انگریزی ادب سے ایک پراسرار آپ بیتی

نادیدہ

ہالینڈ میں پیدا ہونے والا وہ شخص نہ تو جادوگر تھا ،نہ شعبدہ باز  اور نہ ہی اس کا تعلق پولیس یا کسی جاسوسی ادارے سے تھا۔  پیٹر ایک سادہ اور خاموش طبیعت کا نوجوان تھا،  ناگاہ ایک انوکھا حادثہ پیش آیا ۔ یہ حادثہ اس کے اندر ایک ایسی نادیدہ قوت بیدار کرگیا جو ناقابل یقین بھی تھی اور طلسمات سے معمور بھی۔  وہ جس شے  کو چھوتا اس  شے  کے مالک کے بارے میں تمام باتیں جان لیتا۔ اس نےتقریباً  17 ملکوں میں جاکر  قتل، اِغوا اور چوری کے  درجنوں کیسز  کی گتھیاں سلجھائیں۔  امریکہ میں دماغی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا معائنہ کیا ۔ سائنسدان اس  کی عجیب و غریب خصوصیات کو دیکھ کر حیران تھے ، اور وہ خود نہیں  جانتا تھا کہ وہ کسی چیز کے بارے میں کس طرح جان لیتا ہے، وہ تو بس یہ کہتا تھاکہ ہر انسان کے جسم کے اندر مقناطیسی توانائی کی طرح روشنیوں کا  ایک نادیدہ  وجود ہوتا ہے،   انسان جب کسی  شے کو چھوتا ہے تو اس مقناطیسی توانائی کی وائبریشن    اسے اس انسان کے متعلق بتادیتی ہیں۔

پیٹر ہرکوس    کی  زندگی پر تین آپ بیتیاں، درجنوں کتابیں اور کئی فلمیں بن چکی ہے،   اس کی ایک آپ بیتی  کا ترجمہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔



نیم غنودگی کی حالت میں مجھے یوں محسوس ہوا جیسے نرس میرا تکیہ درست کر رہی ہو یا میرا درجہ حرارت لے رہی ہو۔ پھر میں جاگ اٹھا اور خود کو اسپتال کے ایک نیم تاریک کمرے میں بستر پر لیٹے ہوئے پایا۔ میرے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔
‘‘مجھے کیا ہوا....؟’’ میں نے نرس سے دریافت.کیا۔
‘‘آپ تیس فٹ کی بلندی سے گر گئے تھے۔ یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ جان بچ گئی۔’’
تب مجھے یاد آیا کہ میں ایک  چار منزلہ مکان میں سفیدی کرتے ہوئے نیچے گر گیا تھا۔اب میں  اپنے قصبے ڈارڈرٹچ کے قریبی شہر دی ہیگ میں واقع زِڈوال  اسپتال میں زیر علاج تھا۔سر میں شدید چوٹ آئی اور بائیں کندھے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ 
میرے ساتھ والے بستر پر ایک اور مریض لیٹا ہوا تھا۔ اس پر نظر پڑتے ہی میں نے محسوس کیا جیسے میں اس کے متعلق بہت کچھ  جانتا ہوں حالانکہ میں نے پہلے اسے کبھی دیکھا تک نہ تھا۔
‘‘تم کوئی اچھے آدمی نہیں ہو۔’’ میرے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
‘‘وہ کیوں....؟’’ وہ ناگواری سے بولا۔
‘‘وہ اس لیے کہ تم نے اپنے مرحوم باپ کی نہایت قیمتی گھڑی فروخت کردی.ہے۔’’
‘‘تمہیں کیسے معلوم ہوا....؟’’ اب اس کے سوال میں پختگی کے بجائے حیرت کا عنصر شامل ہوگیا.تھا۔
اس نے سر کی جنبش سے میری بات کا جواب ہاں میں دیا، مگر  اس کے چہرے پر خوف طاری تھا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ جب اس کے ذرا حواس درست ہوئے، تو اس نے مجھے تفصیل سے اپنے متعلق بتایا۔ 
سونے کی گھڑی اس کے مرحوم والد کو بہت عزیز تھی جسے فروخت کرکے وہ خود کو مجرم محسوس کر رہا تھا اور یہ اس کا احساس جرم ہی تھا جس کا علم مجھے اس کے چہرے پر نظر پڑتے ہی ہوگیا تھا۔
اپنے بستر پر لیٹے لیٹے میں نے ایک اور مریض کو ہال میں سے گزرتے  دیکھا کرتا تھا۔ ہسپتال میں قیام کے چوتھے یا پانچویں روز وہ مجھے الوداع کہنے آیا، مگر جونہی اس نے خدا حافظ کہتے ہوئے مجھ سے مصافحہ کیا، مجھے نجانے کیسے معلوم ہوگیا کہ وہ ایک برطانوی جاسوس ہے اور چند روز بعد کاور اسٹریٹ میں جرمنوں کے ہاتھوں مارا جائے گا۔ یہ محسوس کرتے ہی غیر ارادی طور پر میں نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا، مگر وہ جلدی سے ہاتھ چھڑا کر، تیز تیز قدم چلتا ہوا کمرے سے نکل گیا۔
‘‘اس آدمی کو روک لو۔ وہ برطانوی جاسوس ہے۔ جرمنوں کو اس کا علم ہے اور وہ اسے قتل کردیں گے۔’’ میں نے چلاتے ہوئے نرس سے کہا، مگر میری چیخ پکار پر ایک ڈاکٹر بھاگا ہوا آیا اور اس نے مجھے آرام سے لیٹے رہنےکی تاکید کی۔
دو روز بعد ہی برطانوی جاسوس کو گسٹا پو کے کارندوں نے کاور اسٹریٹ میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ہسپتال کے عملے کے ذریعے میری پیشن گوئی کا علم ہالینڈ کی زیرزمین  تنظیم کو بھی ہوگیا۔ اس جاسوس کی موت کے چند روز بعد ایک سہ پہر میرا انچارج ڈاکٹر اور نرس ایک اجنبی کے ہمراہ کمرے میں آئے۔
‘‘برطانوی جاسوس کے متعلق تمہاری پیشن گوئی درست تھی، لیکن اس کا پتہ کیسے چلا....؟’’ اجنبی بولا۔ وہ لب و لہجے سے ہالینڈ کا شہری معلوم نہیں ہوتا تھا۔
‘‘میں اس کا جواب دے چکا ہوں۔’’
‘‘کیا اس کا ہاتھ چھونے سے تمہیں پتہ چلگیا.تھا....؟’’
‘‘ہاں۔’’
‘‘ہمیں بیوقوف مت بناؤ اور سچ سچ بتاؤ کہ تمکون.ہو۔’’
‘‘یقین مانو میں سچ کہہ رہا ہوں۔ میں نے تو اسے روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔’’
‘‘ہاں، بعض اوقات ایک غدار کے دل میں بھی اپنے کسی ساتھی کے لیے ہمدردی پیدا ہوسکتی ہے۔’’ وہ اجنبی  نفرت بھرے انداز سے بولا۔
‘‘میں غدار نہیں ہوں..... تین سال سے خفیہ تنظیم کے ساتھ کام کر رہا ہوں اور اپنے وطن  ہالینڈ کا ہمیشہ وفا دار رہا ہوں۔’’ میں نے احتجاج کیا۔
اس نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ گیلری میں ایک اور آدمی فرش پالش کرنے والی مشین لیے کھڑا تھا۔ اپنے ساتھی کا اشارہ پاتے ہی اس نے مشین چلا دی۔ میں سمجھ گیا کہ مشین کے شور میں میرے کمرے سے نکلنے والی چیخوں کو دبانا مقصود ہے۔ پھر نرس اور ڈاکٹر نے میرے بازوؤں کو مضبوطی سے جکڑ لیا اور اجنبی نے ساتھ والے بستر سے تکیہ اٹھا کر میرے منہ پر رکھا اور زور سے دبانا شروع کر دیا۔ اب میرے لیے سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ موت کو اس قدر قریب محسوس کرتے ہوئے میں نے کوشش کرکے اپنا ایک بازو آزاد کرایا اور اس سے تکیہ دبانے والے کے ہاتھ کو پیچھے دھکیلتے ہوئے ہسپانوی زبان میں کہا: کسی کو مارنا کتنے دکھ کی بات.ہے۔’’
‘‘یہ تم کیا کہہ رہے ہو....؟’’ اس نے یک لخت تکیہ میرے چہرے سے ہٹاتے ہوئے پوچھا۔ ڈاکٹر اور نرس بھی حیران تھے کہ میرے قاتل نے اپنا ہاتھ کیوں روک لیا تھا۔ وہ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے بولا۔
‘‘اس نے جو کچھ کہا ہے، وہی میں سوچ رہا تھا۔کبھی کبھی کسی کی جان لیتے ہوئے مجھے اس فعل سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ لیکن اسے میرے خیالات کا آخر علمکیسےہوگیا....؟’’
اس نے ڈاکٹر اور نرس کے سامنے وضاحت کردی، مگر اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ ادھر میں خود بھی حیران تھا، کیونکہ میں ہسپانوی زبان سے بالکل نابلد تھا۔ بالآخر اجنبی بولا:
‘‘دوست! ہمیں معاف کردو۔ ہم نے بلاوجہ  تمہیں قتل کرنے کی کوشش کی۔’’
موت کے منہ سے میرے بچ نکلنے کی وحشت ناک کہانی آناً فاناً سارے ہسپتال میں پھیل گئی۔ ماہر نفسیات ڈاکٹر پیٹرس کئی روز تک مجھ سے پوچھ گچھ اور میرا معائنہ کرتا رہا۔ اس کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ سر میں سخت چوٹ لگنے سے میری چَھٹی حس بیدار ہوگئی ہے۔ 
سائنسدانوں اور ماہرین نفسیات نے ماضی اور مستقبل کے متعلق جاننے کی اس صلاحیت کو مختلف نام دے رکھے ہیں، مثلاً ٹیلی پیتھی، غیب دانی وغیرہ   نام کوئی بھی رکھا جائے بہرحال اس صلاحیت  کی موجودگی کا سب اعترافکرتے ہیں۔
جب آپ کسی اجنبی سے مصافحہ کریں یا اس سے آنکھیں چار کریں تو اپنے ہاتھ پر اس کے ہاتھ کے دباؤ، اس کے دیکھنے کے انداز، چہرے کے تاثرات اور لب و لہجے سے آپ اس کی شخصیت کے متعلق کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں۔ میں کسی اجنبی سے مصافحہ کرتا ہوں، تو اسی لمحے مجھے اس کی شخصیت، کردار، نجی زندگی اور ماضی اور مستقبل کے حالات کا علم ہوجاتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ اس کی زندگی کے مختلف مناظر میری نظروں کے سامنے فلمی ریل کی طرح پھرنے لگتے ہیں۔ سائنسی اصطلاح میں اس کو سائیکو میٹری کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ 
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ میرے اندر یہ صلاحیت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
جنگ کے بعد ایک روز میری گرل فرینڈ مجھے اپنے ہمراہ شعبدے باز کا تماشا دکھانے لے گئی۔ وہ اسٹیج پر اپنی معاون خاتون کے ساتھ کھڑا تھا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دونوں میاں بیوی تھے۔ بیوی تماشائیوں سے تحریری پیغامات وصول کرکے اس کے پاس لے جاتی جنہیں پڑھے بغیر وہ پاس رکھی دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی میں پھینک دیتا اور جلتے کاغذ کے دھوئیں اور راکھ سے عبارت کا مفہوم اخذ کرکے بتا دیتا۔ میرے لیے اس کا یہ کمال بہت دلچسپی اور حیرانی کا باعث تھا۔ میں پورے انہماک سے تماشا دیکھنے میں محو تھا کہ میری گرل فرینڈ نے سرگوشی کی: ‘‘کاغذ جلتا نہیں، بلکہ ایک پائپ میں سے گزر کر نیچے چلا جاتا ہے۔’’
کچھ دیر بعد شعبدے باز نے اپنی معاون سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ لے کر آگ میں ڈالا اور کہا :
‘‘یہ پیغام پیٹر ہر کوس نامی شخص کا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس کا غیب دانی کا علم مجھ سے بھی زیادہ.ہے۔’’
تماشائیوں نے قہقہے لگانے شروع کردیے۔
‘‘میں نے تو ایسا پیغام نہیں بھیجا۔’’ میں نے سوالیہ نظروں سے اپنی گرل فرینڈ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
‘‘بھیجا تو تھا۔’’ اس نے مسکراتے ہوئے جواب.دیا۔
میں اسے سرزنش کرنے ہی والا تھا کہ شعبدے باز کی آواز سنائی دی۔
‘‘مسٹر ہرکوس! براہ مہربانی آپ کھڑے ہوجائیں۔’’
مجھ پر سکتہ طاری تھا  میری گرل فرینڈ نے کہنی مار کر مجھے کھڑا ہونے پر مجبور کردیا۔ شعبدے  باز نے مجھے کھڑا دیکھ کر اسٹیج پر آنے کی دعوت دے ڈالی۔ اب میرے لیے اسٹیج پر جانے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ میں بادل نخواستہ ان دونوں میاں بیوی کے برابر جا کھڑا ہوا۔ ‘‘تمہارا طریقہ کار کیا ہے....؟’’ شعبدے باز نے.پوچھا۔
‘‘میں کسی چیز کو ہاتھ سے چھو کر اس کے متعلق سب کچھ بتا سکتا ہوں۔’’
‘‘میری گھڑی ٹھیک رہے گی....؟’’ یہ کہہ کر اس نے اپنی گھڑی میری طرف بڑھاد ی۔
گھڑی کو ہاتھ میں لیتے ہی کئی مناظر میری نگاہوں کے سامنےگھومنے لگے لیکن میں کچھ جھجکتے ہوئے بولا ‘‘تمہاری گھڑی بہت کچھ بتا رہی ہے۔ اس کے اندر ایک حسینہ کے بالوں کی لٹ محفوظ ہے۔ یقیناًً یہ تمہاری بیوی کے بال نہیں۔ اس لڑکی کا نام گریٹا ہے۔ تم اس کو ہر شہر اور قصبے میں اپنے ساتھ لیے پھرتے ہو اور وہ اس وقت بھی تماشائیوں کے درمیان موجود ہے۔’’
اس کا رنگ اڑا جا رہا تھا اور اس کی  بیوی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ بلآخر وہ ملتجیانہ انداز سے بولا ‘‘مسٹر ہرکوس!برائے مہربانی آپ اپنی نشست پر تشریف رکھیں تاکہ ہم اپنا شو جاری رکھ سکیں۔’’
مگر میں گھڑی ہاتھ میں لیے گریٹا کو تماشائیوں میں ڈھونڈنے لگا۔ شعبدہ باز بار بار مجھ سے اپنی نشست  پر بیٹھنے کی التجا کر رہا تھا اور میں اس کی پروا کیے بغیر گریٹا کو تلاش کر رہا تھا۔ آخرکار جب میں نے اس کو ڈھونڈ ہی لیا، تو وہ اٹھ کر ہال سے باہر نکل بھاگی اور تماشائیوں نے شور مچاتے ہوئے مجھے آن گھیرا۔
***
میں اپنے گھر ہی میں لوگوں سے فیس لے کر ان کے ماضی اور مستقبل کے حالات بتاتا رہا۔ پھر مشہور مزاحیہ اداکار برناڈبارنز کے طائفے میں شامل ہوگیا۔ اپنے پہلے ہی شو میں تماشائیوں سے میں نے کہا کہ ان میں سے کوئی مجھے اپنی کوئی چیز مثلاً گھڑی یا انگوٹھی وغیرہ دے دے تاکہ میں اس کے مالک کی شخصیت کے بارے میں کچھ بتا سکوں۔ میری اس بات کے جواب میں پہلی قطار میں سے ایک خاتون نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتار کر میری طرف بڑھا دی جسے ہاتھ میں  لے کر میں نے بولنا شروع کیا۔
‘‘تم شادی شدہ عورت ہو، تمہارے  دو بچے ہیں۔ اس وقت تمہارا خاوند  گھر میں ان کی دیکھ بھال کر رہا ہے اور تم اپنی بیمار والدہ کی عیادت کا بہانہ کرکے اپنے بوائے فرینڈ کے ہمراہ تماشا دیکھنے آئی ہو۔’’
اس خاتون نے خفّت اور شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ اس دن سے میں  محتاط ہوگیا اور اس بات کا خاص خیال رکھتا کہ میری وجہ سے کسی کو دوسروں کے سامنے شرمندہ نہہونا پڑے۔
***
اب میری شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی حتیٰ کہ 1947ء میں لمبرگ کے پولیس حکام نے ایک کیس کی تفتیش میں مجھ سے مدد  مانگی۔  
ٹوسنگ نامی ایک کان کن ڈیوٹی سے فارغ ہو کر گھر جا رہا تھا کہ کسی نے اسے گولی کا نشانہ بنا دیا۔ پولیس حکام نے مقتول کا کوٹ دے کر مجھ سے قاتل کے متعلق دریافت کیا، تو میں نے انہیں بتایا کہ قاتل ایک ادھیڑ عمر کا مونچھوں والا شخص ہے جس کی ایک ٹانگ لکڑی کی ہے اور وہ عینک لگاتا ہے۔
 میری باتیں سن کر پولیس افسر بولا ‘‘تم نے یقیناً ہمارے کسی اہل کار سے رابطہ قائم کر رکھا ہے۔ جس شخص کی نشانیاں تم نے بیان کی ہیں اسے تو ہم گرفتار بھی کرچکےہیں ’’۔
‘‘قتل کا مقصد یہ تھا کہ قاتل مقتول کی بیوی حاصل کرنے کے لیے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔’’ میں نے کچھ اور تفصیل مہیّا کی۔
‘‘یہ بات تو لمبرگ کا بچہ بچہ جانتا ہے....’’
‘‘تو پھر آلۂ قتل کہاں ہے....؟’’ میرے اس سوال کا پولیس کے پاس کوئی جواب  نہ تھا، مگر میں نے پورے اعتماد کے ساتھ کہا :
‘‘مقتول کے مکان  کی چھت پر سے آلۂ قتل ملجائے گا۔’’
پولیس نے جا کر چھت کا جائزہ لیا تو پر نالے میں سے بندوق برآمد ہوئی جس میں کارتوس کے دو خول تھے اور بندوق پر قاتل کی انگلیوں کے نشان بھی مل گئے۔ اس شخص کو عمر قید کی سزا ہوئی۔
اسی سال بیلجیم کے قصبے برگرہاٹ کی پولیس نے بھی مجھ سے ایک قتل کی تفتیش کے سلسلے میں مدد مانگی۔
 ایک روز مقامی کیتھولگ پادری کے گھر سے راہ گیروں نے اس کی بوڑھی ملازمہ کی چیخیں سنیں۔ انہوں نے اندر جا کر دیکھا، تو پادری کی لاش ایک طرف پڑی تھی اور اس کی خادمہ کرسی کے ساتھ بندھی تھی۔ اس کا بیان تھا کہ ڈاکو پادری کو قتل کرکے اسے باندھ کر چلے گئے۔ قتل کا الزام بڑھیا نے ان دو اجنبیوں پر لگایا جو  چند گھنٹے قبل کاروبار کے لیے پادری سے رقم ادھار مانگنے آئے تھے۔ اس چھوٹے سے قصبے میں پولیس نے انہیں فوراً ڈھونڈ نکالا اور گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔
پادری کو اپنے ایک دولت مند رشتہ دار سے ترکے میں خاصی دولت ملی تھی اور اس کی وصیت کے مطابق اس دولت کا بیشتر حصہ بوڑھی خادمہ کو ملنا تھا، لیکن خادمہ سے بعض اختلافات کی بنا پر پادری نے اپنی وصیت تبدیل کرنے کا ارادہ  بھی کئی لوگوں پر ظاہر کر دیا تھا۔ ان حقائق نے کیس کو الجھا دیا۔ اس مرحلے پر پولیس نے میری مدد طلب کی۔ مقتول پادری کے گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے محسوس ہوا کہ دونوں اجنبی بےگناہ ہیں اور بڑھیا اس قتل میں ضرور ملوث ہے۔ مقتول اور بڑھیا کی اشیاء کو چھونے سے حقیقت مجھ پر عیاں ہوگئی۔
گزشتہ کئی برس سے پادری اپنی خادمہ کے نوجوان بیٹے کی مالی اعانت کرتا رہا تھا۔ اب اس نے یہ سلسلہ بند کردیا تھا۔ قتل کے روز بڑھیا کے بیٹے نے آکر اصرار کیا کہ جو دولت پادری کی وفات کے بعد اس کی ماں کو ملنے والی تھی، اس کا کچھ حصہ وہ اپنی زندگی ہی میں دے دے۔ پادری نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو ہاتھا پائی ہوئی۔ بوڑھے پادری کا سر آہنی انگیٹھی سے ٹکرایا اور وہ چل بسا۔ اب ماں بیٹے نے الزام سے بچنے کے لیے دو اجنبیوں کے قتل میں ملوث ہونے کی کہانی گھڑی۔ ایک مفلر مقتول کی گردن کے گرد کس کر لپیٹا اور پھر اتار کر پھینک دیا تاکہ یہ گمان ہو کہ موت گلا گھونٹنے سے واقع ہوئی ہے۔
اتنا کچھ کرنے کے بعد بیٹے نے ماں کو کرسی سے باندھا اور خود وہاں سے غائب ہوگیا۔ اس کے جاتے ہی ماں نے شور مچا کر راہ گیروں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔
پولیس میری فراہم کردہ معلومات سے بہت متاثر ہوئی۔ مکان میں تلاش کرنے پر خون آلود مفلر بھی مل گیا۔ اب بڑھیا کے لیے اعتراف جرم کے سوا کوئی چارہ.کار نہ رہا تھا، مگر اس دوران میں اس کا بیٹا جنوبی امریکہ جا چکا تھا۔ بڑھیا کے دل و دماغ پر پادری کی موت کا اتنا اثر ہوا کہ اس کے اعصاب جواب دے گئے اور اسے دماغی امراض کے اسپتال میں داخل کرانا پڑا۔ اس کے فوراً بعد میرا واسطہ ایک ایسے کیس سے پڑا جس میں شبہ تھا کہ مرنے والا طبعی موت مرا بھی ہے یا نہیں۔
اپریل 1948ء میں کارنیلس نام کا ایک شخص بیلجیم کے شہر گینٹ سے لاپتہ ہوگیا۔دوسری جنگ.عظیم کے دوران میں وہ بیلجیم  کی زیر زمین تنظیم کا سرگرم اور نڈر کارکن رہا تھا۔ اس کے اہل خانہ اور دوستوں نے پولیس کو اس کی گمشدگی سے مطلع کیا، لیکن پولیس اس کا پتہ چلانے میں ناکام رہی۔
کارنیلس کی گمشدگی کے دو ہفتے بعد دریائے لائی میں چلنے والی ایک لانچ کے کپتان نے جب لنگر اٹھایا، تو اس کے ساتھ ایک لاش بھی الجھی ہوئی تھی جسے کپتان نے پولیس کے سپرد کردیا تھا۔ لباس اور جیبوں سے ملنے والے کاغذات کے مطابق یہ کارنیلس کی لاش تھی۔ اس کی کھوپڑی کچلی ہوئی تھی، لیکن پولیس سرجن یہ بتانے سےقاصر تھا کہ کھوپڑی کی یہ حالت موت سے پہلے ہوئی یا بعد میں۔  لاش کا بائیں پاؤں کا جوتا بھی غائب تھا۔ پولیس کا خیال تھا کہ کارنیلس کی موت کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ ہے مگر مرنے والے کے خاندان والے اس سے متفق نہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کارنیلس نے نازیوں اور ان کے مقامی حلیفوں کی دشمنی مول لے لی تھی اور انہی میں سے کسی نے اسے قتل کرکے لاش دریا میں پھینک دی۔
اتفاق سے انہی دنوں میں گینٹ میں اپنی غیب.دانی کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ حاضرین کو جس کسی کے متعلق کچھ معلوم کرنا ہوتا، وہ لفافے میں اس کا بند فوٹو مجھے پکڑا دیتے۔ میں یہ لفافہ کھولے بغیر مطلوبہ معلومات فراہم کردیتا۔ اسی طرح جب ایک لفافہ مجھ تک پہنچا، تو میں نے لانے والے شخص کو روک لیا اور اسے بتایا کہ اس لفافے میں موجود تصویر ایک ایسے شخص کی ہے جو ڈوب کر نہیں مرا بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے۔
شو ختم ہونے کے بعد میں چند افراد کے ہمراہ پولیس اسٹیشن گیا۔ وہاں سے مقتول کا دائیں پاؤں کا جوتا لے کر میں نے اپنے ہاتھ سے ٹٹولا، تو معلوم ہوا کہ کارنیلس کے قاتلوں کا تعلق ہالینڈ کے شہر بریڈا سے ہے ۔ ہم نے وہاں جا کر پولیس کو تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ وہ ہمارے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ تھے، لیکن میں خود بھی نہیں جانتا تھا کہ مجھے بریڈا کی پولیس سے کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہے۔ بہرحال کچھ سوچ کر میں نے پولیس سے نازیوں کے ایجنٹوں کی تصویریں طلب کرلیں۔ پولیس نے تصویریں مہیا کردیں تو میں نے ان میں سے کارنیلس کے قتل میں ملوث دو افراد کی نشان دہی کردی۔ اب یہ دونوں مجرم بیلجیم کے شہر اینٹورپ جا چکے تھے جہاں سے انہیں گرفتار کرکے گینٹ لے جایا گیا۔ مقدمے کی کارروائی سے معلوم ہوا کہ دونوں قاتل نازیوں کے ایجنٹ تھے اور جنگ کے بعد کارنیلس کی نشاندہی پر انہیں جیل بھجوا دیا گیا تھا۔ جیل سے رہا ہوتے ہی انہوں نے کارنیلس کو ٹھکانے لگا دیا۔ عدالت نے ان دونوں کو سزائے موت دی۔
***
میں نے پہلی مرتبہ ایک بڑے مجمع کےسامنے اپنے فن کا مظاہرہ فرانس میں کیا۔ اس کا انتظام ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم نے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے کیا تھا۔ فرانسیسی اخبارات میرے کمال فن سے بہت متاثر ہوئے اور انہیں مطمئن کرنے کے لیے مجھے ایک پریس کانفرنس بھی بلانا پڑی۔
میری ان سرگرمیوں نے فرانسیسی پولیس کو بھی متوجہ کرلیا ۔ ایک روز پیرس کے ایک پولیس افسر نے فون پر مجھے بتایا کہ میں نے پرمٹ کے بغیر تفریحی پروگرام میں حصہ لے کر قانون کی خلاف ورزی کی ہے، لیکن فون پر گفتگو کے دوران ہی مجھے پتہ چل گیا کہ دراصل پولیس کا مقصد کچھ اور ہے۔ وہ بذات خود میرے کمالات کا مشاہدہ کرنا چاہتے تھے، چنانچہ اس مقصد کے لیے اسی روز شام چار بجے کا وقت مقرر ہوا۔ میں جب وہاں پہنچا، تو ہال نصف سے زیادہ بھرا ہوا تھا۔ کارروائی کا آغاز ہونے تک مزید ساٹھ ستر افراد آکر خاموشی سے نشستون پر براجمان ہوگئے۔ حاضرین میں  جج اور پولیس کے ڈائریکٹر بھی شامل تھے۔
فون پر مجھ سے بات کرنے والا پولیس افسر اپنی نشست سے اٹھا اور بولا ‘‘مسٹر ہرکوس! ہمیں ایک مسئلہ درپیش ہے۔ہم اس کے متعلق آپ کو کچھ نہیں بتائیں گے اور آپ بھی کوئی سوال نہیں کریں گے۔ ہم آپ کی غیب دانی کی صلاحیت کا اندازہ کرنا چاہتے.ہیں۔’’
یہ کہہ کر اس نے ایک چھوٹی سی میز پر رکھی ہوئی پانچ چیزوں کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے میز کی طرف نظر دوڑائی تو وہاں کنگھا، قینچی، گھڑی، سگریٹ لائٹر اور بٹوا پڑے ہوئے تھے۔ میں نے باری باری ان پانچوں کو ہاتھوں سے چھوا اور کہا ‘‘ان میں سے صرف تین چیزوں کا تعلق آپ کو درپیش مسئلے سے ہے۔ مجھے سفید کوٹ میں ملبوس ایک گنجے سر والا آدمی نظر آرہا ہے۔ وہ ڈاکٹر یا انجینئر ہے۔ مجھے ریل کی پٹری اور پہاڑی بھی نظر آرہی ہے۔ پہاڑی سے نیچے جا کر چند درخت اور ایک چھوٹاسامکان ہے۔’’
پھر میں نے پنسل سے کاغذ پر ریل کی پٹری، پہاڑی اور مکان کا نقشہ بنا کر حاضرین کے سامنے رکھ دیا، لیکن کسی نے کوئی رد عمل ظاہر نہ کیا۔
میں مویشیوں کا باڑہ دیکھ رہا ہوں۔ مکان اور باڑے کے وسط میں ایک لاش پڑی ہے۔ یہ ایک عورت کی لاش ہےاسے گولی مار کر ہلاک نہیں کیا گیا۔ لاش کے پاس دودھ کی بوتل پڑی ہے۔ گنجے سر والا آدمی حوالات میں بند ہے۔ قاتل وہی ہے۔’’
کمرے میں مکمل سکوت طاری تھا۔ حاضرین خاموشی سے میری باتیں سن رہے تھے۔ بلآخر میں بولا ‘‘حوالات میں بند آدمی فوت ہوچکا ہے۔ بس مجھے اتنا معلوم ہوسکا ہے۔’’
لمحے بھر کے لیے سب خاموش رہے اور پھر جیسے یکدم وہ خواب سے بیدار ہو کر پورے جوش و خروش سے باتیں کرنے لگے جس سے مجھے یقین ہوگیا کہ میں آزمائش میں پورا اترا ہوں۔ ہنگامہ ذرا سا تھما تو وہی پولیس افسر اٹھا اور بولا ‘‘بیشتر تفصیلات درست ہیں۔ مقتولہ کو اس کے خاوند نے دودھ کی بوتل میں زہر ملا کر دیا تھا، مگر یہ کہنا غلط ہے کہ ملزم مر چکا ہے۔ وہ اس وقت بحفاظت حوالات کی کوٹھڑی میں بند ہے۔’’ پانچ روز بعد اسی پولیس افسر نے مجھے فون پر بتایا کہ مجرم نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشیکرلی تھی۔
اس واقعے کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ ایک شب تقریباً ایک بجے پولیس نے فون کرکے مجھے قصرانصاف بلایا۔ میں فوراً ٹیکسی لے کر پہنچا تو وہاں انہوں نے پچاس چوروں کی تصویریں دے کر مجھ سے ان مجرموں کی شناخت کرنے کو کہا جنہوں نے کچھ ہی روز پہلے ایک لبنانی کے چھبیس لاکھ فرانک مالیت کے ہیرے ہتھیا لیے تھے۔ اس سلسلے میں پولیس نے تین مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا تھا، لیکن ہیروں کا سراغ نہ ملا تھا۔
میں نے تمام تصویریں اُلٹے رخ میز پر پھیلا دیں اور ہر ایک کو اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے چھونے لگا۔ پھر ان میں سے تین تصویریں علیحدہ کرکے میں بولا ‘‘تم لوگوں نے ان تین افراد کو گرفتار کیا ہے، لیکن اس چوری میں پانچ افراد ملوث ہیں.... چار مرد اور ایک.عورت۔’’
اس کے بعد میں نے دو اور تصویریں نکالیں اور کہا ‘‘اصل مجرم یہ دو ہیں۔ ان میں سے ایک اس وقت پیرس میں موجود ہے، لیکن ہیرے اس کے پاس نہیں۔ دوسرا مجرم بذریعہ ریل مارسیلز جا چکا ہے۔ وہ ہیرے اپنے ہمراہ لے گیا ہے اور اب بھاگنے کی فکر میں ہے۔ میں اسے مارسیلز میں ایک جنوبی امریکی ملک کے سفارت خانے میں ویزا لینے جاتے ہوئے دیکھ رہا.ہوں۔’’
ہیروں کا مالک ایک لبنانی تھا جو دس سال سے پیرس میں رہائش پذیر تھا۔ تین برس سے پیرس کی ایک حسینہ بھی اس کے ساتھ رہتی تھی۔ اب لبنانی نے اپنے وطن واپس جانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اپنی گرل فرینڈ سے کہا تھا کہ ہیرے  فروخت کرکے وہ دس لاکھ فرانک گزر اوقات کے لیے اسے دے گا۔
واردات کے روز لبنانی بریف کیس میں ہیرے لے کر گھر سے چلا۔ راستے میں پولیس کے دو سپاہیوں نے اسے روکا اور قصر انصاف لے گئے۔ وہاں انہوں نے اس کو ایک ذیلی کمرے میں بٹھایا او بریف کیس اپنے افسر اعلیٰ کو دکھانے کے بہانے لے گئے، مگر جب دیر تک وہ نہ لوٹے تو لبنانی کو فکر ہوئی اور وہ انہیں ڈھونڈنے نکلا۔ سارا قصر انصاف چھان مارا مگر کہیں ہاتھ نہ آئے۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ دونوں پیرس پر جرمنی کے قبضے کے وقت پولیس افسر تھے، لیکن بعد میں انہیں سبکدوش کر دیا گیا تھا۔ پولیس نے فوراً لبنانی کی گرل فرینڈ کو تفتیش میں شامل کرلیا اور اس واردات میں ملوث ہونے کے الزام میں تین اور اشخاص گرفتار کیے جن میں سے ایک بےگناہ تھا۔
میرے انکشافات کے اگلے روز ایک پولیس افسر نے مارسیلز جا کر ہیرے لے جانے والے مجرم کو تلاش کیا۔ تو معلوم ہوا کہ دو روز قبل ہی اس نے جنوبی امریکہ کے ایک ملک کا ویزا لیا، رات ایک قحبہ خانے میں گزاری اور ایک ماہی گیر کشتی کے ذریعے مارسیلز سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا تھا۔
***
1952ء کا موسم خزاں شروع ہوچکا تھا۔ میں ان دنوں میڈرڈ کے ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا۔ ایک شب میں نے خواب دیکھا کہ میرے وطن(ہالینڈ) میں مویشی اور مکانات پانی میں گھر گئے ہیں۔ دو دن بھی نہ گزرے تھے کہ ہالینڈ  کی سرزمین کو ایک خوفناک سیلاب نے آلیا۔ اسپین میں ہالینڈ کے  سفارت خانے نے سیلاب زدگان کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم چلائی اور اس سلسلے میں مجھ سے بھی ایک شو منعقد کرنے کی درخواست کی۔ یہ شو کامیاب بنانے کے لیے اسپین کی حکومت نے ہر ممکن تعاون کیا۔ صدر فرانکو کی بیوی خود شو دیکھنے تشریف لائیں اور حکومت نے تماشائیوں کے لیے مشروبات مفت فراہم کیے۔
اس شو کے اگلے ہی روز صدر کے سیکرٹری نے مجھے فون کیا اور جنرل فرانکو کے ذاتی معالج داکٹر کارلوس کی رہائش گاہ پر چیدہ چیدہ لوگوں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کو کہا۔ پانچ بجے شام کا وقت مقرر ہوا۔ ہم وہاں پہنچے، تو بڑے ہال میں اعلیٰ حکام اور معزین شہر جمع تھے۔ سب سے آخر میں جنرل اور سینورا فرانکو تشریف لائے اور اپنی مخصوص نشستوں پر بیٹھ گئے۔ اپنے طور پر مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اس تقریب کا اہتمام خاتون اوّل سینورا فرانکو نے کیا ہے جو اپنے شوہر کو بھی زبردستی کھینچ لائی تھیں۔
اس مظاہرے کا آغاز کرتے ہوئے میں نے سینورافرانکو سے کاغذ پر کچھ لکھنے کی درخواست کی جسے دیکھے بغیر ہی میں نے بتا دیا کہ اسپین کی خاتون اوّل نے کوئی عدد لکھا ہے۔ تھوڑے وقت کے بعد میں نے وہ عدد بھی صحیح بتا دیا۔ پھر موصوفہ نے ایک انگوٹھی مجھے پکڑائی جسے ہاتھ میں لے کر میں نے احتیاطاً ان کی نجی زندگی اور خیالات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا، لیکن اس دکان کا ٹیلیفون نمبر بتا دیا جہاں سے وہ انگوٹھی خریدی گئی تھی۔ یہ چھ ہندسوں والا پیچیدہ نمبر تھا جن میں سے میرے بتائے ہوئے پانچ ہند سے بالکل صحیح.نکلے۔
جنرل فرانکو اس کارروائی میں بالکل دلچسپی نہیں لے رہے تھے اور بڑی بےچینی سے اس کے ختم ہونے کے منتظر تھے، اس لیے میں نے تقریب کو مزید طول دینا مناسب نہ سمجھا اور مجلس برخواست کردی گئی۔
اسپین میں اپنے قیام کے دوران میں ایک روز بذریعہ ریل میڈرڈ جارہا تھا کہ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے مجھ سے پہلے ہٹلر بھی اس علاقے سے گزر چکا ہو۔ یہ جنگ ختم ہونے کے طویل عرصے بعد کی بات معلوم ہوتی تھی۔ میں اسے ایک پادری کے بھیس میں سفر کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اُس وقت یعنی 1952ء میں وہ اسپین میں موجود نہیں تھا، لیکن وہ اسپین کے مذکورہ علاقے میں خاصا عرصہ ٹھہرنے کے بعد کہیں اور گیا تھا اور میں اسے مرا ہوا نہیںدیکھ رہا تھا۔ 
میں نے اپنے اس مکاشفے سے اسپین کے چند اخبار نویسوں کو آگاہ کیا، تو اگلی ہی شب دو آدمی ملنے آئے۔ ان میں سے ایک رابرٹ اسٹرز تھا اور دوسرا لیون ڈیگرے۔ یہ دونوں ہٹلر کے بہت قریب رہ چکے تھے اور جنگ کے بعد فرار ہو کر اسپین چلے آئے تھے۔ 
‘‘اگر تم ہٹلر کے متعلق ایسی افواہیں اڑانے سے باز نہ آئے، تو گولی سے اڑا دیے جاؤ گے۔’’ اسٹرز نے دھمکی دی اور پھر وہ دونوں چلے گئے، تاہم اسپین میں میرے بقیہ قیام کے دوران میں اسٹرز مسلسل میری نگرانی کرتا رہا۔ دن ہوتا یا رات، میں جب بھی ہوٹل سے نکلتا، اسے اپنا منتظر پاتا۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہٹلر زندہ ہے نجانے کیوں مجھے اس کی موت کا یقین نہیں آیا۔
پیرس سے واپسی کے کچھ دن بعد مجھے ہیگ میں متعینہ ہندوستانی سفیر کا خط ملا۔ ہندوستان میں امیر والدین کا ایک نو عمر بیٹا لا پتہ ہو گیا تھا۔  سفیر نے وہ لڑکا ڈھونڈنے میں مجھ سے مدد مانگی تھی۔ میں ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر پایا تھا کہ میری والدہ کو بھی اسی نوعیت کا ایک خط ملا جو گمشدہ لڑکے کے والد نے لکھا تھا۔ اس خط کے ہمراہ لڑکے کے بالوں کی ایک لٹ بھی تھی۔ اب میں نے پریشان حال والدین کی مدد کرنے کا فیصلہ کر لیا، چنانچہ میں ہیگ جا کر ہندوستانی سفیر سے ملا اور لڑکے کی گمشدگی کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کیں۔ 
یہ لڑکا ایک شام دریائے گنگا میں اشنان کرنے گیا تھا  پھر واپس نہیں آیا۔ دریا کے کنارے اس کے کپڑے اور جوتے پڑے ملے تھے۔ میں نے جب لڑکے کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے مس کیا، تو معلوم ہوا کہ وہ دریا میں نہیں ڈوبا اور زندہ تھا اور بمبئی میں ایک سرکس میں کام کر رہا تھا۔ اس نے اپنے والدین کو خط بھی لکھے تھے، لیکن انہیں ڈا ک کے حوالے نہیں کر پایا تھا۔ ہندوستانی سفیر کو ان حقائق سے آگاہ کرکے میں پیرس چلا آیا۔ 
تین ماہ بعد لڑکے کے والدین کا خط ملا کہ ان کا بیٹا بمبئی سے مل گیا ہے اور جب میں نے اس کا اتا پتہ بتایا تھا، واقعی وہ سرکس میں کام کر رہا تھا۔
***
حادثے کے بعد دس برس تک مجھے یہی خدشہ رہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شاید میں اپنی خداداد صلاحیت سے محروم ہوجاؤں گا، مگر اس میں کمی آنے کے بجائے بتدریج اضافہ ہوتا گیا۔
1955ء میں میرا واسطہ ایک نرس کی گمشدگی کے معاملے سے پڑا۔ اس سلسلے میں پولیس ناکام ہو چکی تھی اور کیس فائل کر دیا گیا تھا۔ یہ سات برس قبل کا واقعہ تھا، لیکن اس نرس کے گاؤں کے لوگ اس واقعے کو بھول نہیں پائے تھے۔ ایک دن مجھے سویڈن کے اس چھوٹے سے گاؤں سے بیک وقت نو خط ملے جن میں یہ استدعا کی گئی تھی کہ میں اس معاملے میں دلچسپی لوں۔
قصہ یہ تھا کہ 1948ء میں ہفتے کی ایک شام نرس اپنے والد اور سوتیلی والدہ سے ملنے گاؤں گئی۔ جب وہ سوموار کو اپنی ڈیوٹی پر حاضر نہ ہوئی تو اسپتال والوں نے فون پر اس کے والد سے براہ راست دریافت کیا۔ والد نے بتایا کہ اس کی بیٹی اتوار کی شام ہی  اس سے لڑ جھگڑ کر بس سے واپس چلی گئی تھی۔ تحقیقات کرنے پر پتہ چلا کہ بشمول بس ڈرائیور کسی نے بھی اس روز اسے نہیں دیکھا۔ پولیس نے تو اپنے طور پر تفتیش کرکے کیس فائل کر دیا تھا، لیکن افواہوں کا سلسلہ نہ رکا۔ نرس کا والد گاؤں میں اپنے کمینےپن اور بربریت کی وجہ سے بہت بدنام تھا۔ ایک پڑوسی نے تو کھلم کھلا اس پر اپنی پہلی بیوی کے قتل کا الزام بھی لگایا تھا جس پر نرس کے باپ نے ہتک.عزت کا دعویٰ دائر کیا، لیکن مقدمہ ہار گیا۔ گاؤں بھر میں مشہور تھا کہ اس کی بیٹی اس کے ظلم و تشدد سے بچنے کے لیے نرس بنگئی تھی۔
سویڈن کے ایک اخبار کو جب اس معاملے سے میری دلچسپی کا علم ہوا، تو اس نے مجھے اس لڑکی کی چند تصاویر فراہم کر دیں۔ ان تصاویر کو ہاتھ میں لیتے ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ نرس کو قتل کیا گیا ہے۔ میں نے کاغذ پر اس جگہ کا نقشہ بھی بنا دیا جہاں اس کی لاش فرش کے نیچے دفن تھی۔ قاتل بندر نما شخص تھا اور بندر ہی کی طرح چلتا تھا۔
اب میں نے متعلقہ گاؤں جانے کا فیصلہ کیا اور اخبار والوں کے ہمراہ پانچ سو میل کا سفر کرکے وہاں پہنچا۔ منزل مقصود سے نصف میل ادھر ہی میں کار سے اتر کر پیدل چل دیا اور اپنی مخصوص صلاحیت کو بروئےکار لاتے ہوئے جاے واردات تلاش کرنے لگا۔ اپنی اسی دھن میں گاؤں کی گلیوں میں گزرتا ہوا میں ایک چھوٹے سے مکان تک پہنچا جس سے کچھ دور مویشیوں کا ایک باڑہ بھی تھا۔ نرس کو اسی مکان میں قتل کیا گیا تھا۔ میں نے دروازے پر دستک دی تو ایک بندر نما شخص نے دروازہ کھولا جو مقتولہ کا باپ تھا۔ میں نے اس کی بیٹی کو تلاش کرنے کے سلسلے میں اپنے تعاون کی پیشکش کی تو وہ بادل نخواستہ مجھے اپنے مکان کے اندرلےگیا۔
‘‘تمہاری بیٹی قتل کردی گئی ہے اور میں اس کے قاتل کو تلاش کرنے آیا ہوں۔’’
‘‘تم جھوٹ بولتے ہو۔ میری بیٹی مری نہیں۔’’
تب میں نے اسے بتایا کہ ہفتے کی شام باپ بیٹی کا جھگڑا کیسے ہوا اور کس طرح اس نے اپنی بیٹی کو قتل کیا تھا۔ میں نے یہ بھی بتایا کہ میں مقتولہ کے سر سے خون بہتے دیکھ رہا ہوں جسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش باڑے میں لکڑی کے تختوں کے نیچے دبا دی گئی تھی۔
‘‘یہ سر اسر جھوٹ ہے۔’’
‘‘میں ذرا تمہارے باڑے کا جائزہ لے لوں، تو کیا حرج ہے۔ اگر تم نے قتل نہیں کیا، تو گھبرانے کی باتہی نہیں۔’’
‘‘بھلا میں کیوں گھبرانے لگا.... تم باڑے میں توڑ پھوڑ کرنا ہی چاہتے ہو تو میری نقصان کی تلافی کے لیے ایک لاکھ کرونر پیشگی ادا کردو۔’’
‘‘میرے پاس اتنی رقم کہاں....؟’’
‘‘پھر میں تمہیں اپنے باڑے میں توڑ پھوڑ کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ بہتر یہی ہے کہ اب تم یہاں سے دفع ہوجاؤ اور پھر کبھی ادھر کا رُخ نہ کرنا۔’’
مجبوراً  مجھے ناکام لوٹنا پڑا، تاہم اگلے ہی روز اخبار کے مالکان نے پیشکش کی کہ اگر وہ بوڑھا پولیس کو باڑے کی تلاشی لینے کی اجازت دے دے، تو وہ ایک لاکھ کرونر ادا کردیں گے۔
اس مرتبہ گاؤں بھر کے مرد و زن ہمارے پیچھے پیچھے چلے۔ ابھی ہم اس مکان سے کچھ فاصلے ہی پر تھے کہ لوگوں کے شور و غل سے اسے صورتحال کا علم ہوگیا اور وہ رائفل ہاتھ میں لیے مکان سے باہر میرا راستہ روک کرکھڑاہوگیا۔
‘‘میں رقم لے آیا ہوں، اب ہم باڑے کی تلاشی لے کر ہی جائیں گے۔’’ یہ بات سنتے ہی وہ غصے سے بپھر گیا۔ ادھر میری چھٹی حس نے خطرے کا احساس دلایا اور میں نے ہاتھ بڑھا کر رائفل کی نالی کا رخ اوپر کر دیا۔ اسی لمحے گولی میرے سر کے اوپر سے سنسناتی ہوئی گزر گئی۔ دھماکے کی وجہ سے میرا ہاتھ زور سے میری ناک پر لگا اور خون بہنے لگا۔ لوگوں نے سمجھا کہ مجھے گولی لگ گئی اور وہ مجھے دھکیلتے ہوئے ایک طرف کو لے گئے۔ قاتل اپنے مکان کے سامنے کھڑا مُکّے لہرا رہا تھا۔ اس کی رائفل کا رخ اب بھی میری طرف تھا۔
وہ جس مکان اور زمین کا مالک تھا قانوناً ہمیں اس میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہ تھا۔ اس کے خلاف ہمارے پاس کوئی شہادت بھی نہ تھی جو تلاشی کا وارنٹ جاری کروانے کا جواز بن سکتی۔ بہرحال میں اسے اپنی ہی بیٹی کا قاتل سمجھتا تھا اور اس بارے میں اخبارات کو میں نے ضروری معلومات سے آگاہ کردیا۔ مجھے توقع تھی کہ اخباروں میں اس نوعیت کی خبر چھپنے پر وہ میرے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرے گا اور میں اس بہانے تفتیش از سرنوع شروع کروا سکوں گا، لیکن قاتل نے خاموش رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔
***
بعض اوقات ایسا بھی ہوا کہ میں کسی الجھن کو سلجھانے کی کوشش میں کسی اور پیچیدہ مسئلے کی تہہ تک پہنچ گیا۔ انتہائی پیچیدہ اور الجھے ہوئے جرائم کے بارے میں انکشافات سے میری شہرت دور دور تک پھیل گئی جس سے متاثر ہو کر صنعت کار بھی میری خدمات سے استفادہکرنے لگے۔
اس سلسلے میں میرا واسطہ سب سے پہلے ایک شیشہ.ساز فیکٹری کے مالکوں سے پڑا۔ اس کارخانے کی بھٹیوں کو نامعلوم کار کن سبوتاژ کر رہا تھا۔ ایک بھٹی میں شیشہ پگھلاتے وقت کوئ ایسا کیمیکل پھینک دیا جاتا جس سے اس میں تیار ہونے والے شیشے کا رنگ سبزی مائل ہوجاتا اور یہ نہ صرف کاروبار میں نقصان کا سبب بن رہا تھا بلکہ متاثرہ بھٹی بھی کسی کام کی نہ رہی تھی۔ میں نے کارخانے میں جا کر متعلقہ جگہ کا جائزہ لیا اور ایک رات کا کچھ حصہ بھی وہاں گزارا۔ نتیجتاً میں مجرم کا پتہ چلانے میں کامیاب ہوگیا اور کارخانے کے مالکان کو یہ بھی بتا دیا کہ وہ فی الحال مزید کارروائی نہیں کرے گا، لیکن دو ماہ بعد ایک اور بھٹی کو سبوتاژ کرے گا، اس لیے سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔
فیکٹری کے مالکوں نے میری بات مان لی اور ٹھیک دو ماہ بعد مجرم کو رنگے ہاتھوں پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔
***
اب مجھے ہر مہینے تقریباً  گیارہ بارہ سو خطوط مل رہے تھے۔ کسی میں مجھ سے اپنے کسی معاملے کو سلجھانے کے لیے مدد کی درخواست ہوتی تو کوئی مخفی خزانہ تلاش کرنے کے لیے میری مدد کا خواہاں ہوتا، یا پھر غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی طرف سے ان کے کاروبار میں شامل ہونے کی پیشکشیں ہوتیں۔
انہی دنوں مجھے ایک خط امریکہ کی ریاست مین کے شہر گلینکو سے ملا۔ یہ راؤنڈ ٹیبل فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر پُہارچ نے لکھا تھا۔ وہ انسانی دماغ کی نفسیاتی صلاحیتوں پر تحقیق کر رہا تھا اور اس کام کے لیے جدید ترین سہولتیں اسے حاصل تھیں، اس نے مجھے چھ ماہ اپنے ساتھ گزارنے کے لیے بلا یا تھا۔ مجھے خود اس کام سے دلچسپی تھی، چنانچہ بلا تاخیر امریکہ روانہ ہوگیا۔
فاؤنڈیشن کی لیبارٹری اٹھارہ کمروں پر مشتمل  ایک وسیع عمارت میں واقع تھی۔ اس عمارت کا نقشہ ہووبہو ویسا ہی تھا جیسا ڈاکٹر پُہارچ کے خط پر ہاتھ رکھتے ہی میری نگاہوں کے سامنے آگیا تھا اور جسے میں نے ایک کاغذ پر بنا بھی لیا تھا، تاہم لیبارٹری کا ابتدائی جائزہ لینے کے بعد مجھ پر ایک خوف سا طاری ہوگیا۔ ہر طرف کیمیکل، برقی تاریں اور دماغی لہریں ماپنے کے آلات نظر آرہے تھے۔ ایک طرف کونے میں مکعب شکل کا ایک بڑا سا بکس رکھا تھا۔ اس  بکس کو ڈاکٹر پُہارچ نے ‘‘فیراڈے کا پنجرہ’’ نام دے رکھا تھا۔ اس کی بیرونی سطح پر تانبے کی ایک باریک جالی بہت نفاست سے لگی ہوئی تھی جس میں سے دو لاکھ پچاس ہزار وولٹ کی برقی رو گزر سکتی تھی۔ اس بکس کی ساخت کچھ ایسی تھی کہ اس کے اندر موجود انسان کو بجلی کا جھٹکا نہیں لگتا تھا۔ اس پنجرے کے ذریعے زیر تجربہ انسان کا بیرونی دنیا سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کرکے اس کی چھٹی حس اور غیر معمولی نفسیاتی صلاحیتوں کا اندازہ لگایا جاتا تھا۔
تجربات کا آغاز دماغی لہریں ماپنے والی مشین سے کیا گیا۔ ہمارے ساتھ ہیری نام کا ایک اور شخص بھی اس کام میں شریک رہا۔ ڈاکٹر پُہارچ یا ہیری کمرے میں ایک طرف میز لگا کر بیٹھ جاتے۔ اس میز پر پلاسٹک کے کچھ ڈبے پڑے ہوتے۔ میں ان سے کچھ فاصلے پر ایسی ہی ایک اور میز پر اس طرح بیٹھ جاتا کہ پہلی میز پر رکھے ہوئے ڈبے مجھے نظر نہ آتے۔ خود میری میز پر بھی ایسے ہی ڈبوں کا ایک سیٹ پڑا ہوتا۔ پھر مجھے ان ڈبوں کو شناخت کرنے کو کہا جاتا جن کو ان دونوں میں سے کوئی ایک ادھر ادھر ہلاتا یا اپنے دل ہی میں کسی ڈبے کے متعلق سوچتا۔ بعض اوقات میں دس میں سے آٹھ ڈبے شناخت کرلیتا اور کبھی دس میں سے صرف چار۔ مائع نمونوں کو بھی ہم نے آزمایا۔ پانچ ٹیسٹ ٹیوبوں میں بطح، مرغ، انسان اور کتے کا خون اور سرخ رنگ کا محلول بھر کر رکھ دیے گئے اور میں نے یہ نمونے ستر فیصد تک صحیح شناخت کرلیے۔ ایسے ہی تجربات ہم نے گتے کے کارڈوں پر کیے۔ ان پر مختلف  اشکال بنی ہوتیں یا کوئی عدد درج ہوتا۔ پہلے روز میں ان میں سے کوئی بھی شناخت نہ کرسکا۔ اگلے روز میرے نصف کارڈ درست نکلے۔ تیسرے دن پچاس میں سے انتالیش اور چوتھے دن ستائیس کارڈ صحیح شناخت کیے، مگر پانچویں روز نتیجہ پھر صفر نکلا۔
ان تجربات سے ڈاکٹر پُہارچ نے یہ ثابت کر دکھایا کہ میرا ان چیزوں کی صحیح شناخت کرلینا کوئی اتفاقی بات نہ تھی ایک خاص بات یہ ہوئی کہ جب ایک مخصوص قسم کی روشنی کی شعاعوں کا رخ میری آنکھوں کی طرف کیا جاتا، تو میری غیب.دانی کی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا۔ چونکہ مجھے یہ صلاحیت سر میں چوٹ آنے کے بعد ہی عطا ہوئی تھی، اس لیے ڈاکٹر پُہارچ اتفاقی چوٹ اور غیب دانی کی صلاحیت میں تعلق کی نوعیت معلوم کرنے کا خواہاں تھا، لیکن وہ اس مقصد میں ناکام رہا اور میں ہالینڈ لوٹ آیا۔
چند ماہ بعد ڈاکٹر پُہارچ نے مزید چھ ماہ کے تجربات میں حصہ لینے کےلیے بلا بھیجا اور میں بلا تاخیر اس کے پاس پہنچ گیا۔ تجربات کی نوعیت کم و بیش حسب سابق ہی تھی، تاہم اس مرتبہ ڈاکٹر پُہارچ مجے ساتھ لے جاکر سائنسدانوں اور ماہرین نفسیات کے سامنے میری غیب دانی کے مظاہرے کرواتا رہا۔ ایسے ہی ایک اجلاس میں چیئرمین نے مجھے ایک بازو بند دے کر اس کے بارے میں پوچھا۔ میں نے فوراً بتا دیا کہ وہ بازو بند ایک حبشی عورت کی ملکیت رہا تھا جو نارتھ کیرولینا کے کھیتوں میں کپاس چنا کرتی تھی اور اسے 1760ء یا 1770ء کے لگ بھگ اوورسیئر نے مار مار کر ہلاک کردیا تھا۔ چیئر مین نے میری مہیا کردہ معلومات کو درست تسلیم کیا اور صرف اتنی تصحیح کی کہ اس کی موت 1800 میں واقع ہوئی تھی۔
پھر اس نے میرے ہاتھ میں دھات کا بھدّا سا ٹکڑا تھما دیا۔ اس ٹکڑے سے مجھے کسی کی شخصیت کے متعلق کچھ معلوم نہ ہوسکا، لیکن جو کچھ مجھے محسوس ہوا، اس کا اظہار میں نے اس طرح کیا ‘‘میں گردوغبار کے بادل دیکھ رہا ہوں۔ دھماکہ بھی ہوا ہے۔ کسی شخص یا عمارت کو اس دھماکے سے نقصان نہیں پہنچا۔ صرف دھماکہ اور اس کے فوراً بعد اٹھنے والے عجیب و غریب بادل دکھائی دے رہے ہیں۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ایٹم بم کا دھماکہ ہوا ہے۔’’ بعد میں چیئر مین نے بتایا کہ دھات کا ٹکڑا ریاست نیواڈا کے اس علاقے سے حاصل کیا گیا تھا جہاں ایٹمی تجربات کیے جارہے تھے۔
***
لمحے بھر کے لیے کسی چیز کو چھونے سے مجھے ساری معلومات حاصل ہوجاتیں اور سارے مناظر میری نگاہوں کے سامنے پھر جاتے، بس اس کو سمجھنے اور بیان کرنے کے لیے وقت درکار ہوتا۔
میں نے امریکی شہریت حاصل کرلی اور میامی میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہنے لگا۔ انہیں دنوں میامی ریڈیو کی مشہور شخصیت ایلن کورٹنی نے اپنے ایک پروگرام میں مجھے بلایا۔ اس پروگرام میں میں نے آٹھ سامعین سے صرف ٹیلیفون پر بات کرکے ان کے بارے میں درست انکشافات کیے۔ 
ایک روز میامی پولیس کے نام لائپ نے مجھے فون کیا ‘‘پیٹر! گزشتہ رات ایک ٹیکسی ڈرائیور سر میں گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا ہے۔ ہمیں اس واردات کے بارے میں کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ تم ہی کچھ مدد کرو۔’’
‘‘مجھے ٹیکسی ڈرائیور کی تصویر چاہیے۔’’ میں نے کہا اور وہ اسی وقت کیس کی فائل لے کر آگیا۔ اس میں مقتول کی تصویر بھی تھی۔ فائل پر ہاتھ رکھ کر میں نے خواب کی سی کیفیت میں بولنا شروع کیا ۔
‘‘میں اسے ہوانا جاتے اور واپس آتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ قاتل بھی نظر آرہا ہے۔ وہ ڈیٹرائٹ شہر کا رہنے والا ہے۔ اس کا قد چھ فٹ اور جسم دبلا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ ایک قتل کر چکا ہے۔ یہ شخص میامی میں گرفتار نہیں ہوگا، بلکہ کسی اور جگہ بینک ڈکیتی میں پکڑا جائے گا۔ اس کے دو نام ہیں، لیکن عام طور پر اسمٹی کےنام سے پکاراجاتاہے۔’’
‘‘لیکن میری معلومات کے مطابق تو صرف ایک قتل ہوا ہے، ٹام لائپ بولا۔
‘‘نہیں۔ اس سے پہلے وہ ایک اور شخص کو قتل کر چکا ہے، لیکن میامی میں نہیں، کی ویسٹ میں۔ وہاں وہ ایک ریٹائرڈ کرنل کے گھر میں چوری کی نیت سے داخل ہوا ہی تھا کہ مالک مکان سامنے آگیا اور نقب زن نے اسے گولی مار دی۔ اسی پستول سے اس نے ٹیکسی ڈرائیور کو ختم کیا ہے۔’’
ٹام لائپ نے کی ویسٹ کی پولیس سے رابطہ قائم کیا، تو میری فراہم کردہ معلومات درست ثابت ہوئیں۔
بعد میں وہی قاتل ڈیٹرائٹ کے ایک بینک سے ملحقہ ریسٹورنٹ میں ڈاکہ ڈالتے ہوئے پکڑا گیا۔
جرائم کی تفتیش کے سلسلے میں میری غیب دانی کا ایک واقعہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ 
جنوری 1959ء میں ریاست ورجینیا میں مسٹر اور مسز جیکسن مع اپنی دو بچیوں کے لاپتہ ہوگئے۔ انہیں آخری مرتبہ گیارہ جنوری کو دیکھا گیا تھا۔ اگلے روز ان کی کار ان کےگھر سے آٹھ میل دور راستے کی ایک جانب کھڑی مل۔ گاڑی میں مسز جیکسن کا پرس اور بچیوں کی گڑیاں پڑی تھیں۔ پولیس نے تفتیش شروع کی، لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
چار مارچ 1959ء کو جیکسن اور ڈیڑھ سالہ بچی جینٹ کی لاشیں جھاڑیوں کے ایک ڈھیر سے ملیں۔ جیکسن کو گولی مارنے کے بعد کسی وزنی ہتھیار سے   سر اور گردن پر شدید ضربات لگائی گئی تھیں۔ اس کے اٹھارہ روز بعدقریبی ریاست میری لینڈ کے جنگل سے دو لڑکوں کو کھدائی کے دوران  مسز جیکسن اور دوسری بچی کی لاشیں بھی مل گئیں۔ لاشیں ملنے کی دونوں جگہوں کا درمیانی فاصلہ ستر میل تھا۔ چونکہ واردات کا تعلق دو ریاستوں سے ثابت ہوگیا تھا، اس لیے تفتیش وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سپرد کردی گئی۔ سال بھر میں وفاقی اور ریاستی حکام نے تقریباً پندرہ سولہ مشتبہ افراد سے پوچھ گچھ کی، لیکن مجرم  کا پتہ نہ چل سکا۔ تب واشنگٹن کے اسپتال کے ماہر نفسیات نے میری خدمات سے استفادہ کرنے کی ٹھان لی اور میری فیس اور اخراجات اپنی جیب سے ادا کرنے کیہامی بھرلی۔
جون 1960ء سے میں نے ڈاکٹر ریزنمین کی رفاقت میں کارملنے کی جگہ، لاشیں ملنے کی دونوں جگہوں اور مقتولین کے گھر کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ قاتل پاگل تھا، اس نے مسٹر جیکسن کی کار صرف انہیں لوٹنے کے لیے روکی تھی، لیکن جب چھوٹی بچی نے رونا شروع کردیا، تو وہ ان چاروں کو جبراً اپنی کار میں بٹھا کر لے گیا۔ راستے میں جیکسن اس سے بحث میں الجھ گیا جبکہ بچی ابھی تک روئے جارہی تھی، اس لیے قاتل نے پہلے ان دونوں کو قتل کیا۔ اس کے بعد وہ کئی گھنٹے تک مسز جیکسن اور دوسری بچی کو لیے پھرتا رہا اور پھر انہیں بھی قتل کرکے لاشیں چھپا دیں۔ میں نے پولیس کو قاتل کی نشانیوں سے بھی آگاہ کردیا۔ اسے گرفتار کرکے دماغی امراض کے اسپتال میں بھیج دیا گیا۔ بعد میں عدالت نے اسے سزائے موت دی۔
میرے مداحوں نے اکثر مجھ سے دریافت کیا ہے کہ میں اپنی غیب دانی اور دوسروں کے خیالات پڑھنے کے باوجودلاٹری یاریس وغیرہ میں شرط لگا کر رقم کیوں نہیں کماتا۔ میں خود بھی محسوس کرتا ہوں کہ اس طرح بڑی دولت کما سکتا تھا، لیکن مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ خدا نے مجھے یہ صلاحیت اچھے کاموں کے لیے عطا کی ہے، صرف دولت کمانے کے لیے نہیں۔
میرے دوست احباب کو یہ معلوم کرنے کا بھی بہت اشتیاق رہا ہے کہ میں یہ سب کچھ کیسے کرپاتا ہوں اور ان لمحات میں میرے دل و دماغ کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ کاش! میں اپنی غیب دانی اور نفسیاتی صلاحیت کا اظہار آسان اور قابل فہم زبان میں کر سکتا تاکہ دوسرے لوگ بھی میری طرح اپنی ان صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکیں۔ مجھے صرف اس قدر معلوم ہے کہ ان لمحات میں میں دنیا اور اپنے گردوپیش کو صرف اس شخص کی نگاہوں سے دیکھتا ہوں جسے میں وقتی طور پر اپنے ذہن پر طاری کرلیتا ہوں اور یہ لمحات وہ ہوتے ہیں جب میرا اپنی ذاتی زندگی اور خیالات سے رابطہ بالکل منقطع ہوجاتا ہے۔ میں نے مجرموں، مظلوموں، قاتلوں اور مقتولوں کی نگاہوں سے ایسے دردناک مناظر کا مشاہدہ کیا ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ 
میں اپنی اسی صلاحیت کو حسب خواہش بروئے کار لانے پر بھی پوری طرح قادر نہیں۔ ہاں، جب میں بالکل خالی الذہن ہوتا ہوں تو میری یہ حس نقطۂ عروج پر ہوتی ہے، البتہ میں اتنا ضرور کہوں گا کہ یہ صلاحیت کسی نہ کسی حد تک ہر انسان میں موجود ہوتی ہے اور جوں جوں وہ اسے بروئے کار لاتا ہے، کارکردگی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
***
 1988ءمیں پیٹرہرکوس کی موت کے بعد بھی سائنس اس کی صلاحیتوں کو سمجھنے سے قاصر رہے، بعض سائنسدان پیٹر ہرکوس کی صلاحیت کو چھٹی حس یا ماورائے حواس ادراک (ESP)قرار دیتے ہیں ۔ یعنی وہ حس جو حواس ِ خمسہ سے ماورا ہوتی ہے۔  ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ چھٹی حس ایک روحانی طاقت ہوتی ہے  یہ قدرت کا ایک ایسا عطیہ ہے   جو ہر شخص کے پاس ہوتی ہے لیکن ہر شخص اس طاقت سے باخبر نہیں ہوتا۔   بعض لوگوں میں یہ اس وقت  جاگتی ہے کہ جب اس شخص  کا واسطہ کسی ایسی صورتحال سے پڑنے لگتاہے جو اس کے ساتھ رونما نہیںہونی ہوتی ۔




ماورائی صلاحیتوں کا مالک 

پیٹر ہرکوس ۔1911ء تا 1988 ء 



 پیٹر ہرکوس Peter Hurkos  21 مئی 1911ء کو ہالینڈ کے شہر ہیگ کے قریب قصبہ ڈارڈرچ میں پیدا ہوا، اسے ایک ڈچ خاندان نے گود لیا اس کا پورا نام  پیٹر فان ڈیر ہرک   رکھا۔ پیٹر کا باپ ایک مستری تھا جو گھروں کو پینٹ کرتا تھا اور ماں ایک گھریلو خاتون، وہ ریڈیو انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا مگر معاشی پریشانیوں کے سبب اس نے تعلیم کو خیرآباد کیا اور ایک بحری جہاز میں باورچی کا کام کرنے لگا اور پھر شنگھائی کی بندرگاہ میں سامان کاحساب کتاب کرنے لگا۔   جب شنگھائی  کے تجارتی معاہدے ختم ہوگئے تو وہ  واپس انگلینڈ آگیا اور شادی کے بعد ہالینڈ میں اپنے باپ کے ساتھ مستری کا کام کرنے لگا۔  جون 1941ء میں وہ اپنے باپ کے ساتھ ہیگ شہر کی چار منزلہ فیکٹری پر رنگ وروغن کرنے گیا،     لیکن پینٹ کرتے ہوئے وہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور  اس کا پیر پھسل گیا اور وہ دھڑام سے نیچے آن گر ا اور بے ہو ش ہو گیا۔ اس کی کھوپڑی میں فریکچر ہو گیا تھا ۔  ہیگ کے زیڈوال ہسپتال میں چار دن  بےشعوری کی حالت کے بعد تو اس کی  دنیا بدل چکی تھی۔اب  اس کے اندر ایک نئی صلاحیت  بیدار ہو چکی تھی،   ہر کوس چیزوں کو چھُوتا  ان سے متعلقہ واقعات اور شخصیات کے بارے میں جان لیتا تھا۔ اس نے اس صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے لندن۔ انگلینڈ، بوسٹن۔میسا چوسٹس،تھائی لینڈ، این آربر۔ مشی گن، لاس اینجلس، کیلی فورنیا سمیت تقریباً  17 ملکوں  میں جاکر  چوری ،قتل، اِغوا ء، لاپتہ طیاروں اور  افرادکے  درجنوں کیسز  کی گتھیاں سلجھا کر پولیس کو حیرت زدہ کر دیا اور ایک پراسرار جاسوس کے طور پر دنیا بھر میں قبولیت حاصل کی ۔ جنگ عظیم  کے دوران نازی مزاحمتی تحریک  کے لیے اپنی صلاحیتوں کے استعمال پر ہالینڈ کی ملکہ جولیانہ  نے پیٹر کو ‘‘وار ہیرو ’’ کے لقب سے نوازا۔
1956  میں پیٹر کو  ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں لایا گیا ، جہاں معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر اینڈریجہ پُہارچ  Andrija Puharich سمیت کئی دماغی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا معائنہ کیا ۔ سائنسدان اس  کی عجیب و غریب خصوصیات کو دیکھ کر حیران تھے، ڈیڑھ سال کے ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹر اینڈریجہ پُہارچ  پیٹر کی نفسیاتی صلاحیتوں کا قائل ہوگیا۔
امریکہ میں پیٹر ہرکوس نے آئزن ہاور سے  ریگن   تک اپنے عہد کے تقریباً تمام امریکی صدور سے ملاقاتیں اور مشساورات کیں، ویٹی کن کے پوپ پیوس XII،  امریکی آرمی جنرل اور چیف اسٹاف عمر بریڈلی، مشہور باکسر محمد علی،  کلینٹ ایسٹ وڈ ، ڈینس ہوپر اسٹیو میک کوئن اور عمر شریف جیسے اداکار بھی اس کی صلاحیتوں کے قائل تھے۔  پیٹر ہرکوس نے اسکاٹ لینڈ یارڈ، انٹرنیشنل پولیس ایسوسی ایشن، انٹرپول، انٹرٹیل، سی آئی اے اور ایف بی آئی کے لیے بھی کام کیا۔

 پیٹر ہرکوس کے انٹرویو یورپ و امریکہ کے مشہور ٹیلی ویژن چینلز،   ریڈیو  اور ٹائم ، نیوز ویک، لائف اور ریڈرز ڈائجسٹ سمیت کئی اخبارات جریدوں میں شائع ہوچکے ہیں، پیٹر ہرکوس    کی  زندگی پر تین آپ بیتیاں (سائککPSYCHIC دی اسٹوری آف پیٹر ہرکوس، دی سائیکک ورلڈ آف پیٹر ہرکوسTHE PSYCHIC WORLD OF PETER HURKOS، پیٹر ہرکوس آئی ہیو مینی لائوزPETER HURKOS: I HAVE MANY LIVES)، درجنوں کتابیں اور کئی فلمیں بن چکی ہے جن میں امریکن براڈکاسٹ کمپنی کی مشہور سیریزOne Step Beyond شامل ہے۔
  پیٹر ہرکوس  1 جون 1988ء کو کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلیس میں  77 سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔ اس کی بیوی اسٹیفنی ہرکوس جو اس کی اسسٹنٹ کے فرائص انجام دیتی تھی،  اس کا شوق ‘‘اورا ء ’’ کی تصاویریں لینااور اس کے متعلق تحقیق کرنا ہے۔ان کی بیٹی گلوریا ایک اداکارہ ہے۔
فارغ وقت میں  پیٹر ہرکوس  کا شوق باغبانی اور پینٹنگ بھی تھا۔  ان کی بنائی ہوئی چند مشہور پینٹنگز میں سے چند ایک آج بھی نیویارک کے ماڈرن آرٹ میوزیم ، سابق صدر رونالڈ ریگن کی رہائش گاہ اور کارلسل، پینسلوانیہ میں جنرل عمر این بریڈلی میوزیم کی زینت بنی ہوئی ہے۔ 


اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں