بلوچستان  کے ادیب کا اردو افسانہ

ملنگ باچا


یعقوب شاہ غرشین

یعقوب شاہ غرشین نے اپنی کہانیوں میں دُنیا میں طاقت و کمزوری، حاکم و محکوم، زبردست و زیردست کے فلسفے کو پیش کیا ہے۔ یہ عفریت یہ طاقت وربلا آج بھی انسانوں کو اپنا لقمہ تر بنا رہی ہے۔ ان کے بیشتر افسانے بلوچستان کی محرومیوں، خشک سالیوں اور وہاں مسلط موت کی جدید صورتوں کو پیش  کرتے ہیں۔ یہ موت طاقتوروں اور مقتدر قوتوں کی اَناپرستی اور خودتسکینی کا باعث ہے۔   ‘‘ملنگ باچا’’ میں بھی مرکزی کردار ظلم و ستم سہتے سہتے آخرکار استحصالی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کر اُبھرتا ہے۔ 



گول چوک پر علی خان کا قہوہ خانہ پورے شہر میں مشہور تھا۔ اس کے پرانے کاٹھ کے بنچوں پر بیٹھ کر سفید ریش بوڑھے اپنی جوانی کی داستانیں ایک دوسرے کو یوں سناتے جیسے کسی خواب کی تفاصیل کو لطف لے لے بیان کرنے کے بعد اس کی تعبیر کریدرہے ہوں۔ 
چوڑے چکلے سینوں اور اتھلے جذبوں والے نوجوان گپ شپ کے دوران اچانک زور دار قہقہے  اچھالتے رہتے اور ان کے چہروں پر دھنک رنگ پھوار برستی رہتی۔ 
میں بھی اکثر یہاں کسی کونے میں بیٹھ کر وقت کو سگریٹ کے دھویں میں اڑاتا رہتا۔ ان سب کو دیکھتا اور بظاہر انجان بن کر ان دلچسپ محفلوں سے لطف اندوز ہوتا۔ ان کی باتوں سے اکتا جاتا تو سڑک پر گزرتے لوگوں کو اونچی نیچی آوازوں میں مختلف موضوعات پر باتیں کرتے سنتا۔ ان کے چہروں کو پڑھنے کی کوشش کرتا، یہاں تک کہ وہ گزر جاتے اور ان کی کمی دوسرے راہ رو پوری کرلیتے....  اپنی الجھنوں سے عارضی چھٹکارا پانے کی خاطر خود کو دوسروں کے مسائل میں الجھا لینے میں  مجھے عجیب سی تسکین ملتی۔قہوہ خانے کے ساتھ ایک چھوٹا سا برامدہ تھا۔ اس میں ایک بوڑھے ملنگ نے ڈیرہ جما رکھا تھا۔ میلے کپڑے، ننگے پاؤں، ہر تاثر سے عاری چہرہ، کنگھی سے بےنیاز الجھے بال، دنیا و مافیہا سے بےخبر۔ یہ ملنگ اپنی  بوسیدہ گدڑی پر براجمان رہتا۔ اس کا کل اثاثہ پھٹی پرانی چادر، میلا کچیلا تکیہ اور ایک کٹورا تھا۔  اس کے ارد گرد ہر وقت کئی بلیاں اور کتے منڈلاتے رہتے۔ وہ جانوروں سے اپنے بچوں کی طرح پیارکرتاتھا۔ 
اس کا نام کوئی نہیں جانتا تھا۔ سب لوگ اسے ملنگ باچا کے نام سے پکارتے تھے۔ وہ خود کسی سے کچھ نہیں مانگتا تھا۔ کسی کو خیرات دینا ہوتی تو کٹورے میں ڈال دیتا۔ وہ خیرات دینے والے کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا۔ 
اس کی بےنیازی سے مجھے بیک وقت عجیب سی الجھن اور انسیت پیدا ہوگئی۔ میں اکثر اس کی طرف متوجہ ہوتا مگر اس سے کبھی بات کرنے کی ہمتنہیں ہوئی۔ 
اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ بھی کسی سے بات نہیں کرتا تھا اور ہر وقت اپنے حال میں مست رہتا۔
اس کے بارے میں ‘‘میں جب بھی سوچتا تو بےشمار سوالات ذہن مین منڈلانے لگتے۔
یہ کون ہوسکتا ہے....؟
کہیں اسے کوئی دماغی عارضہ لاحق تو نہیں....؟
دنیا سے کیوں کنارہ کش ہوا ہے....؟
یہ ہر وقت  کیا سوچتا رہتا ہے....؟
یہ سارے سوالات میرے سوچ پانیوں میں بھنور بن کر چکر کاٹتے رہتے۔ اس کے بارے میں لاکھ سوچتا مگر لاجواب ہی رہتا۔ 
ملنگ باچا کی ایک عادت بڑی دلچسپ لگی۔ وہ کبھی کبھار ایک دم اٹھ کر برامدے میں چکر لگانا شروع کردیتا۔ دائرے میں گھومتے ہوئے وہ بڑبڑانے لگتا اور پھر تیزی سے ایک ہی بات کو دھراتا رہتا۔ اس وقت بہت بےچین دکھائی دیتا۔ چند لمحوں بعد یوں زور دار آواز میں تقریر شروع کرتا جیسے سی بڑے مجمع سے مخاطب ہو۔ اس حالت میں وہ بڑا پُر رعب اور باوقار نظر آتا۔
 میں شوق سے اس کی باتوں کو سنتا اور ایک ایک جملے غور کرتا لیکن جو وہ کہتا تھا سب مجھے الجھتا تھا اور کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ اس کی باتوں میں کوئی ربط نہیں ہوتا تھا۔ حیرت ہے کہ اس کے باوجود مجھے اس کے خیالات بہت گہرے اور پُرمغز لگتے تھے۔
میرا دوست علی مجھے ٹوکتا۔ یار! تم ایک دیوانے کی لغویات بھی اتنے غور سے سنتے ہو جیسے بہت  بڑا راہنما یا دانش ور بول رہا ہو۔
میں اس کی بات سنی ان سنی کرتا اور ملنگ باچا کی تقریر بہت غور سے سنتا۔ وہ دنیا کا واحد مقرر تھا جو واقعی سچ بولتا تھا۔ وہ بند مٹھی ہوا میں لہراتے ہوئے اپنے ارد گرد بیٹھے جانوروں سے یوں مخاطب ہوتا۔
کتو! بلیو! چوہو! اور کیڑے مکوڑو!.... تم سب میری ہونٹوں کی حرکت دیکھ رہے ہو لیکن باتیں نہیں سن سکتے ہو.... تمہارے کانوں کے پردے پھٹے ہوئے ہیں.... بلی چوہوں کو ڈراتی ہے مگر خود کتے سے ڈرتی ہے.... کتا اپنے مالک سے.... اور مالک حاکم سے ڈرتا ہے.... حاکم بظاہر کسی سے نہیں ڈرتا.... درحقیقت وہ چوہے سے زیادہ ڈرپوک ہے کیونکہ چوہے اپنی حفاظت کے لیے پہرےدارنہیںرکھتے....
ملنگ باچا کچھ دیر خاموش رہتا اور پھر بازار میں گھومتے پھرتے لوگوں کی طرف دیکھتااور گونجدار آواز میں کہتا:
اے گندگی کے کیڑو!.... تم سب گندگی کھاتے پھرتے ہو.... جب گندگی کو چٹ کر جاتے ہو تو ایک دوسرے کو کھانا شروع کردیتے ہو.... تمہارے جسموں سے اپنے ہی ہم جنسوں کے باسی خون کی سڑانڈ اٹھ رہی ہے.... اب بھی پانی سر سے نہیں گزرا ہے.... توبہ کے پوتر پانی سے اپنے پاپ دھو ڈالو.... ورنہ ایک ایک بوند کو ترس جاؤ گے....
وہ اکثر اپنے کتوں سے یوں مخاطب ہوتا:
اے رذیل کتو! تم چوروں پر بھونکتے ہو اور مالکوں کے سامننے ہر وقت دم ہلاتے رہتے ہو.... تم یہ بھول جاتے ہو کہ انہوں نے تمہیں صرف اپنی حفاظت کے لیے رکھا ہوا ہے.... اگر چور اور ڈاکو نہ ہوتے تو یہ لوگ تمہیں اپنے گھروں سے نہیں بلکہ پہرے سے بھی نکال دیتے.... اس لیے تمہیں چوروں کا احسان مند ہونا چاہیے۔
وہ چند لمحے آنکھیں موند کر نہ جانے کیا سوچتا رہتا پھر یک دم بند مٹھی ہوا میں لہرا کر زور دار آوازمیں بولتا:
اے حیوانات ارضی! بےشک تم میں سب سے زیادہ بےوقوف انسان ہی ہے.... وہ اپنے آپ کو اشرف المخلوقات سمجھتا ہے اور اپنی نجاست کو صاف کرنے کا جھوٹا دعویٰ بھی کرتا ہے.... بھڑکیلے لباس پر عطر کا چھڑکاؤ کرتا ہے تاکہ اپنے پسینے کی بدبو کو دبا سکے لیکن اندرونی آلائشوں سے خود  کو پاک کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتا.... وہ خود  سوئی کی نوک کی معمولی چبھن برداشت نہیں کرسکتا لیکن دوسروں کا گوشت بھون کر کھاتا ہے اور خون کو مئے آتشیں سمجھ کر پیتا ہے.... فاختہ کو شکار کرکے بھوک مٹاتا ہے اور بھیڑیے کی پرورش اپنے خون سے کرتا ہے....تم گدھوں کو برا بھلا کہتے ہو جو مردار رکھاتے ہیں جبکہ خود زندہ لوگوں کو کھا رہے ہو.... بڑی مچھلی، چھوٹی مچھلی کو نگل دہی ہے....
یہ کہہ کر وہ بےتحاشہ قہقہے لگاتا اور ایک ٹانگ پر گھومتے ہوئے دیر تک گاتا رہتا۔
کبیرا سرِ بازار کھڑا سب کی مانگے خیر
نہ کاہو سے دوستی، نہ کاہو سے بیر
پرجوش تقریروں کے علاوہ ملنگ باچا اپنے چہیتے جانوروں کو دلچسپ کہانیاں بھی سنایا کرتا تھا۔ 
ایک دن اس کی زبانی بڑی عجیب کہانی سنی جو وہ اپنی کالی بلی کو سنا رہاتھا۔ بلی بھی اتنے غور سے سن رہی تھی جیسے اچھی طرح سمجھ رہی ہو۔ وہ بڑے راز دارانہ انداز میں یہ کہانی یوں بیان کر رہا تھا کہ ....
ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ ایک بینا شخص کسی اندھوں کے شہر میں وارد ہوا، جس میں کوئی صاحب بصارت نہ تھا۔ اس بینا شخص کو بڑا تعجب ہوا۔ اسے اس شہر کے باسیوں پر بڑا ترس آیا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ ان بےچارے اندھوں کو دنیا کی وسعتوں  اور رنگینیوں سے ضرور آگاہ کرنا چاہیے۔ یہ سوچ کر وہ اگلے روز شہر کے بڑے چوک پر کھڑا ہوا اور لوگوں کو پہاڑوں کی بلندیوں، سرسبز وادیوں، پھولوں پر منڈلاتی خوب صورت تتلیوں، چاندنی راتوں اور دھنک کے حسین رنگوں کے بارے میں تفصیل سے بتانے لگا۔
 تحیر زدہ آندھوں کو اس کی باتیں بڑی انہونیسی لگیں۔
 انہوں نے مل کر اس کا مذاق اُڑانا  شروع کیا اور پاگلوں کی طرح زور دار قہقہے لگانے شروع کردیے۔
ایک اندھے نے دوسرے سے طنزیہ انداز میں پوچھا کہ بھئی تم اس دنیا میں تاریکی کے سوا کسی اور چیز کا تصور بھی کرسکتے ہو۔ 
دوسرے اندھے نے جھٹ سے جواب دیا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہاں تاریکیوں کے علاوہ کسی اور شے کا وجود بھی ہو....؟ یہ اجنبی جو اپنے آپ کو بینا کہتا ہے اور عجیب و غریب داستانیں بیان کر رہا ہے، دراصل جھوٹا اور فریبی ہے یا پھر پاگل۔ یہ ہمیں بےوقوف سمجھ کر ورغلا رہا ہے۔ ہمارے عقیدوں کو خراب کر رہا ہے۔ 
غرض بےشمار چہ میگوئیاں ہوتی رہی۔ اہلیان شہر اس معاملے کی گتھیاں سلجھانے کے لیے اکھٹے ہوئے، کافی بحث مباحثے کے بعد حاکم شہر نے بینا شخص کے قتل کا حکم دیا۔ 
بھپرے ہوئے لوگوں نے اسے فوراً سنگسار کردیا۔ اس کی لاش اٹھا کر شہر سے دور ویرانے میں پھینک دی تاکہ آئندہ کے لیے دوسروں کو بھی عبرت ہو اور پھر کوئی پاگل اجنبی اس شہر کے پرسکون ماحول کو برباد کرنے کی جسارت نہ کرسکے۔
یہ عجیب کہانی سن کر کالی بلی نے غرانا شروع کیا۔ میں نے ملنگ باچا کی آنکھوں میں پہلی بار پراسرار رنگوں کی جھلک دیکھی۔ اس رات میں دیر تک اپنے بستر میں کروٹیں بدلتا رہا اور ذہن میں اس کہانی کو دہراتا  رہا۔
چند دنوں بعد مجھے روزگار کے سلسلے میں باہر جانا پڑا۔ دیار غیر میں وطن کی سہانی یادوں کو کبھی نہ بھلا سکا۔ کئی سال بعد اپنے شہر لوٹا تو علی جان کا قہوہ خانہ نظر آیا نہ ملنگ باچا کا برآمدہ۔ اس جگہ ایک عالیشان عمارت کھڑی تھی۔ 
میرے دوست علی نے بتایا کہ ملنگ باچا کو جب یہاں سے اٹھوایا گیا تو وہ سیدھا قبرستان چلا گیا اور ایک خالی قبر میں ڈیرہ جما لیا۔ کچھ عرصہ بعد فوت ہو کر اسی میں دفن ہوا۔
ایک دن چہل قدمی کرتے ہوئے میں قبرستان کی طرف نکل گیا اور یہیں وہ عجیب و غریب وقوعہ ہوا جس کی خاطر میں نے یہ طویل تمہید باندھی ہے۔ 
ہوا یوں کہ چلتے چلتے اچانک ملنگ باچا کی قبر میرے سامنے آگئی۔ مجھے بالکل شک نہیں ہوا کہ وہ کسی اور کی قبر بھی ہوسکتی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس قبر کے اردگرد کتوں اور بلیوں کا جم غفیر تھا۔ سب جانور یوں خاموش بیٹھے تھے جیسے ملنگ باچا انہیں کوئی دلچسپ کہانی سنا رہا ہو۔ 
میں بھی مودب ایک طرف بیٹھ گیا اور دفعتاً وہ حادثہ ہوگیا۔  کتے بلیاں خاموش میرے سامنے قبر کی دوسرے طرف بیٹھے ہوئے تھے مگر ان کی آوازیں.... بھونکنے اور غرانے کی آوازیں عین میرے عقب سے آنا شروع ہوگئی تھی.... وہاں سے جہاں سے میں آیا تھا۔ اس لمحے میں  نے ملنگ باچا کی ڈھیری کی سمت بالکل اسی توجہ سے دیکھا تھا  جس انہماک سے اسے بلیاں اور کتے دیکھ رہے تھے اور سوچا تھا کہ میں وہاں کیسے جاسکتا ہوں جہاں سے یہ خوفناک آوازیں آتی ہیں  مگر میرے ساتھ یہ حادثہ ہوا ہے کہ مجھے شہر لوٹ آنا پڑا ہے جہاں آوازوں کی دہشت تو ہے مگر کہیں کوئی ملنگ باچا نہیں ہے۔



بلوچستان میں جدید اردو ادب کے افسانہ  نگار ، ادیب  اور شاعر

یعقوب شاہ غرشین ۔1964ء تا  حال




بلوچستان  میں پشتو اور اردو زبان کے افسانہ نگار ، ادیب و شاعر یعقوب شاہ غرشین   6دسمبر  1962ء کو   بلوچستان کے ضلع پشین میں پیداہوئے۔  یعقوب شاہ غرشین  نے اردو اور پشتو زبان میں شاعری ، افسانہ نگاری  کی صنف  کو اپنایا اور  ساتھ ہی عالمی ادب  کی کہانیوں کو  اردو اور پشتو میں بھی ترجمہ  کیا۔ 2003ء میں یعقوب شاہ غرشین کی چودہ کہانیوں کاپہلا مجموعہ آخری آنسو   ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا، ان کے دیگر افسانوی مجموعوں میں بازگیر اور عالمی ادب کے کہانیوں کے تراجم کا مجموعہ بعنوان ‘‘ماضی کی الماری’’ شامل ہے،   یعقوب شاہ غرشین  نے گوادر اور جاپان:عزم و حوصلے کی سرزمین نامی  سفرنامے بھی تحریر کیے ۔ ان کی پشتو کتب میں  ریچے ریچے ھینداری اور خلیل جبران  کی تحریروں کا پشتو ترجمہ   لېونی قابل ذکر ہے۔ 
معروف ادیب حمید شاہد لکھتے ہیں کہ ‘‘یعقوب شا ہ غرشین بھی افسانہ نگاروں کی اِسی باکمال پیڑھی سے تعلق رکھتاہے۔ وہ فکشن کے حوالے سے معروف شہروں سے دوررہتے ہوئے بھی افسانے کے مزاج میں درآنے والی تبدیلیوں سے خوب آگاہ ہے ۔ وہ زندگی کو درپیش سوالات کو کہانی کے مقابل لاکھڑا کرنے کا حوصلہ اور ڈھنگ رکھتاہے۔ اس کے ہاں تخلیقی منہاج اور انفرادی تجربہ دولخت نہیں ہوتے آمیخت ہوجاتے ہیں یہی سبب ہے کہ اپنی تخلیقی زندگی کے عین آغاز ہی میں وہ انتہائی اہم کہانیاں لکھ کر قابل توجہ افسانہ نگار بن گیا ہے ۔’’یعقوب شاہ غرشین نے اپنی کہانیوں میں دُنیا میں طاقت و کمزوری، حاکم و محکوم، زبردست و زیردست کے فلسفے کو پیش کیا ہے۔ یہ عفریت یہ طاقت وربلا آج بھی انسانوں کو اپنا لقمہ تر بنا رہی ہے۔ ان کے بیشتر افسانے بلوچستان کی محرومیوں، خشک سالیوں اور وہاں مسلط موت کی جدید صورتوں کو پیش  کرتے ہیں۔ یہ موت طاقتوروں اور مقتدر قوتوں کی اَناپرستی اور خودتسکینی کا باعث ہے۔   ‘‘ملنگ باچا’’ میں بھی مرکزی کردار ظلم و ستم سہتے سہتے آخرکار استحصالی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی علامت بن کر اُبھرتا ہے۔