برطانوی انگریزی ادب کا ایک شاہکار افسانہ

خوش آدمی

سمرسٹ ماہم

برطانوی  ادیب، ڈرامہ نگار اور کہانی نویس   سمرسٹ ماہم   کی کہانی خوش آدمی The Happy Man کا ترجمہ



دوسروں کی زندگیوں میں مداخلت کرنا کتنا خطرناک کام ہے۔ میں نے کئی سیاست دانوں، فلاحی کارکنوں اور اسی قسم کے دوسرے لوگوں کی خود اعتمادی کو حیرانگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہ لوگ اپنے بھرپور اعتماد کے باعث دوسرے انسانوں کو اپنی عادات و اطوار، نظریات اور طرزِ زندگی کو بدلنے پر راغب کردیتے ہیں۔ میں نے سوچتے ہوئے غیروں کو نصیحت کرنے سے ہمیشہ یہ احتراز کیا ہے کہ جب تک انسان اپنی ذات کو اچھی طرح نہیں جانتا، تو کسی اور کو اچھی طرح جاننے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہم اپنے ہمسایوں کے خیالات اور جذبات کو نہیں جانتے ان کا صرف اندازہ لگاتے رہتے ہیں۔ ہرانسان اپنے تنہائی کے گنبد میں مقید ہے اور دوسرے قیدی انسانوں سے ملنے والے چند روایتی اشاروں سے ہم مختلف معنی اخذ کرتے ہیں اور حرفِ مدعا پوری طرح نہیں سمجھ پاتے۔ زندگی ایک ایسی چیز ہے جو ہم صرف ایک بار گزارتے ہیں۔ اس کی بعض غلطیاں ناقابلِ تلافی ہوتی ہیں جن کا بوجھ ہم اپنے کندھوں پر اٹھائے عمر بھر چلتے رہتے ہیں۔
ایسے حالات میں میرا کسی کو یہ مشورہ دینا کہ وہ اپنی زندگی کس طرح گذارے، ایک بہت مشکل کام ہے۔ زندگی کا کاروبار اتنا مشکل ہےکہ اوروں کو نصیحت کرنا تو کیا کئی دفعہ مجھے اپنے بارے میں فیصلہ کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان کیفیات اور خیالات کے  باوجود کئی دفعہ شاہراہِ حیات پر میری کچھ ایسےلوگوں سے ملاقات ہوئی تھی جو آغازِ سفر میں ہی راہ کھو بیٹھے تھے۔ جن کے ارادے متزلزل تھے اور ذہنوں پر دھند چھائی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے مجھ سے جب نشاندہی چاہی تو میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی منزل کی طرف اشارے کردیے تھے ان میں سے نہ جانے کتنے لوگ میرے مشوروں کی وجہ سے اپنی منزلوں پر پہنچ گئے تھے اور کتنے بھٹک گئے۔
صرف ایک شخص کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اسے صحیح مشورہ دیا تھا۔ یہ میری جوانی کے دنوں کی بات ہے جب میں لندن میں وکٹوریہ اسٹریٹ کے قریب ایک درمیانی درجے کے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ ایک شام کو جب میں اپنے کام سے فارغ ہوکر استراحت کرنے والا تھا گھنٹی کی آواز آئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو میرے سامنے ایک اجنبی تھا۔ اس نے میرا نام پوچھا اور جواب سننے کے بعد کہنے لگا :
‘‘کیا میں اندر آسکتا ہوں؟’’
‘‘یقیناً’’ میں نے جواب دیا۔
میں اسے اندر لے آیا اور بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کی۔ وہ کچھ گھبرایا سا لگ رہا تھا۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا۔ سگریٹ جلاتے ہوئے وہ کچھ کانپ رہا تھا اسی دوران اس کا ہیٹ گر پڑا۔ میں نے ہیٹ کو دوسری کرسی پر رکھنے کی پیش کش کی تو اس نے خود ہی ہیٹ اٹھا کر کرسی پر رکھ دیا لیکن وہ اتنی بدحواسی کا شکار تھا کہ ایسا کرتے ہوئے اس کی چھتری گر پڑی۔
‘‘مجھے امید ہے کہ آپ نے میری اس بے وقت کی دخل اندازی پر برا نہیں مانا ہوگا۔’’
اس نے بولنا شروع کیا۔ 
‘‘میرا نام اسٹیفنز Stephensہے اور میں ایک ڈاکٹر ہوں۔ آپ کا تعلق بھی طب سے ہے، ہے نا…....؟’’
‘‘آپ کا کہنا بجا ہے لیکن میں پریکٹس نہیں کرتا....’’
‘‘میں اس سے باخبر ہوں۔ میں نے پچھلے دنوں آپ کی وہ کتاب پڑی ہے جو آپ نے اسپین کے بارے میں لکھی ہے۔’’
‘‘وہ کوئی اتنی اچھی کتاب تو نہیں۔’’
‘‘بہرحال آپ اسپین کے بارے میں کافی کچھ جانتے ہیں ۔ میں کسی اور شخص کو نہیں جانتا جو اسپین کے بارے میں اتنی معلومات رکھتا ہو۔ اس لیے مجھےامید ہے کہ آپ میرے چند سوالات کا جواب دے سکیں گے۔’’
‘‘بڑی خوشی سے۔’’
وہ چند لمحوں کے لیے خاموش ہوگیا۔ پھر اس نے بے خیالی میں ہیٹ پکڑا اور دوسرے ہاتھ سے اسے سہلانے لگا۔ جیسے وہ سوال کرنے کے لیے اپنی ہمت کو یکجا کررہا ہو۔
‘‘مجھے اُمید ہے کہ آپ کی طبیعت پر ایک اجنبی کا اس طرح بے تکلف ہونا گراں نہ گذرے گا۔’’ وہ کھسیانی سی ہنسی ہنسا۔ 
‘‘آپ فکر نہ کریں میں آپ کو اپنی داستانِ زندگی نہیں سناؤں گا۔’’
جب کوئی شخص مجھے یہ کہتا ہے تو مجھے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ وہی کرے گا جس کی وہ تردید کررہا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ مجھے ناگوار نہیں گذرتا بلکہ ایک عجیب طریقے سے میں اسے پسند کرتا ہوں۔
وہ گویا ہوا :
‘‘میرا بچپن میری دو خالاؤں کے ساتھ گذرا تھا۔ میں پوری زندگی کہیں نہیں گیا۔ کہیں سیر و سیاحت کےلیے قدم نہیں اٹھایا۔ میری شادی کو چھ برس گزر چکے ہیں۔ میں کیمبرول کی ڈسپنسری Camberwell Infirmary  میں بطور میڈیکل افسر کے کام کررہا ہوں۔ میں اس روزانہ کے معمول سے تنگ آچکا ہوں اور باقی زندگی اسی ڈگر پر نہیں گزارنا چاہتا ۔’’
اس کی گفتگو میں ، انداز میں، فقروں میں ، میں نے ایک شدت محسوس کی۔ وہ شخص آہستہ آہستہ میری توجہ کا مرکز بن رہا تھا۔ وہ چھوٹے قد کا بھاری بھرکم انسان تھا جس کی عمر تیس برس کےقریب ہوگی۔ اس کا چہرہ سرخ تھا اور اس کی آنکھیں چھوٹی گہرےرنگ کی لیکن بہت چمکدار تھیں۔ اس نے نیلا سوٹ زیب تن کررکھا تھا۔ اس کی پتلون کے تھیلا نما گھٹنے اور کوٹ کی ڈھیلی ڈھالی جیبیں اس بات کی چغلی کھا رہی تھیں کہ وہ ان کپڑوں کو کافی عرصہ سے پہن رہا ہے۔
‘‘میری زندگی کا ہر نیا دن پچھلےدن کی طرح ہوتا ہے جس میں تازگی کا فقدان ہوتا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے کوئی انسان اپنی ساری زندگی کے شب و روز اس طرح گذار سکتا ہے؟’’
‘‘یہ روزی کمانے کا ایک ذریعہ ہے۔’’ میں نے جواب دیا۔
‘‘یہ بات تو ٹھیک ہے، پیسوں کی کمی نہیں۔’’
‘‘میں ابھی تک یہ سوچ رہا ہوں کہ تم مجھ سے ملنے کیوں آئے ہو؟’’
‘‘میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا اسپین میں ایک انگریز ڈاکٹر کی کوئی مانگ ہے یا نہیں؟’’
‘‘اسپین کیوں؟’’
‘‘پتہ نہیں۔ میرا اسپین جانے کو دل چاہتاہے۔’’
‘‘تم بخوبی واقف ہو کہ وہاں  کارمن Carmen  جیسی جنت نہیں ہے۔’’
‘‘یہ بجا، لیکن وہاں سورج کی روشنی فراواں ہوگی، بہت سی تفریح، بہت سے رنگین مناظر اور تازہ ہوا۔ میں تم سےصاف صاف کیوں نہ پوچھوں۔ میں نے سنا ہے کہ سیول کے علاقے میں کوئی انگریز ڈاکٹر نہیں ہے۔ کیا تمہارے خیال میں میں اس علاقے میں اپنی روزی کمانےکا بندوبست کرسکوں گا۔ کیا ایک غیر یقینی مستقبل کےلیے ایک محفوظ اور مستقل ملازمت چھوڑ دینا دانش مندانہ اقدام ہے؟’’
‘‘اس بارے میں تمہاری بیوی کا کیا خیالہے؟’’
‘‘وہ چلنے کے لیے تیار ہے۔’’
‘‘آپ ایک بہت بڑا جوا کھیل رہے ہیں۔’’
‘‘میں جانتا ہوں۔ اسی لیے میں آپ سےمشورہ لینے آیا ہوں۔ آپ کہیں گے چلے جاؤ توچلاجاؤں گا، آپ کہیں گے نہیں جاؤ تو یہیں رہوں گا۔’’
وہ مجھے اپنی گہری چمکیلی آنکھوں سے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ سنجیدہ ہے۔ میں چند لمحوں کے لیے سوچ میں پڑگیا۔
‘‘یہ تمہارے پورے مستقبل کا سوال ہے۔ اس لیے فیصلے تمہیں خود کرنے چاہیں۔ میں صرف اتنا کہ سکتا ہوں کہ اگر تمہیں دولت کی ہوس نہیں اور سکون اور خوشی کے متلاشی ہو تو چلے جاؤ۔ وہاں تمہیں پیسے کم ملیں گے لیکن خوشیاں زیادہ۔ تم روکھی سوکھی کھاؤ گے لیکن زندگی خوشی سے گزاروگے۔’’
وہ رخصت ہوا۔ میں ایک دو دن اس کے بارے میں سوچتا رہا، اس کے بعد بھول گیا۔ اس واقعہ کو طویل عرصہ گذرگیا اور اس کی یادیں بھی میرے ذہن سے محو ہوگئیں۔
طویل عرصے کے بعد، تقریباً پندرہ برس کے بعد مجھے اتفاقاً سیول Seville جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک دن میری طبیعت ناساز تھی۔ میں نے ہوٹل کے ایک کارکن سے پوچھا، 
‘‘کیا اس علاقے میں کوئی انگریز ڈاکٹر ہے؟’’
 اس نے مجھے ڈاکٹر کے گھر کا پتہ بتایا اور میں ٹیکسی لے کر اس کے گھر پہنچا۔ وہاں سے ایک چھوٹے قد کا بھاری بھرکم مرد نکلا مجھے دیکھ کر وہ قدرے ہچکچایا۔
‘‘کیا آپ مجھ سے ملنے آئے ہیں؟’’ وہ بولا۔ ‘‘میں انگریز ڈاکٹر ہوں۔’’
میں نے اپنی طبیعت کی ناسازی کا ذکر کیا۔ وہ مجھے اندر لے آیا۔ وہ ایک ہسپانوی طرز کا معمولی سا گھر تھا۔ ایک طرف برآمدہ تھا اور دوسری طرف اس کا مطب۔ اس کے مطب میں کتابیں، ڈاکٹری کا سامان اور کچھ لکڑیاں بکھری ہوئی تھیں وہ منظر ایک مریض کو حیران کرنے کے لیے کافی تھا۔ جب وہ دوا تجویز کرچکا تو میں نے پوچھا:
‘‘آپ کی فیس کتنی ہے؟’’
‘‘کچھ نہیں۔’’
‘‘ایسا کیوں؟’’ میں کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا۔
‘‘آپ شاید مجھے بھول گئے! آپ ہی کے مشورے سے تو میں یہاں آکر آباد ہوا تھا۔ میری زندگی میں خوشگوار تبدیلوں کا سبب آپ ہی ہیں۔ میرا نام اسٹیفنز ہے۔’’
مجھے پھر بھی کچھ یاد نہ آیا۔ پھر اس نے سارے واقعے کی تفصیل بتائی اور میرے ذہن پر ماضی کے دھند لے نقوش ابھرنے لگے۔
‘‘میں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ کیا میری آپ سے پھر ملاقات ہوگی یا نہیں اور کیا میں آپ کا شکریہ ادا کرسکوں گا۔ آپ میرے محسن ہیں۔’’
‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کامیاب رہے....!!’’
میں نے اس کی طرف غور سے دیکھا۔ وہ موٹا اور گنجا ہوچکا تھا لیکن اس کی آنکھوں میں خوشی کی مسکراہٹ اور چہرے پر پُر مزاح شگفتگی رقصاں تھی۔ اس نے ہسپانوی طرز کے ڈھیلے ڈھالے کپڑے اور ہسپانوی طرز کا ہیٹ پہن رکھا تھا۔
میں سوچنے لگا کہ اس کو میں اپنا اپنڈکس کا آپریشن تو نہیں کرنے دوں گا لیکن اس کے ساتھ وقت گزارنے میں خوشی محسوس کروں گا۔
‘‘مجھے یقین ہے تم شادی شدہ تھے۔’’ میں نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا۔
‘‘ہاں لیکن میری بیوی کو اسپین پسند نہ آیا۔ وہ واپس کیمبرول چلی گئی وہ وہاں زیادہ خوش تھی۔’’
‘‘یہ سن کر افسوس ہوا۔’’
اس کی آنکھوں میں مسکراہٹ ایک دفعہ پھر رقصاں ہوئی۔ 
‘‘انسان کو زندگی میں بہت سے متبادل مل جاتے ہیں۔’’ وہ بڑبڑایا۔ 
اس کا فقرہ ابھی ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ایک درمیانی عمر کی خوبصورت ہسپانوی عورت دروازے میں داخل ہوئی اس نے ہسپانوی زبان میں کچھ کہا۔ اس کے اندازے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ گھر کی مالکہ ہے۔
پھر وہ اٹھا اور مجھے الوداع کہتے ہوئے گویا ہوا۔ ‘‘تم نے مجھے لندن میں بتایا تھا کہ اگر میں یہاں آیا تو غربت کی زندگی گذاروں گا لیکن خوش رہوں گا۔ تمہاری پیشن گوئی بالکل درست تھی۔ میں غریب ہوں اور ہمیشہ غریب رہوں گا لیکن میں زندگی کی رنگینیوں سے اتنا لطف اندوز ہورہا ہوں، اتنا پُرسکون اور خوش ہوں کہ کسی بادشاہ سے بھی اپنی زندگی بدلنا پسند نہیں کروں گا۔’’


ترجمہ: ڈاکٹر خالد سہیل (کینیڈا)



برطانوی  ادیب، ڈرامہ نگار اور کہانی نویس 

سمرسٹ ماہم ۔1874ء تا 1965ء 




ولیم سمرسٹ ماہم (Somerset Maugham)  25 جنوری1874ء کو پیرس میں  پیدا ہوئے ،  والد  برطانوی حکومت کے سفیر تھے،  خاندان کے بیشتر افراد کا تعلق وکالت اور قانون سے تھا۔ مگر سمرسٹ ماہم نے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا۔ کالج میں  کہانیاں لکھیں ، صرف 23 برس کی عمر میں اس   کا پیلا ناول  لیزا آف لیمبتھ  Liza of Lambeth ، جو 1897 ء میں چھپا اور ہاتھوں ہاتھ بکا  تو انہوں نے طب کے پیشے کو خیرباد کہہ ، ادب کو ہی اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔ ان کے دیگر مشہور ناولوں میں ‘‘آف ہیومن بانڈج ’’(1951)،‘‘دی مون اینڈ سکس پینس’’(1919) اور‘‘دی پینڈوہیل’’ مقبول رہے۔
 سمرسٹ ماہم نے بے شمار لکھے، ناول، ڈراما، کہانیاں، فلموں کے سکرپٹ لکھے، بے شما دولت کمائی، اسے  بیسویں صدی کا سب سے مالدار مصنف کہا جاتا ہے۔ 1930کی دہائی میں وہ یورپ اور امریکہ کا سب سے زیادہ مہنگا مصنف تھا۔ اس کی کہانیوں اور ناولوں نے فلمی دنیا میں بھی تہلکہ مچائے رکھا ہے اور 35 سے زائد فلمیں اس کی کسی نہ کسی کہانی یا ناول پر بنیں۔
  1947ء سے اس کے نام سے سمرسٹ ماہم ایوارڈ بھی جاری ہے جو ایسے فکشن لکھنے والوں کو دیا جاتا ہے جن کی عمر 35 سال سے کم ہو ۔  91 سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے اس نے تقریباً100 کے قریب ناول، ڈرامے اور کہانیاں لکھیں ۔ ماہم 91 برس کی عمر میں 16 دسمبر 1965ء  کو نائس ، فرانس میں فوت ہوا ۔

سمرسٹ ماہم   کی کہانی خوش آدمی The Happy Man  ، جون 1924ء کا کاسموپولیٹن میگزین میں شایع ہوئی، جسے 1951ء  میں سمرسٹ ماہم کی مختصر کہانیوں کے مجموعے میں شامل کیا گیا۔ 
اس کہانی کو انگریزی زبان میں پڑھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک 
https://sites.google.com/site/homereadinglessons/the-happy-man
۔ 

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں