بات تو یقینی ہے، یا تو میں افضل ہوں اور یا جمیل۔ میں خود اپنے آپ کو افضل سمجھتا ہوں، لیکن اسپتال میں سب مجھے جمیل کہہ کر بلاتے ہیں۔
ڈاکٹر کہتا ہے، افضل تو حادثے میں مر گیا تھا۔ اس کی لاش کی شناخت ہوئی تھی۔
***
اس کے باوجود مجھے اب بھی شک پڑتا ہے۔ میں افضل ہوں، جمیل نہیں۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں جمیل کون تھا اور یہ سب کچھ ایک خواب کی وجہ سے ہوا۔
بچپن میں، میں سمجھا کرتا تھا، خواب اشارے ہوتے ہیں.... مستور اشارے۔ سانپ دیکھو، تو جان لو وہ دشمن ہے۔ شادی دیکھو، تو سمجھ لو کوئی غمی دیکھنا پڑے گی۔ کٹا ہوا پھل دیکھو، تو اولاد کا دکھ ہوگا۔
ان دنوں میں نے کئی ایک تعبیر نامے خریدے تھے جن میں ایک طرف چیزوں کی فہرست دی ہوتی اور دوسری طرف تعبیر۔ پھر تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجھے پتہ چلا، خواب عام طور پر دبی ہوئی یا انجانی خواہشات کا اظہار ہوتے ہیں۔
تحصیل علم کے بعد جب میں نے ای ایس پی ESP (Extrasensory Perception)کا مطالعہ کیا، تو جانا کہ خواب مستقبل کے پیامبر بھی ہوسکتے ہیں، لیکن اب مجھ سے کوئی پوچھے کہ خواب کیا ہوتے ہیں، تو میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ میرا سارا علم پھپھوندی کی طرح اڑ گیا ہے۔ میں اپنے آپ کو جاہل مطلق سمجھنے لگا ہوں۔ اب تو کئی بار اسپتال کے اس بیڈ پر لیٹے ہوئے مجھے خیال آتا ہے، شاید یہ بھی ایک خواب ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ بیڈ، اسپتال، ڈاکٹر، نرس، سب کچھ اور ابھی میری آنکھ کھل جائے گی اور پھر مجھے پتہ چل جائے گا، میں کون ہوں۔
پھر مجھے خیال آتا ہے شاید کبھی آنکھ نہ کھلے۔ شاید زندگی بذات خود ایک خواب ہو۔
***
میری کہانی بہت ہی مختصر ہے۔
میں لوئر مڈل گھرانے میں پیدا ہوا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹھا تھا، اس لیے سارے گھر کا محبوب۔ انہوں نے بڑے شوق سے مجھے پڑھایا۔
نفسیات میں ایم اے کرنے کے بعد مجھے ایک کالج میں نوکری مل گئی۔ پھر میری شادی اسمارہ سے ہوگئی۔ اسمارہ میری بنت عم نہ تھی۔ بنت عم کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا.... امی کا کوئی قریبی عزیز تھا نہ ابا کا۔ اسمارہ امی کی ایک پرانی سہیلی شمسہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ خاوند مر چکا تھا۔ ماں چاہتی تھی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرکے مصلے پر بیٹھ کر اللہ اللہ کرے۔
شمسہ نے امی سے بات کی، امی نے مجھے کہا۔ کہنے لگیں بیٹا! اسمارہ کو دیکھ لے، اگر تجھے پسند ہو، تو تیرا اس سے بیاہ کردوں۔ شمسہ کی آرزو بھی پوری ہوجائے گی۔ میں بھی سہیلی کے سامنے سرخرو ہوجاؤں گی۔ اگر تو رضا مند ہوجائے، تو تیرے ابا کو میں منا لوں گی، آخر شادی تو کرنی ہی ہے۔ کسی نہ کسی لڑکی سے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی مجبوری ہے۔ اسے دیکھ لے، اگر تو اسے پسند کرے تو ٹھیک ہے۔ پسند نہ ہو تو نہ سہی۔
پہلے دن جب میں نے اسمارہ کو دیکھا، تو وہ آنکھیں ہی آنکھیں تھیں۔ آنکھیں ہی آنکھیں.... میں نے زندگی میں رنگ رنگ کی آنکھیں دیکھی ہیں.... لیکن اسمارہ سی آنکھیں کبھی نہ دیکھی تھیں۔
اسمارہ کی آنکھیں دیکھنے والی آنکھیں نہ تھیں۔ وہ صرف دکھانے والی آنکھیں تھیں۔ جوں جوں آپ انہیں دیکھتے، توں توں وہ بڑی ہوتی جاتیں، ہوتی جاتیں، ہوتی جاتیں، حتیٰ کہ وہ سارے گرد و پیش پر چھاجاتیں۔
ان آنکھوں میں تین تاثر نمایاں تھے۔ معصومیت،حیرت اور حسرت....
اسمارہ ایک خاموش لڑکی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ بن بولے بہت کچھ سہے جارہی ہو۔ کیا سہے جارہی ہو، یہ پتہ نہیں چلتا تھا۔ میں کئی ایک بار اسمارہ سے ملا۔ گھر میں، اکیلے میں ،کئی بار میں اسے فلم دکھانے بھی لے گیا۔ غالباً اسے علم تھا کہ میرا اسے بار بار ملنا کسی مقصد کے تحت تھا اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ مقصد کیا ہے لیکن نہ تو اس نے مجھے لبھانے کی کوشش کی، نہ اس میں فکر یا پریشانی کی جھلک پیدا ہوتی۔ نہ اس نے میرے قریب آنے کی کوشش کی، نہ دور جانے کی۔ مختصر یہ کہ اسمارہ دوسری لڑکیوں سے ہٹ کے تھی۔ اس کی انفرادیت اور معصومیت مجھے بہت پسند آئی اور میں نے امی کو کہہ دیا کہ بیشک آپ اسمارہ کو بہو بنالیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہماری شادی ہوگئی۔
شادی کے بعد میں نے محسوس کیا، وہ بڑی پاکیزہ، وفا شعار، خدمت گار اور محبت کرنے والی بیوی ہے۔ بس صرف ایک بات تھی جو میرے لیے بہت پریشان کن تھی۔ اسمارہ کی عادت تھی، وہ کبھی سر اُٹھا کر میری طرف نہ دیکھتی، جب بھی ہم اکٹھے بیٹھ کر آپس میں باتیں کرتے تو وہ سر جھکائے بیٹھی رہتی۔ کبھی کبھی آنکھیں ملائے بغیر سر اُٹھاکر میری جانب ایک ساعت کے لیے دیکھتی اور پھر جلد ہی آنکھیں جھکالیتی۔ اس نے کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میری طرف نہ دیکھا تھا۔ شروع شروع میں میں سمجھا کہ شاید شرماتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
پھر جلد ہی میں نے ایک اور بات نوٹ کی۔ جب بھی میں کام یا مطالعے میں مصروف ہوتا یا میری توجہ کسی اور جانب مرکوز ہوتی تو اسمارہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف دیکھتی رہتی۔ آپ جانتے ہیں ، کوئی ٹکٹکی باندھ کر آپ کی طرف دیکھے تو پتہ نہیں کس اصول کے تحت انجانے میں آپ کو پتہ چل جاتا ہے اور آپ کی نگاہ دیکھنے والے کی طرف اُٹھ جاتی ہے۔
جب بھی اسمارہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف دیکھتی تو فوراً میری نگاہ اس کی طرف اُٹھتی ۔ اس پر وہ گھبرا کر آنکھیں جھکالیتی۔ پہلے تو میں نے کوئی اہمیت نہ دی۔ جب بار بار اس کا اعادہ ہوا تو میں کانشس ہوگیا۔ پھر میں جان بوجھ کر جھوٹ موٹ اپنی توجہ کتاب پر مرکوز کرلیتا، جیسے مطالعے میں کھوگیا ہوں، لیکن کانی آنکھ سے اسمارہ کی طرف دیکھتا رہتا۔ وہ مسلسل ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھتی رہتی، دیکھتی رہتی۔ یہاں تک کہ ہاتھ کے کام کو بھی بھول جاتی۔ سلائیوں کا کام کررہی ہوتی، تو سلائیاں رُک جاتیں، مشین کا کام کررہی ہوتی، تو ہاتھ مشین کی ہتھی پر رُک جاتا۔ حساب لکھ رہی ہوتی، تو پینسل منہ میں ڈال لیتی۔ اس دوران میں گویا اسے کچھ اور سوجھتا ہی نہ تھا۔ بس دیوانہ وار میرے منہ کی طرف تکے جاتی، تکے جاتی۔ اس کی نگاہ میں محبت اور حسرت کا عجیب سا امتزاج ہوتا۔ کبھی حسرت اُبھرتی اور محبت دب جاتی، کبھی محبت اُبھرتی اور حسرت دب جاتی۔ پھر ایک رات تو بات بالکل سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ رات کو جو میں جاگا ، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسمارہ میرے سرہانے بیٹھی، میرے منہ پر جھکی ہوئی ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ دیکھ کر میں بند آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
اس روز دیر تک میں اسمارہ کے اس خصوصی برتاؤ کا مطالعہ کرتا رہا۔ اس کی آنکھوں کی سفیدی میں حسرت کے انبار لگے ہوئے تھے اور پتلیوں میں محبت کے دیے جل رہے تھے۔ پھر لیٹے لیٹے میں نے سوچا، کیوں نہ اب جاگنے کا ڈھونگ رچاؤں۔ دیکھوں تو سہی میرے جاگنے پر اسمارہ کیا کرتی ہے....؟
میں نے جھوٹ موٹ حرکت کی، کروٹ لی اور پھر انگڑائی لے کر اُٹھ بیٹھا۔ اب جو دیکھتا ہوں تواسمارہ اُدھر کروٹ بدلے پڑی ہے، یوں پڑی ہے جیسے کبھی جاگی ہی نہ ہو۔ اگر خالی ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھنے ہی کی بات ہوتی، تو کوئی بات نہ تھی، لیکن میرے جاگ اُٹھنے پر اس کا یوں منہ سر لپیٹ کر پڑ جانا، جیسے کبھی جاگی ہی نہ ہو، میرے دل میں کانٹا بن کر اُتر گیا۔
میری بد قسمتی ہے ، میں نفسیات کا ایم اے ہوں، ورنہ میں اس برتاؤ کی چھوٹی اور عام تفصیلات کو اہمیت نہ دیتا۔ بات کیا ہے....؟ میرے دل سے ہلکی سی آواز اُٹھی۔ پھر وہ آواز بڑھتی گئی ، بڑھتی گئی۔ ذہن سے میرے دل میں اُتر گئی اور دل سے نسوں میں جاکر جلترنگ کی طرح بجنے لگی۔
میری اس پریشانی میں شک کا عنصر نہ تھا۔ شک کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چونکہ اسمارہ کی ہر بات، ہرحرکت محبت میں بھیگی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا وہ مجھ سے بے انداز محبت کرتی ہے۔ یہ بھی علم تھا کہ معصومیت اس کے کردار کا جزوِ اعظم ہے۔ پھر سمجھ میں نہ آتا تھا، اس کی نگاہ میں اتنی حسرت کیوں ہے اور یہ جذبۂ حسرت میری ذات سے کیوں وابستہ ہے....؟۔
میں نے اسمارہ سے کبھی اس کا تذکرہ نہ کیا تھا۔ کیسے کرتا ، جب وہ خود مجھ سے بات چھپارہی تھی، تو میں کیسے بات کرتا....؟ پھر بھی خیال آتا کہ شاید اپنے برتاؤ کی یہ تفصیل وہ اپنے آپ سے بھی چھپا رہی ہو۔ شاید اسے خود بھی علم نہ ہو، وہ ایسا کیوں کرتی ہے۔
پھر ایک نیا واقعہ عمل میں آیا۔ ایک روز جب میں کالج جانے کی تیاری کررہا تھا تو اتفاقاً میری نگاہ اخبار کے ایک آرٹیکل پر پڑی۔ یہ آرٹیکل اُوری گیلر Uri Geller پر تھا۔ اوری اسرائیل کا رہنے والا ایک یہودی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی توجہ سے کئی ایک شعبدے کرسکتا ہے۔ مثلاً لوہے کی کنجی موڑ سکتا ہے، گھڑی کی سرئیاں ہلاسکتا ہے، چیزیں غائب کرسکتا ہے۔ میں یہ آرٹیکل پڑھنے بیٹھ گیا اور بھول ہی گیا کہ مجھے کالج جانا ہے۔ اسمارہ کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے وہاں بیٹھے دیکھ کر چلاکر بولی :‘‘فاضل! آپ کالج نہیں جائیں گے کیا....؟’’
‘‘فاضل....! میں نے حیرت سے اسمارہ کیطرفدیکھا۔
‘‘فاضل ’’ وہ گھبراکر بولی ‘‘نہیں تو میں نے تو افضل کہا ہے’’۔
‘‘کہا تو فاضل ہی تھا’’ میں نے جواب دیا۔
‘‘شاید ’’ وہ بولی ‘‘ منہ سے نکل گیا ہو’’ وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی۔ کچھ روز بعد پھر اس نے انجانے میں مجھے فاضل کہہ کر بلایا۔ اس روز میں نے اسے جتایا نہیں۔ چھ ماہ میں اسمارہ نے چار پانچ مرتبہ مجھے فاضل کہہ کر بلایا۔
میرے ذہن میں ایک اور سوالیہ نشان اُبھر آیا۔ ابھی پہلی پرابلم حل نہ ہوئی تھی کہ ایک اور پرابلم پیدا ہوگئی۔ پھر مجھے خیال آیا شاید یہ دونوں باتیں ایک ہی شاخ کی دو کونپلیں ہوں۔
ایک رات مجھے نیند نہ آرہی تھی۔ دس بجے کے قریب میں سوگیا تھا، لیکن بارہ بجے کے قریب جاگ پڑا تھا۔ اس کے بعد میں نے بڑی کوشش کی کہ سوجاؤں۔ مگر نیند نہ آئی۔ اتفاقاً میری نگاہ اسمارہ پر پڑی، وہ سو رہی تھی لیکن اس پر گویا اضطراب کا عالم چھایا ہوا تھا۔ اس سے پہلے سوتے میں میں نے اسے کئی بار دیکھا تھا ، کئی بار اس کی نیند بچے کی نیند جیسی تھی۔ گہری نیند جیسے کہ معصوم لوگوں کی ہوتی ہے لیکن اس روز وہ بات نہ تھی۔ سوتے میں وہ بل کھارہی تھی۔ جیسے سخت اضطراب میں ہو۔ پھر اس نے چیخ ماری۔ ‘‘فاضل.....!’’
میں نے اسے سہارا دیا۔ ‘‘ڈرگئی ہو اسمارہ....؟’’ میں نے کہا۔
‘‘افضل، افضل!مجھے چھوڑ کر نہ جانا’’۔
میں نے اسے بیڈ پر لٹایا۔ ‘‘کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ لیٹ جاؤ اسمارہ، لیٹ جا ؤ’’۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں نے اسے تسلی دی۔ حتیٰ کہ وہ خاموش ہوگئی۔ میرا خیال تھا اس نے رونا بند کردیا ہے لیکن جلد ہی میرے ہاتھوں پر ایک آنسو آگرا پھر ایک اور ،ایک اور، پھر میں نے جانا کہ وہ آنسوؤں والا رونا رو رہی تھی۔
‘‘تمہیں کوئی تکلیف ہےا سمارہ....؟’’ میںنےپوچھا۔
‘‘نہیں ، نہیں تکلیف تو نہیں، لیکن ’’.....
‘‘لیکن کیا....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘میں تمہیں سکھ نہ دے سکی’’۔ وہ رونی آواز میں بولی ‘‘ اُلٹا میں نے تمہاری پریشانیوں میں اضافہ کردیاہے....؟’’
‘‘نہیں نہیں۔ میں تو بہت خوش ہوں’’ میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
‘‘مجھے پتہ ہے’’۔ وہ بولی ‘‘ تم کتنے فکر مند ہو۔ میری وجہ سے فکر مند ہو۔ کاش میں تمہارا ساتھی بن سکتی’’۔ وہ پھر رونے لگی۔ دیر تک میں اسے بہلاتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ روتے روتے سوگئی۔
اس روز میں واقعی گھبراگیا۔ ضرور اسمارہ کے دل میں کوئی کانٹا لگا ہوا ہے اور پھر جب وہ ڈر کر جاگی تھی، تو اس نے فاضل کو آواز کیوں دی تھی؟ فاضل کون تھا....؟’’ اس واقعے سے میں اس قدر گھبراگیا کہ میں ظہیر سے جاکر ملا۔ ظہیر میرا پرانا دوست ہے، وہ سندیافتہ سائیکاٹرسٹ ہے۔ میں نے اسے اسمارہ کے متعلق ساری تفصیلات سنائیں۔
وہ ہنس پڑا ‘‘ بڑا دلچسپ کیس ہے، لیکن پریشانی کی کوئی خاص بات معلوم نہیں پڑتی’’۔
‘‘پھر بھی تمہارا کیا اندازہ ہے....؟’’ میںنےپوچھا۔
‘‘اس معاملے میں اندازے نہیں چلتے’’۔ ظہیر نے جواب دیا ‘‘ ممکن ہے دبا ہوا احساسِ گناہ ہو۔ کوئی غیرعقلی ڈر ہو، خوف ہو’’۔
‘‘احساسِ گناہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا’’۔ میں نے کہا ‘‘اسمارہ اتنی پاکیزہ اور معصوم لڑکی ہےکہ’’ ....
ظہیر نے قہقہہ لگایا ‘‘ انسان ایک معمہ ہے اور انسانی ذہن ایک گورکھ دھندا۔ تم بھابھی کومیرے پاس لے کر آؤ تاکہ میں ان کا مسئلہ سن کر کسی نتیجے پر پہنچ سکوں، پھر شاید میں کوئی اندازہ لگاسکوں’’۔
گھر آکر میں نے بڑے محتاط انداز سے اسمارہ سےبات کی۔
‘‘نہیں نہیں’’۔ وہ سخت گھبراہٹ سے بولی ۔ ‘‘میں سائیکاٹرسٹ کے پاس نہیں جاؤں گی’’۔
اس روز پہلی مرتبہ اس کے انداز میں شدت تھی۔ اتنی شدت تھی کہ میں حیران رہ گیا۔
چند ہی دنوں کے بعد ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ آدھی رات کے وقت میں نیند سے جاگا تو میں نے دیکھا کہ اسمارہ سوتے میں شدید اضطراب محسوس کررہیتھی۔
میں اسے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ وہ ابھی چیخ مار کر جاگ اُٹھے گی لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ آہستہ آہستہ اس کا یہ اضطراب ختم ہوگیا اور وہ اکڑ گئی جیسے لکڑی کی بنی ہو۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے بیڈ سوئچ دباکر بلب روشن کردیا لیکن اسمارہ کو کچھ پتہ نہ چلا۔ وہ جوں کی توں بیٹھی رہی۔ پھر وہ اُٹھ بیٹھی اور چلنے لگی۔ اس وقت میں نے جانا کہ وہ نیند میں چل رہی ہے۔ میں نے ٹارچ اُٹھائی اور اس کے پیچھےپیچھے چل پڑا۔
ہمارا گھر پرانی طرز کا بنا ہوا ہے۔ اس کا ایک حصہ خاصا بوسیدہ ہے۔ ہمارا بیڈ روم دوسری منزل پر ہے۔ دوسری منزل سے دو زینے نیچے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک سیدھا ڈرائنگ روم میں اُترتا ہے۔ اسمارہ غلام گردش سے چلتی ہوئی اس زینے سے اُترنے لگی جو ڈرائنگ روم میں جاتا ہے۔ جب چند ایک سیڑھیاں باقی رہ گئیں تو وہ رُک گئی۔ میں اس کے پاس سے گزر کر نیچے اُترگیا۔ میں نے ڈرائنگ روم کی بتیاں جلادیں۔ اس کے باوجود وہ جوں کی توں لکڑی کے جنگلے سے ٹیک لگائے کھڑی رہی۔ پھر مجھے ایسے لگا جیسے وہ کسی کو آوازیں دے رہی ہو۔ اس کا منہ کھلتا اور بند ہوجاتا ، لیکن حلق سے آواز نہ نکلتی تھی۔ چند ایک ساعت وہ وہاں کھڑی رہی۔ پھر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ گرنے لگی ہو۔ میں نے لپک کر اسے باز ؤں میں تھام لیا۔
‘‘اسمارہ، اسمارہ!’’ میں نے اسے آواز دی۔
وہ جاگ پڑی۔ سخت گھبراگئی۔
‘‘میں کہاں ہوں....؟ افضل ہے....؟ شکر ہے تم ہو، تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو....؟’’ وہ اُکھڑی اُکھڑی باتیں کرنے لگی۔
اگلے روز بڑی سنجیدگی سے اسمارہ سے بات کی۔ ‘‘اسمارہ ، تم پڑھی لکھی ہو، سمجھدار ہواگر تم نے فوری طور پر اپنا علاج نہ کرایا تو ممکن ہے یہ ساری علامات کسی بیماری کی شکل اختیار کرلیں۔ اس لیے ضد نہ کرو چلو ظہیر سے اپنے مسئلے کو ڈسکس کرلو کیا حرج ہے....؟’’ اس نے سر نفی میں ہلادیا اور رونے لگی۔
میں نے اصرار کیا تو بولی ۔
‘‘میں ان سے ڈسکس نہیں کروں گی، کبھی نہیں۔ میں آپ کو سب کچھ بتادوں گی، لیکن ....’’
‘‘تمہیں پتہ ہے اسمارہ، میں تم سے کتنی محبت کرتاہوں....؟’’
‘‘یہی تو مصیبت ہے’’۔ وہ چلائی ۔ پھر ہچکیاں لینے لگی۔ کچھ دیرکے بعد سنبھل کر بولی
‘‘ میں نے بہت مرتبہ چاہا تمہیں سب کچھ بتادوں ، مگر ، مگر ہمت نہ پڑی’’۔
‘‘تو اب بتادو’’ میں نے کہا۔
‘‘یہ سب کچھ جو ہورہا ہے’’۔ وہ بولی‘‘ اس کی وجہ ایک خواب ہے’’۔
‘‘خواب....؟’’۔
‘‘ہاں ’’ وہ بولی ‘‘ ایک منحوس خواب جو مسلسل دیکھ رہی ہوں۔ میں نے کبھی کوئی اور خواب نہیں دیکھا’’۔ وہ بولی ‘‘ صرف یہی ایک خواب بار بار یہی ایک خواب ۔ اس کی کوئی تفصیل نہیں بدلتی۔ پہلے یہ خواب میں تقریباً تین مہینے کے بعد دیکھتی تھی ، پھر ہر مہینے دیکھنے لگی اور اب شادی کے بعد ہفتے میں ایک یا دوباردیکھتی ہوں’’۔
‘‘تو کیا شادی سے پہلے بھی دیکھتی تھیں....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘ہاں’’ وہ بولی۔‘‘ تین سال شادی سے پہلے اور اب دو سال شادی کے بعد بھی ’’۔ وہ کچھ ساعت کے لیے خاموش ہوگئی ، پھر بولی ‘‘ جب میں نے پہلی دفعہ یہ گھر دیکھا تھا تو میں حیران رہ گئی تھی۔ وہی بیڈ روم، وہی گیلری ، وہی زینہ جو ڈرائنگ روم میں اُترتاہے’’۔
‘‘کیا مطلب....؟’’ میں نے حیرت سے پوچھا۔
‘‘میں اس مکان سے پوری طرح واقف تھی۔ خواب میں اسے بیسیوں مرتبہ دیکھ چکی تھی’’۔
‘‘تو کیا تم خواب میں یہی مکان دیکھتی رہیں....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘ہاں’’ وہ بولی ‘‘ یہی مکان، یہی بیڈ، یہی گیلری اور یہی زینہ’’۔
‘‘مگر خواب میں تم دیکھتی کیا ہو....؟’’ میںنےپوچھا۔
‘‘دیکھتی ہوں کہ میں اس پلنگ پر لیٹی ہوئی ہوں۔ پہلے میرے سامنے ایک بڑی سی تختی آجاتی ہے جس پر موٹے حروف میں نام لکھا ہوتا ہے ‘‘افضل’’ پھر ایک ڈرا ؤنی آواز سنائی دیتی ہے ‘‘نہیں’’ ایک ہاتھ اُبھرتا ہے اور اس تختی پر کوچی پھیر دیتا ہے’’۔ افضل مٹ جاتا ہے اور اس کی جگہ فاضل لکھا جاتا ہے۔ پھر وہی ڈراؤنی آواز کہتی ہے ‘‘فاضل، فاضل’’ پھر میں ڈر کر اُٹھ بیٹھتی ہوں۔ نہیں نہیں’’۔ وہ بولی ‘‘میں جاگتی نہیں، خواب میں اُٹھ بیٹھتی ہوں۔ دیکھتی ہوں تم پلنگ پر موجود نہیں۔ پھر نیچے ڈرائنگ روم سے تمہاری آواز سنائی دیتی ہے اور میں اُٹھ کر گیلری سے گزر کر زینہ اُترتی ہوں۔ تم ڈرائنگ روم میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہو۔ پھر میں چیخ کر تمہیں آواز دیتی ہوں لیکن میرے منہ سے تمہارے نام کے بجائے ‘‘فاضل ’’ نکل جاتا ہے۔ اس پر تمہارے دوستوں میں سے ایک اجنبی اُٹھ کر میری طرف بھاگتا ہے’’۔ میری چیخ نکل جاتی ہے۔ ساتھ ہی بجلی کڑکتی ہے، ایک دھماکا ہوتا ہے اور پھر مٹی ہی مٹی، دھول ہی دھول اور میں جاگ پڑتی ہوں’’۔
وہ خاموش ہوگئی۔ دیر تک ہم دونوں خاموشبیٹھےرہے۔
‘‘شادی سے پہلے بھی تم میرا نام جانتی تھیں کیا....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘ہاں’’ وہ بولی۔
‘‘فاضل کون ہے....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘مجھے نہیں پتہ’’ وہ بولی۔
‘‘شاید تمہارا کوئی عزیز یا بچپن کا ساتھی ہو’’۔ میںنے کہا۔
‘‘نہیں’’ وہ بولی ‘‘ یہ نام میں نے خواب کے علاوہ کبھی نہیں سنا’’۔
‘‘جب میں تمہیں پہلی مرتبہ ملا تھا اور تم نے میرا نام جانا تھا.... اس وقت....’’
‘‘ہاں’’۔ وہ میری بات کاٹ کر بولی ‘‘ مجھے پتہ تھا۔ امی چاہتی تھیں کہ ہماری شادی ہوجائے لیکن میں نہ چاہتی تھی۔ اگرچہ دل ہی دل میں میں جانتی تھی کہ یہ شادی ہوکر رہے گی۔ پھر شادی کے بعد تم مجھے اتنے اچھے لگے، اتنے اچھے کہ میرے دل میں یہ خوف کانٹا بن کر لگ گیا کہ کہیں ہم ایک دوسرے سے الگ نہ ہوجائیں’’۔ اس نے ایک ہچکی لی اور رونے لگی۔
اسمارہ کا یہ خواب بے حد حیران کن تھا۔ اتنا حیران کن کہ میں سناٹے میں رہ گیا۔ میرا نفسیات کا سارا علم بھک سے اُڑ گیا۔ اس کے ایک ہفتے بعد وہ حادثہ ہوا جس کی وجہ سے میں ہسپتال میں پڑا ہوں۔
اگرچہ اسمارہ کی مسلسل منتوں کی وجہ سے میں نے وعدہ کرلیا کہ میں ظہیر سے اس کے اس خواب کی بات بیان نہیں کروں گا پھر بھی میری خواہش تھی کہ اسمارہ کا نام لیے بغیر اس سے پوچھوں کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی سالہا سال مسلسل ایک ہی خواب دیکھتا رہے۔ غالباً اسی غرض سے میں نے ظہیر کو کھانے پر مدعو کرلیا۔ ظہیر مان گیا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد اس نے مجھے فون کیا، بولا:
‘‘ آج کا ڈنر کینسل کرادو افضل’’
‘‘کیوں....؟’’ میں نے پوچھا۔
کہنے لگا ‘‘ میرے دو پرانے شاگرد آگئے ہیں۔ وہ میرے پاس ٹھہریں گے، اس لیے مجبوری ہے’’۔
میں نے کہا ‘‘ یہ تو کوئی بات نہیں، تم انہیں بھی ڈنر پر ساتھ لے آنا۔ یہ تو اور بھی اچھا ہے رونق ہوجائےگی’’۔
رات کے ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ظہیر اور اس کے دونوں مہمان ہمارے ہاں آگئے۔ نو بجے کے قریب ہم نے کھانا کھایا۔ پھر کافی کا دور چلا۔ اس روز اسمارہ کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ اس لیے وہ شب بخیر کہہ کر رُخصت ہوگئی اور ہم باتیں کرنے لگے۔ دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔ مختلف موضوعات پر، آخر میں خوابوں کی بات چل نکلی۔
عین اس وقت گھنٹی بجی۔ میں حیران ہوا کہ اس وقت کون آسکتا ہے۔ میں نے اُٹھ کر دروازہ کھولا، کوئی باہر کھڑا بارش میں بھیگ رہا تھا۔ میں نے کہا ‘‘آئیے، آئیے، اندر آجائیے’’۔
اندر داخل ہوکر اجنبی نے معذرت کی۔ بولا ‘‘معاف کیجیے گا میں خواہ مخواہ مخل ہورہا ہوں۔ دراصل باہر کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ بجلی زوروں سے چمک رہی ہے۔ میں ایک صاحب کی تلاش میں جارہا تھا، تو بارش ہونے لگی۔ کمرے میں روشنی دیکھی، تو میں نے سوچا شیلٹر کے لیے آپ سے درخواست کروں’’۔
‘‘آئیے، آئیے، شوق سے آئیے، آپ بالکل حارج نہیں ہورہے ، بیٹھیے’’۔ ظہیر نے کہا ‘‘تشریف رکھیے’’۔
میں نے فٹافٹ اجنبی کو ایک پیالی کافی کی پیش کی۔ وہ آرام سے بیٹھ کر کافی پینے لگا اور ہم پھر خوابوں پر خال آرائی کرنے لگے۔ کچھ دیر تک ظہیر خوابوں کے متعلق اپنا فلسفہ جھاڑتا رہا۔
میں نے پوچھا ‘‘ایک بات بتاؤ ظہیر....! کیا کبھی تمہارے پاس کوئی ایسا پیشنٹ آیا ہے جو سالہا سال سے ایک ہی خواب دیکھا رہا ہو....؟’’
‘‘ہاں’’ ظہیر نے سرسری انداز میں کہا
‘‘ ایسے کیسز ہوتے ہیں۔ ایک ہی خواب دیکھتے رہنا کوئی خاص بات نہیں’’۔
‘‘کمال ہے صاحب’’ اجنبی بولا ‘‘آپ کمال کرتے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی خاص بات نہیں، حالانکہ اسی بات کی وجہ سے میری زندگی گزشتہ نو سال سے تباہ ہورہی ہے’’۔
اجنبی کی بات سن کر ہم حیران ہوئے۔
‘‘آپ کا مطلب ہے’’ ظہیر نے کہا ‘‘ آپ نو سال سے ایک ہی خواب دیکھ رہے ہیں’’۔
‘‘بالکل ’’ وہ بولا ‘‘ جناب والا میں نو سال سے ایک ہی خواب دیکھ رہا ہوں۔ بالکل وہی ایک خواب ، کوئی تفصیل نہیں بدلتی’’۔
‘‘ذرا ٹھہرئیے’’ ظہیر بولا۔ ‘‘آپ کا کیا شغلہے....؟’’
‘‘میں ایک بزنس مین ہوں’’ اجنبی نے کہا ‘‘میری عمر تیس سال ہے اور میں اسی شہر میں رہتاہوں’’۔
‘‘آپ کی شادی ہوچکی ہے کیا....؟’’ ظہیرنےپوچھا۔
‘‘نہیں ’’ اجنبی نے کہا
‘‘ میری شادی نہیں ہوسکتی’’۔
‘‘کیوں....؟’’
‘‘بس میری یہ فیلنگ ہے۔ چار ایک مرتبہ میری شادی کا فیصلہ ہوگیا تھا، سب کچھ طے ہوگیا تھا لیکن ہر بار ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ عین وقت پر بات ٹوٹ گئی۔ اب مجھے یقین ہے میری شادی نہیں ہوسکتی چونکہ وہ پہلے ہی سے طے ہوچکی ہے’’۔
‘‘ارے’’ کمرے میں بیٹھے ہوئے سبھی لوگ چونکے۔ ‘‘ کیا آپ کے اس خواب کا شادی سے تعلق ہے؟’’ ظہیر نے پوچھا۔
‘‘ہاں ’’ اجنبی بولا ‘‘ میں محسوس کرتا ہوں کہ میری ہونے والی بیوی ، کسی شہر میں کسی مکان میں میری منتظر ہے اور جب میں ....’’
‘‘ذرا ٹھہریے’’ ....ظہیر بولا
‘‘ پہلے ہمیں وہ اپنا خواب تو سنائیے جو آپ گزشتہ نو سال سے مسلسل دیکھ رہے ہیں’’۔
‘‘معاف کیجیے گا’’۔ میں نے وضاحت کرنے کے خیال سے کہا ‘‘یہ ظہیر صاحب یہاں کے مشہور سائیکاٹرسٹ ہیں، ممکن ہے یہ آپ کو کوئی اچھا مشورہ دے سکیں’’۔
‘‘میرا یہ خواب’’۔ اجنبی نے کہا ‘‘ جو میں گزشتہ نو سال سے مسلسل دیکھتا آرہا ہوں، کبھی مہینے میں ایک بار، کبھی ہفتہ وار۔ یہ خواب بڑا ہی مختصر اور واضحہوتاہے’’۔
‘‘ جی !’’ سب ہمہ تن گوش سننے لگے۔
‘‘دیکھتا ہوں کہ کوئی شہر ہے، بہت بڑا شہر ، وہاں میں گھوم پھر رہا ہوں، یوں جیسے مجھے کسی کی تلاش ہو، گلیاں ہی گلیاں، بازار ہی بازار۔ کھلے بازار، بھیڑ ہی بھیڑ، پھر مضافات آجاتے ہیں۔ کھلی بستیاں اور خوبصورت مکانات، پھر جھگیاں ہی جھگیاں ۔ یوں میں کسی کی تلاش میں چلے جاتا ہوں، چلے جاتا ہوں۔ آخر ایک دروازے پر رُک جاتا ہوں۔ رات کا وقت ہے، اندر بتی جل رہی ہے۔ میں نے اندر داخل ہوجاتاہوں’’۔
اجنبی جوش میں اُٹھ بیٹھا اور ڈرائنگ روم کے بیرونی دروازے کی طرف جاکر پھر ہماری طرف مڑا، جیسے ابھی ہی دروازے سے اندر داخل ہوا ہو۔
‘‘دروازے سے یوں کمرے میں داخل ہوتا ہوں’’۔ اجنبی نے اپنا سلسلۂ کلام جاری کیا ‘‘کیا دیکھتا ہوں’’ وہ ہماری طرف دیکھ کر بولا ‘‘ کمرے میں کچھ لوگ بیٹھے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح آپ بیٹھے ہیں.... وہ مکان پرانی وضع کا ہے’’۔ دو ایک ساعت کی خاموشی کے بعد اس نے بات شروع کی ۔ ‘‘ اور اس کمرے کے اوپر چاروں طرف گیلری بنی ہوئی ہے’’۔
اجنبی نے اوپرچھت کی طرف دیکھا، وہ جوش میں آکر چلانے لگا۔ ‘‘ارے! بالکل اسی طرح جس طرح اس کمرے میں گیلری بنی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح’’۔ وہ چیخ کر بولا ‘‘اور صاحب، اس گیلری سے ایک زینہ سیدھا نیچے ڈرائنگ روم میں اُترتا ہے۔ مائی گاڈ’’! وہ زینے کی طرف دیکھ کر بولا ....
‘‘بالکل وہی زینہ وہی’’۔ اجنبی کی آواز جذبے کی شدت سے گھگیا گئی۔ آنکھیں گویا پھٹ گئیں’’ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟’’ اس نے زیرِ لب کہا۔
‘‘ نہیں، نہیں، آپ خواب نہیں دیکھ رہے’’۔ ظہیر نے کہا۔ ‘‘اور، اور’’ اجنبی نے سلسلۂ کلام شروع کیا’’ اور پھر گیلری سے وہ خاتون زینہ اُترتی ہے’’۔
‘‘کھٹ، کھٹ، کھٹ’’ کسی کے زینے سے اُترنے کی آواز آنے لگی۔ ہم سب یوں چپ چاپ بیٹھے اس آواز کو سننے لگے، یوں جیسے کسی نے ہمیں ہیپناٹائز کردیا ہو۔ ‘‘اور ۔ اور پھر وہ خاتون ....میری ہونے والی بیوی رُک جاتی ہے’’۔ ہم سب کی نگاہیں زینے پرمرکوزہوگئیں۔
آواز بند ہوگئی۔ زینے پر اسمارہ یوں کھڑی تھی، جیسے کوئی بت ہو۔ ایک ساعت کے لیے کمرے میں بھیانک خاموشی طاری رہی، پھر ایک نسوانی چیخ سی سنائی دی۔ ‘‘فاضل، فاضل!’’
اجنبی نے زینے کی طرف چھلانگ لگائی‘‘ میں آگیا ہوں ! میں آگیا ہوں!’’وہ بولا اور دیوانہ وار سیڑھیاں چڑھ کر اس نے گرتی ہوئی اسمارہ کو سہارادیا۔
میں نے اُٹھنے کی شدید کوشش کی، لیکن مجھے ایسا لگا جیسے میں پتھر کا بت بن گیاتھا۔ میں نے شدت سے اپنے آپ کو گھسیٹا اور سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ عین اس وقت زور سے بجلی کڑکی اور پھر، اور پھر، پھر کچھ پتہ نہیں۔ ایک خوفناک دھماکہ ہوا، کوئی بھاری سی چیز مجھ پر آگری، پھر مجھے ہوش نہیں۔
ہوش آیا تو میں یہاں پڑا تھا۔ اس بیڈ پر، میرا منہ اور سر پٹیوں میں لپٹا ہو اتھا۔ چھ مہینے میں پٹیوں میں لپٹا رہا۔ چھٹے مہینے پٹیاں کھلیں، تو میں نے دیکھا، میںیہاںہوں۔
ایک روز میں نے نرس سے پوچھا ‘‘ بی بی میں یہاں کیسے آیا تھا؟’’
‘‘ایکسیڈنٹ’’ وہ بولی ‘‘ جس کمرے میں آپ بیٹھے تھے۔ اس کی چھت گر گئی تھی۔ ’’
میں نے اس سے مزید باتیں پوچھیں، لیکن اسے تفصیلات کا علم نہ تھا۔ پھر میں نے پولیس انسپکٹر سے پوچھا جو اس کیس پر مامور تھا۔ وہ بولا :
‘‘ حادثے کے وقت کمرے میں چھ اشخاص موجود تھے۔ پانچ مرد اور ایک عورت۔ عورت اور ایک مرد جو زینے پر کھڑے تھے، وہ صاف بچ گئے۔ ڈاکٹر ظہیر جو سائیکاٹرسٹ تھے اور صاحبِ خانہ مسٹر افضل اور ظہیر صاحب کے ایک مہمان، تینوں جو کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے تھے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے اور آپ جمیل صاحب چونکہ زینے کے قریب تھے، آ پ بچ تو گئے لیکن آپ کا چہرہ چوٹوں کی وجہ سے ڈس فگر ہوگیا۔ آپ کو اُٹھاکر ہسپتال لے آئے’’۔
‘‘نہیں نہیں انسپکٹر صاحب’’ میں نے کہا ‘‘ میں افضل ہوں افضل’’۔
انسپکٹر نے غور سے میری طرف دیکھا، ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ڈاکٹر نے اپنی کنپٹی پر انگلیاں گھماتے ہوئے چکر کا نشان بنایا۔
‘‘نہیں صاحب’’! انسپکٹر نے جواب دیا ‘‘ آپ کا ذہنی توازن ابھی بحال نہیں ہوا۔ افضل کی لاش کی شناخت ہوگئی تھی۔ خود ان کی بیگم نے شناخت کی تھی’’۔ ‘‘ان کی بیگم کہاں ہیں آج کل’’ میں نے پوچھا۔
‘‘انہوں نے مسٹر فاضل سے شادی کرلی ہے اور وہ یہ شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں’’۔
انسپکٹر کا بیان سن کر میں سوچ میں پڑگیا۔ کیا واقعی میں افضل نہیں ہوں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اسی روز میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا:
‘‘میں کون ہوں....؟’’
وہ سرسری انداز میں بولے ‘‘ آپ جمیل ہیں، آپ ظہیر سائیکاٹرسٹ کے گھر مہمان کے طور پر آئے تھے۔ اسی رات جب ایکسیڈنٹ ہوا تو آپ ظہیر کے ساتھ افضل صاحب کے ہاں کھانےپر گئےہوئےتھے’’۔
‘‘نہیں ڈاکٹر صاحب’’ میں نے چلاکر کہا میں افضل ہوں ، افضل!’’
‘‘آپ سوچیے نہیں’’ ڈاکٹر اطمینان سے بولا ‘‘ہیڈ انجری کے مریض کی یادداشت عام طور پر گڈ مڈ ہوجاتی ہے۔ آپ اپنی یادداشت کھوبیٹھے ہیں۔ سوچنا یا فکر کرنا آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ’’۔
آج مجھے یہاں ہسپتال میں آئے ہوئے چھ مہینے سے زائد ہوچکے ہیں۔ میرے چہرے کو پلاسٹک سرجری سے بحال کیا جارہا ہے لیکن ڈاکٹر کا کہنا ہے ابھی ایک مہینہ اور لگے گا۔ میں اس بیڈ پر پڑا سوچتا رہتا ہوں کہ میں کون ہوں....؟ آیا میں جمیل ہوں یا افضل....؟ بیٹھے ہوئے واقعات فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے چلتے رہتے ہیں۔ کسی وقت میرا جی چاہتا ہے کہ چلا چلا کر کہوں :
‘‘ میں افضل ہوں افضل۔ میں اسمارہ کاخاوندہوں’’ .....
پھر سوچنے لگتا ہوں کہ لاحاصل ہے۔ ہونی ہوکر رہتی ہے، اس کے خلاف لڑنا بیکار ہے۔ پھر میں خاموشی سے بستر پر لیٹ جاتا ہوں۔
ٹھہریے یہی تو مشکل ہے.... میرا نام کیا ہے....؟ مجھے نہیں پتہ کہ میں کون ہوں....؟
آپ کہیں گے یہ ایکسیڈینٹ کی وجہ سے ہے۔
ہاں ایکسیڈینٹ تو ہوا تھا، لیکن میرا ذہن ماؤف نہیں ہوا تھا۔ میری یادداشت شل نہیں ہوئی تھی، صرف چہرہ مسخ ہوا تھا۔ ساری چوٹیں چہرے اور سر پر آئی تھیں، مگر میرا ذہن کام کرتا رہا، بلکہ مجھے تو یہ مشکل ہے کہ میرا ذہن کچھ زیادہ ہی کام کرتا ہے۔
کاش! میرا ذہن ماؤف ہوگیا ہوتا۔ ذہنی کشمکش سے تو جان چھوٹتی۔ اب میں پلنگ پر پڑے پڑے سوچتا رہتا ہوں، میں کون ہوں....؟
ایک بات تو یقینی ہے، یا تو میں افضل ہوں اور یا جمیل۔ میں خود اپنے آپ کو افضل سمجھتا ہوں، لیکن اسپتال میں سب مجھے جمیل کہہ کر بلاتے ہیں۔
ڈاکٹر کہتا ہے، افضل تو حادثے میں مر گیا تھا۔ اس کی لاش کی شناخت ہوئی تھی۔
***
اس کے باوجود مجھے اب بھی شک پڑتا ہے۔ میں افضل ہوں، جمیل نہیں۔ مجھے تو پتہ ہی نہیں جمیل کون تھا اور یہ سب کچھ ایک خواب کی وجہ سے ہوا۔
بچپن میں، میں سمجھا کرتا تھا، خواب اشارے ہوتے ہیں.... مستور اشارے۔ سانپ دیکھو، تو جان لو وہ دشمن ہے۔ شادی دیکھو، تو سمجھ لو کوئی غمی دیکھنا پڑے گی۔ کٹا ہوا پھل دیکھو، تو اولاد کا دکھ ہوگا۔
ان دنوں میں نے کئی ایک تعبیر نامے خریدے تھے جن میں ایک طرف چیزوں کی فہرست دی ہوتی اور دوسری طرف تعبیر۔ پھر تعلیم حاصل کرنے کے بعد مجھے پتہ چلا، خواب عام طور پر دبی ہوئی یا انجانی خواہشات کا اظہار ہوتے ہیں۔
تحصیل علم کے بعد جب میں نے ای ایس پی ESP (Extrasensory Perception)کا مطالعہ کیا، تو جانا کہ خواب مستقبل کے پیامبر بھی ہوسکتے ہیں، لیکن اب مجھ سے کوئی پوچھے کہ خواب کیا ہوتے ہیں، تو میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ میرا سارا علم پھپھوندی کی طرح اڑ گیا ہے۔ میں اپنے آپ کو جاہل مطلق سمجھنے لگا ہوں۔ اب تو کئی بار اسپتال کے اس بیڈ پر لیٹے ہوئے مجھے خیال آتا ہے، شاید یہ بھی ایک خواب ہے جو میں دیکھ رہا ہوں۔ یہ بیڈ، اسپتال، ڈاکٹر، نرس، سب کچھ اور ابھی میری آنکھ کھل جائے گی اور پھر مجھے پتہ چل جائے گا، میں کون ہوں۔
پھر مجھے خیال آتا ہے شاید کبھی آنکھ نہ کھلے۔ شاید زندگی بذات خود ایک خواب ہو۔
***
میری کہانی بہت ہی مختصر ہے۔
میں لوئر مڈل گھرانے میں پیدا ہوا۔ ماں باپ کا اکلوتا بیٹھا تھا، اس لیے سارے گھر کا محبوب۔ انہوں نے بڑے شوق سے مجھے پڑھایا۔
نفسیات میں ایم اے کرنے کے بعد مجھے ایک کالج میں نوکری مل گئی۔ پھر میری شادی اسمارہ سے ہوگئی۔ اسمارہ میری بنت عم نہ تھی۔ بنت عم کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا.... امی کا کوئی قریبی عزیز تھا نہ ابا کا۔ اسمارہ امی کی ایک پرانی سہیلی شمسہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ خاوند مر چکا تھا۔ ماں چاہتی تھی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرکے مصلے پر بیٹھ کر اللہ اللہ کرے۔
شمسہ نے امی سے بات کی، امی نے مجھے کہا۔ کہنے لگیں بیٹا! اسمارہ کو دیکھ لے، اگر تجھے پسند ہو، تو تیرا اس سے بیاہ کردوں۔ شمسہ کی آرزو بھی پوری ہوجائے گی۔ میں بھی سہیلی کے سامنے سرخرو ہوجاؤں گی۔ اگر تو رضا مند ہوجائے، تو تیرے ابا کو میں منا لوں گی، آخر شادی تو کرنی ہی ہے۔ کسی نہ کسی لڑکی سے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی مجبوری ہے۔ اسے دیکھ لے، اگر تو اسے پسند کرے تو ٹھیک ہے۔ پسند نہ ہو تو نہ سہی۔
پہلے دن جب میں نے اسمارہ کو دیکھا، تو وہ آنکھیں ہی آنکھیں تھیں۔ آنکھیں ہی آنکھیں.... میں نے زندگی میں رنگ رنگ کی آنکھیں دیکھی ہیں.... لیکن اسمارہ سی آنکھیں کبھی نہ دیکھی تھیں۔
اسمارہ کی آنکھیں دیکھنے والی آنکھیں نہ تھیں۔ وہ صرف دکھانے والی آنکھیں تھیں۔ جوں جوں آپ انہیں دیکھتے، توں توں وہ بڑی ہوتی جاتیں، ہوتی جاتیں، ہوتی جاتیں، حتیٰ کہ وہ سارے گرد و پیش پر چھاجاتیں۔
ان آنکھوں میں تین تاثر نمایاں تھے۔ معصومیت،حیرت اور حسرت....
اسمارہ ایک خاموش لڑکی تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے وہ بن بولے بہت کچھ سہے جارہی ہو۔ کیا سہے جارہی ہو، یہ پتہ نہیں چلتا تھا۔ میں کئی ایک بار اسمارہ سے ملا۔ گھر میں، اکیلے میں ،کئی بار میں اسے فلم دکھانے بھی لے گیا۔ غالباً اسے علم تھا کہ میرا اسے بار بار ملنا کسی مقصد کے تحت تھا اور وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ مقصد کیا ہے لیکن نہ تو اس نے مجھے لبھانے کی کوشش کی، نہ اس میں فکر یا پریشانی کی جھلک پیدا ہوتی۔ نہ اس نے میرے قریب آنے کی کوشش کی، نہ دور جانے کی۔ مختصر یہ کہ اسمارہ دوسری لڑکیوں سے ہٹ کے تھی۔ اس کی انفرادیت اور معصومیت مجھے بہت پسند آئی اور میں نے امی کو کہہ دیا کہ بیشک آپ اسمارہ کو بہو بنالیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ نتیجہ یہ کہ ہماری شادی ہوگئی۔
شادی کے بعد میں نے محسوس کیا، وہ بڑی پاکیزہ، وفا شعار، خدمت گار اور محبت کرنے والی بیوی ہے۔ بس صرف ایک بات تھی جو میرے لیے بہت پریشان کن تھی۔ اسمارہ کی عادت تھی، وہ کبھی سر اُٹھا کر میری طرف نہ دیکھتی، جب بھی ہم اکٹھے بیٹھ کر آپس میں باتیں کرتے تو وہ سر جھکائے بیٹھی رہتی۔ کبھی کبھی آنکھیں ملائے بغیر سر اُٹھاکر میری جانب ایک ساعت کے لیے دیکھتی اور پھر جلد ہی آنکھیں جھکالیتی۔ اس نے کبھی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر میری طرف نہ دیکھا تھا۔ شروع شروع میں میں سمجھا کہ شاید شرماتی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا۔
پھر جلد ہی میں نے ایک اور بات نوٹ کی۔ جب بھی میں کام یا مطالعے میں مصروف ہوتا یا میری توجہ کسی اور جانب مرکوز ہوتی تو اسمارہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف دیکھتی رہتی۔ آپ جانتے ہیں ، کوئی ٹکٹکی باندھ کر آپ کی طرف دیکھے تو پتہ نہیں کس اصول کے تحت انجانے میں آپ کو پتہ چل جاتا ہے اور آپ کی نگاہ دیکھنے والے کی طرف اُٹھ جاتی ہے۔
جب بھی اسمارہ ٹکٹکی باندھ کر میری طرف دیکھتی تو فوراً میری نگاہ اس کی طرف اُٹھتی ۔ اس پر وہ گھبرا کر آنکھیں جھکالیتی۔ پہلے تو میں نے کوئی اہمیت نہ دی۔ جب بار بار اس کا اعادہ ہوا تو میں کانشس ہوگیا۔ پھر میں جان بوجھ کر جھوٹ موٹ اپنی توجہ کتاب پر مرکوز کرلیتا، جیسے مطالعے میں کھوگیا ہوں، لیکن کانی آنکھ سے اسمارہ کی طرف دیکھتا رہتا۔ وہ مسلسل ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھتی رہتی، دیکھتی رہتی۔ یہاں تک کہ ہاتھ کے کام کو بھی بھول جاتی۔ سلائیوں کا کام کررہی ہوتی، تو سلائیاں رُک جاتیں، مشین کا کام کررہی ہوتی، تو ہاتھ مشین کی ہتھی پر رُک جاتا۔ حساب لکھ رہی ہوتی، تو پینسل منہ میں ڈال لیتی۔ اس دوران میں گویا اسے کچھ اور سوجھتا ہی نہ تھا۔ بس دیوانہ وار میرے منہ کی طرف تکے جاتی، تکے جاتی۔ اس کی نگاہ میں محبت اور حسرت کا عجیب سا امتزاج ہوتا۔ کبھی حسرت اُبھرتی اور محبت دب جاتی، کبھی محبت اُبھرتی اور حسرت دب جاتی۔ پھر ایک رات تو بات بالکل سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ رات کو جو میں جاگا ، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسمارہ میرے سرہانے بیٹھی، میرے منہ پر جھکی ہوئی ٹکٹکی باندھے میری طرف دیکھ رہی ہے۔ یہ دیکھ کر میں بند آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔
اس روز دیر تک میں اسمارہ کے اس خصوصی برتاؤ کا مطالعہ کرتا رہا۔ اس کی آنکھوں کی سفیدی میں حسرت کے انبار لگے ہوئے تھے اور پتلیوں میں محبت کے دیے جل رہے تھے۔ پھر لیٹے لیٹے میں نے سوچا، کیوں نہ اب جاگنے کا ڈھونگ رچاؤں۔ دیکھوں تو سہی میرے جاگنے پر اسمارہ کیا کرتی ہے....؟
میں نے جھوٹ موٹ حرکت کی، کروٹ لی اور پھر انگڑائی لے کر اُٹھ بیٹھا۔ اب جو دیکھتا ہوں تواسمارہ اُدھر کروٹ بدلے پڑی ہے، یوں پڑی ہے جیسے کبھی جاگی ہی نہ ہو۔ اگر خالی ٹکٹکی باندھ کر مجھے دیکھنے ہی کی بات ہوتی، تو کوئی بات نہ تھی، لیکن میرے جاگ اُٹھنے پر اس کا یوں منہ سر لپیٹ کر پڑ جانا، جیسے کبھی جاگی ہی نہ ہو، میرے دل میں کانٹا بن کر اُتر گیا۔
میری بد قسمتی ہے ، میں نفسیات کا ایم اے ہوں، ورنہ میں اس برتاؤ کی چھوٹی اور عام تفصیلات کو اہمیت نہ دیتا۔ بات کیا ہے....؟ میرے دل سے ہلکی سی آواز اُٹھی۔ پھر وہ آواز بڑھتی گئی ، بڑھتی گئی۔ ذہن سے میرے دل میں اُتر گئی اور دل سے نسوں میں جاکر جلترنگ کی طرح بجنے لگی۔
میری اس پریشانی میں شک کا عنصر نہ تھا۔ شک کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چونکہ اسمارہ کی ہر بات، ہرحرکت محبت میں بھیگی ہوئی تھی۔ مجھے یقین تھا وہ مجھ سے بے انداز محبت کرتی ہے۔ یہ بھی علم تھا کہ معصومیت اس کے کردار کا جزوِ اعظم ہے۔ پھر سمجھ میں نہ آتا تھا، اس کی نگاہ میں اتنی حسرت کیوں ہے اور یہ جذبۂ حسرت میری ذات سے کیوں وابستہ ہے....؟۔
میں نے اسمارہ سے کبھی اس کا تذکرہ نہ کیا تھا۔ کیسے کرتا ، جب وہ خود مجھ سے بات چھپارہی تھی، تو میں کیسے بات کرتا....؟ پھر بھی خیال آتا کہ شاید اپنے برتاؤ کی یہ تفصیل وہ اپنے آپ سے بھی چھپا رہی ہو۔ شاید اسے خود بھی علم نہ ہو، وہ ایسا کیوں کرتی ہے۔
پھر ایک نیا واقعہ عمل میں آیا۔ ایک روز جب میں کالج جانے کی تیاری کررہا تھا تو اتفاقاً میری نگاہ اخبار کے ایک آرٹیکل پر پڑی۔ یہ آرٹیکل اُوری گیلر Uri Geller پر تھا۔ اوری اسرائیل کا رہنے والا ایک یہودی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی توجہ سے کئی ایک شعبدے کرسکتا ہے۔ مثلاً لوہے کی کنجی موڑ سکتا ہے، گھڑی کی سرئیاں ہلاسکتا ہے، چیزیں غائب کرسکتا ہے۔ میں یہ آرٹیکل پڑھنے بیٹھ گیا اور بھول ہی گیا کہ مجھے کالج جانا ہے۔ اسمارہ کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے وہاں بیٹھے دیکھ کر چلاکر بولی :‘‘فاضل! آپ کالج نہیں جائیں گے کیا....؟’’
‘‘فاضل....! میں نے حیرت سے اسمارہ کیطرفدیکھا۔
‘‘فاضل ’’ وہ گھبراکر بولی ‘‘نہیں تو میں نے تو افضل کہا ہے’’۔
‘‘کہا تو فاضل ہی تھا’’ میں نے جواب دیا۔
‘‘شاید ’’ وہ بولی ‘‘ منہ سے نکل گیا ہو’’ وہ سخت گھبرائی ہوئی تھی۔ کچھ روز بعد پھر اس نے انجانے میں مجھے فاضل کہہ کر بلایا۔ اس روز میں نے اسے جتایا نہیں۔ چھ ماہ میں اسمارہ نے چار پانچ مرتبہ مجھے فاضل کہہ کر بلایا۔
میرے ذہن میں ایک اور سوالیہ نشان اُبھر آیا۔ ابھی پہلی پرابلم حل نہ ہوئی تھی کہ ایک اور پرابلم پیدا ہوگئی۔ پھر مجھے خیال آیا شاید یہ دونوں باتیں ایک ہی شاخ کی دو کونپلیں ہوں۔
ایک رات مجھے نیند نہ آرہی تھی۔ دس بجے کے قریب میں سوگیا تھا، لیکن بارہ بجے کے قریب جاگ پڑا تھا۔ اس کے بعد میں نے بڑی کوشش کی کہ سوجاؤں۔ مگر نیند نہ آئی۔ اتفاقاً میری نگاہ اسمارہ پر پڑی، وہ سو رہی تھی لیکن اس پر گویا اضطراب کا عالم چھایا ہوا تھا۔ اس سے پہلے سوتے میں میں نے اسے کئی بار دیکھا تھا ، کئی بار اس کی نیند بچے کی نیند جیسی تھی۔ گہری نیند جیسے کہ معصوم لوگوں کی ہوتی ہے لیکن اس روز وہ بات نہ تھی۔ سوتے میں وہ بل کھارہی تھی۔ جیسے سخت اضطراب میں ہو۔ پھر اس نے چیخ ماری۔ ‘‘فاضل.....!’’
میں نے اسے سہارا دیا۔ ‘‘ڈرگئی ہو اسمارہ....؟’’ میں نے کہا۔
‘‘افضل، افضل!مجھے چھوڑ کر نہ جانا’’۔
میں نے اسے بیڈ پر لٹایا۔ ‘‘کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ لیٹ جاؤ اسمارہ، لیٹ جا ؤ’’۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
میں نے اسے تسلی دی۔ حتیٰ کہ وہ خاموش ہوگئی۔ میرا خیال تھا اس نے رونا بند کردیا ہے لیکن جلد ہی میرے ہاتھوں پر ایک آنسو آگرا پھر ایک اور ،ایک اور، پھر میں نے جانا کہ وہ آنسوؤں والا رونا رو رہی تھی۔
‘‘تمہیں کوئی تکلیف ہےا سمارہ....؟’’ میںنےپوچھا۔
‘‘نہیں ، نہیں تکلیف تو نہیں، لیکن ’’.....
‘‘لیکن کیا....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘میں تمہیں سکھ نہ دے سکی’’۔ وہ رونی آواز میں بولی ‘‘ اُلٹا میں نے تمہاری پریشانیوں میں اضافہ کردیاہے....؟’’
‘‘نہیں نہیں۔ میں تو بہت خوش ہوں’’ میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔
‘‘مجھے پتہ ہے’’۔ وہ بولی ‘‘ تم کتنے فکر مند ہو۔ میری وجہ سے فکر مند ہو۔ کاش میں تمہارا ساتھی بن سکتی’’۔ وہ پھر رونے لگی۔ دیر تک میں اسے بہلاتا رہا۔ حتیٰ کہ وہ روتے روتے سوگئی۔
اس روز میں واقعی گھبراگیا۔ ضرور اسمارہ کے دل میں کوئی کانٹا لگا ہوا ہے اور پھر جب وہ ڈر کر جاگی تھی، تو اس نے فاضل کو آواز کیوں دی تھی؟ فاضل کون تھا....؟’’ اس واقعے سے میں اس قدر گھبراگیا کہ میں ظہیر سے جاکر ملا۔ ظہیر میرا پرانا دوست ہے، وہ سندیافتہ سائیکاٹرسٹ ہے۔ میں نے اسے اسمارہ کے متعلق ساری تفصیلات سنائیں۔
وہ ہنس پڑا ‘‘ بڑا دلچسپ کیس ہے، لیکن پریشانی کی کوئی خاص بات معلوم نہیں پڑتی’’۔
‘‘پھر بھی تمہارا کیا اندازہ ہے....؟’’ میںنےپوچھا۔
‘‘اس معاملے میں اندازے نہیں چلتے’’۔ ظہیر نے جواب دیا ‘‘ ممکن ہے دبا ہوا احساسِ گناہ ہو۔ کوئی غیرعقلی ڈر ہو، خوف ہو’’۔
‘‘احساسِ گناہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا’’۔ میں نے کہا ‘‘اسمارہ اتنی پاکیزہ اور معصوم لڑکی ہےکہ’’ ....
ظہیر نے قہقہہ لگایا ‘‘ انسان ایک معمہ ہے اور انسانی ذہن ایک گورکھ دھندا۔ تم بھابھی کومیرے پاس لے کر آؤ تاکہ میں ان کا مسئلہ سن کر کسی نتیجے پر پہنچ سکوں، پھر شاید میں کوئی اندازہ لگاسکوں’’۔
گھر آکر میں نے بڑے محتاط انداز سے اسمارہ سےبات کی۔
‘‘نہیں نہیں’’۔ وہ سخت گھبراہٹ سے بولی ۔ ‘‘میں سائیکاٹرسٹ کے پاس نہیں جاؤں گی’’۔
اس روز پہلی مرتبہ اس کے انداز میں شدت تھی۔ اتنی شدت تھی کہ میں حیران رہ گیا۔
چند ہی دنوں کے بعد ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ آدھی رات کے وقت میں نیند سے جاگا تو میں نے دیکھا کہ اسمارہ سوتے میں شدید اضطراب محسوس کررہیتھی۔
میں اسے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا۔ میرا خیال تھا کہ وہ ابھی چیخ مار کر جاگ اُٹھے گی لیکن میرا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ آہستہ آہستہ اس کا یہ اضطراب ختم ہوگیا اور وہ اکڑ گئی جیسے لکڑی کی بنی ہو۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ میں نے بیڈ سوئچ دباکر بلب روشن کردیا لیکن اسمارہ کو کچھ پتہ نہ چلا۔ وہ جوں کی توں بیٹھی رہی۔ پھر وہ اُٹھ بیٹھی اور چلنے لگی۔ اس وقت میں نے جانا کہ وہ نیند میں چل رہی ہے۔ میں نے ٹارچ اُٹھائی اور اس کے پیچھےپیچھے چل پڑا۔
ہمارا گھر پرانی طرز کا بنا ہوا ہے۔ اس کا ایک حصہ خاصا بوسیدہ ہے۔ ہمارا بیڈ روم دوسری منزل پر ہے۔ دوسری منزل سے دو زینے نیچے آتے ہیں۔ ان میں سے ایک سیدھا ڈرائنگ روم میں اُترتا ہے۔ اسمارہ غلام گردش سے چلتی ہوئی اس زینے سے اُترنے لگی جو ڈرائنگ روم میں جاتا ہے۔ جب چند ایک سیڑھیاں باقی رہ گئیں تو وہ رُک گئی۔ میں اس کے پاس سے گزر کر نیچے اُترگیا۔ میں نے ڈرائنگ روم کی بتیاں جلادیں۔ اس کے باوجود وہ جوں کی توں لکڑی کے جنگلے سے ٹیک لگائے کھڑی رہی۔ پھر مجھے ایسے لگا جیسے وہ کسی کو آوازیں دے رہی ہو۔ اس کا منہ کھلتا اور بند ہوجاتا ، لیکن حلق سے آواز نہ نکلتی تھی۔ چند ایک ساعت وہ وہاں کھڑی رہی۔ پھر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ گرنے لگی ہو۔ میں نے لپک کر اسے باز ؤں میں تھام لیا۔
‘‘اسمارہ، اسمارہ!’’ میں نے اسے آواز دی۔
وہ جاگ پڑی۔ سخت گھبراگئی۔
‘‘میں کہاں ہوں....؟ افضل ہے....؟ شکر ہے تم ہو، تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو....؟’’ وہ اُکھڑی اُکھڑی باتیں کرنے لگی۔
اگلے روز بڑی سنجیدگی سے اسمارہ سے بات کی۔ ‘‘اسمارہ ، تم پڑھی لکھی ہو، سمجھدار ہواگر تم نے فوری طور پر اپنا علاج نہ کرایا تو ممکن ہے یہ ساری علامات کسی بیماری کی شکل اختیار کرلیں۔ اس لیے ضد نہ کرو چلو ظہیر سے اپنے مسئلے کو ڈسکس کرلو کیا حرج ہے....؟’’ اس نے سر نفی میں ہلادیا اور رونے لگی۔
میں نے اصرار کیا تو بولی ۔
‘‘میں ان سے ڈسکس نہیں کروں گی، کبھی نہیں۔ میں آپ کو سب کچھ بتادوں گی، لیکن ....’’
‘‘تمہیں پتہ ہے اسمارہ، میں تم سے کتنی محبت کرتاہوں....؟’’
‘‘یہی تو مصیبت ہے’’۔ وہ چلائی ۔ پھر ہچکیاں لینے لگی۔ کچھ دیرکے بعد سنبھل کر بولی
‘‘ میں نے بہت مرتبہ چاہا تمہیں سب کچھ بتادوں ، مگر ، مگر ہمت نہ پڑی’’۔
‘‘تو اب بتادو’’ میں نے کہا۔
‘‘یہ سب کچھ جو ہورہا ہے’’۔ وہ بولی‘‘ اس کی وجہ ایک خواب ہے’’۔
‘‘خواب....؟’’۔
‘‘ہاں ’’ وہ بولی ‘‘ ایک منحوس خواب جو مسلسل دیکھ رہی ہوں۔ میں نے کبھی کوئی اور خواب نہیں دیکھا’’۔ وہ بولی ‘‘ صرف یہی ایک خواب بار بار یہی ایک خواب ۔ اس کی کوئی تفصیل نہیں بدلتی۔ پہلے یہ خواب میں تقریباً تین مہینے کے بعد دیکھتی تھی ، پھر ہر مہینے دیکھنے لگی اور اب شادی کے بعد ہفتے میں ایک یا دوباردیکھتی ہوں’’۔
‘‘تو کیا شادی سے پہلے بھی دیکھتی تھیں....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘ہاں’’ وہ بولی۔‘‘ تین سال شادی سے پہلے اور اب دو سال شادی کے بعد بھی ’’۔ وہ کچھ ساعت کے لیے خاموش ہوگئی ، پھر بولی ‘‘ جب میں نے پہلی دفعہ یہ گھر دیکھا تھا تو میں حیران رہ گئی تھی۔ وہی بیڈ روم، وہی گیلری ، وہی زینہ جو ڈرائنگ روم میں اُترتاہے’’۔
‘‘کیا مطلب....؟’’ میں نے حیرت سے پوچھا۔
‘‘میں اس مکان سے پوری طرح واقف تھی۔ خواب میں اسے بیسیوں مرتبہ دیکھ چکی تھی’’۔
‘‘تو کیا تم خواب میں یہی مکان دیکھتی رہیں....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘ہاں’’ وہ بولی ‘‘ یہی مکان، یہی بیڈ، یہی گیلری اور یہی زینہ’’۔
‘‘مگر خواب میں تم دیکھتی کیا ہو....؟’’ میںنےپوچھا۔
‘‘دیکھتی ہوں کہ میں اس پلنگ پر لیٹی ہوئی ہوں۔ پہلے میرے سامنے ایک بڑی سی تختی آجاتی ہے جس پر موٹے حروف میں نام لکھا ہوتا ہے ‘‘افضل’’ پھر ایک ڈرا ؤنی آواز سنائی دیتی ہے ‘‘نہیں’’ ایک ہاتھ اُبھرتا ہے اور اس تختی پر کوچی پھیر دیتا ہے’’۔ افضل مٹ جاتا ہے اور اس کی جگہ فاضل لکھا جاتا ہے۔ پھر وہی ڈراؤنی آواز کہتی ہے ‘‘فاضل، فاضل’’ پھر میں ڈر کر اُٹھ بیٹھتی ہوں۔ نہیں نہیں’’۔ وہ بولی ‘‘میں جاگتی نہیں، خواب میں اُٹھ بیٹھتی ہوں۔ دیکھتی ہوں تم پلنگ پر موجود نہیں۔ پھر نیچے ڈرائنگ روم سے تمہاری آواز سنائی دیتی ہے اور میں اُٹھ کر گیلری سے گزر کر زینہ اُترتی ہوں۔ تم ڈرائنگ روم میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہو۔ پھر میں چیخ کر تمہیں آواز دیتی ہوں لیکن میرے منہ سے تمہارے نام کے بجائے ‘‘فاضل ’’ نکل جاتا ہے۔ اس پر تمہارے دوستوں میں سے ایک اجنبی اُٹھ کر میری طرف بھاگتا ہے’’۔ میری چیخ نکل جاتی ہے۔ ساتھ ہی بجلی کڑکتی ہے، ایک دھماکا ہوتا ہے اور پھر مٹی ہی مٹی، دھول ہی دھول اور میں جاگ پڑتی ہوں’’۔
وہ خاموش ہوگئی۔ دیر تک ہم دونوں خاموشبیٹھےرہے۔
‘‘شادی سے پہلے بھی تم میرا نام جانتی تھیں کیا....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘ہاں’’ وہ بولی۔
‘‘فاضل کون ہے....؟’’ میں نے پوچھا۔
‘‘مجھے نہیں پتہ’’ وہ بولی۔
‘‘شاید تمہارا کوئی عزیز یا بچپن کا ساتھی ہو’’۔ میںنے کہا۔
‘‘نہیں’’ وہ بولی ‘‘ یہ نام میں نے خواب کے علاوہ کبھی نہیں سنا’’۔
‘‘جب میں تمہیں پہلی مرتبہ ملا تھا اور تم نے میرا نام جانا تھا.... اس وقت....’’
‘‘ہاں’’۔ وہ میری بات کاٹ کر بولی ‘‘ مجھے پتہ تھا۔ امی چاہتی تھیں کہ ہماری شادی ہوجائے لیکن میں نہ چاہتی تھی۔ اگرچہ دل ہی دل میں میں جانتی تھی کہ یہ شادی ہوکر رہے گی۔ پھر شادی کے بعد تم مجھے اتنے اچھے لگے، اتنے اچھے کہ میرے دل میں یہ خوف کانٹا بن کر لگ گیا کہ کہیں ہم ایک دوسرے سے الگ نہ ہوجائیں’’۔ اس نے ایک ہچکی لی اور رونے لگی۔
اسمارہ کا یہ خواب بے حد حیران کن تھا۔ اتنا حیران کن کہ میں سناٹے میں رہ گیا۔ میرا نفسیات کا سارا علم بھک سے اُڑ گیا۔ اس کے ایک ہفتے بعد وہ حادثہ ہوا جس کی وجہ سے میں ہسپتال میں پڑا ہوں۔
اگرچہ اسمارہ کی مسلسل منتوں کی وجہ سے میں نے وعدہ کرلیا کہ میں ظہیر سے اس کے اس خواب کی بات بیان نہیں کروں گا پھر بھی میری خواہش تھی کہ اسمارہ کا نام لیے بغیر اس سے پوچھوں کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ کوئی سالہا سال مسلسل ایک ہی خواب دیکھتا رہے۔ غالباً اسی غرض سے میں نے ظہیر کو کھانے پر مدعو کرلیا۔ ظہیر مان گیا، لیکن چند گھنٹوں کے بعد اس نے مجھے فون کیا، بولا:
‘‘ آج کا ڈنر کینسل کرادو افضل’’
‘‘کیوں....؟’’ میں نے پوچھا۔
کہنے لگا ‘‘ میرے دو پرانے شاگرد آگئے ہیں۔ وہ میرے پاس ٹھہریں گے، اس لیے مجبوری ہے’’۔
میں نے کہا ‘‘ یہ تو کوئی بات نہیں، تم انہیں بھی ڈنر پر ساتھ لے آنا۔ یہ تو اور بھی اچھا ہے رونق ہوجائےگی’’۔
رات کے ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ظہیر اور اس کے دونوں مہمان ہمارے ہاں آگئے۔ نو بجے کے قریب ہم نے کھانا کھایا۔ پھر کافی کا دور چلا۔ اس روز اسمارہ کی طبیعت اچھی نہ تھی۔ اس لیے وہ شب بخیر کہہ کر رُخصت ہوگئی اور ہم باتیں کرنے لگے۔ دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔ مختلف موضوعات پر، آخر میں خوابوں کی بات چل نکلی۔
عین اس وقت گھنٹی بجی۔ میں حیران ہوا کہ اس وقت کون آسکتا ہے۔ میں نے اُٹھ کر دروازہ کھولا، کوئی باہر کھڑا بارش میں بھیگ رہا تھا۔ میں نے کہا ‘‘آئیے، آئیے، اندر آجائیے’’۔
اندر داخل ہوکر اجنبی نے معذرت کی۔ بولا ‘‘معاف کیجیے گا میں خواہ مخواہ مخل ہورہا ہوں۔ دراصل باہر کالی گھٹا چھائی ہوئی ہے۔ بجلی زوروں سے چمک رہی ہے۔ میں ایک صاحب کی تلاش میں جارہا تھا، تو بارش ہونے لگی۔ کمرے میں روشنی دیکھی، تو میں نے سوچا شیلٹر کے لیے آپ سے درخواست کروں’’۔
‘‘آئیے، آئیے، شوق سے آئیے، آپ بالکل حارج نہیں ہورہے ، بیٹھیے’’۔ ظہیر نے کہا ‘‘تشریف رکھیے’’۔
میں نے فٹافٹ اجنبی کو ایک پیالی کافی کی پیش کی۔ وہ آرام سے بیٹھ کر کافی پینے لگا اور ہم پھر خوابوں پر خال آرائی کرنے لگے۔ کچھ دیر تک ظہیر خوابوں کے متعلق اپنا فلسفہ جھاڑتا رہا۔
میں نے پوچھا ‘‘ایک بات بتاؤ ظہیر....! کیا کبھی تمہارے پاس کوئی ایسا پیشنٹ آیا ہے جو سالہا سال سے ایک ہی خواب دیکھا رہا ہو....؟’’
‘‘ہاں’’ ظہیر نے سرسری انداز میں کہا
‘‘ ایسے کیسز ہوتے ہیں۔ ایک ہی خواب دیکھتے رہنا کوئی خاص بات نہیں’’۔
‘‘کمال ہے صاحب’’ اجنبی بولا ‘‘آپ کمال کرتے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں کہ کوئی خاص بات نہیں، حالانکہ اسی بات کی وجہ سے میری زندگی گزشتہ نو سال سے تباہ ہورہی ہے’’۔
اجنبی کی بات سن کر ہم حیران ہوئے۔
‘‘آپ کا مطلب ہے’’ ظہیر نے کہا ‘‘ آپ نو سال سے ایک ہی خواب دیکھ رہے ہیں’’۔
‘‘بالکل ’’ وہ بولا ‘‘ جناب والا میں نو سال سے ایک ہی خواب دیکھ رہا ہوں۔ بالکل وہی ایک خواب ، کوئی تفصیل نہیں بدلتی’’۔
‘‘ذرا ٹھہرئیے’’ ظہیر بولا۔ ‘‘آپ کا کیا شغلہے....؟’’
‘‘میں ایک بزنس مین ہوں’’ اجنبی نے کہا ‘‘میری عمر تیس سال ہے اور میں اسی شہر میں رہتاہوں’’۔
‘‘آپ کی شادی ہوچکی ہے کیا....؟’’ ظہیرنےپوچھا۔
‘‘نہیں ’’ اجنبی نے کہا
‘‘ میری شادی نہیں ہوسکتی’’۔
‘‘کیوں....؟’’
‘‘بس میری یہ فیلنگ ہے۔ چار ایک مرتبہ میری شادی کا فیصلہ ہوگیا تھا، سب کچھ طے ہوگیا تھا لیکن ہر بار ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ عین وقت پر بات ٹوٹ گئی۔ اب مجھے یقین ہے میری شادی نہیں ہوسکتی چونکہ وہ پہلے ہی سے طے ہوچکی ہے’’۔
‘‘ارے’’ کمرے میں بیٹھے ہوئے سبھی لوگ چونکے۔ ‘‘ کیا آپ کے اس خواب کا شادی سے تعلق ہے؟’’ ظہیر نے پوچھا۔
‘‘ہاں ’’ اجنبی بولا ‘‘ میں محسوس کرتا ہوں کہ میری ہونے والی بیوی ، کسی شہر میں کسی مکان میں میری منتظر ہے اور جب میں ....’’
‘‘ذرا ٹھہریے’’ ....ظہیر بولا
‘‘ پہلے ہمیں وہ اپنا خواب تو سنائیے جو آپ گزشتہ نو سال سے مسلسل دیکھ رہے ہیں’’۔
‘‘معاف کیجیے گا’’۔ میں نے وضاحت کرنے کے خیال سے کہا ‘‘یہ ظہیر صاحب یہاں کے مشہور سائیکاٹرسٹ ہیں، ممکن ہے یہ آپ کو کوئی اچھا مشورہ دے سکیں’’۔
‘‘میرا یہ خواب’’۔ اجنبی نے کہا ‘‘ جو میں گزشتہ نو سال سے مسلسل دیکھتا آرہا ہوں، کبھی مہینے میں ایک بار، کبھی ہفتہ وار۔ یہ خواب بڑا ہی مختصر اور واضحہوتاہے’’۔
‘‘ جی !’’ سب ہمہ تن گوش سننے لگے۔
‘‘دیکھتا ہوں کہ کوئی شہر ہے، بہت بڑا شہر ، وہاں میں گھوم پھر رہا ہوں، یوں جیسے مجھے کسی کی تلاش ہو، گلیاں ہی گلیاں، بازار ہی بازار۔ کھلے بازار، بھیڑ ہی بھیڑ، پھر مضافات آجاتے ہیں۔ کھلی بستیاں اور خوبصورت مکانات، پھر جھگیاں ہی جھگیاں ۔ یوں میں کسی کی تلاش میں چلے جاتا ہوں، چلے جاتا ہوں۔ آخر ایک دروازے پر رُک جاتا ہوں۔ رات کا وقت ہے، اندر بتی جل رہی ہے۔ میں نے اندر داخل ہوجاتاہوں’’۔
اجنبی جوش میں اُٹھ بیٹھا اور ڈرائنگ روم کے بیرونی دروازے کی طرف جاکر پھر ہماری طرف مڑا، جیسے ابھی ہی دروازے سے اندر داخل ہوا ہو۔
‘‘دروازے سے یوں کمرے میں داخل ہوتا ہوں’’۔ اجنبی نے اپنا سلسلۂ کلام جاری کیا ‘‘کیا دیکھتا ہوں’’ وہ ہماری طرف دیکھ کر بولا ‘‘ کمرے میں کچھ لوگ بیٹھے ہیں، بالکل اسی طرح جس طرح آپ بیٹھے ہیں.... وہ مکان پرانی وضع کا ہے’’۔ دو ایک ساعت کی خاموشی کے بعد اس نے بات شروع کی ۔ ‘‘ اور اس کمرے کے اوپر چاروں طرف گیلری بنی ہوئی ہے’’۔
اجنبی نے اوپرچھت کی طرف دیکھا، وہ جوش میں آکر چلانے لگا۔ ‘‘ارے! بالکل اسی طرح جس طرح اس کمرے میں گیلری بنی ہوئی ہے۔ بالکل اسی طرح’’۔ وہ چیخ کر بولا ‘‘اور صاحب، اس گیلری سے ایک زینہ سیدھا نیچے ڈرائنگ روم میں اُترتا ہے۔ مائی گاڈ’’! وہ زینے کی طرف دیکھ کر بولا ....
‘‘بالکل وہی زینہ وہی’’۔ اجنبی کی آواز جذبے کی شدت سے گھگیا گئی۔ آنکھیں گویا پھٹ گئیں’’ کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا؟’’ اس نے زیرِ لب کہا۔
‘‘ نہیں، نہیں، آپ خواب نہیں دیکھ رہے’’۔ ظہیر نے کہا۔ ‘‘اور، اور’’ اجنبی نے سلسلۂ کلام شروع کیا’’ اور پھر گیلری سے وہ خاتون زینہ اُترتی ہے’’۔
‘‘کھٹ، کھٹ، کھٹ’’ کسی کے زینے سے اُترنے کی آواز آنے لگی۔ ہم سب یوں چپ چاپ بیٹھے اس آواز کو سننے لگے، یوں جیسے کسی نے ہمیں ہیپناٹائز کردیا ہو۔ ‘‘اور ۔ اور پھر وہ خاتون ....میری ہونے والی بیوی رُک جاتی ہے’’۔ ہم سب کی نگاہیں زینے پرمرکوزہوگئیں۔
آواز بند ہوگئی۔ زینے پر اسمارہ یوں کھڑی تھی، جیسے کوئی بت ہو۔ ایک ساعت کے لیے کمرے میں بھیانک خاموشی طاری رہی، پھر ایک نسوانی چیخ سی سنائی دی۔ ‘‘فاضل، فاضل!’’
اجنبی نے زینے کی طرف چھلانگ لگائی‘‘ میں آگیا ہوں ! میں آگیا ہوں!’’وہ بولا اور دیوانہ وار سیڑھیاں چڑھ کر اس نے گرتی ہوئی اسمارہ کو سہارادیا۔
میں نے اُٹھنے کی شدید کوشش کی، لیکن مجھے ایسا لگا جیسے میں پتھر کا بت بن گیاتھا۔ میں نے شدت سے اپنے آپ کو گھسیٹا اور سیڑھیوں کی طرف بھاگا۔ عین اس وقت زور سے بجلی کڑکی اور پھر، اور پھر، پھر کچھ پتہ نہیں۔ ایک خوفناک دھماکہ ہوا، کوئی بھاری سی چیز مجھ پر آگری، پھر مجھے ہوش نہیں۔
ہوش آیا تو میں یہاں پڑا تھا۔ اس بیڈ پر، میرا منہ اور سر پٹیوں میں لپٹا ہو اتھا۔ چھ مہینے میں پٹیوں میں لپٹا رہا۔ چھٹے مہینے پٹیاں کھلیں، تو میں نے دیکھا، میںیہاںہوں۔
ایک روز میں نے نرس سے پوچھا ‘‘ بی بی میں یہاں کیسے آیا تھا؟’’
‘‘ایکسیڈنٹ’’ وہ بولی ‘‘ جس کمرے میں آپ بیٹھے تھے۔ اس کی چھت گر گئی تھی۔ ’’
میں نے اس سے مزید باتیں پوچھیں، لیکن اسے تفصیلات کا علم نہ تھا۔ پھر میں نے پولیس انسپکٹر سے پوچھا جو اس کیس پر مامور تھا۔ وہ بولا :
‘‘ حادثے کے وقت کمرے میں چھ اشخاص موجود تھے۔ پانچ مرد اور ایک عورت۔ عورت اور ایک مرد جو زینے پر کھڑے تھے، وہ صاف بچ گئے۔ ڈاکٹر ظہیر جو سائیکاٹرسٹ تھے اور صاحبِ خانہ مسٹر افضل اور ظہیر صاحب کے ایک مہمان، تینوں جو کمرے کے ایک کونے میں بیٹھے تھے موقع پر ہی ہلاک ہوگئے اور آپ جمیل صاحب چونکہ زینے کے قریب تھے، آ پ بچ تو گئے لیکن آپ کا چہرہ چوٹوں کی وجہ سے ڈس فگر ہوگیا۔ آپ کو اُٹھاکر ہسپتال لے آئے’’۔
‘‘نہیں نہیں انسپکٹر صاحب’’ میں نے کہا ‘‘ میں افضل ہوں افضل’’۔
انسپکٹر نے غور سے میری طرف دیکھا، ڈاکٹر کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ ڈاکٹر نے اپنی کنپٹی پر انگلیاں گھماتے ہوئے چکر کا نشان بنایا۔
‘‘نہیں صاحب’’! انسپکٹر نے جواب دیا ‘‘ آپ کا ذہنی توازن ابھی بحال نہیں ہوا۔ افضل کی لاش کی شناخت ہوگئی تھی۔ خود ان کی بیگم نے شناخت کی تھی’’۔ ‘‘ان کی بیگم کہاں ہیں آج کل’’ میں نے پوچھا۔
‘‘انہوں نے مسٹر فاضل سے شادی کرلی ہے اور وہ یہ شہر چھوڑ کر چلے گئے ہیں’’۔
انسپکٹر کا بیان سن کر میں سوچ میں پڑگیا۔ کیا واقعی میں افضل نہیں ہوں؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اسی روز میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا:
‘‘میں کون ہوں....؟’’
وہ سرسری انداز میں بولے ‘‘ آپ جمیل ہیں، آپ ظہیر سائیکاٹرسٹ کے گھر مہمان کے طور پر آئے تھے۔ اسی رات جب ایکسیڈنٹ ہوا تو آپ ظہیر کے ساتھ افضل صاحب کے ہاں کھانےپر گئےہوئےتھے’’۔
‘‘نہیں ڈاکٹر صاحب’’ میں نے چلاکر کہا میں افضل ہوں ، افضل!’’
‘‘آپ سوچیے نہیں’’ ڈاکٹر اطمینان سے بولا ‘‘ہیڈ انجری کے مریض کی یادداشت عام طور پر گڈ مڈ ہوجاتی ہے۔ آپ اپنی یادداشت کھوبیٹھے ہیں۔ سوچنا یا فکر کرنا آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ’’۔
آج مجھے یہاں ہسپتال میں آئے ہوئے چھ مہینے سے زائد ہوچکے ہیں۔ میرے چہرے کو پلاسٹک سرجری سے بحال کیا جارہا ہے لیکن ڈاکٹر کا کہنا ہے ابھی ایک مہینہ اور لگے گا۔ میں اس بیڈ پر پڑا سوچتا رہتا ہوں کہ میں کون ہوں....؟ آیا میں جمیل ہوں یا افضل....؟ بیٹھے ہوئے واقعات فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے چلتے رہتے ہیں۔ کسی وقت میرا جی چاہتا ہے کہ چلا چلا کر کہوں :
‘‘ میں افضل ہوں افضل۔ میں اسمارہ کاخاوندہوں’’ .....
پھر سوچنے لگتا ہوں کہ لاحاصل ہے۔ ہونی ہوکر رہتی ہے، اس کے خلاف لڑنا بیکار ہے۔ پھر میں خاموشی سے بستر پر لیٹ جاتا ہوں۔
اردو ادب کے ممتاز ادیب، اور افسانہ نگار |
ممتاز مفتی ۔1905ء تا 1995ء |
ممتاز مفتی کا اصل نام مفتی ممتاز حسین تھا۔ ممتاز مفتی 11 ستمبر 1905ء بمقام بٹالہ (ضلع گورداسپور) بھارتی پنجاب میں مفتی محمد حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امرتسر ، میانوالی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں پائی۔ میٹر ک ڈیرہ غازی خان سے اور ایف اے امرتسر سے اور بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ بی اے کے بعد سنٹرل ٹیچرز ٹریننگ کالج سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم پنجاب کے سینئر انگلش ٹیچر کے طور تعیناتی ہوئی۔ وہیں لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ کچھ عرصے بطور اسکرپٹ رائٹر آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ منسلک ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آئے اور پھر راولپنڈی میں بطور ڈائریکٹر وزارتِ اطلاعات اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کا پہلا افسانہ ‘‘جھکی جھکی آنکھیں’’ ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوا اور اس طرح وہ مفتی ممتاز حسین سے ممتاز مفتی بن گئے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں ان کہی، گہماگہمی، چپ، گڑیاگھر، روغنی پتلے، اور سمے کا بندھن شامل ہیں۔ علی پور کا ایلی اور الکھ نگری سوانحی ناول میں شمار ہو تے ہیں۔ جبکہ ہند یاترا، لبیک جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے اور خاکہ نگاری میں اوکھے لوگ، پیاز کے چھلکے اور تلاش جیسی کتابوں کے خالق ہیں۔ممتاز مفتی کی تحریریں زیادہ تر معاشرے میں موجود کئی پہلوؤں اور برائیوں کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ 27 اکتوبر 1995ء کو 91 برس کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پا گئے۔ |
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں