اردو ادب کا ایک شاہکار افسانہ

پیٹی شاپ کیپر

اس کی روح مر چکی تھی اور قالب زندہ تھا،   پھر ایک حادثہ پیش آیا اور روح زندہ ہوگئی  اور قالب....!! ممتاز مفتی کے قلم سے 





دفعتاً عاصم پر وہ لمحہ وارد ہوگیا۔ اس نے دیکھا کہ ارد گرد لاشیں پڑی ہیں۔ حنوط شدہ لاشیں۔ ڈھلکے چہرے، سوجی ہوئی آنکھیں، لٹکے ہوئے ہونٹ چاروں طرف موت کی رینگتی ہوئی جھریاں۔ بےحسی کی چمٹی ہوئی جونکیں اور سدا کی پھٹکار ہی پھٹکار۔
پھر دفعتاً اسے خیال آیا.... میں.... میں بھی تو انہی میں سے ہوں! کیا میں بھی....!
دور، بادل کی گرج سن کر شیخ بلاول چمڑے والے چونکے۔ ان کے لٹکے ہوئے ہونٹوں میں لہر سی پیدا ہوئی۔ حقارت بھری لہر۔ ‘‘آج گرجنے لگا....؟’’ انہوں نے آسمان کی طرف دیکھ کر ناک چڑھائی۔
‘‘روز ہی گرجتا ہے!’’ ارجمند لوہے والے کے چہرے کی شکنیں یوں ابھریں سمٹیں، جیسے لوہے کی سلاخوں بھرا ٹرک الٹ گیا ہو۔
‘‘چمڑے کے اسٹاک پڑے پڑے گل رہے ہیں۔’’ شیخ بلاول نے ہونٹوں کی تھوتھنی بنا کر موسم کا مذاق اڑایا۔
حاجی امان اللہ موسم سے بےنیاز چپ چاپ بیٹھا دانتوں میں خلال کرنے میں مصروف تھا۔ چہرے پر گراں باری اور بےتعلقی کے  ایسے ڈھیر لگے ہوئے تھے جو سیری اور شکم پُری ہی پیدا کرسکتی ہے۔
خیر مرزا کے گالوں پر قرض کی چیونٹیاں رینگ رہی تھیں۔ وہ مال کے نئے کنسائنمنٹ کا حساب لگانے میں کھویا ہوا تھا۔
وہ چاروں عاصم کے ساتھی تھے، دوست تھے، لیکن وہ چاروں کسی کے ساتھی نہ تھے، کسی کے دوست نہ تھے، حتیٰ کہ ہر کوئی خود سے بھی بیگانہ ہو چکا تھا۔ افراط کا اژدھا رشتوں کو نگل چکا تھا۔ اس روز عاصم نے انہیں لنچ پر مدعو کیا تھا اور کھانا کھانے کے بعد وہ آرام کرسیوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ دفعتاً عاصم پر وہ لمحہ وارد ہوگیا۔ دفعتاً جیسے وقت رک گیا۔ ہر سیکنڈ کا دورانیہ منٹ کے برابر ہوگیا۔ گرد و پیش پر سلو موومنٹ طاری ہوگئی۔ چہرے اسٹل.کلوزاپس میں بدل گئے، چاروں ساتھی عاصم کی نگاہ میں ننگے ہوگئے۔
پتہ نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے، لیکن ایسا ہوتا ہے کہ زندگی کے لمحات کی مالا میں دفعتاً جانے، بے وجہ ایک منّور منکا آجاتا ہے۔ اس لمحے میں چیزوں اور شخصیتوں سے مانوسیّت کا پردہ اٹھ جاتا ہے اور چونکا دینے والی حقیقتیں بھیانک شکل میں سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔
عاصم نے دیکھا کہ اس کے گرد لاشیں پڑی تھیں۔ حنوط شدہ لاشیں۔
دفعتاً اسے خیال آیا میں بھی تو ان ہی میں سے ہوں۔ کیا میں بھی ایک لاش ہوں اور وہ باتھ روم کے آئینے کی طرف بھاگا۔
٭٭٭
پندرہ برس پہلے عاصم کا رونٹ کیمیکلز فیکٹری کی مزدور کالونی میں احمد علی کی کریانے کی دوکان پر منشی کی حیثیت سے ملازم تھا۔ اسٹاک منگوانا اور فروخت کا حساب کتاب رکھنا اس کے فرائض میں شامل تھا۔
پہلے چھ ایک مہینے تو وہ بڑے اطمینان سے اپنے کام میں منہمک رہا۔ پھر جیسے جیسے اس پر کاروبار کے بھید کھلتے گئے، ویسے ویسے ایک بےنام سی بےچینی پیدا ہوتی گئی، بڑھتی گئی۔
جب وہ دیکھتا کہ شیخ احمد علی زیاددہ منافع کمانے کی ہوس میں ضروری اشیاء کا توڑا پیدا کردیتا ہے اور کالونی کے مزدور ضروریات کے حصول کے لیے کس.قدر مضطرب ہوتے ہیں، تو اس کے دل میں غصہ ابھرتا۔ جی چاہتا کہ مزدوروں کے سامنے شیخ احمد علی کا بھانڈا پھوڑ دے، پھر بآواز بلند اسے گالیاں دے اور مور اوور قسم کی گالیاں ار حساب کتاب کی کتابیں شیخ کے منہ پر مار کر دوکان سے باہر نکل جائے۔ اسے مزدوروں سے دلی ہمدردی تھی۔
ایک طرف فیکٹری کے مالک انہیں بےوقوت بنانے میں مصروف تھے۔ دوسری طرف فیکٹری کے اہل کار ان پر رعب جمانے کی لذّت میں مدہوش تھے۔ تیسری طرف ان کے اپنے لیڈر ذاتی مفاد کے لیے انہیں استعمال کر رہے تھے اور چوتھے، کالونی کے دوکاندار خود پیدا کردہ مہنگائی سے لوٹ رہے تھے۔
کئی مرتبہ اسے خیال آتا کہ فیکٹری کے رابطہ افسر سے مل کر شیخ احمد علی کی ذخیرہ اندوزی کی شکایت کرے۔ اس نیت سے وہ دو ایک مرتبہ ناظم کے پاس گیا بھی، لیکن بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی، اس لیے لوٹ آیا۔
ایک مرتبہ ایسا  ہوا کہ ناظم نے اسے پکڑ لیا۔ کہنے لگا ‘‘بولو کیا کہنا چاہتے ہو....؟’’
اس پر عاصم کے اوسان خطا ہوگئے۔ شکایت کرنے کی ہمت نہ پڑی،لیکن اتفاق سے ایک بات سوجھ گئی۔ بولا ‘‘جناب! میں شیخ احمد علی کریانہ فروش کی دوکان پر منشی ہوں۔ اگر آپ کالونی میں مجھے ایک دوکان الاٹ کردیں تو میں اس بات کا ذمہ لیتا ہوں کہ مزدوروں کو بازار سے سستی چیزیں فراہم کروں.گا۔’’
ناظم ہنس کر بولا ‘‘تم بازار سے چیزیں خریدوگے، کالونی میں لاکر بازار سے سستی کیسے بیچوگے....؟’’
‘‘جناب یہ ہوسکتا ہے!’’ عاصم نے کہا۔
‘‘تم اس کی گارنٹی دوگے....؟’’
‘‘جناب مجھے تین مہینے کے لیے دوکان دے دیجیے، اس دوران میں اگر بھاؤ کے متعلق ایک بھی شکایت ہو تو الاٹ منٹ منسوخ کردیجیے!’’
اس روز ناظم اچھے موڈ میں تھا۔ سوچا چلو آزما دیکھو، اس میں کیا ہرج ہے، چنانچہ یوں عاصم کو کالونی میں ایک دوکان مل گئی اور ناظم نے اعلان کردیا کہ اگر دوکان سے چیزیں بازار کی نسبت سستی نہ ملیں، تو ہم سے شکایت کی جائے۔
عاصم نے کہنے کو تو بات کہہ دی، لیکن تفصیلات پر کبھی نہ سوچا تھا۔ اب دفعتاً اس پر ایک ذمہ داری آپڑی، تو بیچارہ سوچ سوچ کر پاگل ہوگیا کہ کون کون سی چیز اسٹور کے لیے منگوائے، کہاں سے منگوائے جو وہ بازار سے کم قیمت پر فروخت کرسکے۔
عاصم کے دوست ریاض نے اس کی ہمت بندھائی، بولا‘‘مرا کیوں جاتا ہے تو! میں تیرا بازو بنوں گا۔ اللہ کا نام لے کر کام تو شروع کر! نیک نیتی سے کام کیا جائے، تو اللہ خود اسے پیدا کردیتا ہے۔’’
پھر وہ دونوں کام پر جُت گئے۔ سب سے پہلے انہوں نے گھی فیکٹری سے براہ راست بناسپتی گھی کے ڈبے منگوائے اور انہیں ایکس فیکٹری پرائس پر بیچ.دیا۔
دیکتےہی دیکھتے سینکڑوں ڈبے بک گئے۔ یہ ڈبے فیکٹری سے بڑے بڑے لکڑی کے بکسوں میں بند ہو کر آتے تھے۔ انہوں نے بکس بیچ دیے۔ یہی ان کا منافع تھا۔ پھر انہوں نے اعلان کردیا کہ جو شخص اسٹور سے گھی کا ڈبا خریدے اس پر لازم ہوگا کہ ڈبا خالی ہونے پر اسٹور میں واپس دے جائے۔ یوں اسٹور میں خالی ڈبے جمع ہونے شروع ہوگئے جو وہ گھی فیکٹری کے ہاتھ بیچ دیتے۔
گھی کے ڈبوں کی سیل چل نکلی، تو انہوں نے چائے کے ڈبے منگوانے شروع کردیے اور چند ہی دنوں میں گھی کے ڈبوں اور چائے کے پیکٹوں کی مانگ اس حد تک بڑھ گئی کہ گرد و نواح کی کالونیوں سے خریدار آنے لگے، اس پر گھی اور چائے کی فیکٹریوں نے انہیں خصوصی کمیشن دینا شروع کردیا۔ ساتھ ہی عاصم کے کہنے پر انہوں نے اسٹور پر بڑے بڑے بورڈ آویزاں کردئے اور ان بورڈوں کا ماہوار کرایہ دینے لگے۔ یوں باقاعدہ آمدنی کی صورت پیدا ہوئی اور ایکس فیکٹری پرائس پر فروخت کرنے کی رسم پکی.ہوگئی۔
اسٹور چل نکلا۔ پھر بھی عاصم ہر وقت سوچتا رہتا کہ کون سی نئی چیز ہے جسے وہ کم قیمت پر بیچ سکتا ہے! کچھ دنوں بعد انہوں نے تمام مسالہ جات خریدے اور انہیں ہتھ چکی میں پسواکر اسٹور میں رکھ لیا۔ پھر دیہات سے مرغی اور انڈوں کا انتظام کیا۔ جنگل سے خالص شہد منگوا کر بوتلوں میں  بھرلیا۔ یوں آہستہ آہستہ ان کا اسٹور مختلف چیزوں سے بھرتا گیا اور صرف تین مہینے میں انہیں اتنی کامیابی ہوئی کہ ناظم نے دوکان کی الاٹمنٹ کو پکا کردیا اور ساتھ ہی عاصم کو ایک رہائشی کوارٹر بھی دے دیا جہاں وہ اپنی بیوی عائشہ اور تینوں بچوں جاوید، نوید اور ارشی کو کالونی میں لے آیا۔
ان دنوں عاصم اور ریاض بےحد خوش تھے، اس لیےنہیں کہ کاروبار چل نکلا، بلکہ اس لیے کہ وہ مزدوروں کو سستی چیزیں فراہم کر رہے تھے۔
مزدور کالونی کا یہ اسٹور اس قدر کامیاب ہوا کہ جلد ہی انہیں نیو کالونی میں یک برانچ کھولنی پڑی۔ عاصم نے نیو کالونی کا یہ اسٹور ریاض کی تحویل میں دے.دیا۔
پھر ایک ناخوشگوار واقعہ عمل میں آیا۔ نیو کالونی کے اسٹور کے متعلق شکایات موصول ہونے لگیں۔ صارفین نے الزام لگایا کہ مرچوں کے پیکٹوں میں ملاوٹ ہو رہی ہے۔ اس پر ناظم نے باقاعدہ تحقیق کی۔ ملاوٹ ثابت ہوگئی اور عاصم نے مجبوراً ریاض کو برطرف کرکے اسٹور اپنے چارج میں لے لیا۔ یوں دونوں دوستوں کا ساتھ چھوٹ گیا۔
بہرحال جلد ہی فیکٹری ایریا میں عاصم اسٹورز کی تعداد دو سے چار تک جا پہنچی اور عاصم کی ساکھ بندھ.گئی۔
٭٭٭
اب عاصم چین اسٹورز کی تعداد تیس تک پہنچ چکی تھی جن میں دو ڈھائی سو آدمی کام کر رہے تھے۔ عاصم کے دونوں بیٹے جوان ہوچکے تھے اور بی اے کرنے کے بعد اسٹور کو جدید اصولوں کے مطابق چلا رہے تھے۔ بڑا بیٹا سجاد جنرل مینجر تھا۔ چھوٹا نوید سیلز مینجر۔ ہر روز عاصم کو ایک ڈیلی سمری اسٹیٹمنٹ پیش کردی جاتی  جس میں روز کی سپلائی اور سیل کے گوشوارے درج ہوتے۔ عاصم ان گوشواروں کا مطالعہ کرتا اور مناسب احکام جاری کردیتا۔ اس کے علاوہ کبھی کبھار وہ کسی اسٹور کا معائنہ کرنے چلا جاتا اور اپنی تخلیق کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتا۔
لیکن اس روز اس ظالم لمحے نے گویا اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ وہ اپنے روبرو ننگا ہوگیا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ ایک بزنس مین ہے، ایک عام بزنس مین جس کا عوام سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے، جسے زندگی سے کوئی لگاؤ نہیں، انسانیت سے کوئی واسطہ نہیں، جو صرف پیسہ کمانے کے لیے جیتا ہے۔ پیسہ ، اور پیسہ، اور پیسہ!
اس سے پہلے عاصم نے ایک خوش فہمی پال رکھی تھی کہ وہ وہی پرانا عاصم ہے جس کا مقصد حیات پیسہ کمانا نہیں، بلکہ عوام کو سستے داموں ضروریات زندگی فراہم کرنا ہے۔ اس لمحے اس کی خوشی پاش.پاش.ہوگئی۔
اس رات جب وہ اپنے بیڈروم میں داخل ہوا، تو اس نے دیکھا کہ کمرے میں پلنگ پر ایک اور لاش پڑی ہے۔ ریشم میں لپٹی ہوئی گوشت کی گٹھڑی، آنکھیں پھولی ہوئی، گال  لٹکے ہوئے، ٹھوڑی جیسے گوشت کی تھل تھل کرتی، دلدل ہو۔
عاصم کی بیوی عائشہ عرصہ دراز سے اس گھر میں اپنی حیثیت کھو چکی تھی۔ باورچی خانے میں نوکروں کا راج تھا۔ گھر کا انتظام بچوں نے اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اگر کبھی عائشہ دخل دیتی تو جاوید، نوید اور ارشی تینوں ہنس کر ٹال دیتے، ‘‘ممی! آپ نہیں سمجھتیں۔’’ یہ جملہ سن سن کر وہ سمجھنے لگی تھی کہ وہ واقعی نہیں.سمجھتی۔
اس روز عاصم کو پہلی مرتبہ شدّت سے محسوس ہوا کہ وہ دونوں حنوط شدہ لاشیں ہیں جو افراط کے کوڑے کے ڈھیر پر یوں پڑی ہیں جیسے پلاسٹک کے ٹوٹے ہوئے کھلونے جنہیں زمانے نے کھیل کر پھینک دیا ہو۔
اس روز عاصم کے دل میں آرزو نے کروٹ لی کہ وہ پھر سے جی اٹھے اور اس رات جب ناظم نے ڈیلی سمری اسٹیٹمنٹ پیش کی، تو عاصم نے دیکھا کہ اسٹورز میں لگژری گڈز کی تعداد اور بڑھتی جا رہی ہے، عوامی آئٹم کم ہوتے جارہے ہیں اور اسٹورز کا ماٹو بدل کر دی ایلیت اسٹور رکھ دیا گیا ہے۔ یہ آخری تنکا تھا۔ عاصم تلملا اٹھا۔
‘‘یہ کیا ہے....؟’’ وہ غصے میں گرجا۔
‘‘جناب اسٹور کی پالیسی بدل دی گئی ہے۔’’ ناظم نے جواب دیا۔
‘‘کیوں....؟’’ وہ غرّایا۔
‘‘جاوید صاحب کا حکم ہے جناب!’’
پھر جاوید اس کے روبرو کھڑا اسے سمجھا رہا تھا ‘‘ڈیڈی! آپ کو بزنس کے جدید اصولوں کا پتہ نہیں۔ آج کے بزنس میں فیر پرائس کا کوئی کنپشن نہیں۔ ہمیں یہ نہیں دیکھنا کہ چیز کی کیا قیمت ہونی چاہیے، بلکہ یہ کہ ہم چیز کو کس قیمت پر فروخت کرسکتےہیں۔ ڈیڈی قیمت خرید کو قیمت فروخت سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر دور و پے کی چیز کو ہم دس روپے پر فروخت کرسکتےہیں، تو کیوں نہ کریں! بہت سی چیزیں ایسی ہیں۔ ڈیڈی جو صرف اس لیے بکتی ہیں کہ ان کی قیمت زیادہ ہے۔ مہنگی چیز اسٹیٹس سمبل ہوتی ہے۔ ڈیڈی آج کی خریداری ضروریات زندگی پر مبنی نہیں، بلکہ اسٹیٹس ریکوائرمنٹس پر مبنی ہے۔ اگر ہمارے اسٹورز کو ترقی کرنی ہے، تو ہمیں یوٹیلیٹی اسٹور نہیں بلکہ اسٹیٹس اسٹور بنانا پڑے گا۔ آپ سمجھتے کیوں نہیں!’’
عین اس وقت ڈرائیور داخل ہوا اور بولا ‘‘بڑے صاحب! ایئرپورٹ جانے کا  ٹیم ہوگیا ہے۔’’ معاً اسے یاد آیا کہ اسے تو عائشہ کے ساتھ کراچی جانا ہے جہاں ایک عزیز کی شادی ہے۔
ایئر پورٹ پر عاصم بکنگ سے فارغ ہو کر عائشہ کے پاس آیا، تو اس نے دیکھا کہ وہ ایئر سروس  وردی میں ملبوس ایک اجنبی سے باتیں کرنے میں مصروف ہے۔ اجنبی اسے دیکھ کر آگے بڑھا اور لپٹ گیا۔ وہ اس کا پرانا ساتھی ریاض تھا۔
لاؤنج میں وہ تینوں ایک طرف بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ بیتے ہوئے زمانے کی باتیں اور وہ بیتی ہوئی باتوں کو از سر نو تازہ کرنے میں اس قدر مصروف ہوگئے کہ جہاز اڑ بھی گیا اور انہیں خبر ہی نہ.ہوئی۔
پھر ریاض نے ضد کی کہ وہ رات اس کے گھر بسر کریں۔ ریاض کا کوارٹر چھوٹا سا تھا، لیکن وہ زندگی کی جدوجہد اور جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے سوچا شاید جدوجہد ہی زندگی ہے جسے افراط چاٹ کر لاش میں بدل دیتی ہے۔
ریاض کے کوارٹر میں بسر کی ہوئی رات عاصم اور عائشہ دونوں کے لیے زندگی بخش بن گئی۔ عائشہ بھی امارت کی بےحسی کے خول سے باہر نکل آئی اور چہک چہک کر باتیں کرنے لگی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس میں سوجھ بوجھ پیدا ہوگئی، وہ باتیں سمجھنے لگی.ہے۔
اگلے روز جب وہ بیدار ہوئے تو سرہانے رکھے ہوئے اخبار کو دیکھ کر عائشہ چونکی، بولی دیکھیں تو اخبار میں آپ کی تصویر چھپی ہوئی ہے۔، عاصم نے اخبار اٹھالیا۔
شہ سرخی میں لکھا تھا ایئر سروس کا جہاز جل کر فنا ہوگیا۔ مسافروں اور عملے میں سے کوئی نہیں بچا۔ ذیلی سرخی میں لکھا تھا۔ اس جہاز میں عاصم چین اسٹورز کے مالک اور ان کی بیگم بھی سوار تھے۔
عین اس وقت ریاض  داخل ہوا۔ ‘‘تم نے خبر.سنی....؟’’
عاصم نے ریاض  کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ریاض بہت تلملایا۔ بولا ‘‘جلدی چلو تمہارے بیٹے تمہارا سوگ منا رہے ہوں گے۔’’
‘‘آرام سے بیٹھ جاؤ!’’ عاصم نے کہا ‘‘جو ہونا تھا.ہوگیا۔’’
لیکن ریاض بولا ‘‘وہ سمجھیں گے کہ عاصم مرگیا.ہے۔’’
‘‘انہیں سمجھنے دو!’’ عاصم نے کہا، پھر وہ آہ بھر کر بولا۔‘‘ریاض! عاصم تو دیر کا مر چکا۔ صرف ایک ڈھانچہ باقی تھا۔ ایک لاش اسے دفن ہوجانے دو.... ورنہ مجھے کبھی دوبارہ زندگی نصیب نہ ہوگی۔’’
٭٭٭
ایک سال کے بعد جاوید اپنے دفتر میں بیٹھا سمری اسٹیٹمنٹ دیکھ رہا تھا۔ وہ چونک اٹھا ‘‘ناظم صاحب! ہمارے انڈسٹریل ایریا والے چاروں اسٹورز جام ہوئے جارہےہیں!’’
‘‘ہاں۔’’ ناظم نے اثبات میں سر ہلایا۔
‘‘اگر یہی صورت رہی، تو ہمیں ان کو بند کرنا پڑے گا۔’’
‘‘جناب انڈسٹریل ایریا میں ایک نیا اسٹور قائم ہوا ہے۔ فیئر پرائس اسٹور، وہ روزبروز بزنس سمیٹتا جارہا ہے۔’’
کس کا اسٹور ہے وہ....؟ جاوید نے پوچھا۔
‘‘پتہ نہیں جناب۔ کوئی ریاض اینڈ برادرز ہیں۔’’
‘‘اسے خرید کیوں نہ لیں....؟’’ جاوید بولا۔
‘‘وہ نہیں بیچیں گے جناب!’’
‘‘کیوں....؟’’
‘‘وہ پیٹی شاپ کیپر  ہیں تاجر نہیں۔’’
‘‘چلو! جاوید بولا ‘‘ایک نظر، اسٹور کو دیکھ.لیں۔’’
‘‘کچھ دیر کے بعد جاوید اور ناظم دونوں گاڑی سے اتر کر اسٹور میں داخل ہوئے۔ کاؤنٹر پر ایک بڈھا کھڑا پیکٹوں میں چائے کی پتی بھر رہا تھا۔ قریب ہی ایک ادھیڑ عمر کا آدمی گھی کے خالی ڈبوں کے چب نکال رہا تھا۔
جاوید کو دیکھ کر بُڈھے نے منہ موڑ لیا۔ جاوید پرائس لسٹ کا مطالعہ کرنے لگا۔ دفعتاً اس نے کہا ‘‘تم ان قیمتوں پر چیزیں کیسے بیچتے ہو....؟’’ تمہیں تو بزنس کے اصولوں کا بھی پتہ نہیں!’’
‘‘ہم بزنس نہیں کر رہے۔’’ ریاض بولا ‘‘جناب ہم صرف سستی چیزیں بیچ رہے ہیں۔’’
‘‘یہ تو سراسر حماقت ہے!’’ جاوید نے کہا۔
‘‘معاف کیجیے۔’’ ریاض بولا ‘‘آپ کے والد صاحب نے بھی، تو انہی اصولوں پر کاروبار شروع کیا.تھا۔’’
جاوید چونکا۔ پھر بولا 
‘‘والد صاحب بزنس مین نہیں تھے....وہ تو پیٹی شاپ کیپر تھے۔’’







اردو ادب کے  ممتاز ادیب،  اور افسانہ نگار 

ممتاز مفتی ۔1905ء تا  1995ء 



ممتاز مفتی کا اصل نام مفتی ممتاز حسین تھا۔ ممتاز مفتی 11 ستمبر 1905ء بمقام بٹالہ (ضلع گورداسپور) بھارتی پنجاب میں مفتی محمد حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امرتسر ، میانوالی، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں پائی۔ میٹر ک ڈیرہ غازی خان سے اور ایف اے امرتسر سے اور بی اے اسلامیہ کالج لاہور سے کیا۔ 
بی اے کے بعد سنٹرل ٹیچرز ٹریننگ کالج سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم پنجاب کے سینئر انگلش ٹیچر کے طور تعیناتی ہوئی۔ وہیں  لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔  کچھ عرصے بطور اسکرپٹ رائٹر آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ منسلک ہوئے۔  قیام پاکستان کے بعد لاہور آئے اور  پھر راولپنڈی میں بطور  ڈائریکٹر وزارتِ اطلاعات    اپنی خدمات انجام دیں۔   ان کا پہلا افسانہ ‘‘جھکی جھکی آنکھیں’’ ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوا اور اس طرح وہ مفتی ممتاز حسین سے ممتاز مفتی بن گئے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں ان کہی، گہماگہمی، چپ، گڑیاگھر، روغنی پتلے، اور سمے کا بندھن شامل ہیں۔ علی پور کا ایلی اور الکھ نگری سوانحی ناول میں شمار ہو تے ہیں۔ جبکہ ہند یاترا،  لبیک جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے اور خاکہ نگاری میں اوکھے لوگ، پیاز کے چھلکے اور تلاش جیسی کتابوں کے خالق ہیں۔ممتاز مفتی کی تحریریں زیادہ تر معاشرے میں موجود کئی پہلوؤں اور برائیوں کو اجاگر کرتی نظر آتی ہیں۔ آپ 27 اکتوبر 1995ء کو 91 برس کی عمر میں اسلام آباد میں وفات پا گئے۔

اس بلاگ پر مصنف کی تحریریں