پراسرار ، تحیر خیز  اور محیر العقول   کہانیوں سے  دلچسپی رکھنے والوں  کے لیے بطور خاص

شیطانی جزیرہ

The Island of Dr. Moreau

زیر نظر کہانی  ڈاکٹر موریو کا جزیرہ   The Island of Dr. Moreau  ،  ایچ جی ویلز نے 1896ء میں لکھی۔ اس  کہانی میں اس نے سانسی تصورات سے بھی کئی برس پہلے کلوننگ کا تصور پیش کیا۔    اس کہانی پر 1977ء اور 1996ء میں ہالی ووڈ  میں فلمیں بھی بن چکی ہیں۔  

ایچ جی ویلز کے شرہ آفاق  پراسرار سائنسی ناول The Island of  Dr. Moreau ‘‘دی آئی لینڈ آف ڈاکٹر موریو’’ کی تخلیص۔ 




میں ایڈورڈ پرنڈک Edward Prendick بقائمی ہوش و حواس یہ داستان بیان کر رہا ہوں۔ آپ میں سے بہت سے لوگ میری باتوں کو خلل دماغ سمجھیں گے اور میرے پاس کوئی واضح دلیل بھی نہیں کہ جس کے بل پر آپ کو قائل کرسکوں، لیکن مجھے اپنی فہم پر پورا بھروسہ ہے اور اس داستان کا ایک ایک لفظ حقیقت پر مبنیہے۔
یکم فروری 1887ء کو جہاز ‘‘لیڈی وین’’ Lady Vain کی غرقابی کی خبریں دنیا بھر کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔ اخباری اطلاع کے مطابق اس جہاز کے مسافروں میں سے سات آدمی ایک حفاظتی کشتی میں بیٹھ کر اسے چپوؤں سے کھیتے رہے اور بالآخر ایک اور جہاز ان کی مدد کو پہنچ گیا۔ ان مسافروں کا یہ بیان بھی اخبارات میں شائع ہوا کہ چار اور آدمیوں نے ایک چھوٹی سی ڈونگا ناؤ  dingey میں بیٹھ کر اپنی جان بچانے کی کوشش کی تھی، مگر وہ ناکام رہے۔  دراصل یہ بیان درست نہیں ہے۔ میرے علاوہ اس ناؤ میں دو اور مسافر سوار تھے۔ ہمارے پاس چند گلی سڑی روٹیاں اور تھوڑا سا پانی تھا۔ جلدی میں یہی کچھ ہاتھ لگ سکا۔ ہم نے اس لمبی کشتی تک پہنچنے کی بہت کوشش کی جس میں سات مسافر سوار تھے، لیکن کہُر کی وجہ سے کامیابی نہ ہوئی۔  جب دھوپ نکلی اور ماحول قدرے صاف ہوا، تو ہم نے دیکھا کہ سمندر کی بپھری ہوئی لہروں پر دور دور تک کسی کشتی کے آثار نہیں۔ میرے ساتھیوں میں ایک انگریز ہیلمر Helmar تھا اور دوسرا غرق شدہ جہاز کا پست قد اور ہکلا ملاح۔  ہم اتنے پریشان تھے کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کا بھی خیال نہ آیا۔ 
دوسرے دن کی صبح طلوع ہوئی، تو سمندر میں ایک زبردست طوفان آگیا اور کشتی بری طرح ڈولنے لگی۔ ہم سوائے دعا کے اور کیا کرسکتے تھے۔ دو دن طوفان جاری رہا اور ہر لمحے ہم یہ سوچ کر خوف کھاتے رہے کہ ناؤ اب ڈوبی کہ تب ڈوبی، لیکن غوطے کھانے کے باوجود ہم سنبھل جاتے۔ 
سمندر کا نمکین پانی ناؤ میں بھر گیا تھا اور باوجود کوشش کے ہم سارا پانی نکالنے میں کامیاب نہ ہوسکے تھے، اب نمک سے ہمارے جسم تڑخنے لگے تھے۔ پانی اور روٹیاں ختم ہوگئی تھیں، بھوک سے ہماری حالت خستہ ہورہی تھی۔ چھٹے دن ہیلمر نے بمشکل زبان کھولی اور جذبات سے عاری لہجے میں بولا:
‘‘دوستو، یہی عالم رہا، تو بھوک کے سبب ہم میں سے کوئی زندہ نہ بچے گا۔ میری تجویز ہے کہ ہم قرعہاندازی کریں اور جس شخص کے نام قرعہ نکلے، باقی دو اسے ذبح کرکے اس کا گوشت کھالیں۔’’
میں نے سختی سے اس تجویز کی مخالفت کی لیکن ملاح بہت خوش ہوا اور فوراً قرعہ ڈالنے پر رضا مند ہوگیا۔ یہ رات بہت کٹھن گزری۔ میں نے چاقو ہاتھ میں لیا اور بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بیدار رکھا، کیونکہ وہ دونوں ناؤ کے ایک کونے میں باہم سرگوشیاں کر رہے تھے اور مجھے ڈر تھا وہ مجھ پر حملہ کردیں گے۔
ساتویں دن میں قرعہ کی تجویز ماننے پر مجبور ہوگیا۔ اس سے زیادہ مزاحمت کی مجھ میں طاقت نہ تھی۔ قرعہ اندازی ہوئی اور اتفاق سے قرعہ ملاح کے نام نکلا، لیکن وہ ہم دونوں سے زیادہ طاقتور تھا۔ اس نے فوراً انکار کردیا۔ ہیلمر نے اس پر چھلانگ لگا دی۔ دونوں لڑتے بھڑتے ناؤ کے ایک سرے میں گرپڑے۔ میں دوڑ  کر ان کے قریب گیا اور اسےچھڑانے کی کوشش کی، لیکن وزن ایک طرف ہونے کی وجہ سے دونوں سمندر میں گر پڑے۔ شاید ان میں تیرنے کی طاقت نہ تھی، کیونکہ وہ فوراً ہی غرق ہوگئے اور ان میں سے کوئی سطح پر نہ ابھر سکا۔ میں ناؤ میں اوندھے منہ لیٹ گیا اور جلد ہی مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی۔ 
جانے کب تک میں اس حالت میں رہا۔ آنکھ کھلی، تو میں کسی جہاز کے کیبن میں نرم آرام دہ بستر میں لیٹا ہوا تھا۔ سیاہ بالوں اور چھوٹی چھوٹی مونچھوں والا ایک نوجوان مجھ پر جھکا ہوا میری نبض ٹٹول رہا تھا۔ میں نے اٹھنے کی کوشش کی، مگر نقاہت بہت تھی۔
‘‘لیٹے رہو، تمہاری قسمت اچھی تھی جو ہم نے تمہیں دیکھ لیا۔ تم اس وقت Ipecacuanha امپاکوہانا  جہاز پر ہو۔  میں نے تمہارا علاج کیا ہے، تم پچھلے تیس گھنٹے سے بےہوش تھے۔’’  اس نے بات ختم کی تھی کہ اوپر کوئی درندہ غرایا، ساتھ ہی کسی شخص کی تیز آواز سنائی دی۔ نوجوان نے بےچینی سے اوپر کی طرف دیکھا اور پھر شاید بات کا رخ بدلنے کے لیے مجھ سے پوچھا:
‘‘تم کون ہو، اور اس ناؤ میں کیسے پہنچے....؟’’
میں نے مختصر لفظوں میں اپنی داستان کہہ سنائی۔ 
جب میں باتیں کر رہا تھا، تو کسی خونخوار درندے کی خوفناک چیخیں مسلسل سنائی دے رہی تھیں۔ آخر  وہ نوجوان نہ رہ سکا اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا ہوا اوپر گیا۔ اگلے ہی لمحے عرشے سے کچھ ایسی آوازیں آئیں جیسے کوئی شخص اس درندے کو زود و کوب کر رہا ہو۔ یا اللہ رحم! میں بستر ہی پر کانپ اٹھا۔ چند منٹ بعد نوجوان نیچے آیا، تو اس کی سانس پھولی ہوئی تھی اور ماتھے پر زخم کا نشان تھا۔
‘‘یہ اوپر کیا ہورہا ہے....؟’’ میں نے سوال کیا۔
‘‘کچھ نہیں، چند کتے ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔’’ اس نے بےچینی سے کہا، صاف ظاہر ہوتا تھا وہ مجھ سے کچھ چھپا رہا ہے۔  
کپڑے بدلنے اور ڈٹ کر کھانے کے بعد میں نے اس نوجوان کا نام پوچھا۔ اس کا نام منٹگمری Montgomeryتھا اور وہ ایک زمانے میں میڈیکل کا طالب علم رہ چکا تھا۔ میں نے پوچھا:
‘‘تم کہاں جارہے ہو....؟’’
‘‘میری منزل ایک جزیرہ ہے جس کا نام مجھے خود معلوم نہیں۔’’ یہ کہہ کر اس نے فوراً بات کا رخ بدل دیا اور جہاز کے کپتان کو برا بھلا کہنے لگا جو بقول اس کے، ہر وقت شراب پی کر عرشے پر اودھم مچاتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہم دونوں کیبن سے نکل کر عرشے کی طرف جانے والی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ اچانک میری نظر آخری سیڑھی پر کھڑے ہوئے ایک بد وضع انسان پر پڑی۔ میرا خیال ہے اسے انسان کہنا درست نہیں، کیونکہ اس کا قد چھوٹا، جسم بےڈھنگا اور کمر دوہری تھی، گردن، ہاتھ، پاؤں اور چہرے پر اس قدر بال تھے کہ پہلی نظر میں اسے دیکھ کر بن مانس کا شبہ ہوتا تھا۔ چہرہ ڈراؤنا اور مکروہ، پیشانی اندر کو دھنسی ہوئی اور جبڑے آگے کی طرف نکلے ہوئے، ہونٹ غائب تھے اور دو نوکدار دانت اس کے کھلے ہوئے منہ سے باہر جھانک رہے تھے۔ میں تو ڈر کر ایک طرف ہوگیا، لیکن منٹگمری اُسے  ڈانٹ کر بولا: ‘‘تم یہاں کیا کر رہے ہو....؟ بھاگو یہاںسے۔’’
اس نے منٹگمری کے حکم کی تعمیل کی۔ جانے وہ انسان تھا یا بن مانس۔ بہرکیف اسے دیکھنے کے بعد دہشت سے میں کانپنے لگا۔  جہاز کا عرشہ اس قدر غلیظ تھا کہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ جابجا سڑے ہوئے گوشت کے ٹکڑے پڑے تھے۔ مستول سے شکاری کتے بندھے ہوئے تھے۔ ایک آہنی پنجرے میں تیندوا بند تھا.... ہم عرشے پر کھڑے تھے کہ کپتان دکھائی دیا۔ اس نے زیادہ شراب پی رکھی تھی اور منٹگمری کو گالیاں دے رہا تھا: 
‘‘میرا عرشہ شیشے کی طرح صاف رہتا تھا، لیکن جب سے تم اور تمہارے یہ غلیظ جانور سوار ہوئے ہیں، کوئی شریف آدمی یہاں ایک منٹ کے لیے کھڑا نہیں رہ سکتا۔ کاش! میں تمہیں اس منحوس جزیرے تک پہنچانے کا وعدہ نہ کرتا۔’’
‘‘میں ایسی باتیں سننے کا عادی نہیں۔’’ منٹگمری غرایا۔ جواب میں کپتان نے اسے ایسی موٹی موٹی گالیاں سنائیں کہ میں بیچ میں نہ آتا تو شاید وہ دونوں ہاتھا پائی پر اتر آتے۔  کپتان نے جب دیکھا کہ میں منٹگمری کا ساتھ دے رہا ہوں، تو میری سات پشتوں کی خبر لیتے ہوئے کہا: ‘‘میں نے تمہیں مصیبت زدہ سمجھ کر پناہ دی اور تم میرے مقابلے میں اس مردود کی حمایت کر رہے ہو جو نہ جانے کیوں جہنم کی اس عفریت کو ساتھ لیے پھرتا ہے۔ بخدا، وہ بھیانک پہرے والا، انسان کی جون میں سے نہیں۔’’ اس کا اشارہ  غالباً اس حیوان نما انسان  کی طرف تھا۔  
وہ بکتا چلا گیا اور معاملہ رفع دفع ہوگیا۔ 
اسی دن سورج غروب  ہونے سے ذرا پہلے ہمارا جہاز ایک جزیرے کے قریب لنگر  انداز ہوا۔ منٹگمری کی منزل آگئی تھی۔ میں نے باتوں ہی باتوں میں کئی بار اس سے پوچھنے کی کوشش کی کہ وہ یہ جانور کہاں لیے جارہا ہے، لیکن اس نے کچھ نہ بتایا۔  بالآخر ہم اپنے اپنے کیبن میں چلے گئے۔ رات بھر میں خوفناک خواب دیکھتا رہا۔ ایک مرتبہ ڈر کر جاگا، تو عرشے پر کتے رو رہے تھے۔ منٹگمری اور اس کے ساتھی صبح سویرے ہی سامان اتارنے لگے۔ جزیرے سے ایک کشتی انہیں لینے آئی تھی۔ تیندوے اور لاما کا کٹہرا کشتی میں اتارا جا چکا تھا۔ کپتان عرشے پر کھڑا حسب معمول گالیاں بک رہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بولا:  ‘‘اچھا، تم بھی آ پہنچے، میں تم جیسے احسان فراموش کو اپنے جہاز پر رکھنا پسند نہیں کرتا، میری نظروں سےدورہوجاؤ۔’’  
میں گومگو کے عالم میں تھا، منٹگمری نے اپنے قریب کھڑے ہوئے سفید بالوں والے ایک معمر آدمی کی طرف اشارہ کیا اور انکار کرتے ہوئے کہا: ‘‘ان کی مرضی کے بغیر میں کچھ نہیں کرسکتا۔’’ اس کا لہجہ کرخت اور جذبات سے عاری تھا۔ مجھے اس سے مدد مانگنے کی ہمت نہ پڑی اور میں جنگلے کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔ سارا سامان کشتی میں اتارا جاچکا تو سفید بالوں والا نشست پر بیٹھ گیا اور منٹگمری اور وہ بن مانس نما انسان کشتی کھینے لگے۔ جونہی کشتی جہاز سے ہٹی، کپتان چلا کر اپنے ساتھیوں سے بولا: ‘‘اس منحوس کو بھی سمندر میں گرادو۔’’
چار ملاح میری طرف بڑھے۔ میں نے ان کا مقابلہ کرنا چاہا، لیکن ایک تو وہ تعداد میں زیادہ تھے، دوسرے میرے جسم پر ابھی تک نقاہت طاری تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے مجھے بازوؤں پر اٹھا لیا اور جہاز کے عقبی حصے کی طرف دوڑے، جہاں  وہ ناؤ جس میں سے مجھے اٹھایا گیا تھا، ایک رسے کے ساتھ بندھی تھی۔ انہوں نے میرے چیخنے چلانے کی کوئی پروا نہ کی اور میری کمر میں رسہ باندھ کر اس ناؤ میں اتار دیا۔ اگلے ہی لمحے ایک ملاح نے کلہاڑے سے وہ رستہ کاٹ دیا جو ناؤ کو جہاز سے ملائے ہوئے تھا اور جہاز گھوم کر کھلے سمندر کی طرف حرکت کرنے لگا۔ 
ناؤ میں پانی بھرا ہوا تھا، میں پانی ہی میں بیٹھ گیا، دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا اور رونے لگا۔ 
میرا خیال ہے منٹگمری اور سفید بالوں والے نے دیکھ لیا تھاکہ کپتان نے مجھے جہاز سے اتار دیا ہے، کیونکہ تھوڑی دیر بعد ان کی کشتی میری طرف آئی اور منٹگمری نے ایک رسے کی مدد سے میری ناؤ اپنی کشتی سے باندھ لی۔ کوئی دو گھنٹے بعد ہم جزیرے کے ساحلسے جا لگے۔ 
کنارے پر چار آدمی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ چار عجیب الخلقت انسان  ہمارے منتظر تھے۔ ان کی تھوتھنیاں جانوروں کی سی تھیں، ٹانگیں چھوٹی اور دھڑ لمبے تھے، اور وہ سفید قمیض اور خاکی  پتلونوں میں ملبوس تھے۔ ان کے ہاتھ اور پیروں پر سفید پٹیاں بندھی تھیں جیسے مصری ممیوں کی تصویروں پر دکھائی دیتی ہیں۔ مجموعی طور پر انہیں دیکھ کر ایک ناقابل فہم کراہت کا احساس ہوتا تھا۔ جب وہ چلتے تھے، تو ان کی ٹانگوں کی ہڈیاں چٹکٹی تھیں۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے اگر انہوں نے کپڑے نہ پہن رکھے ہوتے اور وہ انگریزی زبان میں گفتگو نہ کررہے ہوتے ، تو انہیں انسان کہنا ہرگز جائز نہہوتا۔
سفید بالوں والا انسان میری طرف متوجہ ہوا:
‘‘منٹگمری نے بتایا ہے کہ تم تعلیم یافتہ ہو۔’’
‘‘جی ہاں، میں حیاتیات کا طالب علم تھا، اب فارغ التحصیل ہوں۔’’
‘‘بہت خوب، تمہیں اس جزیرے میں شاید ڈیڑھ دو سال قیام کرنا پڑے،کیونکہ اس سے پہلے کوئی جہاز مشکل ہی سے یہاں آئے گا۔ دراصل یہ جگہ عام بحری راستوں سے ہٹ کر ہے۔’’
یہ کہہ کر وہ ایک قلعہ نما عمارت کی طرف چل دیا جو ساحل سے کچھ فاصلے پر نظر آرہی تھی۔
منٹگمری میرے پاس آیا، سامان میں سے تھرماس نکال کر مجھے چائے دی اور چند بسکٹ۔ ہم نے ناشتے سے فارغ ہو کر تیندوے اور لاما کے پنجرے  ان بھیانک آدمیوں سے اٹھوائے اور قلعے کی طرف چل دیے۔ راستے میں منٹگمری خاموشرہا۔ قلعہ نما عمارت کے سامنے پہنچ کر ہم رک گئے۔ سفید بالوں والا آدمی باہر کھڑا تھا، میری طرف اشارہ کرتے ہوئے منٹگمری سے بولا: 
‘‘اس اجنبی کے لیے جھونپڑا بنانے کی فرصت نہیں اور قلعے میں اسے رکھنا خطرے سے خالی نہیں۔ بھئی صاف بات یہ ہے کہ میں نئے آدمیوں پر اعتمادنہیں کرتا۔’’
‘‘آپ کے خدشات بجا ہیں۔ اگر میں آپ کی جگہ ہوتا، تو یہی خیالات میرے ذہن میں آتے۔’’ میں نے صورتحال کی تلخی کو کم کرتے ہوئے کہا۔
‘‘آپ عقل مند معلوم ہوتےہیں۔ بہرحال ہم آپ کو قلعے کا ایک کمرہ دے سکتے ہیں، بشرطیکہ آپ ہمارے کاموں میں دخل نہ دیں۔ منٹگمری آپ کی ضروریات کا خیال رکھے گا۔’’ 
اس عمارت کی بیرونی چار دیواری بہت اونچی اور مضبوط بنی ہوئی تھی۔ ایک کمرہ جس کا دروازہ قلعے کی بیرونی فصیل میں تھا، مجھے دے دیا گیا۔ اس کمرے کا دوسرا دروازہ اندر کی طرف کھلتا تھا۔ سفید بالوں والے آدمی نے کہا:
‘‘مسٹر پرنڈک، یہ دروازہ کھولنے کی کوشش نہ کیجیےگا، ایسا نہ ہو کہ آپ کسی مصیبت میںمبتلاہوجائیں۔’’ 
یہ کہہ کر وہ اندرونی حصے میں چلا گیا اور دروازہ اندر سے مقفل کرلیا۔ تھوڑی دیر بعد منٹگمری کیآوازسنائی دی۔
‘‘موریو، ڈاکٹر موریو، ذرا ادھر تو آئیے۔’’
موریو Moreau یہ نام مجھے کچھ شناسا معلوم ہوا، شاید میں نے اسے کہیں پہلے بھی سنا تھا یا پھر کسی اخبار میں پڑھا تھا۔ میرے خیالات کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ منٹگمری کا بھیانک چہرے والا خدمت گار ہاتھ میں ٹرے لیے کھڑا تھا۔ اس نے غیر انسانی لہجےمیںکہا:
‘‘آپ کا کھانا لایا ہوں جناب۔’’
جب وہ ٹرے میز پر رکھ کر لوٹا، تو مجھے فوراً ڈاکٹر موریو کے بارے میں وہ سب کچھ یاد آگیا جو ذہن سے اتر چکا تھا۔ جب میں چھوٹا سا تھا، تو اکثر یہ نام اخباروں میں شائع ہوتا تھا۔  موریو انگلستان کا نامور ڈاکٹر تھا، جراّحی اور تشریح  الاعضا میں اس کے پائے کا کوئی دوسرا ڈاکٹر نہ تھا ، مگر ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ اسے انگلستان چھوڑنا پڑا۔ ہوا یوں کہ اس کی لیبارٹری سے ایک کتا بھاگ نکلا جس کے مختلف اعضا کاٹ دیے گئے تھے۔ لیبارٹری کے ایک ملازم نے اخبار کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر موریو زندہ جانوروں پر بڑے حیرت انگیز تجربات کرتا ہے اور ایک جانور کو دوسرے جانور میں تبدیل کرنے کی کوششکررہاہے۔ 
اس خبر کا چھپنا تھا کہ سارے ملک میں ڈاکٹر موریو کے خلاف غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ عوام نے جن کی اکثریت ان عظیم سائنسی تجربات کی اہمیت سے واقف نہ تھی۔ ان تجربات کو شیطانی اور منحوس قرار دیا اور ڈاکٹر موریو کو مجبور کیا کہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائے۔ ڈاکٹر موریو نے ملک چھوڑنے کا اعلان کردیا ۔  اس طرح یہ ہنگامہ فرو ہوا۔
اب اس جزیرے میں ڈاکٹر موریو کو دیکھ کر ساری بات میری سمجھ میں آگئی۔ انگلستان سے مایوس ہو کر وہ منٹگمری کے ساتھ یہاں آگیا تھا تاکہ جانوروں پر اپنے تجربات مکمل کرسکے، لیکن یہ عجیب و غریب آدمی اسے کہاں سے ملے....؟ ان بھیانک شکلوں کا تصور کرتے ہی مجھے جھرجھری سی آگئی۔ میں ان باتوں پر غور کر رہا تھا کہ اندرونی حصے سے وافع عفونت دوا کی تیز بو آئی۔ معلوم ہوتا تھا ڈاکٹر موریو نے تیندوے پر اپنا تجربہ شروع کردیا ہے، کیونکہ سب سے پہلے اس کا پنجرہ اندر لے جایا گیا تھا۔ مقفّل دروازہ کھلا اور منٹگمری دکھائی دیا۔
‘‘آؤ بھئی، کھانا کھائیں۔’’ وہ ایک گہری سانس لیتے ہوئے بولا۔ ‘‘ڈاکٹر موریو ہمارے ساتھ شامل نہہوسکے گا۔’’
‘‘منٹگمری، ڈاکٹر موریو وہی تو نہیں جس نے جانوروں پر عجیب....’’
‘‘بھائی میرے، اگر تم سمجھ ہی گئے ہو، تو اپنی زبان بند رکھو، آہستہ آہستہ یہاں کے سارے اسرار تم پر واضح ہوجائیں گے۔’’
‘‘اچھا ایک بات تو بتاؤ، تمہارا یہ خدمت گار جو کھانا دے کر گیا ہے، اتنا خوفناک کیوں ہے....؟’’
‘‘اچھا، تو یہ خوفناک ہے....؟’’ نٹگمری نے مشروب  کا گلاس  خالی کرتے ہوئے کہا۔
‘‘بھئی، وہ کچھ جانور سا دکھائی دیتا ہے، مڑے ہوئے کان، ٹیڑی ٹانگیں، منہ سے نکلے ہوئے دوتیزدانت۔’’
‘‘میں نے تو کبھی اس بات پر غور نہیں کیا تھا، دراصل میں اس سے مانوس ہوگیا ہوں۔’’
صاف ظاہر تھا  منٹگمری کچھ بتانا نہیں چاہتا۔ ‘‘یارب....! یہ شراب بھی کتنی بری چیز ہے۔ اس کی وجہ سے میں اس منحوس جزیرے پر آنے کے لیے تیار ہوگیا۔ ڈاکٹر نے پیشکش کی تھی کہ یہاں میں جتنی چاہوں پی سکتا ہوں۔’’ 
منٹگمری نے پہلی بوتل خالی کرتے ہوئے کہا۔ دفعتاً اندرونی حصے سے تیندوے کی دل ہلا دینے والی چیخ سنائی دی۔ میں کانپ اٹھا۔ منٹگمری بھی خوفزدہ ہوگیا اور اس خوف کو مٹانے کے لیے اور تیزی سے پینے لگا.... چیخ پھر سنائی دی۔ معلوم ہوتا تھا تیندوا بری طرح تڑپ رہا ہے۔ منٹگمری نے دوسری بوتل اٹھائی اور باہر کھلے میدان میں نکل گیا۔ میں نے ہاتھوں کی مٹھیاں بھینچ لیں، کانوں میں انگلیاں اڑس لیں، لیکن چیخیں پھر بھی سنائی دیتی رہیں۔ تنگ آکر میں اٹھا اور اس ہدایت کے باوجود کہ تنہا قلعے سے باہر نہ جاؤں، میدان میں آگیا اور غیر ارادی طور پر سمندر کی طرف چل پڑا۔
ہوا بند تھی اور دور سمندر کی لہریں جھاگ اڑاتی ہوئی ساحل سے ٹکرا رہی تھیں۔ کوئی آدھ میل چل کر ایک چشمے پر پہنچا.... بڑی خوبصورت جگہ تھی، میں گھاس پر دراز ہوگیا۔ جلد ہی مجھے نیند نے آلیا۔ نہ جانے کب تک سوتا رہا۔ مٹی کا پشتہ چشمے میں گرا، تو اس کے شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ سامنے ایک عجیب و غریب انسان دونوں ہاتھوں اور پیروں کے بل جھکا ہوا چوپایوں کی طرح پانی پی رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں ناقابل یقین حد تک چھوٹی تھیں، دھڑ بہت لمبا تھا، لیکن اس نے بھی کپڑے پہن رکھے تھے اور مجھے دیکھتے ہی وہ دونوں پیروں پر کھڑا ہوگیا تھا۔ عجب باشندے تھے اس جزیرے کے !میں نے اسے ہاتھ کے اشارے سے بلایا، مگر وہ فوراً جھاڑیوں میں کہیں غائب ہوگیا۔ میں نے چاروں طرف دیکھا، جزیرے پر زندگی کے کوئی آثار نہ تھے اور ایک عجیب طرح کی مہیب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ میں ڈر گیا۔ سوچا کہ  یہ بھیانک چہروں والے لوگ مجھ سے کیا سلوک کریں۔ قلعہ یہاں سے خاصی مسافت پر ہے اور اگر یہ حیواننما انسان جاکر اپنے ساتھیوں کو بلا لایا، تو شاید میں اکیلا ان کا مقابلہ نہ کرسکوں۔ میں فوراً اٹھا اور تیز قدموں سے قلعے کی طرف روانہ ہوگیا۔
راستے میں ایک درخت کے ٹنڈ پر مجھے تین اور انسان نظر آئے۔ کپڑے کی چند دھجیاں ان کے جسموں پر تھیں، چہرے بےڈھنگے، زرد اور ٹھوڑیاں غائب تھیں۔ ان کے سروں پر سخت بال تھے۔ انہوں نے میری طرف نہیں دیکھا۔ میں فوراً دائیں جانب گھنی جھاڑیوں میں گھس گیا اور جھاڑیوں کے اندر ہی اندر قلعے کی طرف بڑھنے لگا۔ کچھ دور جاکر اچانک مجھے احساس ہوا کہ میرے ساتھ ساتھ جھاڑیوں کی دوسری طرف کوئی اور بھی چل رہا ہے۔ میں نے ٹیلے پر چڑھ کر نظر دوڑائی، وہی عفریت جسے میں نے چشمے پر پانی پیتے دیکھا تھا، لالچی نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں نے ڈانٹ کر پوچھا:
‘‘کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو....؟’’
‘‘کچھ نہیں، کچھ بھی تو نہیں۔’’ یہ کہہ کر عفریت فوراً غائب ہوگئی۔ خدا مجھ پر رحم کرے! اگر وہ جواب نہ دیتی، تو شاید میں اسے جانور ہی سمجھتا، لیکن وہ انگریزی جانتی تھی اور اس نے میری بات سمجھ لی تھی۔ بمشکل اپنے آپ پر قابو پایا اور جنگل والا راستہ چھوڑ کر ساحل کی طرف ہولیا۔ کچھ دور جاکر مجھے پیچھے سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ میں دوڑنے لگا! اور ساحل کی ریت پر پہنچتے ہی مڑ کر دیکھا۔ وہ عفریت میرا پیچھا کر رہی تھی اور کوئی دم میں مجھ تک پہنچنے والی تھی۔ میں بالکل تنہا تھا۔ کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے، میں نے فوراً جیب سے رومال نکالا۔ ریت پر پڑا ہوا ایک پتھر اٹھا کر رومال کے کونے میں رکھا اور اپنا ہاتھ تیزی سے گھماتے ہوئے رومال کے دونوں سرے چھوڑ دیے۔ اس سادہ سے غلیل  نے بہت کام دیا۔ پتھر عفریت کی کنپٹی پر لگا، ضرب اتنی شدید تھی کہ عفریت ساحل پر اوندے منہ گر پڑی۔ مجھے معلوم تھا اب وہ اٹھے گی، تو تیزی سے میرا پیچھا کرے گی، اس لیے ایک منٹ ضائع کیے بغیر میں قلعے کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔
تیندوے کی چیخیں ابھی تک سنائی دے رہی تھیں۔ وہی آواز جس سے خوفزدہ ہو کر میں بھاگا تھا اب مجھے زندگی کا پیغام دے رہی تھی۔ عمارت سے باہر منٹگمری کھڑا تھا، جب میں ہانپتا کانپتا اس کے قریب پہنچا، تو وہ بولا:  ‘‘میں اور ڈاکٹر موریو دن بھر مصروف رہے اور ابھی ابھی مجھے خیال آیا کہ تم غائب ہو۔ کہاں گئے تھے تم....؟’’
میری آنکھوں میں خوف کی جھلک دیکھ کر اس نے جیسے خود ہی اندازہ کرلیا۔  ‘‘اوہ، میں سمجھ گیا، تم نے یقیناً اس جزیرے پر کچھ حیرت انگیز چیزیں دیکھ لی ہیں۔’’ میں نے اسے پورا واقعہ سنایا۔
‘‘جہنم ہے یہ جزیرہ بھی۔’’ وہ بولا۔
‘‘لیکن وہ مخلوق کون تھی....؟’’ میںنےسوالکیا۔
‘‘میرا خیال ہے بھوت ہوں گے۔ تمہارے اعصاب جواب دے رہے ہیں۔ تم دوا پی کر سوجاؤ، ورنہ یہ تیندرے کی چیخیں تمہیں سونے نہ دیں گی۔’’ یہ کہہ کر اس نے مجھے ایک نہایت کڑوی دوا پلائی اور مجھے فوراً ہی نیند آگئی۔ 
جب میں اٹھا تو دوسرے دن کی صبح طلوع ہوچکی تھی۔ اندر سے تیندوے کی چیخوں کے بجائے کسی انسان کی درد و رنج میں ڈوبی ہوئی آواز سنائی دے رہی تھی۔ یوں محسوس ہوتا تھا کوئی جاں بلب مریض کراہ رہا ہے۔ میں فوراً عقبی دروازے کی طرف گیا، اتفاق سے وہ دروازہ کھلا تھا۔ شاید مجھے نیند میں دیکھ کر منٹگمری نے اسے مقفل نہ کیا تھا۔ میں حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے بیتاب تھا۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ، اندر گھس گیا۔ سامنے لمبی سی میز پر ایک انسان جس کے سارے جسم پر پٹیاں بندھی تھیں پڑا ہائے ہائے کر رہا تھا۔ میز کے نیچے ایک ٹب تھا جو تازہ سرخ خون سے لبا لب بھرا ہوا تھا۔ اچانک میز کے پیچھے سے ڈاکٹر موریو نمودار ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس نے مجھے دونوں ہاتھوں پر اٹھایا اور واپس کمرے میں لاکر فرش پر پٹخ دیا۔ اس کے بعد وہ اندر چلا گیا اور منٹگمری پر چڑھ دوڈا۔ منٹگمری میری طرف سے صفائی پیش کر رہا تھا، لیکن ڈاکٹر موریو کا غصہ دم بدم بڑھتا جارہا تھا۔
میں نے سوچا یقیناً ڈاکٹر موریو نے چوپایوں کے بجائے انسانوں پر تجربات شروع کر دیے ہیں، تبھی تو اس غیر آباد جزیرے کو اپنا مسکن بنایا ہے تاکہ قانون کا ہاتھ اس تک نہ پہنچ سکے۔ اب جبکہ میں اس کے بھید سے واقف ہوگیا ہوں، وہ یقیناً مجھے بھی میز پر لٹائے گا اور نہ جانے مجھ پر کس قسم کا آپریشن کرے....؟ اس خیال نے مجھے پریشان کردیا۔ میں فوراً کمرے سے نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت مجھ پر صرف ایک دھن سوار تھی، کسی طرح مجھے ڈاکٹر موریو اور اس کے شیطانی کارندے منٹگمری کے ہاتھ سے بچ نکلنا چاہیے۔ جونہی میں قلعے سے نکلا پیچھے سے منٹگمری نےپکارا: 
‘‘پاگل مت بنو مسٹر پرنڈک، واپس آجاؤ، بخدا! ہم تمہیں کچھ نہ کہیں گے۔’’ 
لیکن میں اس شخص کی زبان پر کیسے اعتبار کرسکتا تھا جبکہ وہ چوبیس گھنٹے نشے میں ڈوبا رہتا تھا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ سب انسان نما حیوان، بھوت پریت نہیں، بلکہ جیتے جاگتے انسان ہیں اور انہیں ڈاکٹر موریو نے آپریشن کرکے حیوانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ میں حیوان بننا نہ چاہتا تھا، اس لیے میری رفتار اور تیز ہوتی چلی گئی۔ ایک بار مڑ کر دیکھا، تو منٹگمری اور اس کا بھیانک چہرے والا ملازم میرا تعاقب کر رہے تھے۔
گزشتہ رات میں مغربی جنگل میں گیا تھا، اس مرتبہ میں نے شمال مشرق کا رخ کیا۔ کوئی ڈیڑھ میل تک پوری قوت سے دوڑتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ پہاڑی علاقہ شروع ہوگیا۔ یہاں جابجا کھڈے  اور غاریں دکھائی دے رہی تھیں۔ میں بھی ایک کھڈے میں اتر گیا اور اپنی پھولی ہوئی سانس درست کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ بعد منٹگمری کی آواز سنائی دی۔ وہ بار بار مجھے آوازیں دے رہا تھا۔ اس کے ساتھ بہت سے کتے تھے جو مسلسل بھونک رہے تھے، لیکن میں فیصلہ کر چکا تھا کہ اگر ضرورت  پڑی، تو موریو اور منٹگمری کے بجائے ان حیوان نما انسانوں سے مدد حاصل کرنے کی کوشش کروں گا جن سے ایک روز پہلے میری ملاقات ہوچکی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ موریو کے آپریشن روم کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد مجھے موریو  اور منٹگمری ان بھیانک عفریتوں سے زیادہ خوفناک نظر آنے لگے تھے جن سے میں ڈر کر بھاگا تھا۔ کئی گھنٹے میں اسی کھڈےمیں چھپا رہا۔ منٹگمری میری تلاش میں مایوس ہو کر واپس چلا گیا، تو میں کھڈ سے نکلا اور آہستہ آہستہ جھاڑیوں کی طرف چل دیا۔ بھوک زوروں پر تھی اور پیاس بھی لگی ہوئی تھی۔ اچانک ایک بندر نما انسان، جسے میں نے ساحل پر کشتی سے اترتے ہوئے دیکھا تھا، درخت سے کودا اور سامنے آکر مجھے غور سے دیکھنےلگا۔ ‘‘تم....؟’’ وہ کانپتی ہوئیآواز میں بولا۔
‘‘تم کشتی میں تھے۔’’
‘‘ہاں، میں وہی ہوں جسے تم نے کشتی میں دیکھا تھا۔ مجھے بھوک لگی ہے، کھانا کہاں ملے گا....؟’’
‘‘کھانا جھونپڑیوں میں ہے۔ ہم انسان ہیں، ہم کھانا کھاتے ہیں۔’’
میں نے اس سے تین چار سوال اور پوچھے، اس کے جوابات سے اندازہ ہوا کہ وہ شخص فہم و بصیرت سے محروم ہے اور اسے چند جملے رٹائے گئے ہیں۔
‘‘مجھے اپنے جھونپڑوں میں لے چلو۔’’ میں نےکہا۔ وہ اچھلتا اور کودتا ہوا میرے آگے آگے چل دیا۔ سامنے چھوٹے سے آتش فشاں پہاڑ کے دامن میں لمبی سی ایک چٹانی دراڑ تھی، ہم اس میں داخل ہوگئے۔ آگے اندھیرا تھا اور مجھے احتیاط سے چلنا پڑتا تھا۔ جلد ہی اس انوکھی مخلوق کے بھٹ نظر آئے۔ راستے کے دونوں طرف جھاڑیاں کاٹ کر چھوٹے چھوٹے گھروندے بنائے گئے تھے۔ ہم ایک بڑے سے گھر میں داخل ہوئے جہاں وسط میں سیاہ ڈھیر کی شکل میں ایک عفریت نیم دراز تھی۔  
‘‘ہوں، یہ کون ہے....؟’’ اس ڈھیر میں سےآواز آئی۔
‘‘آدمی ہے آدمی، رہنے آیا ہے۔’’ بند ر نما راہبر نے کہا۔
‘‘آدمی ہے، تو اسے قانون سیکھ لینا چاہیے۔ کہو چار ٹانگوں سے چلنا گناہ ہے۔’’ کئی اور عفریتیں بھی اندر آگئیں۔ سب کی سب اس ڈھیر کے سامنے بیٹھ گئیں۔ اس ڈھیر نما جانور نے جسے سب قانون دان کے نام سے یاد کرتے تھے، سبق شروع کیا:
‘‘چار ٹانگوں سے چلنا گناہ ہے، کیونکہ ہم آدمی ہیں، چشمے اور ندی سے منہ لگا کر پینا گناہ ہے، کیونکہ ہم آدمی ہیں۔ کچاگوشت اور مچھلی کھانا گناہ ہے، کیونکہ ہم آدمی ہیں۔ دوسرے آدمی کو بھنبھوڑنا اور نوچنا گناہ ہے، کیونکہ ہم آدمی ہیں۔’’ہم سب اس کے ساتھ مل کر یہ جملے دہراتے رہے۔
‘‘اس کا گھر عذاب کا گھر ہے، وہ جلاتا ہے، وہ مارتا ہے، وہی زخمی کرتا ہے، وہی اچھا کرتا ہے۔’’ وہ مسلسل بولتا رہا۔
میں سوچنے لگا جانے ‘‘وہ’’ کون ہے،  پھر قانوندان بولا:
 ‘‘وہ زمین کا مالک ہے، اس کی سوئی بہت خوفناک ہے۔’’
اف میرے خدا، ‘‘سوئی’’ کے ذکر سے میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ جانور جس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں وہ ڈاکٹر موریو کے سوا کوئی نہیں۔ ڈاکٹر موریو نے اپنے مکروہ سائنسی تجربات کی مدد سے ان انسانوں کو حیوان بنا دیا تھا اور ان کے ذہنوں میں اپنی اہمیت راسخ کردی تھی۔ اب یہ سب اسے اپنا دیوتا  مانتے تھے۔ اچانک دروازے پر ہل چل ہوئی۔ سب حیوان نما انسان اٹھ کھڑے ہوئے۔ اگلے ہی لمحے کتے بھونکے اور پھر ڈاکٹر موریو، منٹگمری اور اس خوفناک ملازم کی معیت میں اندر آیا۔ ان دونوں کے ہاتھوں میں پستول تھے۔ مجھے دیکھتے ہی ڈاکٹر موریو ایک عفریت سے جو ریچھ سے ملتی  جلتی تھی، بولا:‘‘پکڑ لو اسے۔’’
میں ڈر کر پیچھے بھاگا اور اچانک مجھے چھت کے قریب ایک سوراخ نظر آگیا جو اوپر کسی کھوہ میں جاکر کھلتا تھا۔ میں اس سوراخ میں چڑھ کر اوپر ی طرف رینگنے لگا۔ ریچھ نما انسان نے میرا تعاقب کیا، لیکن وہ موٹا ہونے کے سبب سوراخ میں پھنس گیا۔
کھوہ کے ذریعے پہلے میں ایک چٹان تک پہنچا اور وہاں سے نرسل کے جھنڈ کی طرف بھاگا۔ اچانک مجھے اپنے پیچھے ڈاکٹر موریو اور منٹگمری کی آوازیں اور حیوان نما انسانوں کا شور سنائی دیا۔ وہ سب کے سب تعاقب کر رہے تھے۔ آگے دلدل تھی جس میں سے بدبو اٹھ رہی تھی۔ میں نے دائیں طرف ایک چکر کاٹا اور اندازے سے ساحل سمندر کا رخ کیا۔ تعاقب کرنے والوں کی نظروں سے بچنے کے لیے ایک چشمے میں بھی اترا، لیکن اس کا پانی اتنا گرم تھا کہ فوراً ہی باہر آنا پڑا۔ ایک جگہ میں چٹان میں کھوہ دیکھ کر اندر گھس گیا اور کھوہ کا منہ خشک جھاڑیوں سے بند کردیا۔ اس جگہ میں کوئی ایک گھنٹہ چھپا رہا، یہاں تک کہ تعاقب کرنےو الے نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ میں اٹھا اور اندازے سے سمندر کی طرف چل دیا۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح ڈاکٹر موریو اور منٹگمری سے پہلے قلعہ نما عمارت تک پہنچ جاؤں تاکہ وہاں سے کوئی مناسب ہتھیار چرا سکوں۔ اس وقت میں نہتا تھا اور اس جزیرے میں، جہاں انسان اور حیوان سب میرے دشمن تھے، زیادہ دیر تک زندہ رہنا ممکن نہ تھا۔ 
جونہی میں ساحل کی ریت تک پہنچا، جھاڑیوں میں حرکت ہوئی اور اچانک موریو، منٹگمری اور بہت سے حیوان نما انسان میری طرف بڑھے۔ میں نہایت مایوسی کے عالم میں سمندر کے پانی کی طرف دوڑا۔ منٹگمری مجھے بلاتا رہا لیکن میں فیصلہ کرچکا تھا کہ موریو کے ناپاک تجربات کا شکار ہونے کے بجائے موت کو گلے لگانا زیادہ بہترہے۔  
‘‘رک جاؤ پرنڈک، خدا کے لیے اپنے آپ کو یوں ختم نہ کرو۔’’ موریو چلایا۔ 
‘‘اگر تم ہم سے خوفزدہ ہو تو ہم تمہیں پستول دینے کو تیار ہیں۔’’
‘‘تم جھوٹ بولتے ہو، مجھے تمہاری بات پر قطعی اعتبار نہیں۔‘‘ موریو اور منٹگمری نے اپنے اپنے پستول ریت پر پھینک دیے۔ موریو بولا:‘‘ہم سو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں، تم آکر یہ پستول اٹھا لو۔ میں نہیں چاہتا تم کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر خود کشی کرلو۔’’ یہ کہہ کر وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ میں آہستہ آہستہ آگے بڑھا اور ریت پر سے پستول اٹھالیے۔
تھوڑی دیر بعد وہ دونوں میرے آگے آگے قلعے کی طرف چل رہے تھے۔ ڈاکٹر موریو مجھے سیدھا اپنی تجربہ گاہ میں لے گیا اور میز پر پڑا ہوا جسم دکھایا۔ وہ جسم جسے میں انسان سمجھا تھا واقعی تیندوا تھا، البتہ اسے کچھ اس طرح چیرا پھاڑا گیا تھا کہ پٹیوں میں چھپا ہوا وہ قوی ہیکل آدمی نظر آتا تھا۔ اس کے بعد ہم کمرے میں آکر بیٹھ گئے۔ منٹگمری چائے بنوا کر لایا۔ چائے پیتے ہوئے موریو بولا:
‘‘مسٹر پرنڈنک، اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اصل ماجرا کیا ہے، تم حیاتیات کے طالب علم ہو، تو میرے نام سے ضرور واقف ہوگے۔ جب انگلستان میں عوام نے میری مخالفت کی، تو مجھے اپنے انتہائی اہم تجربات کے لیے اس ویران جزیرے کو منتخب کرنا پڑا۔ یہ سب جاندار جو تمہیں اس جزیرے میں دکھائی دیے، دراصل حیوان تھے، میں نے انہیں انسان کی شکل دی اور یہ تیندوا بھی جس کی چیخیں سن کر تم ڈر گئے تھے، چند ہفتے بعد انسانی شکل میں آجائے گا۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، یہ سب سرجری کا کمال ہے۔ پٹھوں، نسوں، اعضا اور زبان کی ایک خاص طرح سے قطع برید کی جائے، تو مختلف جانداروں کو انسانی روپ دیا جاسکتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ مجھ سے پہلے کسی ڈاکٹر نے اس طرف توجہ کیوں نہیں دی۔ تم جانتے ہو اس مشینی دور میں بھی انسانی ہاتھ کس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر دنیا کے بہت سے کام نامکمل رہ جاتے ہیں۔ پس اگر ہم ان جانورں کو، جو ہمارے لیے انسان کے برابر کارآمد نہیں، انسانی روپ دے سکیں، تو وہ ہمارے لیے مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔ ذرا اس دن کا تصور کرو جب کھیتوں میں ہل چلانے سے لے کر دفتروں میں حساب کتاب رکھنے تک، سب کام ایسے حیوان کریں گے جو پہلے جنگلوں میں دندناتے پھرتے تھے اور جن کا مصرف سوائے اس کے اور کچھ نہ تھا کہ شوقین لوگ ان کا شکار کھیلیں اور غیر متمدن قبائل ان کا گوشت بھون کر کھا جائیں۔’’
‘‘میں نے شروع میں چند بھیڑوں پر تجربات کیے، مگر وہ مر گئیں۔ پہلا کامیاب تجربہ ایک گوریلے پر کیا جسے میں نے نہ صرف جسمانی طور پر انسانی روپ دیا، بلکہ اس کا دماغ بھی پورے طور پر اپنے تابع کیا اور آہستہ آہستہ اس کے دماغ میں حسب منشا اپنی اطاعت کے علاوہ چند بنیادی آداب داخل کردیے۔ اس جزیرے میں میرے ساتھ چھ ملازم آئے تھے۔ میں نے اس نئے انسان کا تعارف ان سے کرایا۔ پہلے تو وہ اس سے بہت ڈرے، لیکن آہستہ آہستہ مانوس ہوتے چلے گئے، لیکن میرا یہ تجربہ بھی ناکام رہا، کیونکہ چند ماہ بعد اس گوریلے کی حیوانی خصلت عود کر آئی۔ اس نے میرے ایک ملازم کو جان سے مار دیا اور جنگل میں جاکر چھپ گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے اسے ختم کیا۔ اس کے بعد اپنے تجربات میں مجھے حیوان کے دماغ پر زیادہ محنت کرنی پڑی۔ اب میں نے جن جانوروں کو انسانی قالب دیے، ان کے دماغ حیوانی نہ رہے تھے، لیکن مصیبت یہ کہ وہ دماغ پورے طور پر انسانی بھی نہ تھے۔ یوں سمجھو یہ لوگ، انسان اور حیوان کے مابین کوئی مخلوق ہیں۔ بہرکیف میں بیس برس سے انہی تجربات میں مصروف ہوں اور اب تو میری منزل بہت قریب آگئی ہے۔ مجھے یقین ہے یہ تیندوا ذہنی طور پر انسان ہوگا۔’’
‘‘اور وہ سب جانور جنہیں تم نے انسان کا روپ دیا، اس گھاٹی میں کیسے پہنچے....؟’’ میں نے ڈاکٹر موریو سے سوال کیا۔
‘‘میں نے انہیں قلعے سے نکال دیا، تو وہ جنگل میں چلے گئے اور بھٹ بنا کر رہنے لگے۔ منٹگمری نے ان میں سے ایک کو ‘‘قانون’’ سکھا دیا ہے جو باقیوں کو اس کی تعلیم دیتا ہے۔ جو حیوان میرے احکام پر عمل نہ کرے، میں اسے سزا دیتا ہوں۔ وہ مجھ سے اور منٹگمری سے بہت ڈرتے ہیں اور یہ میرے حق میں بہت مفید ہے، ورنہ جس طرح میں نے انہیں اذیتیں دی ہیں، وہ مجھے کچا ہی کھا جائیں۔’’
‘‘تم نے ان کے دماغ کیسے مطیع کیے....؟’’
‘‘دراصل میں نے انہیں ہپناٹزم کے زیر اثر کچھ باتوں کی تربیت دی ہے، لیکن بسا اوقات ان کی حیوانی خصلتیں عود کر آتی ہیں، بالخصوص رات کے وقت ان میں سے بیشتر ان اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں جو میں ان کے لیے مقرر کر چکا ہوں۔’’
‘‘وہ چھ ملازم جو آپ کے ساتھ آئے تھے، کہاںہیں....؟’’
‘‘ان میں سے ایک کو گوریلے نے مار دیا، تین نے کشتی چرا کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ مجھے یقین ہے ان میں سے کوئی زندہ نہ بچا ہوگا۔ ایک کو بخار نے آلیا اور ایک نے بھولے سے کوئی زہریلی بوٹیکھالی۔’’
‘‘کیا یہ سب حیوان نما انسان جو آپ نے بنائے، ایک دوسرے سے مل جل کر رہتے ہیں....؟’’
‘‘میں انہیں مجبور تو بہت کرتا ہوں۔ انہیں صرف سبزیاں اور پھل کھانے کی تربیت دی گئی ہے، کیونکہ اگر ان میں سے کوئی گوشت کھالے، تو خون اس کے منہ لگ جائے گا اور پھر وہ ہمارے بنائے ہوئے اصولوں کی مشکل ہی سے پروا کرے گا۔’’
ڈاکٹر موریو دیر تک مجھے اپنے تجربات کے متعلق بتاتا رہا اور اس رات جب میں سویا، تو صبح تک کئی بار ڈر کر جاگا۔ ساتھ والے بستر پر منٹگمری نہ ہوتا تو شاید میری چیخیں نکل جاتیں۔ 
اگلے روز منٹگمری کے ساتھ میں حیوان نما انسانوں کے گاؤں میں گیا۔ منٹگمری کو دیکھتے ہی سب نے سجدہ کیا اور ایک زبان ہو کر بولے: ‘‘چابک والوں کے لیے تعظیم۔’’
‘‘اب تیسرا چابک والا بھی آگیا ہے۔’’ منٹگمری نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
‘‘لیکن یہ چابک والا کیسے ہوسکتا ہے....؟ کل تو یہ چابک سے ڈر کر بھاگ اٹھا تھا۔’’ ایک عفریت نے جو کبھی بکری ہوگی، اعتراض کیا۔
‘‘زیادہ بک بک مت کرو، ورنہ تم بھی مجھ سے ڈر کر بھاگو گے۔’’ منٹگمری نے جھلا کر کہا اور ہم آگے بڑھ گئے۔ حیوان نما انسانوں کی کل تعداد 120 تھی۔ ان میں زیادہ تر ایسے جاندار شامل تھے جو پہلے بیل، ریچھ، سور، چیتے، گینڈے، گھوڑے، بھیڑیے، لومڑیاں اور کتے رہ چکے تھے۔ ان میں سے ہر ایک اپنے سر، گردن، ٹھوڑی اور جسم سے پہچانا جاتا تھا کہ پہلے وہ کیا ہوگا۔ منٹگمری نے حسب معمول نرسنگا بجا کر سب کو جمع کیا اور قانون دان نے جسے بیل اور لگڑ بگے کے اعضا ملا کر بنایا گیا تھا، اس دن کی طرح سب جانوروں کو قانون کا سبق دیا۔ چیتا آدمی (یعنی وہ آدمی جو چیتے سے بنایا گیا گیا تھا) سبق کے دوران میں منٹگمری کی طرف تیز نظروں سے دیکھتا رہا، لیکن زبان سے کچھ نہ کہا۔ منٹگمری نے اسے دو تین بار چابک دکھائی، مگر وہ حکم کی تعمیل کرنے کے بجائے بھاگ نکلا۔ منٹگمری اور میں نے دوسرے حیوان نما انسانوں کے ساتھ مل کر اسے گھیرا اور میری ایک گولی نےا سے موت کی نیند سلا دیا۔
اس طرح حیوانی مخلوق پر ہمارا رعب قائم رہا، التبہ لگڑ بگڑ آدمی مجھے مشکوک دکھائی دیا۔ اس نے زخمی چیتے کا خون چاٹا تھا اورگو واپسی پر وہ قانون دان کے ساتھ مل کر قانون دہرا رہ تھا، لیکن مجھے اس کی آنکھوں میں مکاری کی جھلک دکھائی رے رہی تھی۔ 
دن گزرتے چلے گئے۔ اب حیوان نما انسانوں سے میرا خوف کم ہونے لگا تھا۔ بعض اوقات میں اکیلا ہی ان کے گاؤں میں چلا جاتا اور ان سے الٹی سیدھی باتیں کرتا۔ ادھر ڈاکٹر موریو اپنے تجربے میں گم تھا۔ دن رات وہ تیندوے کے ساتھ مغز کھپاتا۔ چھ ہفتے بعد ایک روز صبح سویرے آپریشن روم سے تیندوے  کی ایک دلخراش چیخ سنائی دی اور اگلے ہی لمحے ایک مکروہ جہنمی مخلوق، جس کے سارے جسم سے خون بہہ رہا تھا، آنکھوں کے پپوٹے غائب تھے اور چہرہ بھورا اور انتہائی قابل نفرت تھا، باہر نکلی۔ وہ سیدھی میری طرف لپکی، میں نے ہاتھوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کی، مگر اس نے ایک دو ہتڑ میرے سینے پر مارےاور پھر مجھے فرش پر دھکیل کر ایک ہی جست میں قلعے سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔ میرا بایاں بازو ٹوٹ گیا۔ میں اپنی تکلیف پر بمشکل قابو پاتے ہوے اٹھا ہی تھا کہ ڈاکٹر موریو دکھائی دیا۔ اس کی پیشانی سے خون بہہ رہا تھا اور ہاتھ میں پستول تھا۔ وہ زخمی تیندوے کی طرف لپکا۔ اسی وقت قلعے میں سے منٹگمری نکلا۔ میں نے رک کر کانپتی ہوئی آواز میں اسے سارا قصہ سنایا۔ اس نے میری چیخوں کی پروا نہ کرتے ہوے ہڈی کو اپنی جگہ بٹھا کر مرہم پٹی کی اور میرے گلے میں رومال باندھا تاکہ میں ہاتھ کو سہارا دے سکوں۔ پھر اس نے میرے منع کرنے کے باوجود ڈٹ کر شراب پی اور ہم دونوں پستول لے کر جنگل کی طرف روانہ ہوئے۔ منٹگمری کا وہ خوف ناک ملازم بھی اس کے ساتھ تھا جو بقول اس کے ریچھ سے پیدا ہوا تھا۔ ہم جنگل میں پہنچے اور کوئی ڈیڑھ گھنٹے تک موریو اور زخمی تیندوے کو تلاش کرتے رہے جو آپریشن تھیٹر سے بھاگ نکلا تھا، لیکن دونوں کہیں نظر نہ آئے۔ ایک جگہ ہم سانس لینے کے لیے رکے، تو چند حیوان لوگ تھوتھنیاں اٹھائے ہماری طرف بڑھے۔ ان میں سے گینڈے آدمی نے اپنی تیز آواز میں کہا:‘‘وہ مرگیا۔’’
‘‘ہاں’’ سب نے اس کی تائید کی۔ ‘‘وہ جو مارتا تھا اور سزا دیتا تھا، پیدا کرتا تھا اور قانون پر عمل کرواتا تھا، آج چپ چاپ زمین پر پڑا ہے۔’’
‘‘کہاں ہے وہ....؟’’ منٹگمری نے گھبرا کر پوچھا۔گھوڑے آدمی نے کہا ‘‘ادھر جھاڑیوںسےپرے۔’’
گھوڑے آدمی کی رہنمائی میں ہم اس جگہ پہنچے موریو کی لاش خون میں لت پت پڑی تھی۔ کچھ فاصلے پر تیندوے کا مردہ جسم بھی دکھائی دیا۔ معلوم ہوتا تھا مرنے سے پہلے موریو نے اسے گولی کا نشانہبنادیاتھا۔’’
‘‘کیا اب بھی قانون باقی ہے....؟’’ قانون دان نے سوال کیا۔ ڈاکٹر موریو کی اچانک موت نے منٹگمری کو پریشان کردیا تھا۔ میرا خیال ہے اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ موریو اسے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ ویسے بھی آنے سے پہلے اس نے بےاندازہ پی تھی، اس لیے عقل ٹھکانے نہ رہی تھی۔ وہ خاموش کھڑا موریو کی لاش کی طرف دیکھتا رہا۔ بیل آدمی نے خود ہی اعلان کیا: ‘‘قانون ختم ہوگیا، کیونکہ قانون بنانے والا مرگیا۔’’
میرا ذہن تیزی سے کام کر رہا تھا: ‘‘قانون ختم ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سب دوبارہ حیوان بن جائیں گے اور ان سے بچنا میرے اور منٹگمری کے لیے محال ہوگا۔ میں نے سخت لہجے میں کہا:
‘‘وہ مرا نہیں، اس نے اپنا جسم تبدیل کرلیا ہے تاکہ یہ دیکھ سکے تم اس کے بعد کیا کرتے ہو، وہ پھر آئے گا اور جس نے اس کی نافرمانی کی، اسے اپنے ہاتھوں سے سخت سزا دے گا۔’’
‘‘وہ مرا نہیں زندہ ہے، وہ واپس آئے گا اور سخت سزا دے گا۔’’ قانون دان نے سبق دینا شروع کیا، حیوان لوگ اس کے ساتھ مل کر سبق دہرانے لگے۔ منٹگمری بھی صورتحال کا اندازہ کر چکا تھا۔ اس نے فوراً اپنے خدمت گار کو تیندوے کی لاش اٹھانے کا حکم دیا۔ ہم دونوں نے مل کر موریو کو اٹھایا اور ان کی لاشیں لے کر قلعے کی طرف چلے۔ ڈر تھا اگر حیوان لوگوں نے ان لاشوں کو کھا لیا، تو وہ گوشتخور بن جائیں گے۔ 
واپس قلعے میں پہنچ کر میں نے منٹگمری سے کہا:‘‘ اب ہمیں اس جزیرے سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے، ورنہ یہ حیوان لوگ ہمیں زندہ نہچھوڑیںگے۔’’
لیکن اس کے سر پر جوں تک نہ رینگی۔ اس نے حسب معمول شراب پینی شروع کردی، پھر اچانک اسے جانے کیا خیال آیا۔ اٹھا اور وہ صندوق اٹھا کر باہر نکل گیا جس میں شراب کی بوتلیں تھیں۔ معلوم ہوتا تھا موریو کی موت سے اس کا ذہن ماؤف ہوچکا ہے۔
میں نے روکنے کی کوشش کی، مگر اس نے پستول کا رخ میری طرف کردیا۔ میں پیچھے ہٹ گیا۔ قلعے سے کچھ فاصلے پر اس کا خدمت گار، چار اور سایوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ میں نے اندر گھس کر قلعے کا دروازہ بند کرلیا اور ساری رات منٹگمری اور اس کے حیوان دوستوں کی چیخیں سنتا رہا۔ شراب پی کر وہ سب مستی میں جھوم رہے تھے۔ صبح کاذب کے وقت ایک فائر کی آواز آئی اور پھر منٹگمری کی چیخیں سنائی دیں۔ میں نے دروازہ کھولا اور پستول لے کر ان کی طرف بھاگا۔ وہ سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہورہے تھے۔  میں نے چند ہوائی فائر کیے۔ آواز سے ڈر کر تین حیوان لوگ جنگل کی طرف بھاگ کھڑےہوئے۔ زمین پر منٹگمری چاروں شانے چت پڑا تھا اور قانون کا سبق دینے والے بیل آدمی کا مردہ جسم اس کے اوپر پڑا تھا، اس کے پنجے ابھی تک منٹگمری کے حلق میں پیوست تھے۔ قریب ہی منٹگمری کا خدمت گار بےحس و حرکت پڑا تھا۔ تینوں حیوانوں نے اسے بھی مار ڈالا تھا۔ میں نے منٹگمری کے بےجان ہاتھ سے پستول چھین لیا اور جنگل کی طرف دیکھا۔ بہت سے حیوان لوگ آہستہ آہستہ میری طرف بڑھ رہے تھے۔ میرا ایک  ہاتھ بیکار ہوچکا تھا اور دونوں پستولوں میں اتنی گولیاں نہ تھیں کہ سو سے زائد حیوان لوگوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ موت میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی۔ آخر میں نے جی کڑا کرکے منٹگمری کی لاش کے نیچے سے چابک نکالا اور اسے زمین پر مارتے ہوئے پوری قوت سے کہا:
‘‘سب لوگ یہاں آجاؤ اور مجھے سلام کرو۔ اب میں تمہارا آقا ہوں، آؤ اور اپنے قانون دان کا حشر دیکھ لو۔ا س نے خود قانون کی خلاف ورزی کی اور مارا گیا۔ اب ان کی لاشیں سمندر میں پھینک دو۔’’
حیوان لوگ قریب آئے۔ ان کی آنکھوں سے بےاعتباری ٹپک رہی تھی۔‘‘سنا نہیں تم نے....؟ لاشیں اٹھاؤ۔’’ میں چیخ کربولا۔
منٹگمری کی لاش دیکھتے ہی ان میں سے کئی ایک یک زبان بولے: ‘‘دوسرا چابک والا بھی مرگیا اور قانون دان بھی۔ اب قانون باقی نہیں ہے۔’’
ان میں سے ایک لومڑ آدمی آگے بڑھا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہا:‘‘تم مالک نہیں ہو، تم....’’ میں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اس پر گولی چلا دی، وہ لڑکھڑا کر نیچے گرا۔
‘‘اگر کسی نے حکم کی تعمیل نہ کی، تو اس کا انجام وہی ہوگا جو اس نابکار کا ہوا۔ قانون باقی ہے اور جو شخص اس پر عمل نہ کرے گا سزا پائے گا۔’’
ان میں سے تین نے لاشیں اٹھا کر سمندر میں ڈال دیں۔ میں قلعے کی طرف مڑا، لیکن یہ دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی کہ قلعے کی عمارت تیزی سے جل رہی ہے۔ میرا خیال ہے منٹگمری کی مدد کو آتے ہوئے مجھ سے تیل کا لیمپ الٹ گیا تھا جس سے لیبارٹری کی دواؤں نے آگ پکڑ لی۔ بہرکیف اب کچھ نہ ہوسکتا تھا ۔ میں نے حیوان لوگوں کو منتشر ہونے کا حکم دیا اور خود دونوں پستول لے کر نرسل کے جھنڈ میں چلا گیا تاکہ صورتحال پر غور کرسکوں۔
منٹگمری اور موریو کے مرنے کے بعد حیوان لوگوں کی ہمتیں بڑھ گئیں تھیں۔ قانون دان بھی مرچکا تھا۔ حیوان لوگ اپنی اپنی خصلتوں کی طرف لوٹنے والے تھے اور کسی وقت بھی میرے لیے خطرہ بن سکتے تھے۔ اس کے باوجود سارے جزیرے پر میرے لیے محفوظ ترین جگہ ان کے بھٹ تھے، کیونکہ لوگوں کی موجودگی میں مجھے نسبتاً کم خطرہ لاحق تھا۔ ان میں کئی ایسے تھے جو ابھی تک مجھے اپنا مالک سمجھتے تھے، چنانچہ میں جی کڑا کر کے ان کے بھٹ میں چلا گیا۔ بھیڑیے آدمی نے اعتراض کیا کہ دونوں چابک والے مر گئے، عذاب کا گھر جل گیا۔ اب کوئی قانون نہیں، کوئی مالک نہیں، لیکن میں نے ایک طویل تقریر کرکے انہیں یقین دلایا کہ قانون موجود ہےا ور جو قانون توڑے گا، اسے ‘‘وہ’’ جو اپنا جسم چھوڑ کر دوسرے جسم میں آنے والا ہے، سزا دے گا۔ کتے آدمی اور بھیڑ آدمی نے میری حمایت کی۔ کتا آدمی تو ہر وقت میرے ساتھ رہنے لگا تھا۔
اس دن کے بعد میں نے گیارہ ماہ حیوان لوگوں میں گزارے اور میں ایک رات بھی اطمینان سے نہ سو سکا۔ ہر وقت دھڑکا لگا رہتا کہ وہ میری تکا بوٹی نہ کر ڈالیں۔ ان کی حالت رفتہ رفتہ تبدیل ہورہی تھی۔
دوسرے ماہ کے اختتام پر بعض لوگوں کی آواز بدلنے لگی۔ کوئی انہیں انسانی آواز نہ سکھا سکتا تھا، اس لیے وہ خوں خوں کرتے تھے۔ تیسرے ماہ تک ان میں سے چند ایک کے سوا باقی سب انسانی آواز بھول گئے۔ چوتھے ماہ بہت سے دو ٹانگوں کے بجائے چار ٹانگوں پر چلنے لگے۔ چھٹے ماہ تک متعدد بھٹ چھوڑ پر چلے گئے۔ اب مجھے ان سے خوف آتا تھا اور گو وہ پوری طرح جانور نہ بنے تھے اور نہ بن سکتے تھے، کیونکہ موریو ان کے جسم تبدیل کرچکا تھا، لیکن ان کی خصلتیں حیوانی ہوتی جارہی تھیں۔ میں نے اپنے وفادار دوستوں، ہرن آدمی اور کتے آدمی کو ساتھ لیا اور حیوانی گاؤں سے نکل کر قلعے کے کھنڈر میں جھونپڑا بنا لیا۔ حیوان لوگ اس جگہ سے ابھی تک خوف کھاتے تھے۔ دسویں ماہ لگڑ بگھے آدمی نے میرے ساتھی کتے نما آدمی کو مار دالا۔ میں نے لگڑ بگھے آدمی کو تلاش کیا اور اسے گولی مار دی۔ ہرن آدمی بھی بھیڑیوں کے ہتھے چڑھ گیا اور یوں میںاکیلارہ گیا۔
گیارہویں مہینے کے اختتام پر ایک روز میں حسب معمول اس امید پر سمندر کے کنارے گھوم رہا تھا کہ شاید کوئی جہاز نظر آجائے۔ دفعتہً مجھے ایک کشتی دکھائی دی جو لہروں کے رخ پر جزیرے کی طرف آرہی تھی۔ یہ کشتی قریب پہنچی، تو میں نے دیکھا کہ اس میں جہاز امپاکو ہانا کے بدمزاج اور شرابی کپتان اور اس کے ایک ملاح کی لاشیں پڑی ہیں۔ معلوم ہوتا تھا وہ کئی ہفتے پہلے مرچکے ہیں۔ میں نے جلدی سے ان کی لاشیں سمندر میں پھینکیں، تازہ پانی کے دو ٹین بھر کر کشتی میں رکھے بہت سے خرگوش مار کر ساتھ لیے اور کشتی سمندر میں دھکیل کر اسمیںسوار ہوگیا۔ 
اکیسویں دن مجھے نیم بےہوشی کے عالم میں ایک جہاز نے اٹھا لیا۔
میری داستان ختم ہوچکی۔ میں نے کئی لوگوں کو اپنی روداد سنائی، لیکن کوئی مجھ پر یقین نہیں کرتا۔ کئی ایک نے تو مجھے پاگل سمجھا۔ 
اب میں یہ داستان قلمبند کر رہا ہوں تاکہ میرے مرنے کے بعد آپ لوگ اس پر غور کرسکیں۔ میں نے مسودہ اپنے بھتیجے کو بھیج دیا ہے اور خود موت کے انتظار میں اس ویران جگہ پڑا ہوں۔ جزیرے سے لوٹنے کے بعد میں آبادیوں میں نہیں رہ سکتا، کیونکہ انسان کو دیکھ کر مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس کے چہرے کے پیچھے کوئی جانور چھپا ہوا ہے۔

[حوالہ :  ’’دی آئی لینڈ آف ڈاکٹر موریو‘‘ ]


The Island of Dr. Moreau - 1977 Movie


دی آئی لینڈ آف ڈاکٹر موریو / فلم 1977  

The Island of Dr. Moreau - 1996 Movie

دی آئی لینڈ آف ڈاکٹر موریو / فلم 1996

سائنس  فکشن ادیب  اور  مستقبل  کی  کہانیوں کے مصنف 

ایچ جی ویلز ۔ 1866ء تا  1946ء  



ایچ جی ویلزH.G.Wells (ہربرٹ جار ج ویلز) کے نام سے تو شایدآپ بھی واقف ہوں گے۔ جن کے مشہور زمانہ ناول ‘‘ٹائم مشین’’ Time Machine اور‘‘دنیاؤں کی جنگ’’ War of the Worldsپر کئی فلمیں بنائی جاچکی ہیں۔   
ایچ جی ویلز  21 ستمبر 1866 کو کینٹ ، برطانیہ میں ایک غریب پنساری کے گھر پیدا ہوا۔  غربت کی وجہ سے وہ گودام اور دواخانے میں مزدوری کرتا، لڑکپن میں ایک حادثہ میں  ویلز کی ٹانگ ٹوٹ گئی اور اسے کئی  مہینوں  بستر پر گزارنے پڑے، اس دوران والد نے اسے پڑھنے کے لیے کہانیوں کی کتابیں لاکر دیں۔   روزانہ اٹھارہ گھنٹے مسلسل  کتب بینی نے ویلز کی دنیا بدل دی ۔  اس کے اندر کا ادیب جاگا اور اس نے خود لکھنے کا آغاز کیا ۔ 
 1895ء میں لکھے گئے اس کے ناول ‘‘ٹائم مشین’’ نے پوری دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ اس میں ایک کردار کو وقت کی رفتار سے سفر کرتے دکھایا گیاہے۔  ایچ جی ویلز کے سائنسی تصورات کی قوت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتاہے کہ اس نے اپنے ناول میں مستقبل کی دنیا کے جو تصورات پیش کیے  وہ ہو بہو سچ ثابت ہوئے۔ اس ناول میں اس نے مستقبل کی ایسی مشینوں کا تذکرہ کیا ہے جو آج کل کے سے مشابہ ہیں۔   1898ء میں اس نے اپنے ناول ‘‘دی وار آف دی ورلڈز’’ میں یوں تو خلائی مخلوق کا زمین پر حملہ دکھایا ہے،  لیکن اس ناول میں اس نے لیزرہتھیار سے مشابہ ایک ہتھیار کا تذکرہ کیا ہے  جو اس نے لیزر کی دریافت (1960ء) سے 62برس قبل پیش کردیا تھا۔
1901ء میں اس کے ایک ناول Anticipations  میں سن 2000عیسوی کی دنیا کا تصور پیش کیا گیاہے۔ اس ناول میں اس نے ٹرین ، کار، جہاز ، آبدوز کے متعلق لکھا جو اس وقت ایجاد بھی نہیں ہوئے تھے اور عام لوگوں کے خواب و خیال میں ان کا تصور بھی موجود نہ تھا۔ ایچ جی ویلز کی ایک اور قابلِ ذکر کتاب ‘‘ چاند پر پہلا آدمی’’The First Man In the Moonہے جو 1901ء میں شائع ہوئی اس کتاب سے بھی مستقبل کے سائنسدانوں کو تحقیق کی نئی راہ سوجھی۔  ایچ جی ویلز کی کتاب‘‘آئندہ آنے والی چیزوں کی شکلیں’’ The Shape of Things to Come، جو  1933ء میں شائع ہوئی۔ اس ناول میں ایچ جی ویلز نے  گھر گھر ٹیلی ویژن، ویڈیو ٹیپ ریکارڈر، ایئر کنڈیشن کی بھی پیش گوئی تھی۔   ایچ جی ویلز کو سائنس فکشن کہانیوں کا باوا آدم   کہا جاتا ہے لیکن آج دنیا ئے سائنس  اُسے ادیب سے زیادہ  ایک سائنسدان  مانتی ہے  جس نے  آنے والے سائنسدانوں کو  مستقبل کی ممکنات کا تصور دیا۔  ایچ جی ویلز 13 اگست 1946 کو لندن میں انتقال کرگیا۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں