شرلاک ہومز کے جاسوسی کارناموں میں سے ایک 

نیلا ہیرا


سر آرتھرکانن ڈائل

نیلے ہیرے کی کہانی…جو ایک عجیب وغریب طریقے سے چھپایا گیا تھا  

شرلاک ہومز کی کہانی The Blue Diamondکا ترجمہ




میرانام ’ڈاکٹر واٹسن‘ ہے اور میں  مشہور جاسوس شرلاک ہومز کا اچھا دوست ہوں ۔ پچھلے سال  کرسمس  کے دو دن بعد میں  اس کے گھر  221 B بیکراسٹریٹ‘ گیا۔ میں  اُسے کرسمس کی مبارک باد دینا چاہتا تھا۔ وہ مجھے بیٹھک میں  کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا ملا ۔ اس کے ساتھ ہی چند اخبارات رکھے ہوئے تھے۔ قریب رکھی کرسی پر ایک پرانا ہیٹ ٹنگا ہوا تھا۔ شرلاک کے ہاتھ میں  ایک محدب عدسہ تھا۔ ‘‘تم کچھ کام کر رہے ہو، میں  جاؤں ؟’’ میں  نے کہا۔
‘‘نہیں ، بیٹھ جاؤ اور اس پرانے اوردلچسپ ہیٹ کی طرف دیکھو۔’’ اس نے جواب دیا۔



میں  بیٹھ گیا۔ اس وقت باہر سڑک پر کافی ٹھنڈ تھی مگر ہومز کی بیٹھک گرم ہورہی تھی۔
‘‘اس پرانے ہیٹ میں  تمھاری کیا دلچسپی ہے، کیا یہ کسی جرم میں  استعمال ہوا ہے؟’’ میں  نے پوچھا۔
ہومز نے ہنستے ہوئے جواب دیا:‘‘نہیں  جرم میں  نہیں ‘ مجھے یہ بیکر اسٹریٹ ہوٹل کے دربان’ پیٹرسن‘ سے ملا ہے اور اُسے کرسمس  والے دن سڑک پر پڑا ہوا ملا تو اس نے مجھے دکھانے کے لیے اُٹھا لیا۔اسی وقت دربان کواِس کے ساتھ ایک پرندہ بھی ملاتھا۔یہ ایک اچھا اور صحت مند ’ہنس‘ تھا۔ میں  نے وہ ہنس آج صبح اسے واپس کر دیا۔وہ آج رات اسے اپنے گھر پر پکا کر کھانے جارہا ہے۔’’
‘‘پہلے یہ ہیٹ تھا اور اب تم ہنس کے بارے میں  بات کر رہے ہو، میں کچھ سمجھ نہیں  پارہا۔’’ میں  نے کہا۔
‘‘چلو پھر شروع کرتے ہیں  کہ اس واقعے کا آغاز کیسے ہوا۔’’ ہومز نے کہا۔



‘‘کرسمس  والے دن صبح تقریباً چار بجے’ پیٹرسن‘ اپنا کام ختم کرکے گھر جارہا تھا۔ جب وہ ’عدالتی سڑک‘ پر پہنچا تواس نے دیکھا کہ ایک لمبا آدمی کندھے پر ہنس لٹکائے جارہا ہے۔ وہ تھوڑی دیر اس کے پیچھے چلتا رہا۔ سامنے ہی سڑک پر چند نوجوان بھی موجود تھے۔ اچانک ان میں  سے ایک نے لمبے آدمی کے سر پر رکھے ہیٹ کو نشانہ بنایا جس سے اس کا ہیٹ سڑک پر گر گیا۔ لمبے آدمی نے اپنی چھڑی سے نوجوان کو مارنے کی کوشش کی مگرحادثاتی طور پر پچھلی دُکان کی کھڑکی سے جاٹکرایا، جس سے کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ گیا۔ اسی لمحے پیٹرسن اس آدمی کی طرف بڑھا تاکہ اس کی مدد کر سکے مگرلمبے آدمی نے دوڑ لگادی، شاید دُکان کا شیشہ ٹوٹنے سے وہ گھبراگیا تھا اور پیٹرسن کودربان والے کوٹ اور ہیٹ میں  دیکھ کر اُسے پولیس والا سمجھنے لگے۔ جب وہ بھاگا تو اپنا ہیٹ اورساتھ ہی ہنس بھی سڑک پر ہی چھوڑ گیا۔ اسی لمحے نوجوان بھی فرار ہوگئے۔پیٹرسن ہیٹ اور ہنس اٹھا کر اپنے گھر لے گیا اور اگلے دن یہاں  لے آیا۔ہنس کے بائیں  پاؤں  کے ساتھ ایک چھوٹی سی دلچسپ چٹھی لگی ہوئی تھی۔جس پر لکھا تھا’مسٹر ہنری بیکر اور اہلیہ کے لیے اس کے علاوہ ہیٹ پر بھی ایچ۔بی لکھا ہوا ملا ہے۔’’ ہومز نے بتایا۔
‘‘اوہ۔ہیٹ اور ہنس کے مالک کا نام ’ہنری بیکر‘ ہے۔’’ میں  نے کہا۔
‘‘ہاں …!مگر واٹسن۔میرے عزیز۔اس سے ہمیں  کوئی زیادہ مدد نہیں  ملتی۔یہاں  لندن میں  تو سیکڑوں  ہنری بیکر ہیں ۔ میں  نے آج صبح پیٹرسن کویہ کہہ کر ہنس واپس کر دیاکہ یہ تمھارے رات کے کھانے کے لیے ہے کیوں  کہ میں  یہ نہیں  چاہتا کہ کچھ بُرا ہو جائے۔۔تم توجانتے ہو۔’’
‘‘کیا مسٹر بیکر نے اپنے ہیٹ اور ہنس کے متعلق اخبار میں  کوئی اشتہار دیا؟’’ میں  نے پوچھا۔
‘‘نہیں ۔’’ہومز نے جواب دیا۔
‘‘پھر ہم کس طرح اسے ڈھونڈ سکتے ہیں ؟’’
‘‘درست۔شاید یہ ہیٹ ہماری مدد کر سکتاہے… واٹسن! فرض کرو کہ تم منٹ دو منٹ کے لیے ایک جاسوس ہو اور یہ میرا محدب عدسہ ہے۔ تم مجھے اس ہیٹ کے مالک کے بارے میں  کیا کیا بتا سکتے ہو؟’’ ہومز نے کہا۔
میں  نے محدب عدسہ لیا اورکالے رنگ کے ہیٹ کو دیکھاجو بے حد گندا اور پرانا تھا۔ میں  نے اس پر بنے الفاظ  HB بھی دیکھے۔ میرے لیے یہ کسی بھی طرح کسی دوسرے پرانے اور کالے ہیٹ سے مختلف نہیں  تھا۔
‘‘میں  کچھ نہیں  دیکھ پایا۔’’ میں  نے یہ کہتے ہوئے کالا ہیٹ اپنے دوست کو دے دیا۔
‘‘معاف کرنا واٹسن! تم نے دیکھا تو سہی مگر تم نے سوچا نہیں  کہ تم نے کیا دیکھا۔’’ ہومز نے کہا۔
‘‘بالکل ٹھیک!…تم اس ہیٹ میں  کیا دیکھ سکتے ہو؟’’میں  نے کہا۔
‘‘اس ہیٹ کا مالک ایک ذہین آدمی ہے۔وہ کبھی امیر تھا مگر اب غریب ہے۔ اس کی بیوی پہلے کبھی اس کا بہت خیال رکھتی تھی مگر اب نہیں  رکھتی اور وہ تیس سے چالیس سال کے درمیان کا آدمی ہے۔’’ ہومز بولا۔
‘‘درست۔شاید میں  کندذہن ہوں  ہومز!۔ مگرمجھے سمجھ نہیں  آئی، تم یہ کیسے سوچ سکتے ہو کہ وہ ایک ذہین آدمی ہے؟’’
ہومز نے ہیٹ اپنے سر پر رکھاتو وہ اس کی ناک تک آگیا۔ ‘‘یہ ایک بڑاہیٹ ہے ایک بڑے ہیٹ والے آدمی کا ایک بڑا سر ہوتا ہے اور ایک بڑے سر والے آدمی کا ایک بڑا دماغ ہوتا ہے اور ایک بڑے دماغ کے ذریعے ایک انسان بہت کچھ سوچتا ہے۔’’
‘‘مگر تم نے کہا کہ وہ کبھی امیر تھا مگر اب غریب ہے… کیسے؟’’
‘‘ہیٹ تین سال پرانا ہے جہاں  تک مجھے یاد ہے یہ ہیٹ اُن دنوں  ساری دکانوں  پر آئے تھے اور کافی مہنگے بھی تھے۔ تین سال پہلے اس آدمی نے ایک اچھا ہیٹ خریدا تھا یعنی وہ اس وقت امیر تھا مگر اب اس کے پاس رقم نہیں  ہے کہ وہ نیا ہیٹ خرید سکے۔ لہٰذا اِن دنوں  وہ غریب ہے۔’’
‘‘بالکل ٹھیک، مگر تم نے کہا کہ وہ ایک تیس سے چالیس سال کا آدمی ہے۔یہ بات ہیٹ تمھیں  کس طرح  بتاتا ہے؟’’میں  نے پوچھا۔
‘‘ہاں ۔۔۔ جب میں  نے اپنے محدب عدسے کے ذریعے دھیان کے ساتھ ہیٹ کا معائنہ کیا تو میں  ہیٹ پر لگے چند سرمئی بال دیکھنے کے قابل ہوسکا۔ عموماً لوگوں  کے سرمئی بال تیس سے چالیس کے درمیان ہوتے ہیں۔’’
‘‘میں سمجھ گیا مگر اس کی بیوی کے بارے میں  کیا خیال ہے۔تم نے کہا کہ وہ اس کا خیال نہیں  رکھتی۔’’
‘‘کیونکہ اس کا ہیٹ بہت گند اہے۔ جب ایک عورت اپنے شوہر کا خیال رکھتی ہے تواس کا ہیٹ بھی صاف رکھتی ہے۔’’
‘‘شاید اس کی بیوی نہیں ہے۔’’
‘‘ہاں !اس کی بیوی ہے، یاد کروہنس کی بائیں  ٹانگ پر چٹھی۔’’
‘‘اوہ۔۔ ہاں ۔ تمھارے پاس تو ہر چیز کا جواب ہے۔’’ میں  نے کہا۔
اسی لمحے دروازہ کھلااور ہوٹل کا دربان پیٹرسن بھاگتا ہوا اندر داخل ہوا۔ وہ بہت جذباتی نظر آرہا تھا۔
‘‘ہنس۔۔۔مسٹرہومز۔۔۔۔ہنس۔’’وہ بولا۔
‘‘کیا وہ دوبارہ زندہ ہو کر باورچی خانے کی کھڑکی سے باہر اُڑ گیا؟’’ ہومز نے پوچھا۔
‘‘نہیں  مسٹر ہومز،میری بیوی کو پرندے کے پیٹ سے یہ ملا ہے۔’’پیٹرسن نے مٹھی کھولی تو اس میں  ایک نیلے رنگ کا خوب صورت ہیرا تھا۔


جب شرلاک ہومز نے دربان کے ہاتھ میں  ہیرا دیکھا تو سیدھا تن کر بیٹھ گیا اور بولا: ‘‘بہت خوب پیٹرسن۔ ہنس کے پیٹ سے کیا حیرت انگیز چیز ملی ہے۔ تم جانتے ہو کہ تمھارے ہاتھ میں  کیا ہے؟’’
‘‘میرے خیا ل میں  یہ ایک ہیرا ہے مسٹر ہومز…کیا یہ قیمتی ہے؟’’
‘‘یہ نواب مارکر کی بیوی کا نیلاہیر اہے اور ایک ہفتے پہلے گم ہوا تھا۔’’
‘‘یہ تم کیسے جانتے ہو؟’’میں  نے پوچھا۔
‘‘واٹسن،تم اکثر و بیشتراخبار ضرور پڑھا کرو۔ آج کے ٹائمز اخبار میں اس کے بارے میں  اشتہار ہے۔ یہ دیکھو۔’’ ہومز نے اخبار مجھے دیا اور پھر وہ دربان سے مخاطب ہوا۔


‘‘یہ بہت قیمتی ہیرا ہے پیٹرسن!بیگم نواب تقریباً بیس ہزار پاؤنڈاس کی قیمت ادا کر چکی ہیں ۔ اس کو پچھلے ہفتے کاسموپولیٹن ہوٹل میں  ان کے کمرے سے کسی نے اُٹھا لیا تھا۔اب وہ اسے واپس حاصل کرنا چاہتی ہیں  اوران کا کہنا ہے کہ وہ تلاش کرنے والے کو ہزاروں  پاؤنڈ دینے کو تیار ہیں ۔’’
‘‘ہزاروں  پاؤنڈز۔’’ پیٹرسن جذباتی انداز میں  چیخا اور پھر کچھ کہے بغیرہمارے درمیان کرسی پر بیٹھ کر پہلے ہومز کو اور پھر مجھے دیکھا۔
‘‘میرے خیال میں  ہیرا پانچ دن پہلے گم ہوا تھا۔’’ میں  نے کہا۔
‘‘ہاں !اس معاملے کی اخباری رپورٹ کے مطابق اُنھوں  نے ایک جوان آدمی’جان ہارنر‘ کو دیکھا تھا جس نے ہیرا اُٹھایا۔’’ ہومز نے جواب دیا۔
ہومز نے مجھے پرانا اخبار دیا اور میں  نے رپورٹ پڑھی۔ ‘‘کاسموپولیٹن ہوٹل سے ہیرے کی گم شدگی’’
اس مہینے کی 22 تاریخ کو کاسمو پولیٹن ہوٹل کے کمرے سے بیگم نواب کا ایک نیلا ہیرا چوری ہو گیا۔ پولیس کا خیال ہے کہ یہ ہیرا 26 سالہ جان ہارنر نے زیورات کے ڈبے میں  سے اس وقت اُٹھایا جب وہ کھڑکی کی مرمت کرنے آیا تھا۔ ہوٹل کے اسسٹنٹ منیجر جیمزرائیڈر نے عدالت کو بتایاکہ میں  ہارنر کو لے کر بیگم نواب کے کمرے میں  آیا، پھر اس کو چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لیے باہر چلاگیا اور جب دوبارہ واپس آیا تو ہارنر وہاں  نہیں  تھا۔ البتہ ڈبہ بستر کے ساتھ والی میز پرکھلا پڑا تھا اور ہیرا اس میں  نہیں  تھا۔’’
بیگم نواب کی ملازمہ ’کیتھرین ‘ نے بیان دیا کہ میں  نے مسٹررائیڈرکو آواز دیتے ہوئے سنا تو میں  دوڑتی ہوئی کمرے میں  آئی۔ میں  نے دیکھا کہ مسٹر رائیڈر وہاں  کھڑے ہیں  اورڈبہ ان کے سامنے ہے۔
واردات کے ایک دن بعد ہارنرکو پولیس نے گھر سے گرفتارکیا مگروہ ہیرا برآمد نہیں  کروا سکے۔ اس کے بعد تفتیش کار بریڈ نے عدالت کو بتایا: ‘‘جب میں  نے اس سے کہا کہ تم ہیرا چور ہوتو اس نے مجھے مارا۔’’
اس کے بعد ہارنر نے عدالت کو غصے میں  کہا: ‘‘آپ نے غلط آدمی کو پکڑا ہے۔میں  نے بیگم نواب کا کوئی ہیرا نہیں  اُٹھایا۔ میں  چور نہیں  ہوں ۔’’
اس کے بعد بریڈ اسٹریٹ نے عدالت کو بتایا ‘‘ہارنر پہلے بھی ایک بار چوری کے جرم میں قید کاٹ چکا ہے۔ میں  کہتا ہوں  اسی نے ہیرا چرایا ہے۔’’
معاملہ اگلے ہفتے اعلا عدالت میں  جا رہا ہے۔’’
‘‘خوب۔ تو یہ ہے ہیرے کے بارے میں  اخباری رپورٹ۔’’
ہومز نے کہا:‘‘اب ہم یہ جاننا چاہتے ہیں  کہ ہیراکس طرح کاسمو پولیٹن ہوٹل میں  موجود بیگم نواب کے کمرے سے نکلا اور عدالتی سڑک پر ایک ہنس کے پیٹ میں  پہنچا۔ تم نے دیکھا واٹسن، اس معاملے میں  ایک جرم ہے، یعنی یہاں  ایک ہیرا ہے، جو ہنس کے اندر سے ملااورہنس پرانے ہیٹ والے آدمی ہنری بیکرسے ملا۔ میں  جانتا ہوں  کہ جب میں  تمھیں  مسٹر ہنری بیکر کے بارے میں  بتا رہا تھا تو تم ہلکی سی بیزاری محسوس کر رہے تھے مگر اب ہم اسے ضرور تلاش کر لیں  گے۔وہ نیلے ہیرے والے معاملے میں  کب اور کیسے آیا؟ان دوسوالوں  کے جواب بہت اہم ہیں ۔’’
‘‘مگر ہم کس طرح اسے تلاش کر سکتے ہیں ؟’’میں  نے پوچھا۔
‘‘اخباری اشتہار کے ذریعے۔’’ ہومز نے کہا۔
اس نے قلم اٹھایااور لکھنا شروع کردیا:
‘‘کیا آپ کا ہنس اور کالا ہیٹ کچھ دن پہلے عدالتی سڑک پر گم ہوا؟
کیاآپ کا نام ’ہنری بیکر‘ ہے؟
مہربانی فرما کر آج شام 6:30 بجے، 221 B بیکر اسٹریٹ پر تشریف لائیے اور اپنی چیزیں  لے جائیے۔’’
‘‘میرا خیال ہے یہ اشتہار سب کچھ بول رہا ہے۔’’ ہومز نے کہا۔
‘‘ہاں ، مگر کیاوہ اسے پڑھے گا؟’’میں  نے پوچھا۔
‘‘ہاں  واٹسن! میرے خیال سے وہ ایک غریب آدمی ہے۔ یاد رکھو! اس وقت وہ خوف زدہ تھاکیونکہ وہ دکان کی کھڑکی کے ساتھ ٹکرا گیا تھا، مگر مجھے یقین ہے کہ اب وہ افسوس کر رہا ہوگا کہ میں  اپنا پرندہ سڑک پر چھوڑ کر کیوں  بھاگا؟میرا خیال ہے اشتہارات کے لیے اس نے کل کے اخبارات بھی دیکھے ہوں  گے اور آج کے بھی دیکھے گا۔’’
‘‘ہاں ، میں  سمجھ رہاہوں ۔’’میں  نے کہا۔
ہومز نے دربان کوکچھ رقم دی اور کہا: ‘‘پیٹرسن! مہربانی کرکے نیچے جاؤاور شام کے سارے اخبارات میں  یہ اشتہار لگوا دو۔’’
‘‘بہت اچھا جناب اور کیا ہیرا آپ کے پاس ہی چھوڑ جاؤں ؟’’
‘‘ہاں  پیٹرسن! اور میں  یہ کہہ رہاتھاکہ کیا تم اشتہار دینے کے بعد واپس آتے ہوئے ایک ہنس خرید کر یہاں  لا سکتے ہو؟ ہمیں  ہنری بیکر کے لیے ایک نیا ہنس چاہیے اگروہ آتا ہے توپرانے ہنس کوتو تمھارا خاندان آج رات کے کھانے میں  کھا نے جا رہا ہے،لہٰذاوہ تو اسے نہیں  مل سکتا۔’’
دربان دروازے سے باہر نکلااور سڑک پر اُتر گیا۔ ہومز نے نیلا ہیرا اپنے ہاتھ میں  لیا اور اسے دیکھتے ہوئے بولا: ‘‘کیاخوب صورت چیز ہے۔ اس کے عجیب رنگوں  کو دیکھو، تیز نیلا اور ٹھنڈا سفید، تمام بڑے نگینے بالآخرلوگوں  کو چور اور قاتل بناتے ہیں ۔ یہ جنوبی چین کے دریا آموے کے قریب سے آیا ہے اور صرف بیس سال پرانا ہے، یعنی یہ ایک نئی چیز ہے مگر پہلے سے ہی اس کی وجہ سے بھیانک جرائم ہو رہے ہیں ۔ میں  اسے اپنی تجوری میں  رکھنے جا رہا ہوں اور پھر میں  بیگم نواب کو خط لکھوں  گااور کہوں  گا کہ خوب صورت نیلا ہیرا ہمارے پاس ہے۔’’
‘‘مگر ہومز! مجھے سمجھ نہیں  آتی کہ اتنا سب کچھ کے بعد بھی نوجوان ہارنرمعصوم کیسے ہے؟’’ میں  نے کہا۔
‘‘مجھے نہیں  معلوم۔’’
‘‘ہیٹ اور ہنس والے ایک لمبے آدمی ہنری بیکر کے بارے میں  کیا خیال ہے؟شاید وہ ہیرے کا چور ہو؟’’ میں  نے کہا۔
‘‘نہیں ، میرا نہیں  خیال کہ وہ ایساہے۔مجھے یقین ہے کہ وہ معصوم آدمی ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ یہ بات جانتا تھا کہ ہنس کے اندر ایک قیمتی ہیرا موجود ہے۔ ہیرے کی مالیت بیس ہزار پاؤنڈ سے زیادہ ہے۔ دیکھو اور انتظار کرو، شایدآج شام مسٹربیکر ہمارے اشتہار کاجواب دے اورہم اس کے بارے میں  کچھ اور جان سکیں ۔’’
‘‘بالکل ٹھیک۔ میں  آج شام کام ختم کر کے آتا ہوں ،مجھے اس گُتھی کے سلجھنے میں  بہت دل چسپی ہے۔’’ میں  نے کہا۔
‘‘بہت اچھا،رات کا کھاناسات بجے ہے۔’’ہومز نے جواب دیا۔
میں  شام 6:30 بجے بیکراسٹریٹ پرآیا تووہاں  پہلے سے ایک لمبا آدمی شرلاک ہومز کے دروازے پر موجود تھا۔ اس نے سردیوں  کا لمبا کوٹ پہن رکھا تھا اوراس کے سر پر اسکاٹش ہیٹ تھا۔ جب میں  قریب پہنچا تودروازہ کھلا۔ ہومز کی گھریلو ملازمہ مسز ہڈسن نے ہمیں  شام بخیر کہااور ہم سیڑھیاں  چڑھ کر ہومز کے کمرے میں  جا پہنچے۔
‘‘مجھے یقین ہے کہ آپ مسٹر ہنری بیکر ہیں …مہربانی فرماکر بیٹھیے!’’جب وہ آدمی اندر داخل ہواتوہومز نے اس سے کہا۔ پھر ہومز نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا: ‘‘آہا۔۔۔ واٹسن، تمھاری کیا بات ہے،جب بھی ہم تمھاری ضرورت محسوس کرتے ہیں  تم یہاں  ملتے ہو۔’’ پھر اس نے دوبارہ اپنے دوسرے مہمان کی طرف دیکھا۔
‘‘کیایہ آپ کا ہیٹ ہے ،مسٹر بیکر؟’’
مسٹر بیکر نے کرسی پر ٹنگے ہیٹ کو دیکھا: ‘‘ہاں، جناب یہ میرا ہیٹ ہے ،اس کے بارے میں  تو کوئی دوسرا سوال ہی نہیں  ہے۔’’
یہ ایک بڑے سر والا بڑا آدمی تھا۔ذہانت بھرے چہرے اور سرمئی بالوں والا، مجھے اس کے بارے میں  ہومز کے کہے ہوئے الفاظ یاد آگئے۔ اس نے پرانا اور گندا کوٹ پہن رکھاتھا جس کے اندر قمیص نہیں  تھی اور وہ آہستہ اور احتیاط سے بول رہا تھا۔میں  نے اسے دیکھا ،سنا اورپھر سوچا: ‘‘یہ ایک ذہین آدمی ہے۔ یہ کبھی امیر تھا مگر اب اس کے پاس دولت نہیں  ہے اور چیزیں  خریدنااس کے لیے اتنا آسان نہیں  ہے۔’’
‘‘ہمیں  آپ کا ہیٹ اور ہنس کچھ دن پہلے ملے مگر آپ ہمیں  اتنی آسانی سے نہیں  مل سکتے تھے مسٹر بیکر۔ ہم آپ کا پتا نہیں  جانتے تھے۔آپ نے اخبار میں  اپنے پتے کے ساتھ ایک اشتہار کیوں  نہیں  دیا؟ہم نے آپ کی طرف سے اشتہار کا بہت انتظار کیا مگر ہمیں  کچھ نظر نہیں  آیا۔’’ہومز نے کہا۔
مسٹر بیکر مسکرایا: ‘‘میں  معافی چاہتا ہوں ۔ اشتہار مہنگا ہوتا ہے اور میرے پاس آج کل زیادہ رقم نہیں  ہے، کبھی ہوتی تھی مگر اب نہیں  ہے۔’’ وہ رُکا اور بولا۔ ‘‘میں  یہ سمجھا کہ عدالتی سڑک پر موجود نوجوان میرا ہیٹ اور ہنس لے گئے ہوں  گے اور میں  بے کار کے لیے اخبار میں کوئی مہنگا اشتہار نہیں  دینا چاہتا تھا۔’’
‘‘میں  سمجھ گیا۔ اب اس سے پہلے کہ ہم مزید کچھ کہیں ،میں  آپ کوآپ کے ہنس کے بارے میں  کچھ بتانا ضروری سمجھتا ہوں ۔ مسٹر بیکر!۔۔۔ میں معافی چاہتا ہوں  مگر۔۔۔۔خیر۔۔۔۔ہم اسے کل کھا چکے ہیں ، اگر آپ کو معلوم نہ ہو۔’’ ہومز نے کہا۔
‘‘آپ اسے کھا چکے ہیں ۔’’ ہمارے مہمان نے جذباتی انداز میں  کھڑے ہو تے ہوئے کہا ۔
‘‘ہاں ،خیر ہم نہیں  چاہتے کہ آپ خالی ہاتھ جائیں ۔۔۔ آپ دیکھیے کہ ہم نے آج صبح ہی آپ کے لیے ایک نیااور دلکش ہنس خریدا ہے۔ وہ دروازے کے ساتھ میز پر رکھا ہے۔یہ سب آپ کے لیے ٹھیک ہے ناں ؟’’
‘‘اوہ، ہاں  ہاں ۔’’ مسٹر بیکر خوشی سے بولا اور دوبارہ بیٹھ گیا۔
‘‘چلیے چل کردیکھتے ہیں …میرا خیال ہے کہ آپ کے پرانے ہنس کی ٹانگیں ، سر اور پیٹ کی ہر چیز باورچی خانے میں  رکھی ہوگی، آپ کو اگر چاہیے تو۔۔۔۔’’
آدمی ہنسااور بولا:‘‘نہیں  نہیں …مگر میں  یہ ضرور پسند کروں  گا کہ نیا اور دلکش ہنس اپنے ساتھ گھر لے کر جاؤں ، آپ کابہت شکریہ۔’’
شرلاک ہومز نے ہلکی سی مسکراہٹ لیے میری طرف دیکھا۔پھراس نے مسٹر بیکر سے کہا: ‘‘بہت اچھا…وہ رہاآپ کا ہنس اور ہیٹ ،مہربانی فرما کر اِنھیں  اُٹھا لیجیے۔او ہ ہاں ۔اس سے پہلے کہ آپ رخصت ہوں ، کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں  کہ آپ نے یہ ہنس کہاں  سے لیا تھا؟میں  ہنسوں  کے بارے میں  بہت کچھ جانتا ہوں اور اسی لیے آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں  کہ وہ ایک شاندار پرندہ تھا۔’’
٭…٭
بیکر نے ہیٹ اور ہنس اپنے ہاتھوں  میں  اُٹھالیے، پھر بولا: ‘‘بہت اچھا جناب! میں  نے یہ برطانوی عجائب گھر کے ساتھ والی سراے الفاسے لیا تھا۔اسی سال الفا کے مالک ونڈیکیٹ نے ہنس کلب کھولا ہے۔ہر ہفتے ہم کچھ پیسے گلک میں  ڈال دیتے ہیں  اور کرسمس کے موقع پر ہم اس رقم سے ہنس خرید لیتے ہیں ۔’’اس کے بعد اس نے خدا حافظ کہا اور چلا گیا۔
‘‘خوب۔ ایک سوال کا جواب تو مل گیا کہ مسٹربیکر ہیرا چور نہیں  ہے۔ واٹسن تمھیں  بھوک تو نہیں  لگی؟’’ میرے کھوجی دوست نے کہا۔
‘‘نہیں  زیادہ نہیں ۔’’
‘‘توپھر ہم کھانابعد میں  ہی کھائیں  گے، ہمیں  ابھی اسی وقت لازمی الفا جانا ہے اور مسٹر ونڈیکیٹ سے ملاقات کرنی ہے۔’’
ہومز اور میں  کوٹ، ہیٹ لے کر ٹھنڈی سڑک پر نکل کھڑے ہوئے۔ہمارے سروں  پر سیاہ آسمان تھا۔ہم مشرق کی طرف کچھ دیر چل کر الفا کے سامنے جا پہنچے۔ ہومز نے دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہو گئے۔
اندر سراے کے مالک ونڈیکیٹ نے ہمیں  کچھ مشروب پیش کیا۔
‘‘کیا یہ مشروب اچھا ہے؟ میں  نے یہ اس لیے پوچھا کیوں  کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ہنس بہت اچھے ہیں ۔ مسٹر ہنری بیکر نے ہمیں  تمھارے ہنس کلب کے بارے میں  بتایا ہے۔’’ ہومز نے اس سے پوچھا۔
‘‘آہا، مگر یہ ہنس ہمارے نہیں  بلکہ ایک آدمی کی طرف سے آئے تھے۔ اس کی کووینٹ گارڈن میں  چھوٹی سی دُکان ہے۔ اس کا نام بریکن رِج ہے۔’’
‘‘شکریہ بھلے انسان۔’’ ہومز نے کہا۔ ہم نے مشروب کی قیمت اد اکی اور سراے میں  ہی ٹہلتے ہوئے مشروب پیا اور گرم سراے سے نکل کر دوبارہ ٹھنڈی سڑک پر آگئے۔
‘‘چلو اب کووینٹ گارڈن۔’’ ہومز نے کہا اور ہم برطانوی عجائب گھروالی سڑک کی طرف چل پڑے۔
‘‘یادرکھنا واٹسن! معاملہ ایک ہنس سے شروع ہوا اور اب مسٹر ہارنر کی سات سالہ قید پر ختم ہونے جارہا ہے، مجھے لگتا ہے شاید ہم اس دل چسپ معاملے کے بارے میں  مسٹر بریکن رج کی دکان پر مزید جان سکتے ہیں ۔’’
ہم جنوب کی طرف چلتے ہوئے جلد ہی مسٹر بریکن رج کی دُکان پر پہنچ گئے۔بریکن رج اورایک لڑکا دکان کے دروازے پر ہی موجود تھے۔شاید رات کے اس پہر دکان بند ہونے کے والی تھی۔
‘‘شب بخیر ،بڑی سرد رات ہے۔’’مسٹر ہومز بولا۔
‘‘میں  آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں ۔’’ مسٹربریکن رج نے پوچھا۔
ہومز نے دکان کی خالی کھڑکی کو دیکھتے ہوئے پوچھا‘‘میر اخیال ہے کوئی ہنس نہیں  ہے؟’’
‘‘دوسری دکان میں  ہیں  کچھ۔آپ کی پچھلی طرف۔’’ مسٹر بریکن نے کہا۔
‘‘آہ ہاں ، مگر میں  آپ کی طرف آیا ہوں  کیوں  کہ میں  نے سناہے کہ آپ کے ہنس بہت اعلا ہیں ’’ ۔
‘‘بریکن رج کے پرندے شاندار۔’’…ہومز بولا۔
‘‘کس نے کہا؟’’ مسٹر بریکن نے پوچھا۔
‘‘الفا کے مالک نے۔’’ ہومز نے بولا۔
‘‘آہا،ہاں ۔اس نے کرسمس سے دودن پہلے چوبیس ہنس خریدے تھے۔’’ مسٹر بریکن نے بتایا۔
‘‘وہ تو بہت اچھے تھے،آپ نے کہاں  سے لیے تھے؟’’ ہومز نے پوچھا۔
‘‘یہ تو میں  تمھیں  نہیں  بتاؤں  گا۔’’بریکن رج غصے سے بولا۔
‘‘باربار لوگ آ کر ان ہنسوں  کے بارے میں  پوچھتے ہیں  اور مجھے یہ بالکل پسند نہیں ۔میں  نے ان کی اچھی خاصی رقم ادا کی تھی۔ میں  انھیں  الفا بھیج کر سب بھول گیا مگر پھربھی اس کے بعد اتنے سارے سوالات پوچھے گئے کہ ہنس کہاں  ہیں ؟آپ ان کا کتنا معاوضہ چاہتے ہیں ؟ کون آپ کو بیچتا ہے؟مجھے نہیں  پتا کہ لوگ ان میں اتنی دلچسپی لے رہے ہیں ۔آپ جانتے ہیں  کہ لندن میں  صرف یہی ہنس کی دکان تو نہیں  ہے۔’’
‘‘میں  جانتا ہوں ،مگر اس سے پہلے کس نے تم سے ان ہنسوں  کے متعلق پوچھا؟ میں نے تو نہیں  ابھی تک پوچھا مجھے اس کی ضرورت بھی کیا تھی مگر مجھے اب تمھاری مدد چاہیے۔ ہوا یوں  کہ ہم نے الفا میں ایک ہنس خرید کر کھایا تومیں  نے کہاکہ یہ ایک دیسی ہنس تھا مگر یہ جومیرے دوست ہیں  ڈاکٹرواٹسن،یہ کہتے ہیں  کہ یہ لندن کا ہنس تھا۔ اب ہم میں  سے کون ٹھیک ہے۔ یہ ایک اہم سوال ہے،کیونکہ جیتنے والے کو پانچ پاؤنڈ ملیں  گے۔’’ ہومز نے کہا۔
‘‘اچھا پھر تو تمھارا نقصان ہو گیا اور تمھارا دوست جیت گیا۔وہ ہنس لندن ہی سے آئے تھے۔’’بریکن رج بولا۔
‘‘میں  کیسے یقین کر لوں ؟’’ ہومز بولا۔
‘‘ایک پاؤنڈ کہتا ہے کہ میں  ٹھیک ہوں ۔’’ مسٹر بریکن نے شرطیہ انداز میں  کہا۔
ہومزنے ایک پاؤنڈ جیب سے نکالا اور بولا: ‘‘بہت اچھا، میں  دینے کو تیار ہوں  مگر میں  جانتا ہوں  کہ تم اپنی رقم کھونے جا رہے ہو۔’’
‘‘بل بکس (Bill Books) اُٹھا کر لاؤ۔’’بریکن رج نے ہنستے ہوئے کہا تو لڑکا اٹھا کر لے آیا۔
بریکن رج نے چھوٹی بُک کھولی اور بولا: ‘‘یہ میری ایڈریس بُک ہے۔ جب لوگ ہنس فروخت کرنے آتے ہیں  تو ان کے ایڈریس اس میں  لکھتا ہوں ۔ دیہاتیوں  کے بائیں  طرف اور شہریوں  کے دائیں  طرف، ناموں  کے بعد لکھے ہوئے نمبر اصل میں  بڑی والی بک کے صفحہ نمبر ہیں ۔ سیدھی طرف والا تیسرا نام پڑھیے۔’’
‘‘مسز اوکس ہاٹ، 117 بریکسٹن روڈ، نمبر 249’’ ہومز نے پڑھا۔
پھر بریکن رج نے بڑی بک کھولی اور بولا:‘‘اور یہ ہے میری ’اِن اور آؤٹ‘ بک۔ اب دیکھو صفحہ نمبر249پر، یہاں  ہیں  مسز اوکس ہاٹ۔ 22 دسمبر کی تاریخ میں  تمھیں  کیا نظرآرہا ہے؟’’
‘‘مسزاوکس ہاٹ کی طرف سے چوبیس ہنس آئے اورتمام کے تمام الفا میں  مسٹر ونڈیکیٹ کی طرف گئے۔’’ ہومز نے پڑھا۔
‘‘اب یہاں  تم کیا کہو گے؟’’ بریکن رج نے کہا۔ ہومز نے غصے میں  پاؤنڈ بریکن رج کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
٭…٭
ہومزسڑک پر رُک گیا۔ وہ بالکل بھی غصے میں  نہیں  تھا۔ اچانک وہ ہنسنا شروع ہو گیااور بولا:‘‘تم نے دیکھا واٹسن! پہلے تو بریکن رج مسز اوکس ہاٹ کا نام اور پتا بتانے کو بالکل تیار نہیں  تھامگربعد میں  جب اس نے دیکھاکہ وہ مجھ سے آسانی سے ایک پاؤنڈ حاصل کر سکتاہے تواس نے مجھے ہر چیز بتا دی اور تم نے سنا کہ اس نے ایک بات بڑی دل چسپ کہی، جب وہ غصے میں  تھا کہ دوسرے لوگ مجھ سے ہنسوں  کے بارے میں  سوالات کرتے ہیں ۔’’
اچانک ہماری پیٹھ کے پیچھے بریکن رج کی دکان سے شور کی آواز آئی۔ہم نے مڑکردیکھا تو بریکن رج اپنی دکان کے سامنے غصے میں  کھڑا نظر آیا، جب کہ ایک چھوٹا او ر کمزور آدمی اس کے سامنے سڑک پر کھڑا تھا۔
بریکن رج چیخا: ‘‘دیکھو! میں  اُن ہنسوں  کے بارے میں  ایک لفظ بھی نہیں  سننا چاہتا۔مسزاوکس ہاٹ جب چاہیں  آسکتی ہیں  اور مجھ سے بات کر سکتی ہیں مگر تم نہیں ۔ تمھارے پاس کوئی کام نہیں  ہے کرنے کو؟کیا میں  نے ہنس تم سے لیے تھے؟’’
‘‘نہیں ، مگران میں  سے ایک ہنس میرا تھا۔میں  نے تمھیں  بتایا ہے۔’’ چھوٹے آدمی نے التجا کی۔
‘‘اس کے بارے میں  مسز اوکس ہاٹ سے پوچھو۔’’
‘‘مگر وہ مجھ سے کہتی ہیں  کہ مسٹر بریکن رج سے پوچھو۔’’
‘‘اچھا!تو پھرمیں  کچھ نہیں  کر سکتا۔میں  تم سے مزید کچھ نہیں  سننا چاہتا،سمجھے تم؟اب دفع ہو جاؤ۔’’
بریکن رج نے غصے سے دکان کا دروازہ بند کیا اور چھوٹا آدمی اندھیری سڑک پر دوڑنے لگا۔
‘‘یہ سب کچھ ہونے کے بعد شاید ہمیں  مسز اوکس ہاٹ کے گھر بریکسٹن روڈ جانے کی ضرورت نہیں  ہے۔ چلو کیوں  نا اس آدمی سے بات کرتے ہیں ۔شاید یہ ہماری مدد کرسکے۔’’ ہومز پر سکون انداز میں  مجھ سے بولا۔
ہومزنے خاموشی سے اس آدمی کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو یکایک آدمی رُکا اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہمیں  کھڑا پایا۔اس کا چہرہ سفید تھا۔
‘‘آپ کون ہیں  اور کیا چاہتے ہیں ۔’’اس نے کمزورآواز میں  کہا۔
‘‘معذرت کے ساتھ… ہم نے وہ سوالات سنے جو تم نے دکان دار سے کیے۔میرا خیال ہے کہ ہم تمھاری مدد کر سکتے ہیں ۔’’ ہومز نے کہا۔
‘‘آپ کون لوگ ہیں  اور میری مدد کیسے کر سکتے ہیں ؟’’
‘‘میرا نام شرلاک ہومز ہے اور میرا کام یہی ہے کہ چیزوں  کے بارے میں  وہ کچھ جانوں  جو دوسرے لوگ نہیں  جانتے۔’’ ہومز نے بتایا۔
‘‘مگر آپ تو اس بارے میں  کچھ بھی نہیں  جانتے۔’’
‘‘معاف کیجیے گا۔میں ہر چیز جانتا ہوں ۔تم ان چوبیس ہنسوں  کی تلاش میں  ہو جو بریکسٹن روڈ سے مسز اوکس ہاٹ نے یہاں  بریکن رج کو فروخت کیے۔اس نے الفا کے مالک مسٹر ونڈیکیٹ کو فروخت کر دیے اور ونڈیکیٹ نے اپنے ہنس کلب میں  لوگوں  کو بیچ دیے۔’’
‘‘اوہ۔۔۔ جناب! یہ تو حیرت انگیز بات ہے۔مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔مجھے ان ہنسوں  میں  بہت دلچسپی ہے۔ جتنی میں کہہ سکتا ہوں  اس سے بھی کہیں  زیادہ۔’’چھوٹے آدمی نے جذباتی انداز میں  کہا۔
‘‘مزید گفتگو کے لیے کیوں  نہ ہم میرے گھر چلیں؟  مجھے اس ٹھنڈی سڑک پر کھڑے ہو کر بات کرنا پسند نہیں ۔’’ ہومز نے ہاتھ کا اشارہ کیا تو ایک ٹیکسی آکر رُکی۔
‘‘مگر اس سے پہلے کہ ہم چلیں ،کیا آپ ہمیں  اپنا نام بتا سکتے ہیں ؟’’ ہومز نے پوچھا۔
چھوٹے آدمی نے جواب دینے سے پہلے ہومز کو دیکھا اور پھر مجھے دیکھا۔‘‘جےجے جان روبنسن۔’’وہ بولا۔
‘‘نہیں ،نہیں ۔ہم آپ کا اصل نام جاننا پسند کریں  گے۔مہربانی ہوگی۔’’ہومز اطمینان سے بولا۔
اجنبی کے چہرے کا رنگ سفید سے بدل کر سرخ ہو گیا:‘‘بہت اچھا!میرا اصل نام جیمزرائیڈرہے۔’’وہ بولا۔
‘‘خوب،خوب،خوب…کاسمو پولیٹن ہوٹل کے اسسٹنٹ منیجر… فی الحال تو ٹیکسی لے کر گھر چلتے ہیں، پھر ہم تمھیں  ہر وہ چیز بتا سکیں  گے جو تم جاننا چاہتے ہو۔’’ ہومز بولا۔
چنانچہ ہم نے ٹیکسی پکڑی اور گھر روانہ ہو گئے۔ رائیڈر جذباتی نظر آرہا تھا مگر وہ کچھ بولا نہیں ۔ہومز بھی سارے راستے خاموش بیٹھا رہا۔ہم جب اس کے گھر 221 B بیکراسٹریٹ پہنچے تو ٹیکسی سے اُتر کر سیدھے ہومز کی بیٹھک میں  آگئے۔بالآخر ہومز بولا:
‘‘مہربانی فرما کر بیٹھ جائیے مسٹر رائیڈر۔ تو ہم کہاں  تھے۔آہا،ہاں ۔تم یہ جاننا چاہتے ہو کہ ان چوبیس ہنسوں  پر کیا گزری اور شاید یہ بھی کہ ان میں  سے ایک پر کیا بیتی؟کیونکہ میرا خیال ہے کہ تمھیں  صرف ایک ہی ہنس میں  دلچسپی ہے۔ سفید رنگ کا وہ ہنس جس کی کالی دُم تھی۔’’
‘‘اوہ جناب!وہ پرندہ کہاں  گیا؟’’رائیڈر جذباتی ہو کر بولا۔
‘‘ وہ ایک بہت دل چسپ پرندہ تھا وہ یہاں  آیا تھا۔ اسے ذبح کرنے کے بعدہمیں  ایک بہت ہی حیرت انگیز چیز ملی۔۔۔یہ رہی وہ۔’’



ہمارا مہمان کمزوری کے ساتھ کھڑا ہوا۔ ہومز نے اپنی تجوری کھولی اورجب ہاتھ باہر نکالا توہیرا اس کے ہاتھ پر تھا، جو آنکھوں  کو ٹھنڈااور خوب صورت لگ رہا تھا۔رائیڈر نے ہیرے کی طرف دیکھا مگر کچھ نہیں  بولا۔
ہومز نے اس سے کہا: ‘‘ہمیں  معلوم ہے کہ وہ تم تھے رائیڈر! بیٹھ جاؤ اورمشروب لے لو،تم بہت کمزور لگ رہے ہو۔’’
میں  نے رائیڈرکو ایک گلاس مشروب دیا۔وہ بیٹھ گیا اور آہستہ سے پیتے ہوئے ہومز کو دیکھنے لگا۔ میں  نے دیکھا کہ وہ خوف زدہ ہے۔
‘‘تم مجھے زیادہ نہیں  بتانا چاہو گے۔اس معاملے میں، میں  تقریباًہر بات جانتا ہوں ۔مگر میرے پاس صرف ایک دو سوال ہیں  پوچھنے کے لیے۔ تم نے بیگم نواب کے نیلے ہیرے کے بارے میں  کیسے سنا؟’’ ہومز نے پوچھا۔
‘‘اس کی ملازمہ کیتھرائن کوسیک نے مجھے بتایا تھا۔’’ رائیڈر نے جواب دیا۔
‘‘اب میں  سمجھ گیا، تو تم اور کیتھرائین کوسیک ہیرا حاصل کرکے بیچنا چاہتے تھے تاکہ بہت ساری رقم حاصل کر سکو۔ تم نے جان ہارنر سے کہا کہ وہ آئے اور کھڑکی کی مرمت کرے کیونکہ تم اس کی پچھلی قید سے واقف تھے۔ جب وہ چلا گیا تو تم نے بیگم نواب کے زیورات کے ڈبے سے ہیرا اُٹھا لیا۔پھر تم نے پولیس بلا لی۔وہ ایک بارپہلے بھی آچکے تھے۔چونکہ ہارنر نے قید میں  وقت گزارا تھا اسی لیے ان کو یقین تھا کہ ہارنر چور ہے۔یہ سب کچھ کرنا بہت آسان تھا۔پھر۔’’
‘‘اوہ ،مہربانی کیجیے!مہربانی کیجیے! میرے والد کے بارے میں  سوچیے!… میری والدہ کے بارے میں  سوچیے!…میں  نے اس سے پہلے کوئی غلط کام نہیں  کیا اور میں  آئندہ بھی ایسی کوئی غلطی نہیں  کروں  گا۔ مہربانی کرکے پولیس کو مت بتائیے۔میں  نہیں  چاہتا کہ میں  قید میں  جاؤں ۔’’ رائیڈر نے فریاد کرتے ہوئے ہومز کے پاؤں  پکڑ لیے۔
‘‘اپنی کرسی پر بیٹھو!…اب تم فریاد کر رہے ہو مگر نوجوان ہارنر کے بارے میں  تمھیں  ذرا سی بھی شرم آئی؟ جو اس جرم کے بارے میں  جانتا تک نہیں  مگر پولیس کو یقین ہے کہ وہی ہیرا چور ہے۔اور اسی وجہ سے وہ عدالت گیا اور اب قید ہونے جا رہا ہے۔ یہ سب تمھاری وجہ سے ہوا ہے۔’’ ہومز نے سرد مہری سے کہا۔
‘‘میں  ملک چھوڑ دوں  گا مسٹر ہومز!پھر جب میں  عدالت ہی نہیں جاؤں  گا تو ہارنرقید سے آزاد ہوجائے گا۔’’
‘‘اس معاملے کو تو ہم بعد میں  دیکھیں  گے۔مگر فی الحال ہمیں  مہربانی کرکے یہ بتاؤ کہ تم نے ہوٹل سے ایک ہنس میں  ہیراکیسے ڈالا؟ اور کس طرح ہنس دکان میں  پہنچا؟اور مہربانی کرکے سچ بتانا۔’’ ہومز نے کہا۔
رائیڈر نے بتانا شروع کیا:‘‘جب پولیس نے ہارنر کو گرفتار کیا تو میں  ہیرا جیب میں  لے کر ہوٹل سے نکل گیا۔میں  ہوٹل میں  مزید نہیں  رُکنا چاہتا تھا جبکہ پولیس ہر جگہ تھی اور ہرچیز کو دیکھ رہی تھی۔چنانچہ میں  اپنی بہن کے گھر جنوبی لندن چلا گیا۔وہ بریکسٹن میں  اپنے شوہر مسٹر اوکس ہاٹ کے ساتھ رہتی ہیں ۔میں  نے راستے میں  بہت سارے پولیس افسردیکھے اور جب میں  بریکسٹن روڈ پہنچا تو بہت خوف زدہ تھا۔
‘‘کیا معاملہ ہے؟’’میری بہن نے پوچھا۔
میں  نے اسے ہیرے کی چوری اورہارنرکی گرفتاری کے بارے میں  بتایا۔پھر میں  گھر کے پچھلے باغیچے میں  سگریٹ نوشی کے لیے چلا گیا اورسوچنے لگاکہ اب میں  اس ہیرے کا کیا کر سکتا ہوں ؟
مجھے اپنا دوست موڈسلےیاد آگیا۔اس کی شروع کی زندگی بڑی اچھی تھی مگر پھر غلط طرف چلاگیا تھا۔بالآخر وہ اپنے جرائم کی وجہ سے قیدی بن گیا تھا۔میں  نے سوچا’شاید وہ ہیرے کی ٖفروخت کے بارے میں  جانتا ہو۔‘چنانچہ میں  نے شمالی لندن کے علاقے’ کلبرن‘ میں  واقع اس کے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔
مگرمیں  نے سوچا کہ‘‘ میں  کس طرح اس ہیرے کے ساتھ لندن پارکر سکتاہوں  ؟سڑکوں  پر الرٹ پولیس افسروں  کی اس بھیڑمیں  ہیرے کو جیب میں  رکھ کر تو نہیں  لے جا سکتا۔’’ پھر میں  نے باغ میں ٹہلتے ہنسوں  کی طرف دیکھا اور کچھ سوچا۔میں  یہ جانتا تھا کہ ان میں  سے ایک ہنس میرے کرسمس  کے عشائیے کے لیے ہے۔ لہٰذا میں  نے فیصلہ کیا کہ اپنا ہنس اسی جگہ اور اسی وقت حاصل کروں  اور انتظار نہ کروں  ۔
میں  نے جلدی سے ایک کالی دُم والا بڑاسفید ہنس پکڑا اور جلدی سے اپنی جیب میں  سے ہیرا نکال کر ہنس کے منھ میں  ڈال دیا۔میں  نے محسوس کیا کہ ہیرا ہنس کے حلق سے نیچے اُتر گیاہے۔ہیرا اب ہنس کے پیٹ میں  تھا اور میں  خوش تھا کہ اب میں  بہ آسانی کلبرن کو جاسکتاہوں ۔اسی لمحے میری بہن باغیچے میں  آگئی۔
‘‘تم اس ہنس کے ساتھ کیا کر رہے ہو؟’’اس نے کہا۔


میں  نے پکڑاہوا ہنس چھوڑدیا اور وہ دوسرے ہنسوں  کے ساتھ بھاگ گیا۔میں  نے کہا:‘‘میں  کرسمس کے لیے یہی ہنس لینا چاہتا ہوں ۔’’
‘‘بہت اچھا،اسے پکڑو،ذبح کرو اور اپنے ساتھ لے جاؤ۔’’وہ بولی۔
بس مسٹرہومز،میں  نے پرندہ پکڑا،ذبح کیا اور اپنے ساتھ کلبرن لے گیا۔ وہاں  میں  نے اپنے دوست موڈسلے کو ہیرے کے بارے میں  سب کچھ بتایاتو وہ ہنسا اور خوب ہنسا۔ہم نے چھری سے ہنس کوچیر دیا مگر ہمیں  ہیرا نہیں  ملا۔ میں  سمجھ گیا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے۔ میں  نے ہنس موڈسلے کے پاس ہی چھوڑا اور بہن کے گھر کی طرف دوڑا۔وہاں  پہنچ کر سیدھا پچھلے باغیچے میں  گیا مگر وہاں  کوئی ہنس نہیں  تھا۔
‘‘میگی!کہاں  گئے یہ سب؟’’میں  نے پوچھا۔
‘‘کووینٹ گارڈن میں  مسٹر بریکن رج کی دکان پر۔’’ اس نے بتایا: ‘‘یہاں  دو کالی دُم والے پرندے تھے۔’’میں  نے پوچھا۔
‘‘ہاں  تھے تو سہی جیمز۔ میری نظر میں  تو ان دونوں میں  کوئی بھی فرق نہیں  تھا۔ ’’وہ بولی۔
میں  ساری بات سمجھ گیا کہ ہیرا کالی دُم والے دوسرے ہنس کے پیٹ میں  ہے اوروہ ہنس اب بریکن رج کی دکان میں  ہے۔میں  ایک مرتبہ پھر کووینٹ گارڈن میں  بریکن رج کی دکان کی طرف بھاگامگر ہنس اب اس کی دکان میں  نہیں  تھے۔میں نے جب اس سے ان کے بارے میں  پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں  نے وہ سارے ایک ہی دفعہ میں  فروخت کر دیے ہیں ۔’’
‘‘مگر تم مجھے یہ لازمی بتاؤ کہ اب وہ کہاں  ہیں ؟’’میں  نے اس سے بار بار پوچھا مگر اس نے مجھے نہیں  بتایا۔ آپ نے اور ڈاکٹر واٹسن نے آج اسے سنا ہی تھا۔ مسٹر ہومز! اس نے میرے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں  دیا۔ اب میری بہن کیا سوچے گی کہ میں  ایک خطرناک بھائی ہوں ۔ میں  ایک چور ہوں ۔ میں  اپنی ساری نیک نامی گنوانے جا رہا ہوں  اور اس سب کے باوجود میں  اپنے جرم سے کوئی رقم حاصل نہیں  کر پایا۔ آہ۔۔۔اب آپ میرے ساتھ کیا کرنے جا رہے ہیں ؟’’
وہ اپناچہرہ دونوں  ہاتھوں میں  چھپا کر رونے لگا۔
ہومز نے کوئی لمبی چوڑی بات نہیں  کی۔ آخر میں  اس نے اُٹھ کر دروازہ کھولا۔
‘‘نکل جاؤ۔’’ اس نے کہا۔
‘‘اوہ۔ شکریہ!بہت شکریہ جناب۔’’رائیڈر نے کہا۔
‘‘خاموش ہو جاؤاور نکل جاؤ۔’’ ہومز نے دوبارہ کہا۔ اس کے ساتھ ہی رائیڈر دروازے کی طرف دوڑا۔ سیڑھیاں  اُترا اور سڑک پر دور ہوتا چلا گیا۔
ہومز بولا: ‘‘اتنا کچھ ہونے کے بعد واٹسن!یہ میری ذمہ داری نہیں ہے کہ میں  پولیس کے لیے اُن کاکام کروں ،جبکہ نوجوان ہارنر کے حق میں  بھی سب ٹھیک ہونے جارہا ہے۔ رائیڈر تو اب عدالت جائے گا نہیں  اور اس کے علاوہ پولیس کے پاس کوئی گواہی نہیں  جس کی بنیاد پر وہ کہہ سکے کہ ہارنر چور ہے۔
شاید میں  کچھ غلط کرنے جا رہا ہوں  مگرمیں  اس پر یقین نہیں  رکھتا۔میرا خیال ہے کہ میں  ایک اچھا انسان بننے میں  رائیڈر کی مدد کر رہا ہوں ۔ ابھی اسے قید میں  بھیجنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ اسے ساری زندگی کے لیے چور بنا رہے ہیں ۔جبکہ اس وقت وہ خوف زدہ ہے اور آئندہ وہ کبھی غلط کام نہیں  کرے گا۔ہمیں  مجرم کا پتا تو چل گیا ہے اور اس بات سے مجھے خوشی ہوئی ہے اور پھر کرسمس بھی تو ہے۔ اس سب کے باوجود میں  اس بات پر یقین رکھتا ہوں  کہ کرسمس  دوسروں  سے خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنے کا نام ہے۔
اچھا واٹسن! اب مسز ہڈسن سے کہو کہ ہمارے لیے رات کاکھانا لے آئے۔’’



  جاسوسی ادیب  اور شرلاک ہومز کے خالق 

سر آرتھرکانن ڈائل  ۔1859ء تا 1930ء 




ا سکاٹش مصنف  سر آرتھرکانن ڈائل Sir Arthur Conan Doyle ایک ہمہ جہت شخص تھے۔ وہ بیک وقت، فزیشن، صحافی، شاعر اور ناولسٹ تھے۔ وہ 22 مئی 1859 میں پیدا ہوئے  ، اِنہوں نے کافی سائنسی کہانیاں، ڈرامے، رومانی افسانے، شاعری، غیر افسانوی ادب اور تاریخی کتابیں بھی لکھیں، لیکن ان کو شہررت ان کے جاسوسی کہانیوں کے کردار شرلاک ہومز سے ملی، ان  کا تخلیق کردہ کردار شرلاک ہومز اتنا مقبول ہوا کہ بیشتر اسے اصل  انسان سمجھتے تھے۔ جاسوس شرلاک ہومز کی ذہانت بھری کہانیاں پوری دنیا میں بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔ شرلاک ہومز کا کردار متعارف کرانے پر     برطانیہ کی حکومت نے انہیں سرکا خطاب دیاتھا اور سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید ثانی نے انہیں نشان مجیدی سے نوازا۔ سر آرتھر کانن ڈائل کی زندگی کے آخری 24 برسوں  میں  ایک انقلاب آیا ، یہ جنگ عظیم کا وہ دور تھا جب بڑی تعداد میں لوگ اس جنگ میں مارے گئے اور مرحوم روحوں کے رابطے کے متعلق  لوگوں کے تجربات اور تحقیقات عروج پر تھیں،  انہی دنوں آرتھر کانن ڈائل  نے اپنے تین مرحوم بچوں کی روحوں سے ملاقات کی ، اس کے بعد انہوں نے جاسوسی ناول لکھنا چھوڑ کر روحانی اور ماورائی دنیا کی کھوج شروع کردی،    انہوں نے ماورائی اور روحانی علوم پر لکھنا اور تقریریں کرنا شروع کردیں ۔   وہ رائٹر سے مبلغ اور مقرر بن گئے اور 24 برس اس تحقیق میں گزاردئے  ۔انہوں نے  7 جولائی 1930 میں وفات پائی۔ 



اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں