مقبول  فرانسیسی افسانہ نگار الفونس دودے کے قلم سے

آخری سبق


الفونس دودے

گزشتہ صدیوں میں  یورپ میں فرانس، ہالینڈ، پرتگال، برطانیہ، نے ایشیاء اور افریقہ میں کئی ملکوں پر  بزور طاقت یا دوسرے حیلے بہانوں سے قبضے کیے۔ کسی وقت کی فاتح یا غاصب اقوام کسی وقت دوسروں کی مفتوح اور محکوم بھی بنیں۔ یہ کہانی ایک طرف تو جرمنی کے ہاتھوں فرانس کی شکست کے بعد  مفتوح فرانسیسی قوم کی اپنی زبان اور ثقافت سے محبت اور گہرے تعلق کو ظاہر کررہی ہے۔ دوسری طرف اس کہانی میں کسی مفتوح قوم  کے عروج  نو کا ایک راز بھی بیان ہوا ہے۔ 


اس دن صبح اسکول جانے میں مجھے بڑی دیر ہوچکی تھی، ڈانٹ ڈپٹ کے خیال  نے مجھے خوفزدہ کردیاتھا، ڈرسے میرا برا حال  تھا،  بالخصوص اس وجہ سے کہ ماسٹر ہیمل Hamelصاحب  ایک دن پہلے  خبر دار کرچکے تھے کہ وہ فرانسیسی گرائمر میں افعال کے صیغے اور صفت پر ہمارا امتحان لیں گے۔  اور مجھے فرانسیسی زبان کے صیغے تو دور اس کی حروف تہجی بھی نہیں یاد تھی۔ 
لمحے بھر کے لیے میرے ذہن میں یہ آیا کہ میں اسکول جانے کے بجائے کیوں نہ باہر کھیتوں میں آوارہ گردی کروں۔ گرمیوں کے دن تھے اور دھوپ سے چمکیلا اور  پیارا  دن نکلا ہوا تھا!.... میں پیڑوں کے جھنڈ کے پرے سے چڑیوں کے چہچہانے کی آوازیں سن سکتا تھا،  آرا مشین کی مِل کے پیچھے کے کھلے میدان میں ڈرلنگ اور مارچ میں مصروف  پروشیائی سپاہیوں کو دیکھ سکتا تھا۔  فرانسیسی گرائمر  کی مصیبتوں کے مقابلے میں یہ نظارے کہیں زیادہ دلچسپ تھے۔ لیکن بڑی مشکل سے اپنے جذبات کو قابو میں لا کر پریشان خیالی کو دماغ سے نکال کر میں تیزی سے اسکول کی طرفدوڑنے لگا۔
دوڑتے ہوئے چوک  پر بلدیہ کی عمارت میں مئیر کے دفتر  کے پاس سے گزرتے ہوے مجھے وہاں کے نوٹس بورڈ کے ارد گرد بڑا سا مجمع نظر آیا۔ پچھلے دو برسوں سے ساری بری خبریں ہمیں اسی بورڈ پر نظر آتی تھیں۔ ہاری ہوئی جنگیں۔ جبری بھرتی کے اعلانات۔  نئے حاکموں کے حکم نامے۔ میں وہاں رکے بغیر بورڈ پر سرسری نظر ڈال کر آگے بڑھ گیا، میں نے دل ہی دل میں سوچا:
‘‘اب بچا ہی کیا ہے ہونے کے لیے....؟’’
جب چوک سے آگے نکلا تو مجھے قریب سے سرپٹ بھاگتا دیکھ کر واچر Wachter لوہار نے، جو اپنے زیرِ تربیت ملازم کے ساتھ وہیں کھڑا اعلان پڑھنے میں مصروف تھا،مجھ سے کہا، 
‘‘ارے بیٹا ، اتنے تیز نہ بھاگو، ابھی بہت وقت ہے ، تم تو ویسے ہی جلدی اسکول پہنچ جاؤ گے۔’’
 مجھے ایسا لگا کہ وہ میرا مذاق اڑا رہا ہے، اس لیے میں نے دوڑنا جاری رکھا۔ جب میں بھاگتا ہوا اسکول کے چھوٹے سے باغیچے تک پہنچا تو میرا سانس پھولا ہوا تھا۔
عام دنوں میں اسکول شروع ہوتے وقت خاصا شور غل ہوا کرتا تھا جو سڑک سے ہی سنائی دینے لگتا تھا: ڈیسکوں کا کھُل بند، بچوں کا آواز ملا کر  زور زور سے سبق دہرانا ،  اور ماسٹر صاحب کے بھاری بھرکم رُولر کی میزوں پر ٹھَک ٹھَک ۔ ساری آوازیں گلی میں صاف سنائی دیتی تھیں۔  
میں یہ سوچ کر آیا تھا کہ کلاس کے شوروغل اور ہنگامے کا فائدہ اٹھا کر کلاس کے سامنے تماشا بنے بغیر چپ چاپ اپنی بنچ  پر جا بیٹھوں گا ۔ مگر اس دن ہر چیز پر خاموشی طاری تھی، ایسا سکون تھا جیسے وہ اتوار کا دن ہو۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کر اندر دیکھا کہ میرے سارے ہم جماعت اپنی اپنی نشستوں پر چپ چاپ بیٹھے تھے اور ہیمل صاحب اپنا لوہے کا خوفناک رُولر ہاتھ میں اٹھائے ہوئے کمرے میں آگے پیچھے ٹہل رہے تھے۔ مجھے دروازہ کھول کر اس غیر معمولی خاموشی میں سب کے سامنے سے گزرنا بہت دشوار لگا تھا۔  میں دروازے پر ٹھٹک کر کھڑا ہوگیا، عین اس وقت ماسٹر ہیمل نے مجھے دیکھ لیا۔ 
 آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ میں شرم سے کتنا لال ہو چکا تھا اور ڈر کے مارے میرا کتنا برا حال تھا!....
مگر میری پریشانی بے وجہ ثابت ہوئی۔ ماسٹر ہمیل صاحب نے کسی ناراضی کا اظہار کیے بغیر میری طرف دیکھا، اور پھر بڑے نرم لہجے میں بولے، ‘‘فرانز Franz بیٹے، جلدی سے اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤ۔ ہم تو تمھارے بغیر ہی کلاس شروع کرنے والے تھے۔’’
بنچ پھلانگ کر میں کھٹ سے اپنی ڈیسک پر جا بیٹھا۔ میرا ڈر جب ذرا ہلکا ہوا تب جا کر مجھے اس کا احساس ہوا کہ ہمارے ماسٹر صاحب اپنے خوبصورت سبز  رنگ کے  کوٹ، جھالروں سے  بھری قمیص اور سیاہ کامدانی والی ریشمی ٹوپی زیب تن کر کے آئے تھے جس پر خوبصورت کڑھائی ہوئی تھی۔ ایسا لباس تو وہ صرف معائنے یعنی انسپیکشن کے دن اور انعام تقسیم ہونے والے دن  ہی پہنتے تھے۔ ساری کلاس پر ایک عجیب بوجھل فضا طاری تھی۔ پھر اور بھی حیرت کی بات یہ تھی کہ کمرے کی پچھلی بنچوں پر، جو ہمیشہ خالی رہتی تھیں، گاؤں کے چند لوگ بالکل خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں بوڑھا ہاؤزر Hauser اپنی تکونی ٹوپی پہنے، سابق صدرِ بلدیہ، پنشن یافتہ بوڑھا ڈاکیہ، اور کئی اور لوگ شامل تھے۔ یہ سب بڑے اداس نظر آرہے تھے۔ 
ہاؤزر اپنے ساتھ ایک مُڑے تُڑے ورقوں والا پرانا سا قاعدہ لے کر آیا تھاجو اس کے گھٹنوں پر پھیلا ہوا تھا اور جس کے کھلے صفحے پر اس کی بڑے شیشوں والی عینک رکھی ہوئی تھی۔
اپنے ارد گرد کی ان خلافِ معمول چیزوں  کو دیکھ کر ابھی میں حیرت میں ہی تھا کہ ماسٹر ہیمل صاحب اپنی کرسی پر کھڑے ہو گئے اور اسی سنجیدہ اور باوقار لہجے میں جس کے ساتھ ذرا پہلے وہ مجھ سے مخاطب ہوے تھے، بولے، 
‘‘میرے بچّو، میں آج جس کلاس میں تمہارے ساتھ ہوں، یہ میری آخری کلاس ہے۔ برلن Berlinسے حکم آیا ہے کہ اب الزاسAlsace  اور لورین Lorraineکے اسکولوں میں صرف جرمن پڑھائی جائے گی۔ تمھارے نئے استاد کل یہاں آئیں گے۔ تمہارے لیے یہ فرانسیسی کا آخری سبق ہے۔ چنانچہ میں تم سے اب کامل  توجہ کی استدعا کرتا  ہوں۔’’
ان چند الفاظ نے میرے دل میں ہلچل مچادی، مجھے دنیا درہم برہم ہوتی محسوس ہوئی۔ تو گویا بلدیہ کے نوٹس بورڈ پر نئے اعلان کی صورت میں یہی بدبخت خبر  ٹنگی ہوئی تھی!
میرا فرانسیسی کا آخری سبق! مجھے تو ابھی ٹھیک سے لکھنا بھی نہیں آیا تھا، اور میں فرانسیسی کبھی بھی  نہ سیکھ سکوں گا، میری یہ کمی اسی طرح رہے گی! اس وقت مجھے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا، میرا دل بت چین ہوگیا ۔ اس وقت  بےحد افسوس کے ساتھ احساس ہو رہا تھا کہ میں اب تک کس طرح وقت ضائع کرتا رہا تھا۔ کلاس چھوڑ کر چڑیوں کے انڈوں کی کھوج، دریاے سار Saar کے کنارے پھسلنے کا کھیل۔ وہی کتابیں جن سے میں اب تک بیزار رہتا تھااور جن کا بوجھ اٹھانا مجھے ناگوار گزرتا تھا، وہی گرائمر، وہی بزرگوں کے قصّے، یہی سب کچھ اس وقت مجھے اتنے پیارے، پرانے دوست لگ رہے تھے، جن سے بچھڑنا اب دوبھر تھا۔ یہی بات ماسٹر ہیمل صاحب کے بارے میں بھی کہہ سکتے تھے! یہ خیال، کہ وہ ہمیں چھوڑ جائیں گےاور ہم ان کو پھر کبھی نہ دیکھ پائیں گے، ایسا تھا کہ میں ان کی ساری بدمزاجی اور ان کے رُولر سے مار کھانے کی سب سزائیں بھولنے کو تیار تھا۔
لو، تو اسی آخری کلاس کی خاطر وہ اپنا سب سے اچھا، تہوار کے دن کا لباس پہن کر آئے تھے۔ اب جاکر میری سمجھ میں آیا کہ گاؤں کے اتنے سارے بوڑھے لوگ کلاس میں پچھلی نشستوں پر بیٹھنے کے لیے کیوں آئے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ بھی پچھتارہے تھے کہ جب ان کے پاس موقع تھا اس وقت انھوں نے پابندی سے اسکول میں حاضری کیوں نہ دی۔ جس استاد نے اپنے چالیس سال ان سب کی بے لوث خدمت میں گزار دیے تھے، یہ لوگ اب اپنے اپنے طریقے سے اس استاد کی قدر دانی کا فریضہ ادا کر رہے تھے ۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اس وطن سے اپنی وابستگی ظاہر کر رہے تھے جو اب ان سے چھن گیا تھا۔
ابھی میں انہی  سوچوں میں تھا کہ میرا نام پکارا گیا۔ سبق سنانے کے لیے آج میری باری تھی۔ اس جانی پہچانی گردان کو بلند آواز میں کسی غلطی کے بغیر دہرانے کے لیے میں کیا کچھ نہ قربان کرنے کو تیار تھا! مگر میں پہلے ہی لفظ پر اٹک گیا، اور پھر سر جھکائے بنچ کا سہارا لیے چپ چاپ کھڑا رہا۔ شرم اور خوف سے میرا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ مجھے سر اٹھا کر سامنے دیکھنے کی ہمّت نہیں ہورہی تھی۔ پھر مجھے ماسٹر ہیمل صاحب کی آواز سنائی دی:
‘‘فرانز بیٹے، میں اس وقت تمھیں جھڑکوں گا نہیں۔ تمھاری اپنی شرمندگی سزا کے لیے کافی ہے۔ دیکھ لو ہم پر کیا بیتی ہے۔ ہم روزانہ اپنے آپ سے کہتے ہیں: ’ابھی بہت وقت ہے۔ میں کل کتاب پڑھ لوں گا،  اب ہمیں پتا چل رہا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ ہمارے الزاس Alsaceشہر کی بدقسمتی یہی ہے کہ ہم اپنا ہر کام کل پر ٹالتے رہتے ہیں۔ اب وہ دوسرے لوگ ہم سے ٹھیک ہی تو کہتے ہیں: ‘‘تم سب لوگوں کو اپنے فرانسیسی ہونے کا کیسا عجیب گھمنڈ ہے۔ تم اپنی زبان نہ پڑھ سکتے ہو، نہ لکھ سکتے ہو!،  اب ہم پر جو گزر رہی ہے اس میں صرف اس بچّے فرانز ہی کا قصور نہیں ہے۔ اپنی تباہی کے ذمّےدار بڑی حد تک ہم خود ہیں۔
 تمہارے  والدین نے جتنی ضرورت تھی تمھاری تعلیم پر اتنا زور نہیں دیا۔ وہ تو تم سے کھیتوں پر اور مِلوں میں کام لینے کو ترجیح دیتے تھے، تاکہ وہ تھوڑے سے اور پیسے کما سکیں۔ کیا میں خود ملامت سے بری ہوں؟ میں نے خود بھی تم بچّوں کا اسکول کا کام روک کر تم سے اپنے باغیچے میں پانی ڈلوایا ہے اور جب بھی مچھلی کے شکار کے لیے میرا جی چاہا  ، تو میں کلاس کو جلدی چھٹی دے دیتا تھا۔’’
موضوع بدلتے بدلتے ماسٹر ہیمل صاحب آخرکار فرانسیسی زبان کے بارے میں بات کرنے لگے۔ انھوں نے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے خوبصورت زبان ہے۔ یہ بیان کے لحاظ سے سب سے زیادہ واضح اور قاعدوں کے لحاظ سے سب سے زیادہ معقول زبان ہے۔ اس کی حفاظت کرنا اور اس کو کبھی نہ کھونا ہمارا فرض ہے۔ کیونکہ ‘‘اگر کوئی قوم غلام  بن جائے  مگر اس کے باوجود وہ اپنی زبان سے چمٹی رہے اور اس کو نہ بھولے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی قیدی کی جیب میں قید خانے کے دروازے کی چابی رکھی ہو۔’’
پھر انہوں نے گرامر کی کتاب کھول کر اس میں سے سبق پڑھانا شروع کیا۔ اس وقت جس طرح ہر بات میری سمجھ میں آرہی تھی، اس پر میں خود ششدر تھا۔ ان کی ایک ایک بات آسانی سے میرے ذہن نشیں ہو رہی تھی۔ اپنے خیال میں اس سے پہلے میں نے کبھی اتنی توجہ سے سبق نہیں سنا تھا  اور شاید انھوں نے بھی کبھی اس طرح آہستہ آہستہ قاعدے نہیں سمجھائے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ  ہم سے بچھڑنے سے پہلے اپنا پورا علم ہم تک پہنچانا چاہ رہے تھے، اور کوشش کر رہے تھے کہ اس آخری موقعے پر سارے قواعد ہمارے ذہنوں میں بیٹھ جائیں۔
اس سبق کے بعد کتابت اور خوشخطی کی باری آئی۔ اس دن کے لیے ماسٹر ہیمیل صاحب نے بالکل نئی مشقیں تیار کی تھیں، جن پر بہت ہی خوشخط گول گول حروف میں لکھا ہوا تھا: ‘‘فرانس، الزاس، فرانس، الزاس۔’’ ایسا لگ رہا تھا کہ ہماری ڈیسکوں کے اوپر گڑے ہوئے کھونٹوں سے بندھے ہوے ننھے ننھے جھنڈے اُڑ رہے تھے۔ کلاس کے سارے بچّے جس انہماک سے کام کر رہے تھے وہ سماں دیکھنے کے لائق تھا۔
 کیسی خاموشی تھی! کاغذ پر قلم گِھسنے کی آواز کے علاوہ کوئی اور آواز نہیں سنی جا سکتی تھی۔ اسی درمیان میں کچھ پتنگے اُڑتے ہوے کلاس میں گھس آئے، مگر کسی نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ بلکہ بالکل ہی ننھے بچّوں کی توجہ بھی نہ بٹی جو پوری یکسوئی سے اپنے اپنے لکڑی کے سلیٹوں  کے ارد گرد پنسل گھما کر ان مشقوں کو اتارنے کا کام کر رہے تھے، جیسے کہ یہ بھی فرانسیسی کی تحریر ہو! 
اسکول کی چھت پر کبوتر بھاری آواز میں غٹرغوں کر رہے تھے۔ میں نے اپنے دل ہی دل میں کہا، ‘‘تو کیا اب ان کبوتروں کو بھی جرمن زبان ہی میں غٹرغوں کرنے کا حکم ہوگا....؟’’
وقتاً فوقتاً جب میں نے کاغذ سے نظریں اٹھائیں تو دیکھا کہ ماسٹر ہیمل صاحب اپنی کرسی پر ایک طرح سے بیٹھے ہوے کبھی ایک چیز کو اور کبھی دوسری چیز کو آنکھ بھر کر یوں دیکھ رہے تھے، جیسے وہ اسکول کی اس چھوٹی سی عمارت کی ہر چیز اپنی یادداشت میں محفوظ کر لینا چاہ رہے ہوں۔ 
ذرا غور کیجیے! چالیس سال سے وہ اسی ایک جگہ رہتے تھے۔ کھڑکی کے باہر ان کا صحن نظر آتا تھا اور ان کے سامنے ان کے شاگرد بیٹھے رہتے تھے۔ ان کے چاروں طرف بالکل ایک ہی سماں رہتا تھا۔ ہاں اس عرصے میں کثرتِ استعمال سے گھس کر بنچیں اور ڈیسکیں ذرا چکنی ہو گئی تھیں۔ صحن کے اخروٹ کے درخت پہلے سے بڑے ہو گئے تھے اور جو بیل انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی وہ پھیل کر کھڑکیوں کا احاطہ کرتی ہوئی چھت تک پہنچ گئی تھی۔ بھلا ان کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی ان سب چیزوں کو چھوڑتے ہوے! اوپر کے کمرے سے اپنی بہن کی سامان باندھنے کی آوازیں سنتے ہوئے! اگلے دن ان کو یہ ملک ہمیشہ کے لیے چھوڑنا تھا۔
بہر صورت، انہوں نے کلاس کے وقت کے آخری لمحے تک ہمیں پڑھایا۔ لکھائی کی مشق کے بعد تاریخ کا سبق ہوا۔ اس کے بعد ننھے بچوں نے مل کر ‘‘با۔ بے۔ بی۔ بو۔ بُو’’ گایا۔
 کلاس کے پیچھے بیٹھے ہوے ہاؤزر نے عینک لگا کر اور اپنے قاعدے میں دیکھ دیکھ کر سارے حروف بچوں کے ساتھ دہرائے۔ 
فرطِ جذبات سے اس کی آواز میں ارتعاش تھا۔ اس کے پوری محنت سے کام کرنے میں کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ہاں، اس کا پڑھنے کا انداز مضحکہ خیز حد تک عجیب تھا۔ اسے دیکھ کر جہاں ہم سب کو ہنسی آرہی تھی وہیں ہمارا رونے کو بھی دل چاہ رہا تھا۔ آہ، یہ آخری سبق مجھے ساری زندگی نہیں بھولے گا!
اچانک ٹاؤن ہال گھنٹا گھر  کی گھڑی سے بارہ بجنے کی آواز آئی۔ پھر دوپہر کی عبادت کے لیے چرچ کی  گھنٹیوں کا نغمہ بجا۔ اسی وقت فوجی پریڈ سے واپس آنے والے پروشیائی سپاہیوں کے نقاروں کی آواز ٹھیک ہماری کھڑکیوں کے نیچے سے گونجتی سنائی دی۔  
ماسٹر ہیمیل صاحب کرسی سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ان کا قد مجھے پہلے کبھی اتنا اونچا نہیں نظر آیا تھا۔ ان کے چہرے کا رنگ اس وقت بالکل زرد ہو رہا تھا۔
انھوں نے کہنا شروع کیا: 
‘‘میرے دوستو!....میں.... میں ....’’ 
لیکن وہ اور کچھ نہیں کہہ پائے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کا حلق گھُٹ رہا ہے اس لیے وہ اپنا جملہ مکمل نہیں کر سکتے ۔ کچھ بولنے کی بجاے آخر وہ تیزی سے بلیک بورڈ کی طرف مڑے اور ایک چاک اٹھا کر اپنی پوری طاقت سے چاک کو بورڈ پر گھس کر اور جتنے بڑے حروف ان سے بن سکتے تھے ایسے حروف بنا کر انھوں نے لکھا:
‘‘فرانس زندہ باد!’’
پھر وہ دیوار پر سر ٹکا کر وہیں کھڑے رہے، اور انھوں نے منہ سے کچھ کہے بغیر ہمیں صرف ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب تھا:
‘‘سب کچھ ختم ہو گیا! اب گھر جاؤ۔’’








La dernière classe
آخری سبق

الفونس دودے

زیرِ مطالعہ کہانی کا اصلی عنوان ہےLa dernière classe  اور یہ کہانیوں کے مجموعے پیر کی کہانیاں (Contes du lundi) میں شامل ہے،  جو 1873 میں شائع ہوا تھا۔ الزاس (Alsace) کا علاقہ آج کل فرانس کا حصہ ہے لیکن یہ ماضی میں فرانس اور جرمنی کے مابین متنازعہ علاقہ رہا ہے، اور ان میں سے ایک سے دوسرے کے قبضے میں آتا جاتا رہا ہے۔ کہانی کے واقعات اس زمانے کے ہیں جب الزاس پر تازہ تازہ جرمنی کا قبضہ ہوا تھا۔ کہانی کا موضوع کسی قوم کی شکست سے منتج انفرادی اور قومی المیے ہیں جن میں تہذیبی ورثے کی تباہی بھی شامل ہے، مگر اس پیچیدہ موضوع کو مصنف نے ایک بچے کے مشاہدات اور احساسات کے ذریعے بہت سادہ بنا کر پیش کیا ہے۔ کہانی  انگریزی زبان میں ملاحظہ کیجیے

https://en.wikisource.org/wiki/The_Last_Lesson 



فطرت پسند  تحریک کے  نمائندہ  فرانسیسی شاعر ،  ادیب  اور ڈرامہ نگار

الفونس دودے ۔1840ء تا 1897ء 
Alphonse Daudet 



الفونس دودے (الفونس ڈوڈیٹ)، Alphonse Daudet فرانس کے شہر نیمسNîmes کے ایک متمول خاندان میں13 مئی  1840ء  کو پیدا ہوئے ۔ لیکن اس کی پیدائش کے چند سال بعد ہی ان کے والد ونسنٹ دودے کا ریشم کا کاروبار نقصان کی وجہ سے بند ہوگیا، اس لیے دودے کے بچپن اور اوائلِ جوانی کا زمانہ انتہائی عسرت میں گزرا، حتّیٰ کہ وہ اسکول کی تعلیم بھی مکمل نہ کر پائے ۔لیکن اس نے کم عمری ہی سے شاعری اور فکشن لکھنا شروع کردیا تھا۔      1856ء میں وہ  لیون  Lyonشہر چھوڑ کر فرانس کے جنوب میں الیس گارڈ کے اسکولم میں  کلاس اسسٹنٹ  کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔  لیکن چند سال میں ہی  تدریس ترک کردی اور اپنے بھائی ارنسٹ ڈوڈٹ کے پاس فرانس چلے گئے اور ایک  صحافی کی حیثیت سے لکھنا شروع کیا ، اٹھارہ برس کی عمر میں اس کی نظموں کی پہلی کتاب  ‘‘عاشق’’ Les Amoureuses لکھی پھر چند    کہانیاں اور ڈرامے لکھے ،جس سے انہیں ادبی طبقات میں امتیازی حیثیت سے پہچانا گیا۔ نپولین سوم کے وزیر مورنی  نے ان کو اپنا سکریٹری مقرر کیا - وہ اس عہدے پر  1865 میں مورنی کی وفات تک برقرار رہے۔
جنوری 1867 میں اس نے جولیا الارڈ سے شادی کی ، جو خود بھی ایک باصلاحیت مصنفہ تھیں ، جس سے ان کے دو بیٹے ، لیون اور لوسیئن ، اور ایک بیٹی ، اڈی ہوئی۔   دودے  کی زندگی آزاد منش اور بے حد غیر روایتی تھی۔ ناکامی سے دوچار لا ابالی اطوارِ زندگی اور غربت کی وجہ سے اس کی صحت ہمیشہ کمزور رہی ، علاج کے لیے انہیں کئی آپریشن سے گزرناپڑا جس کی وجہ سے رفتہ رفتہ وہ مفلوج زدہ ہوگئے اور  انہیں اپنی باقی زندگی  بستر پر گذارنی پڑی، لیکن انہوں نے لکھنا نہیں چھوڑا۔  اسی بیماری سے وہ صرف 57 سال کی عمر میں پیرس میں دفات پاگئے ۔  
اتنی مختصر عمر کے باوجود ان کی تخلیقات بہت ہیں، جن میں شاعری کے علاوہ  9 ناول، کہانیوں کے گیارہ مجموعے اور دس ڈرامے شامل ہیں۔ ان  کی کئی تخلیقات ، خاص طور پر کہانیوں  کے  بہت سارے تراجم ہوئے۔ 
الفونس دودے کی کہانیوں میں  اس کے بہت سارے کردار اس کی اپنی اور اپنے شناساؤں کی زندگی پر مبنی ہیں۔ اس کو ادب میں فطرت پسند (Naturalist)  تحریک کا نمائندہ گنا جاتا ہے، مگر تخئیلی عناصر، نفسیاتی کشمکش، اور انسانی دکھ درد پر زور دینے کی وجہ سے اس کی تخلیقات عام فطرت پسندوں سے مختلف ہوتی ہیں۔