نوبل انعام یافتہ مصر ی  ادیب نجیب محفوظ کی ایک کہانی

پراسرار درویش


نجیب محفوظ

نوبل انعام یافتہ مصر ی  ادیب نجیب محفوظ کی کہانیوں کے مجموعہ ‘‘حکایات حارتنا’’ (محلہ کی کہانیاں) سے منتخب ایک کہانی کا ترجمہ



قریبی  واقع تکیہ (خانقاہ*) کی  محراب  اور قبرستان کے احاطہ کے درمیان  چوک پر کھیلنا مجھے اچھا لگتا تھا ۔ خانقاہ کے باغ  میں لگے شہتوت  کے درخت  بہت بھاتے ہیں۔ باغ کے پیڑوں کے ہرے بھرے پتے  ہمارے محلہ کی رونق ہیں۔ ان کے کالے کالے شہتوت ہمارے ننھے دلوں کو خوب لبھاتے ہیں۔
یہ خانقاہ گویا ایک چھوٹا سا قلعہ ہے جو باغ سے گھرا ہوا ہے۔ اس کا باغ کی جانب کھلنے والا دروازہ  ہمیشہ بند رہتا تھا۔ اس کی کھڑکیاں بھی بند رہتی تھیں۔ اس طرح پوری  عمارت اداسی اور تنہائی میں ڈوبی  جدائی کی تصویر بن کر رہ گئی تھی۔ 
(* عالم اسلام میں صوفیوں کے مراکز کے مختلف نام ملتے ہیں ،   برصغیر پاک و ہند و گرد ونواح  میں فارسی لفظ  ‘‘خانقاہ ’’  رائج ہے،      پاکستان کے دیہی علاقوں میں اسے حجرہ ، ڈیرے، مانہڑی، مٹھ ، کُٹی وغیرہ کہا جاتا ہے،  مشرق وسطی اور عرب ممالک میں  انہیں ‘‘رباط ’’  Ribat کہا جاتا ہے ۔ مشرقی افریقہ میں یہ ‘‘زاویہ’’ zawiyya کے نام سے موجود ہیں۔   مصر اور وسطی ایشیائی زبان میں  اسے ‘‘تکیہ ’’ tekije  کہتے ہیں۔ )
 ہمارے ہاتھ اس خانقاہ کی فصیل نما چہار دیواری  کی طرف اسطرح  لپکتے ، جس طرح شیرخوار بچوں کے ہاتھ چاند کی طرف۔ باغ کی دیوار پر چڑھتے تو ایسا لگتا کہ ہم قلعے کے اندر پہنچ گئے ہوں۔ 
اس باغ میں کبھی کبھی کوئی درویش بھی نظر آجاتا تھا جس کی ڈاڑھی لمبی ہوتی تھی،  اس کا چغہ ڈھیلا ڈھالا ہوتا اور ٹوپی کشیدہ کاری سے آراستہ۔  جب اس درویش کی نظر ہم بچوں پر پڑتی تو وہ مسکرا کر ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلاتا۔ ہم سب بچے بھی بیک زبان دعا ئیہ آواز سے پکارتے،
‘‘درویش! خدا تمہاری عمر دراز کرے۔’’
مگر وہ درویش کوئی جواب دئیے بغیر   گھاس سے لدی زمین کو گھورتے ہوئے یا چشمے کے قریب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے خاموشی سے وہاں سے گزر جاتا تھوڑی دیر میں وہ خانقاہ کے اندرونی دروازے کے پیچھے گم ہوجاتا ہے۔
میں اکثر اپنے والد سے یہ پوچھتا ہوں  
‘‘بابا!یہ کون لوگ ہیں؟’’
‘‘یہ اللہ والے  لوگ ہیں۔’’
جواب ملتا ہے اور  پھر وہ تنبیہہ کے انداز میں معنی خیز لہجہ سے کہتے، ‘‘جو انہیں تنگ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا، بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ان کو پریشان کرتے ہیں۔’’
میں چپ ہوجاتا ہوں  کیونکہ  میرا دل تو صرف وہاں لگے شہتوتوں  کا دیوانہ تھا۔
ایک دن میں کھیلتے کھیلتے بہت تھک  گیا۔ کھیل کے بعد میں زمین پر لیٹا اور میری آنکھ لگ گئی۔ جب میں جاگا تو مجھے احساس ہوا کہ اب میں وہاں تنہا تھا۔ سورج پرانی فصیل کے پیچھے غروب ہوچکا تھا، آسمان پر خوبصورت شفق پھیل چکی تھی اور  بہار کی بھیگی بھیگی مہک سے شام کی ہوا کے جھونکے مجھے سرشار کرنے لگے تھے۔  اندھیرا پھیلنے  سے پہلے مجھےمحلے میں واپس جانے کے لئے قبرستان کے راستہ سے ہو کر گزرنا تھا۔ میں دفعتاً  چھلانگ لگا کر کھڑا ہوا۔ اچانک  ایک ہلکا سا احساس مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں۔  اس پر میں ایک لطیف محویت میں ڈوب جاتا ہوں۔  
میں محسوس کرنے لگتا ہوں کہ میرا دل نامعلوم برکتوں سے بھر گیا ہے۔  کسی کی نظر نے مجھے محصور کیا ہوا تھا، میرے دل کو اپنی گرم نگاہ کی گرفت میں لیا ہوا تھا۔
میں نے اپنا رخ خانقاہ کی طرف کیا، کیا دیکھتا ہوں کہ  ایک آدمی  باغ کے درمیان والے شہتوت  کے درخت کے نیچے کھڑا تھا۔ وہ کوئی درویش تو لگتا ہے مگر اُن دوسرے درویشوں کی طرح نہیں تھا جن کو ہم گاہ بہ گاہ دیکھتے ہیں۔  
وہ کافی بوڑھا تھا، خاصے ڈیل ڈول کا  دراز قامت،اس کا چہرہ چمک دمک سے پُر تھا گویا نور کا سرچشمہ ہو،اس کے چغے کا رنگ سبز، اس کی لمبی ڈاڑھی سفید  پگڑی، وہ ایک پُرعظمت شخص نظر آتا تھا....  اسے گھورتے رہنے سے مجھے جیسے نشہ سا ہوگیا۔ ایک خوبصورت خیال مجھ سے سرگوشی کرتا ہے کہ اس جگہ کا مالک یہی ہے۔ دوسرے درویشوں کے برعکس اس کے چہرے میں دوستی  اور اپنائیت کی جھلک نظر آئی ۔ میں چہار دیواری کے قریب آتا ہوں اور اسے خوشی سے کہتا ہوں....
‘‘مجھے شہتوت  اچھے لگتے ہیں....’’
 لیکن وہ صاحب نہ تو  کچھ بولے  اور نہ  ہی  انہوں نے کوئی جنبش کی۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید انہوں  نے سنا ہی نہیں۔ پھر میں نے تھوڑی اونچی آواز سے دوبارہ اپنا جملہ دہرایا ۔
‘‘مجھے شہتوت بہت پسند ہیں۔’’
مجھے محسوس ہوا  کہ انہوں نے مجھے شفیق نظروں سے دیکھا اور نرم اور دھیمی آواز سے کہا۔
بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد 
(* چودھویں صدی کے مشہور  فارسی زبان کے  شاعر حافظ شیرازی  (1315ء تا 1390ء) کے دیوان  کی مشہور غزل کا پہلا مصرعہ  بلبلی خونِ جگر خورد و گُلی حاصل کرد .... ترجمہ : بلبل نے اپنے جگر  کا خون پیا اور پھول حاصل کیا.... بعض قلمی نسخوں میں اس شعر میں جگر کی جگہ دل استعمال ہوا ہے۔ )
مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے میری طرف کوئی پھل پھینک دیا ہے۔ میں پھل کو ڈھونڈنے اور اٹھانے کے لئے جھکا مگر مجھے وہاں کچھ نہ ملا۔میں سیدھا ہو کے کھڑا ہوا تو  وہاں  کوئی بھی موجود نہ تھا۔ خانقاہ کا اندرونی دروازہ اندھیرے کی وجہ سے نظر نہیں آیا۔
اس واقعے کو میں  نے والد صاحب سے بیان  کیا۔ میری بات سن کر  وہ  مجھے شکی نظروں سے دیکھنے لگے،  میں نے زور دے کر  اپنی بات کی سچائی کا  یقین دلایا  تو وہ بول اٹھتے ہیں کہ 
‘‘یہ  نشانیاں اور اوصاف تو صرف شیخ اکبر  ہی کے ہوسکتے ہیں....مگر وہ اپنی خلوت سے کبھی باہر ہی نہیں آتے....’’
میں نے اپنا مشاہدہ صحیح ہونے پر اصرار کیا تو  والد صاحب  نے پوچھا:
‘‘انہوں نے کیا الفاظ کہے تھے ’’
میں  نے طوطے کی طرح  وہ الفاظ  رٹ دئیے 
‘‘بلبلی خونِ دلی خورد و گُلی حاصل کرد ’’
والد صاحب نے پوچھا۔  ‘‘کیا تم نے اجنبی زبان کی جس عبارت  کو یاد کیا اسے  سمجھتے بھی ہو....؟  ان الفاظ کا کیا مطلب ہے ؟’’
‘‘خانقاہ سے آنے والی درویشوں کی دعاؤں کی آوازوں میں یہ عبارت میں نے پہلے بھی کئی بار سنی ہے۔’’ میں جواب دیتا ہوں۔
میرے والد کچھ دیر خاموش رہے۔ پھر انہوں  نے  مجھ سے کہا:
‘‘کسی کو اس کے بارے میں مت بتانا۔’’
اس واقعے کے بعد  سے میں ہر روز سارے بچوں سے پہلے چوک پہنچ جاتا اور بچوں کی  واپسی کے بعد اکیلا رہ جاتا  اور باغ  کے احاطے میں  جاکر شیخ اکبر  کا انتظار کرنے لگتا ،  مگر وہ نظر نہیں آتے۔  میں اونچی آواز میں کہتا:
‘‘بلبلی خونِ دلی خورد وگُلی حاصل کرد’’
مجھے کوئی جواب نہ ملتا۔میں عجیب اذیت میں مبتلا رہتا ۔  میں اس واقعہ کو یاد کرتا  رہتا اور اس کی حقیقت کو جاننا چاہتا   ، سوچتا اور  اپنے آپ سے پوچھتا کہ   کیا میں نے واقعی شیخ اکبر کو دیکھا تھا؟یا میں نے محض اسے دیکھنے کا دعوٰی کیا تھا تا کہ لوگوں کی توجہ حاصل کر سکوں؟ 
کیا وہ میرا کوئی ایسا تصور تھا۔ شیخ کے بارے میں جو باتیں ہمارے گھر میں ہوتی تھیں وہ مشاہدہ کیا اس وجہ سے تھا....؟  نیند کی غنودگی اور گھر میں جھنجھٹ کی وجہ سے میں نے اپنے خیال میں ایک ایسی چیز کو ذہن میں بسا لیا ہے جس کا کوئی وجود ہی  نہیں ہے....؟  یہ سوالات میرے دل و دماغ  کو جھنجھوڑتے رہتے۔ میں نے سوچا کہ وہ مشاہدہ محض میرا تصور ہی ہوگا ورنہ شیخ اکبر  دوبارہ نمودار کیوں نہیں ہوئے....؟
ہر کوئی یہ کیوں کہتا تھا کہ شیخ اکبر   اپنی خلوت سے باہر نہیں آتے....؟ شاید میں نے یہ افسانہ تخلیق کیا اور اسے پھیلا دیا۔
مگر شیخ کا وہ خیالی وجود  بھی کہیں میرے اندر جا کے جم چکا ہے۔  یہ خیال میری یادوں کو معصومیت سے بھر دیتا ہے،اور  میرے دل و دماغ میں اس طرح چھایا رہا جس طرح شہتوت کا شوق۔
عرصے بعد والد کے ایک دوست شیخ عمر فکری والد صاحب سے ہمارے گھر ملنے آئے۔ وہ ایک ریٹائرڈ وکیل اور مصنف ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے ہمارے محلے میں پبلک سروس کے نام سے ایک ایجنسی کھول رکھی ہے۔ ایجنسی کا آفس محلہ کی مسجد اور مدرسے کے بیچ واقع ہے۔ یہ ایجنسی محلے کے لوگوں کی مختلف خدمات انجام دیتی ہے، کرائے پر مکان دلانا، سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرانا، تجہیز و تدفین کا انتظام کرنا اور شادی و طلاق اور خرید و فروخت۔ جب ان کو میں نے اپنے والد سے فخر کے ساتھ کہتے سنا کہ ‘‘وہ اپنے طویل تجربوں کی بدولت زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کی خدمت کرسکتے ہیں تو میرے دل میں دبی خواہش پھر سے ابھر آئی۔ میں نے پوچھا۔
‘‘کیا آپ میرا ایک کام کرسکتے ہیں....؟’’
مسکرا کر انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا۔
‘‘بتاؤ بیٹے....! تمہیں کیا چاہیے....؟’’
‘‘میں خانقاہ کے شیخ اکبر   کو دیکھنا چاہتا ہوں۔’’ میں نے کہا
شیخ عمر نے زور کا قہقہہ لگایا، ان کا ساتھ والد صاحب نے بھی دیا اور پھر شیخ عمر نے کہا
‘‘میں جو کام انجام دیتا ہوں وہ زندگی سے متعلق اور ذرا سنجیدہ قسم کے ہوتے ہیں۔’’
‘‘لیکن آپ  نے تو کہا کہ آپ زندگی کے ہر میدان میں لوگوں کے کام انجام دیتے ہیں۔’’ میں نے کہا
‘‘خانقاہ زندگی کے میدان میں نہیں آتی۔’’ انہوں نے کہا۔
‘‘خانقاہ زندگی کے میدان سے باہر کیسے ہوسکتی ہے....؟’’ میں نے سوال کیا اور والد صاحب نے وہ شعر سنانے کو کہا جسے میں نے خانقاہ میں سن کر یاد کرلیا تھا۔ میں نے وہ شعر خوشی سے پڑھ کر سنایا
‘‘بلبلے خون دلی  خوردو گلے حاصل کرد۔’’
یہ سن کر شیخ عمر نے والد صاحب سے مخاطب ہوکر کہا  ‘‘لوگ اس شعر کو بلا سمجھے پڑھا کرتے ہیں۔’’ انہوں نے  مجھ سے کہا ‘‘کیا میں اس کے کسی لفظ کو سمجھتا ہوں....؟’’
انہوں نے کہا ‘‘یہ لوگ اجنبی ہیں اور ان کی زبان اجنبی ہے لیکن محلے والے ان پر فریفتہ ہیں۔’’
میں نے کہا ‘‘مگر آپ تو ہر کام انجام دینے پر قادر ہیں۔’’
یہ بات سن کر والد صاحب نے ‘‘استغفر اللہ’’ پڑھا اور شیخ عمر نے مجھ سے پوچھا 
‘‘میں خانقاہ کے شیخ کو کیوں دیکھنا چاہتا ہوں....؟’’
میں نے جواب دیا ‘‘صرف اس لیے کہ جو تجربہ بچپن میں مجھے ہوا تھا  اس کو  پھر پرکھوں اور بس۔’’
والد صاحب نے ان کو شیخ اکبر  کومیرے دیکھنے کا واقعہ سنایا تو شیخ فکری ہنسے اور بولے‘‘میں نے بھی شیخ اکبر  کو دیکھنے کی خواہش کی تھی۔’’
‘‘سچ مچ....؟ ’’میں نے سوال کیا۔
انہوں نے کہا ‘‘ایک دن میں نے اپنے دل میں سوچا کہ سارا محلہ شیخ اکبر  کا نام لیتا رہتا ہے، کسی نے بھی ان کو نہیں دیکھا ہے اس لیے شیخ اکبر  کو دیکھنا چاہیے۔ میں خانقاہ گیا اور کسی  ذمہ دار آدمی سے ملنا چاہا۔ خانقاہ کے درویشوں نے مجھے پریشانی، حیرانی اور ناراضی سے دیکھا اور کسی قسم کی مدد کے لیے تیار نہ ہوئے۔ عمر فکری صاحب کو افسوس ہوا کہ خواہ مخواہ ان کو پریشان کیا۔ درویشوں کے رویے سے وہ  جان گئے کہ خانقاہ کے اندر جائز طریقہ سے جانا ممکن نہیں اور ناجائز طریقہ قانون شکنی ہے اور اس لیے قطعی مناسب نہیں ہے۔
‘‘اس لیے آپ اپنی خواہش کی تکمیل سے باز آگئے....؟’’ میں نے سوال کیا۔
انہوں نے جواب دیا ‘‘یہ بات نہیں۔ میں نے محلے کے معمر اور جانے مانے لوگوں سے پوچھا۔ ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ شیخ اکبر  کو  دیکھ چکے ہیں، لیکن ہر ایک نے ان کا حلیہ مختلف بتایا جو ممکن نہیں ہوسکتا۔ اس کا مطلب میرے نزدیک یہ ہوا کہ کسی نے بھی شیخ اکبر  کو نہیں دیکھا ہے۔’’
‘‘لیکن میں نے شیخ اکبر  کو دیکھا ہے۔’’ میں نے پرجوش لہجے میں کہا۔
شیخ عمر نے کہا ‘‘تم لوگ جھوٹ تو نہیں بولتے لیکن اپنے اپنے خیال کے مطابق دیکھتے ہو۔’’
میں نے کہا ‘‘شیخ اکبر  کو دیکھنا محال نہیں۔ کیا وہ گاہ بہ گاہ خانقاہ کے باغ میں گھوم  نہیں سکتے....؟’’
انہوں نے کہا ‘‘لیکن تم کو کیا معلوم کہ جس کو تم نے دیکھا ہے وہ شیخ اکبر  ہی تھے، کوئی دوسرا درویش بھی تو ہوسکتا ہے....؟’’
میں نے کہا ‘‘ٹھیک  ہے۔ اس طرح آپ نے سوچ لیا کہ شیخ اکبر  کو کسی نے دیکھا ہی نہیں اور نہ ہی دیکھے جاسکتے ہیں....؟’’
انہوں نے کہا ‘‘نہیں، ہرگز نہیں۔ میں تو ان کو دیکھنے کا بےحد مشتاق تھا۔ 
‘‘کیا شیخ اکبر  کو دیکھنے کے لیے دوسرے وسیلے نہیں ہوسکتے....؟’’
شیخ فکری نے کہا ‘‘ہاں، عقل نے مجھے جان لیوا خواہش  سے آزاد کیا۔ عقل نے باور کرایا کہ خانقاہ کو ہم دیکھتے ہیں۔ درویشوں کو ہم دیکھتے ہیں لیکن شیخ اکبر  کو ہم کیوں نہیں دیکھتے....؟’’
یہ بات سن کر میرے والد صاحب نے کہا ‘‘اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوسکتا  کہ شیخ اکبر  کا وجود ہی نہیں....؟’’
جواب ملا ‘‘نہیں، بات یہ نہیں۔’’
‘‘بات تو صرف یہی ہے۔’’ میں نے کہا لیکن بلاشک کوئی وسیلہ تو ضرور ہوگا جس سے شیخ اکبر  کے وجود اور ان کی روایت ثابت ہو....؟’’
جواب ملا ‘‘دراصل میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کوئی  وسیلہ خلاف قانون ہے اور میں قانون شکنی کرنا نہیں چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ بولے  شیخ اکبر  کو دیکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے....؟’’
‘‘آخر وہ لوگ خانقاہ کے دروازے بند کیوں رکھتے ہیں....؟ میں نے سوال کیا۔
شیخ فکری نے جواب دیا  ‘‘دراصل خانقاہ آبادی سے دور  بنائی گئی تھی کیونکہ صوفیائے کرام لوگوں سے الگ تھلگ پرسکون ماحول میں رہنا پسند کرتے تھے۔ وقت گزرتا گیا، آبادی بڑھتی گئی اس لیے یہ  خانقاہ آبادیوں میں گھر گئی۔ اب وہ درویش تنہائی کے لیے  خانقاہ کے دروازے بند رکھنے لگے۔’’
یہ بتا کر شیخ فکری نے  مایوس کن مسکراہٹ کے ساتھ کہا 
‘‘میں نے تم کو کئی باتیں بتا دی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ شیخ سے ملنا عام لوگوں کے لیے ممکن نہیں ہے۔ ان سے ملنے کی اجازت نہیں گویا ان سے ملنا ہے تو بغیر اجازت ہی خانقاہ میں داخل ہونا پڑے گا۔
‘‘شیخ اکبر  کی یاد بھلائی نہیں جاسکتی۔  آج تک مجھ میں بغیر اجازت خانقاہ میں چلے جانے کی ہمت نہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بغیر شیخ اکبر  کے خانقاہ کے وجود کو بھی تصور نہیں کرسکتا۔  اب حال یہ ہے کہ میں خانقاہ کو صرف مقبرے کی زیارت کے دنوں ہی میں دیکھتا ہوں۔ جب  میں خانقاہ کو دیکھتا ہوں تو مسکراتا ہوں  اور  شیخ یا جس کو میں نے کبھی شیخ سمجھا تھا کی تصویر کو  یاد کرتا ہوں اور تنگ راستہ سے قبرستان کی طرف گزر جاتا ہوں۔’’

 بھائی پڑوسی، میں تمہیں صاف صاف بتائے دیتا ہوں، بات یہ نہیں کہ مجھے اس کی تعلیمات پر کوئی اعتراض نہیں، قطعاً نہیں، میں نے ایک بار اسے تبلیغ کرتے سنا تھا اور تمہیں کیا بتاؤں، میں خود  اس کے مریدوں میں شامل ہونے سے بال بال بچا۔’’ 


عربی  زبان کے نوبل انعام یافتہ مصری  ادیب

نجیب محفوظ ۔1911ء تا 2006ء



مصری  مصنف اور ناول نگار نجیب محفوظ Naguib Mahfouz  عرب دنیہا کے وہ  پہلے مصنف تھے جن کو ادب کا نوبل پرائز ملا۔ نجیب  11 دسمبر  1911ء   کو  مصر کے شہر قاہرہ  کے ایک نچلے متوسط طبقے میں پیدا ہوئے۔   وہ پانچ بھائیوں اور دو بہنوں کے خاندان میں ساتویں نمبر پر تھے۔
1919 کے انقلابِ مصر نے نجیب محفوظ پر گہرا اثر ڈالا۔ سکنڈری تعلیم مکمل کرنے کے بعد نجیب محفوظ نے موجودہ قاہرہ یونیورسٹی میں فلسفے میں گریجویشن اور 1936 میں پوسٹ گریجویشن مکمل کیا۔
اپنے والد کی طرح نجیب محفوظ نے بھی سرکاری ملازمت اختیار کی۔ اُس کے بعد انھوں نے ایک پیشہ ور مصنف بننے کا ارادہ کرلیا۔بطور جرنلسٹ انہوں  نے الہلال اور الحرم نامی رسالے میں کام کیا۔   نجیب محفوظ نے اپنے 80 سالہ کرئیر میں 5ڈرامے،بےشمار فلمی اسکرپٹ، 350 سے زائد کہانیاں اور 34 ناول لکھے۔ 1988میں انھیں ادب کے نوبل انعام سے سرفراز کیا گیا۔ اُن کی تخلیقات انگریزی، فرانسیسی، روسی، جرمن اور اردو زبان میں تراجم ہو چکی ہیں۔
نجیب محفوظ نے جو کچھ بھی لکھا، اس میں سیاسی اور سماجی امور پر اُن کی گہری نگاہ رہی۔ اُنھوں نے یہ کہا کہ انسان کو کسی ناخدا کی تلاش میں بیٹھے رہنے کے  بجائے اپنی اور دوسرے انسانو ں کی زندگی کو بہتر بنانے کی جہد ہمیشہ کرتے رہنا چاہیے۔ نجیب محفوظ نے اپنی ساری تخلیق میں اس تاریکی اور نا امیدی کو ظاہر کیا، جنھیں اُنھوں نے اپنے معاشرے میں دیکھا اور سماجی برابری کا جو تصور اُن کے ذہن میں تھا وہ یو ٹوپیا ہی رہا۔ انھوں نے وجود کے نظریے پر بات کی ہے۔ نجیب محفوظ 2006ء  میں 94 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔  

زیر نظر کہانی نوبل انعام یافتہ  عظیم ناول نگار نجیب محفوظ کے مجموعہ حکایات حارتنا (محلہ کی کہانیاں) سے لی گئی ہیں ، کہانیوں  کے اس مجموعہ میں مصری سماج کی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کی کچھ جھککیاں محسوس کی جاسکتی ہیں۔  کہانیوں کا یہ مجموعہ انگریزی زبان  میں  Stories from Our Neighborhoodاور Fountain and Tombکے نام سے میں ترجمہ ہوچکا ہے۔ 



اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں