چیکوسلواکیہ ادب کا ایک شاہکار افسانہ

پانچ روٹیاں


کارل چاپیک

جو آدمی بھی عوام کی مدد کرنا اور دنیا کو  مشکلات سے نجات دلانا چاہتا ہے اسے ہمیشہ کسی نہ کسی کے مفادات سے پنجہ لڑانا پڑتا ہے۔ ہر کسی کو تو خوش کیا نہیں جاسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں۔  

چیکوسلواکیہ کے ادیب، صحافی اور ڈرامہ نویس  کارل چاپیک   کی مختصرکہانی  The Five Loavesکا ترجمہ



‘‘مجھے اس سے کیا شکایت ہے....؟
 بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود  اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔’’ 
‘‘اجی، میں گھر گیا اور میں نے اپنے چچیرے بھائی سے، وہی جو گھوڑوں کا ساز بناتا ہے، یہ کہا: ‘‘سن لو! تمہیں بھی  اس کی باتیں سننی چاہئیں۔ میں تمہیں  بتا رہا ہوں۔ وہ بڑی پیاری پیاری باتیں کرتا ہے اور باتیں بھی ایسی کہ  سچی، سن کر  سینے میں دل الٹ جاتا ہے۔’’ 
‘‘اجی، خود میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میرا دل چاہنے لگا کہ اپنی دکان بند کرکے اس کے پیچھے پیچھے چل پڑوں اور  وہ کبھی میری آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے پائے۔ 
وہ کہتا ہے :‘‘جو کچھ تمہارے پلے ہے، سب خیرات کردو اور میرے پیچھے ہو لو،  اپنے پڑوسی سے محبت کرو، غریبوں کو سہارا دو اور جنہوں نے تمہیں ستایا ہو انہیں معاف کردو اور اسی طرح کی اور باتیں’’
میں تو ایک معمولی نانبائی ہوں، لیکن جب میں نے اسے بولتے سنا، تو مجھ میں ایسا عجیب سرور اور سوز جاگا کہ  سمجھ میں نہیں آتا اسے کیسے بیان کروں۔ 
ایک طرح کا بوجھ مجھ پر تھا، ایسا کہ میں شاید نڈھال ہو کر زمین پر ڈھیر ہوجاتا اور رو پڑتا اور اس کے ساتھ ہی میں نے خود کو ہلکا پھلکا اور شگفتہ محسوس کیا جیسے میرے کندھوں سے ہر بوجھ، سمجھو کہ ،  میری تمام پریشانیوں اور آزمائشوں کا بوجھ اتر گیا ہو۔ سو میں نے اپنے چچیرے بھائی سے کہا: 
‘‘اے کوڑ مغز ! تجھے اپنے اوپر شرم آنی چاہیے۔ جب سنو، تو مال کھینچنے اور مال مارنے کے بارے میں یہی گھٹیا الٹی سیدھی باتیں ہانکتا رہتا ہے کہ لوگ تیرے کتنے مقروض ہیں اور تیرے ذمے کتنا عشر اور ڈنڈ اور سود نکلتا ہے۔ تجھے چاہیے کہ جو کچھ تیرے پاس ہے دو غریبوں میں بانٹ دے، مال و اسباب کو اپنے بیوی بچوں پر  چھوڑ دے اور اس کے پیچھے ہو لے۔’’
اور جہاں تک بیماروں اور آسیب زدوں کو شفا بخشنے کا تعلق ہے، تو مجھے اس بارے میں بھی اس سے کوئی گلہ شکوہ نہیں۔ یہ سچ ہے کہ یہ ایک عجیب  قوت ہے، لیکن جو بھی سہی، یہ تو ہر کسی کو پتہ ہے۔ ہمارے اپنے طبیب اتائی ہیں اور جو رومی ڈاکٹر ہیں وہ بھی ان سے بہتر نہیں.... 
یہ لوگ ہمارا تمہارا روپیہ تو ضرور اینٹھ لیتے ہیں، لیکن جب انہیں کوئی جاں بلب مریض دکھانے کو بلایا جائے، تو محض کندھے جھٹک کر رہ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذرا پہلے بلانا چاہیے تھا۔ ذرا پہلے! ....
 میری بیوی بےچاری دو سال سیلان خون میں مبتلا رہنے کے بعد فوت ہوئی۔ میں اسے ڈاکٹروں کے پاس لیے لیے پھرا۔ تم سوچ نہیں سکتے میرا کتنا روپیہ اٹھ گیا اور کیا مجال جو کسی کے ہاتھوں اسے ذرہ برابر بھی افاقہ ہوا ہو۔ اگر وہ ان دنوں یہ  شہر شہر گھوم رہا ہوتا، تو میں اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھک جاتا اور کہتا: 
‘‘محترم ، اس عورت کو  تندرست کردیجیے۔’’
اور میری بیوی اس کے دامن کو چھوتی اور چنگی بھلی ہوجاتی۔ بےچاری نے اتنی مصیبت جھیلی کہ میں بیان  نہیں کرسکتا۔ سو میں اس بات کے حق میں ہوں کہ وہ بیماروں کو تندرست کردیتا ہے۔ 
تمہیں  پتہ ہے سب طبیبوں اور ڈاکٹروں نے اس کے خلاف طوفان اٹھا رکھتا ہے اور کہہ رہے ہیں کہ یہ سب فریب اور ٹھگی ہے، اگر ان  ڈاکٹروں کا بس چلتا، تو اسے علاج کرنے سے روک دیتے اور نہ جانے اور کیا کیا کرتے۔ 
جو آدمی بھی عوام کی مدد کرنا اور دنیا کو  مشکلات سے نجات دلانا چاہتا ہے اسے ہمیشہ کسی نہ کسی کے مفادات سے پنجہ لڑانا پڑتا ہے۔ ہر کسی کو تو خوش کیا نہیں جاسکتا۔ یہ ممکن ہی نہیں۔ 
میں کہتا ہوں کہ اسے بیماروں کو تندرست کرنے دو، لیکن وہ جو پانچ روٹیوں والا معاملہ ہے، اس قسم کی حرکت اسے نہیں کرنی چاہیے تھی،   بطور نانبائی میں یہ کہتا ہوں کہ یہ نانبائیوں کے ساتھ بڑی ناانصافی ہوئی ہے۔ 
تم نے پانچ روٹیوں والا واقعہ نہیں سنا....؟ 
حیرت ہے!   نانبائی تو سارے اس واقعے  کی وجہ سے بالکل آپے سے باہر ہوئے جارہے ہیں۔ 
خیر، کہتے ہیں کہ ایک جم غفیر اس کے پیچے پیچھے چلتا ہوا اجاڑ بیابان میں جا پہنچا۔ وہاں اس نے ان لوگوں میں جو روگی تھے انہیں شفا دی اور جب شام ہوگئی، تو اس کے ساتھی  پاس آکے کہنے لگے: 
‘‘یہ اجاڑ بیابان ہے اور وقت زیادہ ہوگیا ہے۔ اس مجمع کو یہاں سے رخصت کردیجیے تاکہ یہ دیہات میں جاکر اپنے لیے کھانے کا بندوبست کرلیں۔’’
لیکن اس نے حواریوں سے کہا: ‘‘انہیں یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں۔ تم انہیں کھاناکھلاؤ۔’’
اس پر وہ بولے: ‘‘ہمارے پاس تو یہاں کل پانچ روٹیاں اور دو مچھلیاں ہیں۔’’
اس نے کہا: ‘‘روٹیاں اور مچھلیاں میرے پاسلے آؤ۔’’
اور اس نے مجمع کو حکم دیا کہ گھاس پر بیٹھ جائے اور پانچوں روٹیاں اور دونوں مچھلیاں اٹھائیں حواریوں کو تھما دیں اور حواریوں نے مجمع میں بانٹ دیں اور ان سب نے روٹی کھائی اور سیر ہوگئے، پھر انہوں نے بچے کچھے ٹکڑے اکٹھے کیے، تو ان سے بارہ چنگیریاں (ٹوکرے)پوری کی پوری بھر گئیں اور جن لوگوں  نے وہاں روٹی کھائی  وہ تعداد میں تقریباً پانچ ہزار تھے۔ 
تم جانو، بھائی پڑوسی! یہ معاملہ ہی ایسا ہے کہ کوئی نانبائی اس کی تاب نہیں لاسکتا۔ تاب لائے کہاں سے....؟  اگر یہی دستور چل نکلا کہ جس کا جی چاہا، پانچ روٹیاں اور دو پدی سی مچھلیاں لے کے پانچ ہزار آدمیوں کو کھانا کھلا دیا، تو پھر نانبائیوں کا کیا بنے گا....؟  
مجھے یہ بتاؤ! مچھلیوں کی تو خیر ایسی کوئی بات نہیں۔ وہ آپ ہی آپ پانی میں پلتی بڑھتی رہتی ہیں۔ جس کا جی چاہے، جاکے انہیں پکڑ لائے، لیکن نانبائی کے پاس اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے کہ مہنگے داموں آٹا اور بالن خریدے، کام بٹانے کے لیے کسی کو نوکر رکھے اور اسے تنخواہ دے۔ اس کی اپنی دکان بھی ہونی چاہیے۔ اسے ٹیکس بھی بھرنا  پڑتا ہے اور الم بھی کرنا ہوتا ہے اور ظلم بھی.... 
پھر یہ سب کچھ بھگت بھگتاچکنے کے بعد اگر چند پیسے بچ رہے ہیں، تو وہ یہی دیکھ کر خوش ہولیتا ہے کہ چلو بھیک مانگ کر کھانے کی نوبت تو نہیں آئی لیکن اس  نے....خدا کی پناہ! بس نظر اٹھا کے آسمان  کو تکا اور پانچ ہزار روٹیاں آموجود.... نہ آٹے کا مول دینا، نہ کالے کوسوں سے بالن منگوانا، نہ کوئی خرچ، نہ محنت۔ 
ہاں جی، وہ بےشک لوگوں کو مفت روٹی کھلا سکتا ہے! اور اسے یہ خیال تک نہیں آتا کہ وہ آس پاس کے نانبائیوں کو ان کے گاڑھے پسینے کی کمائی سے محروم کیے دے رہا ہے۔ 
میں تم سے کہے دیتا ہوں، یہ ناجائز کاروباری مقابلہ ہے اور اسے اس کام سے باز رہنا چاہیے۔ اگر اسے تندور چلانے کا شوق ہے، تو ہماری طرح ٹیکس دیا کرے۔
لوگ ہمارے پاس آکر کہتے ہیں: ‘‘یہ کیا....؟ اس چھوٹی  سی ٹکیا کے اتنے زیادہ دام....؟ تمہیں چاہیے کہ اس کی طرح مفت میں دیاکرو۔’’
اور لوگ بتاتے ہیں: ‘‘اس روٹی کا کیا کہنا! سفید، پھول سی اور خوشبودار۔ جی چاہتا ہے کھاتے ہیچلے جاؤ۔’’
اب حالت یہ ہے کہ ہمیں اپنی قیمتیں گرانی پڑی ہیں۔ میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ ہم صرف اس لیے روٹی لاگت سے بھی کم داموں بیچ رہے ہیں کہ کہیں دکان ہی نہ بڑھانی پڑ جائے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی جاری رہا، تو نانبائیوں کے کاروبار کا تو بند ہوا ہی سمجھو۔ 
سننے میں آیا ہے کہ ایک اور مقام پر اس نے سات روٹیوں اور چند ایک مچھلیوں سے چار ہزار لوگوں  کو کھانا کھلایا۔ لیکن اس مرتبہ روٹی کے ٹکڑوں سے صرف چار چنگیریاں ہی بھرپائیں۔مگر اس نے ہم نانبائیوں کا کام، تو ہمیشہ کے لیے چوپٹ کر دیا ہے اور مجھ سے یہاں اب یہ بھی سن لو! 
یہ سب اس نے اس لیے کیا کہ اسے نانبائیوں سے بیر ہے۔ مچھیرے بھی اس کی وجہ سے دہائی دیتے پھر رہے ہیں، لیکن تمہیں پتہ ہی ہے کہ وہ مچھلیاں کس قدر مہنگی بیچتے ہیں، لوٹ مچائی ہوئی  ہےانہوں نے۔ ان کی نسبت ہمارا کاروبار کچھ زیادہ کھرا ہے۔
دیکھو جی، بھائی پڑوسی! میں تو ایک  بوڑھا آدمی ہوں اور دنیا میں اکیلا بھی ہوں ۔ نہ بیوی ہے نہ بچے۔ سو مجھے کس چیز کی ضرورت ہے....؟  
میں نے تو اپنے خادم سے کہہ دیا کہ میری دکان تو لے لے اور خود ہی چلا۔ مجھے اپنا کام چمکانے کیذرافکرنہیں۔
میں نے کہا: ‘‘جی تو میرا سچ مچ یہی چاہتا ہے کہ صرف نام کو جو آدھی پونی جائیداد میرے پاس ہے وہ بانٹ وانٹ دوں اور اس کے ساتھ ہو لوں اور اپنے پڑوسی سے پیار کرنے کی عادت ڈالوں پھر وہ سارے کام کر گزروں جن کا وہ پرچار کرتا پھرتاہے۔’’
لیکن جب مجھے اس سلوک کا خیال آتا ہے جو اس نے نانبائیوں سے روا رکھا ہے، تو میں اپنے آپ سے کہتا ہوں: ‘‘اوں ہوں، یہ نہیں۔ بطور نانبائی  مجھے یقین ہے کہ اس میں لوگوں کی بھلائی نہیں، بلکہ ہمارے دھندے کا پورا پورا ستیاناس ہے۔’’
مجھے افسوس ہے، مگر میں اسے یہ سب کچھ بےدھڑک کر گزرنے کی اجازت نہیں  دے سکتا۔ یہ بات ہی غلط ہے۔
بےشک! ہم نانبائیاں اور گورنر دونوں کے یہاں اس کے خلاف یہ شکایت درج کرا چکے ہیں کہ وہ  ہمارے کاروبار میں رخنہ ڈال رہا ہے اور  لوگوں کو بغاوت پر اکساتا پھرتا ہے، لیکن تمہیں پتہ ہی ہے کہ حکام کوئی قدم اٹھاتے اٹھاتے کتنی دیر لگا دیتے ہیں۔ 
تم تو مجھے جانتے ہو، بھائی پڑوسی!
 میں صلح جو آدمی ہوں اور مجھے کسی سے جھگڑا مول لینے کا شوق نہیں۔
 لیکن اگر اس نے شہر میں قدم رکھا تو میں بیچ سڑک پر کھڑے ہو کر پکار پکار کر کہوں گا:
 ‘‘چڑھا دو سولی پر! اسے چڑھا دو سولی پر!’’





چیکوسلواکیہ کے ادیب، صحافی اور ڈرامہ نویس 

کارل چاپیک  1890ءتا 1938ء  



کارل چاپیک (کیرل شاپیک ) Karel Čapek،  چیک زبان  کے افسانہ و ناول نگار، ڈرامہ نویس، مصنف اور صحافی تھے۔  چیک ادب میں ان کا  بڑا  مقام ہے۔ ان کی  تصنیف کا کئی غیر ملکی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔ چاپیک  کو سات مرتبہ نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا گیا۔    ان کی تحریر کا ہنر الگ،  انوکھا اور انتہائی سنجیدہ ہے۔ ان  کے افسانوں کا تیکھا طنز اپنی مثال آپ ہے۔  چاپیک کا انسان دوست انداز ان کی تحریروں  میں واضح طور پر موجود ہے۔ 
چاپیک 9 جنوری 1890کو بوہیمیا ، چیکو سلواکیہ (سابقہ  آسٹریا -ہنگری   سلطنت )میں پیدا ہوئے،    سوربن اور پراگ یونیورسٹی  میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایک اخبار میں مدیر بنے اور  ڈرامے ، ناول، کہانیاں ، مضامین وغیرہ لکھنے لگے۔
چاپیک نے یورپ کا سفر کیا، انہوں  نے یورپی  صنعتی انقلاب ،  جنگ عظیم  اور چیکوسلواکیہ کی آزادی کا دور دیکھا۔
چاپیک کے  ناول ڈرامے اور افسانے زیادہ تر سائنسی ترقی، صنعتی انقلاب اور عوام اور مزدوروں پر جنگ  کے اثرات  کے موضوع  پر ہوتے، ان میں   آؤٹ لا (باغی) لائف آف انسیکٹ (کیڑوں کی زندگی)وار وِد دا نیوٹس(نیوٹس سے جنگ)،  وائٹ ڈیزیز (سفید مرض )، کراکاتیت (ایٹمی  سراب)، آڈنری لائف (عام زندگی )، ماتکا  (ماں)اور آر یو آر(روسو یونیورسل روبوٹس) شامل ہیں۔
 1920 میں لکھا ان کا پہلا ڈرامہ R.U.R    مشینوں کے آمد کے  اور فیکٹری مزدورں پر اثرات پر مبنی طنزیہ ڈرامہ تھا، یہ پہلا ڈرامہ تھا جس میں    مشینی انسانوں کو پیش کیا گیا اور لفظ ‘‘روبوٹ’’ کی اصطلاح بھی پہلی بار استعمال ہوئی جو بعد میں انگریزی زبان کا حصہ بنی۔ چیک زبان میں روبوٹا کے معنی خود کار کے ہیں۔
  جنگ عظیم کے دور میں ان کا  ڈرامہ ماتکا  (ماں)بھی مقبول رہا ،اس ڈرامے  میں مصنف نازی طاقت کے خلاف لڑنے کی ترغیب دیتا ہے۔ 
چاپیک نے بچوں کی  کتابیں  اور پریوں کی کہانیاں بھی لکھیں جو  ان کے بھائی جوسف چایپک کی مصوری سے آراستہ تھیں۔   
زیر نظر کہانی کارل چاپیک کی مختصرکہانی  The Five Loavesکا ترجمہ ہے،  یوں تو Loaves & Fishes  کے عمومی معنی روٹی اور مچھلی  کے ہیں لیکن اس کے لغوی معنی ذاتی مفاد ،  حلوا مانڈا  اور  دنیاوی فائدے کے لیے جاتے ہیں۔   
کارل چاپیک  25 دسمبر 1938ء کوپراگ، جمہوریہ چیک  میں انتقال کرگئے۔ 



اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں