|
https://www.youtube.com/watch?v=BvNKAiE59GI
https://www.dailymotion.com/video/x6pppau |
اس شام میں اپنے دوست جیرالڈ پارکر Gerald Parker کے ہاں چائے پر مدعو تھا۔ جیرالڈ اور میرے علاوہ وہاں سات اور لوگ موجود تھے۔ چائے کے بعد گفتگو کا رخ لندن میں کرائے کے مکانوں اور جائیداد کی خرید و فروخت کی طرف پھر گیا۔ مکانوں اور فلیٹوں کی خرید و فروخت جیرالڈ کا محبوب مشغلہ تھا۔ جنگ کے بعد سے اب تک وہ تقریباً نصف درجن مکان تبدیل کرچکا تھا۔ وہ نیا مکان خریدتا اور چند دن اس میں قیام کرنے کے بعد اسے معقول منافع پر فروخت کردیتا۔
کچھ دیر تک جیرالڈ اپنی اس خرید و فروخت کی داستانیں سناتا رہا۔ چند اور لوگوں نے بھی اس موضوع پر اپنے تجربات اور خیالات کا اظہار کیا۔ اب بولنے کی باری مسز رابنسن Mrs Robinson کی تھی۔ یہ ایک خوبصورت نوبیاہتا خاتون تھیں جو آج اپنے شوہر کے ساتھ چائے پر مدعو تھیں۔ یہ خوبصورت نوجوان جوڑا پارکر کے نئے دوستوں میں سے تھا۔ میں ان سے آج پہلی بار مل رہا تھا۔
جیرالڈ تم نے سنا....؟ آخر کار ہمیں فلیٹ مل گیا۔ مونٹا گومینشن Montagu Mansionsمیں ۔ ہے نا خوش قسمتی کی بات....؟ مسز رابنسن نے کہا۔
واہ! میں نے تمہیں بتایا تھا نا کہ وہاں بہت سے فلیٹ موجود ہیں۔ ویسے کرایہ کیا ہے....؟ جیرالڈ نے پوچھا۔
سچ پوچھو تو یہ فلیٹ ہمیں گویا مفت مل گیا ہے، صرف اسی پاؤنڈ سالانہ کرائے پر۔
لیکن مونٹا گومینشن تو نائٹس برج Knightbridgeکے قریب واقع ہے۔ وہی خوبصورت سی عمارت یا پھر کہیں تم اسی نام کی اس عمارت کا ذکر تو نہیں کر رہی ہو جو تنگ اور گندی گلیوں والے علاقے میں ہے۔
نہیں۔ میں نائٹس برج والی عمارت ہی کا ذکر کر رہی ہوں۔ یہی تو حیرت کی بات ہے، اتنا اچھا علاقہ اور اتنا کم کرایہ!
ہاں! تمہیں پگڑی کے طور پر کافی رقم دینی پڑی ہوگی....؟
نہیں.... پگڑی بھی نہیں دینی پڑی۔
پگڑی تو نہیں لیکن ہمیں فرنیچر کے لیے کچھ رقم دینا پڑی۔
مسز رابنسن نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا۔
کتنی....؟
صرف پچاس پاؤنڈ۔ پورے فلیٹ میں نہایت عمدہ فرنیچر لگ گیا۔
ویسے یہ بالکل کرامت کی سی بات ہے۔ فلیٹ کا مالک کوئی پاگل ہوگا یا خدمت خلق کے خبط کا مارا۔
حیرت، خیر ہمیں بھی ہوئی تھی۔ لیکن لوگ کہتے ہیں کہ یہ فلیٹ آسیب زدہ ہے۔ جیرالڈ! تمہارا کیا خیال ہے....؟ مسز رابنسن نے پوچھا۔
پتہ نہیں۔ جیرالڈ رک رک کر بولا۔ لیکن اس سارے قصے میں مجھے کچھ باتیں بہت عجیب لگتی ہیں۔
مثلاً....؟ میں نے فوراً پوچھا۔
اب اس کہانی میں میں نے بھی دلچسپی لینا شروع کردی تھی۔ سراغ سانی میری گھٹی میں تھی۔ بہت الجھی ہوئی گتھیاں بھی میں منٹوں میں حل کرلیتا تھا۔ مجھے دلچسپی لیتے دیکھ کر مسز رابنسن اس بار مجھی سے مخاطب ہوئیں۔
اوہ، کیپٹن ہیسٹنگزArthur Hastings! بات کوئی بہت غیر معمولی نہیں۔ بہرحال، میں آپ کو شروع سے بتاتی ہوں۔
فلیٹ کی تلاش میں مختلف کمیشن ایجنٹوں سے ملتے ملاتے ہم سٹوسر اینڈ پال، نامی ادارے کے ہاں پہنچے۔ ان کے پاس عموماً مہنگے فلیٹ ہوتے ہیں، لیکن ہم نے سوچا آخر مل لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ اس وقت ان کے پاس جو فلیٹ موجود تھے ان سب کے کرائے چار اور پانچ سو پاؤنڈ سالانہ کے درمیان تھے یا اگر کرائے کم تھے تو پگڑی بہت زیادہ۔ جب مایوس ہو کر ہم لوٹنے لگے تو ان کے کلرک نے بتایا کہ ایک فلیٹ اسی پاؤنڈ سالانہ کرائے کا بھی موجود ہے، لیکن اس نے ساتھ ہی ایک عجیب بات بتائی۔
‘‘یہ فلیٹ کچھ عرصے سے ان کی فہرست پر موجود تھا۔ سستا ہونے کی وجہ سے اسے فوراً کرائے پر چڑھ جانا چاہیے تھا بہت سے لوگ اسے دیکھنے بھی گئے، مگر واپس آکر کہنے لگے کہ وہ تو پہلے ہی کرائے پر چڑھ چکا ہے۔ کچھ لوگ تو سمجھے کہ ادارے نے ان کے ساتھ مذاق کرنے کی کوشش کی ہے۔ ادھر فلیٹ کے مالکان کا کہنا تھا کہ فلیٹ خالی ہے اور انہیں کسی کرائے دار کا انتظارہے۔’’
مسز رابنسن نے چند لمحے توقف کے بعد پھر اپنا بیان شروع کیا۔ ‘‘ہم نے کلرک کا شکریہ ادا کیا اور فلیٹ کا پتہ لے کر چلے آئے۔ یہ مونٹا گومینشن میں تیسری منزل پر چار نمبر کا فلیٹ تھا۔ ہم نے ٹیکسی پکڑی اور سیدھے وہاں پہنچ گئے۔ جب ہم لفٹ کا انتظار کر رہے تھے تو ایلسی فرگوسن سیڑھیوں سے نیچے آتی ہوئی دکھائی دی۔ ایلسی میری پرانی سہیلی ہے اور اسے بھی کسی فلیٹ کی تلاش تھی۔ اس نے ہمیں دیکھا تو کہنے لگی ‘‘لو بھئی، جہاں تم وہاں ہم، لیکن اوپر جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم ابھی دیکھ رک آرہے ہیں فلیٹ کرائے پر چڑھ چکا ہے۔’’
بظاہر ہر معاملہ ختم تھا لیکن ایلسی کے جانے کے بعد رابنسن نے کہا کہ فلیٹ بہت سستا ہے۔ اگر ہم مالکان کو زیادہ رقم کی پیشکش کریں تو شاید ہمیں مل جائے، چنانچہ ہم قسمت آزمانے اوپر گئے اور فلیٹ دیکھا۔ مالکان اس فلیٹ میں خود قیام پذیر تھے اور انہیں کرائے داروں کا انتظار تھا۔ ملازمہ نے ہمیں سارا فلیٹ دکھایا اور پھر ہم نے مالکان سے مل کر سارا معاملہ وہیں طے کرلیا۔ اگلے روز ہم نے معاہدے پر دستخط کیے اور اب کل ہم وہاں منتقل ہوجائیں گے۔’’
مسز رابنسن نے فاتحانہ انداز میں اپنا بیان ختم کیا۔
‘‘اور ایلسی کے بارے میں کیا خیال ہے....؟ اس نے کیوں کہا کہ فلیٹ میں کرایہ دار آچکے ہیں....؟ ہیسٹنگز! تم اس بارے میں کیا کہتے ہو....؟’’ جیرالڈ نے پوچھا۔
صاف ظاہر ہے ایلسی کسی دوسرے فلیٹ میں چلی گئی ہوگی۔ آخر وہاں اور بھی تو فلیٹ تھے۔ میں نے جواب دیا۔
کیپٹن ہسٹنگز! آپ واقعی ذہین آدمی ہیں۔ مسز رابنسن نے مجھے سراہتے ہوئے کہا۔
میں نے سوچا کہ اگر میرا سراغ رساں دوست پائروHercule Poirot بھی یہاں موجود ہوتا تو میری صلاحیتوں کا لوہا مان لیتا۔
اگلی صبح میں نے پائرو کو یہ سارا واقعہ تفصیل سے سنایا۔ اس نے اس معاملے میں گہری دلچسپی ظاہر کی اور دیر تک مجھ سے مختلف علاقوں میں فلیٹوں کے کرایوں کے بارے میں سوالات کرتا رہا۔
یہ تو بڑا عجیب قصہ ہے، ہسٹنگز! خیر، میں ذرا باہر جا رہا ہوں، کچھ دیر تک واپس آؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
ایک گھنٹے کے بعد جب وہ واپس آیا، تو اس کی آنکھیں دبے ہوئے جوش سے چمک ری تھیں۔
چلو، اچھا ہے تم اکیلے مل گئے ہسٹنگز! اس معاملے کا سراغ لگانا چاہیے۔ میر اخیال ہے کوئی لمبی گڑبڑ ہے۔
کس معاملے کا سراغ....؟ کیسی گڑ بڑ....؟
میں حیران سا ہوگیا۔ فوری طورپر میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
ارے بھئی! وہی مسز رابنسن کے فلیٹ کا معاملہ! اس نے وضاحت سے کہا۔
پائرو! تم مذاق کر رہے ہو!
میں قطعی سنجیدہ ہوں، میرے دوست! ذرا سوچو تو سہی، ان فلیٹوں کا اصل کرایہ ساڑھے تین سو پاؤنڈ سالانہ ہے۔ میں ابھی پتہ کر کے آرہا ہوں۔ اس کے باوجود یہ خاص فلیٹ صرف اسی پاؤنڈ سالانہ پر دیا گیا! آخر کیوں....؟
ممکن ہے اس میں کچھ خرابی ہو یا شاہد آسیب زدہ ہو جیسا کہ مسز رابنسن نے کہا تھا۔
پائرو نے نفی میں سر ہلایا۔ یہ بھی کتنی عجیب بات ہے کہ اس کی د وست ایلسی نے اسے بتایا کہ فلیٹ کرایہ پر دیا جا چکا ہے اور جب مسٹر اور مسز رابنسن اوپر گئے تو معاملہ کچھ اور نکلا۔
بھئی! ہوسکتا ہے ایلسی غلطی سے کسی دوسرے فلیٹ میں چلی گئی ہو۔ میں نے وضاحت کی۔
خیر یہ بھی ممکن ہے، لیکن اور جو لوگ فلیٹ دیکھنے گئے انہیں کیوں بتایا گیا کہ فلیٹ کرائے پر اٹھ چکا ہے۔ میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔
پائرو ایک لمحے چپ رہا پھر بولا۔ ذرا مسز رابنسن کا حلیہ تو بیان کرو۔
وہ لمبے قد کی خوب صورت لڑکی ہے۔ بال سرخی مائل بھورے، نیلی آنکھیں، متناسب جسم اور باوقار چال ڈھال۔
اور اس کا شوہر....؟
وہ بھی ایک عام سا آدمی ہے۔ اس میں کوئی خاص بات نہیں۔ پائرو نے اثبات میں سر ہلایا۔
بس ٹھیک ہے۔ ایسے عام قسم کے سینکڑوں لوگ روزانہ دکھائی دیتے ہیں۔
ہیسٹنگز! کیا ان کے بارے میں اور کہیں سے کچھ معلوم کیا جاسکتا ہے....؟ جیرالڈ پارکر ان سے اچھی طرح واقف ہے....؟
وہ جیرالڈ کے نئے نئے دوست بنے ہیں۔ وہ بھی ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا ہوگا۔ میں نے چند لمحے توقف کیا پھر کہا۔
پائرو میرا حیال ہے وہ جوڑا کسی جرم میں ملوث نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے لوگ نہیں لگتے۔ میں مسز رابنسن کی وکالت پر اتر آیا۔
میرے دوست! پائرو نے اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ میں کب یہ کہہ رہا ہوں، لیکن اس معاملے میں کہیں کوئی پیچیدگی ضرور ہے۔ آؤ، ذرا مونٹا گومینشن کی طرف چلیں۔
پائرو کی رگ سراغ رسانی پھڑک اٹھی تھی۔ اب وہ حسب عادت اس معاملے کی چھان بین پر تل گیا تھا۔ میں اس کے ساتھ ہولیا۔
مونٹا گومینشن نوتعمیر شدہ فلیٹس پر مشتمل ایک خوب صورت عمارت تھی۔ عمارت کے باہر ہی ہمیں ایک باوردی چوکیدار دھوپ سینکتا ہوا مل گیا۔ پائرو اس سے مخاطب ہوا۔ یہاں مسٹر اور مسز رابنسن رہتے ہیں....؟
چوکیدار کم گو آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس نے ہماری طرف دیکھے بغیر اونچی آواز میں کہا۔ تیسری منزل پر چار نمبر فلیٹ۔
شکریہ! وہ یہاں کتنی مدت سے رہ رہے ہیں....؟
چھ ماہ سے۔
میرا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ پائرو کے ہونٹوں پر شرارت آمیز مسکراہٹ ابھر رہی تھی۔
ناممکن! میں چلایا۔ میرا خیال ہے تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ چھ ماہ سے۔ چوکیدار نے مضبوط لہجے میں اپنی بات دوہرائی۔
تمہیں پورا یقین ہے....؟ مسز رابنسن، وہی لمبی اور سرخی مائل بھورے بالوں والی خاتون....؟
ہاں، میں بھی انہی کی بات کر رہا ہوں۔ مجھے اچھی طرح یا دہے وہ لوگ چھ ماہ پہلے یہاں آئے تھے۔
یہ کہہ کر چوکیدار نے ناگواری سے ہمیں دیکھا اور عمارت کے اندر چلا گیا۔
کیا خیال ہے ہیسٹنگز....؟ پائرو نے شرارت آمیز لہجے میں مجھ سے پوچھا۔ کہا تمہیں یقین ہے کہ خوب صورت عورتیں ہمیشہ سچ بولتی ہیں....؟
میں نے کوئی جواب نہ دیا۔
پائرو کا مقصد حل ہوچکا تھا۔ اس نے عمارت کے اندر جانے کے بجائے باہر کا رخ کیا۔
اب ہم مکانوں کے ایجنٹ سے ملنے جا رہے ہیں۔ میں اس عمارت میں ایک فلیٹ کرائے پر لینا چاہتا ہوں۔ میرا خیال ہے بہت جلد یہاں کچھ عجیب واقعات پیش آئیں گے۔
ایجنٹ سے ملاقات سود مند رہی۔ پانچویں منزل پر آٹھ نمبر کا فلیٹ خالی تھا۔ فرنیچر سمیت ایک ہفتے کا کرایہ دس پاؤنڈ پائرو نے فوراً ایک ماہ کے لیے یہ فلیٹ کرائے پر لے لیا۔
فلیٹ نہایت عمدہ فرنیچر سے آراستہ مسز رابنسن کے فلیٹ سے عین دو منزل اوپر واقع تھا۔
ہفتے کے روز ہم فلیٹ میں منتقل ہوئے۔ اگلے دن دوپہر کے وقت پائرو دروازہ کھول کر پوری عمارت کا جائزہ لیتا رہا۔ نیچے سے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آوازیں آئیں تو پائرو نے جلدی سے مجھے بلایا۔
ذرا جھانک کر دیکھو۔ کیا وہ یہی نوجوان جوڑا ہے....؟ دیکھنا تم پر ان کی نظر نہ پڑے۔
میں نے نیچے دیکھا۔
ہاں۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
ٹھیک۔ اب کچھ دیر اور انتظار کرو۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد مسز رابنسن کے فلیٹ سے ایک لڑکی جو وضع قطع سے خادمہ دکھائی دیتی تھی نکل کر باہر چلی گئی۔ پائرو نے اطمینان بھرا سانس لیا اور پنجوں کے بل چلتا ہوا فلیٹ میں واپس آگیا۔
بہت خوب! پہلے مالک اور مالکن اور پھر ملازمہ بھی باہر چلی گئی۔ اب فلیٹ خالی ہونا چاہیے۔
تم کرنا کیا چاہتے ہو....؟ میں نے بےچینی سے پوچھا۔
اس دوران میں پائرو اپنے فلیٹ کے کچن میں داخل ہوچکا تھا اور کوئلہ اوپر کھینچنے والے بکس کی رسی کو سیدھا کر رہا تھا۔ ہم اس کوئلہ کھینچنے والے بکس میں بیٹھ کر عمارت کی پچھلی طرف سے نیچے اتریں گے۔ اس نے خوش دلی سے اپنے عمل کی وضاحت کی۔ آج اتوار کا دن ہے اور دوپہر کا وقت۔ سب لوگ باہر ہوں گے، اس لیے ہم پر کسی کی نظر نہیں پڑے گی۔ ہم اپنا کام اچھی طرح کرسکیں گے۔ وہ بکس میں بیٹھ گیا اور میں نے بھی ڈرتے ڈرتے اس میں قدم رکھا۔
ہم چوروں کی طرح فلیٹ میں گھسیں گے....؟ میں نے مشکوک انداز میں پوچھا۔
پائرو نے مبہم انداز میں کہا۔ آج نہیں۔
ہم آہستہ آہستہ نیچے اترتے گئے حتیٰ کہ تیسری منزل آگئی۔ پائرو نے کچن کا پچھلا دروازہ کھلا دیکھا تو اطمینان کا سانس لیا۔ دیکھا ہیسٹنگز! دن کے وقت کوئی بھی ان دروازوں کو بند نہیں کرتا، البتہ رات کے وقت معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ اس وقت گھر کے تمام دروازے بند ہوتے اور یہی مسئلہ حل کرنے ہم یہاں آئے ہیں۔
اس نے اپنی جیب سے چند اوزار نکالے اور بڑی مہارت سے اپنے کام میں مشغول ہوگیا.... اس نے کچھ ایسا انتظام کیا کہ لفٹ میں بیٹھے بیٹھے دروازے کی اندرونی بند چٹخنی کھولی جاسکے۔ اس کام میں صرف تین منٹ صرف ہوئے۔ پائرو نے اوزار اپنی جیب میں ڈالے اور اسی کوئلوں کی لفٹ کے ذریعے ہم اپنے فلیٹ میں واپس آگئے۔
پیر کو پائرو تمام دن غائب رہا۔ شام کے وقت وہ واپس آیا اور آتے ہی ایک کرسی میں دھنس کر بیٹھ گیا۔ پھر ایک لمبا سابس لے کر مجھ سے مخاطب ہوا۔
ہیسٹنگز! میں تمہیں ایک ایسی دلچسپ کہانی سنانے جارہا ہوں جسے سن کر تمہیں اپنی پسندیدہ کئی جاسوسی فلمیں یاد آجائیں گی۔
ضرور.... ضرور! مجھے توقع تھی کہ وہ بہت دلچسپ واقعات سنائے گا اور ان کا مسز رابنسن والے معاملے سے تعلق ہوگا۔
جو باتیں میں تمہیں بتانے والا ہوں وہ بالکل سچ ہیں اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کا انسپکٹر جاپ Chief Inspector Jappان کی تصدیق کرے گا۔ اسی کی مہربانی سے مجھے یہ کہانی معلوم ہوئی ہے۔
پائرو نے بات شروع کی۔ تقریباً چھ ماہ پہلے کی بات ہے کہ امریکی وزارت دفاع کے دفتر سے نیوی کے چند اہم پلان چرا لیے گئے۔ ان کاغذات کا تعلق جنگ کے دوران اہم بندرگاہوں کے دفاع سے تھا۔ کوئی بھی ملک مثلاً جاپان، ان کاغذات کے عوض خطیر رقم دے سکتا ہے۔
کاغذات کی چوری کا شک ایک اطالوی نوجوان لوگی والڈ ارنو پر ہے جسے اس دفتر میں ملازم ہوئے تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا۔ کاغذات گم ہونے کے بعد وہ خود بھی غائب ہوگیا۔ وہ چور ہے یا نہیں، یہ ابھی تک ایک راز ہے اور شاید راز ہی رہے گا، کیونکہ دو روز بعد لوگی والد ارنو کی لاش نیو یارک سے ملی اسے گولی مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔ کاغذات کا کوئی پتہ نہیں ہے۔
مزید تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ پچھلے چند مہینوں سے لوگی والڈ ارنو کا ایک رقاصہ مس ایلسابارٹ کے ہاں آنا جانا تھا۔ مس ایلسا حال ہی میں امریکہ آئی تھی اور اپنے ایک بھائی کے ساتھ واشنگٹن کے ایک اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ اس کے ماضی کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہوسکا۔
لوگی کی موت کے فوراً بعد ایلسا اور اس کا بھائی غائب ہوگئے تھے۔ اب شبہ یہ ہے کہ ایلسا کوئی غیر ملکی جاسوسہ تھی۔ امریکی محکمہ جاسوسی نے ادھر ایلسا کا کھوج لگانا شروع کیا۔ ادھر غیر ملکیوں، خصوصاً جاپانیوں، پر گہری نظر رکھی۔ انہیں یقین تھا کہ جب ایلسا خود کو تمام خطرات سے محفوظ تصور کرے گی تو کاغذات بیچنے کے لیے ضرور جاپانیوں سے رابطہ قائم کرے گی۔
تقریباً دو ہفتے قبل مشتبہ جاپانیوں میں سے ایک شخص اچانک لندن کے لیے روانہ ہوا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کای گیا کہ ایلسا اس وقت لندن میں ہے۔
پائرو نے چند لمحے توقف کیا، پھر بولا۔ سرکاری طور پر ایلسا کا جو حلیہ بیان کیا گیا ہے وہ کچھ یوں ہے۔ قد پانچ فٹ سات انچ، نیلی آنکھیں، سرخی مائل بھورے بال، متناسب جسم، تیکھی ناک، باوقار چال ڈھال....
مسز رابنسن! میں بے اختیار چلا اٹھا۔
ہاں، یہ بھی ممکن ہے۔ پائرو نے پرسکون انداز میں سر ہلایا اور بات آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ بہرحال لندن میں اسکاٹ لینڈ یارڈ کو چوکنا کردیا گیا اور امریکی خفیہ سروس کے آدمی بھی یہاں تفتیش میں مصروف ہیں۔ اس کے بعد پائرو نے بتایا کہ آج صبح مجھے یہ معلوم ہوا کہ ایک سیاہ فام غیر ملکی فلیٹ نمبر چار کے مکینوں کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا ہے۔ اس لیے جان من، مجھے خطرہ ہے کہ آج رات اس فلیٹ میں کوئی واقعہ ضرور پیش آئے گا۔ آج رات تمہیں اپنی نیند کی قربانی دینا ہوگی۔ ہم اس فلیٹ کی نگرانی کریں گے۔ اپنا ریوالور ضرور ساتھ رکھ لینا!
بہت بہتر! میرا چہرہ جوش سے سرخ ہورہا تھا۔ ہم اپنا کام کب شروع کریں گے....؟
میرا خیال ہے آدھی رات سے پہلے کسی واقعے کا امکان نہیں ہے۔ جو کچھ بھی ہوگا آدھی رات کے بعد ہی ہوگا۔
رات کے ٹھیک بارہ بجے ہم اسی کوئلوں والے بکس کے ذریعے تیسری منزل تک اترے۔ پائرو کی تدبیر کے مطابق دروازہ فوراً ہی کھل گیا اور ہم دبے پاؤں فلیٹ میں داخل ہوگئے۔ اندر پہنچنے کے بعد ہم کچن میں دو کرسیوں پر اس طرح بیٹھ گئے کہ نیم وا دروازے سے ہال کا پورا منظر ہمیں صاف دکھائی دیتا تھا۔
انتظار خاصا لمبا اور ناقابل برداشت تھا۔ سارے فلیٹ میں اندھیرا تھا اور غالباً ہم دونوں کے سوا وہاں کوئی تیسرا شخص موجود نہ تھا۔ میرا پاؤں سن ہوگیا اور آنکھیں نیند سے بوجھل ہونے لگیں۔ ایسا لگتا تھا کہ ہم ایک عرصے سے انتظار کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہمیں انتظار کرتے ہوئے ڈیڑھ گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا۔
یکایک ایک مدھم سی آواز آئی۔ پائرو بھی فوراً چوکنا ہوگیا اور اس نے میرا ہاتھ دبایا۔ ہم دونوں آہستہ سے اٹھے اور ہال میں داخل ہوگئے، کیونکہ آواز اسی طرف سے آئی تھی۔ ادھر ادھر کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا کہ آواز بیرونی دروازے کی طرف سے آرہی تھی۔
پائرو نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ باہر کے دروازے کا تالا توڑا جارہا ہے، تیار ہو! جب میں بولوں، فوراً اندر داخل ہونے والے شخص پر پل پڑنا اور اسے قابو میں کرلینا۔ ویسے خیال رکھنا اس کے پاس چاقو ہوگا۔
اسی دوران میں باہر سے تالا ٹوٹنے کی آواز آئی اور دروازہ آہستگی سے کھلا۔ پائرو اور میں ایک طرف چھپ گئے۔ ٹارچ کی روشنی کا چھوٹا سا دائرہ کمرے کے اندر گھومنے لگا اور مجھے کسی کے سانس لینے کی آواز آئی۔ جونہی وہ میرے قریب سے گزرا، پائرو نے مجھے اشارہ کیا اور میں اس آدمی پر جھپٹ پڑا۔ پائرو نے تیزی سے اس کے منہ پر اپنا مفلر لپیٹ دیا جبکہ میں نے اس کے دونوں ہاتھ قابو کرلیے تھے۔ یہ سب کچھ بہت تیزی اور خاموشی کےساتھ ہوا۔ میں نے اس کے ہاتھ سے تیز دھار والا خنجر چھین لیا اور اپنا ریوالور نکال کر اس کے سامنے لہرانے لگا۔
چند لمحوں کے بعد اس نے اپنے آپ کو ہماری گرفت سے چھڑانے کی ناکام کوشش ترک کردی اور خاموشی سے کھڑا ہوگیا۔ اب پائرو نے اس سے کچھ کھسر پھسر شروع کردی تھی۔ چند منٹ کے بعد اس شخص نے رضا مندی میں سر ہلایا اور پائرو نے اسے چھوڑ دینے کا اشارہ کیا۔ ہمارا قیدی خاموشی کے ساتھ آگے چلا اور میں ریوالور تھامے اس کے پیچھے ہولیا۔ جب ہم باہر گلی میں پہنچے تو پائرو میری طرف مڑا۔
باہر سے کوئی ٹیکسی لے آؤ اور یہ ریوالور مجھے دے دو۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔
پائرو نے بات کاٹی۔ یہ ایسا نہیں کرے گا۔
میں فوراً ایک ٹیکسی لے آیا۔ اس دوران میں پائرو نے اپنا مفلر اس کے منہ سے ہٹا لیا تھا اور اب میں اجنبی کا چہرہ اچھی طرح دیکھ سکتا تھا۔
پائرو! یہ تو جاپانی نہیں ہے۔ میں نے حیرانی سے پوچھا۔ ہیسٹنگز! یہ جاپانی نہیں بلکہ اطالوی ہے۔
اب تک میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ ہم ٹیکسی میں بیٹھ گئے اور پائرو نے ڈرائیور کو سینٹ جان وڈ کا ایک پتہ دیا۔ معلوم نہیں ہم اپنے قیدی کو کہاں لے کر جارہے تھے۔
اپنی منزل پر پہنچ کر ہم ایک چھوٹے سے مکان کے سامنے اترے۔ ایک غائب دماغ سا شخص پائرو سے ٹکرا گیا۔ پائرو نے تیزی کےساتھ اس سے غالباً معذرت کی۔ ہم تینوں اوپر والی منزل کے بیرونی دروازے تک پہنچے۔ پائرو نے گھنٹی بجائی اور ہمیں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہونے کی تاکید کی۔ جب پہلی گھنٹی کا کوئی جواب نہ آیا، تو پائرو نے پھر گھنٹی کے بٹن پر انگلی رکھی۔ گھنٹی مسلسل بجتی چلی گئی۔ گھر کے اندر کسی نے بلب جلایا اور پھر نہایت احتیاط سے دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔
‘‘کیا بات ہے....؟’’ کوئی شخص نیند بھری آواز میں غرایا۔
ڈاکٹر صاحب سے ملنا ہے۔ میری بیوی سخت بیمار ہے۔ پائرو نے جواب دیا۔
یہاں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔
اتنا کہہ کر اس شخص نے تیزی سے دروازہ بند کرنے کی کوشش کی، لیکن پائرو نے دروازے میں اپنا پیر پھنسا دیا۔
کیا کہا....؟ کوئی ڈاکٹر نہیں ہے! میں قانونی کارروائی کروں گا۔ تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔ ورنہ میں تمام رات یہاں کھڑا گھنٹی بجاتا رہوں گا۔ پائرو نے تیز لہجے میں کہا۔
جناب عالی! دروازہ پھر کھلا اور وہ شخص اپنے سلیپنگ گاؤن اور سلیپرز کے ساتھ باہر آگیا اور کچھ کہنے لگا۔ پائرو نے تیزی سے اس کی بات کاٹی۔
میں پولیس کو بلاتا ہوں۔ یہ کہہ کر پائرو سیڑھیوں کی طرف مڑا۔
خدا کے لیے ایسا نہ کرنا! میری بات تو سنو۔ وہ شخص پائرو کے پیچھے دوڑا۔
اچانک پائرو نے اس شخص کو دھکا دے کر سیڑھیوں سے نیچے گرادیا۔ اگلے ہی لمحے ہم تینوں فلیٹ میں داخل ہو چکے تھے۔ پائرو نے فوراً بیرونی دروازہ بند کیا اور کنڈی چڑھا دی۔
ذرا جلدی.... ادھر! پائرو نے نزدیکی کمرے کی طرف اشارہ کیا اور ساتھ ہی بتی جلا دی۔
اس پردے کے پیچھے چلے جاؤ۔ پائرو نے اطالوی سے کہا۔
اطالوی پردے کے پیچھے چھپ گیا۔ اس سارے عمل میں ایک منٹ بھی صرف نہیں ہوا۔
جونہی اطالوی منظر سے غائب ہوا۔ ایک عورت تیزی سے دوسرے کمرے کے دروازے سے اندر داخل ہوئی۔ وہ سرخی مائل بھورے بالوں اور نیلی آنکھوں والی دراز قد خاتون تھی جس نے گلابی اسکرٹ پہن رکھا تھا۔
میرا شوہر کہاں ہے....؟ تم لوگ کون ہو اور اندر کیوں گھس آئے ہو....؟ وہ بہت خوفزدہ تھی۔
پائرو نے ایک قدم آگے بڑھایا اور اس کے سامنے تعظیمی انداز میں جھک گیا۔
امید ہے کہ آپ کے شوہر کو سردی نہیں لگے گی۔ میں نے دیکھ لیا تھا کہ ان کے پیروں میں سلیپرز موجود ہیں اور ان کا گاؤن خاصا گرم ہے۔
تم کون لوگ ہو اور میرے گھر میں کیا کر رہے ہو....؟
یہ سچ ہے کہ ہم میں سے کسی کو بھی آپ پہلے سے نہیں جانتیں، مگر اصل بات یہ ہے کہ ہمارا ایک ساتھی صرف آپ سے ملاقات کرنے کے لیے خاص طور پر نیو یارک سے آیا ہے۔
پردہ ایک طرف ہٹا اور اطالوی باہر آگیا۔ میں یہ دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا کہ وہ اپنے ہاتھ میں میرا ریوالور لہرا رہا تھا۔ غالباً پائرو ٹیکسی سے نکلتے وقت ریوالور لینا بھول گیا تھا اور اسے منحوس اطالوی نے اٹھا لیا تھا۔
عورت نے ایک چیخ ماری اور بھاگنے کی کوشش کی، لیکن بند دروازے کے آگے پائرو کھڑا تھا۔
مجھے جانے دو۔ وہ چلائی۔ یہ مجھے مار ڈالے گا۔
لوگی والڈارنو کو کس نے قتل کیا....؟ اطالوی نے ہم تینوں کے سامنے ریوالور لہراتے ہوئے اپنی بھاری آواز میں پوچھا، ہم میں سے کوئی بھی ہلنے کی جرات نہ کرسکا۔
اوہ! میرے خدا! پائرو، یہ سب کتنا خوف ناک ہے۔ پانسہ پلٹ چکا ہے، ہم کیا کریں گے....؟ میں تقریباً روہنسا ہوگیا۔
تم کیوں پریشان ہو رہے ہو....؟ ہمارا دوست اس وقت تک گولی نہیں چلائے گا جب تک میں اسے اجازت نہ دوں۔
تمہیں اس بات کا کچھ زیاددہ ہی یقین ہے! اطالوی پائرو کی طرف پلٹ کر غرایا۔
عورت بھی تیزی سے پائرو کی طرف پلٹی۔
تم کیا چاہتے ہو....؟
پائرو پھر تعظیمی انداز میں جھکا۔
مادام! میرا خیال ہے کہ اگر میں خود بتاؤں تو یہ مس ایلسا ہارٹ کی ذہانت کی توہین ہوگی۔
اس عورت نے مخمل کی بنی ہوئی ایک بڑی سی کالی بلی کی طرف اشارہ کیا جو شاید ٹی کوزی کا کام دیتی تھی۔ وہ اس کے اندر سلے ہوئے ہیں۔
بہت خوب! پائرو نے داد دینے کےا نداز میں کہا۔ پھر وہ دروازے سے ایک طرف ہٹ گیا۔
شب بخیر! میں اس شخص کو اس وقت تک رو کے رکھوں گا جب تک آپ اپنے فرار کا راستہ تلاش نہ کرلیں۔ اس نے اطالوی کی طرف اشارہ کیا۔
یہ کیا حرکت ہے....؟ اطالوی گرجا اور اس نے فرار ہوئی ایلسا پر فائر کیا لیکن عین اسی وقت میں نے اس پر چھلانگ لگائی۔
ریوالور سے صرف کلک کی آواز آئی اور ساتھ ہی پائرو نے مجھے ہلکی سی سرزنش کی۔
ہیسٹنگز! تم اپنے دوست پر کبھی اعتماد نہیں کروگے میں کسی کو بھرا ہوا پستول رکھنے کی اجازت نہیں دیا کرتا۔
اب پائرو اطالوی کی طرف مڑا جو اونچی آواز میں بول رہا تھا۔
نہ میرے دوست.... نہ.... پائرو نے اسے ڈانٹا۔ دیکھو میں نے تمہارے لیے کیا کیا ہے۔ میں نے تمہیں پھانسی چڑھنے سے بچا لیا ہے کیونکہ تم جنہیں قتل کرنے آئے تھے میری وجہ سے انہیں قتل نہیں کرسکے۔ یہ مت سمجھو کہ خوبصورت ایلسا فرار ہوگئی ہے۔ یہ گھر چاروں طرف سے پولیس نے گھیر رکھا ہے۔ وہ دونوں سیدھے پولیس کے ہاتھوں میں گئے ہوں گے۔ ٹھک ہے نا....؟ اچھا اب تم بھی جاسکتے ہو، لیکن احتیاط کرنا ۔ میں.... پائرو کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی اطالوی باہر بھاگ گیا۔
اب وہ پھر میری طرف مڑا۔
ہیسٹنگز! تم اس طرح حیرت سے کیا دیکھ رہے ہو....؟ کیا معاملہ تمہاری سمجھ میں نہیں آیا....؟
اس نے تفصیل بتانی شروع کی۔
سب کچھ صاف ظاہر ہے۔ واقعات تو پہلے دن ہی سے واضح ہونا شروع ہوگئے تھے۔ فلیٹ نمبر چار کے لیے سینکڑوں امیدواروں میں سے صرف مسٹر اور مسز رانسن کو موزوں پایا گیا، آخر کیوں....؟ ان میں دوسرے لوگوں سے الگ کیا خاص بات تھی....؟ شاید ان کی چال ڈھال۔ لیکن ان کی چال ڈھال میں کوئی خاص بات نہ تھی، تو پھر ان کا نام....؟
لیکن ان کے ناموں میں بھی تو کوئی خاص بات نہیں۔ رابنسن ایک عام سا نام ہے۔ میں نے کہا۔
ہاں، یہ ایک عام سا نام ہے اور یہی اصل نکتہ ہے۔میں تمہیں سارا معاملہ وضاحت کےساتھ سمجھاتا ہوں۔
ایلسا ہرٹ اور اس کا شوہر یا پھر اس کا بھائی بہرحال ان کا آپس میں جو بھی رشتہ ہے، نیو یارک سے خفیہ کاغذات سمیت لندن آئے اور مسٹر ایلڈ مسز رابنسن کے نام پر فلیٹ خرید لیا۔ کچھ عرصے بعد انہیں پتہ چلا کہ مافیا ان کی تلاش میں ہے۔ لوگی والڈرانو کا تعلق اسی تنظیم سے تھا اور اسی نے خفیہ کاغذات چرائے تھے۔ ایلسا اور اس کے بھائی نے اسے قتل کرکے کاغذات خود حاصل کرلیے۔ اب مافیا لوگی کے قتل کا بدلہ چکا کر کاغذات حاصل کرنا چاہتی تھی۔ سیلا ہارٹ کو پتہ تھا کہ یہ لوگ جلد ہی اس کے فلیٹ کا پتہ چلا لیں گے اور پھر ان کے انتقام سے بچنا مشکل ہوگا۔ اب وہ کیا کرتے....؟
انہوں نے ایک سادہ لیکن نہایت عمدہ چال چلی۔ یہ بات واضح تھی کہ ان کی تلاش میں جو کوئی بھی آئے گا وہ ان سے ذاتی طور پر واقف نہیں ہوگا۔ چنانچہ اپنی سکیم کے مطابق انہوں نے کمیشن ایجنٹوں سے رابطہ قائم کیا اور اپنے فلیٹ کو کرائے پر دینے کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے فلیٹ کا کرایہ جان بوجھ کر کم رکھا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس طرف آئیں۔ لندن میں ہزاروں لوگ فلیٹس کی تلاش میں ہیں اور ہزاروں میں سے بیسیوں مسٹر اور مسز رابنسن ہوں گے۔ اب مسئلہ صرف کسی مناسب جوڑے کے انتظار کا تھا، ایک ایسا جوڑا جس کا نام اور شکل ان سے ملتی ہو۔
بہرحال لوگ یہ فلیٹ دیکھنے جاتے رہے کہ فلیٹ کرائے پر دیا جاچکا ہے۔ کمیشن ایجنٹوں کے سامنے انہوں نے بدستور یہی موقف اختیار کیا کہ فلیٹ ابھی کرائے پر نہیں دیا گیا۔ آخر کار تمہارا دوست جوڑا اس فلیٹ کی تلاش میں آپہنچا۔ یہ جوڑا ان لوگوں کے مطلب کا تھا، چنانچہ فلیٹ انہیں کرائے پر دے دیا گیا اور خود ایلسا ہارٹ اور اس کے ساتھی نے یہ مکان کرائے پر لے لیا....
اور سنو، ادھر مافیا کا بھیجا ہوا کرائے کا قاتل لندن آتا، تو سیدھا ان کے پرانے فلیٹ پر جاتا، کیونکہ اسے تنظیم کی طرف سے یہی پتہ دیا گیا ہوتا، چنانچہ میری توقع کے عین مطابق یہ اطالوی جو مافیا کا کارکن ہے، لندن آیا اور اس نے مونٹاگو مینشن کے چار نمبر فلیٹ کے بارے میں لوگوں سے معلومات حاصل کیں۔ وہی نام وہی حلیہ اور وہی فلیٹ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ جوڑا کوئی ا ور ہے۔
اگر ہم اس پر قابو نہ پالیتے، تو وہ دھوکے میں آکر اس معصوم جوڑے کا خاتمہ کردیتا اور مافیا کا انتقام پورا ہوجاتا۔ اپنی تدبیر کے باعث ایلسا ہارٹ اور اس کا ساتھی دونوں صاف بچ جاتے۔
پھر وہ کاغذات کسی حکومت کے پاس بیچ کر باقی زندگی آرام سے گزارتے۔
یہ بتاکر پائررو نے کہا کہ میری سمجھ میں سارا قصہ اسی وقت آگیا تھا جب میں نے انسپکٹر جاپ سے کاغذات کی چوری کا واقعہ سنا۔
پائرو نے بتایا کہ اب ہماری یہ تمام کارروائی اسکاٹ لینڈ یارڈ کی مرضی اور اجازت سے ہوئی۔ ٹیکسی سے اترنے کے بعد جو شرابی مجھ سے ٹکرایا تھا وہ دراصل پولیس کا آدی تھا اور یہ ہماری طے شدہ اسکیم تھی۔ میں نے جو الفاظ بڑبڑائے تھے وہ دراصل اس بات کا اشارہ تھا کہ تمام کام ٹھیک ٹھاک ہو رہا ہے۔ اب ہمارے تینوں دوست اسکاٹ لینڈ یارڈ کے دفتر میں مقیم ہوں گے اور وہ خود ان سے نمٹتے رہیں گے۔ ہمارا کام اب صرف اتنا ہے کہ ہم واپس جا کر اصل مسٹر اور مسز رانسن سے ان کے فلیٹ میں چوری چھپے داخل ہونے پر معذرت کریں۔ جب انہوں نے دیکھا ہوگا کہ ان کے فلیٹ میں نقب لگائی گئی ہے تو وہ ضرور پریشان ہوئے ہوں گے۔
لیکن تمہیں اس گھر کا پتہ کیسے چلا....؟ میں نے سوال کیا۔ میرا خیال ہے جب ایلسا ہارٹ نے وہ فلیٹ چھوڑا تو تم نے اس کا پیچھا کیا ہوگا۔
آہ! میرے دوست! آخر کار تم نے بھی اپنی عقل استعمال کر ہی لی۔ بےشک ایسا ہی ہوا تھا۔
ابھی ہم باتوں میں مصروف تھے کہ انسپکٹر جاپ ایک شخص کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔
آپ دونوں تو خیریت سے ہیں۔ کیا تمام پرندے پکڑے گئے....؟ پائرو نے سوال کیا۔
ہاں لیکن کاغذات ان سے برآمد نہیں ہوئے۔
کاغذات اس کے اندر سلے ہوئے ہیں۔ پائرو نے مخملیں بلی کی طرف اشارہ کیا۔
انسپکٹر جاپ کے ہمراہ جو دوسرا شخص اندر آیا تھا وہ اب تک خاموشی سے ہماری بات چیت سن رہا تھا۔ پائرو کی یہ بات سن کر اس نے جھپٹ کر بلی اٹھائی اور اپنی جیب سے چاقو نکال کر اس کا پیٹ چاک کر ڈالا۔ تمام کاغذات بلی کے پیٹ سے برآمد ہوگئے۔
اوہ! میں آپ کا تعارف کرانا بھول گیا۔ پائرو! یہ امریکی محکمہ جاسوسی کے مسٹر برٹFBI Agent Burt ہیں جو ان کاغذات کی تلاش میں لندن آئے ہیں۔ جاپ نے کہا۔
آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ برٹ نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا۔
|
ہرکوئل پائروHercule Poirot (ہرکیول پیروٹ) ، اگاتھا کرسٹی کا لکھا با کمال اور معروف ترین فکشن کردار تھا ، بیلجئم سے تعلق رکھنے والا ایک پرائیویٹ جاسوس جو شرلاک ہومز جرائم کی پُراسرار وارداتیں نہایت ذہانت سے حل کرنے میں ماہر تھا۔ پائرو کو منفرد تاؤ دی ہوئی اونچی مونچھوں ، گنجے سر، بھرپور اعتماد اور مخصوص لب و لہجے کی وجہ سے بہت شہرت ملی۔ پائرو اپنے منفرد انداز میں پہلے تمام کرداروں پر پہلے شک کرتا ہے اور آخر میں کسی ایک کو مجرم ثابت کر دیتا ہے ۔ ہرکوئل پائرو کے کارناموں میں مرڈر آن دی اورینٹ ایکسپریسThe Murder on the Orient Express، ڈیتھ آن نیل Death onthe Nile ، مرڈر آف راجر ایکروئڈ The Murder of Roger Ackroyd، پرل ایٹ اینڈ ہاؤس Peril at End House اور اینڈ دھین دئیر ور نون And Then There Were None مقبول ہیں۔ یہ کردار پچپن سال تک اگاتھا کرسٹی ناولوں کی زینت بنتا رہا اور تینتیس ناولوں کا مرکزی کردار رہا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ جب ایک ناول Curtain میں اس کردار کا خاتمہ ہوا تو امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر تعزیتی مضمون چھپا ۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ایسا فکشن کردار ہوگا جس کی موت پر نیویارک ٹائمز جیسے مؤقر اخبار نے تعزیتی کالم چھاپا ہو۔ |
[مشمولہ: کہانیوں کے مجموعہPoirot’s EarlyCases ]
جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ |
آگاتھا کرسٹی ۔1890ء تا 1976ء |
جاسوسی کہانیاں لکھنے والی عالمی شہرت یافتہ مصنفہ، آگاتھا کرسٹی Agatha Christie کا پورا نام اگاتھا میری کلیریسا ملر تھا ، آگاتھا 1890ء میں انگلینڈ کے علاقے ٹارکی Torquay میں پیدا ہوئیں، اور1976ء میں آکسفورڈ شائر، انگلینڈ میں وفات ہائی۔ انہیں جاسوسی کہانیاں لکھنے والی تاریخ کی عظیم ترین مصنفہ کہا جاتا ہے، اس بات کا انداہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گنیز بک آف ریکارڈ کے مطابق دنیابھر میں شیکسپئیر کے بعد یہ واحد مصنفہ ہیں جن کی کتابیں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئی ہیں۔ 2006ء کے اعدادوشمار کے مطابق ان کی لکھی ہوئی کہانیوں کے ایک ارب سے زائد نسخے فروخت ہوئے تھے ۔ انہوں نے کل 66 جاسوسی ناولزاور 153مختصر کہانیوں کے 14 مجموعے لکھے جو اب تک سو سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوچکے ہیں۔ یوں تو آگاتھا کرسٹی جرائم اور سراغ رساں پر مبنی جاسوسی کہانیوں کے لئے جانی جاتی ہیں، لیکن آپ نے میری ویسٹماکوٹ کے قلمی نام سے رومانوی ناول بھی لکھے اور کئی پراسرار ، سنسنی خیز اور ماورائی کہانیاں بھی تحریر کیں ۔ |
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں