|
اردو کے ممتاز ادیب اور افسانہ نگار ممتاز مفتی کی ایک خوبصورت کہانی، بطورِ خاص.... |
آپی کہا کرتی تھی‘‘سنہرے ، سمے سمے کی بات ہوتی ہے۔ ہر سمے کا اپنا رنگ، اپنا اثر ہوتا ہے۔ اپنا سمے پہچان، سنہرے۔ اپنے سمے سے باہر نہ نکل۔ جو نکلی تو بھٹک جائے گی۔’’
اب سمجھ میں آئی آپی کی بات۔ جب سمجھ لیتی تو رستے سے نہ بھٹکتی، آلنے سے نہ گرتی۔ سمجھ تو گئی۔ پر کتنی دیر پڑی سمجھن کی۔ آپی مجھے سنہرے کہہ کر بلایا کرتی تھیں ۔ کہتی تھیں ‘‘تیرے پنڈے کی جھال سنہری ہے۔ جب رس آئے گا تو سونا بن جائے گی، کٹھالی میں پڑے بنا۔ پھر یہ جھال کپڑوں سی نکل نکل کر جھانکے گی۔’’
پتا نہیں میرا نام کیا تھا۔ پتا نہیں میں کس کی تھی، کہاں سے آئی تھی۔ کوئی لایا تھا ۔ بالپن ہی میں آپی کے ہاتھ بیچ گیا تھا۔ اِسی کی گود میں پلی، اِسی کی سرتال بھری بیٹھک کے جھولنے میں جھول جھول کر جوان ہوئی۔ پھر سنہرا اُمڈ اُمڈ آیا۔ چھپائے نہ چھپتا تھا۔ آپی بولی‘‘نہ دھیے، چھپا نہ۔ جو چھپائے نہ چھپے اِسے کیا چھپانا۔
کبھی کھڑکی سے جھانکتی تو آپی ٹوکتی ‘‘یہ کیا کر رہی ہے بیٹی ؟ سیانے کہتے ہیں جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ تیرا کام نہیں۔ دکھنا ہے تو نظر نہ بن، منظر بن۔ اور جو دیکھے بھی تو تو دُکھنے کا گھونگھٹ نکال ۔اِس کی اوٹ سے دیکھ، پھر سمے دیکھ سنہرے۔ ابھی تو شام ہے۔ یہ سمے تو اُداسی کا سمے ہے۔ دُکھ کا سمے ہے۔ شام بھئی گھن نہ آئے۔’’ آپی گنگنانے لگی ‘‘یاد ہے نا یہ بول؟ شام تو نہ آنے کا سمے ہے۔ تیرا آنے کا سمے ہے۔ پگلی ذرا رُک جا۔ اندھیرا گاڑھا ہونے دے۔ پھر تیرا ہی سمے ہوگا، پچھلے پہر تک…’’
ایک دن آپی کا جی اچھا نہ تھا۔ مجھے بلایا، گئی۔ لیٹی ہوئی تھی۔ سرہانے تپائی پر سوڈے کی بوتل دھری تھی۔ ساتھ نمک دانی تھی۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب سوڈے کی بوتل کے گلے میں شیشے کا گولا پھنسا ہوتا تھا، ٹھا کر کے کھلتا تھا۔
بولی‘‘سنہرے، بوتل کھول گلاس میں ڈال۔ چٹکی بھر نمک گھول اور مجھے پلا دے۔ میں نے نمک ڈالا تو جھاگ اُٹھا، بلبلے ہی بلبلے۔ آپی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ بولی ‘‘دیکھ لڑکی، یہ ہمارا سمے ہے۔ ہمارا سمے وہ ہے جب جھاگ اُٹھے۔ ہم میں نہیں، دوجے میں اُٹھے۔ دوجے میں جھاگ اُٹھانا یہی ہمارا کام ہے۔ خود شانت، دو جا بلبلے ہی بلبلے۔ جب تک جھاگ اُٹھتا رہے گا، ہمارے سمے۔ جب دوجا شانت ہو جائے، سمجھ لے ہمارے سمے بیت گیا اور جب سمے بیت جائے دھیرج پاؤں دھرنا۔ ٹھمک نہ کرنا ۔ ٹھمک کا سمے گیا۔ چمک نہ مارنا، چمک کا سمے گیا۔ پائل نہ جھنکارنا، پائل کی جھنکاربیرن بھئی۔’’
پھر وہ لیٹ گئی اور بولی‘‘سنہرے،میری باتیں پھینک نہ دینا، دل میں رکھنا۔ یہ بھیتر کی باتیں ہیں، اوپر کی نہیں، سنی سنائی نہیں، پڑھی پڑھائی نہیں۔ وہ سب چھلکے ہوتی ہیں، بادام نہیں ہوتیں۔ جان لے بیٹی بات وہ جو بھیتر کی ہو۔ گری ہو، چھلکا نہ ہوا۔ جو بیتی ہو، جگ بیتی نہیں۔ آپ بیتی ہو، ہڈ بیتی۔ باقی سب جھوٹ، دِکھلاوا بہلاوا۔
آج مجھے باتیں یاد آ رہی ہیں۔ بیتی باتیں۔ بسری باتیں۔ سانپ گزر گئے، لکیریں رہ گئیں، لکیریں ہی لکیریں۔ سانپ تو صرف ڈراتے ہیں، پھنکارتے ہیں۔ لکیریں کاٹتی ہیں، ڈستی ہیں۔ پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ لکیروں نے مجھے چھلنی کر رکھا ہے۔ چلتی ہیں، چلے جاتی ہیں جیسے دھار چلتی ہے۔ ایک ختم ہوتی ہے دوجی شروع ہو جاتی ہے ۔
آپی کی بیٹھک میں ہم تین تھیں۔ پیلی،روپا اور میں۔ پیلی بڑی، روپا منجھلی اور میں چھوٹی۔ پیلی میں بڑی آن تھی، پر مان نہ تھا۔ اس آن میں چھب تھی۔ سندرتا بھرا ٹھہراؤ تھا۔ یوں رُعب سے بھری رہتی جیسے مٹیار رس سے بھری رہتی ہے۔ گردن اُٹھتی رہتی، مورتی سمان۔
روپا سُر ہی سُر تھی۔ شدھ سر۔ تاروں سے بنی تھی۔ اُس کے بند بند میں تار لگے تھے۔ سرتیاں سمرتیاں اور وہ گونجنے مدھم میں گونجتے اور پھر سننے والوں کے دلوں کو جھلا دیتے تیجی میں تھی۔ آپی کہتی تھی ‘‘سنہرے، تجھ میں دُکھ کی بھیگ ہے ۔ تو بھگو دیتی ہے۔ خود بھی ڈوب جاتی ہے ، دوجے کو بھی ڈبو دیتی ہے پگلی دوجے کو ڈبویا کر، خود نہ ڈوبا کر۔ مجھے تجھ سے ڈر آتا ہے سنہرے۔ کسی دن تو ہم سب کو نہ لے ڈوبے۔
آپی کی بیٹھک کوئی عام بیٹھک نہ تھی کہ جس کا جی چاہا منہ اُٹھایا اور چلا آیا۔ بیٹھک پر دھن دولت کا زور تو چلتا ہی ہے ۔ وہ تو چلے گا ہی ہر بیٹھک پر۔ پر آپی نے برتاؤ کا ایسا رنگ چلا رکھا تھا کہ خالی دھن دولت کا زور نہ چلتا تھا۔ نو دولیتے آتے تھے پر ایسے بدمزہ ہو کر جاتے کہ پھر رُخ نہ کرتے۔ آپی کی بیٹھک میں نگاہیں نہیں چلتی تھیں۔اُس نے ہمیں سمجھا رکھا تھا کہ لوگ نگاہوں پر اُچھالیں گے تو پڑے اُچھالیں۔ لڑکیو تم نہ اُچھلنا۔ جو نگاہوں پر اُچھل جاتی ہیں وہ منہ کے بل گرتی ہیں اور جو گر گئی وہ سمجھ لو، نظروں سے گر گئی ۔ پھر نہ اپنے جوگی رہی نہ دوسروں جوگی۔
آپی کی بیٹھک میں نظریں نہیں چلتی تھیں۔ کان لگے رہتے تھے۔ دل دھڑکتے تھے۔ وہاں ملاپ کا رنگ نہ ہوتا تھا۔ برہا کا ہوتا۔ رنگ رلیاں نہیں ہوتی تھیں، نہ وہاں تماشا ہوتا نہ تماش بین ۔ مجھے وہ دِن یاد آتے ہیں جب ہمارے ہاں ٹھاکر کی بیٹھک لگتی تھی۔ دومہینے میں ایک بار ضرور لگتی تھی۔ ٹھاکر کی بیٹھک لگتی تو کوئی دوجا نہیں آ سکتا تھا۔ صرف ٹھا کر کے سنگی ساتھی۔
ٹھاکر بھی تو عجب تھا۔ اوپر سے دیکھو تو ریچھ۔ طاقت سے بھرا ہوا۔ اندر جھانکو تو بچہ۔ نرم نرم، گرم گرم، ویسے تھا آن بھرا مان بھرا۔ سنگیت کا رسیا۔ یوں لگتا جیسے بھیتر کوئی لگن لگی ہو۔ دھونی رمی ہو،آرتی سجی ہو۔
ٹھاکر کی ہمارے ہاں بڑی قدر تھی۔ آپی عزت کرتی تھی، بھروسا کرتی تھی۔ ٹھاکر نے بھی کبھی نظر اُچھالی نہ تھی۔ جھکائے رکھتا۔ پیتا ضرور تھا، پر ایسی کہ جوں جوں پیتا جاتا اُلٹا مدھم پڑتا جاتا۔ آنکھ کی چمک گل ہو جاتی۔ آواز کی کڑک بھیگ جاتی۔ اس کا نشہ ہی انوکھا تھا۔ جیسے بوتل کا نہ ہو۔ بھیتر کا ہو۔ بوتل اِک بہانہ ۔ بوتل چابی ہو بھیتر کے پٹ کھولنے کی۔
ڈرو سیکھو ڈرو بھیتر کے نشے سے ڈرو۔ بھیتر کے نشے کے سامنے بوتل کا نشہ یوں ہاتھ جوڑے کھڑا ہے جیسے راجہ کے روبرو نیچ کھڑا ہو۔ بوتل کا تو خالی سر چکراتا ہے۔ بھیتر کا من کا جھولنا جھلا دیتا ہے ۔ ڈرو سکھیو ڈرو بھیتر کے نشے سے ڈرو، بوتل کا تو کام کاج جوگا نہیں چھوڑتا۔ بھیتر کا کسی جوگا نہیں چھوڑتا۔ خود جوگا بھی نہیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ ٹھاکر کے نشے کا ریلا مجھے بھی لے ڈوبے گا۔
ہاں تو اُس روز ٹھاکر کی بیٹھک ہو رہی تھی۔ بول تھے ‘‘گانٹھری میں کون جتن کر کھولوں۔ مورے پیا کے جیا میں پڑی رہی۔’’ گیت نے کچھ ایسا سماں باندھ رکھا تھا کہ ٹھاکر جھوم جھوم جا رہا تھا۔ پھر کہو، پھر بولو کا جاپ کیے جا رہا تھا۔ نہ جانے کس گرہ کو کھولن کی آرزو جاگی تھی۔ اپنے من یا محبوب کی من کی۔ سمے بیتا جا رہا تھا ۔ سمے کی سدھ بدھ نہ رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔ سمے جیون سے نکل جاتا ہے کہ کون ہیں، کیا کر رہے ہیں۔ کسی بات کی سدھ بدھ نہیں رہتی۔ اِس روز وہ سمے ایسا ہی سمے تھا۔
دفعتاً گھڑی نے تین بجائے ۔ آپی ہاتھ جوڑے اُٹھ بیٹھی۔ بولی ‘‘شماکرو ٹھاکر جی۔ معافی مانگتی ہوں۔ ہمارا سمے بیت گیا۔ اب بیٹھک ختم کرو۔’’
ٹھاکر پہلے تو چونکا پھر مسکایا ‘‘نہ آپی، ابھی تو رات بھیگی ہے۔’’ آپی بولی ‘‘ٹھاکر ہم سوکھے پروں والے پنچھی ہیں۔ جب رات بھیگ جاتی ہے تو ہمارا سمے بیت جاتا ہے۔ جو ہمارے پر بھیگ گئے تو اُڈاری نہ رہے گی۔ فنکار میں اُڈاری نہ رہے تو باقی رہا کیا؟’’ ٹھاکر نے بڑی منتیں کیں، آپی نہ مانی۔
محفل ٹوٹ گئی تو ہم تینوں آپی کے گرد ہو گئیں۔ ‘‘آپی یہ سمے کا گورکھ دھند کیا ہے؟’’ آپی بولی ‘‘لڑکیو!سمے بڑی چیز ہے، ہر کام کا الگ سمے بنا ہے۔ رات کو گاؤ، بجاؤ، پیو پلاؤ، ملو ملاؤ، موج اُڑاؤ۔ بس تین بجے تک۔ پھر بھور سمے اُس کا سمے ہے۔اُس کا نام جپو۔ اِسے پکارو، فریاد کرو، دُعائیں مانگو، سجدے کرو۔ اِس سمے میں تم عیش نہیں کر سکتے، گناہ نہیں کر سکتے، قتل نہیں کر سکتے۔ یہ دھندا جو ہمارا ہے اِس کے سمے میں نہیں چل سکتا۔ اِس کے سمے میں پاؤں نہ دھرنا۔ اُس نے برا مانا تو ماری جاؤ گی۔ جو وہ راضی ہو گیا تو بھی ماری جاؤ گی اور دیکھو اُس کے سمے کے نیڑے نیڑے بھی ایسا گیت نہ گانا جو اُسے پکارے۔ بھجن نہ چھیڑنا۔ ڈرو کہیں وہ تمہاری پکار سن کر ہنکارا نہ بھر دے۔
پھر وہ دن آ گیا جب میں نے اَنجانے میں سمے کا بندھن توڑ دیا۔ اُس روز ٹھاکر آئے۔ آپی سے بولے ‘‘بائی کل خواجہ کا دن ہے۔ خواجہ کی نیاز سارے گاؤں کو کھلاؤں گا۔ آج رات خواجہ کی محفل ہوگی اُدھر حویلی میں۔ صرف اپنے ہوں گے، گھر کے لوگ۔ تجھے لینے آیا ہوں، چل میرے ساتھ میرے گاؤں۔’’
آپی سوچ میں پڑ گئی اور بولی‘‘روپا ماندی ہے، وہ تو نہیں جا سکے گی، کسی اور دن رکھ لیتا نذر نیاز ۔’’
‘‘خواجہ کا دن میں کیسے بدلوں؟’’ وہ بولا۔
‘‘تو کسی اور منڈلی کو لے جا۔’’
‘‘اونہوں!’’ ٹھاکر نے منہ بنا لیا۔ خواجہ کی بات نہ ہوتی تو لے جاتا ان کے نام لینے کے لائق مکھ تو ہو۔
‘‘میںکس لائق ہوں جو اُن کا نام منہ پر لگاؤں۔’’
‘‘بس اک تیری ہی بیٹھک ہے بائی جہاں پوترتا ہے۔ جہاں جسم کا نہیں من کا ٹھکانا ہے۔’’
آپی مجبور ہو گئی۔ اُس نے روپا کا دھیان رکھنے کے لیے پیلی کو وہاں چھوڑا اور مجھے لے کر ٹھاکر کے گاؤں چلی گئی۔
رات بھر وہاں حویلی میں خواجہ کی محفل لگی۔ وہ تو گھریلو محفل تھی۔ ٹھاکر کی بہنیں، بہوئیں، بیٹیاں، ٹھاکرانی سب بیٹھے تھے۔ وہ تو سمجھ لو بھجن منڈلی تھی اور خواجہ کے گیت ‘‘خواجہ میں تو آن کھڑی تورے دوار’’ سے شروع ہوئی تھی۔
آدھی رات کے سمے محفل اِتنی بھیگی کہ سب کی آنکھیں بھر آئیں، دِل ڈوبے۔ آپی کا ڈوب ہی گیا۔ ٹھاکر اِسے محفل سے اُٹھا کر اندر لے گیا۔ شربت شیرا پلانے کو ۔ پھر وہیں لٹا دیا۔
‘‘پھر خواجہ کے گیت چلے تو میں بھی بھیگ گئی۔ آنکھیں بھر بھر آئیں۔ میں حیران، میں تو کچھ مانگ نہیں رہی۔ میں تو التجا نہیں کر رہی۔ میں تو اِک تاجر ہوں۔ پیسہ کمانے کے لیے آئی ہوں۔ میری آنکھیں کیوں بھر بھر آئیں خواہ مخواہ۔ سو میں بنا سوچے سمجھے گائے چلی گئی۔آنکھیں بھر بھر آتی رہیں۔ دل کو کچھ کچھ ہوتا رہا، پر میں بھیگ بھیگ کر گاتی گئی۔ سمے بیت گیا اور مجھے دھیان ہی نہ آیا کہ میں ان کے سمے میں پاؤں دھر چکی ہوں۔ آپی تھی نہیں جو مجھے ٹوکتی۔
اور مجھے کیا پتا تھا کہ خواجہ کون ہے۔ میں نے تو صرف نام سن رکھا ہے۔ اُس کے گیت یاد کر رکھے تھے۔ میں صرف یہ جانتی تھی کہ وہ غریب نواز ہے۔ میں تو غریب نہ تھی۔ مجھے کیا پتا کہ مجھے بھی نواز دے گا خواہ مخواہ زبردستی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ اِس میں اِتنی بھی سدھ بدھ نہیں کہ کون پکار رہا ہے، کون گا رہا ہے، کون منگتا ہے، کون خالی جھولی پھیلا رہا ہے۔ کون جھولی سمیٹ رہا ہے۔ میں تو یہی سنتی آئی تھی کہ دُکھی لوگ پکار پکار کر ہار جاتے ہیں، پر کوئی سنتا نہیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ اتنا دیالو ہے، اِتنا نیڑے ہے، اِتنے کان کھڑے رکھتا ہے۔
پھر ٹھاکر بولا‘‘سنہری بائی، بس اِک آخری فرمائش ۔ خواجہ پیا موری رنگ دے چنریا۔ ایسی بھی رنگ دے رنگ نہ چھوٹے۔ دھوبیا دھوئے جائے ساری عمریا۔’’
پھر مجھے سدھ بدھ نہ رہی۔ ایسی رنگ پچکاری چلی کہ میں بھیگ بھیگ گئی اور میں ہیں نہیں ساری محفل رنگ رنگ ہو گئی۔ انگ انگ بھیگا۔ خواجہ نے رنگ گھاٹ بنا دیا۔
گھر پہنچی تو گویا میں ، میں نہ تھی۔دِل رویا رویا، دھیان کھویا کھویا۔ کسی بات میں چت نہ لگتا۔ بیٹھک بیگانہ دِکھتی۔ ساز میں طرب نہ رہا۔ سارنگی روئے جاتی۔ اُستاد نکو خاں بجاتے پر وہ روئے جاتی۔ طبلہ سر پیٹتا، گھنگھرو کہتے پاؤں میں ڈال اور بن کو نکل جا۔ وہاں اِس کا جھومر ناچ جو پتے پتے ڈال ڈال سے جھانک رہا ہے۔
روز دن میں تین چار بار ایسی رقت طاری ہوتی کہ بھیں بھیں کر روتی۔پھر حال کھیلنے لگتی۔ پیلی حیران، روپا کا منہ کھلا، آپی چپ۔ یہ کیا ہو رہا ہے جب آٹھ دِن یہی حالت رہی بلکہ اور بگڑ گئی تو آپی بولی‘‘بس پتر، تیرا اِس بیٹھک سے بندھن ٹوٹ گیا۔ دانا پانی ختم ہو گیا۔ تو نے اِس کے سمے میں پاؤں دھر دیا۔ اُس نے تجھے رنگ دیا۔ اب تو اِس دھندے جوگی نہ رہی۔
‘‘پر کہاں جاؤں آپی؟ اِس بیٹھک سے باہر پاؤں دھرنے کی کوئی جگہ بھی ہو میرے لیے۔’’
‘‘جس نے بلایا ہے اِس کے دربار میں جا۔’’ روپا بولی۔
‘‘اِس بھیڑ میں جائے۔’’آپی بولی‘‘یہ لڑکی جائے جس کا سنہری پنڈا کپڑوں سے باہر جھانکتا ہے۔ نہیں یہ کہیں نہیں جائے گی۔ اِسی کوٹھڑی میں رہے گی، بیٹھک میں پاؤں نہیں دھرے گی۔’’
‘‘پھر پتا نہیں کیا ہوا۔ رقت ختم ہو گئی۔ دل میں ایک جنون اُٹھا کہ کسی کی ہو جاؤں، کسی ایک کی۔ تن من دھن سے اُسی کی ہو جاؤں۔ ہو رہوں۔ وہ آئے تو اُس کے جوتے اُتاروں، پنکھا کروں، پاؤں دابوں، سر میں تیل مالش کروں، اُس کے لیے پکاؤں، میز لگاؤں، برتن رکھوں، اُس کی بنیانیں دھوؤں، کپڑے اِستری کروں، آرسی کا کول بناؤں پھر سرہانے کھڑی رہوں کہ کب جاگے ، کب پانی مانگے۔
‘‘ایک دن آپی بولی‘‘اب کیا حال ہے دھیے؟’’ میں نے رو رو کر ساری بات کہہ دی کہ کہتے ہیں کسی ایک کی ہو جا۔
‘‘بولی وہ کون ہے؟کوئی نظر میں ہے کیا؟’’
‘‘اونہوں کوئی نظر میں نہیں۔’’
‘‘ناک نقشہ دِکھتا ہے کبھی۔’’
‘‘نہیں آپی۔’’
‘‘کوئی بات نہیں’’ وہ بولی ‘‘جو کھونٹی پر لٹکانا مقصود ہے تو آپ کھونٹی بھیجے گا۔’’
دس ایک دن بعد جب بیٹھک راگ رنگ سے بھری ہوئی تھی تو میری کوٹھڑی کا دروازہ بجا۔ آپی داخل ہوئی ۔ خواجہ نے کھونٹی بھیج دی۔ اب بول کیا کہتی ہے؟’’
‘‘کون ہے؟’’میں نے پوچھا۔
‘‘کوئی زمیندار ہے، اُدھیڑ عمر کا۔ کہتا ہے بس ایک بار بیٹھک میں آیا اور سنہری بائی کو سنا تھا ۔ جب سے اب تک اُس کی آواز گانوں میں گونجتی ہے۔ دل کو بہت سمجھایا۔ توجہ ہٹانے کے بہت جتن کیے، کوئی پیش نہیں گئی۔ اب ہار کے تیرے در پر آیا ہوں۔ بول تو کیا کہتی ہے؟ منہ مانگا انعام دوں گا۔
میں نے کہا ‘‘دے دے۔ سال کے لیے بخش دے، جیسے تیری مرضی۔’’ آپی ہنسنے لگی۔ پھر بولی ‘‘چل بیٹھک میں اِسے دیکھ لے ایک نظر۔’’
‘‘اونہوں۔’’ میں نے سر ہلا دیا۔
‘‘نہیں آپی ، اُنہوں نے بھیجا ہے تو ٹھیک ہے۔ دیکھنے کا مطلب؟’’
‘‘کتنی دیر کے لیے مانوں؟’’
‘‘جیون بھر کے لیے۔’’
‘‘سوچ لے، جو اوباش نکلا تو؟’’
‘‘پڑا نکلے۔ کیسا بھی ہے، جیسا بھی نکلے۔’’
‘‘اگلے دن بیٹھک میں ہمارا نکاح ہو گیا۔ زمیندار نے پیسے کا ڈھیر لگا دیا۔ آپی نے رو کر لوٹا دیا۔
بولی‘‘سودا نہیں کر رہی،اپنی دھی وداع کر رہی ہوں اور یاد رکھ!یہ خواجہ کی امانت ہے، سنبھال کر رکھیو۔’’
حویلی یوں اُجڑی تھی جیسے دیو پھر گیا ہو۔
ویسے تو سبھی کچھ تھا ۔ سازو سامان، آرائش، قالین، صوفے، قد آدم آئینے، جھاڑ فانوس سبھی کچھ۔ پھر بھی حویلی بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔
‘‘برآمدے میں آرام کرسی پر چھوٹی چودھرانی بیٹھی ہوئی تھی۔ سامنے تپائی پر چائے کے برتن پڑے تھے، مگر اِسے خبر ہی نہ تھی کہ چائے ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ اِسے تو خود کی سدھ بدھ نہ تھی کہ کون ہے، کہاں ہے، کیوں ہے۔
اوپر سے شام آ رہی تھی۔ سمے کو سمے ٹکراتی۔ اُداسیوں کے جھنڈے گاڑتی۔یادوں کے دیے جلاتی۔ بیتی باتوں کے الاپ گنگناتی۔ دبے پاؤں، مدھم، یوں جیسے پائل کی جھنکار بیرنیا ہو۔
دُور، اپنے کوارٹر کے باہر کھاٹ پر بیٹھے ہوئے چوکیدار کی نگاہیں چھوٹی چودھرانی پر جمی ہوئی تھیں۔ حقے کا سونٹا لگتا اور پھر سے چھوٹی چودھرانی کو دیکھنے لگتا۔ یوں جیسے اِسے دیکھ دیکھ کر دُکھی ہوا جا رہا ہو۔
دوسری جانب گھاس کے پلاٹ کے کونے پر بوڑھا مالی پودوں کی تراش خراش میں لگا تھا۔ ہر دو گھڑی بعد سر اُٹھاتا اور چھوٹی چودھرانی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھ جاتا۔ پھر چونک کو لمبی ٹھنڈی سانس بھرتا اور پھر سے کانٹ چھانٹ میں لگ جاتا۔
جنت بی بی ، جو چھوٹی چودھرانی کا کھانا پکاتی تھی، دو تین بار برآمدے کے پرلے کنارے پر کھڑی ہو کر اِسے دیکھ گئی تھی۔ جب دیکھتی تو اِس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں۔ پلو سے پونچھتی پھر لوٹ جاتی۔
سارے نوکر کمین چھوٹی چودھرانی پر جان چھڑکتے تھے۔ اِس کے غم میں گھلے جا رہے تھے لیکن ساتھ ہی وہ اِس پر سخت ناراض بھی تھی۔ اِس نے اپنے دونوں پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماری تھی؟ کیوں خود کو دوجوں کا محتاج بنا لیا تھا؟کیوں! اپنی اولاد ہوتی تو پھر بھی سہارا ہوتا۔ اپنی اولاد تو تھی نہیں۔
جب چودھری مرنے سے پہلے بقائمی ہوش و حواس اپنی آدھی غیر منقولہ جائیداد چھوٹی چودھرانی کے نام کر گیا تھا تو اِسے کیا حق تھا کہ اپنا تمام تر حصہ بڑی چودھرانی کے دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دے ۔ اگر ایک دن بڑی چودھرانی نے اِسے حویلی سے نکال باہر کیا تو وہ کیا کرے گی؟ کس کا در دیکھے گی۔
ایک طرف تو اِتنی بے نیازی کہ اِتنی بڑی جائیداد اپنے ہاتھ سے بانٹ دی اور دوسری طرف یوں سوچوں میں گم تصویر بن کر بیٹھی رہتی ہے ۔ سارے ہی نوکر حیران تھے کہ چھوٹی چودھرانی کس سوچ میں کھوئی رہتی ہے۔ چودھری کو مرے ہوئے تین ماہ ہو گئے تھے۔ جب سے یونہی حواس گم قیاس گم بیٹھی رہتی ہے اور پھر ٹوٹتی رات سمے اِس کے کمرے سے گنگنانے کی آواز کیوں آتی ہے؟ کس خواجہ پیا کو بلاتی ہے؟ خواجہ پیا موری لیجو خبر یا۔ کون خبر لے؟ کیسی خبر لے؟ چھوٹی چودھرانی پر اُنہیں پیار ضرور آتا تھا پر اِس کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ پتا نہیں چلتا تھا کہ کس سوچ میں پڑی رہتی ہے۔
چھوٹی چودھرانی کو صرف ایک سوچ لگی تھی۔ اندر سے ایک آواز اُٹھتی۔ بول تیرا جیون کس کام آیا؟ وہ سوچ سوچ ہار جاتی پر اِس سوال کا جواب ذہن میں نہ آتا۔ اُلجھے اُلجھے خیال اُلجھاتے۔ مجھے چمن سے اکھیڑا۔ بیل بنا کر اِک درخت کے گرد گھما دیا اور اب اِس درخت کو اکھیڑ پھینکا۔ بیل مٹی میں مل گئی ۔ اب یہ کس کے گرد گھومے؟ بول میرا جیون کس کام آیا؟
دفعتاً اِس نے محسوس کیا کہ کوئی اُس کے رُوبرو کھڑا ہے۔ سامنے گاؤں کا پٹواری کھڑا تھا۔
‘‘کیا ہے۔’’ وہ بولی۔
‘‘میں ہوں پٹواری، چھوٹی چودھرانی جی۔’’
‘‘تو جا، جا کر بڑی چودھرانی سے مل، مجھ سے تیرا کیا کام؟’’
‘‘آپ ہی سے کام ہے۔’’ وہ بولا۔
‘‘تو بول کیا کہتا ہے؟’’
‘‘گاؤں میں دو درویش آئے ہیں۔ گاؤں والے چاہتے ہیں انہیں چند دن یہاں روکا جائے۔ جو آپ اِجازت دیں تو آپ کے مہمان خانے میں ٹھہرا دیں۔’’
‘‘ٹھہرا دو۔’’ وہ بولی۔
‘‘نوکرچاکر، بندوبست۔’’ وہ رُک گیا۔
‘‘سب ہو جائے گا۔’’
پٹواری سلام کر کے جانے لگا تو پتا نہیں کیوں اُس نے سرسری طور پر پوچھا ‘‘کہاں سے آئے ہیں۔’’
پٹواری بولا‘‘اجمیر شریف سے آئے ہیں۔ خواجہ غریب نواز کے فقیر ہیں۔’’ اِک دھماکا ہوا ۔ چھوٹی چودھرانی کی بوٹیاں ہوا میں اُچھلیں۔
اگلی شام چھوٹی چودھرانی نے جنت بی بی سے پوچھا ‘‘جنت، یہ جو درویش ٹھہرے ہوئے ہیں، ان کے پاس گاؤںوالے آتے ہیں کیا؟
جنت بولی‘‘لو چھوٹی چودھرانی، وہاں تو سارا اُن لوگوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ بڑے پہنچے ہوئے ہیں، جو منہ میں سے کہتے ہیں ، ہو جاتا ہے۔’’
‘‘تُو تیار ہو جا جنت ، ہم بھی جائیں گے۔ تُو اور میں۔’’
‘‘چودھرانی جی وہ مغرب کے بعد کسی سے نہیں ملتے۔’’
‘‘تُو چل تو سہی۔’’ چودھرانی نے خود کو چادر میں لپیٹتے ہوئے کہا ‘‘اور دیکھا وہاں مجھے چودھرانی کہہ کر نہ بلانا۔ خبردار…!’’
جب وہ مہمان خانے پہنچیں تو دروازہ بند تھا۔ جنت نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کون ہے؟ اندر سے آواز آئی۔ جنت نے پھر دستک دی۔ سفید ریش بوڑھے خادم نے دروازہ کھولا۔ جنت زبردستی اندر داخل ہو گئی۔ پیچھے پیچھے چودھرانی تھی۔ سفید ریش گھبرا گیا اور بولا‘‘سائیں بادشاہ مغرب کے بعد کسی سے نہیں ملتے۔ وہ اِس وقت کمرے میں مشغول ہیں۔
‘‘ہم سائیں بادشاہ سے ملنے نہیں آئے۔’’ چھوٹی چودھرانی بولی۔
‘‘تو پھر؟’’ سفید ریش گھبرا گیا۔
‘‘ایک سوال پوچھنا ہے۔’’ چودھرانی نے کہا۔
‘‘سائیں بابا اِس سمے سوال کا جواب نہیں دیں گے۔’’
‘‘سائیں بابا نے جواب نہیں دینا۔ اُنہوں نے پوچھنا ہے۔’’ وہ بولی۔
‘‘کس سے پوچھنا ہے؟’’ خادم بولا۔
‘‘اس سے پوچھنا ہے جس کے وہ بالکے ہیں۔’’ یہ سن کر سفید ریش خادم سن کر کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
‘‘ان سے پوچھو۔’’ چھوٹی چودھرانی نے کہا ‘‘ایک عورت تیرے دروازے پر کھڑی پوچھی رہی ہے کہ غریب نواز بتا کہ میرا جیون کس کام آیا؟’’
کمرے پر منوں بوجھل خاموشی طاری ہو گئی۔
چھوٹی چودھرانی بولی‘‘کہو وہ عورت پوچھتی ہے، تو نے بیٹھک کے گملے سے اِک بوٹا اُکھیڑا۔ اِسے بیل بنا کر ایک درخت کے گرد لپیٹ دیا کہ جا اِس پر نثار ہوتی رہ ۔’’ وہ رُک گئی۔ کمرے کی خاموش اور گہری ہو گئی۔’’ اب تو میں نے اِس درخت کو اُکھیڑ پھینکا ہے۔ بیل مٹی میں رل گئی۔ وہ بیل پوچھتی ہے ۔ بول میرا جیون کس کام آیا؟’’ یہ کہہ کر وہ چپ ہو گئی۔
‘‘تیرا جیون کس کام آیا۔ تیرا جیون کس کام آیا۔’’ سفید ریش خادم کے ہونٹ لرزنے لگے۔’’
تُو پوچھتی ہے کہ تیرا جیون کس کام آیا ؟’’ وہ رُک گیا ۔ کمرے میں خاموش اِتنی بوجھل تھی کہ سہاری نہیں جاتی تھی۔
‘‘میری طرف دیکھ۔’’ سفید ریش خادم نے کہا‘‘سنہری بائی، میری طرف دیکھ کہ تیرا جیون کس کام آیا۔ مجھے نہیں پہچانتی؟ میں تیرا سارنگی نواز تھا۔ دیکھ میں کیا تھا کیا ہو گیا۔
چھوٹی چودھرانی کے منہ سے ایک چیخ نکلی ‘‘اُستاد جی آپ۔’’ وہ اُستاد کے چرن چھونے کے لیے آگے بڑھی۔
‘‘عین اُس وقت ملحقہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک بھاری بھر کم نورانی چہرہ برآمد ہوا۔ ‘‘سنہری بی بی! تیرا جیون کس کام آیا۔
چھوٹی چودھرانی نے مڑ کر دیکھا ۔
‘‘ٹھاکر۔’’ وہ چلائی۔
ٹھاکر بولا ‘‘اب ہمیں پتا چلا کہ سرکار نے ہمیں اِدھر آنے کا حکم کیوں دیا تھا۔’’ اُس نے سنہری بی بی کے سامنے اپنا سر جھکایا اور بولا ‘‘بی بی ہمیں آشیرباد دے۔’’
اب سمجھ میں آئی آپی کی بات۔ جب سمجھ لیتی تو رستے سے نہ بھٹکتی، آلنے سے نہ گرتی۔ سمجھ تو گئی۔ پر کتنی دیر پڑی سمجھن کی۔ آپی مجھے سنہرے کہہ کر بلایا کرتی تھیں ۔ کہتی تھیں ‘‘تیرے پنڈے کی جھال سنہری ہے۔ جب رس آئے گا تو سونا بن جائے گی، کٹھالی میں پڑے بنا۔ پھر یہ جھال کپڑوں سی نکل نکل کر جھانکے گی۔’’
پتا نہیں میرا نام کیا تھا۔ پتا نہیں میں کس کی تھی، کہاں سے آئی تھی۔ کوئی لایا تھا ۔ بالپن ہی میں آپی کے ہاتھ بیچ گیا تھا۔ اِسی کی گود میں پلی، اِسی کی سرتال بھری بیٹھک کے جھولنے میں جھول جھول کر جوان ہوئی۔ پھر سنہرا اُمڈ اُمڈ آیا۔ چھپائے نہ چھپتا تھا۔ آپی بولی‘‘نہ دھیے، چھپا نہ۔ جو چھپائے نہ چھپے اِسے کیا چھپانا۔
کبھی کھڑکی سے جھانکتی تو آپی ٹوکتی ‘‘یہ کیا کر رہی ہے بیٹی ؟ سیانے کہتے ہیں جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ تیرا کام نہیں۔ دکھنا ہے تو نظر نہ بن، منظر بن۔ اور جو دیکھے بھی تو تو دُکھنے کا گھونگھٹ نکال ۔اِس کی اوٹ سے دیکھ، پھر سمے دیکھ سنہرے۔ ابھی تو شام ہے۔ یہ سمے تو اُداسی کا سمے ہے۔ دُکھ کا سمے ہے۔ شام بھئی گھن نہ آئے۔’’ آپی گنگنانے لگی ‘‘یاد ہے نا یہ بول؟ شام تو نہ آنے کا سمے ہے۔ تیرا آنے کا سمے ہے۔ پگلی ذرا رُک جا۔ اندھیرا گاڑھا ہونے دے۔ پھر تیرا ہی سمے ہوگا، پچھلے پہر تک…’’
ایک دن آپی کا جی اچھا نہ تھا۔ مجھے بلایا، گئی۔ لیٹی ہوئی تھی۔ سرہانے تپائی پر سوڈے کی بوتل دھری تھی۔ ساتھ نمک دانی تھی۔ یہ اُن دِنوں کی بات ہے جب سوڈے کی بوتل کے گلے میں شیشے کا گولا پھنسا ہوتا تھا، ٹھا کر کے کھلتا تھا۔
بولی‘‘سنہرے، بوتل کھول گلاس میں ڈال۔ چٹکی بھر نمک گھول اور مجھے پلا دے۔ میں نے نمک ڈالا تو جھاگ اُٹھا، بلبلے ہی بلبلے۔ آپی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ بولی ‘‘دیکھ لڑکی، یہ ہمارا سمے ہے۔ ہمارا سمے وہ ہے جب جھاگ اُٹھے۔ ہم میں نہیں، دوجے میں اُٹھے۔ دوجے میں جھاگ اُٹھانا یہی ہمارا کام ہے۔ خود شانت، دو جا بلبلے ہی بلبلے۔ جب تک جھاگ اُٹھتا رہے گا، ہمارے سمے۔ جب دوجا شانت ہو جائے، سمجھ لے ہمارے سمے بیت گیا اور جب سمے بیت جائے دھیرج پاؤں دھرنا۔ ٹھمک نہ کرنا ۔ ٹھمک کا سمے گیا۔ چمک نہ مارنا، چمک کا سمے گیا۔ پائل نہ جھنکارنا، پائل کی جھنکاربیرن بھئی۔’’
پھر وہ لیٹ گئی اور بولی‘‘سنہرے،میری باتیں پھینک نہ دینا، دل میں رکھنا۔ یہ بھیتر کی باتیں ہیں، اوپر کی نہیں، سنی سنائی نہیں، پڑھی پڑھائی نہیں۔ وہ سب چھلکے ہوتی ہیں، بادام نہیں ہوتیں۔ جان لے بیٹی بات وہ جو بھیتر کی ہو۔ گری ہو، چھلکا نہ ہوا۔ جو بیتی ہو، جگ بیتی نہیں۔ آپ بیتی ہو، ہڈ بیتی۔ باقی سب جھوٹ، دِکھلاوا بہلاوا۔
آج مجھے باتیں یاد آ رہی ہیں۔ بیتی باتیں۔ بسری باتیں۔ سانپ گزر گئے، لکیریں رہ گئیں، لکیریں ہی لکیریں۔ سانپ تو صرف ڈراتے ہیں، پھنکارتے ہیں۔ لکیریں کاٹتی ہیں، ڈستی ہیں۔ پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے۔ لکیروں نے مجھے چھلنی کر رکھا ہے۔ چلتی ہیں، چلے جاتی ہیں جیسے دھار چلتی ہے۔ ایک ختم ہوتی ہے دوجی شروع ہو جاتی ہے ۔
آپی کی بیٹھک میں ہم تین تھیں۔ پیلی،روپا اور میں۔ پیلی بڑی، روپا منجھلی اور میں چھوٹی۔ پیلی میں بڑی آن تھی، پر مان نہ تھا۔ اس آن میں چھب تھی۔ سندرتا بھرا ٹھہراؤ تھا۔ یوں رُعب سے بھری رہتی جیسے مٹیار رس سے بھری رہتی ہے۔ گردن اُٹھتی رہتی، مورتی سمان۔
روپا سُر ہی سُر تھی۔ شدھ سر۔ تاروں سے بنی تھی۔ اُس کے بند بند میں تار لگے تھے۔ سرتیاں سمرتیاں اور وہ گونجنے مدھم میں گونجتے اور پھر سننے والوں کے دلوں کو جھلا دیتے تیجی میں تھی۔ آپی کہتی تھی ‘‘سنہرے، تجھ میں دُکھ کی بھیگ ہے ۔ تو بھگو دیتی ہے۔ خود بھی ڈوب جاتی ہے ، دوجے کو بھی ڈبو دیتی ہے پگلی دوجے کو ڈبویا کر، خود نہ ڈوبا کر۔ مجھے تجھ سے ڈر آتا ہے سنہرے۔ کسی دن تو ہم سب کو نہ لے ڈوبے۔
آپی کی بیٹھک کوئی عام بیٹھک نہ تھی کہ جس کا جی چاہا منہ اُٹھایا اور چلا آیا۔ بیٹھک پر دھن دولت کا زور تو چلتا ہی ہے ۔ وہ تو چلے گا ہی ہر بیٹھک پر۔ پر آپی نے برتاؤ کا ایسا رنگ چلا رکھا تھا کہ خالی دھن دولت کا زور نہ چلتا تھا۔ نو دولیتے آتے تھے پر ایسے بدمزہ ہو کر جاتے کہ پھر رُخ نہ کرتے۔ آپی کی بیٹھک میں نگاہیں نہیں چلتی تھیں۔اُس نے ہمیں سمجھا رکھا تھا کہ لوگ نگاہوں پر اُچھالیں گے تو پڑے اُچھالیں۔ لڑکیو تم نہ اُچھلنا۔ جو نگاہوں پر اُچھل جاتی ہیں وہ منہ کے بل گرتی ہیں اور جو گر گئی وہ سمجھ لو، نظروں سے گر گئی ۔ پھر نہ اپنے جوگی رہی نہ دوسروں جوگی۔
آپی کی بیٹھک میں نظریں نہیں چلتی تھیں۔ کان لگے رہتے تھے۔ دل دھڑکتے تھے۔ وہاں ملاپ کا رنگ نہ ہوتا تھا۔ برہا کا ہوتا۔ رنگ رلیاں نہیں ہوتی تھیں، نہ وہاں تماشا ہوتا نہ تماش بین ۔ مجھے وہ دِن یاد آتے ہیں جب ہمارے ہاں ٹھاکر کی بیٹھک لگتی تھی۔ دومہینے میں ایک بار ضرور لگتی تھی۔ ٹھاکر کی بیٹھک لگتی تو کوئی دوجا نہیں آ سکتا تھا۔ صرف ٹھا کر کے سنگی ساتھی۔
ٹھاکر بھی تو عجب تھا۔ اوپر سے دیکھو تو ریچھ۔ طاقت سے بھرا ہوا۔ اندر جھانکو تو بچہ۔ نرم نرم، گرم گرم، ویسے تھا آن بھرا مان بھرا۔ سنگیت کا رسیا۔ یوں لگتا جیسے بھیتر کوئی لگن لگی ہو۔ دھونی رمی ہو،آرتی سجی ہو۔
ٹھاکر کی ہمارے ہاں بڑی قدر تھی۔ آپی عزت کرتی تھی، بھروسا کرتی تھی۔ ٹھاکر نے بھی کبھی نظر اُچھالی نہ تھی۔ جھکائے رکھتا۔ پیتا ضرور تھا، پر ایسی کہ جوں جوں پیتا جاتا اُلٹا مدھم پڑتا جاتا۔ آنکھ کی چمک گل ہو جاتی۔ آواز کی کڑک بھیگ جاتی۔ اس کا نشہ ہی انوکھا تھا۔ جیسے بوتل کا نہ ہو۔ بھیتر کا ہو۔ بوتل اِک بہانہ ۔ بوتل چابی ہو بھیتر کے پٹ کھولنے کی۔
ڈرو سیکھو ڈرو بھیتر کے نشے سے ڈرو۔ بھیتر کے نشے کے سامنے بوتل کا نشہ یوں ہاتھ جوڑے کھڑا ہے جیسے راجہ کے روبرو نیچ کھڑا ہو۔ بوتل کا تو خالی سر چکراتا ہے۔ بھیتر کا من کا جھولنا جھلا دیتا ہے ۔ ڈرو سکھیو ڈرو بھیتر کے نشے سے ڈرو، بوتل کا تو کام کاج جوگا نہیں چھوڑتا۔ بھیتر کا کسی جوگا نہیں چھوڑتا۔ خود جوگا بھی نہیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ ٹھاکر کے نشے کا ریلا مجھے بھی لے ڈوبے گا۔
ہاں تو اُس روز ٹھاکر کی بیٹھک ہو رہی تھی۔ بول تھے ‘‘گانٹھری میں کون جتن کر کھولوں۔ مورے پیا کے جیا میں پڑی رہی۔’’ گیت نے کچھ ایسا سماں باندھ رکھا تھا کہ ٹھاکر جھوم جھوم جا رہا تھا۔ پھر کہو، پھر بولو کا جاپ کیے جا رہا تھا۔ نہ جانے کس گرہ کو کھولن کی آرزو جاگی تھی۔ اپنے من یا محبوب کی من کی۔ سمے بیتا جا رہا تھا ۔ سمے کی سدھ بدھ نہ رہی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔ سمے جیون سے نکل جاتا ہے کہ کون ہیں، کیا کر رہے ہیں۔ کسی بات کی سدھ بدھ نہیں رہتی۔ اِس روز وہ سمے ایسا ہی سمے تھا۔
دفعتاً گھڑی نے تین بجائے ۔ آپی ہاتھ جوڑے اُٹھ بیٹھی۔ بولی ‘‘شماکرو ٹھاکر جی۔ معافی مانگتی ہوں۔ ہمارا سمے بیت گیا۔ اب بیٹھک ختم کرو۔’’
ٹھاکر پہلے تو چونکا پھر مسکایا ‘‘نہ آپی، ابھی تو رات بھیگی ہے۔’’ آپی بولی ‘‘ٹھاکر ہم سوکھے پروں والے پنچھی ہیں۔ جب رات بھیگ جاتی ہے تو ہمارا سمے بیت جاتا ہے۔ جو ہمارے پر بھیگ گئے تو اُڈاری نہ رہے گی۔ فنکار میں اُڈاری نہ رہے تو باقی رہا کیا؟’’ ٹھاکر نے بڑی منتیں کیں، آپی نہ مانی۔
محفل ٹوٹ گئی تو ہم تینوں آپی کے گرد ہو گئیں۔ ‘‘آپی یہ سمے کا گورکھ دھند کیا ہے؟’’ آپی بولی ‘‘لڑکیو!سمے بڑی چیز ہے، ہر کام کا الگ سمے بنا ہے۔ رات کو گاؤ، بجاؤ، پیو پلاؤ، ملو ملاؤ، موج اُڑاؤ۔ بس تین بجے تک۔ پھر بھور سمے اُس کا سمے ہے۔اُس کا نام جپو۔ اِسے پکارو، فریاد کرو، دُعائیں مانگو، سجدے کرو۔ اِس سمے میں تم عیش نہیں کر سکتے، گناہ نہیں کر سکتے، قتل نہیں کر سکتے۔ یہ دھندا جو ہمارا ہے اِس کے سمے میں نہیں چل سکتا۔ اِس کے سمے میں پاؤں نہ دھرنا۔ اُس نے برا مانا تو ماری جاؤ گی۔ جو وہ راضی ہو گیا تو بھی ماری جاؤ گی اور دیکھو اُس کے سمے کے نیڑے نیڑے بھی ایسا گیت نہ گانا جو اُسے پکارے۔ بھجن نہ چھیڑنا۔ ڈرو کہیں وہ تمہاری پکار سن کر ہنکارا نہ بھر دے۔
پھر وہ دن آ گیا جب میں نے اَنجانے میں سمے کا بندھن توڑ دیا۔ اُس روز ٹھاکر آئے۔ آپی سے بولے ‘‘بائی کل خواجہ کا دن ہے۔ خواجہ کی نیاز سارے گاؤں کو کھلاؤں گا۔ آج رات خواجہ کی محفل ہوگی اُدھر حویلی میں۔ صرف اپنے ہوں گے، گھر کے لوگ۔ تجھے لینے آیا ہوں، چل میرے ساتھ میرے گاؤں۔’’
آپی سوچ میں پڑ گئی اور بولی‘‘روپا ماندی ہے، وہ تو نہیں جا سکے گی، کسی اور دن رکھ لیتا نذر نیاز ۔’’
‘‘خواجہ کا دن میں کیسے بدلوں؟’’ وہ بولا۔
‘‘تو کسی اور منڈلی کو لے جا۔’’
‘‘اونہوں!’’ ٹھاکر نے منہ بنا لیا۔ خواجہ کی بات نہ ہوتی تو لے جاتا ان کے نام لینے کے لائق مکھ تو ہو۔
‘‘میںکس لائق ہوں جو اُن کا نام منہ پر لگاؤں۔’’
‘‘بس اک تیری ہی بیٹھک ہے بائی جہاں پوترتا ہے۔ جہاں جسم کا نہیں من کا ٹھکانا ہے۔’’
آپی مجبور ہو گئی۔ اُس نے روپا کا دھیان رکھنے کے لیے پیلی کو وہاں چھوڑا اور مجھے لے کر ٹھاکر کے گاؤں چلی گئی۔
رات بھر وہاں حویلی میں خواجہ کی محفل لگی۔ وہ تو گھریلو محفل تھی۔ ٹھاکر کی بہنیں، بہوئیں، بیٹیاں، ٹھاکرانی سب بیٹھے تھے۔ وہ تو سمجھ لو بھجن منڈلی تھی اور خواجہ کے گیت ‘‘خواجہ میں تو آن کھڑی تورے دوار’’ سے شروع ہوئی تھی۔
آدھی رات کے سمے محفل اِتنی بھیگی کہ سب کی آنکھیں بھر آئیں، دِل ڈوبے۔ آپی کا ڈوب ہی گیا۔ ٹھاکر اِسے محفل سے اُٹھا کر اندر لے گیا۔ شربت شیرا پلانے کو ۔ پھر وہیں لٹا دیا۔
‘‘پھر خواجہ کے گیت چلے تو میں بھی بھیگ گئی۔ آنکھیں بھر بھر آئیں۔ میں حیران، میں تو کچھ مانگ نہیں رہی۔ میں تو التجا نہیں کر رہی۔ میں تو اِک تاجر ہوں۔ پیسہ کمانے کے لیے آئی ہوں۔ میری آنکھیں کیوں بھر بھر آئیں خواہ مخواہ۔ سو میں بنا سوچے سمجھے گائے چلی گئی۔آنکھیں بھر بھر آتی رہیں۔ دل کو کچھ کچھ ہوتا رہا، پر میں بھیگ بھیگ کر گاتی گئی۔ سمے بیت گیا اور مجھے دھیان ہی نہ آیا کہ میں ان کے سمے میں پاؤں دھر چکی ہوں۔ آپی تھی نہیں جو مجھے ٹوکتی۔
اور مجھے کیا پتا تھا کہ خواجہ کون ہے۔ میں نے تو صرف نام سن رکھا ہے۔ اُس کے گیت یاد کر رکھے تھے۔ میں صرف یہ جانتی تھی کہ وہ غریب نواز ہے۔ میں تو غریب نہ تھی۔ مجھے کیا پتا کہ مجھے بھی نواز دے گا خواہ مخواہ زبردستی۔ مجھے کیا پتا تھا کہ اِس میں اِتنی بھی سدھ بدھ نہیں کہ کون پکار رہا ہے، کون گا رہا ہے، کون منگتا ہے، کون خالی جھولی پھیلا رہا ہے۔ کون جھولی سمیٹ رہا ہے۔ میں تو یہی سنتی آئی تھی کہ دُکھی لوگ پکار پکار کر ہار جاتے ہیں، پر کوئی سنتا نہیں۔ مجھے کیا پتا تھا کہ اتنا دیالو ہے، اِتنا نیڑے ہے، اِتنے کان کھڑے رکھتا ہے۔
پھر ٹھاکر بولا‘‘سنہری بائی، بس اِک آخری فرمائش ۔ خواجہ پیا موری رنگ دے چنریا۔ ایسی بھی رنگ دے رنگ نہ چھوٹے۔ دھوبیا دھوئے جائے ساری عمریا۔’’
پھر مجھے سدھ بدھ نہ رہی۔ ایسی رنگ پچکاری چلی کہ میں بھیگ بھیگ گئی اور میں ہیں نہیں ساری محفل رنگ رنگ ہو گئی۔ انگ انگ بھیگا۔ خواجہ نے رنگ گھاٹ بنا دیا۔
گھر پہنچی تو گویا میں ، میں نہ تھی۔دِل رویا رویا، دھیان کھویا کھویا۔ کسی بات میں چت نہ لگتا۔ بیٹھک بیگانہ دِکھتی۔ ساز میں طرب نہ رہا۔ سارنگی روئے جاتی۔ اُستاد نکو خاں بجاتے پر وہ روئے جاتی۔ طبلہ سر پیٹتا، گھنگھرو کہتے پاؤں میں ڈال اور بن کو نکل جا۔ وہاں اِس کا جھومر ناچ جو پتے پتے ڈال ڈال سے جھانک رہا ہے۔
روز دن میں تین چار بار ایسی رقت طاری ہوتی کہ بھیں بھیں کر روتی۔پھر حال کھیلنے لگتی۔ پیلی حیران، روپا کا منہ کھلا، آپی چپ۔ یہ کیا ہو رہا ہے جب آٹھ دِن یہی حالت رہی بلکہ اور بگڑ گئی تو آپی بولی‘‘بس پتر، تیرا اِس بیٹھک سے بندھن ٹوٹ گیا۔ دانا پانی ختم ہو گیا۔ تو نے اِس کے سمے میں پاؤں دھر دیا۔ اُس نے تجھے رنگ دیا۔ اب تو اِس دھندے جوگی نہ رہی۔
‘‘پر کہاں جاؤں آپی؟ اِس بیٹھک سے باہر پاؤں دھرنے کی کوئی جگہ بھی ہو میرے لیے۔’’
‘‘جس نے بلایا ہے اِس کے دربار میں جا۔’’ روپا بولی۔
‘‘اِس بھیڑ میں جائے۔’’آپی بولی‘‘یہ لڑکی جائے جس کا سنہری پنڈا کپڑوں سے باہر جھانکتا ہے۔ نہیں یہ کہیں نہیں جائے گی۔ اِسی کوٹھڑی میں رہے گی، بیٹھک میں پاؤں نہیں دھرے گی۔’’
‘‘پھر پتا نہیں کیا ہوا۔ رقت ختم ہو گئی۔ دل میں ایک جنون اُٹھا کہ کسی کی ہو جاؤں، کسی ایک کی۔ تن من دھن سے اُسی کی ہو جاؤں۔ ہو رہوں۔ وہ آئے تو اُس کے جوتے اُتاروں، پنکھا کروں، پاؤں دابوں، سر میں تیل مالش کروں، اُس کے لیے پکاؤں، میز لگاؤں، برتن رکھوں، اُس کی بنیانیں دھوؤں، کپڑے اِستری کروں، آرسی کا کول بناؤں پھر سرہانے کھڑی رہوں کہ کب جاگے ، کب پانی مانگے۔
‘‘ایک دن آپی بولی‘‘اب کیا حال ہے دھیے؟’’ میں نے رو رو کر ساری بات کہہ دی کہ کہتے ہیں کسی ایک کی ہو جا۔
‘‘بولی وہ کون ہے؟کوئی نظر میں ہے کیا؟’’
‘‘اونہوں کوئی نظر میں نہیں۔’’
‘‘ناک نقشہ دِکھتا ہے کبھی۔’’
‘‘نہیں آپی۔’’
‘‘کوئی بات نہیں’’ وہ بولی ‘‘جو کھونٹی پر لٹکانا مقصود ہے تو آپ کھونٹی بھیجے گا۔’’
دس ایک دن بعد جب بیٹھک راگ رنگ سے بھری ہوئی تھی تو میری کوٹھڑی کا دروازہ بجا۔ آپی داخل ہوئی ۔ خواجہ نے کھونٹی بھیج دی۔ اب بول کیا کہتی ہے؟’’
‘‘کون ہے؟’’میں نے پوچھا۔
‘‘کوئی زمیندار ہے، اُدھیڑ عمر کا۔ کہتا ہے بس ایک بار بیٹھک میں آیا اور سنہری بائی کو سنا تھا ۔ جب سے اب تک اُس کی آواز گانوں میں گونجتی ہے۔ دل کو بہت سمجھایا۔ توجہ ہٹانے کے بہت جتن کیے، کوئی پیش نہیں گئی۔ اب ہار کے تیرے در پر آیا ہوں۔ بول تو کیا کہتی ہے؟ منہ مانگا انعام دوں گا۔
میں نے کہا ‘‘دے دے۔ سال کے لیے بخش دے، جیسے تیری مرضی۔’’ آپی ہنسنے لگی۔ پھر بولی ‘‘چل بیٹھک میں اِسے دیکھ لے ایک نظر۔’’
‘‘اونہوں۔’’ میں نے سر ہلا دیا۔
‘‘نہیں آپی ، اُنہوں نے بھیجا ہے تو ٹھیک ہے۔ دیکھنے کا مطلب؟’’
‘‘کتنی دیر کے لیے مانوں؟’’
‘‘جیون بھر کے لیے۔’’
‘‘سوچ لے، جو اوباش نکلا تو؟’’
‘‘پڑا نکلے۔ کیسا بھی ہے، جیسا بھی نکلے۔’’
‘‘اگلے دن بیٹھک میں ہمارا نکاح ہو گیا۔ زمیندار نے پیسے کا ڈھیر لگا دیا۔ آپی نے رو کر لوٹا دیا۔
بولی‘‘سودا نہیں کر رہی،اپنی دھی وداع کر رہی ہوں اور یاد رکھ!یہ خواجہ کی امانت ہے، سنبھال کر رکھیو۔’’
حویلی یوں اُجڑی تھی جیسے دیو پھر گیا ہو۔
ویسے تو سبھی کچھ تھا ۔ سازو سامان، آرائش، قالین، صوفے، قد آدم آئینے، جھاڑ فانوس سبھی کچھ۔ پھر بھی حویلی بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔
‘‘برآمدے میں آرام کرسی پر چھوٹی چودھرانی بیٹھی ہوئی تھی۔ سامنے تپائی پر چائے کے برتن پڑے تھے، مگر اِسے خبر ہی نہ تھی کہ چائے ٹھنڈی ہو چکی ہے۔ اِسے تو خود کی سدھ بدھ نہ تھی کہ کون ہے، کہاں ہے، کیوں ہے۔
اوپر سے شام آ رہی تھی۔ سمے کو سمے ٹکراتی۔ اُداسیوں کے جھنڈے گاڑتی۔یادوں کے دیے جلاتی۔ بیتی باتوں کے الاپ گنگناتی۔ دبے پاؤں، مدھم، یوں جیسے پائل کی جھنکار بیرنیا ہو۔
دُور، اپنے کوارٹر کے باہر کھاٹ پر بیٹھے ہوئے چوکیدار کی نگاہیں چھوٹی چودھرانی پر جمی ہوئی تھیں۔ حقے کا سونٹا لگتا اور پھر سے چھوٹی چودھرانی کو دیکھنے لگتا۔ یوں جیسے اِسے دیکھ دیکھ کر دُکھی ہوا جا رہا ہو۔
دوسری جانب گھاس کے پلاٹ کے کونے پر بوڑھا مالی پودوں کی تراش خراش میں لگا تھا۔ ہر دو گھڑی بعد سر اُٹھاتا اور چھوٹی چودھرانی کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھ جاتا۔ پھر چونک کو لمبی ٹھنڈی سانس بھرتا اور پھر سے کانٹ چھانٹ میں لگ جاتا۔
جنت بی بی ، جو چھوٹی چودھرانی کا کھانا پکاتی تھی، دو تین بار برآمدے کے پرلے کنارے پر کھڑی ہو کر اِسے دیکھ گئی تھی۔ جب دیکھتی تو اِس کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتی تھیں۔ پلو سے پونچھتی پھر لوٹ جاتی۔
سارے نوکر کمین چھوٹی چودھرانی پر جان چھڑکتے تھے۔ اِس کے غم میں گھلے جا رہے تھے لیکن ساتھ ہی وہ اِس پر سخت ناراض بھی تھی۔ اِس نے اپنے دونوں پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماری تھی؟ کیوں خود کو دوجوں کا محتاج بنا لیا تھا؟کیوں! اپنی اولاد ہوتی تو پھر بھی سہارا ہوتا۔ اپنی اولاد تو تھی نہیں۔
جب چودھری مرنے سے پہلے بقائمی ہوش و حواس اپنی آدھی غیر منقولہ جائیداد چھوٹی چودھرانی کے نام کر گیا تھا تو اِسے کیا حق تھا کہ اپنا تمام تر حصہ بڑی چودھرانی کے دونوں بیٹوں میں تقسیم کر دے ۔ اگر ایک دن بڑی چودھرانی نے اِسے حویلی سے نکال باہر کیا تو وہ کیا کرے گی؟ کس کا در دیکھے گی۔
ایک طرف تو اِتنی بے نیازی کہ اِتنی بڑی جائیداد اپنے ہاتھ سے بانٹ دی اور دوسری طرف یوں سوچوں میں گم تصویر بن کر بیٹھی رہتی ہے ۔ سارے ہی نوکر حیران تھے کہ چھوٹی چودھرانی کس سوچ میں کھوئی رہتی ہے۔ چودھری کو مرے ہوئے تین ماہ ہو گئے تھے۔ جب سے یونہی حواس گم قیاس گم بیٹھی رہتی ہے اور پھر ٹوٹتی رات سمے اِس کے کمرے سے گنگنانے کی آواز کیوں آتی ہے؟ کس خواجہ پیا کو بلاتی ہے؟ خواجہ پیا موری لیجو خبر یا۔ کون خبر لے؟ کیسی خبر لے؟ چھوٹی چودھرانی پر اُنہیں پیار ضرور آتا تھا پر اِس کی باتیں سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ پتا نہیں چلتا تھا کہ کس سوچ میں پڑی رہتی ہے۔
چھوٹی چودھرانی کو صرف ایک سوچ لگی تھی۔ اندر سے ایک آواز اُٹھتی۔ بول تیرا جیون کس کام آیا؟ وہ سوچ سوچ ہار جاتی پر اِس سوال کا جواب ذہن میں نہ آتا۔ اُلجھے اُلجھے خیال اُلجھاتے۔ مجھے چمن سے اکھیڑا۔ بیل بنا کر اِک درخت کے گرد گھما دیا اور اب اِس درخت کو اکھیڑ پھینکا۔ بیل مٹی میں مل گئی ۔ اب یہ کس کے گرد گھومے؟ بول میرا جیون کس کام آیا؟
دفعتاً اِس نے محسوس کیا کہ کوئی اُس کے رُوبرو کھڑا ہے۔ سامنے گاؤں کا پٹواری کھڑا تھا۔
‘‘کیا ہے۔’’ وہ بولی۔
‘‘میں ہوں پٹواری، چھوٹی چودھرانی جی۔’’
‘‘تو جا، جا کر بڑی چودھرانی سے مل، مجھ سے تیرا کیا کام؟’’
‘‘آپ ہی سے کام ہے۔’’ وہ بولا۔
‘‘تو بول کیا کہتا ہے؟’’
‘‘گاؤں میں دو درویش آئے ہیں۔ گاؤں والے چاہتے ہیں انہیں چند دن یہاں روکا جائے۔ جو آپ اِجازت دیں تو آپ کے مہمان خانے میں ٹھہرا دیں۔’’
‘‘ٹھہرا دو۔’’ وہ بولی۔
‘‘نوکرچاکر، بندوبست۔’’ وہ رُک گیا۔
‘‘سب ہو جائے گا۔’’
پٹواری سلام کر کے جانے لگا تو پتا نہیں کیوں اُس نے سرسری طور پر پوچھا ‘‘کہاں سے آئے ہیں۔’’
پٹواری بولا‘‘اجمیر شریف سے آئے ہیں۔ خواجہ غریب نواز کے فقیر ہیں۔’’ اِک دھماکا ہوا ۔ چھوٹی چودھرانی کی بوٹیاں ہوا میں اُچھلیں۔
اگلی شام چھوٹی چودھرانی نے جنت بی بی سے پوچھا ‘‘جنت، یہ جو درویش ٹھہرے ہوئے ہیں، ان کے پاس گاؤںوالے آتے ہیں کیا؟
جنت بولی‘‘لو چھوٹی چودھرانی، وہاں تو سارا اُن لوگوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔ بڑے پہنچے ہوئے ہیں، جو منہ میں سے کہتے ہیں ، ہو جاتا ہے۔’’
‘‘تُو تیار ہو جا جنت ، ہم بھی جائیں گے۔ تُو اور میں۔’’
‘‘چودھرانی جی وہ مغرب کے بعد کسی سے نہیں ملتے۔’’
‘‘تُو چل تو سہی۔’’ چودھرانی نے خود کو چادر میں لپیٹتے ہوئے کہا ‘‘اور دیکھا وہاں مجھے چودھرانی کہہ کر نہ بلانا۔ خبردار…!’’
جب وہ مہمان خانے پہنچیں تو دروازہ بند تھا۔ جنت نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کون ہے؟ اندر سے آواز آئی۔ جنت نے پھر دستک دی۔ سفید ریش بوڑھے خادم نے دروازہ کھولا۔ جنت زبردستی اندر داخل ہو گئی۔ پیچھے پیچھے چودھرانی تھی۔ سفید ریش گھبرا گیا اور بولا‘‘سائیں بادشاہ مغرب کے بعد کسی سے نہیں ملتے۔ وہ اِس وقت کمرے میں مشغول ہیں۔
‘‘ہم سائیں بادشاہ سے ملنے نہیں آئے۔’’ چھوٹی چودھرانی بولی۔
‘‘تو پھر؟’’ سفید ریش گھبرا گیا۔
‘‘ایک سوال پوچھنا ہے۔’’ چودھرانی نے کہا۔
‘‘سائیں بابا اِس سمے سوال کا جواب نہیں دیں گے۔’’
‘‘سائیں بابا نے جواب نہیں دینا۔ اُنہوں نے پوچھنا ہے۔’’ وہ بولی۔
‘‘کس سے پوچھنا ہے؟’’ خادم بولا۔
‘‘اس سے پوچھنا ہے جس کے وہ بالکے ہیں۔’’ یہ سن کر سفید ریش خادم سن کر کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔
‘‘ان سے پوچھو۔’’ چھوٹی چودھرانی نے کہا ‘‘ایک عورت تیرے دروازے پر کھڑی پوچھی رہی ہے کہ غریب نواز بتا کہ میرا جیون کس کام آیا؟’’
کمرے پر منوں بوجھل خاموشی طاری ہو گئی۔
چھوٹی چودھرانی بولی‘‘کہو وہ عورت پوچھتی ہے، تو نے بیٹھک کے گملے سے اِک بوٹا اُکھیڑا۔ اِسے بیل بنا کر ایک درخت کے گرد لپیٹ دیا کہ جا اِس پر نثار ہوتی رہ ۔’’ وہ رُک گئی۔ کمرے کی خاموش اور گہری ہو گئی۔’’ اب تو میں نے اِس درخت کو اُکھیڑ پھینکا ہے۔ بیل مٹی میں رل گئی۔ وہ بیل پوچھتی ہے ۔ بول میرا جیون کس کام آیا؟’’ یہ کہہ کر وہ چپ ہو گئی۔
‘‘تیرا جیون کس کام آیا۔ تیرا جیون کس کام آیا۔’’ سفید ریش خادم کے ہونٹ لرزنے لگے۔’’
تُو پوچھتی ہے کہ تیرا جیون کس کام آیا ؟’’ وہ رُک گیا ۔ کمرے میں خاموش اِتنی بوجھل تھی کہ سہاری نہیں جاتی تھی۔
‘‘میری طرف دیکھ۔’’ سفید ریش خادم نے کہا‘‘سنہری بائی، میری طرف دیکھ کہ تیرا جیون کس کام آیا۔ مجھے نہیں پہچانتی؟ میں تیرا سارنگی نواز تھا۔ دیکھ میں کیا تھا کیا ہو گیا۔
چھوٹی چودھرانی کے منہ سے ایک چیخ نکلی ‘‘اُستاد جی آپ۔’’ وہ اُستاد کے چرن چھونے کے لیے آگے بڑھی۔
‘‘عین اُس وقت ملحقہ کمرے کا دروازہ کھلا اور ایک بھاری بھر کم نورانی چہرہ برآمد ہوا۔ ‘‘سنہری بی بی! تیرا جیون کس کام آیا۔
چھوٹی چودھرانی نے مڑ کر دیکھا ۔
‘‘ٹھاکر۔’’ وہ چلائی۔
ٹھاکر بولا ‘‘اب ہمیں پتا چلا کہ سرکار نے ہمیں اِدھر آنے کا حکم کیوں دیا تھا۔’’ اُس نے سنہری بی بی کے سامنے اپنا سر جھکایا اور بولا ‘‘بی بی ہمیں آشیرباد دے۔’’
اردو ادب کے ممتاز ادیب، اور افسانہ نگار |
ممتاز مفتی ۔1905ء تا 1995ء |
ممتاز مفتی کا اصل نام مفتی ممتاز حسین تھا۔ ممتاز مفتی 11 ستمبر 1905ء بمقام بٹالہ (ضلع گورداسپور) بھارتی پنجاب میں مفتی محمد حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امرتسر ، میانوالی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں پائی۔ میٹر ک ڈیرہ غازی خان سے اور ایف اے امرتسر سے اور بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔
بی اے کے بعد سنٹرل ٹیچرز ٹریننگ کالج سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم پنجاب کے سینئر انگلش ٹیچر کے طور تعیناتی ہوئی۔ وہیں لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ کچھ عرصے بطور اسکرپٹ رائٹر آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ منسلک ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آئے اور پھر راولپنڈی میں بطور ڈائریکٹر وزارتِ اطلاعات اپنی خدمات انجام دیں۔ ان کا پہلا افسانہ ‘‘جھکی جھکی آنکھیں’’ ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوا اور اس طرح وہ مفتی ممتاز حسین سے ممتاز مفتی بن گئے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں ان کہی، گہماگہمی، چپ، گڑیاگھر، روغنی پتلے، اور سمے کا بندھن شامل ہیں۔ علی پور کا ایلی اور الکھ نگری سوانحی ناول میں شمار ہو تے ہیں۔ جبکہ ہند یاترا، لبیک جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے اور خاکہ نگاری میں اوکھے لوگ، پیاز کے چھلکے اور تلاش جیسی کتابوں کے خالق ہیں۔ممتاز مفتی کی تحریریں زیادہ تر معاشرے میں موجود کئی پہلوؤں اور برائیوں کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ 27 اکتوبر 1995ء کو 91 برس کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پا گئے۔
|
اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں |
کہانیاں - اینڈرویڈ ایپ - پلے اسٹور پر دستیاب
دنیا کی مقبول کہانیاں اردو زبان میں پڑھیں