روسی ادب سے لیو ٹالسٹائی کا ایک شاہکار افسانہ

تین درویش


تین درویشوں کی یہ کہانی دراصل یورپی روس کے جنوب مشرقی ضلع وولگا  کی ایک قدیم لوک داستان ہے جو صدیوں سے  روس کے باشندوں میں سینہ بہ سینہ چلی آرہی ہے ، روس کے عظیم ادیب لیوٹالسٹائی   نے 1885ء میں اس داستان کو ٹری سٹارتھا  (Три старца)  نام سے کہانی کا روپ دیا ۔ انگریزی میں اس ترجمہ   تھری ہرمیتس The Three Hermits یعنی  تین درویش کے نام سے ہوا۔   یہ مختصر کہانی پہلی مرتبہ ہفت روزہ رسالہ نیوا нива میں 1886 میں شائع ہوئی اور بعد میں اس کہانی کا انگریزی میں ترجمہ 1907 ء  میں فنک اینڈ ویگنر  کی جانب سے  لیوٹالسٹائی کے مجموعہ میں شامل  کیا گیا۔ اس کہانی میں تین مرکزی کردار  گمنام سادہ لوح سنت ہیں اور  کسی دور دراز جزیرے پر سادہ زندگی گزار رہے ہیں۔ لیوٹالسٹائی نے کہانی کے پیش لفظ میں حضرت عیسیٰ  کا ایک  قول درج کیا ہے:

‘‘اور جب تُم دُعا کرو تو رِیاکاروں کی مانِند نہ بنو کِیُونکہ وہ عبات خانوں میں اور بازاروں کے موڑوں پر کھڑے ہوکر دُعا کرنا پسند کرتے ہیں تاکہ لوگ اُن کو دیکھیں۔ مَیں تُم سے سَچ کہتا ہُوں کہ وہ اپنا اجر پا چُکے۔  بلکہ جب تُو دُعا کرے تو اپنی کوٹھری میں جا اور دروازہ بند کر کے اپنے رب  سے جو پوشِیدگی میں ہے دُعا کر۔ اِس صُورت میں تیرا رب  جو پوشِیدگی میں دیکھتا ہے تُجھے بدلہ دے گا اور دُعا کرتے وقت غَیر قَوموں کے لوگوں کی طرح بک بک نہ کرو کِیُونکہ وہ سَمَجھتے ہیں کہ ہمارے بہُت بولنے کے سبب سے ہماری سُنی جائے گی۔  پَس اُن کی مانِند نہ بنو کِیُونکہ تُمہارا رب تُمہارے مانگنے سے پہلے ہی جانتا ہے کہ تُم کِن کِن چِیزوں کے مُحتاج ہو۔  [انجیل متی ، باب 6 : آیت  5 تا 8] 





روس کا ایک پادری  آرخانگلسک Arkhangelsk    شہر سے  وولگا سے آنے والے دریائے دوینا Dvina  کے راستے  بحیرہ ابیض میں واقع جزائر سولووتسکی   Solovétsk  کی خانقاہ تک بحری سفرکررہا تھا۔
 کچھ زائرین بھی وہاں موجود درگاہوں پر حاضری کےلیے جہاز پر سوارتھے۔ سفر آسان اور  ہموار تھا۔ ہوا سازگار اور موسم خوشگوار  تھا۔ کچھ زائرین عرشے پر لیٹے تھے کچھ کھا پی رہے تھے یا گروہوں میں بیٹھے کر گپ شپ کر رہے تھے ۔
 پادری بھی عرشے پر آ گیا، اور ادھر اُدھر چکر لگانے لگا، تب اسکا دھیان جہاز کے بادبان کے پاس کھڑے چند لوگوں پر پڑا جو ایک مچھیرے کی بات بڑے غور سے سن رہے تھے، مچھیرا سمندر کی جانب انگلی سے اشارہ کر کے لوگوں کو کچھ بتا رہا تھا۔ پادری نے رُک کر اس سمت دیکھا جدھر مچھیرا اشارہ کر رہا تھا۔  پاردری نے اُسی سمت میں دیکھنے کی کوشش کی جس طرف مچھیرا اشارہ کر رہا تھا، لیکن اُسے دھوپ میں چمکتے سمندر کے سوا کچھ نظر نہیں آیا ۔ اُس نے نزدیک ہو کر بات سُنی چاہی لیکن اُسے دیکھ کر مچھیرا خاموش ہو گیا اور اپنی ٹوپی اُتار کر اُسے سلام کیا ۔ باقی لوگوں نے بھی اپنی اپنی ٹوپیاں اُتاریں اور پادری کے سامنے تعظیماً جُھک گئے۔
‘‘دوستو!، میری وجہ سے آپ اپنی گفتگو نہ روکیں ۔ میں تو بس ان صاحب کی بات سُنے آیا تھا۔’’
‘‘مچھیرا ہمیں درویشوں کے بارے بتا رہا تھا۔’’ایک تاجر نے جواب دیا جو باقی لوگوں کی بانسبت ذرا پرُاعتماد  اور تیز طراز  تھا۔
‘‘کیسے درویش ؟’’ پادری نے کشتی کے کنارے پر پڑے ایک صندوق پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ ‘‘مجھے بھی اُن کے بارے میں بتاؤ۔ میں سُننا چاہتا ہوں ۔ تم کس چیز کی طرف اشارہ کر رہے تھے؟’’
‘‘ ضرور ’’ مچھیرے نے جواب دیا ۔‘‘وہاں وہ جزیرہ دیکھ رہے ہیں ۔’’ اُس نے ذرا دائیں جانب ایک جگہ اشارہ کیا۔ ‘‘اس جزیرے پر تین درویش اکیلے رہتے ہیں تاکہ دنیاوی آلائشوں سے دور رہ کر آخرت میں نجات حاصل کر سکیں ۔’’
‘‘کدھر ہے جزیرہ ....؟’’ پادری نے پوچھا۔ ‘‘مجھے تو کچھ نظرنہیں آرہا۔’’
‘‘ادھر، تھوڑے فاصلے  فاصلے پر ۔میرے ہاتھ کی سمت میں دیکھیں تو نظر آ جائے گا۔ آپ وہ بادل کا ٹکڑا دیکھ رہے ہیں ؟ اُس کے نیچے ذرا سا بائیں جانب ایک دُھندلی سی لکیر نظر آ رہی ہے وہی جزیرہ ہے۔’’
پادری نے دھیان سے دیکھا ، لیکن اُس کی نامانوس آنکھیں دھوپ میں چمکتے سمندر کے پانی کے سوا کچھ نہ دیکھ سکیں ۔
‘‘مجھے جزیرہ نظر نہیں آرہا ۔’’ اُس نے کہا ۔ ‘‘لیکن کون درویش وہاں رہتے ہیں؟’’
‘‘وہ بہت سادہ لوح ، درویش صفت لوگ ہیں۔’’ مچھیرے نے جواب دیا۔‘‘میں نے کافی عرصہ پہلے اُن کے بارے میں سُنا تھا، لیکن ملاقات کا شرف پچھلے سال حاصل ہوا۔’’


پھر مچھیرے نے اُن درویشوں سے ملاقات کا قصّہ سُنایا کہ کیسے ، ایک بار وہ مچھلیاں پکڑنے نکلا اور بھٹک کر رات کے وقت اُس جزیرے پر جا  کر پھنس گیا، اور اسے پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔   صبح جب وہ جزیرے پر ادھر اُدھر گھوم پھر رہا تھا تو اُ سے ایک جھونپڑی نظر آئی اور اُس کے پاس کھڑے ایک آدمی سے ملاقات ہوئی پھر دو آدمی اور آ گئے۔ اُن تینوں نے اُسے کھانا کھلایا ، اُس کا سامان خشک کیا اور اُس کی کشتی کی مرمت کرنے میں بھی مدد کی ۔
‘‘اچھا... وہ دیکھنے میں کیسے تھے.... مطلب ان کا حلیہ؟’’ پادری نے سوال کیا۔
‘‘ایک درویش کی کمر خمیدہ اور قد بہت چھوٹا تھا۔ وہ پادریوں والا جبّہ پہنتا تھا اور بہت ہی بوڑھا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ ضرور سو سال سے زیادہ عمر کا ہوگا۔ وہ اتنا بوڑھا تھا کہ اُس کی سفید ڈاڑھی بھی سبزی مائل ہو رہی تھی، لیکن وہ ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا اور اُس کے چہرے پر فرشتوں جیسا نور تھا۔ ’’
‘‘دو سرا بھی بوڑھا اور کافی لمبے قد کا تھا ۔وہ دیہاتیوں جیسی بوسیدہ سی ٹاٹ کی قمیض پہنتا تھا۔اُس کی ڈاڑھی گھنی اور پیلاہٹ مائل سرمئی تھی ۔ وہ کافی طاقتور تھا اُس نے کسی کی مدد کے بغیر ہی میری کشتی ایسے اُلٹ دی جیسے وہ کوئی کھلونے کا خالی ڈبّہ ہو۔ وہ خاصا خوش مزاج اور رحمدل تھا ۔ ’’
‘‘تیسرا درویش درمیانے قد کاٹھ کا اور سخت مزاج تھا ۔اُس کی برف جیسی سفید ڈارھی گھٹنوں تک لمبی تھی اور گھنی بھنویں بھی اتنی لمبی تھیں کہ اُس کی آنکھوں پر لٹکتی تھیں۔ وہ کمر کے گرد ایک موٹا بوریا لپیٹنے کے علاوہ کچھ نہیں پہنتا تھا۔’’
‘‘کیا وہ تم سے بات کرتے تھے....؟’’ پادری نے پوچھا۔
‘‘زیادہ تر وقت وہ خاموشی سے کام کرتے رہتے تھے،یہاں تک کہ ایک دوسرے سے بھی بہت کم بات کرتے تھے۔ اُن میں سے ایک تو بس ایک نظر دیکھتا تھا اور باقی دونوں اُس کا مطلب سمجھ جاتے تھے۔   ایک بار میں نے سب سے دراز قد درویش سے پوچھا کیا وہ یہاں طویل عرصے سے مقیم ہیں ؟ تو وہ خفا ہو گیا اور غصّے سے بڑبڑانے لگا لیکن جب سب سے بوڑھے درویش نے مسکرا کر اُس کا ہاتھ تھام لیا تو وہ  چُپ ہو گیا۔ سب سے بوڑھے نے صرف اتنا کہا  ‘‘ہم پر رحم کرو’’،اور مسکرا کر خاموش ہو گیا۔’’
مچھیرے کی گفتگو  کے دوران ہی جہاز جزیرے کے نزدیک ہو چکا تھا۔
‘‘اب آپ جناب چاہیں تو جزیرہ  کو آسانی سے دیکھ سکتے ہیں ۔’’ تاجر نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ 
پادری نے دیکھا تو اب وہاں واقعی جزیرہ ایک گہری لکیر کی مانند دکھائی دے رہاتھا۔چند لمحے اُسے دیکھنے کے بعد پادر ی جہاز کے عقبی حصّے کی طرف گیا اور جہاز کے اسٹئیرنگ پر بیٹھے ملاح سے پوچھا۔


‘‘یہ کون سا جزیرہ ہے؟’’
‘‘اس جزیرے کا کوئی نام نہیں ہے، بے نام  جزیرہ ہے، سمندر میں اس طرح کے کئی جزیرے ہیں۔’’ ملاح نے جواب دیا۔
‘‘کیا یہ سچ ہے کہ اس جزیرے پر تین درویش رہتے ہیں ؟’’
‘‘جناب ،ایسا کہا جاتا ہے ، لیکن  سچ جھوٹ کا مجھے نہیں معلوم۔ مچھیرے دعویٰ کرتے ہیں کہ اُنہوں نے درویشوں کو دیکھا ہے ، لیکن ہو سکتا ہے وہ یوں ہی کہانیاں بنا رہے ہوں ۔’’
‘‘میرا دل ہے کہ میں جزیرے پر جا کر اُن درویشوں سے ملوں ۔’’ پادری نے کہا۔‘‘یہ بتاؤ میں وہاں کیسے پہنچ سکتا ہوں ؟’’
‘‘جہاز جزیرے کے بالکل قریب نہیں جاسکتا ، جناب۔’’ ملاح نے جواب دیا۔ ‘‘لیکن کشتی کے ذریعے آ پ کو وہاں پہنچایا جا سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ آپ کپتان سے بات کرلیں ۔’’
کپتان کو بلوایا گیا۔
‘‘‘میں درویشوں سے ملنا چاہتا ہوں ’’ پادری نے کہا۔‘‘ کیا مجھے کشتی کے ذریعے ساحل پر پہنچایا جاسکتا ہے....؟’’
پہلے تو کپتان نے اپنی جان چھڑاتے ہوئے پادری کو اُس کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی، لیکن جب پادری کا اردہ دیکھا تو کہنے لگا ۔
‘‘ٹھیک ہے ، ہم وہاں جاسکتے ہیں ، لیکن اس طرح ہمارا کافی وقت برباد ہو جائے گا، اور گستاخی معاف، میں آپ سے یہ ضرور کہوں گا کہ وہ بوڑھے اس قابل نہیں ہیں کہ آپ اُن سے ملاقات کی تکلیف اُٹھائیں ۔ میں نے سُنا ہے کہ وہ بے وقوف بوڑھے لوگ ہیں ، انہیں دنیا داری کی کچھ سمجھ  بوجھ نہیں ہے، نہ کسی سے بات کرتے ہیں اور نہ اُنہیں کسی بات کی سمجھ میں آتی ہے۔ وہ تو بالکل ایسے ہی زندگی بسر کرتے  ہیں جیسے سمندر کی مچھلیاں....’’
‘‘پھر بھی میں اُن سے ملنا چاہتا ہوں ۔’’ پادری نے کہا۔ ‘‘میں تمھیں ہونے والی زحمت اور زائد وقت کا ہرجانہ ادا کر دوں گا۔ برائے مہربانی اب مجھے ساحل پر پہنچا دو۔’’  کپتان کے پاس ، پادری کی بات مان لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے جہاز کا رُخ جزیرے کی طرف موڑدیا گیا۔ جہاز کے اگلے حصّے پر ایک کر سی رکھ دی گئی جس پر پادری بیٹھ کر جزیرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ تمام مسافر بھی جہاز کے اگلے حصّے پر جمع ہو گئے اُن کی نگاہیں مسلسل جزیرے پر جمی ہوئیں تھیں ۔ جن کی نگاہیں تیز تھیں اُن کو جلد ہی چٹانیں اور پھر جھونپڑی نظر آنے لگی۔ آخر کار درویش بھی نظر آنے لگے۔ کپتان نے دوربین سے جزیرے کا جائزہ لینے کے بعد اُسے پادری کے حوالے کر دی۔
‘‘ٹھیک ہے !تین آدمی کنارے پر کھڑے ہیں۔ اُس بڑی چٹان کے تھوڑی دائیں طرف ۔’’
پادری نے دوربین سے دیکھاتو اُسے تین آدمی نظر آئے،  ایک لمبا ، ایک درمیانہ سا اور ایک جُھکی کمر والا بہت ہی چھوٹا ۔ تینوں کنارے پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑے تھے۔


کپتان نے پادری سے کہا: ‘‘جہاز یہاں سے آگے نہیں جا سکتا ، جناب ۔ اگر آپ کنارے پر جانا چاہتے ہیں تو آپ کو کشتی پر جانا پڑے گا او ر اس دوران جہاز یہیں ٹھہرے گا۔’’
رسا پھینکا گیا،   جہاز کا لنگر  پانی میں ڈال کر بادبان لپیٹ دیئے گئے۔ کشتی جہاز سے نیچے اُتاری گئی، ملاح اُس میں اُترے پھر پادری بھی سیڑھی کے ذریعے کشتی پر سوار ہو گیا۔ ملاحوں نے چپّو چلانے شروع کیے اور کشتی تیزی سے جزیرے کی طرف روانہ ہو گئی۔ جزیرے کے تھوڑا قریب پہنچنے پر اُنہیں تینوں درویش ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑے نظر آ ئے۔  ان  تینوں کی حالت مچھیرے کے بتائے ہوئے حلیہ کی طرح ہی تھی، بلکہ ان کے لباس نہایت بوسیدہ تھے۔ 
ملاحوں نے کشتی کنارے پر لگائی اور پادری کے اتر جانے تک کشتی کو تھامے رکھا۔ درویشوں نے اُسے جُھک کرسلام کیا اور پادری نے بھی اُنہیں دعائے خیر دی ، پھر اُن سے گفتگو شروع کردی۔
‘‘خدا کے بندوں ! میں نے سُنا ہے کہ ، آپ نیک لوگ اپنی اور دوسرے انسانوں کی بخشش کے لیے، خدا اور یسوع مسیح سے دعا کرنے کی خاطر یہاں گوشہ نشین ہیں۔ میں بھی خدا کا ادنیٰ سا خادم ہوں ، میں آپ لوگوں سے مل کر یہ جاننا چاہتا تھا کہ آپ لوگ کون ہیں، یہاں کب سے ہیں اور کیا کرتے ہیں۔’’
تینوں بوڑھے آدمیوں نے ایک دوسرے کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا ، لیکن خاموش رہے۔
‘‘مجھے بتائیں کہ، آپ لوگ آخر ت کی نجات اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟  آپ لوگ  اِس جزیرے میں رہ کر کیسے خدا کی خدمت  و عبادت کر رہے ہیں؟’’
 دوسر ے درویش نے ٹھنڈی سانس بھر کر سب سے بوڑھے درویش کی طرف دیکھا تو اُس نے مسکرا کر کہا :‘‘ہمیں نہیں معلوم کہ خدا کی خدمت اور خوشنودی  کیسے حاصل کرتے ہیں ۔ ہم تو بس یہاں اپنے کام کاج کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔’’
‘‘لیکن آپ خدا کی عبادت کیسے کرتے ہیں، دُعا کیسے مانگتے ہیں ؟’’ پادری نے سوال کیا ۔
‘‘ہم بس اس طرح دُعا کرتے ہیں،’’ بزرگ ترین درویش آسمان کی جانب دیکھتے ہوئے کہا 
‘‘تو ہے اوپر، ہم ہیں نیچے  ،  ہم پر کرم کر۔’’  
بوڑھے درویش کے جواب دینے کے بعد تینوں نے اپنی نگاہیں آسمان کی طرف کیں اور پھر ایک ساتھ دعا دہرائی : 
‘‘تو ہے اوپر  ، ہم ہیں نیچے  ، ہم پر کرم  کر۔’’


پادری ان بوڑھوں کی دعا سُن کر تضحیک آمیز انداز میں مسکرادیا اور کہنے لگا۔  ‘‘ یہ کیسی دعا ہوئی.... میں نے آپ لوگوں کے بارے میں لوگوں سے سنا تو  میں بہت متاثر ہوا تھا۔ مجھے تجسس ہوا کہ میں آپ سے ملوں اور جانوں کہ آپ لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا کرتے ہیں، اُس سے دُعا کیسے کرتے ہیں، لیکن مجھے لگتا ہے کہ کپتان نے آپ کے متعلق ٹھیک ہی  کہا تھا۔  آپ لوگوں  کو دنیا داری تو کیا عبادت  کی بھی سمجھ نہیں ہے، آپ کی دُعا کا طریقہ بھی  درست نہیں ہے۔ ’’
تھوڑے توقف کے بعد پادری بولا
‘‘خدا کا کرم ہے کہ اُس نے مجھ ناچیز کو اپنے بندوں کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری سونپی ہے ۔  میں تمہیں سکھا تاہوں ، تم سنتے جاؤ۔ جو طریقہ میں تمہیں بتاؤں گا وہ میرا اپنا گھڑا ہوا نہیں ہے، بلکہ خداوند نے مقدس صحیفوں میں بندوں کو  اس طریقے سے اُس کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔’’
پھر پادری نے انہیں سمجھانا شروع کیا، پادری نے انہیں   خدا، مسیح  اور روح القدس کے بارے میں بتایا، جن کے ذریعے انسانوں نے رب کو پہچانا۔


پادری نے بوڑھوں کو یسوع مسیح کی زندگی کے بارے میں بتایا، پادری نے بتا کہ کس طرح یسوع مسیح  انسانوں کی نجات کے لیے زمین پر آئے ، کس طرح انہوں نے جنم لیا، کس طرح بیماروں اندھوں کوڑیوں کو شفایاب کیا، ان کے معجزے روٹی اور مچھلی کا دسترخوان اور  ان کا پانی پر چلنا،  ،  کس طرح انہوں نے لوگوں کو ہدایت دی،    کس  طرح عبادت کرنا سکھائی۔  اب پادری ان درویشوں سے   کہا اب آپ مقدس کتاب کی دعا سُنیں اور میرے بعد دہرائیں : 
‘‘اے ہمارے  رب....’’
پہلے ، سب سے بوڑھے درویش نے پادری کی دعا دہرائی ، ‘‘اے ہمارے  رب’’ پھر دوسرے درویش نے دعا دہرائی ، ‘‘اے ہمارے  رب’’پھر تیسرے درویش نے دہرائی ،‘‘اے ہمارے  رب’’
’’جو آسمان پر ہے۔ ’’ پادری نے اگلا جملہ کہا۔
سب سے بوڑھے درویش نے اپنے بغیر دانتوں کے پوپلے منہ سے دعا دہرائی تو الفاظ سمجھ سے باہر تھے ۔  دوسرےدرویش نے بھی الفاظ ادھر اُدھر کردیے اورتیسرا بھی درست طریقے سے دعا نہیں دہرا سکا ، اُس کی مونچھیں اتنی بڑی تھیں کہ اُسے بولنے میں دقّت ہوتی تھی۔
پادری نے پھر الفاظ دہرائے،  اور تینوں درویشوں نے اُس کے بعد پھر دعا دہر وای ۔ پادری ایک پتھر پر بیٹھا تھا اور درویش اُس کے سامنے کھڑے  تھے ۔ اُن کی نظریں اُس کے ہونٹوں پر جمی ہوئیں تھیں ۔ جیسے ہی الفاظ اُس کے منہ سے ادا ہوتے درویش فوراً وہی الفاظ دہرا دیتے ۔ پادری سارا دن ایک لفظ بیس ، تیس ، او ر سو بار کہتا اور بوڑھے اُسے دہراتے۔ وہ غلطی کرتے اور پادری اُن کو دوبارہ شروع سے یاد کراناشروع کردیتا۔
پادری اُس وقت تک وہاں موجود رہا جب تک اُنہوں نے  مقدس کتاب  کی دعا مکمل طور پر یاد نہ کر لی،  تاکہ وہ پادری  کے بغیر پوری دعا پڑھ سکیں۔ منجھلے درویش نے سب سے پہلے دعا یاد کی اور اکیلا ہی اُسے دہرانے کے قابل ہو گیا۔ پادری نے اُس سے بار بار مشق کروائی تھی ۔آخر کار باقی دو کو بھی دعا یاد ہو گئی ۔
اندھیرا چھا رہا تھا، اور پانیوں کے پیچھے سے چاند طلوع ہو رہا تھا، تب پادری جہاز پر واپس جانے کے لیے اجازت چاہی تو تینوں بوڑھے آدمی اُس کے سامنے احتراماً جُھک گئے ۔ اُس نے تینوں کو اُٹھاکر ایک ایک بوسہ دیا اور تاکید کی کہ وہ اُسی طرح دعا کریں جیسے اُس نے اُن کو سکھائی ہے ، اور جہاز پر واپس جانے کے لیے کشتی پر سوا رہو گیا۔


وہ کشتی میں بیٹھا ہو ا بھی درویشوں کی آوازیں سُن سکتا تھا جو بلند آواز میں دعا کی گردان کر رہے تھے۔  جب کشتی جہاز کے قریب پہنچی تو اُن کی آوازیں سُنائی دینا بند ہو گئیں لیکن وہ تینوں اب بھی کنارے پر وہیں کھڑے تھے جہاں وہ اُن کو چھوڑ کر آیا تھا۔ سب سے چھوٹے قد کا درمیان میں ، دراز قد دائیں طرف اور درمیانے قد کا بائیں طرف تھا۔ جیسے ہی پادری جہاز پر پہنچا جہاز کا لنگر  اُٹھا لیا گیا اور بادبان کھول دیئے گئے ۔ جہاز منزل کی طرف روانہ ہو گیا اور پادری نے جہاز کے پچھلے حصّے میں موجود اپنی جگہ سنبھال لی اور جزیرے کو دیکھنے لگا جہاں سے وہ ابھی آیا تھا۔ کچھ دیر تک اُسے درویش نظر آئے پھر وہ نظر سے اوجھل ہوگئے لیکن جزیرہ اب بھی نظر آرہا تھا۔ آخر کار جزیرہ بھی نظروں سے غائب ہو گیا اور اب صرف تاحد نگاہ چاندنی میں چمکتا سمندر ہی آنکھوں کے سا منے رہ گیا۔
زائرین سونے کے لیے لیٹ چکے تھے اور عرشے پر مکمل خاموشی تھی ۔ پادری ابھی سونا نہیں چاہتا تھا وہ جہاز کے عقبی حصّے میں بیٹھا ، اُن نیک بوڑھوں کے خیال میں مگن سمندر میں اُس طرف دیکھا رہاتھا جہاں سے اب جزیرہ اوجھل ہو چکا تھا۔ اُس نے سوچا کہ وہ بوڑھے ، رب کی دعا ، یاد کر کے کتنے خوش ہوں گے ۔پادری خدا کا شکر گزار تھا کہ ، خدا نے اُسے نیک آدمیوں کو دعا سکھانے اور اُن کی مدد کے لیے چنا۔
وہ جزیرے کی طرف نظریں جمائے سوچوں میں گم تھا ۔ اُس کی آنکھوں کے سامنے سمندر کی لہروں پر چاندنی پھیلی ہوئی تھی ،اسی روشنی میں اچانک اُسے سمندر پر کوئی سفید اور چمک دار شے نظر آئی۔
‘‘پتانہیں کیا یہ بگلا ہے؟ یا کسی چھوٹے جہاز کا چمکدار بادبان ؟ ’’ وہ اُس چیز کو غور سے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا؟
‘‘یہ کوئی کشتی ہی لگتی ہے، جو ہمارے پیچھے پیچھے چلی آ رہی ہے۔’’ اُس نے سوچا ۔  ‘‘لیکن یہ تو بڑی تیزی سے قریب  آ رہی ہے۔ ابھی چند لمحے پہلے تو بہت دور تھی، لیکن اب اتنا  نزدیک آگئی۔ یہ کشتی نہیں ہو سکتی، مجھے اس کے بادبان نظر نہیں آ رہے۔ لیکن یہ جو کوئی بھی ہمارے پیچھے آ رہا ہے ہم تک پہنچنا چاہتا ہے۔’’
وہ کوئی اندازہ نہیں لگا سکا کہ آنے والی چیز کیا ہے؟  نہ کشتی ، نہ پرندہ ، نہ مچھلی اور کوئی آدمی بھی نہیں کیونکہ اُس کی جسامت انسانی جسم سے کافی بڑی تھی اور ویسے بھی کوئی انسان سمندر کے درمیان پانی پر اس طرح کیسے چل سکتا ہے ۔
پادری اپنی جگہ سے اُٹھا اور ملاح سے کہا ‘‘اُدھر دیکھو، وہ کیا ہے ....؟’’  اُس نے دو بار سوال دہرایا حالانکہ وہ اب واضح طور پراُس چیز کو دیکھ سکتا تھا۔ یہ وہی بوڑھے درویش تھے جن سے وہ ابھی مل کر آیا تھا۔  اُن کے گرد نور کا ہالہ تھا اور سرمئی ڈاڑھیاں چمک رہیں تھے۔ وہ تینوں سمندر کے پانی پر جہاز کی طرف اس تیزی سے بھاگتے چلے آ رہے تھے جیسے کہ جہاز رُکا ہوا ہو۔
پتوار پر بیٹھے ملاح نے درویشوں کو دیکھاتو خوف کے مارے   جہاز کا  پتوار  (اسٹئیرنگ )چھوڑ دیا ۔
‘‘اوہ خدایا! یہ تو وہی درویش ہیں جو ہمارے پیچھے پیچھے سمندرپر ایسے چلے آ رہے ہیں جیسے وہ سوکھی زمین ہو! ’’
مسافر اُس کی آواز سُن کر دوڑتے ہوُئے جہاز کے عقبی حصّے میں جمع ہو گئے۔اُنھوں نے دیکھا کہ تینوں درویش ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلے آ رہے ہیں اور اُن میں سے دو جہازکو رُکنے کا اشارہ کر رہے ہیں ۔ وہ تینوں اپنے پیروں کو حرکت دیئے بغیر پانی پر سُبک رفتاری سے چل رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ جہاز رُکتا درویش اُس تک پہنچ گئے۔ تینوں نے بیک آواز بولنا شروع کر دیا:
‘‘اے خدا کے بندے! ہم تمھاری سکھائی ہوئی دعا بھول گئے ہیں۔ جتنی دیر ہم دہراتے رہے، ہمیں یاد رہی، لیکن جونہی ہم نے ذرا دہرائی روکی ہم میں سے  ایک لفظ بھول گیا۔ اور اب ایک ایک لفظ  کر کے ساری دعا ہی بھول گئے ہیں۔ ہمیں کچھ یاد نہیں رہا ہے۔ ہمیں دوبارہ سکھلا دو۔’’


پادری نے سینے پر صلیب کا نشان بنایا اور کہا 
‘‘خدا کے نیک بندوں ! اس کی کوئی ضرورت نہیں،  مجھے یقین ہے کہ آپ  جو بھی دعا مانگتے ہیں وہ خدا تک پہنچ رہی ہوگی، کیونکہ خدا سے جو بھی صاف نیت پاک دل سے  مانگا جاتا ہے وہ قبول ہوتا ہے۔ میں اس قابل نہیں کہ آپ کو کوئی دُعا سیکھا سکوں۔ بس ہم گناہ گاروں کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔’’
پادری نے بوڑھے درویشوں  کو جھک کر سلام کیا اور وہ تینوں درویش اسی طرح سمندر  کی لہروں پر ٹہلتے ہوئے واپس اپنے جزیرے کی طرف لوٹ گئے ۔ صبح ہونے تک اُس جگہ روشنی جھلملاتی رہی جہاں وہ تینوں درویش نگاہوں سے اُوجھل ہوئے تھے۔





اس کہانی کا ترجمہ    انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے لنک ملاحظہ  کیجیے 

http://www.online-literature.com/tolstoy/2896/

اس کہانی کو  روسی زبان میں ایک مختصر ڈرامہ  کی صورت میں  فلمایا گیاہے  جسے  دئیے  گئے  لنکس پر  دیکھاجاسکتا ہے 

https://youtu.be/LI-IgQ7f0UM

https://youtu.be/Ch8PbLgkWwY



add
add




روسی ادب کے مایہ ناز افسانہ نگار

لیو ٹالسٹائی ۔1828ء تا 1910ء

لیوٹا لسٹائی (9 ستمبر 1828ء۔ 20 نومبر 1910ء) روس کی ریاست تُلّاTula میں یسنایا Yasnaya کے جاگیردار کے گھر  پیدا ہوئے۔ آپ  کے والدین بچپن میں ہی انتقال کر گئے لہٰذا وہ اور اُن کے بہن بھائی مختلف رشتہ داروں کے ہاں پرورش پاتے رہے۔بچپن میں فرانسیسی اور جرمن استادوں سے تعلیم حاصل کی، سولہ سال کی عمر میں اس نے کازاں یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا  لیکن اُن  کے اساتذہ انہیں  نالائق طالب علم خیال کرتے  تھے، ساتھی طلٍبا اور اساتذہ کے منفی رویے کے باعث انہوں  نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر آبائی قصبے یسنایا  لوٹ آئے۔   کئی سال تک ماسکو اور پیٹرس برگ میں لوگوں کی سماجی زندگی کا مطالعہ اورکسانوں کی حالت بہتر بنانے کے منصوبے بناتے رہے ۔1851ء میں فوج میں شامل ہوکر ترکو ں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا لیکن جلد ہی وہ فوجی زندگی سے اکتا گئے  اور پیٹرس برگ آگئے  ۔ آپ  نے  پہلا ناول 1856ء میں بچپن کے نام سے لکھا  لیکن آپ  کی شہرت اس وقت پھیلی جب اس نے جنگ کی ہولناکیوں کے بارے میں سیواتوپول  کی کہانیاں لکھیں ۔ پھر مغربی یورپ کی طویل سیاحت کی ،  بعد میں اپنی جاگیر پر واپس آئے  کسانوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف ہو گئے  ۔ اس دوران اس  نے اپنا زندہ جاوید امن اور جنگWar & Peace  اور  اینا کرینینا Anna  Kareninaلکھ کر  بےپناہ شہرت حاصل کی۔ 
1876ء کے بعد سے روسی کلیساکے جمود   زدہ نظریات کے خلاف خیالات آپ  کے  ذہن   میں چھائے رہے  اور آپ  نے عیسائیت کی نشاۃ ثانیہ کا اپنا نظر یہ وضع کیا   اور انسانی محبت ، سکون اور اطمینان قلب    اور عدم تشدد کو اپنا مسلک قرار دیا ، ساتھ ہی  ایک اعتراف  کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اپنے نظریات  کو پیش کیا اور ذاتی ملکیت کے تصور کو رد کیا،  انسان سے انسان کے جبرو استحصال کی شدت سے مذمت کی ۔ وہ زبان اور قلم سے جمہوریت، مساوات اور اخوت کی تلقین کرنے لگے ۔ آپ  کے انقلابی خیالات روس سے باہر بھی مقبول ہونے لگے لوگوں پر آپ  کا اثر و رسوخ اتنا زیادہ تھا کہ روس کی حکومت کو آپ  کی سرگرمیوں کی مخالفت کرنے کی جرات نہ ہوئی۔  آپ  اپنے نظریات  کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہتے تھے لیکن خاندان کے افراد اس کے مخالف  تھے ،  لہٰذا    دل گرفتہ ہو کر  گھر چھوڑ دیا اور اپنے حصے کی ساری جاگیر اور دولت کسانوں اور مزدورں میں تقسیم کر دی،  زندگی کے آخری لمحوں تک تن کے دو کپڑوں کے علاوہ آپ  کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔  آخر کار  20نومبر 1910ء کو ایک اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر کسمپرسی کی حالت میں وفات پاگئے ۔   شاعر مشرق علامہ اقبال کہتے تھے کہ عیسائی دنیا میں پاکیزہ زندگی، روحانیت، ترک و تجرید، درویشی و ایثار کے اعتبار سےآپ  جیسی مثال مشکل سے ملے گی ۔ 

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں