|
بھارت میں اُردو ادب کی پہچان جیلانی بانو کا تحریر کردہ ایک شاہکار افسانہ |
‘‘یار صادق! بڑے افسوس کے ساتھ تمہیں اطلاع دی جاتی ہے کہ تمہارا انتقال پر ملال ہوچکا ہے’’۔ فون پر صادق کا دوست منیر تھا۔
‘‘کیا ....؟ تم کیا کہہ رہے ہو منیر....’’ صادق جھنجھلا گیا۔ یہ شخص ہمیشہ فون پر ایسا ہی مذاق کرتا ہے۔
‘‘یہ کہہ رہا ہوں کہ تمہارے گھر سے ٹیلی گرام آیا ہے، وہاں تمہارے مرنے کی اطلاع پہنچ چکی ہے۔ وہ جو کل طیارہ گرا ہے نا۔ اس میں تم مرچکے ہو۔ اب ٹی وی پر فلمیں دیکھنا چھوڑو اور مٹی میں ملنے کو تیار ہوجاؤ’’۔ منیر نے کھٹ سے فون رکھ دیا۔ میں مرگیا ہوں....؟ اپنی موت کا نام سنتے ہی وہ خوف کے مارنے لرزنے لگا۔ اس نے فون ہاتھ سے یوں رکھا جیسے درخت سے شاخ کٹ کر گرتی ہے۔ میں مرچکا ہوں.... امی، ابو، ثریا سب مجھے رو چکے ہیں....؟
وہ منہ کھولےآنکھیں پھاڑے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ میرا مرنا .اتنی معمولی بات ہے کیا....؟ اس نےجب بھی اپنی موت کا تصور کیا تو زمین و آسمان اپنی جگہ ہل گئے تھے۔ پوری کائنات تہہ و بالا ہوگئی تھی.... ابھی تک وہ کتنا خوش تھا۔
وہ جس طیارے سے انڈیا جانے والا تھا، وہ گر گیا، اور خوش قسمتی سے صادق اس میں سوار نہیں ہوا تھا۔ موت اس کے سر پر سے گزرچکی تھی۔ صادق ساری رات اس واقعے کی تفصیل ثریا کو لکھتا رہا کہ کیسے عین وقت پر اس کی سیٹ کنفرم نہ ہوسکی اور وہ بال بال بچ گیا۔
‘‘لیکن اب تم مرچکے ہو۔ بڑے افسوس کے ساتھ تمہیں اطلاع دی جاتی ہے کہ تمہارا انتقال پرملال ہوچکا ہے....’’
اس کے دوست منیر کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔
اس نے اپنے زندہ ہونے کا یقین کرنا چاہا۔ سامنے پڑا ہوا ثریا کا خط اُٹھانا چاہا لیکن مرے ہوئے انسان کا ہاتھ کہیں اُٹھ سکتا ہے۔
تم مرچکے ہو....
چاروں طرف سے منیر کی آواز گونج رہی تھی، کیونکہ اسی طیارے میں اس کا ہم نام ایک اور صادق سوار ہو چکا تھا۔ جس نے صادق کی زندگی بھی جلتے ہوئے طیارے میں جھونک دی تھی۔ اب وہ اپنے پیاروں کے لیے مرچکا ہے۔
اس بات کا یقین نہ کرنے کے لیے کیا رہ گیا۔ یہ امریکن سینٹ کی خوشبو میں مہکتا ہوا سوٹ، سات ہزار ریال کمانے والا جفاکش بدن، ثریا کی محبت میں سرشار دل.... ان سب کو لوگ مٹی میں ملاچکے ہیں۔
صادق گھبراہٹ کے مارے کانپنے لگا.... غلطی میری ہے.... میں نے ثریا کو لکھا تھا کہ میں پچیس 25 کو آرہا ہوں، مگر سیٹ کنفرم نہیں ہوئی ہے۔ مجھے فوراً دوسرا خط بھیجنا چاہیے تھا۔ ذرا سی غلطی کیا ہوئی کہ لوگوں نے مجھے مارڈالا۔ پہلے میری موت کی تصدیق تو کرلیتے.... اور اس منیر کو دیکھو، میرا مذاق اُڑارہا ہے....
گھر میں کیسا کہرام مچا ہوگا۔ اس نے لرز کر سوچا۔ ابا دل کے مریض ہیں، امی کو ہائی بلڈ پریشر ہے اور ثریا!.... آج ثریا تو غم کے مارے پاگل ہوگئی ہوگی۔ ثریا کو حاصل کرنے کے لیے اس نے پانچ برس تک اس کے باپ کی خوشامد کی تھی، اور پھر اپنے نام کے ساتھ کلرکی کا داغ مٹانے کے لیے وہ گھر سے اتنی دور آگیا تھا۔ ماں باپ، بیوی بچوں کو چھوڑ کر صحرا میں اکیلا، ریت کے ذرے کی طرح تپ رہا تھا۔ دوزخ کی طرح بھڑکتی ہوئی لوہے کی بھٹی میں وہ دن بھر کام کرکے نکلتا تو چہرہ سرخ ہوجاتا تھا۔ ہاتھ پاؤں کانپتے تھے۔ رات دوسری دوزخ میں گزارنا پڑتی۔ عرب کی جان لیوا گرمی میں وہ ریت کے اوپر ٹینٹ کے نیچے ساری رات گزار دیتا تھا۔ اپنے خاندان کو سکھ کی چھاؤں میں بٹھانے کے لیے وہ سوتے جاگتے ان دنوں کے خواب دیکھا کرتا، جب ثریا اس کے ساتھ ہوگی اور دونوں بچے اس کی گود میں بیٹھے ہوں گے، وہ اپنے گھر میں فوم کے گدے پر پنکھے کے نیچے لیٹاہوگا۔
اس کا گھر، اس کی جنت تھا۔ چھٹیوں میں گھر جاتا تھا تو جی چاہتا کہ سارا دن بستر پر لیٹا رہے۔ چھٹیاں ختم ہونے کے خیال سے جی گھبراتا تھا۔
‘‘ایک ہفتے کی چھٹی اور بڑھالوں گا’’۔ وہ خوش ہوکر ثریا سے کہتا۔
‘‘کتنی تنخواہ کٹ جائے گی....’’ ثریا گھبرا کر پوچھتی۔
‘‘کٹنے دو.... تمہیں اور بچوں کو چھوڑ کر جانے کو جی نہیں چاہتا’’۔ وہ منے کو بانہوں میں بھینچ کر کہتا۔
اب ثریا بیوہ ہوگئی ہے.... میں اس کے لیے مرگیا ہوں۔ گھبرا کر اس نے ثریا کے تصور کو دور دھکیلا۔
سامنے سعودی ایئر لائن کا کیلنڈر لگا تھا۔ جدہ ایئرپورٹ کی شاندار عمارت اندھیرے میں جگمگارہی تھی۔ یہ روشنیاں آج ہر نوجوان کے خوابوں میں جھلملاتی ہیں۔ صادق نے بھی چھ برس تک دھکے کھائے تھے یہاں پہنچنے کے لیے ۔ نوکری دلانے کے لیے ایجنٹوں نے چکمے دیے۔ عزیز رشتے داروں نے برسوں نوکری دلانے کے بہانے اپنے آگے جھکائے رکھا۔ ثریا نے دن رات غریبی کے طعنوں سے کلیجہ چھلنی کیا۔ اماں ابا کو اس سے بڑھ کر کوئی ناخلف نظر نہیں آتا تھا۔
اس کے پڑوسی اکرم صاحب دبئی گئے تو اچانک ان کے سارے گھر کا رنگ نکھر گیا، ٹوٹا پھوٹا کھپریل کا کمر جھکا گھر سرسوں کے پودے کی طرح راتوں رات اوپر اُٹھتا چلا گیا۔ لائٹ چلی جاتی اور اکرم کے یہاں سے جب جنریٹر کی گھوں گھوں کی آواز گونجتی تو صادق کو جانے کیوں غصہ آنے لگتا۔ ان کے یہاں گرینڈر پر بادام پیسے جاتے تو اماں کی کمزوری بڑھ جاتی۔ ثریا نے اکرم کی بیوی سے دوستی ختم کردی۔ جاپان کی ساڑھیاں، چمکتی ہوئی میکسیاں پہن کر جی کیوں جلاتی ہے وہ....
مگر اب کیا ہوگا....؟
کہیں ابا صدمے سے مر نہ جائیں....!
وہ بھاگتا ہوا باس کے کمرے میں پہنچا۔ ‘‘سر! مجھے ایک ارجنٹ کال انڈیا کے لیے بک کرنا ہے’’۔
‘‘کیوں خیریت تو ہے نا....؟’’
صادق کے آنسوؤں سے بھیگا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کا امریکن باس گھبراگیا۔ کہیں ماں کے مرنے کی جھوٹی خبر سنا کر ایک مہینے کی چھٹی نہ مانگ بیٹھے۔ وہ ان ہندوستانی کامچور چھوکروں کی رگ رگ سے واقف تھا۔
‘‘کیا بتاؤں سر.... عجیب بات ہوگئی ہے’’۔ صادق نے ہکلاتے ہوئے کہا ‘‘وہ جو طیارے کا حادثہ ہوا ہے۔ میں اسی طیارے میں انڈیا جانے والا تھا.... میرے مرنے کی اطلاع میرے گھر پہنچ گئی ہے’’... با ت ختم کرکے وہ روپڑا۔ جیسے اپنی موت کا دکھ اس کے لیے ناقابل برداشت ہو۔
‘‘ ہاہا ہا..... فنٹاسٹک’’ بوڑھا امریکن ہنسنے لگا۔
‘‘تم کیوں گھبرارہے ہو.... ابھی فون مت کرو.... ذرا اپنے مرنے کا تماشہ دیکھو’’....
اس کے باس نے فون اُٹھا کر اپنے پاس رکھا اور جھک کر فائلیں اُلٹ پلٹ کرنے لگا۔
اپنے مرنے کا تماشہ دیکھوں، ہونہہ! یہ بےمروت سفید چمڑی والا امریکن.... یہ کیا جانے کہ اس وقت میرے گھر میں کیسی قیامت مچی ہوگی۔ یہ کم بخت تو اپنے بوڑھے ماں باپ کو کسی ‘‘آرام گھر’’ پہنچادیتے ہیں۔ اب تک نہ جانے کتنی بیویوں کو طلاق دے چکا ہوگا۔ جانے اس کے کتنے بچے یتیم خانوں میں پل رہے ہوں گے۔
‘‘سر مجھے ڈر لگ رہا ہے’’۔ وہ بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے آہستہ سے بولا۔ ‘‘میری بیوی کہیں صدمے سے جان نہ دے دے’’.....
‘‘اوہ آئی سی!....’’ بوڑھے امریکن نے عینک ماتھے پر سر کا کر اسے بہ غور دیکھا۔ ‘‘تو کیا انڈیا میں مسلم عورت کو بھی ستی کردیا جاتا ہے’’۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
‘‘ابے چپ!’’صادق نے دل ہی دل میں اسے گالی دی۔
میرے بغیر بھلا ثریا کے لیے بھی اب دنیا میں کیا رہ جائے گا....؟ وہ کتنے محبت بھرے خط لکھتی ہے....صادق کے سامنے بال بکھرائے، سفید کپڑے پہنے، سونی کلائیاں لیے ثریا آگئی، جو رو رو کر دیواروں پر اپنا سر پٹک رہی تھی اور سارے رشتے دار اسے تھامے بیٹھے تھے....اسے تھامے رہو، میرے آنے تک کہیں وہ اپنے کپڑوں کو آگ لگا کر نہ مرجائے....!
اپنی موت کے صدمے سے خود ہی اس کا کلیجہ دہل رہا تھا۔ اب تک ثریا اپنی ہری، پیلی، نیلی ساڑھیاں، زیور میک اپ کا سامان جلاچکی ہوگی۔ ابا کو کسی طرح ہوش نہ آرہا ہوگا۔
صادق گھبرا کر پھر ٹیلی فون بوتھ کی طرف بھاگا۔ مگر انڈیا کی لائن نہیں ملی ۔
‘‘اپنے مرنے کا تماشہ دیکھو’’.... بار بار امریکن باس کی بات اسے یاد آرہی تھی۔
فون کون اُٹھائے گا؟....
ثریا....؟
مگر وہ تو غم کی شدت سے بے ہوش ہوگی....؟
امی....؟ انہیں تو اب تک کسی کلینک میں داخل کردیا گیا ہوگا....
ابا....؟
بھلا اپنے اکلوتے بیٹے کے مرنے کی خبر سننے کے بعد کیا ابا اب تک زندہ ہوں گے....!؟
چھ سال پہلے جب وہ گھر سے پہلی بار چلا تھا تو اس کے گھر کی چھتیں امی کی آنکھوں کی طرح ٹپک رہی تھیں۔ دیواریں ثریا کے پھٹے کپڑوں کی طرح میلی اور بدصورت تھیں۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے وہ بار بار اپنے دوست عمران کا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہا تھا....
‘‘ گھر کا خیال رکھنا۔ ابا کے پاس آتے جاتے رہنا....’’
سچ مچ عمران نے اس گھر کو سنبھال لیا۔ ابا ہر خط میں لکھتے.... ‘‘عمران بالکل تمہاری طرح ہم سب کا خیال رکھتا ہے، بجلی کا بل، گھر کا ٹیکس، بچوں کی فیس،اور ان کی نازبرداری، ہر ذمے داری اس نے اپنے سر لے لی تھی... یہاں تک کہ اماں اور ثریا کے درمیان پیسہ خرچ کرنے پر جو آئے دن کھٹ پٹ ہوتی تھی، وہ جھگڑے بھی عمران کو طے کرنا پڑتےہیں....’’
دو برس بعد ایئر پورٹ کے لاؤنج میں سب سے پہلے اسے عمران نظر آیا تھا، جو اس کے بچے کو گود میں سنبھالے ہوئے تھا۔
دو برس تک صحرا کی خاک چھاننے کے بعد گھر کے نرم گدے پر لیٹنے کے بعد یوں لگا جیسے کسی اور کے گھر میں آگیا ہو۔ یہی گھر تو اس کےخوابوں میں بسا ہوا تھا۔ یہی تو اس کی زندگی کا آورش تھا۔ جی چاہتا صبح بستر سے نہ اُٹھے.... کوئی اس کے سامنے واپس جانے کا نام نہ لے۔
‘‘بس اب کی بار اوور ٹائم کرکے خوب پیسے کما کر لوٹوں گا تو پھر کہیں نہیں جاؤں گا گھر چھوڑ کر ....’’
مگر اوور ٹائم کے نام پر اسے پسینہ آجاتا تھا۔ دن بھر ماتھے سے پسینہ پونچھے بغیر کام کرنے کے بعد، تھوڑی دیر آرام کیے بغیر پھر کام میں جت جاؤ.... اور جب رات کے بارہ بجے لیٹو تو کمر ٹیڑھی ہوجاتی۔ ہاتھ پیر کانپنے لگتے، مگر صبح پانچ بجے اُٹھنے کا خوف سونے بھی نہیں دیتا تھا۔
‘‘لو .... آخر جانے کا منحوس دن آگیا’’۔
اماں اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتیں‘‘خیریت سے پہنچو۔ ’’
‘‘اب کی بار میرے لیے سونے کی چوڑیا لانا’’.... ثریا اٹھلاتے ہوئے کہتی۔
میرے لیے بادام... میرے لیے کپڑے.... گڑیا.......
بہت دنوں تک اس کا کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ ثریا کتنی صحت مند ہوگئی ہے۔ بچے بڑے ہورہے ہیں۔ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ ثریا اسے خوابوں میں ملے.... بچوں کے فوٹو کو پیار کرکے جی.بہلائے ۔
اس نے پھر گھر فون کرنے کی کوشش کی۔
وہ جب بھی گھر جاتا تھا۔ اتنے دنوں کی جدائی پر ثریا اسے خوب جلاتی، ترساتی تھی۔ وہ جھوٹ موٹ اس سے ناراض ہوجاتی۔
‘‘اری دیکھو تو! میری جانو، تیرے لیے کیا لایا ہوں؟’’ وہ جیب میں سے سرخ کاغذ میں لپٹی ہوئی سنہری چوڑیاں نکالتا۔
‘‘اللہ ....یہ تو سونے کی ہیں!’’ وہ خوشی کے مارے اُچھل پڑتی اور چوڑیاں اس کے ہاتھ سے چھین کر باہر کی طرف بھاگتی۔
‘‘عمران .... عمران! ذرا دیکھو تو صادق میرے لیے کیا لائے ہیں’’۔ وہ چوڑیاں پہن کر اپنے گورے ہاتھ عمران کی طرف بڑھادیتی تھی۔
صادق نہال ہوجاتا تھا۔ اسی خوشی کی خاطر اوورٹائم کی تھکن اُتر جاتی تھی۔
ادھر اماں ابا اپنی صحت بنانے کی فکر میں گھلے جاتے تھے۔ ہر خط میں زیادہ پیسے بھیجنے کی فرمائش ہوتی۔ میوہ مٹھائیاں.... دودھ بادام....
سارا دن دونوں سوچتے رہتے کہ اب کیا کھائیں....
اس کے رونے کی آواز سن کر ٹینٹ میں سونے والے لوگ جاگ پڑے‘‘کیا ہوگیا؟... کیوں رو رہے ہو صادق بھائی؟’’
‘‘میں مر گیا ہوں...!’’ وہ چلانے لگا۔
‘‘یار! اس آدمی کا دماغ کچھ سرک گیا ہے آج...’’ وہ سب پھر سونے لگے۔
اب کی بار اس نے فون ملایا تو اپنے گھر میں گونجتی ہوئی بیل کی آواز سن کر وہ اُچھل پڑا....اپنےمرنے کا تماشہ دیکھوبوڑھا امریکن اس سے کہہ رہا تھا۔
‘‘میں ....میں صادق.... صادق کا دوست منیر بات کررہا ہوں’’۔
‘‘اچھا منیر بھائی ہیں... میں خود آپ کو فون کرنے والی تھی۔
(ثریا کتنی پرسکون معلوم ہورہی تھی.... نہیں یہ جھوٹ ہے، اس کے مرنے کی اطلاع گھر نہیں پہنچی ہے)
‘‘منیر بھائی! ذرا یہ معلوم کیجیے کہ صادق کے پراویڈنٹ فنڈ کا کتنا رُپیہ ہے....یہ سب روپیہ مجھے ملنا چاہیے’’۔
‘‘بہت بہتر.... اور کچھ ؟’’
گالوں سے بہتے ہوئے نمکین آنسوؤں نے اس کا منہ کڑوا کردیا۔
‘‘جی اور کچھ نہیں کہنا ہے.... بات یہ ہے کہ میری ساس اور خسر مجھ سے بہت لڑائی جھگڑے کررہے ہیں، روپے کے لیے.... میں بے چاری بیوہ’’...
بند کرو بکواس...!
اس نے فون پٹک دیا۔ اسے یوں لگا جیسے کسی نے اس کا دل چیر کر رکھ دیا ہو۔ وہ ہذیانی انداز میں خودکلامی کرنے لگا
‘‘خود غرض مکار عورت ! مجھ سے محبت کا ناٹک کھیلتی رہی۔ میرے ماں باپ کو بدنام کررہی ہے۔ کیا میری لاش کے سامنے بیٹھ کر اماں ابا میرے روپوں کو یاد کرسکتے ہیں! اس عورت کو اب طلاق دینی ہوگی۔ ابھی ابا سے بات کرتا ہوں’’....
غصے کے مارے اس کی سانس پھول رہی تھی، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اس نے دوبارہ فون ملایا۔
‘‘ہیلو’’....
کہیں ابا اچانک میری آواز سن کر خوشی کے مارے مر ہی نہ جائیں! اس لیے اس نے ایک بار پھر اپنے دوست کا نام لیا۔
‘‘جی میں خالق بات کررہا ہوں، صادق کا دوست’’۔
‘‘جیتے رہو بیٹا’’...
ابا کی بے حد نحیف آواز آرہی تھی۔
‘‘ہم پر تو مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ ہماری بہو صادق کا تمام روپیہ خود لینا چاہتی ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ ہم دونوں کا کھانا پینا’’....
‘‘جی...جی!’’ صادق کی آنکھوں سے پھر آنسوؤں کی دھار بہنے لگی۔
‘‘روپیہ؟’’ اس نے ہونٹ دانتوں سے کاٹے۔
‘‘میرے سامنے تو صادق کی لاش پڑی ہے۔ یہ بتائیے اس کا کیا کروں؟’’ یہ پوچھتے ہوئے اسے اپنی آواز اجنبی سی لگی تھی۔
‘‘اسے تم دفن کردینا بیٹا!’’ ابا نے بڑی شفقت سے کہا۔
‘‘کیا ....؟ تم کیا کہہ رہے ہو منیر....’’ صادق جھنجھلا گیا۔ یہ شخص ہمیشہ فون پر ایسا ہی مذاق کرتا ہے۔
‘‘یہ کہہ رہا ہوں کہ تمہارے گھر سے ٹیلی گرام آیا ہے، وہاں تمہارے مرنے کی اطلاع پہنچ چکی ہے۔ وہ جو کل طیارہ گرا ہے نا۔ اس میں تم مرچکے ہو۔ اب ٹی وی پر فلمیں دیکھنا چھوڑو اور مٹی میں ملنے کو تیار ہوجاؤ’’۔ منیر نے کھٹ سے فون رکھ دیا۔ میں مرگیا ہوں....؟ اپنی موت کا نام سنتے ہی وہ خوف کے مارنے لرزنے لگا۔ اس نے فون ہاتھ سے یوں رکھا جیسے درخت سے شاخ کٹ کر گرتی ہے۔ میں مرچکا ہوں.... امی، ابو، ثریا سب مجھے رو چکے ہیں....؟
وہ منہ کھولےآنکھیں پھاڑے چاروں طرف دیکھنے لگا۔ میرا مرنا .اتنی معمولی بات ہے کیا....؟ اس نےجب بھی اپنی موت کا تصور کیا تو زمین و آسمان اپنی جگہ ہل گئے تھے۔ پوری کائنات تہہ و بالا ہوگئی تھی.... ابھی تک وہ کتنا خوش تھا۔
وہ جس طیارے سے انڈیا جانے والا تھا، وہ گر گیا، اور خوش قسمتی سے صادق اس میں سوار نہیں ہوا تھا۔ موت اس کے سر پر سے گزرچکی تھی۔ صادق ساری رات اس واقعے کی تفصیل ثریا کو لکھتا رہا کہ کیسے عین وقت پر اس کی سیٹ کنفرم نہ ہوسکی اور وہ بال بال بچ گیا۔
‘‘لیکن اب تم مرچکے ہو۔ بڑے افسوس کے ساتھ تمہیں اطلاع دی جاتی ہے کہ تمہارا انتقال پرملال ہوچکا ہے....’’
اس کے دوست منیر کی آواز چاروں طرف گونج رہی تھی۔
اس نے اپنے زندہ ہونے کا یقین کرنا چاہا۔ سامنے پڑا ہوا ثریا کا خط اُٹھانا چاہا لیکن مرے ہوئے انسان کا ہاتھ کہیں اُٹھ سکتا ہے۔
تم مرچکے ہو....
چاروں طرف سے منیر کی آواز گونج رہی تھی، کیونکہ اسی طیارے میں اس کا ہم نام ایک اور صادق سوار ہو چکا تھا۔ جس نے صادق کی زندگی بھی جلتے ہوئے طیارے میں جھونک دی تھی۔ اب وہ اپنے پیاروں کے لیے مرچکا ہے۔
اس بات کا یقین نہ کرنے کے لیے کیا رہ گیا۔ یہ امریکن سینٹ کی خوشبو میں مہکتا ہوا سوٹ، سات ہزار ریال کمانے والا جفاکش بدن، ثریا کی محبت میں سرشار دل.... ان سب کو لوگ مٹی میں ملاچکے ہیں۔
صادق گھبراہٹ کے مارے کانپنے لگا.... غلطی میری ہے.... میں نے ثریا کو لکھا تھا کہ میں پچیس 25 کو آرہا ہوں، مگر سیٹ کنفرم نہیں ہوئی ہے۔ مجھے فوراً دوسرا خط بھیجنا چاہیے تھا۔ ذرا سی غلطی کیا ہوئی کہ لوگوں نے مجھے مارڈالا۔ پہلے میری موت کی تصدیق تو کرلیتے.... اور اس منیر کو دیکھو، میرا مذاق اُڑارہا ہے....
گھر میں کیسا کہرام مچا ہوگا۔ اس نے لرز کر سوچا۔ ابا دل کے مریض ہیں، امی کو ہائی بلڈ پریشر ہے اور ثریا!.... آج ثریا تو غم کے مارے پاگل ہوگئی ہوگی۔ ثریا کو حاصل کرنے کے لیے اس نے پانچ برس تک اس کے باپ کی خوشامد کی تھی، اور پھر اپنے نام کے ساتھ کلرکی کا داغ مٹانے کے لیے وہ گھر سے اتنی دور آگیا تھا۔ ماں باپ، بیوی بچوں کو چھوڑ کر صحرا میں اکیلا، ریت کے ذرے کی طرح تپ رہا تھا۔ دوزخ کی طرح بھڑکتی ہوئی لوہے کی بھٹی میں وہ دن بھر کام کرکے نکلتا تو چہرہ سرخ ہوجاتا تھا۔ ہاتھ پاؤں کانپتے تھے۔ رات دوسری دوزخ میں گزارنا پڑتی۔ عرب کی جان لیوا گرمی میں وہ ریت کے اوپر ٹینٹ کے نیچے ساری رات گزار دیتا تھا۔ اپنے خاندان کو سکھ کی چھاؤں میں بٹھانے کے لیے وہ سوتے جاگتے ان دنوں کے خواب دیکھا کرتا، جب ثریا اس کے ساتھ ہوگی اور دونوں بچے اس کی گود میں بیٹھے ہوں گے، وہ اپنے گھر میں فوم کے گدے پر پنکھے کے نیچے لیٹاہوگا۔
اس کا گھر، اس کی جنت تھا۔ چھٹیوں میں گھر جاتا تھا تو جی چاہتا کہ سارا دن بستر پر لیٹا رہے۔ چھٹیاں ختم ہونے کے خیال سے جی گھبراتا تھا۔
‘‘ایک ہفتے کی چھٹی اور بڑھالوں گا’’۔ وہ خوش ہوکر ثریا سے کہتا۔
‘‘کتنی تنخواہ کٹ جائے گی....’’ ثریا گھبرا کر پوچھتی۔
‘‘کٹنے دو.... تمہیں اور بچوں کو چھوڑ کر جانے کو جی نہیں چاہتا’’۔ وہ منے کو بانہوں میں بھینچ کر کہتا۔
اب ثریا بیوہ ہوگئی ہے.... میں اس کے لیے مرگیا ہوں۔ گھبرا کر اس نے ثریا کے تصور کو دور دھکیلا۔
سامنے سعودی ایئر لائن کا کیلنڈر لگا تھا۔ جدہ ایئرپورٹ کی شاندار عمارت اندھیرے میں جگمگارہی تھی۔ یہ روشنیاں آج ہر نوجوان کے خوابوں میں جھلملاتی ہیں۔ صادق نے بھی چھ برس تک دھکے کھائے تھے یہاں پہنچنے کے لیے ۔ نوکری دلانے کے لیے ایجنٹوں نے چکمے دیے۔ عزیز رشتے داروں نے برسوں نوکری دلانے کے بہانے اپنے آگے جھکائے رکھا۔ ثریا نے دن رات غریبی کے طعنوں سے کلیجہ چھلنی کیا۔ اماں ابا کو اس سے بڑھ کر کوئی ناخلف نظر نہیں آتا تھا۔
اس کے پڑوسی اکرم صاحب دبئی گئے تو اچانک ان کے سارے گھر کا رنگ نکھر گیا، ٹوٹا پھوٹا کھپریل کا کمر جھکا گھر سرسوں کے پودے کی طرح راتوں رات اوپر اُٹھتا چلا گیا۔ لائٹ چلی جاتی اور اکرم کے یہاں سے جب جنریٹر کی گھوں گھوں کی آواز گونجتی تو صادق کو جانے کیوں غصہ آنے لگتا۔ ان کے یہاں گرینڈر پر بادام پیسے جاتے تو اماں کی کمزوری بڑھ جاتی۔ ثریا نے اکرم کی بیوی سے دوستی ختم کردی۔ جاپان کی ساڑھیاں، چمکتی ہوئی میکسیاں پہن کر جی کیوں جلاتی ہے وہ....
مگر اب کیا ہوگا....؟
کہیں ابا صدمے سے مر نہ جائیں....!
وہ بھاگتا ہوا باس کے کمرے میں پہنچا۔ ‘‘سر! مجھے ایک ارجنٹ کال انڈیا کے لیے بک کرنا ہے’’۔
‘‘کیوں خیریت تو ہے نا....؟’’
صادق کے آنسوؤں سے بھیگا ہوا چہرہ دیکھ کر اس کا امریکن باس گھبراگیا۔ کہیں ماں کے مرنے کی جھوٹی خبر سنا کر ایک مہینے کی چھٹی نہ مانگ بیٹھے۔ وہ ان ہندوستانی کامچور چھوکروں کی رگ رگ سے واقف تھا۔
‘‘کیا بتاؤں سر.... عجیب بات ہوگئی ہے’’۔ صادق نے ہکلاتے ہوئے کہا ‘‘وہ جو طیارے کا حادثہ ہوا ہے۔ میں اسی طیارے میں انڈیا جانے والا تھا.... میرے مرنے کی اطلاع میرے گھر پہنچ گئی ہے’’... با ت ختم کرکے وہ روپڑا۔ جیسے اپنی موت کا دکھ اس کے لیے ناقابل برداشت ہو۔
‘‘ ہاہا ہا..... فنٹاسٹک’’ بوڑھا امریکن ہنسنے لگا۔
‘‘تم کیوں گھبرارہے ہو.... ابھی فون مت کرو.... ذرا اپنے مرنے کا تماشہ دیکھو’’....
اس کے باس نے فون اُٹھا کر اپنے پاس رکھا اور جھک کر فائلیں اُلٹ پلٹ کرنے لگا۔
اپنے مرنے کا تماشہ دیکھوں، ہونہہ! یہ بےمروت سفید چمڑی والا امریکن.... یہ کیا جانے کہ اس وقت میرے گھر میں کیسی قیامت مچی ہوگی۔ یہ کم بخت تو اپنے بوڑھے ماں باپ کو کسی ‘‘آرام گھر’’ پہنچادیتے ہیں۔ اب تک نہ جانے کتنی بیویوں کو طلاق دے چکا ہوگا۔ جانے اس کے کتنے بچے یتیم خانوں میں پل رہے ہوں گے۔
‘‘سر مجھے ڈر لگ رہا ہے’’۔ وہ بے بسی سے ہاتھ ملتے ہوئے آہستہ سے بولا۔ ‘‘میری بیوی کہیں صدمے سے جان نہ دے دے’’.....
‘‘اوہ آئی سی!....’’ بوڑھے امریکن نے عینک ماتھے پر سر کا کر اسے بہ غور دیکھا۔ ‘‘تو کیا انڈیا میں مسلم عورت کو بھی ستی کردیا جاتا ہے’’۔ اس نے آنکھیں پھاڑ کر پوچھا۔
‘‘ابے چپ!’’صادق نے دل ہی دل میں اسے گالی دی۔
میرے بغیر بھلا ثریا کے لیے بھی اب دنیا میں کیا رہ جائے گا....؟ وہ کتنے محبت بھرے خط لکھتی ہے....صادق کے سامنے بال بکھرائے، سفید کپڑے پہنے، سونی کلائیاں لیے ثریا آگئی، جو رو رو کر دیواروں پر اپنا سر پٹک رہی تھی اور سارے رشتے دار اسے تھامے بیٹھے تھے....اسے تھامے رہو، میرے آنے تک کہیں وہ اپنے کپڑوں کو آگ لگا کر نہ مرجائے....!
اپنی موت کے صدمے سے خود ہی اس کا کلیجہ دہل رہا تھا۔ اب تک ثریا اپنی ہری، پیلی، نیلی ساڑھیاں، زیور میک اپ کا سامان جلاچکی ہوگی۔ ابا کو کسی طرح ہوش نہ آرہا ہوگا۔
صادق گھبرا کر پھر ٹیلی فون بوتھ کی طرف بھاگا۔ مگر انڈیا کی لائن نہیں ملی ۔
‘‘اپنے مرنے کا تماشہ دیکھو’’.... بار بار امریکن باس کی بات اسے یاد آرہی تھی۔
فون کون اُٹھائے گا؟....
ثریا....؟
مگر وہ تو غم کی شدت سے بے ہوش ہوگی....؟
امی....؟ انہیں تو اب تک کسی کلینک میں داخل کردیا گیا ہوگا....
ابا....؟
بھلا اپنے اکلوتے بیٹے کے مرنے کی خبر سننے کے بعد کیا ابا اب تک زندہ ہوں گے....!؟
چھ سال پہلے جب وہ گھر سے پہلی بار چلا تھا تو اس کے گھر کی چھتیں امی کی آنکھوں کی طرح ٹپک رہی تھیں۔ دیواریں ثریا کے پھٹے کپڑوں کی طرح میلی اور بدصورت تھیں۔ جہاز پر سوار ہونے سے پہلے وہ بار بار اپنے دوست عمران کا ہاتھ پکڑ کر کہہ رہا تھا....
‘‘ گھر کا خیال رکھنا۔ ابا کے پاس آتے جاتے رہنا....’’
سچ مچ عمران نے اس گھر کو سنبھال لیا۔ ابا ہر خط میں لکھتے.... ‘‘عمران بالکل تمہاری طرح ہم سب کا خیال رکھتا ہے، بجلی کا بل، گھر کا ٹیکس، بچوں کی فیس،اور ان کی نازبرداری، ہر ذمے داری اس نے اپنے سر لے لی تھی... یہاں تک کہ اماں اور ثریا کے درمیان پیسہ خرچ کرنے پر جو آئے دن کھٹ پٹ ہوتی تھی، وہ جھگڑے بھی عمران کو طے کرنا پڑتےہیں....’’
دو برس بعد ایئر پورٹ کے لاؤنج میں سب سے پہلے اسے عمران نظر آیا تھا، جو اس کے بچے کو گود میں سنبھالے ہوئے تھا۔
دو برس تک صحرا کی خاک چھاننے کے بعد گھر کے نرم گدے پر لیٹنے کے بعد یوں لگا جیسے کسی اور کے گھر میں آگیا ہو۔ یہی گھر تو اس کےخوابوں میں بسا ہوا تھا۔ یہی تو اس کی زندگی کا آورش تھا۔ جی چاہتا صبح بستر سے نہ اُٹھے.... کوئی اس کے سامنے واپس جانے کا نام نہ لے۔
‘‘بس اب کی بار اوور ٹائم کرکے خوب پیسے کما کر لوٹوں گا تو پھر کہیں نہیں جاؤں گا گھر چھوڑ کر ....’’
مگر اوور ٹائم کے نام پر اسے پسینہ آجاتا تھا۔ دن بھر ماتھے سے پسینہ پونچھے بغیر کام کرنے کے بعد، تھوڑی دیر آرام کیے بغیر پھر کام میں جت جاؤ.... اور جب رات کے بارہ بجے لیٹو تو کمر ٹیڑھی ہوجاتی۔ ہاتھ پیر کانپنے لگتے، مگر صبح پانچ بجے اُٹھنے کا خوف سونے بھی نہیں دیتا تھا۔
‘‘لو .... آخر جانے کا منحوس دن آگیا’’۔
اماں اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہتیں‘‘خیریت سے پہنچو۔ ’’
‘‘اب کی بار میرے لیے سونے کی چوڑیا لانا’’.... ثریا اٹھلاتے ہوئے کہتی۔
میرے لیے بادام... میرے لیے کپڑے.... گڑیا.......
بہت دنوں تک اس کا کام میں جی نہیں لگتا تھا۔ ثریا کتنی صحت مند ہوگئی ہے۔ بچے بڑے ہورہے ہیں۔ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ ثریا اسے خوابوں میں ملے.... بچوں کے فوٹو کو پیار کرکے جی.بہلائے ۔
اس نے پھر گھر فون کرنے کی کوشش کی۔
وہ جب بھی گھر جاتا تھا۔ اتنے دنوں کی جدائی پر ثریا اسے خوب جلاتی، ترساتی تھی۔ وہ جھوٹ موٹ اس سے ناراض ہوجاتی۔
‘‘اری دیکھو تو! میری جانو، تیرے لیے کیا لایا ہوں؟’’ وہ جیب میں سے سرخ کاغذ میں لپٹی ہوئی سنہری چوڑیاں نکالتا۔
‘‘اللہ ....یہ تو سونے کی ہیں!’’ وہ خوشی کے مارے اُچھل پڑتی اور چوڑیاں اس کے ہاتھ سے چھین کر باہر کی طرف بھاگتی۔
‘‘عمران .... عمران! ذرا دیکھو تو صادق میرے لیے کیا لائے ہیں’’۔ وہ چوڑیاں پہن کر اپنے گورے ہاتھ عمران کی طرف بڑھادیتی تھی۔
صادق نہال ہوجاتا تھا۔ اسی خوشی کی خاطر اوورٹائم کی تھکن اُتر جاتی تھی۔
ادھر اماں ابا اپنی صحت بنانے کی فکر میں گھلے جاتے تھے۔ ہر خط میں زیادہ پیسے بھیجنے کی فرمائش ہوتی۔ میوہ مٹھائیاں.... دودھ بادام....
سارا دن دونوں سوچتے رہتے کہ اب کیا کھائیں....
اس کے رونے کی آواز سن کر ٹینٹ میں سونے والے لوگ جاگ پڑے‘‘کیا ہوگیا؟... کیوں رو رہے ہو صادق بھائی؟’’
‘‘میں مر گیا ہوں...!’’ وہ چلانے لگا۔
‘‘یار! اس آدمی کا دماغ کچھ سرک گیا ہے آج...’’ وہ سب پھر سونے لگے۔
اب کی بار اس نے فون ملایا تو اپنے گھر میں گونجتی ہوئی بیل کی آواز سن کر وہ اُچھل پڑا....اپنےمرنے کا تماشہ دیکھوبوڑھا امریکن اس سے کہہ رہا تھا۔
‘‘میں ....میں صادق.... صادق کا دوست منیر بات کررہا ہوں’’۔
‘‘اچھا منیر بھائی ہیں... میں خود آپ کو فون کرنے والی تھی۔
(ثریا کتنی پرسکون معلوم ہورہی تھی.... نہیں یہ جھوٹ ہے، اس کے مرنے کی اطلاع گھر نہیں پہنچی ہے)
‘‘منیر بھائی! ذرا یہ معلوم کیجیے کہ صادق کے پراویڈنٹ فنڈ کا کتنا رُپیہ ہے....یہ سب روپیہ مجھے ملنا چاہیے’’۔
‘‘بہت بہتر.... اور کچھ ؟’’
گالوں سے بہتے ہوئے نمکین آنسوؤں نے اس کا منہ کڑوا کردیا۔
‘‘جی اور کچھ نہیں کہنا ہے.... بات یہ ہے کہ میری ساس اور خسر مجھ سے بہت لڑائی جھگڑے کررہے ہیں، روپے کے لیے.... میں بے چاری بیوہ’’...
بند کرو بکواس...!
اس نے فون پٹک دیا۔ اسے یوں لگا جیسے کسی نے اس کا دل چیر کر رکھ دیا ہو۔ وہ ہذیانی انداز میں خودکلامی کرنے لگا
‘‘خود غرض مکار عورت ! مجھ سے محبت کا ناٹک کھیلتی رہی۔ میرے ماں باپ کو بدنام کررہی ہے۔ کیا میری لاش کے سامنے بیٹھ کر اماں ابا میرے روپوں کو یاد کرسکتے ہیں! اس عورت کو اب طلاق دینی ہوگی۔ ابھی ابا سے بات کرتا ہوں’’....
غصے کے مارے اس کی سانس پھول رہی تھی، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ اس نے دوبارہ فون ملایا۔
‘‘ہیلو’’....
کہیں ابا اچانک میری آواز سن کر خوشی کے مارے مر ہی نہ جائیں! اس لیے اس نے ایک بار پھر اپنے دوست کا نام لیا۔
‘‘جی میں خالق بات کررہا ہوں، صادق کا دوست’’۔
‘‘جیتے رہو بیٹا’’...
ابا کی بے حد نحیف آواز آرہی تھی۔
‘‘ہم پر تو مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔ ہماری بہو صادق کا تمام روپیہ خود لینا چاہتی ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ ہم دونوں کا کھانا پینا’’....
‘‘جی...جی!’’ صادق کی آنکھوں سے پھر آنسوؤں کی دھار بہنے لگی۔
‘‘روپیہ؟’’ اس نے ہونٹ دانتوں سے کاٹے۔
‘‘میرے سامنے تو صادق کی لاش پڑی ہے۔ یہ بتائیے اس کا کیا کروں؟’’ یہ پوچھتے ہوئے اسے اپنی آواز اجنبی سی لگی تھی۔
‘‘اسے تم دفن کردینا بیٹا!’’ ابا نے بڑی شفقت سے کہا۔
ادیب، افسانہ نگار ، ناول نگار اور ڈرامہ نگار |
جیلانی بانو۔1935ء-تا حال |
بھارت میں اُردو ادب کی پہچان جیلانی بانو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ جیلانی بانو 14 جولائی 1936ء کو بدایوں (اُتر پردیش ) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد حیرت بدایونی کا شمار اپنے وقت کے معروف اُردو شعرا میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بچپن سے ان کا لگاؤ اُردو ادب کی جانب ہوگیا۔ جیلانی بانو نے اپنی پہلی کہانی ‘‘ ایک نظر ادھر بھی ’’ 1952ء میں تحریر کی، جسے خوب پذیرائی ملی۔ آپ کی شہرۂ آفاق تحریر ‘‘موم کی مریم’’ نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچادیا۔ آپ کی بیس سے زائد کتب شائع ہوچکی ہیں جن میں افسانوں کے مجموعے روشنی کے مینار، نروان، نغمے کا سفر، اور ناول ایوان غزل، بارشِ سنگ، جگنو اور ستارے، دُور کی آوازیں وغیرہ معروف ہیں .....شادی کے بعد آپ حیدرآباد دکن مقیم ہوگئیں ۔ جہاں افسانہ نگاری کے ساتھ حقوق نسواں کی تنظیم ‘‘اسمیتا’’ کی چئیر پرسن بھی ہیں۔ جیلانی بانو نے اپنی کہانیوں میں معاشرے کے غریب اور پسے ہوئے طبقے کو موضوع بنایا ہے۔ ان کی ادبی کاوشوں پر اُنہیں کئی اعزازات سے نوازا جن میں ہندستان کا اعلیٰ اعزاز پدم شری اور ساہتیہ اکیڈمی کا ادبی ایوارڈ بھی شامل ہے۔ ‘‘موم کی مریم’’ جیلانی بانو ہی کا نہیں، اردو افسانے کا بھی ایک آبرو مند نمائندہ ہے۔ جو پہلی مرتبہ رسالہ اور ادب لطیف (لاہور) میں شایع ہوا۔ |
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں