انگریزی ادب سے پراسرار کہانی

امتی ویل کا آسیب

The Amityville Horror

 آسیب، بدروح ،جن،   بھوت ، چڑیل اور دیگر مافوق الفطرت مخلوقات  کے واقعات صدیوں سے ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔  بعض لوگ  ان واقعات کو صحیح تصور کرتے  ہیں اور بعض لوگ انہیں  قدیم دور سے چلی آرہی  توہم پرستی اور  جاہلیت  کا نام دیتے    ہیں....

مشرق ہو یا مغرب مافوق الفہم واقعات  کا ذکر ہر جگہ ہوتا ہے،  مشرق کی نسبت مغربی ممالک میں ان  واقعات کو دستاویزی شکل میں محفوظ رکھنے کا رواج صدیوں سے ہے۔  وہاں کوئی  ناقابلِ توجیہہ واقعہ بھی ہو جائے تو وہ ریکارڈ کا حصہ بن جاتا ہے۔ مشرقی ممالک میں ایسا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات وقت کے ساتھ ساتھ مسخ ہوتے رہتے ہیں اور کچھ عرصے بعد کوئی شخص یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ مغرب میں ایسے واقعات کی باقاعدہ  تفتیش ہوتی ہے اور تحقیقات کے بعد اگر ماجرا سمجھ میں نہ آجائے تو اسے راز Mystery،  معمہ Enigma یا پراسرار Weird قرار دے کر   دستاویزوں میں محفوظ کردیا جاتا ہے۔

 نیویارک کے ایک مکان میں 1975ء میں پراسرار واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ ان واقعات کا کافی ریکارڈ محفوظ ہے اور چالیس برس گزرجانے کے باوجود یہ مکان  آج بھی پراسرار معمہ بنا ہوا ہے۔   اس واقعہ پر کئی ناولز اور کتابیں ،  ٹی وی پر دستاویزی پروگرامز   اور درجنوں فلمیں بن چکی ہیں۔ 

یہ کہانی  جے آنسن Jay Ansonکی کتابThe Amityville Horror  کی تلخیص ہے 




یہ واقعہ دسمبر  1975ءکا ہے ، اٹھائیس سالہ جارج لیوُز  George Lutz نے اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے لیے امتی ویل ، نیو یارک کے لانگ آئی لینڈ  کے جنوبی کنارے پر  ایک کشادہ مکان خریدا۔  
 جارج نے یہ مکان اسّی ہزار ڈالر میں خریدا جو اس وقت کی مارکیٹ کے لحاظ سے اس مکان کی بہت کم قیمت تھی۔
 اس کم قیمت کی وجہ اس مکان کا پس منظر تھا۔ پہلے یہاں  ڈیفیو DeFeo خاندان آباد تھا،  اس خاندان کے تمام ارکان کو فیملی ہی کے ایک نوجوان فرد  رونالڈ ڈیفیوRonald   DeFeo نے رات کو سوتے ہوئے گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔
قاتل پر مقدمہ چلا تو اس نے عدالت میں یہ انوکھا بیان دیا کہ مکان سے سنائی دینے والی غیبی آوازوں نے  اسے اپنے ہی خاندان کے لوگوں کو قتل کر دینے پر مجبور کردیا تھا۔
دسمبر 1975ء جارج اور اس کی بیوی کیتھلین Kathleenاور ان کے تین بچے (یہ تینوں بچے کیتھی کے سابق شوہر کے تھے) اس مکان  میں منتقل ہوگئے۔  اس مکان کے نئے خریدار جارج اور اس کی بیوی مافوق الفطرت واقعات کو توہمات سمجھتے تھے۔ دو لڑکوں، نو سالہ ڈینیل Daniel اور سات سالہ کرسٹوفر  Christopher کو تیسری منزل کا بیڈ روم دے دیا گیا۔ اوپر کی منزل بچوں کے کھیلنے کے لیے مخصوص کردی گئی۔ بیٹی میسی Melissa کو دوسری منزل کا بیڈ روم دے دیا گیا۔ گراؤنڈ فلور پر میاں بیوی نے رہائش رکھ لی۔ مکان سمندری کھاڑی  کے قریب تھا۔ اس لیے گیراج کے ساتھ ہی ایک بوٹ ہاؤس Boat houseبھی بنا ہوا تھا۔
مکان میں رہائش کے آغاز پر برکت کی دعا کے لیے ایک پادری فرینک مائکو سو Father Frank Mancuso کو بلایا گیا ۔ یہ پادری صرف مذہبی ہی نہیں، معاشی علوم سے بھی دلچسپی رکھتا تھا اور پادری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وکیل، مذہبی کورٹ کا جج اور سائیکوتھراپسٹ (ماہر نفسیات) بھی تھا۔
18دسمبر کی صبح سے پادری کو عجیب قسم کی بےچینی پر مبنی کیفیت کا سامنا تھا۔ وہ جارج کے خاندان کو پہلے سے جانتا تھا اور آج اسے گھر میں جا کر برکت کی دعا کرنا تھی۔ بےچینی کا تعلق اس دعا سے تھا۔ کوئی چیز اندر ہی اندر اسے دعا کے لیے جانے سے روک رہی تھی۔ پادری کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔ پادری اپنی کار میں بیٹھ کراس  مکان کی طرف روانہ ہوا۔ جوں جوں سفر طے ہو رہا تھا اس کی بےچینی بڑھ رہی تھی۔ گھر کے قریب پہنچ کر یہ بےچینی دباؤ کی شکل اختیار کر گئی۔ ڈیڑھ بجے وہ مکان کی گلی میں پہنچ گیا۔ کار اس نے نکڑ پر چھوڑ دی۔ اس نے اپنا مخصوص لبادہ پہنا اور مقدس پانی لے کر اس مکان میں داخل ہوگیا۔ یہیں سے انوکھنے واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ جونہی پادری نے پانی ہاتھ میں لے کر پہلا چھینٹا دیا، اس نے واضح طور پر کسی کو یہ کہتے سنا۔‘‘یہاں سے نکل جاؤ’’
پادری نے حیران ہو کر پیچھے دیکھا۔ آواز پیچھے سے ہی آئی تھی لیکن اس کمرے میں وہ اکیلا کھڑا تھا۔ خوفزدہ ہونے کے باوجود پادری نے مختلف کمروں میں پانی چھڑکنے کا کام جاری رکھا۔ کام مکمل کرنے کے بعد اس نے جارج اور کیتھی  کو اس آواز کے بارے میں بتایا اور ان کی طرف سے کھانے کی دعوت قبول نہ کرتے ہوئے گھر سے نکل آیا۔ کار میں بیٹھ کر وہ اسی واقعے کے بارے میں سوچتا رہا۔
پادری اپنے گھر واپس آیا۔وہاں اس کی ماں اس کی منتظر تھی ، ماں اسے دیکھ کر کچھ پریشان ہوئی اور بولی، تمہاری طبیعت ٹھیک ہے؟....  ذرا آئینے میں اپنی صورت  تو دیکھو۔ 
پادری باتھ روم گیا۔ آئینے میں اس نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں کے گرد بڑے بڑے سیاہ دائرے بن گئے تھے۔ سیاہی اتنی گہری تھی کہ لگتا تھا کہ ہاتھ سے لگائی گئی ہے۔ وہ اسے مل مل کر صاف کرتا رہا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا۔
ادھر جارج اپنے گھر میں اپنے وفادار کتے ہیری کو ایک بیس فٹ لمبی زنجیر کے ساتھ باندھ کر موسیقی سننے میں مگن ہوگیا۔ موسیقی شروع ہوتے ہی ہیری نے ڈراؤنی آواز میں رونا شروع کردیا۔ رونے کی آواز سن کر جارج کا بیٹا ڈینی باہر گیا تو دیکھا کہ بیس فٹ لمبی زنجیر اس کی گردن کے ارد گرد لپٹ کر کس گئی ہے اور ہیری کسی بھی لمحے دم گھٹ جانے سے مرنے والا ہے۔ جارج نے اسے آزاد کیا اور حفاظت کی غرض سے زنجیر کی لمبائی بہت کم.کردی۔
پادری مائکواگلے روز صبح آٹھ بجے اپنی ماں سے رخصت ہو کر گرجا کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں پادری کے یہ دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ کار خودبخود دائیں طرف مڑتی جارہی ہے۔ سڑک خالی تھی اس لیے کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ اچانک اسڑینگ وھیل کھل کر شیشے سے جا ٹکرایا۔ ایک پرزہ کھل گیا اور ساتھ ہی کار کا دائیں طرف والا گیٹ بھی۔ اس نے گھبرا کر بریک لگائی۔ ایک قریبی جگہ سے اس نے فون کیا اور مقامی پادری کے پاس چلا گیا۔  کار کو ٹرک میں ڈال کر مکینک کے پاس لے جایا گیا لیکن مکینک کار ٹھیک کرنے میں ناکام رہا۔ آخر کار وہ پادری اپنے گرجا گھر میں چلاگیا۔ پادری  گرجا اپنے کوارٹر میں پہنچا ہی تھا کہ تھوڑی دیر بعد اسے اپنے میزبان پادری کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ تمہارے جاتے ہی میری کار کی ونڈ شیلڈ کے وائپر خودبخود حرکت میں آگئے اور میں انہیں روک نہیں.سکا۔
19 دسمبر کی رات جارج گہری نیند سو رہا تھا کہ دروازے پر زوردار دستک ہوئی۔ وہ بڑ بڑا کر اٹھا۔ گھڑی پر رات کے سوا تین بجے تھے۔ دستک کی آواز دوبارہ آئی، وہ کمرے سے نکل کر لیونگ روم کی طرف گیا اور اس کی کھڑکی میں سے باہر جھانکنے کی کوشش کی۔ اچانک کوئی چیز زور سے نیچے آئی۔ وہ دبک کر نیچے بیٹھ گیا۔ ساتھ ہی اوپر سے چیخ کی آواز آئی۔ اوپر ڈینی اور کرائس سوئے ہوئے تھے۔ بوٹ ہاؤس کے پاس کوئی شے حرکت کر رہی تھی۔ اچانک اس نے اپنے پالتو کتے ہیری کے بھونکنے کی آواز سنی۔ اس نے ہیری کو آواز دی۔ اسی دوران دستک پھر سنائی دی جسے سنتے ہی ہیری اپنے ارد گرد چاروں طرف گھومنے اورغضبناک آواز میں بھونکنے لگا۔
جارج دوڑ کر اپنے کمرے کی طرف بھاگا جہاں کیتھی جاگ چکی تھی، اس نے پوچھا کہ کیا بات ہے۔  جارج نے جواب دیا کہ ہیری بوٹ ہاؤس کے پاس کسی شے کو دیکھ کر بھونک رہا ہے، میں  ابھی دیکھ کرآتاہوں۔
جارج پھر باہر نکل آیا، کتا مسلسل  بھونک رہا تھا۔ جارج نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور بوٹ ہاؤس کی طرف بڑھا۔ اب اس نے دیکھا کہ ایک سایہ آگے کو بڑھ رہا ہے۔ ساتھ ہی دروازے پر پھر دستک ہوئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تو دروازہ کھلا ہوا تھا۔ یہ دروازہ اس نے سونے سے پہلے اچھی طرح بند کردیا تھا۔ بہرحال وہ واپس آگیا اور تھوڑی دیر کے بعد پھر سوگیا۔
کیتھی صبح چھ بجے کے قریب اٹھی اور کچن میں آگئی۔ کچھ دیر بعد اس کی چھوٹی بیٹی میسی کچن کے دروازے میں آکر کھڑی ہوگئی۔ وہ آدھی جاگی اور آدھی سوئی ہوئی تھی۔ اس نے کہا ماں میں گھر جانا چاہتی ہوں۔ ماں نے کہا کہ بیٹی یہ ہمارا گھر ہی تو ہے۔ وہ اپنے کمرے میں جاکر پھر سوگئی۔
صبح نو بجے جارج اپنے کمرے سے باہر آیا۔ اس کا لہجہ تلخ تھا جو کیتھی کے لیے نئی بات تھی۔ اس سے پہلے اس نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا۔ وہ بار بار سخت سردی کی شکایت کر رہا تھا۔ سارا دن اسے ٹھنڈ کی شکایت رہی۔ رات کو آتش دان میں خوب لکڑیاں جلائی گئیں لیکن جارج یہی کہے جارہا تھا کہ بہت سردی ہے۔ بارہ بجے وہ سوگیا اور سوا تین بجے پھر اٹھ.بیٹھا۔
20اور21  دسمبر کے دو دنوں میں جارج کا طرز عمل کافی بدل گیا تھا۔ جارج نے شیو اور غسل کرنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ  دفتر بھی نہیں گیا اور مسلسل سردی کی شکایت کرتا رہا۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھ کر بوٹ ہاؤس چلا جاتا اور واپس آجاتا۔ اسے لگتا کہ کوئی شے اسے بوٹ ہاؤس کی طرف بلا رہی ہے۔
22 دسمبر کی صبح کافی سردی تھی۔ رات کو ڈینی، کرائس اور میسی کی ان کے والد  جارج نے بلاوجہ خوب پٹائی کی تھی ۔ تینوں بچے بری طرح سہم گئے۔  جارج آج بھی دفتر نہیں گیا  آتش دان کے پاس بیٹھ کر سردی سے کانپتا رہا۔
 کیتھی کچن میں کرسمس کی تیاری کے لیے فہرست بنا رہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ جارج نے بچوں کو اتنا کیوں مارا۔ کچن   میں کام کرتے ہوئے کیتھی کو ایسا محسوس ہوا جیسے خون اس کی رگوں میں منجمد ہوگیا ہو۔اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پنسل ہاتھ سے چھوٹ گئی لیکن نیچے گرنے کے بجائے ہوا میں معلق ہوگئی تھی۔  معاملہ یہیں پر نہیں رکا۔ کوئی پیچھے سے آیا اور اسے بازوؤں میں لے لیا۔ پھر اس نے کیتھی کا ہاتھ پکڑ کر اسے تھپتھپایا۔ کیتھی نے محسوس کیا کہ یہ کوئی عورت تھی۔ اسی دوران کرائس کی آواز آئی
‘‘امی، جلدی سے ادھر آؤ۔’’ کیتھی نے محسوس کیا کہ نامعلوم وجود غائب ہوگیا ہے۔ وہ دوڑ کر اپنے بچوں کے کمرے میں گئی۔ تینوں بچے باتھ روم میں ٹائلٹ کو گھور رہے تھے، کیتھی نے دیکھا کہ  ٹائلٹ کا اندرونی حصہ بالکل سیاہ ہوچکا تھا۔ جیسے کسی نے کالا پینٹ کردیا ہو۔ اس نے ان نشانات کو پانی سے صاف کرنے کی کوشش کی مگر کچھ نہیں ہوا۔ اس نے ڈینی سے کہا کہ نیچے جا کر سیاہی صاف کرنے والا لوشن لے کر آؤ۔ ڈینی نیچے گیا اور وہیں سے چلا کر بولا کہ ممی، ممی....! آپ کا ٹائلٹ بھی کالا ہو رہا ہے اور اس میں سے سخت بدبو بھی آرہی ہے۔ کیتھی بھاگ کر اپنے بیڈروم میں گئی، اندر جاتے ہی اسے نہایت گندی بو آئی۔ وہ باتھ روم پہنچی تو وہاں سے بھی گندی لیکن ذرا مختلف قسم کی بدبو آرہی تھی۔ ٹائلٹ بری طرح سیاہ ہو.چکا.تھا۔
دوسری منزل کا ٹائلٹ بھی کالا ہوگیا تھا لیکن وہاں کوئی بدبو نہیں تھی۔ ادھر جارج کو اپنے بیڈروم سے ایک بھینی بھینی خوشبو آنے لگی۔ کیتھی نے اسے اوپر بلایا۔ وہ دوسری منزل کے چوتھے بیڈروم کی طرف گیا جہاں دو کھڑکیاں تھیں۔ ایک کھڑکی دریا کی طرف (بوٹ ہاؤس Boat Houseکی طرف) اور دوسری پڑوس کے  مکان کی طرف کھلتی تھی۔ اس کھڑکی کے شیشوں پر اندر کی جانب بےشمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ سردیوں میں ان مکھیوں کا وجود حیران کن تھا اور یہ بھی حیران کن تھا کہ ساری مکھیاں ایک ہی کھڑکی سے کیوں چمٹی ہوئی ہیں۔ جارج نے مکھیوں کو اڑا دیا۔ کچھ کو مار ڈالا۔ اب باتھ روم کی بدبو اور بیڈروم کی خوشبو غائب ہوچکی تھی۔ ادھر جارج کو سردی لگنا کم ہوئی  اور نہ بار بار کی کوشش کے باوجود ٹائلٹ کی سیاہی میں  کوئی فرق پڑا۔ 
شام چار بجے کے قریب بچے باہر کتے سے کھیل رہے تھے کہ اچانک بیرونی دروازے کی گھنٹی بجی۔ ایک ادھیڑ عمر شخص باہر پنیر کے چھ ڈبے لیے کھڑا تھا۔وہ کہہ رہا تھا کہ آپ کے پڑوسی آپ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور آپ کے گھر آنا چاہتے ہیں۔ جارج نے محسوس کیا کہ یہ شخص ارد گرد کے کسی مکان میں نہیں رہتا تھا تاہم اس نے کہا کہ ہمیں کسی کے آنے پر کوئی اعتراض نہیں۔ وہ شخص واپس چلا گیا اور اس کے بعد کبھی دکھائی نہیں دیا۔
اُسی رات سوا تین بجے جارج کی آنکھ کھلی۔ اس نے باہر نکل کر دیکھا کہ بہت وزنی دروازہ کسی پر اسرار شے نے نہ صرف کھول دیا تھا بلکہ یہ دروازہ ایک چول سے لٹک رہا تھا۔
کیتھی سو رہی تھی ۔ شور و غل سن کر اس کی آنکھ بھی کھل گئی۔ اس نے دیکھا کہ جارج تباہ شدہ دروازے سے زور آزمائی کر رہا ہے۔ اس نے ماجرا پوچھا تو جارج نے جواب دیا کہ مجھے کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔
دروازے کی ناب مٹ چکی تھی، دھاتی حصہ پیچھے کی طرف ٹوٹ گیا تھا۔ دروازہ اندر کی طرف سے توڑا گیا تھا۔ اندر تو صرف بچے تھے جو اتنے بھاری دروازے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ کیتھی بھاگ کر بچوں کی طرف گئی۔ اس نے دیکھا کہ تینوں بچے اوندھے منہ سوئے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے وہ کبھی اوندھے منہ نہیں سوئے تھے۔
صبح لوہار کو بلایا گیا جس نے دروازے کی مرمت کی۔ جاتے وقت اس نے بتایا کہ ان سے پہلے جو گھرانہ یہاں مقیم تھا، وہ بھی دروازوں کی مرمت کے لیے اسے ہی بلایا کرتا تھا۔
24 دسمبر کو پادری مائکوسو کو تیز بخار تھا۔ اس کے دل میں آیا کہ وہ جارج کو فون کرکے اسے بتائے کہ وہ یہ منحوس مکان چھوڑ دے۔ ادھر گھر میں کیتھی بھی یہی بات کر رہی تھی۔ شام پانچ بجے پادری کا فون آگیا۔ دوسری باتوں کے ساتھ ساتھ جارج نے پادری کو مکھیوں والے واقعے کے بارے میں بھی بتایا۔ پادری نے کہا کہ آپ لوگ دوبارہ کسی بھی صورت میں اس کمرے میں نہ جائیں۔ جارج نے حیران ہو کر پوچھا کہ آخر اس کمرے میں کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ پادری جواب دیتا، لائن پر گڑگڑاہٹ سنائی دینے لگی۔ شور کی وجہ سے انہیں فون بند کرنا پڑا۔ اس کے بعد دوبارہ رابطے کی کوششیں ناکام رہیں حالانکہ دونوں طرف سے بار بار فون ملانے کی کوشش ہوتی رہی۔ 
شام کو کیتھی کی ماں اور اس کا بھائی جمی بھی ان کے پاس پہنچ گئے۔ جمی کی شادی کرسمس کے اگلے روز ہونی تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ لیونگ  روم کی بند کی گئی کھڑکی پھر کھل گئی ہے اور پہلے جتنی مکھیاں اس سے چمٹی ہوئی.ہیں۔
25 دسمبر کو بھی رات سوا تین بجے جارج کی آنکھ کھل گئی۔  چاند کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ اس کی بیوی اوندھے منہ سوئی ہوئی ہے۔ جارج نے اسے چھوا تو وہ اٹھ کر بیٹھ گئی اور خوفزدہ انداز میں کہنےلگی کہ
 ‘‘اس عورت کے سر میں گولی ماری گئی تھی۔’’ 
یہ اس مکان کے گزشتہ رہائشی ڈیفیو خاندان کے قتل سے تعلق رکھنے والی کوئی بات تھی۔ اس قتل کی تفصیلات کہیں بھی شائع نہیں ہوئی تھیں اور یہ بات صرف محکمہ سراغ رسانی کی خفیہ فائل میں درج تھی کہ اس گھر کی مالکن کو اس وقت سر میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا جب وہ اوندھے منہ لیٹی ہوئی تھی۔ گھر کے باقی افراد بھی اسی طرح مارے گئے تھے۔ خواب میں یا نیم غنودگی میں ، بہرحال کیتھی کو نامعلوم طریقے سے پتہ چل گیا کہ گھر کی مالکن لوئی ڈیفیو کو کیسے مارا گیا۔ لوئی ڈیفیو کی موت اسی کمرے میں ہوئی جہاں اب کیتھی رہ  رہی.تھی۔
جارج نے کیتھی کو تسلی دی اور بوٹ ہاؤس کی طرف چل پڑا۔ دروازہ بند تھا اور کتا بھی خاموشی سے سویا ہوا تھا۔ سوئمنگ پول کے پاس جا کر اس نے پلٹ کر دیکھا تو وہ   خوف سے جم کر رہ گیا۔ کمرے کی کھڑکی میں اس کی بیٹی کیتھی کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی اور کیتھی کے پیچھے ایک خنزیر کھڑا ہوا تھا۔ خنزیر کی نظریں بھی جارج پر جمی ہوئی تھیں۔ جارج لپک کر میسی کے کمرے میں پہنچا اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میسی تو آرام سے اپنے بستر پر لیٹی سو رہی تھی۔ پیچھے سے ایک سیٹی کی آواز آئی۔ اس نے گھوم کر دیکھا تو جھولنے والی کرسی خالی پڑی تھی اور خود بخود آگے پیچھے جھول رہی تھی۔
اس روز کرسمس تھا۔ جارج نے پادری مائکوسو کو فون کیا مگر جواب نہ ملا۔ اس نے سوچا شاید وہ بیمار ہو۔ پادری واقعی بیمار تھا اور علاج کے باوجود ٹھیک نہیں ہو رہا تھا۔ بیماری کے دوران بھی وہ جارج کے مکان اور اس کی نحوست کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشانہوتا رہا۔
 پادری کے مشورے پر جارج نے گھر والوں کو منع کر رکھا تھا کہ وہ دوسری منزل پر واقع کمرے میں نہ جائیں۔ بچے اس حکم پر حیران تھے۔ کرائس نے کہا کہ وہاں دراصل کرسمس کے تحفے رکھے ہیں۔ لیکن میسی نے کہا کہ نہیں، وہاں جوڈی رہتا ہے اس لیے ہمیں اوپر جانے سے منع کیا گیا ہے۔ ڈینی نے پوچھا کہ یہ جوڈی کون ہے۔ میسی نے جواب دیا وہ میرا دوست ہے اور خنزیر ہے۔ اس پر دوسرے بچے ہنس پڑے۔ 
رات نو بجے کیتھی تیسری منزل پر واقع پلے روم کی طرف گئی تاکہ میسی کو سلا سکے۔ اس نے باہر سے سنا کہ اس کی بیٹی کمرے میں کسی سے باتیں کر رہی ہے۔ وہ کہہ رہی تھی 
‘‘جوڈی، تمہیں برفباری اچھی نہیں لگتی’’ کیتھی اندر گئی تو میسی جھولنے میں بیٹھی برفباری دیکھ رہی تھی۔ کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔ 
‘‘تم کس سے باتیں کر رہی تھی’’ کیتھی نے پوچھا تو میسی نے کہا ‘‘جوڈی سے’’۔ یہ جوڈی کون ہے، کیتھی نے پوچھا۔ میسی  بولی  وہ میرا دوست ہے اور ایک خنزیر ہے جسے میرے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ 
کیتھی حیرت اور پریشانی کے عالم میں وہاں سے اپنے بیٹوں کے کمرے میں گئی جو دس گیارہ بجے سے پہلے سونے کا نام نہیں لیتے تھے لیکن اب وہ سونے کی تیاری کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ دراصل پلے روم میں بہت سردی ہوگئی ہے، وہ کھیل نہیں سکتے اس لیے جلد سو رہے ہیں۔ وہ پلے روم گئی اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ واقعی وہاں حد سے زیادہ سردی تھی حالانکہ کمرہ بند تھا۔
26 دسمبر کو جمی کی شادی تھی لیکن اسی روز جارج کو پیچش اور پیٹ کے در کا مرض لاحق ہوگیا۔ پیٹ میں اتنا سخت درد تھا جیسے کوئی چاقو سے پیٹ چیر رہا ہو۔ یہ تکلیف رات کو اس وقت شروع ہوئی تھی جب وہ رات سواتین بجے بوٹ ہاؤس کا چکر لگا کر آرہا تھا۔ دن چڑھے  تکلیف میں کمی ہوئی اور وہ سوگیا۔ کیتھی نے اسے جگایا تو تکلیف پھر شروع ہوگئی اور وہ باتھ روم چلا گیا۔ 
کیتھی نے کچن جا کر خریداری کی فہرست بنانا شروع کردی۔ اس نے پیڈ پر ‘‘سنگترے کا جوس’’ لکھا ہی تھا کہ کچن میں کسی کی موجودگی کے احساس سے  وہ سہم کر رہ گئی۔ اس نے گھوم کر دیکھا۔ کچن خالی تھا لیکن کوئی نادیدہ وجود اس کی کرسی کے پاس موجود تھا اور وہی خوشبو کچن میں پھیل گئی جو پہلے بیڈروم میں محسوس ہوتی تھی۔
اچانک اس غیر مرئی وجود نے کیتھی کو جکڑ لیا۔ کیتھی نے محسوس کیا کہ یہ وجود کسی عورت کا ہے۔ خوشبو کے جھونکے تیز ہوگئے۔ غیر مرئی وجود اس کے کان میں سرگوشی کر رہاتھا لیکن وہ خود کو آزاد کرانے کی کشمکش میں کچھ نہ سن سکی۔ وجود نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔ جیسے وہ اسے یہ باور کرانا چاہتا ہو کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں۔ پھر وہ وجود غائب ہوگیا۔ کیتھی خوف کے عالم میں رونے لگی۔ اسی دوران میسی آگئی اور اس کے نزدیک کھڑی ہو کر دروازے کی طرف دیکھنے لگی۔دروازے پر کوئی نہیں تھا لیکن میسی نے کہا کہ وہاں جوڈی ہے اور کہہ رہا ہے کہ رویا نہ کریں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔
صبح نو بجے پادری مائکوسو نے اپنا بخار چیک کیا۔ اُس وقت  بخار تیز تھا لیکن دو گھنٹے بعد ہی اچانک اتر گیا۔ ادھر عین اسی لمحے جارج نے کئی دنوں کے وقفے کے بعد غسل کیا، شیو بنایا اور صاف ستھرے کپڑےپہنے۔ 
ساڑھے پانچ بجے جمی انہیں اپنی شادی کی تقریب میں لے جانے کے لیے آگیا۔ کیتھی کچن میں مصروف تھی۔ جمی نے  اپنے کوٹ کی جیب سے ایک لفافہ نکالا جس میں پندرہ سو ڈالر کے نوٹ تھے۔ یہ لفافہ اس نے کیتھی کو دکھایا اور اسے پھر کوٹ کی جیب میں رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد سب لوگ ہوٹل روانگی کے لیے تیار تھے۔ 
جمی نے کوٹ کی جیب پہ ہاتھ مارا تو وہ خالی تھی۔ لفافہ تھا نہ نوٹ۔ پورے گھر میں تلاشی مہم شروع ہوگئی۔ کوٹ تک کو پھاڈ ڈالا گیا لیکن کہیں سے کچھ نہ ملا۔ کیتھی یہ کہہ کر رو پڑی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔
یہ لوگ شادی کی تقریب سے فارغ ہو کر رات تین بجے گھر واپس آئے۔ جمی اپنی دلہن کے ساتھ ہنی مون کے لیے برمودا کی طرف نکل گیا تھا۔ کیتھی  گھر آتے ہی سوگئی۔ جارج سونے سے پہلے حسب معمول چکر لگانے نکل گیا۔ہیری سو رہا تھا۔ جارج سیڑھیاں چڑھ کر لیونگ روم  کی طرف آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا دروازہ کھلا تھا۔ ادھر کیتھی نے خواب دیکھا کہ لوئی ڈیفیو اپنے کمرے میں کسی مرد کے ساتھ ہے جو اس کا شوہر نہیں تھا۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ مقتولہ لوئی کے ایک آرٹسٹ کے ساتھ تعلقات.تھے۔
27 دسمبر کی دوپہر ان کے دروازے پر گھنٹی بجی۔ یہ کیتھی کی خالہ تھریسا تھی جو کبھی نن بھی رہ چکی تھی۔ بعد میں اس نے شادی کرلی تھی اور اب وہ تین بچوں کی ماں تھی۔ 
جارج اور کیتھی نے اسے مکان دکھانا شروع کیا۔ لیونگ روم کے پاس پہنچے تو تھریسا نے منہ پھیر لیا۔ اس وقت وہ کمرہ بہت ٹھنڈا ہو رہا تھا۔ پھر تھریسا کو پلے روم لے جایا گیا لیکن اس نے اسے دیکھنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ یہ بھی منحوس کمرہ ہے۔ پھر وہ اچانک یہ کہتے ہوئے گھر سے روانہ ہوگئی کہ اس مکان میں کوئی ‘‘بری شے’’ موجود ہے۔
تہہ خانے کے دائیں جانب ایک اور پلے روم تھا اور سیڑھیوں کے اختتام پر ایک کلوزٹ بنا ہوا تھا۔ زینے اور دیوار کے درمیان ایک دوسرا کلوزٹ بھی تھا۔ کسی وجہ سے کلوزٹ پر لگی پلائی وڈ کا کچھ حصہ کھل گیا تو اندر خالی جگہ نظر آئی۔ کیتھی نے جارج کو بلایا دونوں نے چار  خانے ہٹا دیے تو انہیں ایک دروازہ نظر آیا جو کسی خفیہ کمرے میں کھلتا تھا۔ وہ کمرے میں جاتے ہی دہشت زدہ رہ گئے۔ سارا کمرہ خون کی طرح نہ صرف سرخ ہو رہا تھا بلکہ خون کی بو بھی آرہی تھی۔ جارج نے کلوزٹ بندکردیا۔ اسی لمحے اسے کمرے میں کسی کی شبیہہ سی نظر آئی بعد میں پتہ چلا کہ یہ قاتل رونی ڈیفیو کی شبیہہ تھی۔
28 دسمبر کو چار بجے کیتھی اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ انگیٹھی کے پاس ایک بڑے میز پر مٹی کا چار فٹ لمبا شیر کا مجسمہ جست لگانے کی پوزیشن میں کھڑا تھا۔ شیر کا یہ مجسمہ  کرسمس کے تحفے کے طور پر جارج کو ملا تھا۔ کیتھی کو کسی شے کی حرکت کا احساس ہوا تو اس نے دیکھا کہ شیر آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ شام کو یہ شیر میز کے بجائے فرش پر موجود تھا جس سے ٹکرا کر جارج بری طرح گر گیا تھا۔ 
29 دسمبر کو بھی اس چوٹ کی وجہ سے جارج کا گھٹنا اکڑا رہا۔ انوکھی بات یہ تھی کہ اس کے گھٹنے پر شیر کے دانتوں کے نشانات تھے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مجسمے کو میز سے فرش پر کسی نے بھی نہیںرکھاتھا۔
جارج ایک بجے  دفتر سے فارغ ہو کر راستے میں اخبار ‘‘نیوز ڈے’’ کے دفتر پر رکا۔ یہ اخبار ڈیفیو خاندان کے قتل کے بارے میں واقعات چھاپتا رہا تھا۔ اس نے اخبار کے دفتر جاکر مائیکرو فلم کے شعبے میں اخبار کے پچھلے شمارے دیکھے۔ 
سب سے پہلی خبر چار نومبر 1974ء  کو چھپی تھی جو قاتل رونی کی گرفتاری سے متعلق تھی۔ اخبار میں تصویر بھی موجود تھی۔ جارج کو یاد آیا کہ یہ وہی خفیہ کمرے والی شبیہہ تھی۔ 
خبروں کے مطابق رونی نے ایک شراب خانے جا کر یہ اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنے سارے گھر والے قتل کر دیے ہیں۔ شراب خانے سے وہ اپنے دو دوستوں کے ہمراہ گھر پہنچا جہاں ساری لاشیں بستروں پر پیٹ کے بل پڑی ہوئی تھی۔ سب کو سر کے پچھلے حصہ میں گولی ماری گئی تھی۔ رونی نے دولاکھ ڈالر کی انشورنس کےلیے یہ قتل عام کیا تھا۔ یہ قتل عام رات کے سوا تین بجے ہوا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب جارج کی ہر رات خودبخود آنکھ کھلجاتیتھی۔
جارج واپسی پر اپنے  خیالات میں اتنا غرق تھا کہ اسے محسوس ہی نہ ہوا کہ اس کی گاڑی کا بایاں ٹائر تقریباً علیحدہ ہو چکا ہے اور لڑکھڑا رہا ہے۔ چند لمحوں کی تاخیر اسے ہلاک کر سکتی تھی لیکن اس کے پیچھے آنے والی کار کے ڈرائیور نے مسلسل ہارن بجا بجا کر اسے خطرے سے خبردار کردیا۔ جارج نے گاڑی روک لی پہیے کے تمام بولٹ نکلے ہوئے تھے۔ وہ حیران تھا کہ یہ کیسے ہوا۔ اس کی گاڑی کو تو کسی اور نے ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا۔ گاڑی کے پچھلے حصے سے اس نے جیک نکالنا چاہا تو وہ بھی وہاں سے غائب تھا۔ اسے اپنے ہاتھ سے  ہی تمام بولٹ کسنےپڑے ، گاڑی بہت آہستہ آہستہ چلانے کی وجہ سے اسے وہیں دفن کیا گیا۔ گھر پہنچنے میں اسے خاصی دیر ہوگئی۔
اگلے روز جارج مقامی ہسٹاریکل سوسائٹی کے دفتر پہنچا جہاں تحقیقات کے بعد اسے بتایا گیا کہ پرانے زمانے میں اس مکان کی جگہ وہ عمارت تھی جہاں ریڈ انڈینز اپنی لاشیں دفناتے اور پاگلوں کو رکھا کرتے تھے۔نوآبادیاتی دور کے آغاز میں وہاں ایک جادو گر نے رہائش اختیار کرلی اور وہ اسی مکان میں مرا اور وہیں دفن کیا گیا۔ موجود مکان 1928ء میں بنا تھا اور 1965ء میں اسے ڈیفیو خاندان نے خریدا۔
مقامی ہسٹاریکل سوسائٹی میں پوری ریسرچ کے باوجود جارج کو اس مکان میں ہونے والے پراسرار واقعات کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
 ادھر پادری کی ہتھیلیوں کے سرخ نشان پھوڑوں کی طرح پھٹ چکے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔ بخار 103 ڈگری پر رکا ہوا تھا۔ وہ چرچ میں اپنے ہاتھ مسلسل چھپائے رکھتا۔ تمام علاج بےکار ثابت ہوچکے تھے چنانچہ اس نے  چرچ کے بجائے اپنی نجی عبادت گاہ میں دعا کرنے کا فیصلہ کیا۔
رات بارہ بجے سال نو شروع ہوگیا۔ کیتھی اور جارج ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ کیتھی کی نظر آتش دان کے شعلوں پر پڑی۔ شعلوں کے اندر کوئی شے مادی وجود اختیار کرتی نظر آرہی تھی۔ کالی اینٹوں کے پس.منظر میں سفید خدوخال واضح ہورہے تھے۔ کیتھی نے اپنے شوہر کو بتانا چاہا مگر وہ بےبس ہوکر رہ گئی۔ شعلوں میں کوئی بلا اپنا روپ واضح کرچکی تھی۔ اس کے سر پر سینگ اور جسم پر گاؤن سا نظر آرہا تھا۔ بلا کا قد بڑھ رہا تھا اور وہ اس کی سمت بڑھ رہی  تھی۔ کیتھی کی چیخ نکل گئی جارج نے چونک کر دیکھا لیکن اب وہ بلا شعلوں کے پیچھے غائب ہورہی تھی۔
یکم جنوری 1976ء  کی رات دونوں سوگئے۔ سونے سے پہلے کیتھی نے رہائشی کمرے کی کھڑکیوں پر نظر ڈالی۔ وہاں دو سرخ آنکھیں اس کی طرف گھور رہی تھیں۔ جارج نے بھی ان آنکھوں کو دیکھا۔ اس سے قبل کہ وہ بجلی آن کرنے کے لیے کوئی حرکت کرتے، آنکھیں غائب ہو گئیں۔ جارج چیختا ہوا باہر کی طرف دوڑا۔ کھڑکی کے باہر انہوں نے فلیش لائٹ جلائی۔ دروازے کے آگے برف پر قدموں کے تازہ نشانات نظر آرہے تھے۔ یہ نشانات کسی بہت بڑے خنزیر کے قدموں کے تھے۔ 
یہ نشانات اگلی صبح بھی موجود تھے اور پہلے کتے کے احاطے کی طرف جاتے تھے پھر گیراج کے دروازے پر جا  کر ختم ہوجاتے تھے۔ جارج یہ دیکھ کر سکتے میں آگیا کہ گیراج کا  مقفل دروازہ ٹوٹا ہوا تھا۔ یہ اتنا مضبوط دروازہ تھا کہ اسے لوہے کے فریم سے دس بارہ آدمی بھی الگ نہیں کرسکتے تھے۔ اس نے اندر جھانک کر دیکھا، باہر سے لائی ہوئی برف اندر جابجاپڑی تھی۔
2 جنوری کی صبح پادری نے اپنی عبادت گاہ سے  ایک مرتبہ پھر جارج کے مکان کے لیے برکت کی دعا کی۔ دعا کے بعد پادری واپس اپنے اپارٹمنٹ میں آیا تو اس نے وہاں انسانی نجاست کی شدید بدبو محسوس کی جبکہ کمرے میں بظاہر کچھ نہ تھا، یہ بدبو آہستہ آہستہ بڑھنے لگی یہاں تک کہ ری ایکٹری کے تمام پادری بدبو سے پریشان ہو کر باہر نکل گئے۔ پادری کو بعد میں پتہ چلا کہ یہ بدبو ٹھیک اس وقت شروع ہوئی تھی جب وہ بیرک میں جارج فیملی کے لیے دعا کر رہا تھا اور بدبو پھیلنے کا آغاز خود اس کے کمرے سے ہوا تھا۔
پادری کو یاد آیا کہ جب وہ پہلے دعا کرنے جارج کے مکان پر گیا تھا تو اسے کسی نامعلوم آواز نے نکلنے کا حکم دیا تھا۔ پادری کو خیال آیا شاید یہ وہی طاقت ہو۔ 
ماورائی علوم کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نجاست کی بدبو کا تعلق ہمیشہ شیطان کے ظاہر ہونے سے ہوتاہے۔ 
شام تک یہ بدبو اسی طرح رہی۔ پادری مسلسل دعا مانگتا رہا۔ 
ادھر سہ پہر کے وقت جارج کو تہہ خانے کی طرف سے ناگوار بدبو آنا شروع ہوئی۔ یہ بدبو وہیں سے آرہی تھی جہاں پلائی.وڈ کے کلوزٹ تھے۔ اس نے وہاں جا کر تختہ نکال کر سرخ رنگ والے کمرے کے اندر روشنی ڈالی۔ بھبکے شدید ہوگئے۔
جارج اور کیتھی بڑی دیر تک جاگتے رہے آخر تھک کر سو گئے لیکن جارج وقفے وقفے سے اُٹھتا رہا اسے کوئی شور سنائی دے رہا تھا۔ اچانک اسے سیڑھیوں کی طرف سے گروہ بند موسیقی کی آواز سنی۔ ڈھول خوب زور زور سے پیٹے جارہے تھے۔ مارچ کرنے والوں کے قدموں کی آواز آرہی تھی۔ کم از کم پچاس افراد ہوں گے لیکن جیسے ہی وہ نیچے گیا آواز آنا بند ہوگئی۔ اب اسے اپنے پیچھے سے کسی کے سانس لینے کی آواز آنے لگی  وہ ڈرتے ہوئے سیڑھیاں چڑھنے لگا اور کیتھی کےکمرے کی طرفلپکا۔
کیتھی اپنے کمرے میں دو فٹ کی بلندی پر ہوا میں معلق تھی اور آہستہ آہستہ کھڑکیوں کی طرف تیرتی ہوئی جا رہی تھی۔ جارج نے چیخ کر کیتھی کو پکارا اور اسے پکڑ لیا۔ وہ تختے کی طرح اکڑی ہوئی تھی لیکن اب اس کی پرواز رک گئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا کوئی کیتھی کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے لیکن اچانک یہ زورآزمائی ختم ہوگئی اور دونوں دھڑام سے فرشپرجاگرے۔
6 جنوری کو پادری نے تمام واقعات سے کلیسا کے بزرگوں کو آگاہ کردیا۔ کسی کو بھی اس معمے کا حل سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ان سب نے پادری کو مشورہ دیا کہ وہ اس مکان کے معاملات سے الگ ہوجائے۔ اسی روز اسے جارج کا فون آیا۔ اس نے پادری کو کنوئیں کی دریافت سے آگاہ کیا اور پادری سے وہاں آنے کو کہا لیکن پادری نے انکار کردیا تاہم اس نے جارج کو مشورہ دیا کہ وہ پیراسائیکلوجی کی کسی تنظیم سے رابطہ کرے۔ جارج نے ایک تنظیم کو خط بھیج دیا۔ اس نے اپنے دفتر کے ایک ملازم ایرک کی ایک دوست فرانسین کو فون کیا جو ماورائی صلاحیتوں کی حامل تھی اور آسیب یا کسی بھی مافوق الفطرت وجود کا ادراک کرسکتی تھی۔ اس خاتون نے  کہا کہ وہ ایک دو روز تک ان کے گھر میں آئے گی۔
اس رات پادری کو اس کے اس دوست پادری کا فون آیا جس نے گاڑی خراب ہونے پر اس کی مدد کی تھی۔ اس نے بتایا کہ مجھے ایک عجیب و غریب فون کال ملی ہے جس میں مجھے کہا گیا ہے کہ میں آپ کو بتادوں کہ آئندہ کبھی اس مکان میں مت جائیں ورنہ ہلاک ہوجائیں گے اور کال کرنے والے نے یہ بھی بتایا کہ پادری جانتا ہے کہ میں کون ہوں!
چھ جنوری کی رات جارج کی فیملی کچن میں کھانا کھا رہی تھی۔ کیتھی نے بتا دیا تھا کہ وہ اب مزید ایک رات بھی یہاں نہیں رہنا چاہتی۔ ہیری بھی ان کے پاس لیٹا ہوا تھا۔ جارج نے سوچا آج رات کتے (ہیری) کو اندر ہی  رہنے دیا جائے۔ میسی کتے کو اپنے کمرے میں لے گئی لیکن وہ خوفزدہ تھا اور کمرے سے بھاگنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میسی نے اپنے دوست جوڈی سے کتے کی ملاقات کرائی تو کتا بہت زیادہ سہم گیا اور پلنگ کے نیچے چھپ گیا۔ کرائس وہاں آئی تو دروازہ کھلتے ہی کتا بھاگ کر تیسری منزل پر چلا گیا۔
رات ایک بجے بھی جارج جاگ رہا تھا۔ اچانک اسے دریا میں کشتی چلنے کی آواز آئی لیکن سردیوں کی اس رات دریا میں کشتی کیسے چل سکتی تھی دریا تو سردی کی وجہ سے منجمد ہوچکا تھا۔
رات دو بجے جارج کا دل بیئر پینے کو چاہا، اس نے سوچا کہ وہ قریبی بار چلا جائے۔ کیتھی کو یہ بات بتانے کےلیے اس نے نیم تاریک فضا میں اس کی طرف دیکھا مگر وہ اپنے بستر پر موجود نہیں تھی بلکہ وہ زمین سے تقریباً سات فٹ کی بلندی پر  ‘‘محو پرواز’’ تھی۔ جارج نے چھلانگ لگائی اور اسے پکڑ لیا۔ کیتھی بستر پر آگری، جارج نے فوراً ہی بلب جلا دیا۔ روشنی ہونے پر اس نے دیکھا کہ بستر پر تو ایک نوّے سالہ بڑھیا لیٹی ہوئی ہے۔ اس کے چہرے پر ان گنت جھریاں، سفید بال، منہ میں دانت تک نہیں تھے۔ لیکن یہ کیتھی ہی تھی۔ جارج بری طرح ڈر گیا۔ کیتھی بھاگ کر باتھ روم گئی اور آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہی خوف سے چیخ مار دی۔ جارج کے دیکھتے دیکھتے کیتھی کی جھریاں غائب ہونے لگیں، سفید بال پھر سے بھورے ہوگئے۔ کیتھی رو رہی تھی، مجھے کیا ہو رہا ہے۔ 
دونوں خاموش لیٹے رہے۔ صبح تک کیتھی کی شکل و صورت پوری طرح پہلے جیسی ہو چکی تھی۔ صبح ہوتے ہی جارج نے سارا واقعہ پادری کو فون پر بتا دیا۔ پادری نے دوبارہ  مشورہ دیا کہ یہ مکان فوراً چھوڑ دو۔ فون ختم ہوتے ہی پادری کو بخار نے پھر آلیا۔ اس پر فلو کا دوسرا حملہ ہوچکا تھا۔ اسی روز شام کے وقت ایرک اپنی ماورائی صلاحیتوں  والی دوست فرانسیس کے ہمراہ جارج کے گھر پہنچ گیا۔
سب لوگ ادھر ادھر کی باتوں میں مصروف ہوگئے، جارج چاہتا تھا کہ فرانسیس اپنا کام فوراًشروعکرے۔
 باتوں باتوں میں اچانک فرانسیس نے کوچ کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہاں ہاتھ لگا کر دیکھو سردی محسوس ہورہی ہے۔ جارج نے ہاتھ لگا کر کہا کہ ہاں۔ فرانسیس نے کہا کہ تھوڑی دیر قبل وہ اس جگہ  بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر فرانسیس انہیں بیڈ روم میں لے گئی جہاں میز کے پاس عجیب سی بدبو آرہی تھی، پسینے کی طرح ، پھر فرانسیس کچن گئی اور کچھ دیر بعد بولی  یہاں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہتے ہیں۔ یہ دونوں کسی زمانے میں اس مکان کے مالک تھے لیکن ان کی موت اس مکان میں نہیں ہوئی تھی۔ 
اب وہ تہہ خانے کی طرف بڑھی اور بولی کہ یہ مکان کسی قبرستان کے اوپر تعمیر ہوا ہے۔ وہ تہہ خانے میں دیوار کی الماریوں کے پاس آکر رک گئی اور کہنے لگی۔ عین اس مقام کے نیچے کچھ لوگ دفن ہیں۔ ان کے اوپر بھی کوئی شے ہے۔ یہاں ایک عجیب قسم کی بدبو بھی ہے۔ وہ پلائی وڈ کی پینلنگ کی طرف اشارہ کر رہی تھی جس کے پیچھے سرخ کمرہ تھا اور یہاں کسی کو قتل یا دفن کیا گیا تھا۔ اس کی قبر کی جگہ بعد میں کمرہ بنا دیا تھا۔ تہہ خانے سے باہر آکر وہ اوپر آئے۔ لیونگ روم کے بند دروازے پر فرانسیس نے کہا کہ میرے خیال میں یہ وہ جگہ ہے جہاں سے آپ کو پریشانی ہوئی ہے۔ جارج اور فرانسیس دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوگئے۔ اندر جاکر فرانسیس نے مراقبہ شروع کردیا۔ اس کے منہ سے مردانہ آوازنکلنے لگی 
‘‘کسی کی ایک چھوٹی بچی اور لڑکے، خون کے دھبے دیکھ رہا ہوں۔ کسی نے انہیں شدید زخمی کیا، مارنے کی کوشش کی۔’’ 
مراقبہ ختم ہو گیا اور وہ بولی.... میں جارہی ہوں۔ روحوں سے بات کرنے کا یہ ٹھیک وقت نہیں، یہ کہہ کر فرانسس اور ایرک فوراً وہاں سے روانہہوگئے۔
سونے سے قبل جارج سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گیا، سیڑھیوں کا جنگلہ بنیادوں سے اکھڑا ہوا تھا۔ اچانک جارج کو احساس ہوا کہ فرانسیس کے منہ سے جو آواز نکل رہی تھی وہ پادری کی تھی۔
8 جنوری کو جمی اپنی دلہن کیری کے ساتھ ہنی مون منا کر واپس اپنی ماں کے گھر آگیا، اس نے جارج کو فون کیا اور پوچھا کہ اس کے پندرہ سو ڈالر ملے یا نہیں۔ جواب نفی میں تھا۔ اس نے کہا کہ رات کو وہ کیری کے ہمراہ آئے گا۔ جارج نے ایرک کو فون کیا اور پوچھاکہ فرانسیس نے واپسی پر کیا بات کی۔ ایرک نے بتایا کہ فرانسیس بہت پریشان ہے اور دوبارہ مکان میں نہیں جانا چاہتی۔ اس کا کہنا ہے کہ مکان پر ایسی مخلوق کا قبضہ ہے جو بہت طاقتور ہے۔ ان سے بات چیت خطرناک ہوسکتی ہے۔
ا س کے کچھ ہی دیر بعد نارتھ کیرالینا کے ماورائی تحقیق کے ادارے کے فیلڈ انوسٹی گیٹر جارج کیکورش کا فون آیا جس نے بتایا کہ وہ اگلی شام تفتیش کے لیے ان کے ہاں پہنچ.رہا.ہے۔
شام کو جمی اپنی دلہن کیری کے ساتھ جارج کے گھر پہنچ گیا اور وہ ہنی مون کی باتیں سنانے لگے، رات کو جمی اور کیری نے میسی کےکمرے میں جبکہ میسی نے ڈرائنگ روم میں سونا تھا۔ 
بارہ بجے حسب معمول جارج کی آنکھ کھل گئی اور اس نے اوپر کی منزل سے کیری کی چیخ سنی۔ وہ اٹھ کر ان کی طرف بھاگا۔ کمرے سے کیری کی چیخیں مسلسل آرہی تیں۔ جارج نے دیکھا کہ جمی اور کیری دونوں گٹھڑی بنے ہوئے بیٹھے ہیں۔ جارج کے پوچھنے پر کیری نے بتایا کہ کوئی شے میرے پاؤں کے پاس آکر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے میرا پاؤں چھوا۔ جارج نے اس جگہ کو ہاتھ لگایا تو وہ جگہ گرم تھی۔ کیری نے مزید بتایا کہ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ ایک کمزور اور بیمار بچہ بیٹھا ہوا تھا اس نے مجھ سے پوچھا میسی اور جوڈی کہاں ہیں۔
آٹھ جنوری کی صبح جمی اور کیری واپس چلے گئے۔ وہ ایک منٹ بھی اس گھر میں رہنا نہیں چاہتے تھے۔ اس دوران پادری آیا، خلاف معمول اسے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہوا۔ پادری نے کہا کہ فوراً یہ مکان چھوڑ دیا جائے۔ یہ گفتگو ابھی جاری تھی کہ کیتھی کی چیخ سنائی دی۔ وہ اوپر کو دوڑا۔ وہاں ہر دیوار پر جیلاٹین جیسی کوئی سبز شے چپکی ہوئی تھی اور ان دھبوں سے مواد کیچڑ کی شکل میں نیچے گر رہا تھا۔
اس رات جارج نیند کے عالم میں چلا رہا تھا، میں دوٹکڑوں میں بٹ رہا ہوں۔
18 جنوری کے روز جارج اپنی کرسی پر بیٹھا تھا کہ کسی شے نے اسے کرسی سمیت اٹھا کر گھمانا شروع کردیا۔ یہ وہی وجود تھا جو اسے کچھ دن پہلے آتش دان میں نظر آرہا تھا۔ 
صبح ان لوگوں نے مکان چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ سامان باندھ کر جیسے ہی وہ گاڑی میں بیٹھے طوفان آگیا اور گاڑی نے حرکت کرنے سے انکار کردیا۔ سارا دن طوفانی بارش ہوتی رہی۔ مجبوراً سفر ملتوی کرنا پڑا۔ دوسری طرف حیران کن بات یہ تھی کہ باہر سردی بڑھ گئی تھی اور اندر مکان گرم ہوتا جارہا تھا۔ پلے روم میں سبزی مائل مواد ایک سوراخ سے بہنے لگا۔
رات کو جارج اور ہیری رہائشی کمرے میں تھے باقی سب لوگ اوپر چلے گئے۔ اچانک کمرے میں سردی ہونے لگی۔ کتے نے سخت بےچینی ظاہر کرنا شروع کردی۔ جارج کیتھی اور بچوں کے پاس چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ کیتھی نیند کی حالت میں اٹھی اور بیڈ روم کے دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ پھر اچانک جیسے کسی رکاوٹ نے اسے روک دیا۔ جارج نے اسے پکڑ کر دوبارہ بستر میں لٹا دیا۔ دوسری طرف کتا یوں کراہنے لگا جیسے مر رہا ہو۔ جارج  نے دوڑ کر اس کی زنجیر  کھول دی۔ 
طوفان تھم چکا تھا۔ وہ بستر پر لیٹ گیا اور تھوڑی دیر بعد اس نے سنا کہ اوپر لڑکوں کے کمرے میں کوئی فرش کو کھرچ رہا ہے۔ پھر اوپر سے ایسی آوازیں آنے لگیں کہ جیسے سامان ادھر سے ادھر کیا جارہا ہے۔ اس نے نیم اندھیرے میں دیکھا کہ اس کے ڈریسنگ ٹیبل کی درازیں باہر آنے لگیں۔ اس کا جسم حرکت سے قاصر تھا۔ وہ بےبسی سے رونے لگا۔ پھر وہی مارچ کرتا ہوا دستہ سیڑھیوں پر واپس آگیا جو کچھ روز پہلے بھی اودھم مچاتا رہا تھا۔ موسیقی شروع ہوگئی۔ پھر سارے گھر کے دروازے کھلنے اور بند ہونے شروع ہوگئے۔ باہر جیسے بجلی گری ہو، خوفناک دھماکے کے ساتھ ہی طوفان پھر شروع ہوگیا۔  کوئی شے اس کے بستر میں آگھسی اور اسے دھکیلنے لگی۔ وہ یہ محسوس کرکے سن رہ گیا کہ اس شے کے کھر تھے، خنزیر، وہ خوف سے بےہوش ہوگیا۔ بہت دیر بعد بچوں کے چلانے سے وہ ہوش میں آیا جو اسے اٹھارہے تھے ۔
‘‘ہمارے کمرے میں کوئی شے ہے جو ہمیں پکڑنے لگی تھی۔’’ 
ادھر کتا دیوانہ وار بھونک رہا تھا۔ وہ سیڑھیوں پر موجود کسی شے کو دیکھ کر غرا رہا تھا مگر زنجیر سے باندھا ہونے کی وجہ سے کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔ جارج کھلے دروازے کی طرف بھاگا۔ آگے سیڑھیوں پر سفید رنگ کی کوئی ڈراؤنی شے بیٹھی تھی۔ یہ وہی شے تھی جو اسے شعلوں میں نظر آئی تھی۔ جارج بیڈروم کی طرف بھاگا اور میسی کو بستر سے اٹھا کر ڈینی کو تھما دیا۔ اسے کہا کہ باہر جاؤ ، کرائس کو بھی باہر جانے کا حکم دیا اور کیتھی کو اٹھا کر خود بھی باہر بھاگا۔ 
پہلی منزل پر دروازہ ٹوٹ کر اپنی چول پر جھول رہا تھا۔ سب باہر موجود وین میں سوار ہوگئے۔ گاڑی اسٹارٹ ہوگئی۔ 
14 جنوری 1976ء کی صبح سات بجے رہائش کے اٹھائیس ویں روز وہ اس مکان سے  واپس جارہےتھے۔
اگلے دن جارج نے پادری کو فون کرکے بتایا کہ اس نے مکان چھوڑ دیا ہے۔ فون پر گفتگو جاری تھی کہ پادری کی ہتھیلیوں پر پھر سے نشان ابھرنے لگے۔ اسی رات پادری نے نیو یارک کو الوداع کہا اور سان فرانسسکو پرواز کرگیا۔ طیارے کے اڑتے ہی اس کی ہتھیلیوں سے یہ نشانات غائب ہوگئے۔ فلو بھیکمہوگیا۔
کیتھی کی ماں  اپنی بیٹی ، جارج  بچوں کے زندہ سلامت گھر سے نکل آنے پر بہت خوش تھی۔ جارج نے اس مکان میں رہ گئے باقی ماندہ سامان پر لعنت  بھیجی اور اعلان کیا کہ وہ اس گھر میں کبھی واپس نہیں جائے گا۔ البتہ اس نے سائنسی تحقیق کرنے والوں کو کھلی اجازت دے دی۔
 اس رات سب سکون کی نیند سوگئے لیکن جارج کی آنکھ کھلی تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنے بستر سے پرواز کر رہا ہے۔ ساتھ والے بستر پر کیتھی بھی محو پرواز تھی۔ پھر اس نے دیکھا کہ کیتھی اپنے بستر پر ہے اور اسے آوازیں دے رہی ہے۔ کیتھی نے کہا کہ تم پرواز کر رہے تھے۔ ہمیں یہاں سے بھی نکلنا پڑے گا۔ وہ نیچے اترے تو سیڑھیوں پر جیلاٹین جیسا سبز مادہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بہرحال اس واقعے کے بعد یہ معاملہ دوبارہ پھر کبھی نہیں ہوا۔
ان کے مکان کے واقعات کی بےشمار رپورٹیں اس دوران اخبارات میں چھپ چکی تھیں۔ اٹھارہ فروری 1976ء کو نیو یارک ٹی وی چینل پانچ نے ایک مشن اس مکان پر بھیجا۔ 
ریسرچ کرنے والے مشن نے اندازہ لگایا کہ کوئی بہت زبردست طاقت والی شے یہاں مقیم ہے، اسے کوئی بہت بڑا عامل ہی بھگا سکتا ہے۔
 ٹیم اپنا مشن نامکمل چھوڑ کر آگئی اور مکان کا یہ معمہ لاحاصل معمہ  ہی رہا۔ بعد میں ٹی وی سے یہ پورا سلسلہ واقعات اور ماہرین کی تحقیقات کی رپورٹوں سمیت ایک دستاویزی فلم کی شکل میں دکھایا گیا۔

The Amityville Horror - 1979 Movie



امتی ویل ہارر / فلم 1979   


امریکہ کا مشہور آسیبی مکان

امتی ویل





اوشن ایونیو، امتی ویل نیویارک، امریکہ کے مشہور  آسیبی  مقامات   میں سے ایک ہے،     اس گھر میں ہونے والے پراسرار واقعات کی اصل وجوہات کیا ہیں ؟ اس کے حوالے سے تین نظریات مشہور ہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قدیم  زمانے میں اس مقام پر ریڈ انڈین قبیلہ میساپیقوان Massapequans آباد تھا، سترہویں صدی میں ولندیزی  کی آبادکاری کے دوران قبیلے کے  سردار شاشم ٹاکا پاشا نے یہ جگہ چھوڑنے سے انکار کردیا جس پر ولندیزی سپاہیوں نے  ریڈ انڈینز قبیلے پر حملہ کر کے ڈیڑھ سو سے زائد قتل کردئے تھے۔  کہا جاتا ہے کہ یہ مکان  اسی جگہ پر ہے جہاں باقی بچے  ریڈ انڈینز اپنے لوگوں  لاشیں دفن کیں تھیں۔  
ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ   نوآبادیاتی دور کے آغاز میں یہاں ایک مکان بنایا گیا تھا، اسے ایک اسائلم Asylumکے طور پر بھی استعمال کیا جاتا، یہاں ذہنی مریضوں اور پاگلوں کو رکھا کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ ایک جادو گر کو بھی یہاں قید کیا گیا وہ اسی مکان میں مرا اور دفن ہوا۔   
تیسرا اور مشہور نظریہ ڈیفیو خاندان کی  بہیمانہ موت کا ہے، لوگوں کا کہنا ہے کہ اس خاندان کی روحیں اب بھی اس مکان میں موجود ہیں۔ 
یہ مکان 1928ء میں بنا تھا اور 1965ء میں اسے ڈیفیو خاندان نے خریدا۔ 1975ء میں  ڈیفیو خاندان کے بہیمانہ قتل کے بعد یہ گھر جارج اور کیتھی نے   خریدا،  ان کے ساتھ ہونے والے پراسرار حادثات کی وجہ سے وہ صرف 28 دن ہی اس گھر میں رہے۔   اس کے بعد کئی ٹی وی اور اخباری رپوٹروں  اور من چلے   سیاحوں  نے اس گھر کا رخ کیا، جن میں سے کئی لوگوں کے ساتھ پراسرار حادثات  پیش آئے،  اس واقعے پر کئی ناول ، ڈوکیومنٹریز اور فلمیں  بنائی گئیں اور  اب تک بنائی جارہی ہیں۔ سیاحوں کی آمد  میں اضافے کے باعث  اس گھر کو توڑ کر کچھ فاصلے پر نئے سرے سے تعمیر کیا گیا  ہے۔  

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں